Episode 10 آغازِ سفر

377 12 5
                                    


" یہ جاننے کے باوجود بھی کے میں اس کی محبت نہیں ہممم؟ "
اُس نے جیسے نازش سے سوال کیا

" تم اُس سے اتنی محبت کرتے ہو یہ بات اگر مجھے پہلے ہی معلوم ہوتی تو میں تمہارا رشتہ مانگنے کے لیۓ ایک سیکنڈ بھی ضائع نہ کرتی اور مجھے بھروسہ ہے کہ مجھے انکار سننے کو نہ ملتا.... "

" ماں میں آپ کو اِس بات کی کبھی اجازت نہ دیتا کہ آپ میرا رشتہ مانگتی! کیونکہ میں جانتا ہوں کہ

اُس کی محبت صرف وہ ہی ہے اور میری محبت اتنی خود غرض نہیں کہ اپنی محبت پانے کے لیے میں اُس کی محبت اُس سے چھین لوں! "

اب وہ بیڈ پر بیٹھا کافی کے گھونٹ بھرنے لگا تھا۔

نازش اُسے دیکھ کچھ پل کے لیے مرجھا سی گئیں تھی۔

" صاد ان شاء اللہ میں تمہارے لئے اُس سے بھی اچھی لڑکی ڈھونڈوں گی جو....... "

" پر ماں میں نے تو اُس سے اچھی نہیں صرف اُسی کی خواہش کی ہے! "

اپنی ماں کی آنکھوں میں دیکھ وہ بڑی معصومیت سے بولا اور پھر خود ہی مسکرا دیا۔

صاد بیس سال کا تھا جب اُس کے والد فالج کے اٹیک کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے گئے۔

نازش اور صاد ہی بس اب ایک دوسرے کا سہارا رہ گئے تھے۔

نوکری لگنے کے بعد ٹرانسفر کی وجہ سے وہ اور نازش کینیڈا چلے گۓ تھے۔

وہاں جانا اُس کی خواہش نہیں بلکہ مجبوری تھی اور پھر جب اُسے واپس پاکستان آنے کا موقع ملا تو وہ اِسے کسی قیمت پر ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔

سو اُس نے پاکستان میں نازش اور اپنے لیۓ ایک گھر خریدا جس میں اب وه دونوں مقیم تھے۔

نازش کو کچھ دن پہلے کینیڈا سے پاکستان بھیج کر وہ آج صبح ہی سب فارمیلٹیز ختم کر پاکستان آ پہنچا تھا.

اُس کے نکاح کی خبر صاد کو کینیڈا میں ہی مل چکی تھی بس اب تیاری تھی تو اپنے محبوب کو رخصت کرنے کی!

*********

آسمان پر چھائی رات کی سیاہ دھاری آہستہ آہستہ صبح کی سفید دھاری سے علیحدہ ہو رہی تھی۔

مرتضٰی اپنے کمرے کی بالکنی میں کھڑا اپنے پھیپھڑوں کو سیگرٹ کے مضحر صحت دھوئیں سے سیاہ کر رہا تھا۔

ساری رات گزر گئ تھی مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

اُسے گھٹن محسوس ہو رہی تھی اور وہ ذہنی طور پر بہت بےسکونی کا شکار تھا۔

اور اِس بےسکونی کی وجہ حیا تھی۔

وہ حیا کے خشک اور بےلچک رویے کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

نکاح سے پہلے وہ اور حیا ایک دوسرے کے لیے نا محرم تھے اس لیے وہ حیا کے نکاح سے پہلے کے رویے کو جسٹیفاۓ (justify) کر سکتا تھا،

💕BHAROSA by  Haya Fatima & Maira Hammayun Where stories live. Discover now