چودھویں قسط (بقیہ حصہ)

115 12 1
                                    

وہ عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ہوٸ تو دیکھا کہ عابد اور رامین اس کے کمرے میں داخل ہورہے ہیں۔ وہ حیرت سے جاۓ نماز سے اٹھ آٸ۔

”کیا ہوا بابا۔۔ ماں سب ٹھیک ہے ناں۔۔؟؟“

وہ گوں مگوں کی سی کیفیت میں پاس چلی آٸ تھی۔ عابد نے مسکرا کر کمرے میں ایک جانب رکھی کرسی کھینچی اور پھر بیڈ کے قریب لے آۓ۔ رامین نے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر بیڈ پر بٹھایا تھا۔ اور پھر خود بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گٸیں۔ اس نے لمحے بھر کو گاہے بگاہے ان کے سنجیدہ چہروں پر نگاہ ڈالی تھی۔ ایک پل کے لیۓ اس کا دل بھی ڈانوا ڈول ہوا تھا۔۔ اگر جو ارحم نے کوٸ گھٹیا پن۔۔

”رابیل۔۔“

لیکن عابد کی بات نے اس کی سوچوں کو توڑ دیا تھا۔ وہ اب مکمل طور پر ان کی جانب متوجہ تھی۔

”جی بابا۔۔ خیریت ہے ناں سب۔۔؟ کیا ہوا ہے۔۔ آپ لوگ ایسے کیوں بی ہیو کررہے ہیں۔۔؟ تایا تو ٹھیک ہیں ناں۔۔؟“

”تایا کی لاڈلی۔۔ تایا ٹھیک ہیں تمہارے بالکل۔۔ ان فیکٹ ہم انہی کا مدعا رکھنے آۓ ہیں تمہارے سامنے۔۔“

”کیسا مدعا۔۔ کیا مطلب۔۔؟“

اس نے ناسمجھی سے انہیں دیکھ کر ماں کی جانب دیکھا تھا۔ عابد کھنکھار کر ذرا آگے ہو بیٹھے تھے۔ پھر نرمی سے اس کے دونوں ہاتھ تھامے۔ مسکرا کر اس کے چہرے کو دیکھا۔

”وقار بھاٸ جان۔۔ آہم۔۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمہاری شادی معاذ سے ہوجاۓ۔۔“

چند لمحے لگے تھے اسے بات سمجھنے میں۔ اور بات سمجھ آتے ہی اسکے چہرے پر ایک سوالیہ سا تاثر پھیل گیا تھا۔۔

”وہ چاہتے ہیں کہ تمہاری اور معاذ کی شادی اسی سال میں ہوجاۓ۔“

اور ان کے جلدی سے بات مکمل کرنے پر اب کہ وہ حیرت سے آنکھیں پھیلاۓ کبھی رامین کو دیکھتی تھی تو کبھی عابد کو۔۔

”لیکن میری تو پڑھاٸ ابھی شروع ہی نہیں ہوٸ ہے اور ناں میں اتنی بڑی ہوں۔۔ پھر کیسے ہوسکتی ہے شادی۔۔؟“

اسے سمجھ نہیں آیا کہ اتنی عجلت میں مزید کیا تاویل ان کی سامنے رکھی جاسکتی ہے۔ اسی لیۓ جلدی میں جو سمجھ آیا بول دیا۔ لیکن اس کے برعکس۔۔ عابد اور رامین۔۔ بہت پرسکون تھے۔۔ وہ شاید پہلے سے یہ سب طے کر کے ہی اس کے پاس آۓ تھے۔

”ہم نے بھی تمہارے تایا سے یہی کہا تھا کہ وہ ابھی چھوٹی ہے اور اس کی پڑھاٸ بھی مکمل نہیں۔ پھر جانتی ہو انہوں نے کیا کہا۔۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی اس کا اپنا ہی گھر ہے۔ وہ جیسے وہاں رہتی ہے ویسے ہی یہاں بھی رہے گی۔ ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ بھلے ہی اسے گھر کا کام نہ آتا ہو۔ انہیں کونسا ہر وقت اس سے روٹیاں پکوانی ہے۔ وہ تمہیں اس گھر میں بالکل ویسے ہی رکھیں گے بچے۔ جیسے تم اس گھر میں رہتی ہو۔ وہاں بھی زندگی ایسی ہی ہوگی جیسی یہاں ہے۔ ہاں فرق صرف اتنا ہوگا کہ وہاں تمہارا ایک شوہر ہوگا، جس کا تمہیں خیال ہرگز نہیں رکھنا، کیونکہ تمہیں تو خود کا ہی خیال رکھنا نہیں آتا اس کا کیا رکھوگی۔ تو۔۔“

کہف (The cave)Where stories live. Discover now