ارسلان صاحب گھر میں داخل ہوۓ تو لاوئنج کے درمیاں میں ہی لڑکیوں کا جھڑمٹ نظر آیا جو انوشے کو گھیرے بیٹھیں تھیں . اور علیزے اس کے گلے میں بہائیں ڈالے اسے تنگ کرنے میں مصرف تھیں .. انوشے بالوں کی فرنچ چوٹی بناۓ جس میں سے گستاخ لٹیں ...اس کے گالوں کا بوسہ لے رہیں تھیں ...اور پلے رنگ کے جوڑے میں بغیر میک آپ کے اس کی رنگت چمک رہی تھی ..
علیزے کی جیسے ہی نظر بابا (ارسلان صاحب) پر پڑی تو دوڑتی ہوئی ..ان کے گلے لگ گئی..وہ نارنجی رنگ کے انرکلی فراک میں سُرخ اور گلابی رنگت کے ساتھ دھمک رہی تھی ...آخر اس میں سب کی جان جو بسی تھی ...مگر بابا کے ہاتھ پر ہوئی پٹی دیکھ کر وہ چیخ اُٹھی ..
"بابا جان یہ کیا ہوا ہے .."
"کچھ نہیں میری جان ..بس بائیک سے چکرا کر گہر گیا .."
"بابا آپ اپنا دھیان رکھا کریں نا .."
انوشے بھی فکرمندی سے بولی ..
"بس بچے بازار جارہا تھا ...اب سارے کپڑے وغیرہ بھی رہ گے ہیں..." وہ افسوس سے بولے..
"اوو ہووو ..انکل میں بھی تو آپ کی بیٹی ہوں نا ..میں اور لیزے جا کر لے آتے ہیں...اور لیزے کی پسند بھی بہت اچھی ہے تو ہم دلہا بھائی کے لیے بھی سوٹ پسند کر لیں گے..اور آپی کا کل کق سوٹ بھی لے آئیں گے ..."
"چلو یہ تو اچھا کہا دانی بیٹا..."
رومانہ بیگم نے بھی اس کے مشورے کو سہرایا....لیزے کو ویسے بھی باہر نکلنا چاہیے تو وہ کچھ سیکھے گی ...
لیزے منہ بناتی ححاب لینے چلی گئی کیونکہ اس نے آپنے لمبے بالوں کی چھٹیا کی شکل دے رکھی تھی ...."
. .. .. . . . .. . . . . . . .. . .. . . . .. . . . . .. . . . .
"ہیلو ..جی بھائی ..جی میں مال ہی جارہا ہوں ..امی کا سوٹ بھی لے لوں گا ..."
شاہزیب نے زچ ہو کر کہا ..کیونکہ ذوہیب کی کوئی اٹھویں کال تھی ..
"تیری تو بیوی کا اللہّ حافظ شانی ...تجھے تو کپڑوں کا کوئی اندازہ نہیں ہے اسے تحفے کیا دیا کرے گا .."
"خیر برو ..اس کی آپ فکر ن کریں ابھی آپ کا وقت ہے ...اور جہاں تک کپڑوں کی بات تو یہ تحفے تو سستے پرانے ہوگے ..میں تو اپنی بیگم کو سرپرازنگ گفٹس دیا کروں گا .."
"اوو ..بغیرت ہو گیا ہے تو .."
زوئی نے کہا تو دونوں کا قہہقہہ
گونجنے لگا .."اللہّ میری اولاد کو ہمیشہ خوش رکھے .."
دروازے سے گزرتی سمیعہ بیگم نے اس کی ہنسی کی آواز سن کر دعا دی ..جو شازونادر ہنستا تھا ...مگر نا جانے ماضی کی تلخیاں شاید خوشی کا باعث بن جائیں...
. . . . . . . . . .. . . . . .. . . . . . . . .. . . . . . . .........
"Excuse me ..."
وہ جو کب سے دکانوں کی خاک چھان رہا تھا ..آخر کار تلملا اُٹھا اور پاس کھڑی لڑکی کو مخاطب کر بیٹھا...
علیزے جو ماں ..بہن کے لیے سوٹ پسند کر رہی تھی ..کسی لڑکے کی اپنے پیچھے سے آواز سن کر تھڑ تھڑ کانپنے لگی ...
وہ جیسے ہی پیچھے موڑی تو اس شخص کو سوالیہ نظروں سے دیکھا..
"میم کیا آپ میری مدد کر سکتی ہیں کہ میں اپنی ماما کے لیے کون کا سوٹ لوں .."
مقابل کوئی اور نہیں شاہزیب ارمغان تھا..اور وہ اسے پہچان گیا تھا ...
"نہیں کیوں میں یہاں لوگوں کی ہیلپ نہیں کرنے آئی..اور آپ ہمارے ہیں کون ..."
ناجانے کہاں سے اس میں اتنی ہمت آئی مگر آ گی ..اور وہ یہ سب بول گئ.....وہ شاہزیب کی نسبت کم ہائیٹ کی تھی . وہ 2'"6'..ہائیٹ کے ساتھ...وہ کھڑا تھا جب کہ لیزے 4"5 ...مگر اس کے سامنے بہت چھوٹی لگ رہی تھی ..کہ شاہزیب جھکا ...اور مسکرا کر بولا...
"دیکھیں میم ایک سوٹ ہی تو ہے بتا دیں کون سا اچھا ہے ..."
"میں لمبے لوگوں سے بات نہیں کرتی ..."
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے ..اس کی بات سن کر شاہزیب قہہقہہ لگا گیا ...
"لگتا ہے ..رولنمبر 7 ..یعنی مس علیزے ارسلان نے مجھے پہچانا نہیں ..."
"کون کون ہو تم انکل ..."
علیزے کی ہمت جواب دینے لگی ...تو وہ ایکدم جو منہ میں آیا بول پڑی ...جب کہ شاہزیب کا تو یہ ہال تھا کہ کاٹو بدن اور لہو نا نکلے ...وہ چیخا ..
"انکلللللللل....."
ابھی شاہزیب مگر دونوں کو اپنے پیپچھے سے ہنسنے کی آواز نے ایسا نہیں ہونے دیا ...
. . .. . . . . . .. . . .. . . . . . . . .. . . . .. . . . . .. . . ..
وہ جو شیشیے کے آگے کھڑا اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا ..بغیر قمیص کے اس کا جسم پر موجود نشان واضح تھے ...وہ چوڑہ سینہ ..واضح پیکس ...مگر دل کا درد بہت تھا ..اس کا ہاتھ بے اختیار پر کندھے کے پاس گیا ...اور موجودہ جگہ پر ہات لگنے سے وہ اذیت سے مسکرایا...اور اسے پکار اُٹھا..
"گڑیا...."
ماضی...
"دیکھو ..میری گڑیا اور شانی کو تم جانے دو ..انھیں کچھ نا کہو .."
وہ 6 سے 7 سال بچہ اتنی سی عمر میں اپنی زندگی اپنے عزیزوں کے لیے واقف کرنے کو تیار تھا...
"چل بے اس کی بات سنتے ہیں ...پہلے اس گڑیا کا کام تمام کرو ...."
وہ شیطان قہہقہہ لگاتا ہوا بولا ...
"پلیز انکل پلیز ..مجھے مار دیں .اس کو کچھ نا کہیں ..."
اس نے روتے بلکتے شانی اور گڑیا کو دیکھ کر کہا ....
"اس کا منہ بند کروا تو ..گالی ...انسان ...کسی کام کا نہیں ہے .."
"جی سردار..."
اور بس اس کے حکم پر اس ظلم کے ملازم نے اس کے ساتھ ظالموں والا سلوک کیا ...اس 7 سالہ بچے کو چمڑے کی بنی بلٹ سے مارنا شروع کیا ..وہ روتا رہا چلاتا رہا ...مگر وہ درندے قہہقہے لگاتے رہے ....
"اب بول اپنی اس معشوقہ کے لیے ..عمر دیکھ آیا مجھ سے ...حمید بھا سے جانتا نہیں ہے تو ...میں ہوں بھا ...اور یہ دیکھ یہ میری اولاد کتنی مضبوط ہے یہ سیکھ رہی ہے مجھ سے اور تو ...کیا کر رہا ہے ..زمیں پر پڑا ہے ..."
وہ ایک ظالم جابر شخص نے اپنے 8 سالہ بیٹے کو آگے کیا "یہ ہے میری اولاد صارم ..یہ بھا کی اولاد ہے ..یہ تجھے بتاۓ گا کہ ہاتھ کیسے چلاتے ہیں ...جاؤ جا کر اسے لڑکے کو مار دو ..میرے شیر ..."اس نے شانی کی طرف اشارہ کیا ...
تو زوئی چیخا ...