آخری قسط کا بقیہ حصہ

201 17 3
                                    

سلویٰ نے کھانے کے برتن سمیٹ کر سنک میں جمع کیۓ اور پھر واپس پلٹ آٸیں۔ کسی نے بھی ٹھیک سے کھانا نہیں کھایا تھا لیکن شکر تھا کہ وہ اس کے اصرار کرنے پر کھانے کے لیۓ ٹھہر گۓ تھے۔

”رابیل کو کچھ دنوں کے لیۓ میرے پاس ہی چھوڑ جاٸیں بھاٸ۔“

انہوں نے وقار کی جانب دیکھ کر اتنی آس سے پوچھا تھا کہ وہ اثبات میں سر ہلاۓ بنا رہ ہی نہ سکے۔

”لیکن وہ یہاں کیسے رہے گی۔۔؟ تم سارا کام اکیلی کیسے کروگی سلویٰ“

رامین نے فکر مندی سے پوچھا تو وہ مسکراٸیں۔ اس سے پہلی ہی ملاقات میں اس قدر انسیت ہوگٸ تھی کہ وہ خود بھی حیران رہ گٸیں۔ سلویٰ بالکل حبیبہ کا پرتُو تھیں۔۔ نرم، خوبصورت اور ٹھہری ہوٸ۔۔

”ٹھیک ہے۔۔ اور ویسے بھی اس کے پیروں میں زخم آۓ ہیں۔ زیادہ چل پھر نہیں سکے گی کچھ دنوں تک وہ۔ اچھا ہے وہ تمہارے پاس ہی رہ لے۔۔ کوٸ مسٸلہ نہیں لیکن وہ۔۔ وہ خود یہاں رہنا چاہتی ہے۔۔؟ پوچھا تم نے اس سے۔۔؟“

عابد کے خاموشی سے کھڑے رہنے پر وقار نے ہی بات آگے بڑھاٸ تھی۔ سلویٰ نے سر جلدی سے اثبات میں ہلایا تھا۔

”جی میں نے پوچھا ہے اس سے۔۔ اسے کوٸ اعتراض نہیں۔۔ لیکن اگر عابد بھاٸ صاحب کو کوٸ اعتراض ہے تو کوٸ با۔۔“

”نہیں۔۔ مجھے کوٸ اعتراض نہیں۔۔ اچھا ہے وہ کچھ دن یہاں رہے گی تو بار بار وہ باتیں یاد کر کے پریشان نہیں ہوگی۔۔ رہ لے بھلے وہ یہاں۔۔ مجھے کوٸ اعتراض نہیں۔۔“

وہ کہہ کر باہر کی جانب بڑھے تو رامین نے بھی مسکرا کر سلویٰ کو گلے لگایا۔ پھر آگے بڑھ گٸیں۔ اب ردا اور شزا اس سے بغل گیر ہورہی تھیں۔ سب سے آخر میں وہ وقار کے ساتھ دروازے تک آٸیں۔ سب کو خدا حافظ کہہ کر کے وہ واپس پلٹیں۔ کمرے کا دروازہ کھول کر دیکھا۔ رابیل سو رہی تھی۔ اچھا تھا وہ زیادہ سے زیادہ آرام کرتی۔ آہستہ سے دروازہ بند کر کے وہ واپس مڑیں اور کچن کی جانب چلی آٸیں۔ جلدی جلدی برتن دھو کر، کچن صاف کیا اور پھر قریباً آدھے گھنٹے بعد اب وہ لاٶنج میں جاۓ نماز بچھاتیں عشاء کی نماز پڑھنے لگی تھیں۔ ایک پل کو فکرمند سی نگاہیں گھڑی کی جانب پھیریں۔

ساڑھے دس بج رہے تھے۔ جانے وہ کہاں تھا۔۔؟ ابھی تک آیا کیوں نہیں تھا۔ اب تو انہیں بھی پریشانی ہورہی تھی۔ پھر ذہن جھٹک کر نیت باندھی۔۔ فرض پڑھنے کے بعد وہ سنتوں کے رکوع ہی میں جھکی تھیں کہ یکلخت دروازہ کھلنے کی آواز آٸ۔ پھر کسی کے قدموں کی بھاری چاپ۔۔ انہیں اس کے  انداز کی پہچان تھی۔ وہ آ کر آہستہ سے صوفے پر بیٹھا۔۔ یونہی گردن گھما کر گھڑی کی جانب دیکھا تھا۔۔
اسی اثناء میں انہوں نے سلام پھیر کر سکون سے چہرہ اس کی طرف موڑا۔ وہ صوفے کی پشت سے سر ٹکاۓ، آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔ ان کی نگاہ اس کے زخمی ہاتھوں پر پڑی۔ پھر وہ سرہلاتی اٹھیں۔ فرسٹ ایڈ باکس ساتھ لیتی اس کے برابر آ بیٹھیں۔ ان کے بیٹھنے پر اس نے چونک کر آنکھیں کھولی تھیں۔

کہف (The cave)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora