Saturday, 09 May 2020 10:26 pm
دروازہ اندر سے لاک نہیں تھا اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا اندر کا منظر دیکھ کر اسکا خون کھول گیا۔
وکی انابیہ کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے خود سے قریب کرنے کی کوشش کررہا تھا اور وہ اسے دونوں ہاتھوں سے خود سے پرے کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
کھٹکے کی آواز پر دونوں چونکے اس سے پہلے کہ وکی سنبھلتا زوریز نے ایک زودار مکا اس کے منہ پر دے مارا۔
اور وہ کراہ کر منہ پر ہاتھ رکھے زمین پر گرگیا_
انابیہ زوریز کو دیکھ رہی تھی
"تمہاری ہمت کیسے ہوئ کسی لڑکی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی" اب وہ وکی کو گریبان سے پکڑ کر اٹھا رہا تھا اور پھر سے اسنے وکی کو مکا مارا۔
وکی خود کو اس سے چھڑاتا باہر کی طرف بھاگا۔
پھر وہ مڑا
چٹاخ! ایک زمانے دار تھپڑ انابیہ کو مارا
وہ اس کے لیے تیار نہ تھی لڑکھڑا کر صوفے پر گرگر پڑی_
"بچی ہو سمجھ نہیں آتی کہ جب ایک نامحرم مرد اور ایک نا محرم عورت دونوں کمرے میں اکیلے ہوں تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے" اسنے انابیہ کو بازوں سے دبوچتے ہوئے کھڑا کرتے ہوئے غرایا۔
اور وہ گال پر ہاتھ رکھے اسے دیکھ رہی تھی۔
وہ بلکل سن کھڑی تھی اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا ہوا اور وہ اپنے دفاع میں کچھ بول ہی نہ پائ۔
زوریز نے اپنی جیکیٹ اتار کر اس کے کندھے پر ڈالی جس سے اس کے برہنہ بازو چھپ گۓ_
"اب چلو یہاں سے" وہ اسے ڈانٹتے ہوئے آگے بڑھ گیا اور انابیہ کسی کٹھ پتلی کی طرح اس کے پیچھے چل پڑی_
جب وہ پارکنگ ایریا میں آۓ تو زوریز نے اس کے لیے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا اور وہ چپ چاپ بیٹھ گئ_
گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے اسنے انابیہ کو دیکھا جس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ سامنے دیکھ رہی تھی زوریز کو اپنے سخت رویے کا احساس ہوا_
"ایم سوری" زوریز نے شرمندگی سے کہا۔
انابیہ کے رونے میں شدت آگئ وہ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی زوریز اس کے اس طرح رونے سے پریشان ہوگیا اور گاڑی سائڈ پر روک دی_
"انابیہ" اسنے پکارا
"پلیز خاموش ہو جاؤ" اس کو سنبھالنے کے لیے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے وہ جھجھک رہا تھا
"ادھر دیکھو میری طرف" زوریز نے اسے کے چہرے سے ہاتھ ہٹاۓ اسنے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔
"اگر میں وہاں نہ آتا تو؟ اسنے سوال کیا
تمہارے ساتھ وہ کچھ بھی کرسکتا تھا اور اس وقت جو سچویشن تھی اس وقت میرا ری ایکشن فطری تھا مانتا ہوں مجھے تم پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہۓ تھا پر میں تم سے ایسی بیوقوفی کی توقع نہیں کرسکتا تھا" اسنے وضاحت دی۔
انابیہ کی نظریں اس کے چہرے پر تھیں۔
"جو ہوا بھول جاؤ چلو میں تمہیں آئس کریم کھلاتا ہوں" اسنے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کے دایں گال کا ڈمپل واضح ہوا انابیہ کو اپنا دل اسکے گال کے بھنور میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا وہ خود اپنی کیفیت پر حیران تھی اسنے فوراً نظریں جھکالیں_
"ویسے ہر وقت جنگلی بلی بنی رہتی ہو آج کیا ہوگیا تھا" گاڑی اسٹارٹ کرتے اسنے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھا
"روم سے کچھ اٹھا کر اسے دے مارتی" اس کی بات پر انابیہ بھی مسکرادی۔
پھر دونوں نے گاڑی میں آئس کریم کھائ زوریز چونک گیا جب اسنے بھی اپنا پسند یدہ فیلور مینگو بتایا جو کہ زوریز کا بھی فیورٹ تھا
"تم لڑکیوں کو تو چاکلیٹ فلیور پسند ہوتا ہے تمہیں نہیں ہے کیا؟ اسنے حیرانی سے پوچھا۔
" آپ کو بہت پتا ہے لڑکیوں کی چوائس کا" اسنے شرارتی لہجے میں کہا
"ہاہا! زوریزنے قہقہہ لگایا"وہ اس لیے کہ میری بہن اور کزنز کو پسند ہے اور ان کے تمام فرمائشی پروگرام پورے کرنا میری ذمہ داری ہے" اسنے سمجھاتے ہوئے کہا۔
"مجھے چاکلیٹ پسند نہیں ہے" اسنے بتایا۔
"ھمم! اسنے کہا
پھر اسنے گاڑی اس کے گھر کے گیٹ کے سامنے روکی
انابیہ جیکیٹ اتار کر اسے واپس دینے لگی زوریز کی نظر اس کے بازو پر گئی جہاں اس کے انگلیوں کے نشان اس کی دودھیا بازو پر واضح تھے اسے پھر سے شرمندگی نے گھیرا
" اتنا زور سے پکڑ نے کی کیا ضرورت تھی" اسنے افسوس کیا
"نہیں رہنے دو مجھے کل یونیورسٹی میں واپس کردینا" زوریز نے کہا
انابیہ نے حیرانی سے اسے دیکھا اور جیکیٹ پھر سے پہن لی وہ گاڑی سے اتری اور دروازہ بند کیا اور جاتے جاتے پھر مڑی_
"تھینکس! اسنے کہا
زوریز کی نظر اس کے گال پر گئی جو تھپڑ کی وجہ سے لال ہوگیا تھا وہ اور شرمندہ ہوا_
" اٹس اوکے! زوریز نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہ بھی مسکراتے ہوئے چل دی_
"شاید میں کچھ زیادہ ہی برا کر گیا اس کے ساتھ" اسنے سوچا اور سر جھٹک کر گاڑی اسٹارٹ کی__
جاری ھے