اگلے دن وہ کچن میں کھانا بنا رہی تھیں کہ یکایک، صاٸمہ کچن میں آناً فاناً داخل ہوٸ۔ اس کی منگنی ہوچکی تھی البتہ شادی میں ابھی ایک سال کا عرصہ تھا۔
"کیا کررہی ہو بھابھی۔۔؟ اچھا اچھا کھانا پکا رہی ہو۔۔"
اس نے ایک بار جھک کر ہانڈی میں دیکھا۔ حبیبہ نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔
"اچھا بھابھی تمہیں اماں بلا رہی تھیں۔ ایک بار دیکھ کر آجاٶ کیا کہہ رہی ہیں۔ "
"چلو میں آتی ہوں۔۔"
وہ سالن کی آنچ مدھم کر کے پلٹیں تو صاٸمہ نے ایک کمینی سی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں پلٹ کر دیکھا اور پھر نمک کا ڈبا کھول کر مٹھی بھر نمک سالن میں ڈال دیا۔
دوپہر کو سب کھانا کھانے ٹیبل پر بیٹھے تو یکدم ہی سب کے حلق میں انتہاٸ کڑوے سالن کے باعث پھندا لگا تھا۔ حبیبہ حیران سی کبھی ایک کو دیکھتیں اور کبھی دوسرے کو۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ اور پھر فرحت بیگم نے گویا انہیں ذلیل کرنے کا کوٸ بہانہ ڈھونڈ ہی لیا۔ سب ملازمین، گھر والوں کے سامنے انہیں وہ ذلت دی کی الامان۔۔! حبیبہ خاموشی سے چہرہ جھکاۓ سنتی رہیں اور معاذ ضبط سے لب بھینچ کر بیٹھا رہا۔
اور پھر ہر زور کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا رہا۔ کبھی ان کو کسی ایک بات پر ذلیل کیا جاتا اور کبھی کسی دوسری بات پر ان کے اسلام کا مزاق اڑایا جاتا۔ حبیبہ دن بدن تھکنے لگیں۔ وہ دن بھر کوشش کرتیں کہ کوٸ بھی شکایت کا موقع فرحت یا پھر صاٸمہ کو نہ ملے لیکن ہر روز کچھ نہ کچھ ان کے کھاتے میں نکل ہی آتا تھا۔ معاذ سب کچھ خاموشی سے دیکھتا رہا۔ اور ایک دن جب سب خواتین کے سامنے فرحت بیگم نے حبیبہ کے گال پر تھپڑ رسید کیا تو وہ رہ نہیں سکا۔۔
اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے پیچھے کیا تھا۔ ہاں۔۔ اس کا قد اب کہ حبیبہ سے دو انچ لمبا تھا۔ سرمٸ آنکھیں غصے سے رہک رہی تھیں اور مٹھی بھینچے وہ کڑے تیوروں سے فرحت کو گھور رہا تھا۔
"کیا لڑکے۔۔ تیری ہمت بھی کیسے ہوٸ میرے درمیان میں آنے کی۔۔"
"اور آپ کی ہمت کیسے ہوٸ میری ماں کو ہاتھ لگانے کی۔۔؟"
وہ ان پر چیخا تھا۔ کٸ مہینوں کا لاواہ جو اس کے اندر کسی جوالا مکھی کی طرح پک رہا تھا، پھٹ کر باہر نکلا۔
"یہ میرا گھر ہے او۔۔"
"بھاڑ میں گیا آپ کا گھر اور اس گھر کی سیاستیں۔مجھے اس سے کوٸ سروکار نہیں ہے کہ یہ کس کا گھر ہے لیکن میری ماں کو اگر آٸندہ آپ نے کبھی ذلیل کرنے کی کوشش کی تو مجھ سے برا پھر کوٸ نہیں ہوگا۔۔"
اس نے انگلی ان کے سامنے لہرا کر گویا انہیں وارن کیا تھا۔ ایک لمحے کو ساری حویلی میں سناٹا چھا گیا۔ چلتے پھرتے لوگ رک گۓ۔ آوازیں گویا تھم گٸ تھیں۔ حبیبہ نے لرزتے ہاتھوں سے اس کا ہاتھ کہنی سے تھام کر اسے روکا تھا لیکن وہ فی الحال ان کی جانب متوجہ نہیں تھا۔
VOUS LISEZ
کہف (The cave)
Spiritualitéاسے بس اتنا پتہ تھا کہ جو غار میں اس کے لیۓ پناہ لیتے ہیں، وہ انہیں اندھیری کوٹھڑی میں تنہا نہیں چھوڑتا۔۔