ساتویں قسط

136 10 1
                                    

اس نے کٸ انسانوں کو اپنے ہاتھ میں لیۓ گۓ اس تمانچے سے زخمی کیا تھا۔ کٸ لوگوں کو اس نے خوفزدہ کر کے ان سے بھتے وصولے تھے۔ وہ ایک طرح کا مافیا راج ہی تھا۔ مافیا عموماً پورے پورے گھرانوں سمیت کام کرتے ہیں لیکن اس علاقے کا باس صرف سلطان میر تھا۔ یہ اس کا علاقہ تھا۔۔ اس کے علاقے کا مطلب تھا کہ یہاں وہ دھندا کرسکتا تھا کوٸ اور نہیں۔۔ اس علاقے کی حدود میں وہ بھتہ وصول سکتا تھا کوٸ اور یہاں آ کر پر نہیں مارسکتا تھا۔ شروع شروع میں اسے ان کی سیاستیں، ان کے انداز اور ان کی باتیں سمجھ نہیں آیا کرتی تھیں لیکن جیسے جیسے اس نے ان کے ساتھ وقت گزارنا شروع کیا، اسے ان کی باتیں سمجھ آنے لگیں، اسے ان کے ذو معنی سے جملے ڈی کوڈ کرنے آگۓ۔ اسے ان کے اشارے سمجھ میں آنے لگے تھے۔ اس نے گنز چلانا سیکھ لیں، ہر گن کو ہینڈل کرنے کا ایک خاص طریقہء کار ہوتا ہے اور اس نے ہر اس طریقہء کار کو جاننا چاہا جس سے وہ ان گنز کو باآسانی ہینڈل کرسکتا۔

سلطان کو اس سے خاص قسم کی اپناٸیت تھی۔ وہ اس کی خالی خالی نظروں سے کبھی کبھار حیران رہ جایا کرتا تھا۔ چودہ سال کی عمر میں وہ اس قدر سپاٹ تھا کہ بڑے بڑے عمر رسیدہ لوگوں کی سنجیدگی اس کے سپاٹ سے تاثر کے آگے مات کھا جایا کرتی تھی۔ اسی اپناٸیت اور لگاٶ کا نتیجہ تھا کہ سلطان نے اسے کبھی فرنٹ لاٸین پر آنے ہی نہیں دیا۔ اسے ڈر تھا کہ وہ کبھی کسی بھی طرح سے پولیس کی تحویل میں آسکتا ہے یا پھر سامنے رہنے پر وہ بہت سوں کی نظروں کا مرکز بن سکتا ہے۔ سو اسے ہمیشہ اسٹیج کے پیچھے کا کام دیا گیا۔ اسے لوگوں کے اثاثہ جات کو چھاننے، ان کی آف شیور کمپنیز کو کھنگالنے اور پھر ان کی کمزوریاں اکھٹی کرنے کے لیۓ رکھا گیا۔ پچھلے ایک سال کے عرصے میں اس نے اتنے لوگوں کی زندگیاں کھنگال لی تھیں کہ اسے اب کہ ان کے نام بھی بھول گۓ تھے۔ زندگیاں کھنگالتے کھنگالتے اسے اندازہ ہوا کہ جو جیسا ہے وہ ویسا نہیں ہے۔ جو جیسا دکھتا ہے وہ ویسا ہوتا نہیں ہے۔ لوگ جو ہوتے ہیں وہ نظر نہیں آتے اور جو نظر آتے ہیں وہ ہوتے نہیں۔ لوگوں کے ظاہری حلیوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل تھا کہ کس کے اندر کونسا جانور سانس لے رہا ہے۔ اس نے عرصے تک لوگوں کو اس طرح جج کیا تھا۔۔ اسی ججمینٹ کی وجہ سے کٸ دفعہ اسے اپنے کام میں ناکامی کا سامنہ کرنا پڑا۔ وہ حیران رہ جاتا کہ اس قدر اختلاف آخر لوگوں کے ظاہر اور باطن میں ہو کیسے سکتا ہے۔۔ لیکن پھر اس تاریک دنیا میں رہ کر اسے اندازہ ہو ہی گیا کہ انسان نامی مخلوق کیا چیز ہوتی ہے۔ اس کی کتنی پرتیں ہیں اور وہ کتنی گہری تہوں کے بعد جا کر کھلتا ہے۔

"انسان بہت خوفناک مخلوق ہے معاذ۔۔ اس دنیا کی سب سے خوفناک مخلوق۔۔ انسان کبھی ویسے نہیں ہوتے جیسے نظر آتے ہیں، انہیں کبھی ان کے ظاہری حلیوں سے جج نہیں کیا کرتے۔ کون اپنے اندر کون سی جنگ لڑ رہا ہے اور کون اندر جنگ جیت چکا ہے، تمہیں اس کا اندازہ کبھی نہیں ہوگا۔"

اس کے کام کے تین اصول تھے۔ پہلا، لوگوں کے بول پر کبھی یقین نہ کرنا، دوسرا، انہیں اپنے ارادوں سے کوسوں دور رکھنا اور تیسرا، ہمیشہ اپنی کمزوریوں کی حفاظت کرنا۔

کہف (The cave)Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang