Episode # 01

1.4K 54 13
                                    

موسم بہار کی  دلکش رات کے پچھلے پہر جہاں ہر ایک اپنے اپنے بستروں میں نیند کی آغوش میں مست تھا وہیں کراچی کے ایک پوش علاقے میں واقع بنگلے کی دوسری منزل کی کھڑکی میں روشنی چمک رہی تھی۔اندر دیکھو تو کاسنی رنگ کے سادہ شلوار قمیض میں ملبوس اٹھتی ناک کھڑے نین نقوش کندھے سے تھوڑے اوپر آتے ہلکے بھورے بالوں کو اونچی پونی ٹیل میں قید کئےایک لڑکی کچھ تذبذب کی حالت میں ادھر اُدھر کچھ تلاش کرنے میں مصروف تھی اور ساتھ ساتھ منہ میں کچھ بڑبڑا بھی رہی تھی۔۔ کہ اچانک اسکی ماما کمرے میں داخل ہوتی ہیں۔۔              
"بنش بیٹا!! ابھی تک جاگ رہی ہو صبح یونیورسٹی نہیں جانا کیا ایڈمیشن کے لئے؟" زینب بیگم اسے اس وقت جاگتا دیکھ کر کچھ حیران تھیں۔                       
"ماما یار !! جب سے اپنی فوٹو گرافس ڈھونڈ رہی ہوں مل ہی نہیں رہیں۔"                              
"اپنے بیڈ کے نیچے دیکھو وہیں گری پڑی ہونگی۔اور یہ ماما یار کونسی بلا ہے ابھی تمہاری دادو نے سن لیا نا۔۔۔۔" انکی بات ادھوری ہی رہ گئی کہ بنش صاحبہ کی زبان میں کھجلی پیدا ہوئی اور بول پڑی۔        
"تو زلیخا بیگم کو تیسرا دوڑا بھی پڑ جانا ہے دل کا"
اسکی بات پر ماما نے اسے زبردست گھوری سے نوازا اور کمرے سے واک آؤٹ کرگئیں" اور وہ پھر سے بڑبڑا رہی تھی۔۔                                                  
"اففففف اب کیا کروں ؟؟ ہاں مومی کو فون کرتی ہوں ویسے بھی وہ الّو دن بھر سوتی اور رات گئے جاگتی  ہے " اب وہ اپنے موبائل پر اپنی بیسٹ فرینڈ مومل کا نمبر ڈائل کرتی ہے ۔
دوسری جانب یعنی تین گلیاں چھوڑ کر کسی گھر میں مستقل کوئی ٹون بج رہی تھی بالآخر مومل صاحبہ اپنا فون ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئی اور ۔۔۔
"ہیلو۔۔۔۔"                                          
بالکل دوسری جانب بنش میڈم پھر بات کاٹ کر شروع ہو گئی تھی۔۔۔                                                      
"یار مومی ہیلو ویلو چھوڑو ایک بہت بڑا مسئلہ ہوگیا ہے "
"ڈونٹ ٹیل می بنی کہ تمہیں رات کے اس وقت بھوک لگی ہے اور قسم لےلو آج ماما نے آلو ٹینڈے بنائے ہیں۔۔۔"
"ارے پاگل ہے کیا وہ مسئلہ نہیں ہے اور اب کیا میں ہفتے میں چار دن آنٹی کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھا سکتی ؟؟؟"
"ہاں میری جان چار دن کیا تم تو آٹھ دن بھی ہمارے گھر کا کھانا ہی کھاؤ..." مومل نے منہ بسورتے کہا۔              
"افففف یار میری بات تو سن۔۔۔۔۔۔"  اب کے مومل کو بنش تھوڑی پریشان لگی۔۔۔
                                     
                 "بولو  بنی کیا بات ہے؟" مومل نے تشویش کا اظہار کیا۔
"یار مم میری۔۔ میری فوٹوگرافس نہیں مل رہیں!!!!!" جہاں بنش کہ آنسوں جاری تھے وہیں دوسری طرف مومل کی ہنسی نہیں تھم رہی تھی۔ " تم۔۔ تم ہنس رہی ہو؟ "  
"نہیں تو کیا میں تمہاری طرح آنسوئوں کی آبشار بہادوں؟؟ اتنی سی بات ہے یارا یونیورسٹی کے برابر شاپ ہے کل ساتھ چلتے ہیں تمہاری پکس بھی بنوالیں گے اور فارم بھی جمع کراوادیں گے ڈَن ؟؟" مومل  نے جیسے مسئلہ حل کیا۔۔
"اوکے ڈَن"
بنش پر سکون ہوئی تھی۔۔۔                    
"چلو اب آنسو پونچھو اور اب میں سو جاؤں؟؟"     
"ہاں سوجاؤ ویسے میں تھینکس تو نہ بولوں نا؟؟" لہجہ شرارتی تھا۔۔
" نہ بہن مجھے پتہ ہے میری بنی کتنی کنجوس ہے۔۔ چل کٹ اب "
مومل نے طنزیہ کہا۔      
ہاہاہاہا۔۔ وہ تو میں ہوں۔۔ چلو کٹ رہی ہوں اللّٰہ حافظ۔۔"
"اوکے پھر ملتے ہیں کل انشاء اللہ۔۔ خدا حافظ"         
اگلے دن وہ دونوں یونیورسٹی کی تمام ترجیہات پوری کرکے نکل ہی رہیں تھیں کہ کسی نسوانی وجود سے زور دار تصادم کے نتیجے میں تینوں کی چیزیں زمین بوس ہو گئیں۔۔
"اوپسسس سوری سوری آپکو لگی تو نہیں؟؟"
مومل اور بنش نے بے ساختہ پوچھا اور جلدی جلدی اپنا اور مقابل کا سامان اٹھا کر اسکے ہاتھ میں تھمایا۔۔ لیکن جب اس لڑکی کی آنکھوں میں دیکھا تو وہاں آنسوں پلکوں کی باڑ توڑ کر بہہ جانے کو تیار تھے اس سے پہلے وہ دونوں کچھ بولتیں وہ لڑکی اپنی آنکھیں رگڑتی آگے بڑھ گئی اور پیچھے وہ دونوں کندھے اچکاتی چلی گئیں۔۔

یاراں نال بہاراں( مکمل)✅ ⁦❤️⁩Where stories live. Discover now