قسط 3

4.3K 199 19
                                    

علیزے جیسے ہی یونیورسٹی میں داخل ہوئی تو دانیہ اس کے گلے لگ گئی...
وہ کالے حجاب کے حالے میں تھی ساتھ سی گھٹنوں تک آتا کرتا اور پینٹ پہن رکھی تھی..
"ہاۓ ..لیزے میں بہت خوش ہوں یار ..اب ٹریٹ کو پکی ہے نہ.."
"نہیں..."
علیزے نے سنجیدگی سے کہا...
"مگر کیوں ..."
وہ صدمے میں چلی گئ..لیزے اسے منع کر رہی اسے یقین نا آیا...
"ہاں تم کل نہیں آئی تو اس وجہ سے ..."
بڑی مشکل سے اس نے اپنی ہنسی روکی ...اس کی حیرت بھری صورت دیکھ کر اسے مزہ آرہا تھا...
"ہا... جھوٹی تم خود نہیں آئی اور ..."
دانیہ کہتے جھٹ اس کے گلے لگی اور دونوں گال چومے ...علیزے شرما کر کھکھلا کر ہنسی ...دور سے کسی نے یہ منظر بہت دلچسپ نظروں سے دیکھا...اور محبت سموۓ وہ حجاب کے حالے میں اس کا پری صورت دیکھ رہا تھا...
وہ دونوں کالاس کی طرف بڑھ گئیں ...اور وہ اپنے جس کام کے لیے آیا تھا اس کے لیے چل دیا....
.. .. . . . . . . . . . . .. . . . . .. . . . . .. . . .
ذوہیب آفس کے لیے تیار ہوکر نیچے آیا تو ماں کو ملازموں کو ڈانتتے دیکھ کر مسکرا دیا ...
"سلام میری جان..."
وہ کہہ کر ماں کے گلے لگ گیا ...
"بس بس زوی بیگم آۓ گی تو پھر ہم نے جان وان نہیں رہہنا..."
سمعیہ بیگم نے اس کے سر پر چیت لگائی...
"اچھا ..بھئ کیوں أج بیچاروں کی شامت آئی ہوئی ہے ..."
مسکرا کر ماں کو بازوں کے حصار میں لیا اور کچن سے باہر أیا...
"ہا....بھائی کبھی مجھے تو اتنا پیار نہیں کیا..."
شاہزیب جو ابھی باہر سے آیا تھا ایک دم چیخا..
"ہاہاہاہاہاہا...جاجا یار تو سوتیلا ہے....."
ذوہیب نے قہقہہ لگا کر کہا....
"آج بات بے بات پر مسکرایا جارہا ہے ..لگتا ہے بھابھی کے آنے کی خوشی ہے ..."
"ہن..کیا مطلب "
اس نے نا سمجھی سے پوچھا...
تو سمعیہ بیگم بول پڑھی...
"بیٹا آج ہم آپ کے لیے لڑکی دیکھنے جارہے ہیں...آپ کے بابا کی دوست کی بیٹی ہے ..بہت تعریف سنی ہے باقی جو آپ دونوں کا نصیب..."
"ہمم سہی میں اب چلتا ہوں کام ہے مجھے ..."
سنجیدگی سے کہتا گاڑی کی چابیاں لے کر وہ گھر سے چل دیا...
. . . .. . . . . . .. . . . . . . .. .. .. . . . . .. . . .. . .
انوشے جیسے ہی صبح اُٹھی تو اس کا سر چکرا رہا تھا...رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں ہلکی ہلکی سوجی ہوئیں تھی ..جسم میں تپش محسوس ہوئی...مگر وہ وہم سمجھ کر تیار ہونے چل دی ...ساتھ بستر دیکھا جو خالی تھا مطلب علیزے جاچکی ہے ..
وہ تیار ہوکر آئی اور ناشتہ کرنے لگی جب ماں کو بھکلاۓ دیکھا..جو شاید کچھ کہنا چاہتی تھیں.. تو پوچھ بیٹھی ..
"کیا ہوا امی..."
"بیٹا وہ آج بابا کے دوست آرہے ہیں اپنی بیگم کے ساتھ تو تم جلدی آجانا ...ویسے اچھا نہیں لگتا پھر بندہ .."
"اوکے امی ..ساتھ میں میں کچھ کھانے پینے کا سامان بھی لے آؤں گی ..."
وہ کہتی سر پر ڈوپٹہ ٹکاتی.. ماں کا گال چوم کر گھر سے چل دی ..
. .. . . . . . .. . . . . . .. . . . . . .. . . . .. . . . . ..
دانیہ اور علیزے بچپن کی سہلیاں تھیں ..کالج میں ساتھ رہیں اور اب ڈاکڑ بھی اکٹھے بن رہیں تھیں ..ایسے میں دوستی کے بھی بہت سے حاسد آۓ اور چلے گے ...مگر دوستی ایسی کہ چوٹ ایک کو گلے تو درد دوسرے کو ہو..ان کی دوستی کی مثال جگ دیتا تھا...
جب کہ دانیہ کا تعلق ایک اونچے خاندان سے تھا ..مگر اس میں رتی برابر غرور نہیں تھا..وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی اور اس کے نین نقش بال قابل تعریف ..جب دونوں ساتھ ہوتی تو دنیا رشک بھری نظروں سے دیکھتے ....دانیہ کے والد کا بزنس اویس صاحب اور ان کی بیگم ..نیک اور صالح میمونہ بیگم ...ایک محتصر سا خاندان
علیزے اور دانیہ جیسے ہی کلاس سے نکلی کہ علیزے بول پڑی..
"دانی آج تو پک گے بابا....آخر سمسٹر کم اور موت زیادہ لگ رہی ہے مجھے ..."
اس کا موڈ بری طرح سے خراب تھا ..ایک تو 3 گھنٹے کی کلاس اوپر سے کل کے لیے بھی کام ..افف.
"ہاہایایاہاہا...میری جان لیزے ..میں نے سوچا ہے کیوں نا ہم شوپنگ پر چلے .."
لیزے کی آنکھیں چمک کر مرجھا گئیں...
"یار تم سب جانتی ہو ...اور بھی فحال تو بالکل بھی نہیں ...میری جیب یہ اجازت نہیں دیتی ..."
"ارے بابا ..ونڈو شوپنگ کریں گے اور کھا پی کر واپس آجائیں گے ...چل موڈ سہی کر اور ویسے بھی ..انو آپی کی birthday آرہا تو ہم بس آئیڈیا لے لیتے ہیں ..."
دانی نے جھٹ سے مشورہ دیا ..
"اچھا اوکے ابھی گھر چلیں..."
وہ سر ہلا کر چل دی اور 4 بجے جانے کا پلین مقرر ہوا...
علیزے صبح کے وقت بابا (ارسلان صاحب ) کے ساتھ آتی تھی ..جب کہ واپسی دانیہ کے ساتھ ہوتی تھی...
. .. . . .. . . . .. . .. . . . . . . .,. . ..,.,.,..,.. . . . .
"میجر شاہ ...آپ اس کیس کو لوز کر رہیں ہیں ...آج کی دو بچے اس نشے کی وجہ سے مارے گے ہیں ...آپ سو رہے ہیں کیا ....ہمیں اس وطن کی حفاظت کے لیے بنا یا گیا ہے ..."
فون سے کھنکتی ہوئی...آفسیر حیدر کی آواز آرہی تھی ...
"سر ... میں کام کر رہا ہوں ...دو اڈوں پر ریڈ ڈال دی گی ہے ...ہٹلر نے نشے کے ساتھ ..لوگوں کو بچنا اور اغوا کرنا شروع کر دیا ہے ...میرا وعدہ ہے سر یہ ایسی موت مرے گا کے تمام لوگ عبرت حاصل کریں گے ...اور سر آپ سے اجازت طلب کی تھی ...میں اپنی ٹیم کو اپنے مطابق چلانا چاہتا ہون..."
اس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا ..شہید رنگ انکھوں میں جنوں تھا ...فون کال سے لگاۓ چوڑی پیشانی پھیلائی وہ یہاں سے وہاں کے چلر لگا رہا تھا ...
"اوکے میجر ..I hope so you can do this ..."
"InshaAllah ..I will"
اس نے کڑک سے فون بند کیا ...
"ہٹلر ..ہٹلر ...تمھیں تو میں چھوڑوں گا نہیں ..."
وہ کوئی پاگل جنونی لگ رہا تھا ..اس نے باتھ روم میں جاکر ٹھنڈے ٹھار پانی کے نیچے سر رکھ دیا ...جیسے اس کا دماغ ٹھنڈا ہوا ..اسے خیال آیا ..آج اس کی صمد اور زین سے ملاقات تھی اور بال رگڑتا ہوا ..چل دیا ...
. .. . . . . .. . . . . .. . . . . .. . . . . . .. . . . .. . . . .
انوشے آفس پہنچی تو اس کی طبعیت کافی بوجھل تھی ...دماغ سے کل کی باتیں نہ جارہیں تھیں ...وہ کام میں مصرف تھی ..سر درد سے پھٹ رہا اور آنکھوں میں ہلکی لالی تھی ...جسم میں حرارت کا احساس بڑھ رہا مگر وہ اگنور رہے رہی کہ تب ہی اس کے کیبن میں پڑا فون بجا...اس نے اُٹھایا کہ وہ جھٹ بولا..
"مس انوشے ...جلدی میرے آفس میں آئیں ..."
وہ ذوہیب کے حکم پر گھبرائی ہوئی اس کے آفس پہنی تو وہ وجہہ شخصیت کے ساتھ موجود تھا...سامنے انوشے کو دیکھ کر اس کی تمام حساسات بیدار ہوئیں ...سر پر کالے رنگ کا ڈوپٹہ جماۓ ..گھبرائی ہوئی. سُرخ آنکھوں کے ساتھ دل میں اُتر رہیں تھی کہ وہ نظریں پھیر گیا ..
"مس انوشے ..اس ویک اینڈ کی میری ..میٹنگ کا پروجیکٹ آپ نے تیار کرنا ہے ...اس سے آپ کو پر میننٹ کر دیا جاۓ گا ..بی ریڈی ..اینڈ ڈو یور بسٹ..
Be ready and Do your best ..
میل میں نے کر دی ہے چیک کر لیں ..."
"اوکے سر .."
"اب آپ جا سکتی ہیں.."
. . . . .. . . . . . . .. . . . .. . . . .. . . . .. .. . . . .. . .
ارمغان صاحب اور سمعیہ بیگم تیار ہوکر چل دیے ...ذوہیب آفس تھا..جب کے شاہزیب دوستوں کے ساتھ مال گھوم رہا تھا...
... . . . .. . . . . . . . . . . . . . .. . ....
جیسی ہی گھر کی بیل بجی تو ارسلان صاحب نے جھٹ سے دروازہ کھولا اور اپنے جگری یار کو اتنے عرصے بعد سامنے دیکھ کر گلے لگ گے ..
"اوو بھئی...آب اندر بھی آنے دو.."
ان کا گھر بے شک چھوٹا تھا مگر خوبصورت علاقے میں پیارہ سا گھر تھا ..جہاں سکون تھا....اور سب سے بڑی بات اپنا تھا...
بیگمیاں آپس میں ملی کہ ارسلان صاحب بول پڑے ..
"رومانہ یہ ہے ارمغان علمگیر ...میرے بچپن کا یار 10 سال بعد مل رہے ہیں ہم اور یہ ہیں ان کی زوجہ ..."
تعارف کے ساتھ وہ اند آگے اور باتیں کرنے لگے ..
دونوں بچپن کے دوست تھے کہ دس سال پہلے ارمغان صاحب باہر چلے گے بچے چھوٹے تھے ..دو سال پہلے واپس آئیں اور تمام کام بیٹے کے ہاتھ میں تھا....ان کے کام کی شاخیں دور دور تک پھیلیں ہوئیں تھی ..
. . .. . . . .. . . . . .. . . . .. . . .. . . .. .
"ماما ...."علیزے نے ہلکے سے آواز دی ...وہ جو باتوں میں مصروف تھیں ..چونکیں اور معزرت کر کے اس کے پاس آئیں ..
"ماما میں دانیہ کے ساتھ بازار جارہی ہوں جلد آجاؤں گی ..فکر مت کریے گا ..."
"بچے مہمان آئیں ہیں کیا سوچیں گے ..."
"امی پلیز کافی عرصے بعد پلان بنا ہے اور پھر آپی أئیں گی تو آپ اُن کو ملوادینا ...پلیز"
"اچھا میری جان دونوں دھیان سے جانا .."
رومانہ بیگم نے ماتھا چوما ..حفاطتی دعائیں پھونکیں اور واپس اندر چل دیں..
. . . . . . .. . . . . .. . .. . . . . . .. . . . . . . .
ہٹلر غصے سے پاگل ہورہا تھا ..کل رات سے کالیا غائب تھا ...وہ غصے سے ڈھارا...تو اس ک خاص ملازم بھاگتا ہوا آیا...
"پتہ لگوا...اس (گالی) کا ...مجھے دھوکا دینے والا بچے گا نہیں ..."
"جی سر ..."
"چل دفع ہو جا ...اود میری رات رنگین کروا .."
خباثت سے بولتا ..وہ نشے میں دھت قہقہہ لگانے لگا....
. . . . . .. . . .. . . . .. . . . .. . .. . .. .. . . . . . ... . . . .
باتوں باتوں میں ناجانے باتیں کہاں آ پہنچی کہ ارمغان صاحب بولے...
"ارسلان میں اور سمعیہ تم سے تمہاری امانت مانگنا چاہتے ہیں "
"کیا مطلب ؟"
رومانہ بیگم نے گھنگ لہجے میں کہا...
تو سمعیہ بیگم نے ان کے ہاتھ تھام لیے ...
"بھابھی میں اپنے بڑے بیٹے کے لیگ آپ کی بڑی بیٹی کو مانگنا چاہتی ہوں ..."
"مگر آپ لوگ تو ملے ہی نہیں ہیں..."
"بےشک مگر مجھے اُمید ہے کہ وہ ایک اچھی ..اور نیک بچی ہوگی ..."
"آپ لوگ پہلے اس سے مل لیں ..پھر کوئی بات کریے گا ...مجھے میری بچی کی خوشی اور عزت عزیز ہے .."
سارے معاملے میں ارسلان صاحب پہلی بار بولے ..کہ اتنے میں گھر کی بیل بجی ...
رومانہ بیگم نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے انوشے کھڑی تھی ...اس کی حالت قابل رحمت تھی ...طبعیت کی ناسازی آنکھوں سے واضح تھی ...کہ رومانہ بیگم نے اسے مختصر بتایا کہ اس کے بابا کے دوست اور بیگم ہے تو مصلحتاً ملنے چل پڑی ..
اس نے ڈائنگ روم میں داخل ہوکر سلام کیا تو سمعیہ بیگم اور ارمغان صاحب چونکے ..دونوں بڑے پیار سے ملے ...سمعیہ بیگم کی تو اس سے نگاہیں نہیں ہٹ رہیں تھی ...بےشک وہ حسین ,پردہ دار ,با حیا ,پڑھی لکھی , ہر طرح کی خوبی اس میں تھی ....
"بچے میرے پاس آؤ ..."سمعیہ بیگم نے اسے بولا کر پاس بٹھایا اور ہاتھ پکڑا تو انھیں محسوس ہوا جیسے جلتے ہوۓ کوہلے کو ہاتھ لگا لیا ہو ...
"بچے آپ کو تو بہت تیز بخار ہے "
"نہیں آنٹی میں ٹھیک ہوں ..."
دونوں نے کچھ سوال کیے اور اسے آرام کرنے کا کہا ...تو ایک بار پھر سوال ڈالا.
"بھائی صب ..بھابھی ہمیں آپ کی بچی پسند ہے ..بےشک آپ نے بہت نازوں سے پالا ہے ..مگر امید ہے کہ آپ ناامید نہیں ہوں گے ...باقی بچوں کے نصیب .."
ارمغان صاحب ان کے بغل گیر ہوۓ تو بولے..
"جواب وہ دینا جو تمھیں تمہاری بیٹی کے حق میں بہتر لگے ...اور ہماری دوستی ہمیشہ ایسے ہی رہے گی ..آب تو بھی کچھ بول دے..."
وہ بس مسکر رہے تھے ..بھراۓ لہجے میں بولے ..
"بیٹی کا باپ ہوں ..کیا کہوں اب ..اللہّ میری بچی کے حق میں بہتر کرے"
اور اس وہ لوگ بھی واپسی کے لیے چل دیے ....اور انھیں کچھ دن بعد کھانے کی دعوت دے کر گے...جو خوشی خوشی قبول کر لیا گیا...
. .. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .. . . .. . ..
علیزے مزے سے آئسکریم کھاتی ہوئی ....دانیہ کے ساتھ مال میں داخل ہوئی ....اس کی وقت وہاں سے گزرتے بہت سے لوگوں کی نظریں اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھی وہ سب سے بےنیاز اپنے آپ کو ڈھانپے ہوۓ تھی ...دو شہید رنگ آنکھیں اس کے چہرے پر نظریں جماۓ ہوۓ تھی...بے اختیاری میں اس نے ناجانے اُس کی کتنی تصویریں کھینچ ڈالی ...شاید وہ پہلی نظر میں عشق کرنے والوں میں سے ایک تھا...
"لیزے یار بس کرو لوگ دیکھ رہے ہیں ..."
دانیہ کو کسی گڑبڑ کا احساس ہوا تو اس نے اسے ٹوکا ...
"کیا مطلب ..."
اس نے معصومیت سے سے آنکھیں پٹپٹائیاں....
"یار دیکھو وہ شخص کب سے گھوری جارہا ہے ہمیں ...اور وہ کتنا خوفناک ہے ...."
شہید رنگ آنکھیں جو اس پر نظریں جماۓ ہوئیں تھیں ..اس کے انداز پر کھٹکی مگر وہاں ہی اس کے بے اختیار روکنے پر ٹھٹکی بھی ..جب اس نے علیزے کے نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو آنکھوں میں سُرخی ڈورنے لگی ...
. . . . .. . . . . . . . . . . .. .. . . .. . . . . .. . . . .
"سر ..."
اس کے ملازم نے ڈرتے ڈرتے اسے پکارا ...
"کیا تکلیف ہے ابے ..."
وہ جو حرام مشروب اپنے اندر دکھیل رہا تھا ..بولا..
"سر ...آج مال میں جانا ہے ..نئے مال کی تلاش میں ..."
"(گالی) ....اب یہ کام ہٹلر کرے گا ....کالیا کی جگہ پر میرے لیے وفادار تلاش کرو ...(گالی ) مجھے دھوکا دیا ..میں اُس کی بوٹی بوٹی کر دوں گا ..."

زندگی کا سفر از علمیر اعجاز  Completed✅Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz