دہلیز کے پار

7K 275 341
                                    

آخری قسط
بے بسی جب حد سے سوا ہوگئی
بھول یہ مجھ سے جابجا ہوگئی
توڑ کر اعتبار کی ڈوریاں
میں بھی محبت میں فنا ہوگئی
منتظر جو تھا وہ دہلیز کے پار
اسے پشت دیکھا کر میں رہا ہوگئی
بے دھڑک وہ بھی قدم بڑھا گیا
اس کے جانے سے میں بھی تباہ ہوگئی
جگ ہرسائی میری پھر یوں ہوئی
اس کے نام سے جڑ کر رسوا ہوگئی
زخم ایسے لگے تھے روح کو میری
اس کی چوٹوں سے میں بے رحم ہوگئی
ایمن خان
وہ کب سے دیوار کے ساتھ کھڑا وہاں نظر رکھے ہوئے تھا تقریبا صبح سے ہی وہ وہاں کھڑا تھا اب تو انتظار کرتے کرتے اس کی ٹانگیں شل ہوچکی تھیں اس نے کان میں لگائے ہوئے بلو توتھ کا بٹن دبایا تھا۔
" 214! احسن ہیر اسامہ!"
اس نے اسامہ کو کنیکٹ کیا تھا۔
" یس سر!"
دوسری جانب سے اسامہ کی الرٹ آواز ابھری تھی۔
" کوئی دکھا کیا؟"
اس نے گن کا رخ اسی جانب رکھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" نہیں سر! صبح سے شام ہونے والی ہے لیکن اب تک کوئی بھی نہیں دکھا۔"
اسامہ نے اسے بتایا تو اس نے گہرا سانس بھرا مگر جونہی وہ پلٹا عجیب سی آواز نے اس کے قدم وہی پر جکڑ لیے تھے۔
" اسامہ! مجھے لگ رہا ہے وہاں کوئی ہے تم نظر رکھو اور جوں ہی کوئی پیش رفت نظر آئے مجھے انفارم کرو اور یاد رہے ڈونٹ فائر۔"
اس نے اسے ایک بار پھر سے یار کرواتے ہوئے کہا تھا۔
" راجر سر!"
اسی کے ساتھ اس نے بٹن بند کیا تھا اور واپس دیوار کی اوٹ میں کھڑا ہوگیا تھا وہاں جو کچھ دیر پہلے آواز ابھری تھی اب چار، پانچ آدمی چہرہ ڈھکے ہوئے نظر آرہے تھے۔
" او شیٹ اسامہ موو لیفٹ۔"
اس نے جلدی سے اسامہ کو الرٹ کیا تھا اور خود بھی تھوڑا سا پیچھے ہوکر کھڑا ہوا تھا۔ وہ آدمی گہرے نیلے رنگ کے لکڑی کے دروازے کی جانب بڑھ رہے تھے احسن نے اسامہ کو اشارہ کیا تھا وہ لیفٹ سائیڈ سے دھبے پاوں چلتا ہوا سیدھا اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوا تھا۔
" آگے کیا کرنا ہے سر!"
اسامہ نے سرگوشیانہ اس کے کان میں کہا تھا۔
" کچھ نہیں بس خاموشی سے ابھی دیکھنا ہے کہ یہ لوگ کرتے کیا ہیں آج کم از کم اتنا تو پتہ چل ہی جائے گا کہ آخر یہ سب جاتی کہاں ہیں۔"
اس نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا اور واپس اس جانب متوجہ ہوا تھا جہاں پر وہ لوگ لکڑی کے اس دروازے کو توڑ کر اندر کی جانب چلے گئے تھے گھر سے کچھ ہی دیر میں چیخوں کی آواز ابھری تھی وہ دونوں ہی اس لمہے اپنے اپنے ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہے تھے۔
کچھ ہی دیر میں ایک بے ہوش لڑکی کے ساتھ وہ لوگ برآمد ہوئے تھے لڑکی کو شاہد انہوں نے کوئی انجیکشن لگا کر بے ہوش کیا تھا۔ وہ لوگ لڑکی کو لے کر بستی کی تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے سنسان راستے پر پڑچکے تھے جہاں ایک جیپ کھڑی تھی انہوں نے اس لڑکی کو جیپ میں ڈالا تھا اور خود بھی تیزی سے جیپ میں بیٹھے تھے۔
" سر بغیر کسی ٹرانسپورٹ کے ہم ان کا پیچھا کیسے کریں گئے؟"
اسامہ نے اس کے قریب ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔
" اس سے۔"
احسن نے قریب کھڑے رکشے کی جانب اشارہ کیا تھا جس کا ڈرائیور وہاں پر موجود نہیں تھا تب تک وہ لوگ جیپ سٹارٹ کرچکے تھے۔
" سر اس کا تو ڈرائیور ہی نہیں ہے۔"
اسامہ نے الجھن بھرے لہجے میں کہا تھا۔
" تو تمہارے ہوتے ڈرائیور کی کیا ضرورت ہے؟"
اس نے مسکراتے ہوئے آنکھ ماری تھی اور خود رکشے کا پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا تھا اسامہ بھی گہرا سانس بھر کر اس کے پیچھے گیا تھا اور رکشے والے کی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا اپنی جیب سے ایک چابیوں کا گچھا نکال کر اس نے باری باری چابیاں کی ہول میں لگائی تھیں دوسری چابی لگانے پر ہی رکشہ سٹارٹ ہوگیا تھا۔ جیپ تیزی سے آگے نکل گئی تھی جیسے ہی جیپ سنسان راستے سے نکلی اسامہ نے رکشہ سٹارٹ کرکے اسی راستے پر ڈال دیا۔
" سر! اس فوج نے کیا سے کیا بنا دیا مجھے۔"
وہ جلتے ہوئے کہہ رہا تھا جبکہ احسن کا قہقہ بے ساختہ تھا۔
" ابھی تو صرف رکشے والے بنے ہو آگے تو اور بھی بہت کچھ بننا پڑے گا۔"
احسن نے اس سے کہا تو وہ مسکرا دیا۔ جیپ ان کی نظروں سے اوجھل ہونے ہی والی تھی جب اسامہ نے رکشے کی رفتار بڑھائی تھی فراٹے بھرتی ہوئی جیپ ایک بار پھر سے دونوں کو نظر آئی تھی جیپ نے ایک مین روڈ پر ٹرن لیا تھا احسن نے باہر سڑک پر بورڈ دیکھا تو وہاں بڑے بڑے سفید حروف میں ٹن روڈ لکھا ہوا تھا جیپ تیزی سے ٹن روڈ پر بھاگ رہی تھی وہ دونوں چونکے تھے کیونکہ جیپ ایک بے حد تنگ گلی کے باہر روک دی گئی تھی اسامہ نے رکشہ سڑک کے دوسری جانب بہت فاصلے پر روکا تھا تاکہ ان کے بارے میں کسی کو کوئی شک نہ ہو وہ چاروں آدمی لڑکی کے بےہوش وجود کو کندھوں پر اٹھائے اس تنگ گلی میں چلے گئے تھے۔
" سر! یہ لوگ تو گلی میں چلے گئے ہیں۔"
اسامہ نے حیرت سے کہا تو اس نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔
" تو ہم بھی آج چل کر تماشہ دیکھ ہی لیتے ہیں کہ آخر اس تنگ گلی کے پار ایسا کونسا ٹھکانہ ہے جہاں یہ لڑکیاں رکھی جاتی ہیں۔"
احسن نے اس سے بولا تو دونوں دھیرے سے اس تنگ گلی کی جانب بڑھ گئے جو ڈھلوان سے زرہ نیچے کو اترتی تھی وہ دونوں آہستہ سے ڈھلوان اترے تھے گلی چھوٹی اور تنگ تھی وہ دونوں بے ربط بس چلتے جارہے تھے ایک دم ان دونوں کو ٹھہرنا پڑا تھا کیونکہ اس گلی کے آخر میں تین گھر بنے ہوئے تھے ایک ہی قطار میں بنائے گئے وہ تینوں گھر چھوٹے مگر ایک جیسے تھے۔
" او مائی گاڈ یہ تو تینوں گھر ہی ایک طرح کے ہیں پتہ کیسے چلے گا کہ ان تینوں میں سے کس میں گئے ہیں وہ لوگ۔"
اسامہ نے اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے کہا تو احسن نے تینوں گھروں کو باری باری دیکھا دروازہ تینوں گھروں کا ہی بند تھا وہ خاموشی سے باری باری ہر ایک دروازے پر گیا اور تینوں دروازوں کا مکمل جائزہ لینے کے بعد وہ اسامہ کی جانب پلٹا تھا۔
" یہ اس گھر میں گئے ہیں وہ لوگ۔"
اس نے بائیں جانب والے گھر میں اشارہ کیا تو اسامہ نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
" آپ کو کیسے معلوم سر؟"
اس نے واقعی ہی حیرت سے پوچھا تھا۔
" تینوں دروازوں میں سے اس بائیں والے گھر کے دروازے پر تازہ مٹی کے زیادہ نشانات ہیں تم نے دیکھا ہوگا جب ہم گلی میں داخل ہوئے وہاں پانی کا ایک چھوٹا سا چھپڑ بنا ہوا تھا جہاں کچھ کیچڑ بھی تھا یہ لوگ اسی کیچڑ میں سے ہوکر آئے ہیں جبکہ باقی کے دونوں گھروں کی دہلیزیں بالکل صاف نہ سہی پر وہاں تازہ مٹی کے کوئی نشان نہیں ہیں اب ہمیں اس گھر کی کھڑکی تلاش کرنی ہے چلو میرے ساتھ۔"
وہ اسامہ کو کہتا ہوا آگے کی جانب بڑھا تو وہ بھی یس سر کہتا ہوا اس کے پیچھے چلا گیا دونوں نے کہانی کے کچھ حصے دریافت کرلیے تھے بہت جلد ساری کہانی کھل کر سامنے آنے والی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شام میں عشرت جہاں ماہ رخ بیگم کے ساتھ لان میں بیٹھی ہوئی تھیں آنیہ بھی وہی قریب بیٹھی چائے پی رہی تھی جبکہ زیبا مسلسل لان میں چکر کاٹ رہی تھی۔
" اف زیبی کیا ہوگیا ہے یار بیٹھ جاو تمہیں دیکھ کر ہی مجھے چکر آرہے ہیں۔"
آنیہ نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے زیبا سے کہا تھا جو مسلسل کوئی لانگ مارچ کررہی تھی۔
" میرا دل بہت گھبرا رہا ہے آنی! میں دوپہر سے آرون کو کال ملا رہی ہوں میرا فون نہیں اٹھا رہا وہ۔"
اس نے آنکھیں پونچھتے ہوئے پریشانی سے کہا تھا۔
" ریلیکس کرو یار کسی کام میں بزی ہوگئے فری ہوکر رون تمہیں خود ہی کال کرلیں گئے۔"
آنیہ نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔ ابھی وہ یہ کہہ ہی رہی تھی جب عشرت جہاں کا فون بجا تھا اوپر جبرئیل کالنگ آرہا تھا۔ اس کی کال دیکھ کر وہ خاصی حیران ہوئی تھیں کیونکہ کسی بھی مشن کے دوران جبرئیل کبھی کال نہیں کرتا تھا انہوں نے فون اٹھا کر کان سے لگایا تھا۔ اور جو خبر جبرئیل نے انہیں دی تھی اسے سن کر ان کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر زمین بوس ہوا تھا اور وہ ایک دم سکتے میں چلی گئی تھی۔
" بھابھی کیا ہوا ہے؟"
ماہ رخ بیگم نے ان کی حالت دیکھی تو فوری اپنی کرسی چھوڑ کر ان کے نزدیک آئی تھیں تب تک زیبا اور آنیہ بھی ان کے پاس آچکی تھیں۔
" رون! رو۔۔رون کو گولی لگی ہے ہاسپٹل میں ہے میرا بچہ۔"
اس کے ساتھ ہی ان کے دو آنسو ٹوٹ کر گرے تھے لیکن وہ لمہے کے ہزارویں حصے میں خود کو سمبھال چکی تھیں جبکہ زیبا جہاں تھی وہی پر بیٹھ گئی تھی۔
" آنیہ سبتے کو فون ملاو۔"
عشرت جہاں نے سپاٹ چہرے کے ساتھ آنیہ کو کہا تو اس نے جلدی سے سبتے کو فون کیا تھا۔
" امی! بھائی نے کیا کہا ہے اور؟"
اب کی بار آنیہ نے فون بند کرکے براہراست عشرت جہاں سے کہا تھا۔
" وہ ہاسپٹل نہیں جاپائے گا کیونکہ وہ پنڈی کے لیے نکل گیا ہے اپبے کام کے سلسلے میں اس لیے سبتے کے ساتھ ہم لوگوں کو ہی ہاسپٹل جانا ہوگا۔"
ان کے کہنے کی دیر تھی باہر مین گیٹ پر ہارن بجا تھا چوکیدار نے سبتے کی گاڑی دیکھ کر فوری گیٹ کھولا تھا وہ سب گاڑی کی جانب بڑھی تھیں آنیہ مسلسل ساکن بیٹھی زیبا کو تقریبا گھسیٹتے ہوئے گاڑی تک لے کر گئی تھی۔
" امی زارا؟"
آنیہ کو اچانک سے زارا کا خیال بھی آیا تھا۔
" ماہ رخ تم زارا کے پاس ہی رک جاو بیچاری بچی کی حالت پہلے ہی صیح نہیں ہے۔"
انہوں نے ماہ رخ بیگم سے کہا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا باقی سب گاڑی میں بیٹھ چکے تھے ان کا رخ اب ہاسپٹل کی جانب تھا جہاں آرون زندگی اور موت کے بیچ میں جھول رہا تھا۔
وہ بیچ راستے میں تھا جب اس کے وائیرلیس پر کرنل خاور کی کال آئی تھی اور انہوں نے اسے آرون کو گولی لگنے والی خبر دی تھی اسے لگا تھا جیسے کسی نے ایک دم سے اس کا سانس بند کردیا ہو وہ کتنی دہر خاموش رہا تھا دوسری جانب سے کرنل خاور کی پکار نے اسے واپس ہوش کی دنیا میں پٹخا تھا وہ اسے دلاسہ دے رہے تھے اور بھی کچھ کہہ رہے تھے مگر نہ تو اس کی سماعتیں ہماتن گوش تھیں اور نہ ہی اس کا پورا وجود۔
" سر! اگر آرون کو کچھ بھی ہوا میں ان سب کی سانسیں اس بے دردی سے کھینچوں گا کہ اپنے دنیا میں آنے کا افسوس ہی کرتے رہیں گئے۔"
اس کی گرفت سٹیرینگ پر سخت ہوئی تھی۔
" ڈونٹ وری ینگ مین ایس۔پی آرون خان از آ فائیٹر ہی ول بھی فائن انشاءاللہ۔"
وہ اسے دلاسہ دینے کی مکمل کوشیش کررہے تھے اس کا دل آرون کو دیکھنے کے لیے مچل رہا تھا مگر وہ چاہ کر بھی اپنا مشن ادھورا چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔
" آپ مجھے اس کی صحت کے حوالے سے اپ ڈیٹ کرتے رہیے گا پلیز سر میں پولیس فورس کے ساتھ پنڈی جارہا ہوں وہی سے باقی کا کیس اے۔ایس۔پی سبتین خان ہینڈل کرے گا اور میں اس فورس کو لیڈ کروں گا اور یہ کام نمٹانے کے بعد کشمیر مشن پر اپنے حصے کا کام مکمل کروں گا۔"
اس نے باری باری اپنے سارے کام ان کے گوش گزار کیے تھے۔
" اوکے اور یہ جو کچھ سیکرٹ ایجنسی میں ہورہا ہے اسے جلد از جلد سمیٹو جبرئیل ورنہ ہم کیا ملک بھی تباہ ہوجائے گا اور ہم اسے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کرپائیں گئے۔"
انہوں نے بہت مشکل سے اپنی بات مکمل کی تھی۔
" نہیں سر ایسا کچھ نہیں ہوگا میں جان پر کھیل جاوں گا مگر ایسا کچھ نہیں ہونے دوں گا۔"
اس کے لہجے میں وطن سے محبت بول رہی تھی کرنل خاور نے ڈن کا سگنل دے کر کال بند کردی تھی جبکہ اس نے اپنی جیپ کی رفتار مزید بڑھائی تھی۔ اس کا رخ اب سیکرٹ ایجنسی پنڈی کی جانب تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
دھیرے دھیرے رات کی سیاہی آسمان پر پھیل رہی تھی۔ خان ولا میں سناٹوں کا راج تھا ماہ رخ بیگم ہی صرف گھر میں موجود تھیں وہ اپنے کمرے میں بےچینی سے چکر کاٹ رہی تھی ہاتھ میں پکڑا ہوا فون مسلسل بیپ دے رہا تھا وہ عجیب سی کشمکش میں تھی۔
" میرا بھروسہ رکھو میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔"
کہیں سے جبرئیل کی زندگی سے بھرپور آواز اس کے کانوں کے پردے میں گونجی تھی۔ اس نے زور سے آنکھیں میچی تھیں۔
" میں تب تک محفوظ ہوں جب تک میں آپ کے ساتھ ہوں۔"
اسے کہیں سے اپنی آواز بھی سنائی دی تھی۔ آنسووں کی ایک لڑی اسے اپنے چہرے پر گرتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ فون مسلسل حرکت کررہا تھا۔
" میں جلد واپس آوں گا"
اس کی آواز ماحول میں بکھری تو زارا کی ایک سسکی نکلی۔
" کاش آپ آج میرے پاس ہوتے میرے سامنے ہوتے تو میں اس مشکل میں نہ ہوتی میجر صاحب آپ کو زرہ فکر نہیں ہے میری پل پل مر رہی ہوں میں۔"
اس نے آواز دبا کر فون کان سے لگایا تھا دوسری جانب سے اسے پچھلے گیٹ سے باہر آنے کے لیے کہا جارہا تھا۔ وہ سیاہ چادر اپنے وجود کے گرد لپیٹ کر دبے پاوں اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی خان ولا کی کچھ پیلی بتیاں روشن تھیں وہ لاونج سے کیچن میں گئی تھی اور وہی سے پچھلا جالی کا دروازہ کھول کر پچھلے لان میں نکل آئی تھی اس کا دل اس لمہے انتہائی تیزی سے دھڑک رہا تھا اس نے اپنے دھڑکتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھا تھا۔ پیچھے چھوٹا گیٹ تھا جس پر آکر اس نے گہرا سانس بھرا تھا پچھلے گیٹ کی کنڈی کھول کر وہ باہر نکلی تھی ایک بار اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا خان ولا اسی شان سے کھڑا تھا وہ اپنے پاوں خان ولا کی دہلیز سے باہر نکالتے ہوئے یہ بالکل فراموش کرچکی تھی کہ خان ولا سے باہر قدم نکالنا اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی بننے والا ہے۔ باہر پوری سڑک سنسان تھی سنسان سڑک پر صرف اس لمہے ایک پراڈو کھڑی تھی جس کی ہیڈلائیٹس پوری سڑک کو دور تک روشن کررہی تھیں وہ الجھے چہرے اور خوف سے سڑک پر موجود اس پراڈو کو دیکھ رہی تھی۔
" اپنا خیال رکھنا میری جان!"
اس کے آخری بار کے کہے گئے جملے زارا کے کانوں میں گونجے تھے۔
" اگر اس بار تم اپنی ماں سے نہ ملنے آئی تو تم انہیں اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھ پاو گئ۔"
ایک دوسری اجنبی آواز بھی اس کے اردگرد لہرائی تھی ہاتھ میں پکڑے ہوئے فون کی میسج ٹون بجی تھی اس نے روشن سکرین کو کھول کر آنے والا میسج دیکھا تھا۔
" اس سامنے کھڑی ہوئی پراڈو میں آجاو۔"
ماں کی محبت ایک لمہے میں شوہر کی محبت اور بھروسے پر غالب آئی تھی وہ بھول چکی تھی کہ اسے جبرئیل پر بھروسہ رکھنا تھا اس کی اجازت کے بغیر اسے کہیں نہیں جانا تھا مگر اس کے قدم سڑک پر کھڑی سیاہ پراڈو کی جانب بڑھے تھے وہ بہت جلد گیٹ سے گاڑی تک کا سفر عبور کرگئی تھی است قریب آتے دیکھ کر پراڈو کا دروازہ کھل چکا تھا اور اسے اندر بیٹھنے کا اشارہ دیا گیا تھا وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اس گاڑی میں بیٹھ گئی اور گاڑی کچھ ہی دیر میں تیزی سے سڑک پر دوڑنے لگی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

دہلیز کے پار وہ ( مکمل✔)Where stories live. Discover now