قسط نمبر 14 (part 2)

147 21 14
                                    

دن گزر رہے تھے اور جیسا کے ہادی نے کہا تھا وہ اپنی پرانی فارم میں واپس آ گیا تھا۔ ایک بار پھر سے ہادی اور احد محفل کی رونق بن گئے تھے۔ یہاں تک کے ٹیچرز جو کہ کیڈٹس کے ساتھ اتنے سخت ہوتے انہیں بھی یہ دونوں مستی میں ہی اچھے لگتے تھے۔ آج کل دونوں مل کر جونییرز کو رگڑا دے رہے تھے لیکن ہو یہ رہا تھا احد رگڑا دیتا تھا اور ہادی بچاتا تھا کہ ہم پر ظلم ہوا ان بیچاروں پر تو نا ہو جبکہ احد کا کہنا تھا کہ ان کو بھی تو پتا چلے pma کیا چیز ہے۔

"ہادی ی ی ی ی ی ۔۔۔۔گھدے۔۔۔۔لعنتی۔۔۔۔"احد غصے میں کہتا ہوا کمرے میں داخل ہوا

" ہیں ہیں کون گدھا تو کون لعنتی۔۔" ہادی کی بات ہی احد نے کاٹ دی

"تو گدھا تو لعنتی۔۔۔۔۔تو ڈیش ہے" احد نے ہادی کے بالوں کا حشر نشر کیا

"اوئے لیلی بالوں پر نہیں جانا۔۔۔۔اور ڈیش۔۔۔ہاں مجھے پتا ہینڈسم میں خود ہی فل کر دیتا ہوں" ہادی نے فرضی کالر جھاڑے لیکن احد آنکھیں چھوٹی کر کے سخت گھوڑی سے نواز رہا تھا

"اچھا میری لیلی میرے جگر میرے دل کے ٹکڑے بتاو کیا ہوا ہے " ہادی کو احد پر کچھ زیادہ ہی پیار آ رہا تھا

"میں ان کیڈٹس کو سزا دے کر آیا تھا۔۔۔۔اور تم نے مزے سے ان کو کہا کہ جاو۔۔۔ہاں اب وہ زیادہ سگے ہیں ۔۔۔تمہارا جگر کیا چاہتا اس کی پرواہ نہیں ہے ہنہہ" احد کا ڈرامہ اور غصہ عروج پر تھا

"یار وہ بیچارے۔۔۔۔" ہادی کی بات پیچ میں ہی احد نے کاٹ دی

"وہ بیچارے تو ہم کیا۔۔۔۔ہم کیا لوہا تھے جو ہمیں اتنا رگڑا ہے ہاں " احد آج فل لڑائی کے موڈ میں تھا

"میری جان تو ہیرے کو تراشتے ہیں نا تب ہی وہ اچھا ہوتا ہے" ہادی نے احد کو سمجھایا

"ہاں بلکل بلکل ۔۔۔۔اور تمہیں تو ان جونییرز سے بہت محبت ہے نا۔۔۔۔"احد نے پوچھا اور ہادی نے سر ہلایا سمجھ رہا تھا وہ کہ بات کس طرف جا رہی ہے

" تو بس پھر ان کو بھی تو تراشنا ہے نا تب ہی تو وہ مضبوط ہوں گیں نا اس لیے چل بیٹا اب اپنی ہی کی ہوئی بات پر قائم رہتے ہوئے رگڑا دینے میں میرا ساتھ دے" احد نے خوش ہوتے ہوئے کہا اور ہادی اپنی ہی کی ہوئی بات میں پھنس گیا تھا اور اس دن کے بعد ہادی ہر رگڑے میں شریک۔۔۔بلکہ شریک کیا دو قدم آگے ہی تھا اب دونوں خود میجر عاص عالم دی کھڑوس کا رول ادا کر رہے تھے۔

************

"ہادی تجھے اس بار ویکنڈ پر گھر جانا ہو گا" ہادی احد پڑھ رہے تھے کہ بیچ میں احد نے ایک دم سے کہا

"یار احد۔۔۔۔تم جانتے ہو نا میں نہیں جا سکتا۔۔۔۔میں نے بہت مشکل سے خود کو سنبھالا ہے۔۔۔۔دوبارہ نہیں ٹوٹنا چاہتا ہوں" ہادی نے بے بس لہجے میں کہا

"ہادی یار۔۔۔تمہیں جانا پڑے گا۔۔۔۔وجی بھائی بھابھی سے شادی کرنے سے منع کر رہے ہیں۔۔۔ایک تم ہی ہو جو ان کا منا سکتے ہو ۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں تم ناراض ہو بھابھی سے لیکن مجھے پتا ہے تم کبھی نہیں چاہو گے کہ ان کی شادی نا ہو" احد نے کہا

کہاں ایسا یارانہ (مکمل)Where stories live. Discover now