شاہ رات بھر سگریٹ پیتا رہا ...غصے کا یہ عالم تھا کہ نہ وہ نہ علیزے کو کچھ کہہ سکتا تھا اور نہ ہی وہ اپنے مشن کا کچھ کر سکتا تھا...
اپنے مشن کی خرابی پے وہ بہت افسردہ تھا ...عالم تھا..کہ وہ چاہتا تھا تمام گناہوں اور گناہ کرنے والوں کو زندہ درگھور کر دے ..مگر اب اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا..اسے بس ہمت دیکھانی تھی.. ایسے میں ہی فجر کی اذانوں کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ..دو پل وہ آسمان کو گھورتا رہا ..اور اس ہی اثنا میں وہ سگریٹ وہیں پھینکتا ہوا وضو کرنے چلا گیا.... نماز پڑھتے ہوۓ وہ سجدے میں جھکتا چلا گیا اور اپنے رب سے رُجوع کیا...
" بے شک دعاؤں میں تقدیر بدل دینے تک کی طاقت ہے ..."
وہ جیسے ہی نماز پڑھ کے فارغ ہوا ..تو احمد کی کال دیکھ کر فون کی طرف متوجہ ہوا ..
" یار کیا ہوا...اتنی صبح خیریت..."
اس نے اپنی آواز کو ہشاش بشاش بناتے ہوئے کہا...کیونکہ احمد اس سب سے بے خبر تھا... مگر اس کی آواز میں صدیوں کی سی ہی تھکن تھی... مگر وہ اب فلحال کچھ نہ کر سکتا تھا...
" یار تم نے سب کرنا ہے اور فنکشن شروع بھی 5 بجے شام کا ہے...
"ہاں ہاں یار میں سب جانتا ہوں...بس آدھا گھنٹہ دو...میں آرہا ہوں...."
وہ کہہ کر سو گیا .....
اگلی تھکن کے لیے پچھلی اُتارنی پڑتی ہے ...
. . . . . . .. . . .. . . . . . . . . . . .. . . . . . . .. . . .. .
لیزے کی صبح آنکھ ..اذانوں کی آواز پر کھلی ...تو وہ فوراً نماز پڑھتے پڑھتے سجدہ میں رونے لگی...
"اے اللہّ میرے سے بہت بڑی غلطی ہوگی ...میں کیسے تلافی کروں ...میرا مقصد ایسا کرنا نہیں تھا ..مجھے معاف کردے ..."
وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی...جب ایک آواز آئی ...
"تلافی کا موقع آۓ گا ..تم اپنے آپ کو تیار کر لو ...علیزے ارسلان ..."
یہ آواز ضمیر کی آواز تھی ..
. .. . .. . . . .. . . .. . .. . . .. . . .. . . .. . . .. . . .. . ..
آخر کار وہ دن آگیا جس کا احمد کا بے صبری سے انتظار تھا...
بارات کا فنکشن شروع ہوا-
جب علیزے جوکہ پورے کالے رنگ کے جوڑے میں نظر لگ جابے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی ....احمد کے اشارے سے دانیہ کو لانے کو کہا ...جب دانیہ اپنے امی ابو کے ساتھ چلتی ہوئی آئی....وہ لال جوڑا زیب کیے ہوۓ...پری صفت اپنے ماں باپ سے بچڑنے والی ..