قسط نمبر 1 وہ پچھلے کئی مہینوں کی طرح آج بھی ایماندار آفسروں کی طرح اپنی ڈیوٹی پر نائن ایم ایم کی رائیفل تھامے چوکنا حالت میں کھڑا تھا اس نے ایک نظر اپنے آس پاس ڈالی تھی جہاں جوان اپنی اپنی بندوقیں سمبھالے ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔وہ سب کشمیر باڈر پر کھڑے تھے جس کے دوسری جانب مقبوضہ کشمیر تھا۔ دور دور تک برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ نظر آتے تھے کچھ پہاڑوں کی برف پگھل کر کسی آبشار کی مانند پہاڑ سے گرتی ہوئی دیکھائی دے رہی تھی۔ اس قدر مکمل منظر تھا کہ وہ کتنی دیر بغیر آنکھیں جھپکائے اسے دیکھتا رہا تھا۔
" سر!"
شمس نے آکر اسے سیلوٹ کیا تھا۔
" جی کیپٹن شمس بیس سے کیا رپوٹ ہے؟"
اس نے اپنی مکمل توجہ کیپٹن شمس کی طرف مبذول کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
" سر! رپوٹ کچھ اچھی نہیں ہے دشمنوں نے کشمیری گھروں پر آج ایک بار پھر سے فائرنگ کردی ہے۔"
شمس نے ابھی صرف اتنا ہی کہا تھا کہ اس نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔
" کیپٹن شمس پوری بات بتائیں پلیز!"
اس نے ذرا زور دے کر کہا تھا۔
" سر! اس دفعہ اطلاع یہ بھی ہے کہ وہ لوگ کشمیری لڑکیوں کو اٹھا کر لے جارہے ہیں۔ کتنی ہی ماوں، بہنوں کی عزتیں غیر محفوظ ہیں۔"
کیپٹن شمس نے نظریں نیچی کرکے ذرا جھجھکتے ہوئے کہا تھا کیونکہ اس بات کے بعد وہ اس کا ردعمل کافی حد تک جان گیا تھا۔
" ہاو ڈئیر دے بلڈی ایڈیٹس ڈو ڈیٹ آئی سوئیر آئی ڈونٹ سپیر دیم آئی کیل دم بلڈی ڈیم مونسٹرز۔"
اس نے اپنے دائیں ہاتھ کا مکا بنا کر بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتے ہوئے کہا تھا۔اس کا چہرہ غصے کی زیادتی سے سرخ پڑ رہا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ نیچے چٹائی پر بیٹھی ایک لکڑی کے فریم میں کپڑا لگا کر سوئی دھاگے سے خوبصورت کشمیری کڑھائی کررہی تھی جب نگت آرا اپنا سر سہلاتی ہوئی اس کے قریب آ بیٹھی تھیں۔
" کیا ہوا اماں سر میں کیا زیادہ درد ہے تیرے ایک کپ چائے بنا دو کیا تجھے؟"
اس نے وہ فریم میں لگا ہوا کپڑا ایک جانب رکھا اور فکر مندی سے اپنی ماں کو دیکھا جو اس پوری دنیا میں اس کا واحد اکلوتا سہارا تھی۔
" ارے نہیں پگلی چائے کی ضرورت نہیں ہے تو اپنی چادر مکمل کرلے تھوڑی سی تو رہ گئی بس پھر اسے اوڑھ کر کام پر جائی خوبصورت لگے گی۔"
انہوں نے فریم میں لگی سفید چادر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔جس کے خوبصورت کہنے پر زارا خوشی سے مسکرائی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
زارا نور کشمیر کی رہنے والی ایک خوبصورت ننھی کلی تھی جس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں اور بورھے گھنگھریالے لمبے بال تھے جو اس نے ہمہ وقت سر پر باندھے رومال کے نیچھے چھپائے ہوتے تھے سرخ گندمی رنگت اور تیکھے نقوش کی مالک وہ درمیانے قد کی دوبلی پتلی لڑکی تھی۔ اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کا باپ مرگیا تھا اس کی ماں ایک چھوٹے سے جھونپڑے نما مکان میں اس کے ساتھ رہتی تھی جہاں دو کرسیاں اور ایک چٹائی کے علاوہ کسی بھی قسم کا کوئی سامان نہیں تھا۔
زارا کی ماں نگت آرا لوگوں کے سوٹوں اور تھانوں پر کشمیری کڑھائی کرتی تھیں جس سے جو چند پیسے ملتے وہ ان دونوں کے گزر بسر کے لیے کافی تھے۔
زارا کو بچپن سے پڑھنے کا بہت شوق تھا اس لیے اس کی ماں نے اسے وہی ایک قریبی سکول میں داخل کرایا تھا جہاں سے اس نے بے حد اچھے نمبروں میں میٹرک پاس کیا تھا اور اب وہ سال دوئم کے پیپر دے کر اپنی ماں سے ورثے میں ملے ہنر کو سیکھ کر کام پر جاتی تھی تاکہ اپنے اور اپنی ماں کے گزر بسر کا کچھ انتظام کرسکے۔ بےحد کشیدہ ماحول میں بھی وہ بہت بردباری سے اپنے چھوٹے سے جھونپڑے میں رہ رہی تھی ایسا نہیں تھا کہ وہ بے خوف تھی وہاں کی ہر لڑکی کی طرح اس کے اندر بھی خوف کنڈلی مارے بیٹھا ہوا تھا مگر وہ عام لڑکیوں کی طرح ہار ماننا پسند نہیں کرتی تھی وہ عزت کی حفاظت کے لیے اپنی آخری سانس تک لڑنا جانتی تھی اور اسی باعث وہ اب تک محفوظ تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کے اس پہر وہ جس پوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی ابھی بھی وہ تصویر تھام کر ویسے ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے آنسو اس کے گال بھگو کر اس فریم پر گررہے ہیں مگر وہ مسلسل ساکن بیٹھی ہوئی تھی جیسے سانس بھی لے گی تو اس کے دل کا چور اس کے برابر میں لیٹی اس کی بہن پر عیاں ہوجائے گا مگر صاریہ خان اس بات سے انجان تھی کہ جس راز کو اپنے دل میں وہ دو سال سے چھپاتی آرہی ہے وہ اس کی بہن بہت اچھے سے جانتی ہے پر ہائے رہے بے خبری صاریہ بھی اسی بے خبری کی کیفیت میں تھی۔ وہ ابھی بھی ویسے ہی بیٹھی ہوئی تھی جب زیبا کی آواز سن کر وہ ٹھٹکی تھی اور اس کے نکلتے ہوئے آنسو وہی پر تھمے تھے۔
" آپا! ہلکان مت ہو تمہارے دل کی چاہ راتوں کو تصویر تھام کر آنسو بہانے سے پوری نہیں ہوجائے گی دعا کرو جس کے لیے آنسو بہا رہی ہو وہ تمہاری چاہت قبول کرلے ورنہ ٹھکرائی گئی تو سمبھلنا مشکل ہوگا۔"
وہ جیسے اپنی چھوٹی بہن کی باتیں سن کر حیرت میں مبتلا ہوئی تھی اس نے جلدی سے گھوم کر اس کی جانب دیکھا تھا جو آنکھیں کھولے اسی کو دیکھ رہی تھی۔
" تم۔۔تمہیں کیسے معلوم؟"
اس نے بے یقینی کی کیفیت میں گھر کر زیبا سے پوچھا تھا؟"
" کیا مجھے کیسے معلوم کہ تم دو سال سے اپنے اس دل میں جبرئیل بھائی کو بسا کر بیٹھی ہوئی ہو اور ہر رات ان کی تصویر تھام کر آنسو بہاتی ہو کہ وہ تمہارے ہوجائیں۔"
وہ تو جیسے سب جانتی تھی۔ صاریہ کو زبردست حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔
" پر آپا تم نصیب سے کبھی بھی نہیں لڑسکتی تمہیں وہی ملے گا جو تمہارے مقدر میں ہوگا۔"
وہ اس سے چھوٹے ہوتے ہوئے بھی کسی بڑی بی کی طرح اسے سمجھا رہی تھی۔
" تم کیا سمجھتی ہو انسان کو وہی ملتا جو مقدر کا لکھا ہوتا ہے؟ نہیں زیبا بی بی یہ تمہارے جیسے لوگوں کی سوچ ہوتی ہے میں اپنا مقدر خود بنانے پر یقین رکھتی ہوں جو چیز مقدر میں ہو اچھی بات ہے جو نہ ہو اسے چھین کر اپنا بنالینا خود مقدر بنانا ہوتا ہے اور یہی میں جبرئیل کے لیے بھی سوچتی ہوں اس نے میری محبت قبول کرلی تو ٹھیک ورنہ میں اسے اتنا مجبور کروں گی کہ اس کے پاس مجھے اور میری محبت کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارا نہیں بچے گا۔"
اس نے سختی سے اپنے آنسو رگڑے تھے زیبا کو حیرت کے ساتھ ساتھ افسوس نے بھی گھیرا تھا کم از کم وہ اپنی بہن سے اس سب کی توقع نہیں کررہی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ اپنی گن سائیڈ پر رکھ کر جھک کر اپنے بوٹ کا تسمہ باندھ رہا تھا پاس ہی فوجی جوان گشت کرتے دیکھائی دے رہے تھے اس نے اٹھ کر ادھر ادھر نگاہ ڈالی تھی پاس ہی فوجی کیمپ لگے ہوئے تھے سردی اپنے پورے جوبن پر تھی رات آسمان پر آہستہ آہستہ گہری ہورہی تھی اور اسی کے ساتھ سردی بھی بڑھ رہی تھی کیمپوں کے بیچ میں چند لکڑیاں جمع کرکے آگ لگائی گئی تھی جو ماحول کو قدرے گرم رکھے ہوئے تھی۔
اس کی وردی کی جیب میں رکھا ہوا وائیرلیس ایک دم چیخا تھا۔
" 212 کیپٹن موحد رپوٹینگ اینیمیز اٹیک ایٹ کشمیرز ہاوسیس الارٹ دا سکاوڈز۔"
اور اسی کے ساتھ خاموشی چھائی تھی مگر یہ صرف چند لمہوں کی تھی اس کے بعد فضا میں فائیرنگ کا شور بلند ہوا تھا۔
" ٹیک یور پوزیشنز !"
اس نے وہاں موجود تمام فوجیوں کو لیڈ کرتے ہوئے تقریبا دھاڑ کر کہا تھا۔ لمہے کے ہزارویں حصے میں وہاں بھگ دوڑ مچ چکی تھی اور سب اپنی اپنی بندوقیں سمبھالے اپنی جگہیں لے چکے تھے ان سب میں وہ سب سے آگے تھا جو اس فوجی دستے کی کمانڈ سمبھال رہا تھا۔ تقریبا ایک گھنٹے کے بعد صورتحال قابو میں آئی تھی بہت سارے دشمنوں کو اس نے اپنے فوجی دستے کے ساتھ مل کر جہنم واصل کیا تھا اس ساری صورتحال میں اس کی کمانڈ میں بہت سے فوجی زخمی ہوئے تھے لیکن انہیں فوری کیمپوں میں جاکر طبعی امداد مہیا کی گئی تھی۔
رات کے اس پہر فضا میں ابھی ابھی گولیوں کی ایک مخصوص خوشبو موجود تھی اور اسی کے ساتھ اڑنے والا دھواں بھی وہاں ہونے والی واردات کی کارستانی بیان کررہا تھا۔ وہ اپنی وردی کے بازو فولڈ کیے دونوں ہاتھ کمر پر ٹکا کر صورتحال کا جائزہ لینے میں مگن تھا جب اچانک اس کی نظر سامنے سے بھاگ کر آتی ہوئی لڑکی پر پڑی تھی۔ بکھرے بال کندھے پر آدھا لٹکا ہوا رومال جو شاہد سر پر تھا خون آلود کپڑے اور بغیر دوپٹے کے وہ آندھا دھند بھاگتی ہوئی ان کی جانب آرہی تھی وہ حیرت کا مجسمہ بنا اس لڑکی کو بھاگتے ہوئے دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ خوف سے پیلا پڑ رہا تھا اور شاہد کئی لمہے پہلے بہنے والے آنسو اب بہہ کر خشک ہوچکے تھے لیکن ان کے نشانات ابھی بھی اس کے سرخ چہرے پر موجود تھے جو دور سے ہی میجر جبرئیل خان نے اپنی عقابی نظر سے ملاحظہ کرلیے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پھولوں کے شہر پشاور کی گلیوں میں ایک حسین صبح نے اپنے پر پھیلائے تھے۔ خان ہاوس میں سناٹوں کا راج تھا سب سردیوں کی حسین اور سرد صبح کی وجہ سے اپنے اپنے بستروں میں دبکے بیٹھے تھے ایسے میں صرف عشرت بیگم واحد تھیں جو لاونج میں صبح صبح آتش دان کے قریب بیٹھ کر قرآن پاک پڑھ رہی تھیں۔ گھر کی سب کھڑکیاں دروازے سردی کے باعث بند تھے ہر کھڑکی کے پردے پوری طرح سے برابر تھے جس کے باعث اس لاونج میں قدرتی روشنی کا کوئی شائبہ موجود نہیں تھا صرف ہلکی سی پیلی بتی جل رہی تھی اور اسی کے ساتھ آتش دان کی دہکتی ہوئی آگ کی روشنی تھی۔
" اسلام علیکم بھابھی!"
انہوں نے آواز پر قرآن پاک سے سر اٹھا کر دیکھا تو ماہ رخ بیگم مسکراہٹ سجائے کھڑی تھیں۔
" وعلیکم اسلام ماہ رخ نماز پڑ لی کیا تم نے؟"
انہوں نے سلام کے جواب کے ساتھ ان سے اپنا روز پوچھنے والا سوال دوبارہ دھرایا تھا جس پر انہوں نے اپنا روز کا دیا جانے والا جواب ہی دھرایا تھا۔
" کیسی باتیں پوچھتی ہیں بھابھی نماز بھی بھلا کبھی چھوڑوں گی۔"
پھر دونوں مسکرائی تھیں۔
" بچے اٹھ گئے؟"
اب کی بار عشرت بیگم نے قرآن پاک بند کر کے چوم کر اس پر غلاف چڑھاتے ہوئے پوچھا تھا۔
" زیبا اور سبتین اٹھ گئے ہیں لیکن صاریہ ابھی تک سورہی ہے پتہ نہیں اس لڑکی کی ایسی کونسی نیندیں ہیں جو پوری ہونے میں نہیں آتی۔"
وہ تاسف سے سوچتے ہوئے کہ رہی تھیں۔
" اٹھ جائے گی ابھی کونسا سورج سوا نیزے پر آگیا ہے۔"
انہوں نے ہمشہ کی طرح صاریہ کی حمایت کی تھی۔ جس پر ماہ رخ بیگم نے خفگی سے انہیں دیکھا تھا۔
" اتنا مت سر چڑھائیں کہ اتارنا مشکل ہوجائے بھابھی میری اولاد ہے وہ اچھے سے جانتی ہوں اسے کسی کا کوئی احسان نہیں یاد رکھے گی وہ۔"
انہوں نے اپنی آنکھوں میں آئی ہوئی نمی کو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔
" اللہ کو مانو ماہ رخ کیوں صبح صبح دل دہلانے والی باتیں کررہی ہو بچی ہے وقت کے ساتھ سمجھ جائے گی۔"
انہوں نے پھر سے ان سے کہا تھا۔
" اس سے چھوٹے بہن بھائی سمجھ چکے ہیں مگر وہ ابھی بھی ادھر ہی ہے۔"
" اچھا بس چھوڑو جاو اٹھاو جاکر اسے میں زرا اپنے بچوں کو دیکھ لوں ۔"
وہ کہتے ہوئے قرآن پاک ہاتھ میں لے کر وہاں سے اٹھ کر اندر کی جانب بڑھیں تھیں جبکہ ماہ رخ بیگم کے ذہن میں پھر سے صاریہ لہرائی تھی۔
عشرت جہاں خان ولا کی سربراہ تھیں ان کے شوہر محمد ابراہیم خان کی تیرہ سال پہلے شہادت ہوئی تھی اور ان کی شہادت کے صرف ایک سال بعد ہی ان کے دوسرے بھائی اسمائیل خان نے بھی ایک کیس میں لڑتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا تھا۔ ماہ رخ اور عشرت بیگم کا حوصلہ غضب کا تھا جنہوں نے فوجیوں کی بہادر بیویاں ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کمال ہمت کا مظاہرہ کیا تھا اور خان ولا کی چھت تلے اپنے بچوں کی پروش کی تھی۔
عشرت جہاں کے اور ماہ رخ دونوں کے ہی تین تین بچے تھے۔ عشرت جہاں کے دو بیٹے اور ایک بیٹی جب کہ ماہ رخ کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ جبرئیل خان عشرت جہاں کا سب سے بڑا بیٹا تھا اور ان کے بعد خان ولا کا سرپرست بھی وہی تھا۔ تیرہ سال پہلے باپ کی شہادت کے بعد وہ اپنے دل میں ایک ہی خواب اور جذبے کے ساتھ جوان ہوا تھا اور وہ خواب اور جذبہ ملک کی خاطر لڑنے اور شہادت حاصل کرنے کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ اس نے بچپن سے اپنے باپ سے ملک سے محبت کرنا سیکھا تھا اور یہ محبت اب عشق کی صورت اختیار کرکے اس کے رگ و پا میں بس چکی تھی اور وطن کے لیےجبرئیل خان کوئی عام مرد ہر گز نہیں تھا وہ ایک دھاڑتا ہوا خطرناک شیر تھا جس نے بہت کم عرصے میں دشمنوں پر اپنی دھاک بیٹھا لی تھی اس کی ڈیوٹی اور پوسٹنگ مختلف جگہوں پر ہوتی رہتی تھی اور ہر دفعہ وہ ایک نئے عزم کے ساتھ جاتا تھا۔
وہ ایک پراثر شخصیت کا مالک تھا سیاہ سلکی بال جو ہمشہ فوجی کٹ میں کٹے ہوتے اور سائیڈ مانگ نکال کر سلیقے سے سیٹ کیے رہتے تھے۔ سیاہ گھور آنکھیں جن پر ہلکلے گرے رنگ کی شبہی رہتی تھی تیکھی مغرور ناک جو غصے سے ہمشہ تنی رہتی تھی اور عنابی ہونٹ جو کم کم ہی مسکراتے تھے ورنہ ڈیوٹی ٹائم پر غصے سے پینچے رہتے تھے سرخ و سپید رنگت پر سیاہ ہلکی داڑھی تھی جو اس کی سحر انگیز شخصیت کو اور بھی جازب بناتی تھی۔ جب وہ وردی پہن کر کسی شاہراہ سے اپنی فوج کی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے گزرتا یا ڈرائیور کے ساتھ پیسنجر سیٹ پر اپنے سیاہ شیڈز لگا کر گزرتا تو نجانے کتنی ہی لڑکیوں کا دل دھڑکا جاتا تھا۔
جبرئیل سے چھوٹا آرون تھا جو کہ سی ایس ایس کرنے کے بعد پولیس ٹیرنگ کررہا تھا بھائی سے تھوڑا کم مگر سحر پورا رکھتا تھا اپنی شخصیت میں اور پھر ان دونوں سے چھوٹی تھی آنیہ جو اپنے دونوں بھائیوں کی لاڈلی تھی۔ ماہ رخ کی دو بیٹیاں صاریہ اور زبیا جبکہ ایک بیٹا سبتین تھا جو آرون کے ساتھ ہی سی ایس ایس کے بعد پولیس ٹریننگ کررہا تھا۔ صاریہ ایم۔بی۔اے جبکہ زیبا میڈیکل کے تیسرے سال میں تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کرنل خاور ایک بار پھر بے چینی سے اپنے یونٹ میں ٹہل رہے تھے کیونکہ یہ ایک ہفتے میں تیسری بار ہوا تھا کہ کشمہر باڈر کے قریب فائرینگ ہوئی تھی وہ مطمعن تو تھے کہ جبرئیل سمبھال لے گا مگر انہیں اندر ہی اندر کوئی خوف مسلسل ڈس رہا تھا۔
انہوں نے بے چینی سے اپنی میز پر پڑا ہوا ریسیور کرائیڈل سے اٹھایا اور کرنل احسن کا نمبر ڈائیل کیا۔
تقریبا تیسری بیل پر فون اٹھا لیا گیا تھا۔ دوسری طرف سے احسن کی پرجوش آواز ابھری تھی۔
" اسلام علیکم سر!"
" وعلیکم اسلام احسن کیسے ہو تم؟"
انہوں نے ریلیکس انداز میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر پوچھا تھا۔
" الحمدواللہ سر آپ بتائیے؟"
احسن نے بھی ہلکے پھلکے انداز میں ان کا حال احوال پوچھا تھا۔
" میں کچھ پریشان ہوں احسن!"
کرنل احسن کرنل خاور کی پریشان کن آواز باآسانی سن سکتے تھے اس لیے ایک پل کو تو وہ بھی گڑبڑائے تھے۔
" احسن تمہاری پوسٹنگ اب کدھر ہورہی ہے؟"
انہوں نے اسی لہجے میں ان سے پوچھا تھا۔
" ایبٹ آباد ہوگئی ہے سر بس ایک دو دن میں جوائینگ دینی ہے۔"
کرنل احسن نے اپنی حالیہ ہونے والی پوسٹنگ کے متعلق انہیں بتایا تھا۔
" میری بات دھیان سے سنو احسن!"
انہوں نے اپنے لہجے کو حتی المکان سرگوشیانہ بنانے کی کوشیش کی تھی۔
" تم آج رات ایبٹ آباد جانے کی بجائے جبرئیل کے پاس سیدھا کشیمیر جاو گئے اور وہاں اس کے ساتھ وہاں کی صورتحال سمبھالو گئے آئے روز کی فائرینگ کی وجہ سے وہاں صورتحال کافی کشیدہ ہے اس لیے تمہاری پوسٹنگ میں نے کشمیر کردی ہے ایک گھنٹے کے اندر تمہیں تمہارا ٹرانسفر لیٹر مل جائے گا۔"
انہوں نے اس سے کہا تھا جس پر وہ پہلے تو کافی دیر حیرت کا شکار رہا تھا لیکن پھر یس سر کہ کر اس نے چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد کال کاٹ دی اب وہ کافی حد تک پرسکون تھے لیکن انہیں اب جبرئیل سے ملنے خود کشمیر جانا تھا تیرہ سال پہلے والے واققات نے ایک بار پھر سے انہیں تکلیف پہنچائی تھی۔
کچھ معاضی کی یادیں کچھ گزرے واقعات
کچھ بیتے لمہے اور کچھ تکلیف دے لمہات
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ لڑکی مسلسل بھاگتی ہوئی اس کی جانب آرہی تھی اس کی چال میں جبرئیل کو ایک عجیب سی لڑکھڑاہٹ کا احساس ہوا تھا وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھ رہی تھی وہ جبرئیل کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی اتنی کہ اس میں اور سامنے کھڑی لڑکی میں صرف چند انچ کا فاصلہ تھا۔ وہ غور سے جبرئیل کو دیکھ رہی تھی اور صرف ایک لمہا لگا تھا جب وہ جبرئیل کی بانہوں میں ہوش و خرد سے بیگانہ جھول گئی تھی۔
اس نے ایک دم ہڑبڑا کر اسے تھاما تھا تب تک کپیٹن شمس اور کیپٹن عبداللہ بھی اس تک پہنچ چکے تھے پتہ نہیں کیوں مگر جبرئیل نے ان دونوں کو اس لڑکی کو ہاتھ لگانے نہیں دیا تھا اور اسے اپنے بازوں میں اٹھا کر قریب لگے کیمپ میں لے گیا تھا۔
رات کے اس پہر فضا میں سردی بڑھتی جارہی تھی بیچ میں بہت سی لکڑیاں جمع کرکے آگ لگی ہوئی تھی تو آگ کے چاروں طرف گول دائروں کی صورت میں بہت سے کیمپ لگائے گئے تھے انہی میں سے ایک کیمپ میں جبرئیل اس لڑکی کو لے آیا تھا جس کے پیچھے ہی شمس اور عبداللہ دونوں تھے۔ جبرئیل نے اسے نیچے بیچھے ہوئے نرم گداز فام کے گدے پر لٹایا اور اوپر لحاف ڈال دیا کیونکہ وہ سردی سے بہت بری طرح بے ہوشی میں کانپ رہی تھی۔ اس کی نظر یک دم اس کے بازو سے نکلتے ہوئے خون پر پڑی تھی اور پھر بے ساختہ اس نے اس کے چہرے کی جانب نگاہ کی تھی جہاں اسے تکلیف کے آثار نمایاں دیکھائی دے رہے تھے۔
اس نے گہرا سانس بھر کر خود کو کمپوز کیا تھا تاکہ صورتحال قابو میں کرسکے وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس لمہے وہاں کوئی بھی لڑکی موجود نہیں تھی جو اس کی دیکھ بھال کرسکتی اس لیے وہ کافی حد تک پریشان ہوگیا تھا۔ اس نے مڑ کر شمس کی جانب دیکھا تھا۔
" کیپٹن شمس!"
اس نے شمس کو مخاطب کیا تھا جو بے حد غور سے اس لڑکی کا جائزہ لینے میں محو تھا۔
" یس سر!"
شمس ایک دم گڑبڑا کر چوکنا ہوا تھا۔
" اگر آپ نے مکمل تخریب کاری کرکے ان کا جائزہ لے لیا ہو تو فوری بیس کال کرکے لیڈی ڈاکٹر کو بلوائیں یا جیپ لے کر خود جائیں اور یہاں لے کر آئیں انہیں یہ جو کوئی بھی ہیں ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے شاہد ان کے بازو پر گولی لگی ہے میرے خیال کے مطابق گولی چھو کر گزری ہے مگر ان کا کافی خون بہہ گیا ہے۔"
وہ اپنی زیرک نگاہوں سے اس کا مشاہدہ کرچکا تھا اس لیے ہی اسے ڈاکٹر کو لانے کے لیے کہ رہا تھا۔
" یس سر!"
وہ اسے سیلوٹ کرکے فوری اپنا وائرلیس اٹھا کر کیمپ سے باہر نکلا تھا۔
" عبداللہ! فرسٹ ایڈ باکس لائیں فوری۔"
اس نے قریب چوکنا انداز میں کھڑے عبداللہ کو مخاطب کیا اور اسے فرسٹ ایڈ باکس لانے کے لیے کہا تھا۔
" یس سر!"
عبداللہ کہ کر فوری باہر نکلا تھا اور تقریبا دو منٹ کے بعد وہ فرسٹ ایڈ باکس اس کے ہاتھ میں تھما چکا تھا۔اس نے فرسٹ ایڈ باکس کھول کر اندر سے پائیوڈین نکالی تھی جسے وہ کاٹن پر لگا کر اس کے بازو سے نکلنے والا خون صاف کرنے والا تھا لیکن اس سے پہلے اس کا بازو اوپر کرنا ضروری تھا۔ جبرئیل نے احتیاط سے اس کی قمیض کا بازو اوپر کیا تھا وہ بے حد سرخ رنگت کی مالک تھی جس میں تھوڑی تھوڑی سفیدی کی آمیزیش بھی شامل تھی۔
" سر انہیں فرسٹ ایڈ ٹریٹ مینٹ آپ خود دیں گئے؟"
کیپٹن عبداللہ نے اس موقعے پر انتہائی بے تکا سا سوال پوچھ ڈالا تھا جس پر اس نے رخ موڑ کر اچھا خاصہ گھور کر اس کی جانب دیکھا تھا وہ ایک دم سٹپٹا کر خاموش ہوگیا تھا جب کہ وہ واپس اپنے کام میں مگن ہوگیا تھا۔اس نے پائیوڈین لگی کاٹن سے اس کا خون اچھے سے صاف کیا تھا اور پھر دوسری کاٹن زخم پر رکھ کر اچھے سے اس کے بازو پر پٹی باندھی تھی تاکہ مزید خون نہ نکلے اور ڈاکٹر کے آنے تک وہ پرسکون رہے۔
وہ بینڈیج کرکے فارغ ہی ہوا تھا جب لیفٹیننٹ طلال اندر آیا تھا اور اس نے اسے سیلوٹ کیا تھا۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے اندر آکر کھڑے ہوئے لیفٹیننٹ طلال کی جانب دیکھا تھا۔
" سر ابھی ابھی بیس سے رپوٹ آئی ہے کہ کرنل احسن کی پوسٹنگ ایبٹ آباد کی بجائے یہاں کشمیر میں کردی گئی ہے اور وہ صبح تک یہاں پہنچ جائیں گئے۔"
اس نے جیسے ہی رپوٹ دی جبرئیل نے سامنے لیٹی ہوئی ہوش و خرد سے بیگانہ لڑکی کی جانب دیکھا تھا جو کرنل احسن کے آنے کے بعد اس کے اور اس کی ٹیم کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی تھی لیکن فل حال وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا اس لیے صرف گہرا سانس بھر کر کیمپ سے باہر آگیا تھا کیونکہ اس کا فون مسلسل بیپ دے رہا تھا جس پر آرون کی کال آرہی تھی۔
اس نے کال اٹھا کر یس کی تھی دوسری طرف سے آرون کی پریشان کن آواز ابھری تھی۔
" بھائی آپ ٹھیک تو ہیں نہ؟ ہم نے ابھی ابھی نیوز میں دیکھا کشمیر باڈر کے قریب بہت زیادہ فائیرنگ ہوئی ہے۔"
وہ مسلسل پریشانی سے بول رہا تھا اس کی فکر پر بے ساختہ جبرئیل کو ہنسی آئی تھی۔
" ارے یار سانس تو لے لو۔"
جبرئیل نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" میں یہاں اتنا پریشان ہورہا ہوں اور آپ ہنس رہے ہیں شکر کریں ابھی میں نے امی کو اس فائیرنگ کے بارے میں نہیں بتایا ورنہ انہوں نے رو رو کر اپنا بلڈ پریشر ہائی کرلینا تھا۔"
آرون نے اسے دھمکی لگائی تھی جس پر جبرئیل ایک دم پریشان ہوا تھا۔
" میں بالکل ٹھیک ہوں رون تم امی کو کچھ مت بتانا وہ پریشان ہوکر اپنی طبعیت خراب کرلیں گی۔"
جبرئیل کے لہجے سے ماں کی محبت جھلک رہی تھی جس پر آرون مسکرایا تھا۔
" یہ بتائیں گھر کب آرہے ہیں آپ؟"
آرون نے اس سے بے حد مشکل سوال پوچھ ڈالا تھا۔
" تم اچھے سے جانتے ہو میں گھر کیوں نہیں آتا۔"
اس نے بھی سوال اسی پر ڈالا تھا۔
" بھائی فار گاڈ سیک اس ایک لڑکی کی وجہ سے آپ اپنے باقی رشتوں سے کٹ کر تو نہیں رہ سکتے ایک میجر ہونے کے باوجود آپ اس چھٹانک بھر کی لڑکی کا سامنا کرنے کی وجہ سے آپ گھر نہیں آرہے انتہائی افسوس کی بات ہے۔"
آرون نے بے حد افسوس کی کیفیت میں گھر کر اس سے کہا تھا جس پر جبرئیل نے گہرا سانس بھرا تھا۔
" میں مصروف بھی بہت ہوں رون آج کل یہاں حالات بہت کشیدہ ہیں اور پھر مجھے ایک نئے کیس پر بھی کام شروع کرنا ہے کرنل خاور کے گو کہنے اور بریفینگ دینے کی دیر ہے بس۔"
اس نے چند دن پہلے کرنل خاور سے کی گئی اپنی مختصر گفتگو اس کے گوش گزار کی تھی۔
" لیکن تم فکر مت کرو میں جلد پشاور کا چکر لگاوں گا مجھے لگتا شاہد کیس کی شرواعت وہی سے ہونی ہے۔"
اس نے کچھ سوچتے ہوئے اس سے کہا تھا پھر کچھ دیر بات چیت کے بعد جبرئیل نے فون بند کردیا تھا کیونکہ سامنے کیپٹن شمس کے ساتھ ڈاکڑ مائرہ آتی ہوئی دیکھائی دے رہی تھیں جو جبرئیل کی کیڈٹ کالج اور ٹرینگ کے دوران اس کے ساتھ ہی تھی اور ان کی آپس میں کافی دوستی بھی تھی۔
" ہیلو جبرئیل کیسے ہو یار تم کافی عرصے سے غائب ہی ہوگئے تھے؟"
ڈاکٹر ماہرہ اپنے مخصوص دوستانہ انداز میں اس سے حال احوال دریافت کررہی تھیں۔
" فائن ماہرہ آپ کیسی ہیں اور یہاں کشمیر میں اچانک؟"
جبرئیل نے بھی خوش اسلوبی سے اس سے پوچھا تھا۔
" ہاں میری کل ہی ابھی یہاں کشمیر میں پوسٹنگ ہوئی ہے۔"
انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا جبرئیل انہیں لے کر اپنے ساتھ کیمپ میں آگیا جہاں وہ لڑکی بے ہوش تھی۔
" مائرہ انہیں شاید گولی لگی ہے پلیز آپ چیک کرکے ٹھیک سے بینڈیج کردیں کیونکہ آپ اچھے سے جانتی ہیں کہ ہم انہیں ہوسپٹل لے کر جانے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں اور نہ ہی یہاں کہیں آس پاس کوئی ہوسپٹل موجود ہے بیس سے بھی یہاں تک کا فاصلہ ایک گھنٹے سے زیادہ کا ہے وہ تو کیپٹن شمس جلدی لے آئے آپ کو۔"
جبرئیل نے پریشان کن لہجے میں اس سے کہا تھا۔
" ڈونٹ وری میں دیکھ لیتی ہوں۔"
وہ کہ کر اس کی جانب متوجہ ہوگئیں جبکہ جبرئیل باہر شمس عبداللہ اور طلال کے پاس آگیا جو آگ کے گرد خود کو گرم رکھنے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔
" سر! میجر طراب کی چھٹی ابھی تک ختم نہیں ہوئی وہ کب تک جوائن کررہے ہیں ہمیں؟"
لیفٹیننٹ طلال نے میجر طراب کے متعلق پوچھا تھا جو جبرئیل کا بیسٹ فرینڈ بھی تھا اور سب جانتے تھے کہ طراب اور جبرئیل کی ایک دوسرے میں جان بستی ہے۔ وہ آج کل چھٹی پر پشاور گیا ہوا تھا وہاں اس کی بہن کی شادی تھی حالات کی خرابی کی وجہ سے جبرئیل ڈیوٹی چھوڑ کر وہاں نہیں جا پایا تھا۔
" منڈے سے جوائن کرے گا وہ ہمیں ادھر۔"
جبرئیل نے سرسری سا جواب دیا تھا اس کا سارا دھیان اندر لیٹی ہوئی لڑکی اور ڈاکٹر مائرہ کی جانب تھا ابھی وہ یہی سوچ رہا تھا جب ڈاکٹر مائرہ کیمپ سے باہر آتی ہوئی دیکھائی دیں تھیں۔
" جی مائرہ کیسی ہیں اب وہ؟"
جبرئیل نے پریشانی سے پوچھا تھا۔
" ریلیکس جبرئیل گولی بس ان کے بازو کو چھو کر گزر گئی تھی میں نے اچھی طرح سے بینڈیج کردی ہے اور میڈیسنز بھی اپنے پاس سے ہی دے دیں ہیں پین کلر کا انجیکشن لگا دیا ہے وہ آج رات پرسکون نیند سوئے گئیں۔"
ڈاکٹر مائرہ نے ہلکے پھلکے انداز میں اس سے کہا تھا۔
" چلیں آئیں میں آپ کو کافی پلاتا ہوں۔"
وہ اسے لے کر اپنے کیمپ کی جانب بڑھ گیا جو خاصی صاف ستھری حالت میں تھا۔
" مائرہ ایک جانب رکھی ہوئے سٹول پر بیٹھ گئی جبرئیل کافی بنانے میں مگن تھا۔
" یہ لڑکی کہاں ملی جبرئیل تمہیں؟"
ڈاکٹر مائرہ نے آخر کو وہ سوال پوچھ ہی ڈالا جو مسلسل ان کے ذہن میں مچل رہا تھا۔
جبرئیل نے کافی کا مگ اس کی جانب بڑھایا اور ایک کپ خود تھام کر دوسرے سٹول پر بیٹھ گیا۔
" آئی ڈونٹ نو مائرہ میں اس لڑکی کو بالکل بھی نہیں جانتا ہوں میں تو یہاں ڈیوٹی پر تھا فائرینگ کے بعد صورتحال کا جائزہ لے رہا تھا جب یہ وہاں سامنے سے بھاگتی ہوئی آئی تھیں اور ایک دم بے ہوش ہوگئیں۔"
جبرئیل نے پیش آنے والی ساری صورتحال اس کے گوش گزار کی تھی۔
مائرہ پرسوچ دیکھائی دے رہی تھی۔
" ایک ریکویسٹ کرنی تھی آپ سے؟"
جبرئیل نے کچھ جھجھک کر اس سے کہا تھا۔
" ریکویسٹ کیوں آپ حکم کریں۔"
ڈاکٹر مائرہ نے ہلکے پھلکے انداز میں اس سے کہا تھا۔
" میں چاہتا ہوں آج رات آپ ادھر ہی رک جائیں کیونکہ یہ اکیلی لڑکی آئی مین۔"
اس نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔
" اٹس اوکے جبرئیل آپ نہ بھی کہتے تو بھی میں یہاں رکنے والی تھی۔"
اس نے مسکرا کر کہا تھا۔
" تم کتنے دنوں سے گھر ریسٹ کرنے نہیں گئے؟"
ڈاکٹر مائرہ نے اپنی زیرک نگاہوں سے اس کی حالت دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
" ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔"
جبرئیل نے کچھ شرمندگی سے کہا تھا۔
" واو میجر جبرئیل خان کیا بات ہے آپ کی یہاں آپ کو کشمیر میں گھر ملا بھی ہوا ہے تب بھی آپ ایک ہفتے سے گھر نہیں گئے امیزنگ کچھ شرم کرلو جبرئیل۔"
اب وہ اس کے لتے لے رہی تھی جس پر وہ مسکرا رہا تھا۔
" یار ایکچولی یہاں اتنا کام تھا کہ میں گھر جا ہی نہیں پایا اور پھر طراب بھی تو نہیں تھا۔"
اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا تھا۔
" پھر بھی تمہیں اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے جبرئیل ورنہ تم کام کیسے کرو گئے؟"
مائرہ فکرمندانہ لہجے میں اس سے کہ رہی تھی۔
" ڈونٹ وری کل کرنل احسن اور منڈے کو طراب واپس آرہا ہے پھر میں کچھ ریسٹ کروں گا۔"
اس نے مسکرا کر اس سے کہا تھا۔
پھر کافی دیر دونوں باتیں کرتے رہے تھے۔
" اچھا مائرہ آپ سو جائیں کیوں کہ آپ کا جاگنا کوئی مجبوری نہیں ہے آپ ریسٹ کریں میں باہر ہوں۔"
وہ اسے ریسٹ کرنے کا کہ کر خود کیمپ سے باہر آگیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آنیہ اور زیبا دونوں کالج جانے کے لیے تیار تھیں جبکہ آرون اور عامل دونوں صبح ہی صبح ٹریننگ کے لیے جاچکے تھے۔ وہ دونوں ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھی جلدی جلدی کھانے میں مصروف تھیں جبکہ عشرت جہاں ابھی ابھی آکر بیٹھی تھیں جبکہ ماہ رخ بیگم کیچن میں ناشتہ بنارہی تھیں۔
" یہ تم دونوں اتنا تیار ہوکر کہاں جارہی ہو؟"
صاریہ نے اپنا بیگ کرسی کی پشت پر لٹکا کر زیبا اور آنیہ سے پوچھا تھا جو اپنی روز مرہ جیسی تیاری میں ہی تھیں لیکن لگتا تھا آج صاریہ کا دماغ الٹ گیا تھا۔
عشرت جہاں نے حیرت سے پہلے صاریہ اور پھر ان دونوں کو دیکھا تھا جو بغیر کوئی بھی نوٹس لیے خاموشی سے کھا رہی تھیں۔ ناشتے سے فارغ ہوکر ان دونوں نے اپنے لیب کوٹ اور بیگز اٹھائے اور عشرت جہاں سے مل کر باہر نکل گئیں جبکہ صاریہ منہ کھولے انہیں دیکھتی رہ گئی۔
" دیکھا بڑی اماں میرے کسی سوال کا جواب دینا ہہ ضروری نہیں سمجھتی ہیں۔"
وہ اب ان سے شکایت کررہی تھی۔
" ویسے صاریہ بیٹا تمہیں اندازہ ہے کہ سوال تم نے کچھ غلط ہی کیا تھا مجھے تو ان کی تیاری کوئی بھی زیادہ یا معمول سے ہٹ کر نہیں لگی۔"
عشرت بیگم انتہائی نرمی سے اس سے کہ رہی تھیں تب تک ماہ رخ بیگم بھی اپنا ناشتہ لے کر وہاں آچکی تھیں اور ان کی گفتگو بھی کافی حد تک کیچن کی کھلی ہوئی کھڑکی سے سن چکی تھیں۔
" بڑی اماں اب آپ بھی یہ کہیں گی کہ میں فضول بولتی رہتی ہوں۔"
وہ انتہائی صدمے کی کیفیت میں گھر کر ان سے کہ رہی تھی جو اس کے اس طرح کرنے پر گڑبڑا گئی تھیں۔
" صاریہ تمہیں دیر ہورہی ہے تم جاو یونی ورسٹی شاباش۔"
ماہ رخ بیگم کے کہنے پر وہ اپنا بیگ اٹھا کر پیر پٹختی ہوئی باہر نکل گئی جبکہ ماہ رخ بیگم عشرت جہاں کی طرف متوجہ ہوئی تھیں۔
" دیکھا آپ نے ہر بات ہر یہ ایسے ہی بحث کرتی ہے خود کو کہیں بھی غلط نہیں سمجھتی مجھے اس کی سرکش طبعیت سے خوف محسوس ہوتا ہے۔"
ان کے چہرے پر عشرت جہاں کو خوف کے سائے صاف دیکھائی دے رہے تھے۔
" فکر مت کرو وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجائے گی۔"
انہوں نے انہیں حوصلہ دینے کی کوشیش کی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پہاڑوں پر صبح انتہائی خوبصورت انداز میں طلوع ہوئی تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سفید اور پیلے رنگ کا کوئی قالین پہاڑوں کی چوٹیوں کی زینت بنا دیا گیا ہو۔ ہلکی ہلکی دھوپ سردی کی شدت کو کچھ کم کررہی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھوں کے پپوٹوں کو کھولا تھا اور اس نے ایک پل میں ہی آنکھیں گھما کر اپنے اردگرد کا جائزہ لیا تھا وہ کسی کیمپ میں تھی جس کے نرم و گداز فام کے گدے پر لحاف اوڑھے وہ پچھلی پوری رات بے خبر سوتی رہی تھی اس نے جوں ہی گردن گھما کر اپنے برابر میں دیکھا تو وہ چونک گئی ایک انتہائی معصوم اور تیکھے نقوشوں اور صاف رنگت والی لڑکی اس کے برابر میں اسی طرح کے نرم و گداز فام کے گدے پر سوئی ہوئی تھی۔ اس نے اٹھنے کی کوشیش کی تو خود کے اندر ایک تکلیف کی شدید لہر محسوس کی بے ساختہ اس کے منہ سے سی نکلا تھا۔ کسی کی کراہ کی آواز کے ساتھ مائرہ کی آنکھ کھل گئی تھی۔ اس نے جلدی سے اٹھ کر اسے اٹھنے میں مدد دی تھی۔
" کیسی ہیں اب آپ؟ میں ڈاکٹر مائرہ ہوں رات میں آپ کا ٹریٹ منٹ میں نے ہی کیا تھا۔"
مائرہ نے خوش اسلوبی سے اس سے حال احوال دریافت کیا تھا۔
" پا۔۔پانی!"
اس نے اپنا خشک حلق تر کرتے ہوئے پانی مانگا تھا۔
" اوکے ایک منٹ میں ابھی لائی۔"
مائرہ اس سے کہ کر فوری کیمپ سے باہر نکلی تھی۔
باہر جبرئیل شمس کو کچھ ہدایات دینے میں مصروف تھا۔ وہ قدم قدم چلتی ہوئی اس کے قریب چلی گئی۔
" گڈمارننگ جبرئیل!"
مائرہ نے اسے مسکرا کر کہا تھا۔
" مارننگ مائرہ اٹھ گئی آپ نیند تو ٹھیک سے آئی نہ آپ کو؟"
جبرئیل نے پریشانی سے اس سے پوچھا تھا۔
" جبرئیل وہ رات والی لڑکی ہوش میں آگئی ہے اور وہ پانی مانگ رہی ہے۔"
مائرہ سیدھا مدعے پر آئی تھی۔
" کیپٹن عبداللہ کیمپ کیچن سے پانی لائیں فوری۔"
اس نے عبداللہ سے کہا اور خود مائرہ کے ساتھ کیمپ کی جانب بڑھ گیا۔جبرئیل اندر داخل ہوا تو وہ چت لیٹی اوپر کو دیکھ رہی تھی۔ اتنی دیر میں شمس پانی لے کر آچکا تھا۔ جبرئیل نے وہ بوتل مائرہ کی جانب بڑھائی تھی۔ مائرہ نے بوتل لڑکی کو تھمائی تو وہ ایک ہی سانس میں پوری بوتل خالی کرگئی شاہد وہ کافی دیر سے پیاسی تھی۔
پانی پینے کے بعد جب اس کے حواس خاصے بیدار ہوئے تو جبرئیل پنجوں کے بل اس کے سامنے بیٹھا وہ ایک لمہے میں ہی ڈر کر پیچھے ہوئی تھی اس کی خوبصورت بھوری آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔
" جسٹ ریلیکس آپ ڈریں نہیں یو آر سیف ناو۔"
جبرئیل نے ہاتھ اٹھا کر اسے نرمی سے کہا تھا جس پر اس کے تنے ہوئے اعصاب قدرے نارمل ہوئے تھے۔
" اب بتائیں کیا نام ہے آپ کا اور یہاں تک کیسے پہنچیں آپ اور یہ گولی کیسے لگی؟"
اس نے انتہائی ٹھہرے ہوئے لہجے میں اس سے یہ تمام سوال کیے تھے۔
" وہ۔۔۔وہ۔۔ مجھ۔۔مجھے مار۔۔مار دیں گئے پلیز مجھے بچا لیں۔"
اس کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔
" کوئی نہیں مارے گا آپ کو یہاں کوئی نہیں آسکتا۔"
مائرہ نے اسے اپنے ساتھ لگا کر دلاسہ دیا تھا کچھ لمہے رونے کے بعد وہ خاموش ہوگئی تھی۔
تب تک لیفٹیننٹ طلال اس کے لیے ناشتہ لے آیا تھا۔
" آپ پلیز پہلے کچھ کھا لیں۔"
مائرہ نے ٹرے اس کے آگے کی تھی۔
" نہ۔۔نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا پتہ نہیں میری اماں کہاں ہوگئں ان کے ساتھ کیا ہوا ہوگا۔"
وہ خوف سے دھیرے دھیرے کانپ رہی تھی۔
" وہ ٹھیک ہوں گی تم مجھے یہ بتاو کہ کیا ہوا تھا تمہارے ساتھ کیسے لگی یہ گولی تمہیں؟"
مائرہ نے جبرئیل کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کرکے اسے خاموش رہنے کا کہا تھا اور خود اس سے مخاطب ہوئی تھی۔مائرہ کا لہجہ از حد نرمی سموئے ہوئے تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ دونوں ماں بیٹی اپنے گھر میں پرسکون ماحول میں بیٹھی ہوئی ایک دوسرے کی دلجوئی میں مصروف تھیں۔
" اماں چائے بنا کر لے کر آتی ہوں دیکھنا تیری درد چٹکیوں میں بھاگ جائے گی۔"
وہ فریم ایک طرف رکھ کر سر پر لپیٹا ہوا سکاف صیح سے باندھ کر اس چھوٹے سے گھر کے ایک طرف بنے چھوٹے سے باورچی خانے میں آئی تھی جہاں ایک ننھی سی الماری رکھی گئی تھی اور ساتھ میں ایک چھوٹا سا فریج تھا جس کا سائز تقریبا ایک روم ریفریجریٹر جتنا ہی تھا۔ اس نے الماری سے چائے کی پتی اور چینی نکال کر نیچے رکھے گئے چولہے کے پاس رکھی اور خود فریج سے دودھ نکالنے لگی۔ دودھ نکال کر وہ باورچی خانے میں رکھی ہوئی پیڑی چولہے کے پاس رکھ کر بیٹھ گئی اور چائے بنانے لگی۔ وہ اپنے کام میں اس قدر مگن تھی کہ اردگرد سے بالکل ہی بیگانہ تھی۔ وہ وہاں بیٹھ کر چایے کو ابال آنے کا انتظار کررہی تھی جب چند سرگوشیوں نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔اس نے نگاہیں اوپر اٹھا کر دیکھا تو کیچن کی کھڑکی سے شام کے گہرے ہوتے سایوں میں اسے چند ہیولے ایک دوسرے سے گفتگو میں مگن دیکھائی دیے۔
اس کی سماعت نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی جانب متوجہ ہوگئی کیونکہ چھوٹی چھوٹی گلیاں ہونے کی وجہ سے ہلکی سی سرگوشیاں بھی باآسانی سنائی دے دیتی تھی۔ اس کے ہاتھ سے ایک دم چائے پھینٹنے والی ڈوئی چھوٹ کر فرش پر گری تھی اور اسی کے ساتھ آوازیں بند ہوگئی تھیں۔
" کون ہے ادھر؟"
ایک بھاری مردانہ آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا۔
وہ ایک دم ابلتی ہوئی چائے چھوڑ کر باہر برآمدے کی جانب بھاگی تھی جہاں اس کی ماں موجود تھی۔ اس کے خوفزدہ اور ہراساں چہرے کو دیکھ کر اس کی ماں کا بھی پریشانی سے برا حال تھا۔ اس نے اپنی ماں کو مختصر کرکے کھڑکی کے پار ہونے والی گفتگو سنائی تھی۔ ابھی وہ بات کرہی رہی تھی کہ باہر کہیں فائیرنگ کا شور بلند ہوا تھا۔ خوف سے دونوں کا ہی برا حال تھا۔
" بھاگ جا زارا ورنہ یہ لوگ تجھے چھوڑیں گئے نہیں تیری عزت اور جان دونوں خطرے میں ہیں بھاگ تو بس جا بھاگ جا۔"
اس کی ماں روتے ہوئے اس سے کہ رہی تھی۔
" کیا مطلب ہے اماں بھاگ جاوں؟ یہاں سے بھاگ کر کہاں جاوں گی میں میرا کونسا ٹھکانا ہے بتا مجھے؟
وہ روتے ہوئے اپنی ماں سے لپٹ گئی تھی۔ باہر گولیاں چلنے کی آواز تیز ہوچکی تھی۔ اسی کے ساتھ ان کے گھر کا لوہے کا دروازہ بھی دھڑ دھڑایا جارہا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا۔
" میری بات غور سے سن تو پچھلے دروازے سے بھاگ جا باڈر کی طرف بھاگی فائیرنگ کے باعث باڈر پر کافی بھاگ دوڑ مچی ہوئی ہوگی یہاں کے فوجیوں کی نظروں سے کسی طرح بھی بچ کر تو باڈر کی چھوٹی دیوار پھلانگ لینا بس وہاں پاک آرمی کے جوان ہونگے تیری مدد کے لیے جا اب تو۔"
انہوں نے اسے پچھلے دروازے کی جانب دھکا دیا تھا کیونکہ لوہے کے دروازے کا لاک کوئی توڑ چکا تھا اور اب قدموں کی آواز قریب آرہی تھی۔
" میں تجھے چھوڑ کر کیسے جاوں نہیں میں نہیں جارہی ہوں۔"
وہ ضد پر آڑ گئی تھی۔
" زارا تجھے میری قسم ہے بھاگ جا یہاں سے۔"
اس کی ماں خود اٹھ کر اسے دروازے تک چھوڑنے آئی تھی۔ وہ دروازے کے باہر تھی اس کی ماں کو کسی نے پچھے سے پکڑا تھا۔ زارا کے اندر جتنی بھی ہمت تھی اس نے ساری صرف کردی تھی اور وہ بھاگی تھی۔ فضا گولیوں کی تھڑ تھڑاہٹ سے گونج رہی تھی اور وہ آندھا دھند بھاگ رہی تھی اسے اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اچانک ایک گوکی زارا کے بازو میں لگی تھی اور اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے کسی نے اس کا پورا گوشت جلا ڈالا ہو شدید چھبن کا احساس اس کے سارے جسم کو تکلیف میں مبتلا کررہا تھا لیکن اس کے اندر اس کی ماں کے کہے گئے جملے مسلسل گردش کررہے تھے۔
" تیری عزت اور جان دونوں خطرے میں ہیں۔"
اس نے ایک ہاتھ سے بازو کا زخم دبایا تھا تکلیف کی لہر اس کے پورے جسم کو نڈھال کررہی تھی اس کے سر کا سکاف آدھا اتر گیا تھا وہ دو بار گرئی تھی اور اٹھ کر پھر چلی تھی اسے صرف اپنی منزل نظر آرہی تھی اس کے کپڑے گرد آلود ہوگئے تھے اسے صرف یہ نظر آرہا تھا کہ سامنے ایک آفیسر کھڑا ہے۔ اس کی آنکھیں بار بار دھندلا رہی تھیں اور وہ ایک دم کسی کے مضبوط اور توانا بازوں میں ہوش و خرد سے بیگانہ ہوئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
چاروں طرف اندھیرا تھا۔ بڑی بڑی کھڑکیوں کے آگے بھاری مخملی پردے برابر کر رکھے تھے۔ کمرے کی بتی بند تھی اس لیے روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ کمرے میں بیش قیمتی فرنیچر رکھا گیا تھا۔ بڑا سا کنگ سائز بیڈ خوبصورت مخملی صوفے اور ایک راکنگ چئیر۔ وہ اس لمہے کمرے میں تنہا نہیں تھی اس کے پاس دو لوگ بڑے ہی مودب انداز میں کھڑے تھے۔ خود وہ راکنگ چئیر پر ہاتھوں میں سگریٹ سلگائے جھول رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ شاہد ان دو لوگوں کی موجودگی محسوس کرتے ہوئے بھی نظر انداز کررہی تھی۔
" ایس۔کے!"
اسے اپنے قریب سے ایک مردانہ سرگوشی سنائی دی تھی۔ اس نے اپنی سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں کھول کر آواز کے تعاقب میں دیکھا تھا۔
" ہمارے لیے کیا حکم؟"
ان میں سے ایک نے عاجزانہ لہجے میں کہا تھا۔
" مجھے وہ لڑکی چائیے ہر قیمت پر پاتال سے بھی ڈھونڈنا پڑے تو نکالو اسے ورنہ بھول جاو کے تم لوگوں کے اس دنیا میں مزید دن بچے ہیں۔"
اس نے فضا میں دھوے کا مرغولہ چھوڑا تھا اور آنکھیں واپس بند کرکے جھولنے لگی تھی جیسے ساری بات ختم کردی ہو۔"
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ بات کرکے رک گئی تھی۔ وہاں سب دم سادھے اسے سن رہے تھے۔ اس کی آنکھیں آنسو مسلسل برسا رہی تھیں۔
" کیا بات کررہے تھے وہ دونوں؟"
سوال جبرئیل کی جانب سے پوچھا گیا تھا۔ بدلے میں وہ بالکل خاموش تھی اور اس کی یہی خاموشی وہاں بیٹھے نفوس کے تجسس میں اضافہ کررہی تھی۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسی کون سی بات ہے جسے جان لینے کے بعد وہ لوگ زارا نور کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کی تاریخی پشاور میں اپنے پر پوری طرح سے پھیلا چکی تھی۔ایسے میں وہ دونوں ٹرینگ کر کے تھک گئے تھے ان کی ٹریننگ ختم ہوئی تو وہ دونوں گھر کے لیے نکلے تھے۔
" کیا خیال ہے رون ایک کپ کافی ہوجائے؟"
سبتین نے آرون کو کافی پینے کے لیے پوچھا تھا۔
" اوکے ایز یو وانٹ۔"
رون نے آنکھ دبا کر کہا اور کافی شاپ کی طرف جیپ موڑ لی۔ کافی شاپ میں پہنچ کر وہ دونوں اپنے ہمشہ سے مقرر کردہ میز پر آگئے اور چابیاں میز پر رکھ کر ریلیکس انداز میں بیٹھ گئے۔ دو کپ کافی کا آڈر دینے کے بعد سبتین آرون کی جانب متوجہ ہوا جو اپنے موبائل میں کچھ دیکھنے میں محو تھا۔
" آرون! آج پتہ نہیں مجھے بابا اتنے یاد کیوں آرہے ہیں۔"
سبتین نے افسردہ سی صورت بنا کر کہا تھا۔
" تمہیں پتہ ہے سبتے کہ بابا اور چاچو کی شہادت کیسے ہوئی تھی؟"
آرون نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا تھا۔
" امی کہتی ہیں کہ کسی کیس کے خلاف لڑتے ہوئے ان کی شہادت ہوئی تھی۔
سبتین نے بہت عرصہ پہلے ماہ رخ بیگم سے سنی ہوئی بات آرون کو بتائی تھی۔
" تمہیں معلوم ہے کچھ کہ کس قسم کا کیس تھا؟"
آرون کی جاسوسی طبعیت امڈ کے باہر آئی تھی اس نے آنکھیں چھوٹی کیے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے سبتین سے پوچھا تھا۔
" مجھے کیا پتہ ہو یار میں تو تجھ سے بھی چھوٹا ہوں۔"
سبتین نے منہ بنا کر اپنے تین مہینے چھوٹے ہونے کی دھائی دی تھی۔
" میں پتہ کرکے ہی رہو گا کہ آخر یہ کونسا کیس تھا جس کی وجہ سے شہید ہی ہوگئے۔"
آرون کے لہجے میں سبتین کو ایک عزم نظر آرہا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
With the permission of the website i update this on whattpad..
so guyz how was the Episode plz votr comment and give me feedback...
YOU ARE READING
دہلیز کے پار وہ ( مکمل✔)
Mystery / Thrillerیہ کہانی ہے ظلم سے لڑتے لوگوں کی۔۔ اپنی عزتیں بجاتی لڑکیوں کی۔۔ ایک ایسی لڑکی کی جس نے عزت کی خاطر اپنا گھر اور اپنی ماں کھو دی۔ ایک ایسے جانباز سپاہی کی جو ملک کی خاطر سینہ تان کر کھڑا رہتا ہے لاکھوں ،ماوں بہنوں کی عزتوں کے رکھوالوں کی۔۔ یہ کہانی ہ...