شام میں وہ خالی خالی سی سنگھار آٸینے کے سامنے کھڑی تھی جب شزا اور ردا دونوں اسکے کمرے میں داخل ہوٸیں۔ اس نے ان کی جانب نہیں دیکھا۔ کہیں اندر وہ اب سب سے ناراض تھی۔ وہ سب جو اس کے خلاف تھے۔ اس کا ناراض ہونا تو بنتا ہی تھا۔
ان کی جانب مڑے بغیر خاموشی سے اپنے بالوں میں برش چلاتی رہی۔ شزا اور ردا وہیں دروازے ہی میں ٹھہر گٸ تھیں۔ جانتی تھیں کہ ان کی "رابی" ان سے ناراض تھی۔ پھر شزا ہی کھنکھار کر آگے بڑھی۔
"کیا پہن رہی ہو رابی۔۔؟"
اس نے کوٸ جواب نہیں دیا۔ یونہی بالوں میں برش چلاتی رہی۔۔
"اب تو سب ٹھیک ہوگیا ہے ناں رابی۔۔ تو۔۔ تم ہم سے اب بھی ناراض ہو۔۔؟"
پیچھے سے ردا نے بہت ہلکی سی آواز میں کہا تھا۔ اس نے یکدم سنگھار آٸینے پر برش پٹخا۔ ان دونوں کو لمحے بھر کے لیۓ مڑ کر غصہ غصہ سی نگاہوں سے دیکھا۔ لیکن ان دونوں کو اس لمحے وہ بہت پیاری لگی تھی۔ غصے میں کون پیارا لگتا ہے بھلا۔۔ ؟ لیکن رابیل کا غصہ ایسا ہی تھا کہ اس پر ڈرنے یا گھبرانے کے بجاۓ پیار آجایا کرتا تھا۔
"کیا سب ٹھیک ہے؟ تم دونوں کو لگتا ہے کہ یہ سب ٹھیک ہے۔۔ واقعی۔۔ میرا نکاح ہوچکا ہے۔۔ ایسے کیسے میرا نکاح کسی کے بھی ساتھ ہوسکتا ہے۔۔ میں بوجھ تھی بابا پر تو مجھے بتادیتے۔۔ ایسے مجھے سب کے سامنے ارزاں کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔؟"
اور پھر وہ یکدم رونے لگی تھی۔ وہ ہی ہر لڑکی کی طرح غصے کے آخری سرے پر رونے کی عادت۔ شزا اور ردا دونوں نے یکدم اسے آگے بڑھ کر خود سے لگایا تھا۔ ان کی رابی بہت معصوم تھی۔۔ حالانکہ وہ ان سے بڑی تھی۔۔ لیکن پھر بھی وہ ان جیسی نہیں تھی۔ وہ چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر رو جایا کرتی تھی۔ اور آج۔۔ آج تو اس پر بہت کچھ ایک ساتھ گزر گیا تھا۔۔
"ہم دونوں بہت سوری ہیں تم سے رابی۔۔"
شزا نے بھی نم آنکھوں کے ساتھ کہا تھا۔ اس نے آنکھیں رگڑیں۔۔ ان سے الگ ہوٸ۔۔ چہرہ حد درجہ سرخ ہورہا تھا، ناک گلابی رنگ سے دہک رہی تھی اور ہچکیوں کے باعث سانسیں الجھی ہوٸ تھیں۔
"میں بہت اکیلی تھی اس سب میں شزا۔ میں بہت خوفزدہ تھی۔۔ مجھے بہت ڈر لگتا تھا لوگوں کے ردعمل سے۔ جانتی ہو تم دونوں کو کتنا مس کیا ہے میں نے اپنی تنہا راتوں میں۔ میں نے کتنی آوازیں دیں تھیں تم لوگوں کو لیکن کسی نے بھی میری آواز نہیں سنی۔۔ کوٸ بھی مجھے تھپکنے کے لیۓ نہیں آیا۔۔ سب۔۔ سب میرے لیے بہت مشکل تھا۔۔ میں بہت اکیلی تھی۔۔"
اس کے جملے بے ربط سے ہونے لگے تھے۔ لیکن وہ کہتی جارہی تھی۔ ردا اور شزا بھی اب کے اسے دیکھ کر رونے لگی تھیں۔ ان کی کھوٸ ہوٸ رابی جیسے انہیں پھر سے مل گٸ تھی۔
"سوری رابی۔"
ردا نے کہہ کر اس کی آنکھیں صاف کیں۔
"کوٸ بھی مجھے اپنی گیدرنگز میں نہیں بٹھانا چاہ رہا تھا۔۔ س۔۔ سب مجھ سے بیزار ہورہے تھے۔ سب مجھے بری نظروں سے دیکھ رہے تھے اور تب میں نے تم لوگوں کو بہت یاد کیا تھا۔ کوٸ بھی میرے ساتھ نہیں تھا۔۔ پھپھو نے ہر دفعہ مجھے بے عزت کیا۔۔ تم لوگ تب بھی میرے ساتھ نہیں تھے۔۔ میں بہت اکیلی تھی۔۔"
أنت تقرأ
کہف (The cave)
روحانياتاسے بس اتنا پتہ تھا کہ جو غار میں اس کے لیۓ پناہ لیتے ہیں، وہ انہیں اندھیری کوٹھڑی میں تنہا نہیں چھوڑتا۔۔