"انو یار پلیز میری بات سن !!.. دروازہ کھول!!"
دروازے کے باہر کھڑے وہ زور و شور سے چیخ رہی تھی...(ضرور اماں ابا گھر پر نا تھے...)
"لیزے یار چلی جا سونے دیے میری ماں" .............
دروازے کے اُس پار سے آواز آئی..
"انو میں دروازہ توڑ کر آجاوں گی !!... یار بہت مزے کی نیوز ہے کھول نا "...........
اُس نے مستی سے کہا ..یقیناً اب دروازہ کھولے گا ..اور ہوا بھی ایسا درم کی آواز کے ساتھ دروازہ کھولا...
"کیا مسلہ ہے "...
انوشے نے دروازہ کھولتے ہی کڑی نظروں سے لیزے کو گھورا.....
لیزے کالے رنگ کے سوٹ میں ..دوپٹے سے بےنیاز..ہلکی سے لمبے بالوں کی چوٹی بناۓ معصومیت سے کھڑی کہنے لگی..
"مجھے اندر تو انے دو میری پیاری بہن ".... لیزے معصومیت سے بول کر اس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر اسے اندر لے آئی ..
"اب آپ بولنا پسند کریں گئ "...
انوشے جس کی آنکھوں میں نیند واضح تھی ..ہلکے رنگ کے سوٹ میں بالوں کو کھولے سونے کی تیاری کیے ہوۓ تھی بولی.
"تمھیں پتہ ہے تمہارے لیے رشتہ آیا ہے!!"....
لیزے نے شرمانے کی ایکٹنگ کرتے ہوۓ کہا ..... یہ سن کر انوشے چیخ اُٹھی
"کیا تم مجھے یہ بتانے کے لیے گھنٹے سے دروازے پیٹ رہی تھی کیا تمھیں خیال ہے کہ میں کتنا تھکی ہوئی ہو اور تم ہو کے!!!" ..
انوشے کا غصے سے بس نہیں چل رہا تھا اس کا گلہ دبا دے ......
"نکلو میرے کمرے سے اور اب 8 بجے سے پہلے میرے کمرے کا دروازہ نا بجے سمجھی تم نکلو اب!!! ..... "انوشے نے اس کا بازو پکڑ کر کمرے سے نکالا ..وہ معصوم سی گڑیا ..شکل بنا کر چل دی..
انوشے لیزے کی بڑی بہن تھی اور بیچلر کے بعد جاب کی تلاش میں تھی ..اور قائداعظیم یونیورسٹی سے bs-maths .کر چکی تھی اور آج کل جاب کے لیے ماری ماری پھر رہی تھی آرام تو بنتا تھا .. اوپر سے لیزے اس کا دماغ خراب کر رہی تھی اس کو کمرے سے نکلتے ہی وہ بیڈ پر ڈھے گی .. ......
"اس نے بابا سے وعدہ کیا تھا کے وہ پڑھائی ختم کرتے ہی... جو وہ کہیں گے.. وہ مانے گی مگر اس سے پتہ تھا کہ جس باپ کے پاس بیٹیاں ہوں.. ان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے... ماں باپ تو بیٹا بنا لیتے ہیں مگر یہ معاشرہ نہیں ..... پڑھائی کے بعد رشتے آۓ مگر ناکام ...لوگ باتیں کرتے نہیں تھکتے ..اس کی عمر ہی کیا تھی 24 سال کی ..اب بیٹا بن تو گئی تھی مگر یہ معاشرہ .... "
اس ہی طرح کی سوچیں سوچتے ہوۓ وہ ناجانے کب سو گئ....
............. .... ...۔ ......... ..... . ................
"امی جان پلیز ناشتہ دے دیں میں لیٹ ہو گیا ہوں اس سے پہلے سر مجھے نوکری سے نکال دیں!! ......"
سڑھیوں سے اُترتے اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ وہ کہہ رہا تھا...چہرے پر بلا کی شرارت تھی ...بلیک پنٹ کوٹ میں اس کی شخصیت خاصی متاثرکُن تھی..
"پہلے ہی ایک مہینے کی نوکری ہے . ...."
شاہزیب نے ہانک لگاتے ہوۓ کہا اور کرسی پر بیٹھ گیا ...ساتھ پاس بیٹھے ابو کو آنکھ ماری جبکہ. سامنے وہ بیٹھا سخت نظروں سے گھور رہا تھا .. ...
"تم یہ جلدی اُٹھے ہو اس طرح کی لاپروئی مجھے اچھی نہیں لگتی کل بھی تمہاری وجہ سے اتنا بڑا نقصان ہوتے ہوتے بچا ہے "....
سامنے والی اپنی بھاری مردانہ آواز میں بولا ...اس کے نقوش تنے ہوۓ تھے ...پہلی نظر میں دیکھنے والا یہ ہی کہے گا کہ وہ کبھی مسکراتا نہیں...
"سوری نا میرے پیارے بھائی وہ نا بس میں نیا نیا ہوں نا ..... اور نقضان ہوا تو نہیں نا ." ....
معصومیت سے کہا گیا...
"شاہزیب صاحب جتنی جلدی آپ سدھر جاۓ بہتر ہے .. اور 15 منٹ میں مجھے آفس میں ملو." ....
رُعب دار آواز میں کہا گیا..
"میں نے ایک مہینے کی چھٹی بھائی اس لیے تو کام سے نہیں لی تھی.".......
شاہزیب نے صدمے سے بھرپور آواز میں کہا.......
"شاہزیب............!!!! "
اس کی کڑک دار آواز پر وہ ایک دم سیدھا ہوا....
"یس سر ".
وہ کھڑا ہو کر سلوٹ کے انداز میں ہاتھ ماتھے تک لے گیا اور اگے پڑے ناشتے پر ٹوٹ پڑا ہے ...
"شاہزیب ........... "ایک بار پھر بولا..
" یسسسسس برووو"
منہ بھرا ہوا ہوتا ہے جب اس کی آواز پر اچھل پڑا ہے ..
"آرام سے ناشتہ کر کے آنا آج لنچ بریک نہیں ملے گی ... "
وہ کرسی سے اُٹھ کر اپنے کوٹ کا بٹن بند کرتا ہوا بولا..
"بھائی"!!! وہ چیخ پڑا...