Muhabbat be amaan thehri part 2

1 0 0
                                    

” محبت کی حفاظت کرنا محبوب کا کام ہے اور اگر کوئی اپنی محبت کی ہی حفاظت نہ کر سکا تو اس کی محبت جھوٹی رہتی ہے!سمجھے آپ؟ “صبا نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا تھا۔
” تمہیں شک ہے میری محبت پہ؟“ وہ اس سے سوال کر رہا تھا ۔
” تو کیا نہیں کرنا چاہیے مجھے تم پر شک؟ “الٹا سول کیا گیا۔
” شک کی کوئی وجہ؟ “پھر سوال کیا گیا ۔
” ہاں  وجہ ہے میرے پاس! “وہ ڈٹ کر اس سے بات کر رہی تھی۔
” صبا میں وہ وجہ جاننا چاہتا ہوں! “عاطف اس سے پوچھ رہا تھا۔
” کہاں تھے تم اتنے مہینوں سے، صرف اپنے دوست کے لئے تم وہاں پر پورے آٹھ ماہ گزار کر آۓ ہو! اتنے سال بھی تو وہیں رہ کر تعلیم لی ہے تم نے، پھر بھی اس جگہ سے من نہیں بھرتا آپکا؟ “صبا اس سے شکوہ کر رہی تھی اور وہ بس اسے سن رہا تھا وہ جانتا تھا کہ اتنے سالوں سے وہ اسکی محبت میں گرفتار رہا ہے اور جب سے اعتراف کیا ہے تب سے کبھی چند لمحے سکون کے اسے ملے نہیں!
” آپ آٹھ ماہ بعد آۓ ہیں، کچھ خبر بھی ہے آپ کو ان آٹھ ماہ میں مجھ پر کیا گزری ہے؟بس کہ دیا آپ نے کہ محبت کرتا ہوں اور پھر.....پھر چلے گئے اپنے دوست کے پاس جیسے اسکو آپ کی بہت ضرورت تھی اور مجھے تو بس کہ  کر چلے گئے! “وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی اور وہ سر جھکائے اسے سن رہا تھا ۔ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا کہ جب بھی وہ غلطی کرتا تو صبا اس کی اچھی سی کلاس لیتی اور پھر وہ اسکی سنتا بھی تھا۔
” تمہیں پتہ ہے میں یہاں کیوں لوٹا؟ “عاطف اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔
” نہیں،مجھے نہیں پتہ آپ خود بتائیں! “وہ اس سے نظریں ملاۓ بغیر کہنے لگی۔
” کیونکہ تم نے مجھے کال کی تھی اور بس میں سمجھ گیا کہ یہ تم ہی ہو جو مجھے یوں کال کر رہی ہے اور چاہیتی ہے کہ میں لوٹ آؤں “ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا اور اسکا جواب سن کر وہ اسے تکنے لگی۔
” کیا ہاں، ایسے کیا دیکھ رہی ہو تم مجھے؟ کھا جاؤگی؟ یا پھر ماروگی مجھے؟ بولو ہاں؟ “اب وہ اسے پریشان کرنے کے موڈ میں تھا
” اب آپ مجھے تنگ کریں گے؟ میں بڑے ابا سے آپکی شکایت کروں گی ۔“صبا نے اسے ڈرانے کی کوشش کی ۔
” اچھا! پھر جاؤ، کرو میری شکایت اپنے بڑےےےےے ابا سے۔“اس نے بڑے کو خاصا لمبا کھینچا جس پر صبا بھی کھلکھلا کر ہنسنے لگی اور وہاں سے چلی گئی ۔اس کے یوں جانے پر اسنے آواز دی۔
” صبا، صبا! کہاں چلی اب؟ “
وہ پلٹی اور کہنے لگی کہ” بڑے ابا کے پاس “پھر وہ چلی گئی اور وہ وہیں بیٹھا اسے دیکھتا رہا ۔ وہ اپنی دوستی تو نبھا آیا تھا، اب باری تھی محبت کو نبھانے کی!
* * * * * * *
علی اسے گھر تو لے آیا تھا، مگر وہ اسے وہسی محبت اسے نہ دے سکا جو وہ اسے جانے سے پہلے دیتا تھا۔
مائرہ اب گھر کے سارے کام خود ہی کرتی تھی سلمیٰ بیگم انجان تھی اس بات سے جو ان کے بیچ ہوا۔وہ تو بس خوش تھیں کہ مائرہ، علی کا خیال رکھتی اور سب سے اچھے سے بات چیت کرتی ہے ۔
علی کو بھی لگتا تھا کہ وہ سدھر گئ ہے اور اپنی غلطی پر شرمندہ ہے۔
لیکن کون جانتا تھا کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے اور یہ کہ وہ کیوں یہ سب کر رہی ہے ۔ اسکا اصل روپ کیا ہے یہ پتہ چل ہی جاۓگا۔
” علی میری بات سنیں! “وہ رات کو کام سے فارغ ہونے کے بعد اس کے لئے کافی بنا کر لائ تھی اور اب وہ اس سے کچھ بات کرنا چاہ رہی تھی ۔
” ہاں کہو! “علی نے بنا اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
” میں کچھ دن کے لئے امی کے گھر جانا چاہتی ہوں ۔ وہ بھائ کی شادی ہے تو لڑکی دیکھنے جانا ہے“
وہ ہچکچاتے ہوئے کہ رہی تھی ۔ اور اسکی بات سن کر وہ ہلکا سا مسکرایا اور کہنے لگا کہ” تم جاؤگی لڑکی دیکھنے؟کیا دیکھو گی تم اس لڑکی میں، خود کو دیکھا ہے تم نے کبھی؟ اس چہرے کے پیچھے کتنا برا کردار چھپا ہے! نا جانے کتنوں کے جذبوں سے کھیل چکی ہو اور شرم بھی نہیں آتی کہتے ہوئے ۔“وہ طنز کر رہا تھا اور وہ اس کی بات کا مطلب سمجھ سکتی تھی ۔
” علی. کب تک آپ میری ایک غلطی کی وجہ سے مجھ سے اس طرح برتاؤ کریں گے، آخر کب تک؟ “وہ اس سے کہ رہی تھی ۔
” میرے سامنے اس طرح مت رویا کرو کیونکہ تمہارے اس طرح رونے سے مجھے اب فرق نہیں پڑتا، اور ہاں تم نے غلطی نہیں کی ہے تم نے گناہ کیا ہے اور گناہ کی معافی صرف اللہ دیتا ہے لوگ نہیں
” علی میں امی کے گھر جا سکتی ہوں؟ “مائرہ نے پھر اپنا سوال دوہرایا ۔
” ٹھیک ہے، چلی جانا، میں تمہیں ڈراپ کر دوں گا اور پھر واپسی کب ہوگی تمہاری؟ میں تمہیں تب پک کر لوں گا ۔“علی پھر کام میں مصروف ہو گیا۔
***********
شام کو جب سبھی گھر والے ساتھ چائے پی رہے تھے تب الطاف صاحب اور اسجد صاحب نے گھر میں یہ اعلان کیا کہ ان کے دوست اتوار کے روز ان کے گھر آنے والے ہیں صبا کے رشتے کے سلسلے میں ۔
صبا اور عاطف جو آمنے سامنے بیٹھے تھے ان کی باتوں کو سن کر ٹھٹھکے۔پھر صبا خاموشی سے وہاں سے اٹھی جبکہ اسجد صاحب باقی سبھی افراد کو کمال فاروقی کے بیٹے کاشف فاروقی کے بارے میں بتانے لگے۔
عاطف کچھ دیر تو وہیں بیٹھا رہا پھر وہ پیچھے لان میں آ گیا جہاں صبا درخت سے سر ٹکائے کھڑی تھی ۔
” صبا“عاطف نے اسے آواز دی، آواز پر بھی وہ نہ پلٹی تو وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا اسکے سامنے آگیا ۔اس نے دیکھا اس کی آنکھیں نم تھیں ۔ اس نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے  اس کے آنسوں صاف کرنے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اسکی اس حرکت پر جیسے اسے ہوش آیا تھا۔ وہ دو قدم پیچھے ہٹی اور پھر وہ بھاگتے ہوئے وہاں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
اس وقت وہ عاطف کو دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی، پتہ نہیں کیوں اسے اس وقت عاطف پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔
اور عاطف کھڑا اس کے بارے میں سوچنے لگا۔ابھی جو بات وہ دونوں سن کر آۓ تھے، اس بات کو قبول کرنا دونوں کے لئے تکلیف دہ تھا!
صبا اپنے کمرے میں جاکر دروازہ بند کۓ رو رہی تھی ۔ اب وہ اس لمحے کو کوس رہی تھی جب عاطف نے اس سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔
” صبا، جو بات آج میں تم سے کہنے والا ہوں شاید اسے سن نے کے بعد تم مجھے غلد سمجھوگی مگر میں بس یہ چاہتا ہوں کہ ایک بار تم میری بات کو تحمل سے سن لو“عاطف کہہ رہا تھا اور وہ اسے گھورنے لگی تھی ۔
” کیا بات ہے عاطف جو کہنے کے لئے اتنی تمہید باندھ رہے ہیں آپ؟ جو بھی بات ہے سیدھا سیدھا کہو؟ “
” وہ میں..... میں...... میں......!” عاطف میں پر ہی رکا ہوا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس سے کیسے کہے کہ اسے اس سے محبت ہو گئی ہے ۔
” تم کیا میں.... میں کر رہے ہیں ؟ جلدی کریں ابھی آپ کی بات سن نے کے بعد مجھے اور کام بھی ہے ۔“ وہ جیسے پریشان ہو گئ تھی کیونکہ آج سے پہلے اس نے کوئی بھی بات کہنے کے لئے اتنا وقت نہیں لیا تھا جتنا اب لے رہا تھا۔
” صبا میں تم سے محبت کرتا ہوں......! “وہ اتنی جلدی اپنی بات کہہ کر چپ ہو جیسے اس کی ٹرین بھاگ رہی تھی ۔ اور اس کی بات سن نے کے بعد وہ صرف اتنا کہہ سکی
” کیااااا؟ “
” میں تم سے محبت کرتا ہوں صبا، اور بہت دن سے میں تم سے یہ بات کہنا چاہتا تھا مگر کوئی موقع ہی نہیں مل رہا تھا مجھے اب شاید مجھے اسلام آباد میں یوسف کے پاس جانے پڑے پھر رزلٹ اور جاب کی تلاش میں مجھے وہاں کتنا وقت لگے گا یہ میں نہیں جانتا، مگر میں چایتا ہوں جب میں واپس لوٹوں تو پھر میں ابا سے ہمارے رشتے کی بات کر سکوں ۔“وہ پھر سے شروع ہوا تو اپنی بات کہہ کر ہی خاموش ہوا!
” ایک منٹ آپ سے کس نے کہا کہ میں آپ سے شادی کروں گی؟ “صبا نے اس سوال کیا۔
” مجھ سے نہیں کروگی تو کس سے کروگی؟ “
” جس سے ابا رشتہ طے کر دیں گے! “
” صبا میں محبت کرتا ہوں تم سے!کیا تم نہیں کرتی مجھ سے محبت؟ “
” نہیں! “
” کیا تم مجھے پسند بھی نہیں کرتی؟ “
” ہممم...... پسند تو کرتی ہوں! “
” پھر میرے لئے اتنا کافی ہے! “عاطف مسکراتا ہوا چلا گیا ۔
پھر وہ اسلام آباد چلا گیا اور صبا اس کا انتظار کرنے لگی اور پھر وہ آٹھ ماہ بعد اب جب گھر لوٹا تو بڑے ابا اور ابا اسکا رشتہ اپنے دوست کے  بیٹے کے ساتھ طے کر رہے تھے۔
ابھی وہ یہ سب بات سوچ کر رو رہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی ۔
اس نے اپنا چہرا صاف کیا اور پھر دروازہ کھول کر دیکھا تو وہاں اجیہ کھڑی تھی ۔
” صبا میرے ساتھ نیچے چلو شام کے کھانے کی تیاری کرنی ہے اور عاطف بھائی کے لئے کھانا بھی بنانا ہے۔“
” کیا مطلب ہے عاطف کہاں جا رہے ہیں؟ “صبا نے اس سوال کیا ابھی اسے آۓ دن ہی کتنے ہوئے تھے جو وہ واپس جا رہے ہیں اس نے سوچا مگر کچھ کہا نہیں پھر وہ  اور اجیہ باتیں کرتی نیچے اترنے لگیں۔
” وہ واپس اسلام آباد جا رہے ہیں انہیں  کچھ کام ہے وہاں! “وہ اسے بتانے لگی  ۔
” اچھا! “صبا صرف اتنا ہے کہہ سکی!
وہ لوگ جب نیچے گۓ تو وہاں عاطف پہلے سے ہی اپنا بیگ ٹانگے کھڑا تھا۔اس نے ایک نظر صبا پر ڈالی پھر سب سے ملنے کی بعد وہ گھر سے نکل گیا۔صبا کچھ دیر تو وہیں کھڑی رہی پھر وہ واپس اپنے کمرے میں آ گئ ۔
* **********
اسلام آباد پہنچتے ہی عاطف اپنے فلیٹ پر آیا جہاں وہ اور یوسف کالج کے وقت رہتے تھے ۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر ایسا کیا کروں جس سے ابو صبا کا رشتہ وہاں نہ کریں!
ابھی وہ یہ سب سوچ رہا تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے پلٹ کر دیکھا تو وہاں یوسف کھڑا تھا۔ یہ فلیٹ یوسف کا تھا ۔ وہ دونوں اکثر جب پریشان رہتے تھے تو یہیں ملتے تھے ۔
یوسف کی زندگی میں ردا کے آنے سے بہت فرق پڑا تھا وہ کام کے بعد اپنا سارا وقت اپنی فیملی کو دیا کرتا تھا اور جب عاطف ہوتا تو وہ اس کے ساتھ رہتا تھا۔
ابھی بھی عاطف نے اسے یہاں آنے سے پہلے ہی اپنی عامد کا بتا دیا تھا۔ تبھی یوسف یہاں آیا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ عاطف پریشان ہے اس لئے وہ جلد ہی گھر سے واپس یہاں آ گیا ہے، لیکن وہ چاہتا تھا کہ وہ خود اس سے سب کچھ شئیر کرے۔
عاطف نے اسکے آنے کا زیادہ نوٹس نہیں کیا اور پھر سے کھڑکی کی طرف جا کھڑا ہو۔
” عاطف، آج ردا نے بریانی بنائ تو میں نے سوچا کہ تو آ رہا ہے تو میں تیرے ساتھ لنچ کروں اس لئے میں اپنے ساتھ بریانی لے آیا۔چل ساتھ میں بیٹھ کر کھاتے ہیں ۔“وہ جانتا تھا کہ وہ پریشان ہے تو بھوکا بھی ہوگا۔
” میرا من نہیں ہے ابھی کچھ کھانے کا! “عاطف نے سر سری سا جواب دیا۔
وہ ابھی بہت ڈسٹرب تھا اس لئے بس کھڑکی پر کھڑا رہا یوسف کندھے اچکاتا ہوا سٹینڈ سے برتن نکالنے لگا اور دو پلیٹوں میں بریانی ڈال کر پھر اس کے پاس آیا۔
” عاطی.....یار کھانے سے منہ نہیں موڑتے ہیں تو نے کچھ کھایا بھی نہیں ہوگا میں جانتا ہوں، چل میرے ساتھ تھوڑا سا کھالے، دیکھ اگر یہ ڈبہ ایسے ہی واپس گیا تو ردا نے مجھ سے بات نہیں کرنی ہی۔“یوسف پھر اسے اسرار کر رہا تھا اور اب کی بار وہ سر اثبات میں ہلاتا ہوا اس کے ہاتھ سے پلیٹ لے کر کھانا کھانے لگا۔
ابھی اس نے چند ہی نوالے لۓ تھے جب اسکا موبائل فون بج اٹھا۔ یوسف نے اسکا فون اٹھایا پھر نمبر دیکھ کر کال کاٹ کر دیا، پھر کچھ دیر بعد دوبارہ فون بجنے لگا تو اس نے پھر وہی عمل دوہرایا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ عاطف کھانا چھوڑ کر اٹھ جائے ۔
” کس کی کال ہے جو بار بار کٹ کر دے رہا ہے؟ “عاطف اب کھانا کھا چکا تھا اور اب پلیٹ لئے کچن میں چلا گیا تھا۔
اس کے سوال پر یوسف نے اسکرین پر نام دیکھا پھر کہنے لگا کہ” کوئی صبا نام ہے “یوسف کا تنا کہنا تھا کہ عاطف جلدی سے اپنا ہاتھ صاف کرتے ہوئے کچن سے باہر آیا اور اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر چیک کرنے لگا۔پندرہ منٹ میں سات کال آچکی تھی۔
” یہ کیا کر دیا تم نے؟ “وہ سر پکڑتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا ۔
” کیا کیا مطلب کیا؟ “اسنے الٹا سوال کیا۔
” تم نے بتایا کیوں نہیں کہ صبا کی کال تھی! “عاطف کو اس پر غصہ آ رہا تھا ۔ وہ اس سے کچھ کہے بنا صبا کو کال کرنے لگتا ہے، پہلی ہی بیل پر فون اٹھا لیا جاتا ہے ۔
” ہیلو صبا، کیسی ہو تم؟ “اس نے سب سے پہلے اس سے یہی سوال کیا تھا۔
” آپ کو کیا فرق پڑتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں یا نہیں، میں کب سے کال کر رہی تھی اور آپ بار بار کٹ کر دے رہے تھے ۔“وہ ناراضگی سے کہہ رہی تھی ۔
” صبا میں کھانا کھا رہا تھا..... “ابھی اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئ تھی جب وہ کہنے لگی کہ” یہاں میں پریشان ہوں اور آپ..... آپ کو کھانے کی پڑی ہے! “اسے عاطف سے ایسی حرکت کی امید نہیں تھی ۔ وہ اس کے جانے کے بعد سے اب تک رو رہی تھی اور وہ کھانا کھا رہا تھا۔
” صبا، میری بات تو سنو! “وہ بہت دھیرے سے اس سے کہہ رہا تھا۔
” کیا سنوں میں جب تم میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ سب سے یہ بات کہہ سکو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے تو پھر مجھ سے کیوں کہے؟ صبا بہت غصے میں تھی۔
” تم... تم تو کہتے تھے کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے، پھر کیوں تم میرے لئے سٹینڈ نہیں لے رہے؟ کیا اپنی آنکھوں کے سامنے مجھے کسی اور کا ہوتا دیکھ سکو گے تم؟“
” صبا میں تم سے محبت کرتا ہوں اور سچ میں تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں!“عاطف نے اس سے کہا۔
” اگر آپ مجھ سے محبت کرتے نا، تو کبھی یہاں سے نا جاتے، آپ یہیں رہ کر بڑے ابا سے ہمارے رشتے کی بات کرتے آپ اڑ جاتے اپنی بات پر عاطف! “صبا نے اسے سن نے کے بعد بس اتنا کہا اور کال ڈسکنکٹ ہو گئ تھی ۔ پھر وہ واپس یوسف کے پاس آبیٹھا۔
” اسے لگتا ہے میں اس سے محبت نہیں کرتا، لیکن ایسا نہیں ہے، میں تو اس لئے وہاں سے چلا آیا کیونکہ مجھ میں تو اتنا حوصلہ بھی نہیں ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے اسے کسی اور کے ساتھ چند لمحے بھی دیکھ سکوں! کتنی ہمت کر کے میں نے اس سے بتایا تھا کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں..... اور اب یہ سب......! “وہ سر ہاتھوں میں گراۓ ایسے کہہ رہا تھا جیسے اسے یوسف کی آمد سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہو!
” کیا ہوا ہے عاطف؟ “یوسف نے اس سے سوال کیا۔
اس کے پوچھ نے پر عاطف نے بتایا کہ اسکے والد اور چچا دونوں مل کر صبا کا رشتہ اپنے دوست کے بیٹے کاشف فاروقی سے طے کرنا چاہتے ہیں ۔سب سن نے کے بعد اس نے اس سے پوچھا کہ” انکل سے بات کی ہے تم نے؟ “
” نہیں “ایک لفظی جواب موصول ہوا ۔
” پھر انتظار کس بات کا کر رہا ہے، ابھی فون اٹھا کال لگا اور ان کو بتا کہ تم صبا کو پسند کرتے ہو اور اس لئے وہ اپنے دوست کو انکار کر دیں! “یوسف نے کہتے ہی فون اٹھایا اور الطاف صاحب کو کال کر کے موبائل اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
ایک، دو، تین...... تیسری بیل پر کال اٹھا لی گئ تھی ۔
” ہیلو، السلامُ علیکم ابو ۔“اس نے سب سے پہلے یہی کہا۔
” والیکم سلام، خیریت؟ “اُنہوں نے اس سے سوال کیا ۔
” ابو وہ میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا تھا! “وہ ہچکچاتے ہوئے کہہ رہا تھا اور سامنے بیٹھا یوسف اسے حوصلہ دے رہا تھا۔
” جلدی بول..... چپ مت رہ.... بول نا...! “
” ابو وہ میں..... میں.... میں وہ ابو... “وہ کچھ کہہ نہیں رہا تھا ۔ دوسری طرف الطاف صاحب پریشان ہو گئے تھے کہ آخر اسے کیا کہنا ہے ۔
جب عاطف کچھ نہ بولا تو یوسف نے موبائل اسکے ہاتھ سے لے کر الطاف صاحب سے بات کرنے لگا” السلامُ علیکم انکل، کیسے ہیں آپ؟ “یوسف نے نرمی سے ان سے بات کی ۔
” والیکم السلام، میں بالکل ٹھیک ہوں بیٹا، لیکن شاید عاطف ٹھیک نہیں ہے، پتہ نہیں اسے کیا بات کرنی ہے جو وہ کہہ نہیں رہا۔“ان کے لہجے میں پریشانی واضح تھی ۔
” انکل عاطف چاہتا ہے کہ آپ اس کی شادی کر دیں، کیونکہ ہم جتنے دوست ہیں ان میں بس یہی کنوارہ رہ گیا ہے، وہ یہ بات خود آپ سے کہنا چاہتا تھا مگر اسے شرم آ رہی تھی ۔“یوسف نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا جو اسے گھورنے لگا۔
” یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے میں ابھی اسماء سے کہتا ہوں وہ اس کے لئے لڑکی پسند کر لیں گی! “ان کی بات پر یوسف نے پھر کہا کہ” نہیں انکل آپ کو لڑکی بھی ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے! “
” کیوں؟ “
” کیونکہ عاطف آپ کی بھتیجی صبا کو پسند کرتا ہے! “یوسف کی بات سن نے کے بعد انہوں نے بس اتنا کہا
” اس کو فون دو بیٹا“
” انکل تم سے بات کرنا چاہتے ہیں، اب پلیز شپ مت رہنا “یہ کہتے ہوئے یوسف نے فون عاطف کو تھما دیا۔
” یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ تم صبا کو پسند کرتے ہو؟ “اُنہوں نے سب سے پہلے یہی سوال کیا۔
” ہاں! “اس نے بھی ایک لفظی جواب دیا ۔
” تم یہاں واپس آؤ، میں اپنے دوست فاروقی صاحب کو منع کر دیتا ہوں ابھی ۔“ان کا تنا ہی کہنا تھا کہ اس کا چہرا کھل اٹھا تھا۔
الطاف صاحب سے بات کرنے کے بعد وہ یوسف کے گلے لگ گیا ۔
” شُکریہ یار تم نے میری اتنی بڑی مشکل اتنی آسانی سے حل کر دی۔“وہ بہت خوش تھا۔
” اب یہ بتا کہ انکل نے کیا کہا ہے؟ “یوسف اسے خود سے الگ کرتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
” ابو نے مجھے گھر بلایا ہے اور میں کل صبح کی فلائٹ سے واپس ملطان جا رہا ہوں ۔“
” اچھا؟ “
” ہاں اور اب جب میں واپس آؤں گا تو صبا کو یہاں ساتھ لاؤں گا ۔انشاءاللہ “وہ کہتے ہوئے اسے پھر اپنے ساتھ باہر لے گیا۔آج اسکا ارادہ تھا کہ وہ اپنے دوستوں سے ملے اور سب سے اپنی خوشی شئیر کرے!
مائرہ جب سے اپنے میکے آئ تھی وہ موقع تلاش کر رہی تھی کہ کب وہ اپنی ماں سے اکیلے میں بات کر سکے، وہ جانتی تھی کہ اب اس کے والد کمزور ہو گۓ ہیں اور وہ کچھ بھی کرے وہ اسے روک نہیں سکیں گے، وہ جو یہ سوچ کر علی کی طرف لوٹی تھے کہ علی اس سے محبت کرے گا اس کی غلطیوں کو فراموش کر دے گا اور اپنا  سب کچھ اس کے نام کر دے گا تو یہ اس کی بھول تھی!
علی کا رویہ بھلے ہی نرم ہو گیا تھا لیکن وہ اس پر پہلے جیسے اعتبار نہیں کرتا تھا!
کہتے ہیں کہ ایک بار اگر کسی رشتے میں بے اعتباری آ جائے تو پھر ان میں سے کوئی بھی اپنی سفائ پیش کرتا رہے، لیکن اس رشتے میں پھر وہ اعتبار قائم نہیں ہو سکتا ہے!
مائرہ اب یہ سب برداشت کرتے کرتے تھک گئ تھی اسے اب علی کا رویہ اپنی توہین کرتا محسوس ہو رہا تھا ۔وہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں سکی تھی اس لئے اپنی ماں سے بات کرنا چاہتی تھی!

Yayımlanan bölümlerin sonuna geldiniz.

⏰ Son güncelleme: Apr 12, 2021 ⏰

Yeni bölümlerden haberdar olmak için bu hikayeyi Kütüphanenize ekleyin!

محبت بے اماں ٹھہری Hikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin