تیرھویں قسط

146 12 1
                                    

خاموشی سے گاڑی کو سڑک کی جانب موڑتے وہ دانستہ طور پر اسے خالی پڑی سڑکوں پر دوڑانے لگا تھا۔ رات ابھی اتنی گہری نہیں ہوٸ تھی لیکن باہر برستے کہر کے باعث اب لوگوں کی آمد و رفت سڑک پر نہ ہونے کے برابر تھی۔ اور در حقیقت اسے بھی یہی خاموشی درکار تھی۔ خود کی خاموشی کو، ماحول میں پھیلی خاموشی سے ہم آہنگ کرنے کا اس سے بہتر کوٸ اور طریقہ بھلا ہو بھی کیا سکتا تھا۔۔!
اس نے اگلے ہی پل گہرا سانس لے کر کھلی کھڑکی پر اپنی کہنی ٹکاٸ اور یونہی بے مقصد گاڑی دوڑاتے وہ ان کتھٸ آنکھوں کو جھٹکنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ کٸ سالوں تک مافیا کے ساتھ کام کرنے کے بعد اسے اندازہ تھا کہ خود کا اصل کہاں ظاہر کرنا ہے اور کہاں مفقود رکھنا ہے۔ انہیں اس بات کی تربیت بہت اچھے سے دی جاتی تھی ۔۔ لیکن ابھی۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے رابیل سے ہوٸ مڈبھیڑ میں وہ اس کی آنکھوں میں اپنے لیۓ امڈتی نمی دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا۔ اس نے تو بہت اچھے سے یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ ٹھیک ہے۔ بلکہ وہ جانتا تھا کہ چچا، چچی یہاں تک ردا اور شزا بھی اس کے نرم رویے سے مطمٸن ہوگٸ تھیں لیکن وہ دو آنکھیں۔۔ اس کے وجود میں کھبتی وہ کتھٸ آنکھیں اسے اب تک اپنے اندر اترتی محسوس ہورہی تھیں۔ جب سب کو مطمٸن کر کے وہ ان آنکھوں میں دیکھنے لگتا تو وہ اس سے صرف یہی التجا کررہی ہوتیں کہ معاذ۔۔ یوں خود کو اذیت مت دو۔۔ ایسے خود کے ساتھ مت کرو ۔۔

اس نے ایک بار پھر سے گہرا سانس لے کر اندر جمع ہوتی گھٹن کو باہر نکالا تھا۔

کیا وہ لڑکی اس کی زندگی کا حصہ بننے لگی تھی۔۔؟ کیا وہ اس کے اندر اترنے لگی تھی۔۔؟ کیا وہ اسے اپنے اندر تک رساٸ دے رہا تھا۔۔؟ کہیں وہ اس کے ساتھ کوٸ زیادتی تو نہیں کررہا۔۔؟ کہیں وہ کسی پہر میں اس کی تکلیف کا باعث تو نہیں بنے گا۔۔!

بہت سے سوالات سے نگاہیں چرا کر اب وہ پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے گاڑی دوڑانے لگا تھا۔

اس سب کے باوجود بھی ایک بات تو طے تھی کہ اس لڑکی کی موجودگی اسے غیر آرام دہ نہیں کیا کرتی تھی۔ اس کی موجودگی اسے سکون دیا کرتی تھی۔ وہ اس زخم زخم سی دنیا میں مرہم تھی۔ اس کا مرہم۔۔ لیکن ابھی یہ سب باتیں جذباتی ہو کر سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ وہ چند دن اس کی نگاہوں سے اوجھل رہنا چاہتا تھا۔ ارحم اور صاٸمہ کے دیۓ گۓ طعنوں۔۔ اور خاندان والوں کی باتوں کو وہ نۓ سرے سے سوچنا چاہتا تھا۔

کیا وہ واقعی اس کے قابل نہیں تھا۔۔؟ کیونکہ اگر اکھٹے بہت سارے لوگ ایک ہی بات کی جانب اشارہ کریں تو اسے نظر انداز کرنا اسکی نظر میں سراسر بیوقوفی تھی۔ وہ خود کو دور سے کھڑے ہو کر دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے ہر عیب، ہر نشان اور ہر زخم کے ساتھ خود کی بدصورتیوں کو جانچنا چاہتا تھا۔۔ ہاں۔۔ اب وہ خود سے رابیل کی خاطر نظر ملانا چاہتا تھا۔ کیا وہ واقعی ایسا ہی تھا جیسا لوگ اسے کہہ رہے تھے۔۔؟ کیا ایسا ہی تھا۔۔؟ اور اگر ایسا تھا تو وہ رابیل کے قابل نہیں تھا۔۔ رابیل کسی بہت اچھے انسان کو ڈیزرو کرتی تھی۔ اور یقیناً وہ، وہ ایک انسان ہر گز نہیں تھا۔

کہف (The cave)Where stories live. Discover now