صبح زوریز اٹھ کر روم میں آیا تو انابیہ اپنے نکاح والے ڈریس میں ہی بغیر بلینکٹ کے سو رہی تھی وہ بیڈ کے قریب آیا اور اسے بلینکٹ اوڑھایا وہ کسمسائ اور پھر سوگئ زوریز اس کے چہرے پر ایک نگاہ ڈالے روم سے باہر آیا جہاں سب ناشتے کے ٹیبل پر بیٹھے تھے
صبح بخیر! اسنے کرسی پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"بیٹا بہو ناشتے میں کیا کھانا پسند کرتی ہے" ناردہ آفندی نے پوچھا
"پتا نہیں ماں خود ہی بتا دے گی" اسنے کہا
تھوڑی دیر بعد ہی انابیہ بھی ہال میں آگئی اسنے پینک کلر کی ٹراؤزر شرٹ پہنا ہوا تھا اور ڈوپٹہ سر پر اوڑھا ہوا تھا
اسلام علیکم! اسنے آتے ہی سب کو سلام کیا زوریز نے اسے دیکھا جس کا چہرہ گلاب کی طرح کھلا ہوا تھا
وعلیکم اسلام! نظام آفندی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"بیٹا تم زوریز کے ساتھ بیٹھو" نادرہ آفندی نے اسے کہا اسنے زوریز کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا پھر زوریز نے اسے سر کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔
وہ بیٹھ گئ ڈوپٹہ بار بار اس کے سر سے پھسل رہا تھا اور وہ اسے بار بار اوڑھنے میں ہلکان ہورہی تھی۔ زوریز اسے دیکھ کر مسکرادیا
"بیٹا پراٹھا لو تم" نادرہ آفندی نے اس کی پلیٹ میں پراٹھا رکھتے ہوئے کہا۔ اسنے مدد طلب نظروں سے زوریز کو دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکرادیا اور پلیٹ پر جھک گیا
جی آنٹی! اسنے تابعداری سے کہا
آج ولیمے کی تقریب میں میں نے میڈیا کو بھی انوایٹ کیا ہے تاکہ وہ جان جاۓ کے انابیہ اب ہماری بہو ہے " نظام آفندی نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
"ٹھیک ہے بابا" زوریز نے کہا
وہ کمرے میں آکر روہانسی ہوئ بیٹھی تھی زوریز اندر آیا تو اسنے شکوہ کیا۔
"میں نے آپ سے ناشتے کی ٹیبل پر مدد کو کہا آپ نے اگنور کردیا اور مسکرا رہے تھے"
کب؟ تم نے کب کہا؟ وہ انجان بنا
"زبان سے نہیں کہا پر آنکھوں سے تو التجا کی تھی" اسنے اپنی حمایت کی
"اچھا وہ تم مجھ سے مدد مانگ رہی تھی میں سمجھا غصے سے دیکھ رہی ہو" وہ ہنس دیا
"آپ کو ہنسی آرہی ہے اور میرے سٹمک میں پین ہورہا ہے مجھ سے اتنا ہیوی ناشتہ نہیں کیا جاتا" وہ روہانسی ہوئ
وہ پریشانی سے اس کے پاس بیٹھ گیا
"کیا زیادہ تکلیف ہورہی ہے ڈاکٹر کے پاس چلیں" اسنے تشویش سے پوچھا اور انابیہ اسکا پریشان چہرہ دیکھتی رہ گئ۔
"انابیہ ڈاکٹر کے پاس چلیں" اسنے پھر پوچھا
نہیں نہیں بس مجھے پین کلر لا دیں پھر خود ہی ٹھیک ہو جائے گا" اسنے انکار کیا
آر یو شیور؟ اسنے پوچھا
جی! وہ بولی۔
انابیہ کو یہی خوشی ہورہی تھی کہ وہ اس کی پرواہ کررہا تھا۔
اوکے میں پین کلر لاتا ہوں تم ریسٹ کرو" اسنے جاتے ہوئے کہا اور وہ اسے دیکھ کر مسکرادی۔
ولیمے کے اگلے دن وہ دونوں یونیورسٹی کے لیے ریڈی ہوئے زوریز گاڑی میں اس کا ویٹ کررہا تھا جب وہ اسے آتی ہوئ دیکھائ دی۔ سفید شلوار سوٹ میں سر پر ڈوپٹہ اوڑھے وہ بہت پاکیزہ لگ رہی تھی پھر وہ فرنٹ ڈور کھول کر سیٹ پر آ بیٹھی زوریز کو اپنی طرف دیکھتا پا کر اسنے کہا
چلیں؟
ہمم ہاں! اسنے نظریں ہٹایں اور گاڑی اسٹارٹ کی۔
سارا راستہ وہ اسے کن اکھیوں اے دیکھتا رہا اس کے نازک مرمریں ہاتھوں پر مہندی لگی ہوئی تھی زوریز کی نظریں اس کے چہرے سے پھسل کر اس کے ہاتھوں پر گئ
"کیا کسی کے ہاتھ اتنے خوبصورت ہوسکتے ہیں" اسنے سوچا
"زوریز ایسے کیوں دیکھ رہا ہے اسے " پھر اسنے خود کو ڈانٹا۔ اور ڈرایونگ پر فوکس کیا________جس وقت وہ یونیورسٹی پہنچے اور گاڑی سے ساتھ نکلے چونکہ سب کو ان کہ شادی کی خبر ہوگئ تھی تو بہت سے لوگوں کی نظریں ان پر جم گئیں بلاشبہ وہ پرفیکٹ کپل تھا۔ کچھ لوگ انہیں ستائش بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے اور کچھ لوگ حسد بھری نظروں سے۔ جیسے ہی وہ کینٹن میں آۓ سامنے ہی حنا احد اور ایان بیٹھے تھے
"اوو آیئے آیئے دلہا دلہن" احد نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے چھیڑا وہ دونوں مسکرادیے
"آپ کو زرا بھی تمیز ہے" حنا نے احد کو ٹوکا۔
"اب مجھ سے کیا خطا ہوگئ حنا جی" احد نے معصومیت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا
"یہ دولہا دلہن کہنے کی کیا ضرورت ہے" اسنے کہا
"آپ ہی بتائں کہ شادی شدہ لوگوں کو کیا کہتے ہیں" اسنے ٹیبل پر کہنی رک کر ہاتھ اپنے گال پر رکھ کر اسے دیکھا اور پوچھا
"نیو لی ویڈ کپل" اسنے اپنی طرف سے جیسے کوئی نئی انفارمیشن دی۔
"ہاہاہاہاہا" ایان اور احد نے زوردار قہقہہ لگایا زوریز اور انابیہ بھی ہنس دیے اور وہ منہ پھلا کر بیٹھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حنا نے ان دونوں کو اپنے گھر انوائٹ کیا تھا
انابیہ اگر تم ریڈی ہو تو گاڑی نکالوں؟ زوریز اپنے شرٹ کے بازو کے بٹن بند کرتے ہوئے اس سے پوچھتے
ہوئےاسٹڈی سے روم میں داخل ہوا اور اسے دیکھا جو بلیک ساڑھی پہنے ہوئے تھی بالوں کا جوڑا بناۓ جس کی کچھ لٹیں چہرے پر آئ ہوئ تھی وہ اسے دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔
جی بس یہ ایرینگ پہن لوں! انابیہ نے ایرینگ کان میں ڈالتے ہوئے کہا
وہ چلتے ہوئے اس کے قریب جاکر کھڑا ہوا اور اچانک اس کے بالوں کی جوڑا پنز کھول دی انابیہ کے ریشمی بال اس کی پشت پر بکھر گۓ انابیہ نے حیرانی سے اسے دیکھا
"میں باہر ویٹ کررہا ہو تم آجاؤ" زوریز نے نظریں چراتے ہوئے کہا
یہ کیا حرکت کی ہے زوریز کیا ہوگیا تھا تجھے وہ کیا سوچ رہی ہوگی؟ اسنے خود کو ڈپٹا۔ جس وقت وہ گاڑی میں بیٹھی زوریز نے دیکھا اسنے بال نہیں باندھے تھے یہ دیکھ کر وہ مسکرادیا۔
گاڑی سسگنل پر رکی تو ایک گجرے بیچنے والا بچہ ان کی گاڑی کے پاس آیا۔
"صاحب بیگم کے لیے گجرے لے لو نا" اسنے زوریز کی منت کی زوریز اور انابیہ نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر زوریز نے اس کے پاس جتنے گجرے کے کنگن تھے سب لے لیے انابیہ حیرانی سے اسے دیکھتی رہی اور وہ بچہ خوش ہوکر چلا گیا۔ زوریز نے دو کنگن نکال کر باقی پچھلی سیٹ پر رکھ دیے
پہن لو! زوریز نے کنگن اسی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
انابیہ نے حیرانی سے اسے دیکھا اور کنگن پہن لیے جو اس کی ہاتھ کی خوبصورتی کو اوربڑھا رہےتھے۔ ڈنر پر حنا کہ فیملی بھی موجود تھی۔ حنا نے اس کی تعریف کی تو وہ جھینپ گئ
اسنے دونوں کو گفٹس دیے واپسی پر وہ لیٹ گھر آۓ زوریز اسٹڈی میں جاتے جاتے مڑا۔
انابیہ! اسنے پکارا
جی! وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
آئندہ ساڑھی مت پہننا" میرا دل اور نظریں بے قابو ہوجاتے ہیں " آخری لائن زوریز نے دل میں کہی اور اسٹڈی میں چلا گیا۔ اور انابیہ ہکی بکی کھڑی رہی
"ایک تو نہ میری طرف دیکھتے ہیں اور نہ تعریف کرتے ہیں اوپر سے حکم صادر کر دیا ساڑھی نہ پہننا" اسنے خفگی سے سوچا۔
"یہ مجھے کیا ہورہا ہے میں کیوں اس کی طرف کھینچا چلا جاتا ہوں" وہ اسٹڈی میں بیٹھا سوچ رہا تھا۔
"شاید نکاح کے دو بول میں ہی ایسا اثر ہے کہ دل ایک دوسرے کی طرف مائل ہوجاتا ہے" وہ مسکرادیا۔
تو زوریز آفندی تم بھی محبت کرنے والوں کی صف میں شامل ہو ہی گۓ۔ بڑی باتیں کرتے تھے کہ عورت کبھی بھی میرے لیے پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتی
آج ایک عورت کے سامنے بے بس ہورہے ہو اس کے سامنے ہار رہے ہوں " اسنے مسکرا کر سوچا
جب محبت ہو ہی گئ ہے تو ہار کیسی؟ جیت کیسی؟ اسنے خود کلامی کی۔
اور چت لیٹ گیا ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر رقصاں تھی
جاری ھے