7- اک غزل

195 6 1
                                    

کبھی تو رات کو پھیلی سیاہ ردا تم ہو،
کبھی ستاروں سی شفاف، با صفا تم ہو؛

میں تم کو دیکھ کے سب بھول جاؤں دکھ اپنے،
میرے ہر دکھ کی مسیحا، کوئی دعا تم ہو؛

میری دعا ہے کہ دل میں میرے اے جانِ جہاں،
نہ دوسرا کوئی آئے، یہاں صدا تم ہو،

میں جانتا ہوں جو جھیلے ہیں تم نے تنہا عذاب،
ہے مثل سب کے لیے جس کا حوصلہ، تم ہو؛

یہ فخر کم تو نہیں کہہ اٹھیں جو اہلِ نظر،
کہ تم وفاؤں کا پیکر ہو، خود وفا تم ہو؛

طلب ہو حور و ارم کی تو کس لیے آخر،
جو رکھ دی آنکھ میں حوروں کی،وہ حیا تم ہو؛

تمہاری یاد میں ہی کٹ رہے ہیں روز و شب،
سو میرے سالوں پہ لگتی ہوئی گرہ تم ہو؛

ہزار مرنے کی خواہش ہے پر اے جانِ فہد،
میں جی رہا ہوں میرے جینے کی وجہ تم ہو۔

3 ستمبر 2016

رقصِ  بسملDove le storie prendono vita. Scoprilo ora