قسط نمبر 6
کچھ ساحر تھی شخصیت اس کی
کچھ قاتل تھے لفظ اس کے
جادوگر سا خود تھا وہ
عجب سی تھی بندش اس کی
ایمن خان
وہ ہاسپٹل سے فارغ ہوئیں تو باہر گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ زارا ان کا انتظار کررہی تھی ۔ دور سے ہی انہیں دیکھ کر اس نے ہاتھ ہلایا تھا جیسے اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتی ہو انہوں نے بھی اس کے ہلتے ہوئے ہاتھ کو بغور دیکھا تھا اور پھر مسکرائی تھیں دونوں چلتی ہوئی گاڑی تک آئی تھیں جہاں زارا بیٹھی ان کا انتظار کررہی تھی۔
" اسلام علیکم! کیسی ہو زارا؟"
زیبا نے اس کے ساتھ پچھلی نشت پر بیٹھتے ہوئے مسکرا کر پوچھا تھا جبکہ دوسری جانب سے آنیہ بھی بیٹھ گئی تھی۔ پورا راستہ ادھر ادھر کی باتوں میں باآسانی کٹ گیا تھا۔ جونہی وہ گاڑی سے نیچے اتری تھیں سامنے قطار میں بےشمار دوکانیں تھیں۔ آنیہ اور زیبا زارا کو لیے چلتی ہوئی مختلف دکانوں کی سمت آگئی تھیں جہاں فارمل اور کیجوئل کپڑے موجود تھے۔ بڑے شہر کی دکانیں زارا نے شاہد زندگی میں پہلی بار دیکھی تھیں اس لیے مختلف طرز کے ملبوسات دیکھ کر وہ کچھ حیرت میں مبتلا ہوگئی تھی۔
" تم کیا لو گی زارا؟"
آنیہ نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" ہمم بہت سارے رنگ برنگے رومال لینے ہیں آپ کو پتہ ہے جب میں کشمیر میں ہوتی تھی ہر مہینے اماں کے ساتھ جاکر ایک خوبصورت شیشے کی کڑہائی والا رومال خریدا کرتی تھی۔"
وہ سامنے دیکھتے ہوئے کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں بولتی آنیہ کو بے حد معصوم لگی تھی اسے بے ساختہ اس پر ترس آیا تھا کتنی مشکل میں تھی وہ جس کے پاس اس کا واحد سہارا بھی موجود نہیں تھا۔ آنیہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا تھا اس نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
" مشکل وقت زیادہ دیر تک نہیں رہتا زارا! کبھی نہ کبھی مشکلات آسانیوں میں بھی بدل جاتی ہیں اور تمہاری اماں بھی تمہیں بہت جلد مل جائیں گی۔"
اس نے یقین دلاتے ہوئے اس کا ہاتھ تھاما تھا اور لائن میں بنی دکانوں میں سے ایک کی جانب چل دی تھی جہاں کچھ دیر پہلے زیبا گئی تھی اس بات سے انجان کے دو آنکھیں زارا کا ہی نشانہ لیے ہوئے ہیں۔ وہ دونوں قدم قدم چل رہی تھی جب زارا کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کی کمر کے ایک جانب کوئی نوکیلی شے گھسا دی ہو بے ساختہ اس کے منہ سے آہ نکلی تھی اور اسی کے ساتھ وہ نیچے بیٹھتی چلی گئی تھی اسے اپنے جسم سے کوئی گرم گرم سیال بہتا ہوا محسوس ہورہا تھا آنیہ نے جب اسے نیچے بیٹھتے دیکھا تو وہ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی اور پھر اس کے بائیں جانب قمیض پر خون کا فوارہ بہتے دیکھ کر اس کی دلخراش چیخ پورے پشاور کے بازار میں گونجی تھی جس نے اردگرد کے لوگوں کو اس کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ اس کی آنکھیں دھیرے دھیرے بند ہورہی تھیں اور وہ گہری بے ہوشی میں جارہی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
بڑے سے ہال میں وہ تمام معزز شخصیات موجود تھیں جن میں داور کمال کی شخصیت نمایاں نظر آرہی تھی چئیر پرسن کی کرسی پر بیٹھا ہوا شخص اس لمہے سنجیدگی کی اتہا گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا میٹنگ کا آغاز ہوئے دو گھنٹے بیت چکے تھے اور ان دو گھنٹوں میں ہر وہ نقطہ ڈسکس کیا گیا تھا جس کے باعث کشمیریوں کو تکلیف سے دوچار کیا جاسکے۔ داور کمال اس لمہے شدید پریشانی سے دوچار تھے کیونکہ وہ اس لمہے اپنے وسیع و عریض پینل کو یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ چار ہفتے سے ان کے اپنے ہی گھر سے ان کی اپنی ہی بیٹی غائب ہے وہ بھی ہندو کمیونٹی کے کسی لڑکے سے شادی کرنے کے چکر میں تو داور کمال کی شخصیت اچھی خاصی مشکوک ہوجاتی اگرچے جن لوگوں کے ساتھ وہ اس وقت موجود تھے وہ سب کے سب معمبی کی ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے مگر داور کمال کے مسلمان ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہندو کمیونٹی اٹھاتی تھی اس لیے اس کی اپنی بیٹی کا کسی ہندو کے ساتھ بھاگنا وہاں کی مسلم کمیونٹی میں داور کمال کی شخصیت کی ساکھ بہت بری طرح متاثر کرسکتا تھا اس لیے وہ خاموش تھا اور اتفاق سے ابھی تک یہ بات کسی اور کو پتہ بھی نہیں چلی تھی وہ تو صرف صمن بیگم ہی تھی جو کمال ولا میں علینہ کے جانے کے بعد گھٹ گھٹ کر جی رہی تھیں۔
داور کمال کا تعلق انڈیا کی دو مشہور کمیونٹوں سے بیک وقت تھا مسلم کمیونٹی میں وہ ایک معزز رکن کی حثیت رکھتے تھے جہاں کے اہم فیصلوں میں ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی اور دوسری جانب ہندو کمیونٹی تھی جس کے لیے وہ کام کرتے تھے اور جس کے لیے ہی وہ مسلم کمیونٹی میں معزز سخصیت بنے ہوئے تھے جہاں کے فیصلوں اور خبروں کی پوری من و عن رپوٹ ان کی بدولت ہندو کمیونٹی میں جاتی تھی اور وجہ تھی وہ مقام، وہ شہرت وہ دبدبہ، وہ مرتبہ جو اس لمہے انہیں انڈیا میں حاصل تھا۔ انڈیا میں موجود کسی بھی مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے انسان کو وہ حثیت،وہ دولت وہ مرتبہ حاصل نہیں تھا جو داور کمال کو تھا وہ ہندو کمیونٹی کی ہی بدولت باوجود ایک باعزت مسلم ہوتے ہوئے معمبی انڈیا میں رہ رہے تھے۔
داور کمال کا تعلق سری نگر سے تھا اور وہ وہی پیدا ہوئے تھے لیکن وقت اور حالات انہیں معمبی تک لے آئے تھے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے رومال سے چہرے پر آئے پسینے کے ننھے قطرے تھپک کر صاف کیے تھے اور پھر حال میں لوٹے تھے جہاں تقریبا میٹنگ کا اختتام ہوچکا تھا اور سب معزز حضرات اپنی نشستوں سے اٹھ کر باہر کی جانب جارہے تھے وہ بھی سست روی سے اپنی نشست سے اٹھے تھے اور آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے حال کمرے سے باہر نکل گئے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سکرین پر نظر آتا وجود خون میں لت پت تھا اور ادھر بےچینی سے سکرین کو دیکھتے جبرئیل کی حالت بھی غیر تھی وہ اپنی شہادت کی انگلی مسلسل اپنے دانتوں تلے کاٹ رہا تھا۔ وجیہ سرخ و سپید چہرہ ضبط کی زیادتی سے سرخ پڑتا جارہا تھا کیونکہ سکرین کے پار وجود کا گندمی سرخی مائل چہرہ زرد پڑ رہا تھا۔ سکرین پر نظر آتے فوجی اس کے بے ہوش وجود کو اٹھا کر ایمبولینس میں ڈال رہے تھے اس کا ہینڈ بیگ وہی سامنے گرا ہوا تھا جہاں سے سارا منظر اپنے گھر بیٹھے کشمیر میں جبرئیل بڑی ہمت سے دیکھ رہا تھا۔ دوسری جانب اس کی انگلیاں تیزی سے فون پر کوئی نمبر ملانے میں مصروف تھیں۔
" ہاں سراج! از شی اوکے؟"
اس کے لہجے میں بے پناہ فکر تھی۔
" ڈونٹ نو سر شی از ان انڈر ابزرویشن۔"
سراج نے اس کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے دھیرے سے اسے بتایا تھا۔ اس کے جواب میں جبرئیل نے گہرا سانس خارج کیا تھا اور پھر کچھ دیر خاموشی رہی تھی جب وہ بولا تو اس کا لہجہ اس قدر سخت تھا کہ سراج بھی کانپ کر رہ گیا تھا۔
" پتہ لگواو سراج! یہ حرکت کس کی ہے جس کسی نے بھی یہ کیا ہے نہ آئی سویر وہ میرے ہاتھوں بچے گا نہیں۔"
وہ دانت پر دانت جما کر سخت غصے میں کہہ رہا تھا۔
" شیور سر!"
اس نے اس کے حکم کی تائید کرتے ہوئے کال بند کردی تھی اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہورہا تھا وہ راہداری عبور کرتے ہوئے لکڑی کا دروازہ پار کرکے اپنے چھوٹے سے لان میں آگیا تھا جہاں درخت کافی حد تک برف سے ڈھکے ہوئے تھے باہر آتے ہی اسے شدید قسم کی سردی کا احساس ہوا تھا مگر اس کے اندر لگی آگ اس میں اس سردی کو برداشت کرنے کی قوت پیدا کررہی تھی اور وہ بے چینی سے پورے لان میں چکر کاٹ رہا تھا زارا کو کچھ ہونے کا خیال ہی سوچ کر جبرئیل کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔
بن دیکھے بن سوچے
وہ جو ہو گئی تھی
وہ کچھ اور نہیں تھا
ہاں وہ محبت ہی تھی
راہوں کی لطیف بہاروں میں
وہ جو اوس بن کر برسی تھی
وہ اور کچھ نہیں تھا
ہاں وہ محبت ہی تھی
فضا میں نم شبنم کے قطروں کی مانند
جو بکھری تھی
ہاں وہ اور کچھ نہیں تھا
صرف محبت تھی بس محبت تھی
ایمن خان
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
خان ولا سنسان پڑا ہوا تھا پورے خان ولا میں اس لمہے سگرا بی کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔ ہر سو سناٹوں کا راج تھا ایسے میں وہ اپنے کمرے میں جلتی بلی کے پیر کی طرح مسلسل ادھر سے ادھر چکر کاٹنے میں مصروف تھی وہ اپنے دونوں ہاتھ آپس میں رگڑ رہی تھی جو عمومی طور پر اس کے پریشانی میں ہونے کا عندیہ دے رہے تھے۔ چکر کاٹ کاٹ کر ٹانگیں بھی اب درد کرنا شروع ہوگئی تھی مگر پھر بھی وہ مسلسل مارچ کرنے میں مصروف تھی۔ وہ شدت سے ہسپتال سے زارا کی موت کی خبر کی منتظر تھی ہاں شاہد یہی وجہ تھی جو اسے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی۔ اسی وجہ سے وہ مسلسل اپنی ٹانگوں کو تھکا رہی تھی۔
" اب کیوں چکر کاٹ رہی ہو کام تو تم اپنا کر چکی ہو؟"
کمرے میں کہیں ایک آواز ابھری تھی۔ اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا تھا مگر وہاں کوئی ہوتا تو اسے دیکھائی دیتا نہ یہ تو صرف اس کے سوئے ہوئے ضمیر کی آواز تھی جو ایک دم کہیں سے انگڑائی لے کر بیدار ہوا تھا۔
" دعا کرو وہ مر جائے!"
اس نے اپنے ضمیر کو بھی اپنے سفاک منصوبے میں شامل کرنے کی کوشیش کی تھی۔
" مر جائے! لیکن کیوں آخر؟ کیا قصور کیا اس نے کیوں مروانا چاہا تم نے اسے؟"
ضمیر ایک دم جیسے چیخ ہی تو پڑا تھا۔
" وہ میرے راستے میں کھڑی ہے اس کے ہوتے میں کبھی بھی جبرئیل تک نہیں پہنچ سکتی۔"
صاریہ نے خود کو اور اپنے ضمیر دونوں کو بے حد بھونڈی وضاحت پیش کی تھی اس کا ضمیر ایک دم اس پر قہقے لگا کر ہنسا تھا۔
" کس غلط فہمی میں ہو تم صاریہ میڈم! وہ چاہے زندہ رہے یا چاہے تم اسے مار دو لیکن جبرئیل پھر بھی تم سے شادی نہیں کرے گا۔"
ضمیر تو گویا اسے آج آئینہ دیکھانے پر بضد تھا۔
" جھہ۔۔جھوٹ بول رہے ہو تم! غلط کہہ رہے ہو وہ مجھ۔۔مجھے صاریہ خان کو ٹھکرا سکتا ہی نہیں ہے۔"
اس نے سائیڈ میز سے شیشے کا ایک گلدان اٹھایا اور پوری قوت سے سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر مارا ڈریسنگ کا شیشہ لمہوں میں چکنا چور ہوگیا تھا۔
پورے کمرے میں بے ہنگم قہقے گونج رہے تھے صاریہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے بال جکڑے تھے اور نیچے بیٹھتی چلی گئی تھی۔
" انسان ہوکر کیوں کوشیش کی تم نے اپنے ہاتھ خون سے رنگنے کی؟ تمہارے ہاتھوں سے زارا کے خون کی بو آرہی ہے۔"
ضمیر نے پھر سے اسے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔
" اب۔۔اب اگر وہ۔۔وہ مہ۔۔مر گئہ۔۔گئی تہ۔۔۔تو مہ۔میں کہ کیا کروں گی۔؟
خوف کے باعث اس کا لہجہ لڑکھڑا گیا تھا زبان نے لفظوں کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور وہ بس یہاں سے جانا چاہتی تھی۔
" سزا ملے گی تمہیں پھر بس اور کچھ نہیں کرو گی تم اور سزا بھی تمہیں محبت کے ہاتھوں ملے گی اس سے دوری کی صورت میں جس محبت کو پانے کے لیے تم کسی کی جان لینے پر اتر آئی وہی محبت تم سے اتنی دور چلی جائے گی کہ اس تک رسائی تمہارے لیے مشکل سے مشکل ترین ہوجائے گی۔"
ضمیر تو آج صاریہ کو برباد کرنے پر تلا ہوا تھا ایسے سخت الفاظ تو اس نے کبھی کسی اپنے کے منہ سے بھی نہیں سنے تھے جو اس کے کانوں میں اس کا ضمیر بول گیا تھا۔ صاریہ کو اپنے گال بھیگے ہوئے محسوس ہورہے تھے کیوں محبت تو پہلے ہی دسترس سے دور تھی اور اب جذبات میں آکر وہ یہ بے وقوفی کرکے خود کے لیے اور بھی مشکلات پیدا کرچکی تھی جو شاہد اسے پوری زندگی بھگتنا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆
ہسپتال کے کوریڈور میں وہ تمام کے تمام نفوس ساکن کھڑے تھے اندر لیٹے وجود کی جانب سے انہیں ابھی کسی بھی قسم کی کوئی اطلاع وصول نہیں ہوئی تھی۔ آنیہ اور زیبا تو سارا الزام خود کو دیے جارہی تھیں نہ وہ اسے ساتھ لے کر چلنے کا کہتیں اور نہ ہی یہ ہوتا۔ دیوار کے ساتھ رکھے گئے بینچوں میں سے ایک پر بیٹھی وہ دونوں آنسو بہانے میں مصروف تھیں۔
" بس کرو چپ کر جاو بیٹا!"
ماہ رخ بیگم نے زیبا اور آنیہ دونوں کو ہی رونے سے بعض رکھنے کی کوشیش کی تھی۔
" امی! جبرئیل بھائی تو اب ہمیں چھوڑے گئے نہیں۔"
زیبا نے آنکھیں رگڑتے ہوئے اپنی ماں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
" اف بیٹا! وہ جبرئیل ہے کوئی عام مرد نہیں ہے کہ ایسی کسی بات کو لے کر تم لوگوں سے بغض
پرس شروع کردے۔"
انہوں نے اپنے اردگرد بیٹھی آنسو بہاتی دونوں کا ہاتھ دبا کر انہیں حوصلہ دیا تھا۔ جبکہ زیبا کی نگاہ سامنے ایمرجنسی کے دروازے کے باہر سنجیدہ چہرے کے ساتھ کھڑے آرون پر پڑی تھی جس نے اس کے رونے کا بھی ابھی تک کوئی نوٹس نہیں لیا تھا رونا کیا ایک بار بھی اس کی جانب نہیں دیکھا تھا اسے سچ میں لگا تھا کہ جیسے اس کی جانب سے کوئی بہت ہی سنگین قسم کی غلطی کی گئی ہے۔ عشرت جہاں ہاتھ میں تسبح تھامے ایمرجنسی کے دروازے کے باہر ہی چکر کاٹ رہی تھیں ان کی زبان مسلسل حرکت میں تھی سبتین اور آرون کی حالت بھی ان سے مختلف نہ تھی کچھ ہی دیر میں ایمرجنسی کا دروازہ کھلا تھا اور ڈاکٹر باہر آیا تھا۔ وہ تیبوں بے چینی سے ڈاکٹر کی جانب بڑھے تھے لیکن آنیہ اور زیبا میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ اٹھ کر ڈاکٹر سے اس کی حالت کے بارے میں ہی پوچھ سکیں۔
" ڈاکٹر کیسی ہے اب میری بچی! کوئی خطرے والی بات تو نہیں ہے نہ؟"
وہ بے چینی کے عالم میں چہرے پر تفکر کے آثار لیے ڈاکٹر سے پوچھ رہی تھیں۔
" دیکھیں گولی ان کی ریبز کو بس چھو کر گزری ہے خون زیادہ بہنے کی وجہ سے وہ ابھی تک ہوش میں نہیں آئی ہیں ان کا ٹریٹمینٹ کردیا گیا ہے امید ہے وہ جلد ہی ہوش میں آجائیں گی مگر وہ کافی ویک ہیں جس کے باعث ہوش میں آنے میں انہیں وقت لگ سکتا۔"
ڈاکٹر پیشہ ورانہ انداز میں انہیں بتا رہا تھا جبکہ ڈاکٹر کی ساری گفتگو آرون سے فون پر بات کرتے جبرئیل باخوبی سن چکا تھا وہ نہیں جانتا تھا کیوں مگر ڈاکٹر کی اتنی سی بات پر ہی اسے اپنا دل رکتا ہوا محسوس ہورہا تھا وہ اچھے سے یہ بات جانتا تھا کہ زارا خون سے کتنی خوفزدہ ہوتی ہے اور اب جب اس کے اپنے جسم سے اتنا زیادہ خون نکلا ہوگا تو وہ کس تکلیف سے گزری ہوگی جبرئیل کو اس کی وہ تکلیف اپنے اندر محسوس ہورہی تھی۔ اس نے غصے سے مکا دیوار پر مارا تھا آواز اتنی تو ضروع تھی کہ اس پار آرون باجوبی سن لیتا۔
" بھائی! آر یو اوکے کیا ہوا ہے وہاں؟"
اس نے آواز سن کر بے چینی سے اس سے پوچھا تھا جو ڈاکٹر کی بات کے بعد ایسے خاموش ہوگیا تھا جیسے اسے سانپ سونگ گیا ہو۔
" پلیز بھائی کچھ بولیں!"
اسے خاموش دیکھ کر اس نے ایک بار پھر سے اسے بولنے پر اکسایا تھا۔ جب پھر بھی دوسری جانب خاموشی ہی رہی تو آرون نے گہرا سانس بھرا تھا اور پھر جب بولا تو اس کے لہجے میں گہری سنجیدگی اور تسلی تھی جو شاہد دوسری جانب جبرئیل کی کیفیت سمجھتے ہوئے اسے اپنانی پڑی تھی کیونکہ وہ اس لمہے اس کی حالت کا اندازہ لگانے میں کافی حد تک کامیاب ہوچکا تھا۔
" وہ ٹھیک ہوجائے گی بھائی! آپ پشاور مت آئیں آئی ول ٹیک کئیر اف ہر!"
آرون کے لہجے کی سنجیدگی نے جبرئیل کو لب وا کرنے پر مجبور سا کردیا تھا جب وہ بولا تو اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔
" اس کا خیال رکھنا رون! آئی ڈونٹ کمپرومائز اون ہر شی از مائی رسپونسبلٹی۔"
اس کے لہجے میں ٹھہراو اور سکوت سا تھا جس نے آرون کو مزید اس سے کوئی بھی سوال کرنے سے بعض رکھا تھا ورنہ دل تو اس کا چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی کے ابھی جبرئیل سے یہ دریافت کرلے کہ اسے اس کی اتنی فکر کیوں ہورہی ہے انسان صرف اپنی زمہ داری کے لیے تو یہ کچھ نہیں کرتا لیکن پھر اس نے اپنے لفظوں کو فل حال کے لیے اپنے لبوں میں ہی دبا لیا تھا اور چند مزید تسلی بخش جملے بول کر رابطہ منقطع کردیا تھا۔ اب اس کا رخ بینچ کی جانب تھا جہاں ابھی بھی بیٹھی زیبا مسلسل آنسو بہانے میں مصروف تھی اور وہ ناچاہنے کے باوجود بھی اسے روتے ہوئے دیکھ کر برداشت کررہا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کمال ولا میں مخملی صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھے داور کمال سگار سلگائے کسی گہری سوچ میں مصروف تھے سامنے دیوار گیر ایل ای ڈی بغیر آواز کے چل رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں صمن بیگم ہلکے بادامی رنگ کی ساڑھی سلیو لیس بلوز کے ساتھ پہنے اپنے ڈائی شولڈر کٹ بال شانوں پر بکھیرے ٹک ٹک کرتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھیں سامنے کیچن کے دروازے سے چائے کے لوازمات سے بھری ہوئی ٹرالی لیے ملازمہ لیونگ روم میں ہی آرہی تھی۔
" نوراں! یہ ادھر رکھو اور تم جاو چائے میں خود بنا لوں گی۔"
انہوں نے آہستگی سے نوراں سے کہا تو وہ ٹرالی چھوڑ کر واپس کیچن کی جانب پلٹ گئی۔ علینہ کے جانے کے بعد سے وہ خود بہت نڈھال تھیں میک اپ سے مبرہ چہرہ آنکھوں کے گرد گہرے ہلکے ان کے کئی دن سے نہ سونے کی چغلی کھا رہے تھے۔ داور کمال نے سگریٹ کا گہرا کش لیتے ہوئے سرسری سی نگاہ ان کے بکھرے بکھرے وجود پر ڈالی تھی اور پھر سگار ایش ٹرے میں مسلا تھا اور سیدھے ہوکر صمن بیگم کی جانب متوجہ ہوئے تھے جو چائے بنانے میں مصروف تھیں۔
" کیا بات ہے صمن! یہ کیا حولیہ بنا رکھا ہے تم نے اپنا؟"
انہوں نے ان کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تھا جو چائے بنانے میں مصروف تھیں۔
" آپ کو کیا غرض ہے میرے حولیے سے نظر بھر کر تو آپ اب مجھے دیکھتے نہیں ہیں تو فائدہ اس قسم کے سوال کرنے کا؟"
انہوں نے چائے کا بھرا ہوا کپ ان کی جانب بڑھاتے ہوئے ایک شکوہ کناں نگاہ ان پر ڈالی تھی۔
" او پلیز صمن! یہ دو ٹکے کی عورتوں کی طرح گلے شکوے مت شروع کردیا کرو۔"
چائے کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے وہ خاصے بیزار انداز میں بولے تھے۔
" تو کیا کروں میں بتائیں میری بیٹی کو میرے گھر سے گئے اتنے دن بیت گئے ہیں کیا کیا آپ نے اس کے لیے کہاں ڈھونڈا ہے اسے؟ کہیں نہیں داور کمال صاحب مجھے یوں معلوم ہورہا جیسے اسے پیدا کرنے والی میں اکیلی تھی اور صرف وہ میری بیٹی ہے آپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"
وہ تلخی سے کہتی ہوئی داور کمال کے سامنے زہر اگل رہی تھیں۔
" وہ میری بھی بیٹی ہے اور مجھے اس کی تم سے زیادہ فکر ہے جارہا ہوں میں آج شام کی فلائیٹ سے گووا اسے ڈھونڈنے مل جائے گی وہ پریشان مت ہو۔"
آخر میں وہ تھوڑا نرم پڑ گئے تھے۔"
" کیا سچ میں ڈھونڈیں گئے میری بیٹی کو؟"
وہ ایک دم پرجوش سی ہوگئی تھیں۔
" ہاں سچ میں تم فکر مت کرو۔"
انہوں نے چائے کا کپ خالی کرکے میز پر رکھتے ہوئے ان سے کہا تھا اور اپنے کوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے لیونگ روم سے نکلتے چلے گئے تھے۔ پیچھے وہ اس خبر پر ہی خوش ہوگئی تھیں کہ اب انہیں علینہ مل جائے گی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ جب کھوئے ہوئے انسان واپس ملتے ہیں تو وہ یکسر بدل جاتے ہیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ روشنی میں بیٹھی اپنے سگریٹ سے جلے ہوئے ہاتھوں کو اپنے سامنے کیے دیکھ رہی تھی۔ پہلی دو انگلیاں بری طرح جھلس چکی تھیں اتنی کہ ان کی اوپری جیلد غائب تھی وہ بے تاثر آنکھوں سے اپنے جھلسے ہوئے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔
" جلن نہیں ہورہی آپ کو؟"
غلام بخش دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا اس کے جلے ہوئے ہاتھوں کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اس کے سوال پر ایس۔کے نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا اور پھر بے ساختہ نفی میں سر ہلایا تھا۔
" کیوں! ہاتھ تو بہت بری طرح جھلسا ہوا ہے آپ کا؟"
وہ ہاتھوں میں کریم تھامے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اس کی جانب آرہا تھا۔
" جب دل بری طرح جلا ہو روح بری طرح جھلسی ہو تکلیف کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ سانس بھی مشکل سے آرہا ہو تو ایسے میں اس معمولی جلن کا ڈھنڈورا کیوں پیٹوں میں؟"
وہ اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے بدلے میں اس سے ہی سوال پوچھ رہی تھی جو شاہد غلام بخش کو بے حد اچھا لگا تھا۔
" آہاں آپ کو کیا لگتا ہے دل اور روح صرف آپ کی جھلستی ہے نہیں ایس۔کے! دل تو ان کا بھی جل جاتا ہے جو ساری عمر اپنے دل سے اپنے بہت قریبی لوگوں کی روحوں پر ٹھنڈی پھوار برساتے رہتے ہیں روح تو ان کی بھی گھائل ہوجاتی ہے جو خود اپنی روح مار کر اپنے بہت قریبی لوگوں کی روح کو سراب کردیتے ہیں۔"
نہ تو انداز جتانے والا تھا اور نہ ہی لہجہ سرد تھا پھر بھی ایس۔کے کو یوں محسوس ہوا تھا جیسے غلام بخش نے چند سطروں میں اس کے سامنے اپنا پورا وجود کھول دیا ہو اپنے وجود کے سارے بخیے اس لمہے جیسے اس نے ادھیڑ دیے ہوں۔
" دل کو روح سے کیوں جوڑتے ہیں ہمشہ غلام بخش!؟"
یہ ایس۔کے کا سوال تھا جو اس نے غلام بخش کو غور سے دیکھتے ہوئے کیا تھا۔
اس کے سوال پر غلام بخش مسکرایا تھا اور پھر کریم کا ڈھکن کھول کر اس کی نرم نرم جھلسی پوئی انگلیوں پر کریم لگاتے ہوئے گویا ہوا تھا۔
" کیونکہ دل روح کا امین ہے اور روح دل کی مکین ہے دونوں ایک دوسرے کے لیے ہیں روح دل کے دھڑکنے سے توانا رہتی ہے اور قلب روح کے توانا رہنے سے دھڑکتا رہتا ہے لیکن آپ کو معلوم یہ دونوں ایک ہی وجود میں توانا نہیں رہ سکتے؟"
اس کا نرم لمس ایس۔کے کو راحت پہنچا رہا تھا اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا تھا۔
" دل تب توانا دھڑکتا ہے اس کی دھڑکنیں تب بےہنگم شور مچاتی ہیں جب دل کے مکین کی روح راضی ہو جب اس کی روح بے چین ہوتی ہے نہ تو دل کی دھڑکن میں بھی سست روی آجاتی ہے اس لیے روح اس کی ہوتی ہے اور دل اپنے سینے میں دھڑکتا ہے جب روح اپنی ہوتی ہے تو دل اس کا دھڑک رہا ہوتا ہے مگر یک طرفہ محبت میں روح اس کی راضی ہوتی ہے پر دل اپنا جھلس رہا ہوتا ہے۔"
اس نے آہستہ آہستہ بول کر اپنا ہاتھ اس کی انگلیوں سے ہٹا لیا تھا اس پوری دنیا میں غلام بخش وہ واحد مرد تھا جسے شاہد ایس۔کے کو چھونے کا حق تھا ورنہ وہ کسی بھی مرد کو خود کو چھونے ہرگز نہیں دیتی تھی اور پندرہ سال سے دل میں پلتی محبت کا یہ وہ واحد انعام تھا جس کے باعث غلام بخش کی تکلیف تھوڑی کم ہوجاتی تھی مگر اس کی تکلیف کے مکمل علاج کے لیے تو ایک صدی چائیے تھی جو بھی شاہد ناکافی ہوتی۔
اسے اندزہ بھی نہیں ہوا تھا اس کے قریب بیٹھی اس کی متائے حیات کی آنکھوں کے گوشے بس بھیگ ہی گئے تھے جن کو بڑی ہی خوبصورتی اور مہارت سے وہ چھپاگئ تھی کیونکہ وہ کوئی عام عورت نہیں تھی جس کی کمزوری کوئی مرد اتنی آسانی سے پکڑ لیتا وہ ایس۔کے تھی جس سے ایک زمانہ ڈرتا تھا پھر چاہے وہ مرد غلام بخش ہی کیوں نہ ہو اتنی آسانی سے وہ اپنی کمزوری ہاتھ نہیں آنے دیتی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ہسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے اس کا وجود بہت لاغر لگ رہا تھا۔ چہرہ بالکل ہی زردی مائل ہوچکا تھا یوں معلوم ہوتا تھا جیسے زندگی کی ساری رنگینیاں ہی اس سے روٹھ گئی ہوں وہ ہسپتال کے بیڈ پر چت لیٹی مسلسل چھت کو گھور رہی تھی جب دروازے پر ہلکا سا کھٹکا ہوا تھا اس نے نگاہوں کا زاویہ موڑ کر دیکھا تو آرون ہاتھ میں کچھ تھامے دروازے پر کھڑا تھا گویا اندر آنے کی اجازت مانگ رہا ہو زارا نے سر کے اشارے سے اسے اندر آنے کی اجازت دی تھی اور خود اٹھ کر بیٹھنے کی کوشیش کی تھی جسے ہاتھ کے اشارے سے روک کر ناکام بنا دیا گیا تھا۔
" کیسی طبعیت ہے اب آپ کی زارا؟"
اس نے اس کے بیڈ کے قریب کرسی رکھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
"بہتر ہوں۔"
زارا نے انتہائی دھیمی آواز میں کہا تھا حتی کہ آرون بامشکل ہی سن پایا تھا۔
" یہ لیں یہ بھائی نے آپ کے لیے بھجوایا ہے۔"
اس نے وہ ڈبہ اس کے آگے کرتے ہوئے کہا تھا جس کی آنکھوں میں اس لمہے زمانے بھر کی حیرت تھی۔
" اس۔۔اس میں کیا ہے؟"
زارا نے اس کے ہاتھ سے ڈبا لیتے ہوئے حیرت سے اسے الٹ پلٹ کرتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا۔
" خود ہی کھول کر دیکھ لیں میں چلتا ہوں۔"
اس نے کندھے اچکا کر اس سے کہا اور خود پرائیویٹ روم کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد اس نے گولڈن گفٹ ریپ میں لپٹا ہوا وہ ڈبہ کھولنا شروع کیا تھا سارے ڈبے سے ریپر ہٹانے کے بعد نیچے سے ہلکے گندمی رنگ کا ڈبہ نکلا تھا اس نے جب ڈبہ کھولا تو حیرت سے گنگ رہ گئی کیونکہ ڈبے میں ایک سمارٹ فون تھا جو اب بجنا شروع ہوگیا تھا اور اس میں جبرئیل کا نام بھی چمک رہا تھا زارا نے فون ڈبے میں سے نکال کر فوری یس کرکے کان کو لگایا تھا لیکن وہ خاموش رہی تھی شاہد مقابل کی آواز پہلے سننے کی خواہش نے اس میں جنم لیا تھا۔
دوسری جانب سے بھی مکمل خاموشی تھی مگر زارا اس کے سانسوں کی آواز بخوبی سن سکتی تھی۔ جب کچھ دیر تک دونوں جانب خاموشی رہی تو جبرئیل نے گہرا سانس بھرا تھا شاہد وہ اسے مخاطب کرنے کی ہمت جمع کررہا تھا دونوں میں ہی ایک عجیب سا ان کہا رشتہ تھا بے شمار فکر سموئے ہوئے ایک دوسرے کو کھو دینے کا خوف لیے ہوئے لیکن اس کے معنی سے دونوں ہی انجان تھے اور وقت وہ معنی انہیں جلد سمجھانے والا تھا کیونکہ کہیں اوپر دونوں کی ڈوریں آپس میں مل رہی تھی اور وہ اس کے کام تھے جو اوپر بیٹھا ہوا تھا اس کی وہی جانے۔
" کیسی ہو؟"
فون سے انتہائی مدہم آواز ابھری تھی جسے اتنے دن بعد سن کر زارا کو ایک عجیب سی چپ لگ گئی تھی۔ دونوں کے درمیان ایک بار پھر سے طویل وقفہ آگیا تھا۔
" زارا! کیا تم سن رہی ہو؟"
ایک بار پھر سے اس کی آواز ابھری تھی لمہے کے ہزارویں حصے میں وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی تھی۔
" سن رہی ہوں۔"
لہجہ بے حد دھیما تھا اتنا کہ جبرئیل بامشکل ہی سن پایا تھا۔
" پھر میری بات کا جواب کیوں نہیں دے رہی ہو؟"
دوسری جانب سے لہجے میں تشویش کے ساتھ ساتھ حیرت بھی تھی۔
ایک بار پھر سے خاموشی چھاگئی تھی سانس لینے کی آواز دونوں جانب سے ہی آرہی تھی۔ جب وہ بولی تو لہجے میں شکوہ نمایاں تھا۔
"کیا جواب دوں جو حفاظت کرنے کا دعوع کرکے بیچ راہ میں چھوڑ جائیں انہیں کیا جواب دیا جائے۔"
لہجہ برف کی مانند ٹھنڈا ٹھار تھا جس کی تاثیر سیدھی جاکر جبرئیل کے دل میں چبھی تھی۔ زارا کو جبرئیل سے شکوہ کرنے کا کوئی حق نہیں تھا مگر وہ پھر بھی اس پر اپنا وہ حق استعمال کررہی تھی جو سرے سے اس کے پاس تھا ہی نہیں۔ اس کے اس شکوے پر جبرئیل کے دل کو کچھ ہوا تھا وہ ایک دم اس کے جواب پر لاجواب ہوگیا تھا۔
" میجر جبرئیل وعدہ خلافی کبھی نہیں کرتا زارا! اس لیے یہ بات آپ اپنے ذہن سے نکال دیں کہ میں آپ کو بیچ راہ میں چھوڑ کر چلا گیا ضروری نہیں ہوتا کہ محافظ ساتھ رہ کر ہی حفاظت کریں جن کی فکر ہوتی ہے نہ وہ تو دور سے بھی حفاظت کر لیتے ہیں۔"
اس کے بے حد سنجیدگی سے کہے گئے جملوں نے زارا کو مسکرانے پر مجبور کردیا تھا اسے شاہد نہیں معلوم تھا مگر اس کے یاقوتی لب مسکرا رہے تھے اور وہ یقینن بہت خوبصورت لگ رہی تھی مگر یہ بات صرف باہر سے آنے والا شخص ہی اسے بتا سکتا تھا۔
" میں جلدی واپس آوں گا اور جب میں آوں تو آپ مجھے بالکل ٹھیک ملیں۔"
آخری جملہ زارا کے دل میں آخری ضرب بھی لگا چکا تھا اس کے لبوں میں مسلسل مسکراہٹ رقصاں تھی دوسری جانب سے رابطہ منقطہ کردیا گیا تھا مگر وہ ناجانے کتنی ہی دیر فون کان سے لگائے بے جان بیٹھی رہی تھی وہ ابھی بھی اسی کے لفظوں کے سحر میں تھی جو اسے زمین سے آسمان پر پہنچا چکے تھے ہاں یہ سچ تھا کہ اس لمہے زارا نور آسمان پر اوڑھ رہی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
" سمندر کی شفاف لہروں سے زیادہ محبت
آکاش کے گہرے نیلے رنگ سے زیادہ عشق
آگ کی جلا دینے والی تپش سے زیادہ جنون
خون کے گاڑھے پن سے زیادہ گہری وفا
تم سے عشق،محبت اور روز بروز بڑھتا ہوا جنون"
سفید کاغذ پر آج بھی صرف یہی پانچ سطریں درج تھیں اس کے سامنے میز پر ڈھیروں ایسے کاغذ تھے جن پر یہی الفاظ درج تھے لیکن ہر بار یہ سطریں مختلف مفہوم پیش کرتی تھیں آج ان سطروں کے ساتھ کاغذ پر گر کر سوکھے ہوئے کچھ پانی کے قطرے بھی تھے جو ان سطروں ہر گرے تھے جن کے باعث قلم کی سیاہی قدرے پھیل گئی تھی لیکن سیاہی پھیلنے کے باوجود احسن کو وہ تحریر حفظ تھی کیونکہ وہ ان کاغذوں میں درج اس پانچ سطرہ تحریر سے گزشتہ دو سالوں سے کھیل رہا تھا تحریریں صرف آتی تھیں اس نے کبھی بھی ان تحریروں کا جواب دینے کی نہ توکوشیش کی تھی اور نہ ہی ضرورت محسوس کی تھی لیکن آج کی تحریر میں ان لفظوں کے ساتھ شاہد آنسووں کی آمیزیش بھی شامل تھی احسن کو یوں لگا کہ جیسے کسی نے اس کا دل اپنی مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔ اس نے بے بس سا ہوکر ساتھ رکھا ہوا سفید شفاف کاغذ اٹھایا تھا اور قلم دان سے ایک قلم بھی اٹھایا تھا اور پھر اس نے دھیرے دھیرے قلم کاغذ پر گھسیٹنا شروع کیا تھا۔
" سمندر کی امڈتی لہروں سے وحشت
آکاش کے گہرے نیلے رنگ سے زیادہ الجھن
آگ کی جلا دینے والی تپش سے زیادہ تجسس
خون کے گاڑھے پن سے زیادہ گہری خواہش
تم سے زور بروز بڑھتی ہوئی وحشت،الجھن، تجسس اور ملنے کی خواہش۔"
اس نے لمہے میں اس کاغذ پر اس کے خط کے جواب میں اپنا پورا دل کھول کر رکھ دیا تھا تحریر لکھنے کے بعد اس نے خاکی کاغذ میں تحے لگا کر اسے رکھا اور لفافہ بند کرکے ڈاک میں دیے جانے والے خطوں کے ساتھ رکھ دیا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس خط کا جواب لکھنا اس کی غلطی تھی یا فاعدہ یہ تو آنے والا وقت بہتر بتانے والا تھا۔
اس عشق دے وچ یاروں
کچھ کہیا نہیں جاندا
رولا پایا وی نہیں جاندا
چپ ریا وی نہیں جاندا
صبر کیتا نہیں جاندا
ظلم سہیا نہیں جاندا
اس عشق دے وچ یاروں
رولیا وی نہیں جاندا
سیا وی نہیں جاندا
تے مریا وی نہیں جاندا
ایمن خان
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سیاہ اینٹوں والے تحہ خانے میں آرا آج چیخ رہی تھی اس کی کیفیت ہذیانی ہورہی تھی جیسے خود سے اس کا اختیار ختم ہورہا ہو آج ایک مہینے بعد اس کی خشک آنکھوں سے آنسو چھلکے تھے اور وجہ نادرد تھی وہ آواز کے ساتھ انتہائی اونچا رو رہی تھی زنجیر میں جکڑی اس کی کلائیوں پر خون بہہ کر جم چکا تھا پیر مسلسل بندھنے کے باعث سوجھ چکے تھے جسم کا پور پور درد کی اتہا گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا اور وہ آج جسم کی نہیں دل کی تکلیف پر چیخ رہی تھی اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کسی نے اس کا دل دو ٹکروں میں بانٹ دیا ہو لیکن وہ جانتی تھی چاہے وہ کتنا بھی رو لے لیکن اس کی تکلیف کو محسوس کرنے والا وہاں کوئی بھی نہیں تھا چیخ کر اس کا گلہ بیٹھ گیا تھا اور اس کی آواز بند ہوگئی تھی بے تحاشہ رونے کے باعث اس کی ہمت دھیرے دھیرے ختم ہوگئی تھی اور وہ گہری بے ہوشی میں جا چکی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ اپنے بستر پر بیٹھی مسلسل دل و دماغ کی جنگ میں الجھی ہوئی تھی ایک طرف سے ضمیر تھا جو اس کی غلطی پر اسے مسلسل کچوکے لگا رہا تھا تو دوسری طرف دل تھا جو بس جبرئیل کی ہی آرزو کررہا تھا ضمیر کہہ رہا تھا کہ وہ گناہ کرچکی ہے اور دل کہہ رہا تھا کہ پیار اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے وہ سر تھامے ہوئے بستر پر بیٹھی ہوئی تھی جب پاس رکھا ہوا اس کا فون چیخا تھا اس نے بے دھیانی میں ہی ہاتھ بڑھا کر فون کان سے لگایا تھا لیکن مقابل کی آواز سن کر وہ اپنی جگہ اچھل ہی گئی تھی وہ تو یہ بھول ہی گئی تھی کہ جس کام میں وہ ہاتھ ڈال چکی ہے وہ ابھی پوری طرح سے ختم نہیں ہوا ہے اس نے تھوک نگلتے ہوئے ہیلو بولا تھا۔
دوسری جانب سے جو مطالبہ کیا گیا تھا وہ صاریہ کو سلگانے کے لیے کافی تھا۔
" کس چیز کے پیسے؟ اسے مارنے کے پیسے دیے تھے میں نے مگر وہ مری نہیں ہے ابھی بھی زندہ سلامت ہسپتال کے بستر پر پڑی ہوئی ہے اور جب تک وہ مرے گی نہیں جبرئیل میرا کبھی ہوگا بھی نہیں۔"
اس کے لہجے میں اس لمہے نفرت تھی کچھ دیر پہلے والے ضمیر کی ملامت کرتی آواز کہیں جا سوئی تھی محبت صاریہ پر سر چڑھ کر بول رہی تھی دروازے کے باہر کھڑی عشرت جہاں ایک بار جی جان سے لرز گئی تھیں انہوں نے سہارے کے لیے دیوار تھامی تھی وہ تو صاریہ کو اپنے ہسپتال جانے کے بارے میں بتانے آئی تھیں مگر یہ کیا جو کچھ انہوں نے سنا تھا اس نے تو گویا ان کے پیروں تلے زمین ہی کھینچ لی تھی سارا مان سارا غرور ساری محبت صاریہ نے ایک لمہے میں مٹی میں ملا دیا تھا۔وہ اس لمہے اسے جھنجھوڑنا چاہتی تھیں اس کا گریبان پکڑنا چاہتی تھیں لیکن اس وقت جو سب سے ضروری کام زارا کو صاریہ سے بچانا تھا کیونکہ جو ایک بار کسی کو مارنے کی کوشیش کرسکتا ہے وہ دوسری بار بھی یہ کرنے سے ہچکیچائے گا نہیں اور اسی وقت سے عشرت جہاں ڈر رہی تھیں صاریہ ان کی نظروں سے ایسی گری تھی کہ وہ اگر اپنا مقام بحال کرنے میں صدیاں بھی لگادیتی تو وہ بھی کم پڑجاتیں انہوں نے اپنے فون پر جبرئیل کا نمبر ملایا تھا اور فون کان سے لگا کر اپنے کمرے کی جانب چل پڑی تھیں انہوں نے اپنی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ لمہوں میں کیا تھا اور اب وہ اس کی تکمیل چاہتی تھیں وہ جانتی تھیں کہ جس سے وہ امید وابسطہ کر رہی ہیں وہ امید ٹوٹنے نہیں دے گا کیونکہ کچھ امید ہوتی ہی جڑنے کے لیے ہیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ گزشتہ تین روز سے گووا میں تھے تین روز سے انہوں نے گووا کا چپا چپا چھان مارا تھا لیکن انہیں کہیں بھی علینہ کا کوئی بھی سراغ نہیں ملا تھا انہوں نے اس کے سارے دوستوں سے بھی پوچھ گچھ کر لی تھی اور جو بات انہیں سننے کو ملی تھی وہ یہ تھی کہ ایک مہینہ پہلے ارجن اور علینہ ہوٹل سے ایک ساتھ گھومنے پھرنے گئے تھے اور پھر کافی دیر گزر گئی دونوں واپس ہی نہیں آئے سب نے انہیں مل کر خوب تلاش کیا لیکن پھر وہ جب نہ ملے تو سب یہی سوچ کر خاموش ہوگئے کہ اپنے گھروں میں چلے گئے ہوں گئے۔ ہر طرف سے یہ جواب سن کر وہ تھک گئے تھے انہیں فکر تھی کہ اگر علینہ نہ ملی تو وہ جواب کیسے دیں گئے اپنی کمیونٹی کو اور سب سے بڑھ کر اس کو جس کو جواب دینا داور کمال کو اپنی زندگی کا مشکل ترین کام لگتا ہے اور پھر امید لگائے بیٹھی صمن بیگم کو وہ علینہ کی وجہ سے اچھی خاصی مشکل سے دوچار ہوگئے تھے دیکھنا یہ تھا کہ وقت ان کو کہا لے کر جاتا ہے۔
وہ مزید دو دن گووا رکنے کا ارادہ رکھتے تھے اور اب دو دنوں میں بھی انہوں نے اس کو تلاش کرنا تھا اور اگر وہ نہ ملی تو پھر انہیں واپس معمبی کے لیے نکل جانا تھا۔
وہ گاڑی میں چھلی سیٹ پر بیٹھے گہری سوچوں میں تھے جب قریب سیٹ پر رکھا ہوا ان کا فون چیخا تھا ان کے لیے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ فون کس کا ہوگا کیونکہ سکرین پر نام کی بجائے نمبر آرہا تھا انہوں نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا تھا دوسری جانب کی آواز سن کر وہ کچھ لمہے کے لیے خاموش سے ہوگئے تھے کیونکہ شاہد جو سوال پوچھے جارہے تھے ان کے جواب دینے کی پوزیشن میں داور کمال اس وقت نہیں تھے۔
" خاموشی میرے ذہن میں آپ کی شخصیت مشکوک کررہی ہے اس لیے جو پوچھا جا رہا ہے ٹھیک ٹھیک اس کا جواب دیں۔"
دوسری جانب سے برفیلے لہجے میں انتہائی پرسرار دھمکی دی گئی تھی جس کے باعث داور کمال نے گہرا سانس بھرا تھا۔
" بہت تلاش کیا مگر وہ اب تک نہیں ملی۔"
ان کا لہجہ تھکا ہوا تھا جو مقابل کو بھی محسوس ہوا تھا۔
" وہ اب ملے گی بھی نہیں بیٹیاں جب خود سر ہوکر گھروں سے پیر باہر نکالتی ہیں نہ تو وہ پھر اتنی دور تک جاچکی ہوتی ہیں کہ ماں باپ کی ان تک رسائی ختم ہوجاتی ہے یا کچھ ماں باپ بیٹیوں سے کبھی کبھی اتنا فاصلہ بڑھا لیتے ہیں کہ وہ فاصلہ ناپتے ناپتے ایک عمر بیت جاتی ہے اور پھر بھی انسان وہی کا وہی کھڑا ہوتا ہے جہاں سے ناپنا شروع کیا ہوتا ہے۔"
اس کے لہجے میں ایک حسرت پنہاں تھی جو داور کمال جیسے خشک انسان پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا ان کو صرف خوف تھا اس کے علاوہ ان کا دل ہر جذنے سے خالی تھا اور خالی دل میں کھوکھلاہٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا اور کھوکھکی چیز کبھی بھی معیاری اور پائیدار ثابت نہیں ہوتی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کشمیر یونٹ میں آج ایک بار پھر سے کرنل خاور کی صدارت میں اجلاس جاری تھا انہوں نے ایک بار پھر سے گزشتہ کیس کھول کر رکھ دیا تھا طریقہ واردات ایک سا تھا جگہ بھی وہی تھی صرف وقت بدلا تھا تیرہ سال پہلے شروع ہوا پھر ایک دم سے پے در پے دو شہادتیں پھر یہ سلسلہ رک گیا اور اب اسی انداز سے ایک بار پھر شروع ہوگیا۔
" جبرئیل!"
کرنل خاور نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے اسے مخاطب کیا تھا۔
" یس سر!"
اس نے چونک کر ان کی پکار کا جواب دیا تھا۔
" جس گینگ کو ہم نے پکڑا ہے ان سے کیا معلومات سامنے آئی ہے؟"
وہ انتہائی سنجیدہ انداز میں اس سے باز پرس کررہے تھے۔
" سر! ابھی تک میں براہ راست ان سے نہیں ملا ابھی تک اپنے طور پر کیپٹن شمس نے ان کی خوب خاطر کی ہے لیکن وہ کچھ اگلے نہیں ہیں مجھے لگتا ہے مجھے اپنا ہی طریقہ آزمانا پڑے گا۔"
اس نے دانت پیستے ہوئے ان سے کہا تھا۔ میز پر رکھا ہوا اس کا فون مسلسل وائیبرئیٹ ہورہا تھا جسے نظر انداز کرکے وہ میٹنگ بھگتانے میں مگن تھا مگر اس کی امی کی آتی مسلسل کال اس کے اندر تجسس کو ہوا دے رہی تھی۔
" اوکے دین فائن جینٹل مین ٹیک یور پوزیشنز اینڈ سٹارٹ یور ورک میٹنگ از اورر ناو۔"
وہ کہتے ہوئے اپنی نشت سے اٹھے تھے اور لمبے لمبے ڈنگ بھرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے تھے اس نے بھی اپنا بجتا ہوا فون اٹھایا تھا اور میٹنگ روم سے باہر آگیا تھا۔
" اسلام علیکم امی!"
اس نے چھوٹتے ہی سلام جھاڑا تھا۔
" وعلیکم اسلام کیسے ہو؟"
انہوں نے اس سے سرسری سا پوچھا تھا لہجے میں کوئی مسکراہٹ کی آمیزیش شامل نہیں تھی جس نے جبرئیل کی ساری حسیں ایک لمہے میں ہی بیدار کی تھیں کیونکہ جتنا وہ اپنی ماں کو جانتا تھا شاہد دنیا میں اتنا کوئی بھی نہ جانتا ہو۔
" سب خیریت؟"
اس نے ان کی بات نظر انداز کرکے اپنا سوال پوچھا تھا کیونکہ اسے شدت سے کسی گڑبڑ کا احساس ہوا تھا۔
" تم پشاور آسکتے ہو آج رات تک؟"
انہوں نے اس کے کسی بھی سوال کا جواب دینے کی بجائے سیدھا مدعے کی بات کی تھی۔
" لیکن کیوں امی! سب خیر تو ہے نہ؟"
اس کی تفتیش تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی سوال تھے کہ نئے نئے جنم لے رہے تھے۔
" کبھی کبھی کیوں کا جواب نہیں ہوتا بچے کیونکہ زندگی ایسی نہج پر آکر کھڑی ہوجاتی ہے کہ کیوں،کہاں،کب،کیسے سب ختم ہوجاتا ہے اور کرنا ہے اور ہونا ہے باقی رہتا ہے تم سمجھ لو تمہاری زندگی سے بھی یہ سب الفاظ اور ان کے معنی ختم ہوچکے ہیں اس میں بھی اب ہونے اور کرنے کی حثیت بچی ہے میں رات کو کھانے پر تمہارا انتظار کروں گی خدا حافظ۔"
فون بند ہوچکا تھا لیکن جبرئیل ان کے لفظوں کا مفہوم سمجھنے کی کوشیش میں ہلکان ہورہا تھا کیونکہ اسے اس لمہے عشرت جہاں کی ایک بھی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی کچھ باتوں کے مطلب وقت کے ساتھ سمجھ میں آتے ہیں اور وہ وقت دور نہیں تھا جب بہت سی باتیں اس پر آشکار ہونے والی تھیں۔
" اوئے چل بھی کدھر کھو گیا؟"
اسامہ نے اس کے آگے چٹکی بجائی تو وہ اپنی محویت سے باہر نکلا تھا۔
" کہاں چلوں؟"
وہ بے دھیانی میں بول رہا تھا جیسے اس لمہے اس کے ذہن سے ساری کی ساری باتیں نکل گئی تھیں۔
" آج طراب ہسپتال جارہا ہے گلاب کا گلدستہ لے کر مائرہ کو پرپوز کرنے کے لیے۔"
اسامہ نے اپنی مسکراہٹ بڑی مشکل سے ضبط کرتے ہوئے جبرئیل کو بتایا تھا۔
" تو گلدستہ دینے وہ جارہا ہے تو کس چکر میں اتنا خوش ہورہا ہے کہیں تونے بھی تو کسی کو گلدستے دینے کے ارادے تو نہیں کررکھے؟"
وہ ایک لمہے کے لیے ذہن میں گردش کرتی باتوں کو بھول کر مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ ہوا تھا اس کی بات کے جواب میں اسامہ کا چہرہ یک لخت بجھا تھا اور چھن سے صاریہ کا سراپہ اس کی آنکھوں کے پردوں پر لہرایا تھا لیکن یہ صرف ایک لمہے کا ارتکاز تھا اس کے بعد اسے یاد آگیا تھا کہ صاریہ خان جبرئیل کی محبت میں گرفتار ہے اور اس کے بعد اسے شدت سے احساس ہوا تھا کہ کون کون یک طرفہ محبت کی آگ میں جل رہا ہے وہ خود تو جل ہی رہا تھا اس کے ساتھ ساتھ اس کی محبت بھی یک طرفہ محبت کی آگ میں جھلس رہی تھی لیکن اسے اس چیز کا اندازہ نہیں تھا جس آگ کی تپش ابھی اس کو جلا رہی ہے جلد ہی اس کے بھمبھڑ اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گئے پھر جو تکلیف حصے آتی ہے نہ اس کا مرہم مشکل سے ہی ملتا ہے۔
" پاگل ہوگیا ہے کیا میں کسے گلدستے دوں گا ابھی میرے اتنے برے دن بھی نہیں آئے کہ میجر اسامہ لڑکیوں کو گلدستے بانٹتا پھرے۔"
آنکھوں میں چمکتی ہوئی نمی کو بے حد مہارت سے چھپانے کے بعد وہ مسکرا کر بولا تھا جس پر جبرئیل نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
" تو طراب کے ساتھ چلا جا میں پشاور جارہا ہوں ماں نے مجھے ابھی وہاں بلایا ہے اس وقت نکلوں گا تو رات تک پہنچ جاوں گا جو بھی مسئلہ ہو مجھے فون پر بتا دینا ویک اینڈ کے بعد میں واپس آجاوں گا۔"
جبرئیل نے اس کے گلے لگتے ہوئے اس سے کہا تھا اور خود اپنی ملٹری جیپ کی جانب بڑھ گیا تھا جو یونٹ کے پارکنگ لاٹ میں کھڑی تھی۔ اسامہ نے نم آنکھوں سے اس کی جیپ کو دور تک دیکھا تھا۔
" کاش میں تجھے سمجھا پاتا جبرئیل کہ میری محبت تجھ سے کتنی محبت کرتی ہے اگر تو سمجھ لے تو کم از کم ہم دونوں میں سے کوئی ایک تو خوش رہ سکے لگتا ہے تقدیر نے ہم دونوں کو ایک ہی جیسے زخم دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ تیرے لیے تڑپ رہی ہے اور میں اس کے لیے۔"
دل کے بڑھتے ہوئے درد کو اسامہ نے آنکھیں میچ کر دبایا تھا کون کہہ سکتا تھا کہ ایک ہونہار اور قابل آرمی آفیسر بھی محبت سے ہار سکتا ہے ہاں میجر اسامہ احمد بھی محبت سے ہار گیا تھا ہمشہ کی طرح محبت اس پر غالب آگئی تھی۔
رنگ بدلا یار کا وہ پیار کی باتیں گئیں
وہ ملاقاتیں گئیں وہ چاندنی راتیں گئیں
پی تو لیتا ہوں مگر پینے کی وہ باتیں گئیں
وہ جوانی وہ سیہ مستی وہ برساتیں گئیں
اللہ اللہ کرکے بس ایک آہ کرنا رہ گیا
وہ نمازیں وہ دعائیں وہ مناجاتیں گئیں
حضرت دل ہر نئی الفت سمجھ کر سوچ
اگلی باتوں پر نہ بھولیں آپ وہ باتیں گئیں
راہ و رسم وہ دوستی قائم تو ہے مگر حفیظ
ابتدائے شوق کی وہ لمبی ملاقاتیں گئیں
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
فضا میں شام کے سائے گہرے ہورہے تھے وہ مہرون سلک کا سکارف سیاہ شلوار قمیض پر اوڑھے دالان کے باہر بنے چھوٹے سے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی آج اس کے ہاتھ میں قرآن پاک نہیں تھا وہ تنہا بیٹھی زمین کو گھور رہی تھی آنکھیں موٹے موٹے آنسوں سے لبالب بھری ہوئی تھیں گلابی رخساروں پر بھی کچھ نمی چھلکی ہوئی تھی خوبصورت عنابی ہونٹ بھی لرز رہے تھے وہ مسلسل اپنے ہونٹ دانتوں تلے کاٹ کر اپنی بے ساختہ امڈنے والی سسکیوں کا بے دردی سے گلہ گھونٹ رہی تھی۔ کیا تھی وہ اور کیا بن گئی تھی فاطمہ نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی اسے اس نہج پر لے آئی گی جہاں درد کی شدت اتنی زیادہ ہوگی کہ سمبھالنے سے بھی سمبھل نہیں پائے گی جہاں دل درد سے بھرا ہوا ہوگا لیکن درد بانٹنے اور آنسو چننے والے لوگ بہت کم ہوں گئے بے بسی کی انتہا ہوگی اور وہ خود چاہ کر بھی اپنی اس بے بسی کو ختم نہیں کرپائے گی بے ساختہ خاموش صحن میں اس کی سسکی ابھری تھی۔
" سسکیاں درد کم نہیں کرتی ہیں پتر بلکہ یہ تو درد کو اور بھی ہوا دے دیتی ہیں۔"
دالان سے اماں بولتے ہوئے برآمد ہوئیں تھیں۔
" نہیں اماں! کچھ سسکیاں وقتی سکون فراہم کرتی ہیں اور بعض اوقات وقتی سکون بھی کافی ہوتا ہے۔"
اس نے اپنے بہتے ہوئے آنسوں کو خشک کرنے کی بالکل بھی کوشیش نہیں کی تھی وہ متواتر بہہ رہے تھے۔
" پتر وقتی سکون سے پیٹ وہ لوگ بھرتے ہیں جنہیں کبھی ازلی سکون میسر نہیں ہونا ہوتا لیکن تیرے نصیب میں تو اللہ سوہنے نے وہ ازلی سکون لکھا ہوگا انشاءاللہ تو کیوں تو وقتی سراب کی مسافر بن رہی ہے ٹھنڈ رکھ۔"
اماں نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے اس کے گال رگڑے تھے۔
" نصیبوں کے کھیل تو وہی جانے اماں میری ذات پر گرہن تو لگ ہی چکا ہے پھر وقتی سکون ملے یا ازلی وہ اب شفاف نہیں ہوسکتی۔"
اس نے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے انتہائی آہستگی سے کہا تھا۔
" گرہن لگی چیز سب سے خوبصورت ہوتی ہے اور اس گرہن لگی چیز کو سو میں سے کوئی ایک پسند کرتا ہے اور وہی سب سے خوش نصیب ہوتا ہے جھلی۔"
انہوں نے اپنے لب اس کے سکارف میں لپٹے سر پر رکھے تھے کہ باہر کا دروازہ زور سے بجا تھا۔
" جا تو دروازہ دیکھ کہ کون ہے میں زرہ رات کی روٹیاں ڈال لوں۔"
وہ اس کے گال تھپتپاتے ہوئے دالان کے بائیں جانب بنے چھوٹے سے کیچن کی جانب بڑھ گئیں جبکہ وہ اپنے آنسو رگڑتے ہوئے دروازے کی جانب چلی گئی دروازے کو جکڑی کنڈی کھولنے کے بعد جونہی اس نے دروازہ کھولا سامنے اسے یونیفارم میں کھڑے ہوئے پایا جو یک لخت اسی کی جانب دیکھ رہا تھا سیاہ شلوار قمیض پر مہرون سکارف اوڑھے سرخ آنکھوں اور گلابی چہرے پر لرزتے ہوئے گلابی پنکھڑی جیسے لب شمس کو اپنا دل رکتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ وہ یک لخت پلکیں جھپکائے صرف اسے ہی دیکھ رہا تھا اور فاطمہ اس کی نظروں کا ارتکاز اپنے چہرے پر محسوس کرکے بھی گم سم اس کی جانب بالکل ویسے ہی ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی جیسے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ شمس کو بے حد عجیب لگا تھا کہ اس کے اس طرح دیکھنے سے بھی فاطمہ نے نہ تو نظریں جھکائیں اور نہ ہی نظریں پھیریں بلکہ اس کے چہرے پر شمس کو ایک عجیب سے طنز کا احساس ہوا تھا اتنا کہ وہ خود اپنی نظریں پھیرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
" دوبارہ ایسے مت دیکھیے گا کہیں یوں نہ ہو آپ کا خوبصورت عکس میری نظروں کے سامنے ہی ایک لمہے میں چکنا چور ہوجائے۔"
لہجے میں ایک عجیب سی تنبہی تھی جو شمس کو بے حد ناگوار گزری تھی اس کے ماتھے پر ایک لمہے کے توقف کے اندر بے شمار بل نمودار ہوئے تھے جن پر قابو پاتے ہوئے اس نے فاطمہ کو بے حد زور سے کلائی سے تھاما تھا۔
" کیوں میرا عکس کیوں تمہاری نظروں میں چکنا چور ہوگا تم سمجھ کیا رہی ہو مجھے؟ ہاں بولو؟"
لہجے میں عجیب سی ضد شامل تھی غصے کے باعث اس کی آنکھیں لال آنگارہ ہورہی تھیں اور فاطمہ کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کی آنکھوں سے نکلتے شعلے ایک لمہے کے توقف کے بعد فاطمہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گئے اور ان کی تپش اسے جلا کر راکھ کر دے گی۔
" میں کیا سمجھوں گی کسی کو یہاں کوئی کسی کو سمجھنے کا وقت ہی کہاں دیتا ہے لوگ تو کچھ سمجھنے سے پہلے ہی اپنی اوقات دیکھا دیتے ہیں۔"
ایک جھٹکے سے اس نے شمس کی گرفت سے اپنی کلائی آزاد کرائی تھی اور رخ موڑ کر اندر کی جانب چلی گئی تھی جبکہ وہ وہیں گم سم کھڑا اس کے برسائے گئے نشتروں کا مطلب سمجھنے میں لگا ہوا تھا لیکن وہ بے خبر تھا کہ جب روح پر نشتر چل کر اسے گھائل کرچکے ہوتے ہیں تو محض چند لفظوں کے تیر کچھ اثر انداز نہیں ہوتے اور شاہد ابھی اسے یہ بات سمجھنے میں وقت تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اندھیرے میں لیٹی وہ مسلسل کمرے کی چھت کو گھور رہی تھی۔
" کیا کسی کی زندگی اتنی سستی ہوتی ہے کہ جب وقت ہوا ختم ہوجائے۔"
زارا کا دماغ بےدریغ سوالوں سے پھٹ رہا تھا اور ہر سوال کے جواب میں ایک سوالیہ نشان تھا کیونکہ وہ کسی بھی بات کے جواب میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔
" کیا کوئی کسی سے بہت سی امیدیں باندھ سکتا ہے؟"
اس نے رخ موڑتے ہوئے سوچا تھا اور پھر ہولے سے بڑبڑائی تھی رخ موڑنے سے اس کی کمر میں شدید تکلیف ہوئی تھی مگر وہ سیدھا لیٹے لیٹے تھک چکی تھی۔ اسے ہسپتال سے گھر آئے بارہ گھنٹے بیت چکے تھے برنولا اس کے ہاتھ پر ابھی بھی موجود تھا۔
" ہاں جب کوئی بہت سی امیدیں دلائے تو امیدیں باندھنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔"
قریب کہیں سے آواز ابھری تھی۔ زارا کو آواز جانی پہچانی لگی تھی لیکن وہ اس لمہے غنودگی میں تھی۔
" دل نہ اب ہر امید سے نجانے کیوں خالی سا ہوگیا ہے۔"
وہ منہ میں ہی منمنائی تھی۔ جبرئیل کو بے ساختہ ہنسی آئی تھی لیکن وہ ضبط کرگیا تھا۔
" دل تب خالی ہوتا ہے جب آپ اس کو خالی کردیتے دل تو ہے ہی امیدوں کا قبرستان جہاں بے شمار امیدیں دفن ہوتی ہیں کم از کم اس قبرستان کو تو آباد ہونا چائیے۔"
آواز میں لو دیتی تپش تھی جملے ایسے تھے کہ زارا کی بند ہوتی آنکھیں لمہے میں کھلی تھیں لیکن غنودگی کی وجہ سے سارا منظر دھلا تھا انجیکشن کے باعث وہ نیند میں جارہی تھی اسے اپنے قریب اندھیرے میں ایک لمبا چوڑا عکس دکھا تھا مگر حواس بحال ہوتے تو پھر نہ اسے بس وہ جملے سنائی دے رہے تھے اور وہ ان جملوں کا جواب اس قدر دھیرے دے رہی تھی کہ اسے خود بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ بول کیا رہی ہے بس اسے محسوس ہورہا تھا کہ اس کے لب ہل رہے ہیں مگر کیا بولنے سے ہل رہے ہیں اسے بالکل پتہ نہیں چل رہا تھا۔
" قبرستان قبروں سے آباد ہوتے ہیں خواہشوں سے نہیں اور میں نہیں چاہتی ابھی کہ میں اپنے دل میں اپنی فرسودہ خواہشوں کا قبرستان بنا کر بیٹھ جاوں۔"
غنودگی میں بھی وہ اس کو لاجواب کرگئی تھی۔
" وعدہ ہے تم سے میرا تمہاری کبھی کوئی خواہش مرنے نہیں دوں گا کیونکہ تمہاری ننھی خواہشیں تو پیدا ہی پوری ہونے کے لیے ہوئی ہیں۔'
یہ جملے اس نے دھیرے سے بولے تھے صرف خود کو سنانے کے لیے کیونکہ سامنے بستر پر پٹیوں میں جکڑے وجود کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں۔
" مجھے حق نہیں ہے کہ میں تمہیں چھو سکوں زارا مگر اس وقت میرا دل چاہ رہا میں تمہیں چھو کر محسوس کروں اس لیے مجھے معاف کردینا۔"
اس نے بولتے ہوئے تکیے پر بکھرے اس کے گھنگریالے بالوں کی جانب دیکھا تھا جس کی کچھ لٹیں اس کے چہرے کو چوم رہی تھیں۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر بے حد آہستگی سے ان لٹوں کو اس کے چہرے پر سے ہٹایا تھا۔ گندمی چہرے پر اس لمہے سرخی کی بجائے پیلاہٹ گھلی ہوئی تھی جبرئیل نے اپنے لب سختی سے پینچے تھے اور ہاتھ سے اس کا گال چھوا تھا جو اتنا نرم تھا کہ اسے اس کی نرمی اپنے وجود میں محسوس ہوئی تھی خوبصورت آنکھیں بند تھیں گلابی ہونٹ خشک تھے اس نے اس کے وجود پر کمبل درست کیا تھا اور مٹھیاں پینچتے خود پر ضبط کرتے ہوئے اس کے کمرے سے نکل آیا تھا اس کا رخ اب عشرت جہاں کے کمرے کی جانب تھا کیونکہ وہ واپس آکر سیدھا زارا کے کمرے میں ہی آیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پاکستان میں رات اپنے پر پھیلا چکی تھی جبکہ شکاگو میں تو جیسے پو ابھی ہی پھوٹی ہو اس قسم کا سماں تھا لیٹر باکس بے شمار لیڑز سے بھرا ہوا تھا۔ غلام بخش اپنے سارے کاموں سے فارغ ہوکر لیٹر باکس کی جانب آیا تھا اور اس کا ڈھکن کھول کر وصول ہونے والے سارے خط نکال کر پینٹ ہاوس واپس آگیا تھا۔ آج وہ ابھی تک سورہی تھی پتہ نہیں کونسی نیند تھی جو آج گہری تھی ورنہ ایس۔ کے کو صبح جلدی اٹھ کر نماز پڑھنے کی عادت تھی مگر آج وہ ابھی تک سوئی ہوئی تھی اب تو دوپہر ہونے کو تھی۔ غلام بخش تھک کر اور کچھ تشویش سے ماسٹر بیڈ روم کی جانب بڑھا تھا وہ جانتا تھا کہ وہ کبھی دروازہ لاک کرکے نہیں سوتی ہے اس لیے بلا جھجک ناب گھما کر دروازہ کھول کر اندر بڑھ گیا تھا۔ کمرے میں تمام پردے برابر ہونے کے باعث نیم اندھیرا تھا دروازہ کھولنے سے سگریٹ کی تیز بو غلام بخش کے نتھوں سے ٹکرائی تھی اور جب اس کی نظر فرش پر گئی تو اسے اپنا دماغ سن ہوتا ہوا محسوس ہوا تھا اس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے لیٹرز اس کے بیڈ پر پھینکنے کے سے انداز میں رکھے اور خود اس کی جانب بڑھا ماسٹر بیڈ روم کا پورا گرے قالین سگریٹ کے آدھ جلے ٹکروں سے بھرا ہوا تھا کچھ ایس ٹرے میں تھے تو کچھ اس سے بھی باہر گر رہے تھے۔
" ایس کے! ہوش کریں۔"
اس نے اس کے گال تھپتپائے تھے مگر وہ بالکل بھی ہوش میں نہیں آئی تھی اس نے پریشانی سے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو رائٹنگ ٹیبل پر اسے پانی کا بھرا ہوا جگ نظر آیا اس نے جگ تھام کر اس میں سے چند چھینٹے اس کے منہ پر مارے تھے۔ پانی کے قطرے منہ پر پڑنے کے باعث اس کی آنکھیں کچھ کھلی تھیں نشہ اس پر اتنا حاوی ہوگیا تھا کہ وہ گہری بے ہوشی میں چلی گئی تھی۔
" کیا آپ ٹھیک ہیں؟"
غلام بخش نے فکر سے اس سے پوچھا تھا جس کی آنکھیں اب تقریبا پوری کھل چکی تھیں لیکن اس کے حواس ابھی بھی پوری طرح سے بیدار نہیں ہوئے تھے اس نے بیڈ کراون سے سر ٹکایا تھا لمبے شہد رنگ بال کسی آبشار کی مانند اس کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے شہد رنگ ہی آنکھوں میں نیند کی خماری موجود تھی سرخ و سپید رنگت دمک رہی تھی سفید نائٹ سوٹ میں ملبوس وہ غلام بخش کی محبت تھی جو اس لمہے قیامت خیز حسن لیے اس کے سامنے موجود تھی۔ اس کے قیامت خیز حسن کو سراہنے کا اختیار غلام بخش کے پاس نہیں تھا اس لیے وہ خاموشی سے اپنی نظریں جھکا گیا تھا۔
" کتنی بار کہا ہے کہ اتنے سگریٹ اور شراب مت پیا کریں کسی دن مر گئی تو؟"
اس کے لیٹرز اکھٹے کرکے رائیٹنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ گویا ہوا تھا۔
" ہاہا! ایس۔کے مرنے کے لیے نہیں مارنے کے لیے پیدا ہوئی ہے غلام بخش تمہیں کتنی بار یہ بات سمجھانی پڑے گی ہر بار تم بھول جاتے ہو پھر تمہیں نئے سرے سے یاد دلانا پڑتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اللہ کسی مقصد کے لیے ہی دنیا میں بھیجتا ہے اور میرا مقصد خان ہاوس کی تباہی ہے بس اور وہ وقت دور بھی نہیں ہے جب میں اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوں گی۔"
وہ اپنے آبشار کی مانند بکھرے بالوں کو سمیٹ کر جوڑے میں باندھنتے ہوئے بول رہی تھی اور اس کے عزم پر غلام بخش بے ساختہ مسکرایا تھا اسے بعض اوقات حیرت ہوتی تھی کہ کوئی عورت فولاد کے جیسی مضبوط کیسے ہوسکتی ہے وہ کبھی یہ بات نہ مانتا اگر وہ اپنی زندگی میں بہت قریب سے ایس۔کے کو نہ جانتا ہوتا لیکن اب وہ یہ بات مانتا تھا کیونکہ نہ صرف وہ ایس۔کے کو جانتا تھا بلکہ وہ تو اس کی محبت میں بھی بہت حد تک ڈوبا ہوا تھا۔
" آپ کو یاد کرانے کی ضرورت نہیں ہے اتنی بار بول دیتی ہیں کہ ویسے ہی حفظ ہوچکا ہے۔"
اس نے اس کی جانب مڑتے ہوئے کہا تھا جس پر ایس۔کے بے اختیار مسکرائی تھی جب مسکرائی تو بائیں گال پر پڑا ہوا گڑھا کچھ گہرا ہوا تھا غلام بخش نے آنکھیں بند کرکے ایک گہرا سانس بھرا تھا اور پھر اس کے کمرے سے باہر نکل گیا تھا اس نے ایک نظر رائیٹنگ ٹیبل پر رکھے ہوئے خطوط پر ڈالی تھی اور پھر بستر چھوڑ کر واشروم کی جانب چلی گئی تھی۔
" کچھ مان الگ تھا اس پر
کچھ ریت الگ تھی اس کی
کچھ احساس بھی تھے باقی
کچھ الفاظ بھی تھے نشتر
جان پہچان تھی صرف اتنی
کہ لفظ محبت تھا باقی
اسے اپنا کہتے گزر گئے دن
لے کر پھرتا تھا وہ کسی اور کی نشانی
ایمن خان
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کمرے میں نیم اندھیرا پھیلا ہوا تھا وہ بیڈ کراون سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی ہوئی تھیں تسبح کے دانے ایک ایک کرکے گر رہے تھے وہ دھیرے سے دروازہ کھول کر دبے پاوں اندر داخل ہوا تھا اور انتہائی آہستگی سے ان کے پیروں کی جانب بیٹھ گیا تھا۔ اس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ ان کے پیر پر رکھا تھا انہوں نے دھیرے سے آنکھیں کھولی تھیں اور پھر ناچاہتے ہوئے بھی بے ساختہ مسکرائیں تھیں۔
" آگیا میرا بچہ!؟"
انہوں نے چہرے پر پرشفیق مسکراہٹ سجائے اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
" ایسا کیسے ہوسکتا تھا ماں! آپ بلاتی اور میں بہ آتا۔"
وہ ان سے سوال کررہا تھا جس کے جواب میں انہیں لگ رہا تھا کہ شاہد اس سے اپنی بات منوانی کچھ آسان ہوگئی ہے۔
" آپ ابھی تک سوئی کیوں نہیں؟"
ایک بار پھر اس نے لہجے میں زمانے بھر کی نرمی سموتے ہوئے پوچھا تھا۔
" میں تمہارا ہی انتظار کررہی تھی۔"
انہوں نے تسبح چومتے ہوئے سائیڈ میز پر رکھی تھی اور مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ ہوئی تھیں۔
" تو صبح مل لیتی مجھ سے؟"
اس کے لہجے میں اپنی ماں کے لیے زمانے بھر کی فکر تھی۔
" صبح تک انتظار کون کرتا۔"
ان کا لہجہ انتہا سے زیادہ سنجیدگی لیے ہوئے تھا جبرئیل کو کہیں کچھ غلط ہونے کا احساس شدت سے ہوا تھا لیکن وہ ان کے بولنے کا ہی منتظر تھا۔
" کچھ ہوا ہے کیا؟"
اس نے خود پر ضبط کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
" اگر میں کہوں ہاں کچھ ایسا ہوگیا ہے جو میں اور تم کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے پھر کیا جواب ہوگا تمہارا؟"
وہ اسے جانچتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ کر پوچھ رہی تھیں۔
" ظاہر ہے اسے جاننے کا تجسس ہی بڑھے گا اور اس غلط کو ٹھیک کرنے کی آرزو۔"
اس نے بالکل وہی جواب دیا تھا جو عشرت جہاں اس سے سننا چاہتی تھیں۔
" پھر اس غلط کو ٹھیک کر دو بچے! زارا سے نکاح کرلو تم نے اس کی حفاظت کی زمہ داری لی ہے نہ تو اسے پورا کرو برگئیڈیر ابراہیم کے بیٹے ہونے کا ثبوت دو جبرئیل!"
وہ حد سے زیادہ جذباتی انداز میں بول رہی تھیں اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس سے کہنا کیا چاہ رہی ہیں۔
" ماں! ریلیکس کیا ہوا ہے آپ کو اور آپ زارا کے بارے میں ایسا کیوں بول رہی ہیں؟"
اس کے ماتھے میں بے دریغ بےشمار بلوں کا اضافہ ہوا تھا اور وہ انتہائی الجھن زدہ سا پوچھ رہا تھا۔
" اس کی زندگی کی حفاظت ایک ہی صورت میں ممکن ہے میرے بچے! اگر تم اسے اپنا نام دو وہ تمہارے حوالے سے پہچانی جائے اس کی جانب اٹھتی ہوئی دنیا کی غلیظ اور بے رحم نگاہیں تب ہی واپس مڑے گی جب تم کسی مضبوط اور جائز رشتے کے تحت اس کے ساتھ کھڑے ہوگے۔"
وہ اسے سمجھانے کی ہر ممکن کوشیش کررہی تھیں بدلے میں وہ بالکل خاموشی سے ان کی ساری باتیں سن رہا تھا اتنی خاموشی سے کہ عشرت جہاں کو اس کی اتنی زیادہ خاموشی ڈرا رہی تھی وہ جب بات کرکے مکمل خاموش ہوگئیں تب بھی وہ ویسے ہی چپ بس ان کی جانب دیکھ رہا تھا۔
" کچھ بولتے کیوں نہیں ہو تم یہی سمجھ لو کہ یہ تمہاری ماں کا تمہارے لیے حکم ہے اور یہ تمہارے ہی الفاظ تھے کہ میرے کہے گئے جملے تمہارے لیے التجا نہیں حکم کا درجہ رکھتے ہیں۔"
آخر میں وہ اسے اس کی پرانی بات کا حوالہ دینا نہیں بھولی تھیں جس پر جبرئیل نے گہرا سانس بھرا تھا۔
" ماں ! میں اس کی حفاظت کے لیے اس کے دشمنوں سے لڑ تو سکتا ہوں مگر میں زارا کی آنکھوں میں اپنے لیے بے یقینی پرداشت نہیں کرسکتا آپ کے یہ جملے کہیں اس کے دل میں یہ خیال نہ پیدا کردیں کہ ہم نے اس کی زندگی کی حفاظت کے بدلے اس کی روح خریدنے کا مطالبہ رکھ دیا ہے۔"
جب وہ بول رہا تھا تو چہرے پر بے حد سنجیدگی تھی وہ ایسا ہی تھا ہمشہ ہر بات کو باریک بینی سے سمجھنے اور سوچنے والا اور اس لمہے بھی جو نقطہ اس نے اٹھایا تھا اسے سننے کے بعد عشرت جہاں بھی کچھ لمہوں کے لیے خاموش سی ہوگئی تھیں لیکن پھر وہ خود کو قدرے کمپوز کرتے ہوئے بولی تھیں۔
" وہ تمہاری جانب سے کبھی بے یقین نہیں ہوگی اور اس کی گارئنٹی میں تمہیں دیتی ہوں۔"
انہوں نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا تھا۔
" ٹھیک ہے اگر وہ راضی ہوجائے گی تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں جیسا آپ مناسب سمجھیں۔"
اس نے سارا فیصلہ ان پر چھوڑ دیا تھا مگر اس کا دل عجیب ہورہا تھا بے شمار وسوسوں نے اس کے دل میں بیک وقت ڈیرے ڈال لیے تھے مگر وہ دل و دماغ کی جنگ میں الجھتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا تھا وہ ڈرائیو کرکے بہت تھکا ہوا تھا اس لیے چینج کرکے جوں ہی بستر پر لیٹا نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ ہوش کی دنیا میں جیسے ہی واپس آئی اس کا دھیان رائیٹنگ ٹیبل پر رکھے ہوئے اپنے خطوط کی جانب گیا تھا شہد رنگ بالوں کو ڈھیلے جوڑے کی شکل دے کر ایس۔کے رائیٹنگ ٹیبل کی کرسی گھسیٹ کر اس پر براجمان ہوئی تھی اور ایک ایک کرکے خط کھولنے لگی تھی بے شمار خطوط میں سے کچھ اس کے آفیشل ڈاکو میٹس تھے اور کچھ ڈیلینگ پیپر جو کورئیر سے اسے موصول ہوئے تھے ان تمام خطوط کی مشترک چیز یہ تھی کہ وہ سارے کے سارے امریکہ سے ہی اسے بھجوائے گئے تھے مگر ان خطوط میں سے ایک خط ایسا تھا جو اسے پاکستان سے آیا تھا کیونکہ اس کی پچھلی طرف پاکستان کی مہر تھی اس نے انتہائی آہستگی سے خط کا لفافہ چاک کیا تھا لفافہ کھولتے ہوئے اس کا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ ایس۔کے کو یوں لگ رہا تھا ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا پہلی بار کوئی کام کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اس لمہے لفافہ چاک کرتے ہوئے بھی ایس۔کے کی انگلیاں کپکپا رہی تھیں۔ خاکی لفافے سے باہر ایک سفید رنگ کا تحہ شدہ کاغذ تھا اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ وہ کاغذ کھولا تھا اور اس پر موجود تحریر نے ایس۔کے کے اعصاب ضبط کرلیے تھے اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس تحریر کو کیسے برداشت کرے اسے یوں معلوم ہورہا تھا جیسے کسی نے اس کے چہرے کا سارا خون نچوڑ لیا ہو اسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ اب کبھی دوبارہ سانس نہیں لے پائے گئ کیونکہ کسی نے اس سے اس کی سانسیں چھین لی تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پھولوں کے شہر پشاور پر بے حد حسین صبح اتری تھی سبزہ اور پہاڑ خوبصورت لگ رہے تھے خان ولا میں اس خوبصورت صبح سے لطف اندوز ہونے کے لیے بہت سے لوگ موجود تھے اس کی آنکھ بھی دھوپ کی سیدھی کرنیں اس کی آنکھوں میں پڑنے سے کھلی تھی جب اس نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر دیکھا تو عشرت جہاں اس کے کمرے کی کھڑکی کے پردے ہٹا ریی تھیں بیڈ سائیڈ میز پر ناشتے کے لوازمات سے سجی ہوئی ٹرے رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے پردے ہٹا کر مسکرا کر اس کی جانب دیکھا تھا بدلے میں وہ بھی مسکرائی تھی۔
" کیسی طبعیت ہے اب؟"
انہوں نے اس کے بال سمیٹے ہوئے پوچھا تھا۔
" بہت بہتر ہے۔"
اس نے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تھا۔
" چلو جلدی سے اٹھو آو میں تمہیں فریش ہونے میں مدد دوں۔"
انہوں نے اسے سہارا دے کر اٹھایا تھا اور پھر واشروم لے کر گئی تھیں کچھ ہی دیر میں جب وہ واشروم سے باہر آئی تو انہوں نے اسے دوبارہ بستر پر بیٹھایا تھا۔
" چلو ناشتہ کرلو بچے!"
انہوں نے ناشتے کی ٹرے بیڈ پر اس کے آگے رکھی تھی اس نے ناشتہ شروع کیا تھا اور وہ یہ سوچ رہی تھیں کہ کہاں سے بات شروع کریں آخر کو بہت سوچ بیچار کے بعد انہوں نے اس سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
" زارا بچے!"
ان کی پکار میں انتہا سے زیادہ نرمی تھی اتنی کہ ایک پل کو زارا کا دل زور سے دھڑکا تھا اس نے ان کی جانب سر اٹھا کر دیکھا تھا ان آنکھوں میں اس لمہے زارا کو خوف اور بے بسی صاف دیکھائی دی تھی۔
" جی انٹی!"
وہ اپنا ناشتہ چھوڑ کر مکمل طور پر ان کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
" میں جانتی ہوں کہ میرا مقام یہ نہیں ہے کہ میں تم سے اپنی کوئی بھی بات منوا سکوں لیکن پھر بھی ایک آس اور ایک امید کے ساتھ میں آج تمہارے سامنے بیٹھی ہوئی ہوں کہ شاہد تم میرا کہا مان لو کیونکہ میں مزید رسک نہیں لے سکتی۔"
بات شروع کرنے سے پہلے عشرت جہاں نے اچھی خاصی تمہید باندھی تھی۔ زارا نے الجھن بھری نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا تھا۔
" میں آپ کی بات سمجھی نہیں۔"
اس نے بے اختیار نفی میں سر ہلایا تھا۔
" تم جبرئیل سے نکاح کرلو بیٹا!"
انہوں نے جیسے اس کی قوت گویائی سلب کرلی تھی اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جو الفاظ اس نے ابھی ابھی سنے ہیں کیا واقعی ہی وہ سب اس سے کہے گئے ہیں یا اسے مغالدہ ہوا ہے۔
" جی!!! انٹی!"
اس نے کچھ حیرت اور ناسمجھی سے ان سے پوچھا تھا۔
" میں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں زارا بچے ورنہ وہ مار دے گی تمہیں وہ خود غرض لڑکی اپنی محبت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک گر سکتی ہے وہ تمہیں بھی مار دے گی۔"
ان کے کب سے رکے ہوئے آنسو ان کے گالوں پر پھسل پڑے تھے۔
" کو۔۔کون مار دے گی مجھے کیا کہہ رہی ہیں آپ؟"
ان کی باتوں نے زارا کو خوف کی اتہا گہرائیوں میں دھکیل دیا تھا۔
" صا۔۔۔صار۔صاریہ!"
انہوں نے رک رک کر انتہائی دھیمے لہجے میں اسے جواب دیا تھا جس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ چکا تھا۔
" یہ گولی مجھے کس نے مروائی ہے انٹی؟"
اس نے اپنے آنسو خشک پونچھتے ہوئے ان سے سوال کیا تھا جس پر وہ ایک پل کو نگاہیں جھکا گئی تھیں۔
" پلیز بتائیں انٹی یہ گولیاں کس نے مروائی ہیں مجھے میرے پہلے کسی دشمن نے یا محبت میں ہی میں نے سرعام ایک دشمن پال لیا اس نے؟"
آنسو پونچھنے کے باوجود پھر سےپھسل کر گال پر لڑھک گئے تھے۔
" جبرئیل اس سے محبت نہیں کرتا زارا!"
وہ اسے یقین دلانا چاہتی تھیں کہ جس بیٹے کی خوشی کے لیے وہ اسے مانگ رہی ہیں وہ صرف اس کا ہی ہوگا اس کی محبت میں کسی دوسرے کی محبت شریک نہیں ہوگی۔"
" لیکن وہ تو کرتی ہے نہ اور اتنی کرتی ہے کہ اسے حاصل کرنے کے لیے کسی کی جان تک لینے سے بھی گریز نہیں کیا اس نے۔"
زارا نے نفی میں میں سر ہلاتے ہوئے کہا تھا۔
" اس خود غرض لڑکی کے لیے میرا بیٹا نہیں ہے زارا وہ قاتل ہے اس نے تمہاری جان لینے کی کوشیش کی ہے اور دوبارہ بھی لے سکتی ہے تمہاری زندگی قیمتی ہے بہت اور وہ صرف اسی صورت میں بچ سکتی ہے جب تمہارا نام جبرئیل کے نام کا حصہ بن جائے گا۔"
آخر میں انہوں نے اس کو سمجھانے کے سارے ہتھ کنڈے استعمال کرلیے تھے۔
" آپ کیا چاہتی ہیں انٹی میں میجر صاحب سے شادی کرکے ساری زندگی صاریہ جی کی بد دعائیں لیتی رہوں کہ میں نے ان سے ان کی محبت چھین لی ہے۔"
دوسری جانب وہ بھی بے بس ہوگئی تھی اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے۔
" صاریہ جبرئیل سے محبت نہیں کرتی زارا! جبرئیل صرف اس کی ضد ہے وہ اسے وہ کھلونہ سمجھتی ہے جسے حاصل کرنے کی اسے سب سے زیادہ خواہش ہے لیکن ہر بار ہر خواہش پوری نہیں ہوتی محبت زبردستی حاصل نہیں کی جاتی مگر صاریہ تو اپنی محبت کو زبردستی حاصل کرنا چاہتی ہے میں نہیں جانتی کہ جبرئیل تم سے محبت کرتا ہے یا نہیں مگر وہ تمہاری بہت عزت کرتا ہے وہ تمہاری بے حد فکر کرتا ہے تمہیں اپنی زمہ داری سمجھتا ہے۔"
انہوں نے اسے دوسری طرح سے قائل کرنے کی کوشیش کی تھی۔
" مگر انٹی! ابھی مجھے بہت سارا پڑھنا تھا۔"
اس نے اپنا آخری عذر بھی پیش کردیا تھا۔
" میں صرف نکاح کررہی ہوں زارا ابھی رخصتی نہیں اور تم ضرور پڑھو گی جب تک تمہارا دل چاہے تب تک پڑھنا میرا وعدہ ہے تم سے جبرئیل تمہیں نہیں روکے گا وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔"
انہوں نے اس کا ہاتھ دبا کر مسکرا کر کہا تھا۔
" لیکن کیا وہ اس نکاح کے لیے راضی ہیں؟"
زارا نے کچھ جھجھکتے ہوئے پوچھا تھا۔
" اس وقت تمہاری حفاظت سب سے زیادہ ضروری ہے اور تمہاری زندگی بچانے کے لیے جبرئیل کچھ بھی کرسکتا ہے۔"
انہوں نے اسے دھیرے سے کہا تھا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ جبرئیل زارا کی زندگی کے لیے ہی فوری مانا ہے۔
زارا ایک پل کو خاموش ہوگئی تھی اور پھر سر ہلا کر ناشتے کی جانب متوجہ ہوگئی تھی عشرت جہاں نے گہرا سانس بھرا تھا اور اس کے کمرے سے باہر جاتے جاتے ایک پل کو رکی تھیں۔
" نکاح کل شام کو ہوگا زارا بچے تیار رہنا آج آنیہ اور زیبا سے بولوں گی تمہارے لیے شاپنگ کرلائیں گی باقی تم بعد میں دیکھ لینا کیونکہ ابھی تم بالکل بھی ٹھیک نہیں ہو۔"
وہ اسے سن چھوڑ کر اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی تھیں جبکہ کب سے رکے ہوئے زارا کے آنسو تواتر سے بہنا شروع ہوئے تھے۔ ایک ایسی شادی جس میں محبت اور رضامندی سے زیادہ شاہد تحفظ اہم تھا شاہد زندگی اہم تھی تو بچا رہے تھے وہ دونوں ہی زارا نے اپنی زندگی بچانے کے لیے حامی بھری تھی اور جبرئیل نے اس کی زندگی اور اپنی نوکری میں عزت بچانے کے لیے پھر دونوں باتوں میں محبت اور چاہت کہاں تھی شاہد وہ کہیں سو گئی تھی کیونکہ اس لمہے جو کچھ وہ لوگ کرنے جارہے تھے اس میں محبت نامی شے کسی کو بھی یاد نہیں تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کیا اس نے کبھی سوچا تھا کہ اپنے سے کم از کم گیارہ سال چھوٹی لڑکی سے شادی کرلے گا۔ اگرچے گیارہ سال بہت زیادہ فرق نہیں تھا ہمارے معاشرے میں اتنا فرق عام سمجھا جاتا ہے لیکن کم از کم جبرئیل خان کو شادی کے لیے ایک میچور لڑکی چائیے تھی وہ اپنے کمرے میں بیڈ کے سامنے رکھے کاوچ پر نیم دراز تھا سر تھا کہ درد سے پھٹے جارہا تھا لیکن دماغ میں بیک وقت بہت سی الجھنیں چل رہی تھیں۔
" اگر شادی کے لیے میچور لڑکی چائیے تھی تو وہ کیا تھا جو تم پچھلے ایک مہینے سے زارا کے لیے کررہے ہو؟"
ضمیر بھی جی بھر کر آج سامنے آیا تھا۔ اس نے اپنی دکھتی ہوئی آنکھوں کو پل میں کھولا تھا۔
" وہ میری ڈیوٹی تھی میرا فرض تھا۔"
اس نے ضمیر کو ایک کمزور سی دلیل دی تھی۔
" فرض کی ادائیگی میں کسی سے شادی کی حامی بھی بھر لیتے ہیں واہ جبرئیل واہ یہ تو پہلی بار سنا جارہا ہے۔"
ضمیر نے لفظوں کا ایک قرارا سا تھپڑ اس کے مبہ پر دے مارا تھا۔
" ایسا کچھ نہیں ہے یہ نکاح بھی محض میری ڈیوٹی کا ایک حصہ ہے۔"
ایک بار پھر سے اس نے اپنے تیزی سے دھڑکتے ہوئے دل کو سمبھالتے ہوئے اسے بتایا تھا۔
" یہ نکاح ہے جبرئیل صاحب! انتہائی پاک اور مضبوط بندھن تمہاری ڈیوٹی کی کوئی ڈیل نہیں ہے جسے تم کسی بھی چیز کا حصہ بناو گئے اور جب اس کا مقصد ختم ہوگا تو ختم کردو گئے یہ عمر بھر کا رشتہ ہوتا ہے کوئی عارضی تعلق نہیں جس کی ضرورت جب پوری ہوئی ختم کردیا گیا۔"
واہ کیا بات تھی جو اس کا ضمیر اسے سمجھا رہا تھا جبرئیل کو احساس بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ کب نیند کی وادیوں میں اتر گیا تھا۔
رات میں ماہ رخ بیگم اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھیں جب ان کے کمرے کا دروازہ بجا تھا انہوں نے آنے والے کو اندر داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔ عشرت جہاں ان کے کمرے کا دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی تھیں۔
" ارے بھابھی آپ اس وقت؟"
وہ ان کے اس وقت ان کے کمرے میں آنے پر خاصی حیران ہوئی تھیں۔
" ہاں ماہ رخ! میں نے تمہیں تنگ تو نہیں کیا؟"
انہوں نے اندر داخل ہوتے ہوئے ان سے پوچھا تھا۔
" ارے کیسی باتیں کرتی ہیں آپ آئیں نہ پلیز!"
انہوں نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اپنے سامنے اشارہ کیا تھا وہ چلتی ہوئی وہی پر بیٹھ گئی تھیں۔
" ماہ رخ مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے۔"
انہوں نے تمہید باندھی تھی۔
" جی بھابھی بولیں نہ کیا بات ہے۔"
ماہ رخ بیگم ان کے اس طرح اچانک آنے پر تھوڑی پریشان ہوگئی تھیں۔
" وہ اصل میں ماہ رخ کل زارا اور جبرئیل کا شام میں نکاح ہے۔"
انہوں نے بیڈ شیٹ کے ڈیزائین کو گھورتے ہوئے انہیں اس مقصد سے آخر آگاہ کر ہی دیا تھا جس مقصد سے وہ ان کے کمرے میں آئی تھیں۔ ماہ رخ بیگم ایک دم سکتے میں آگئی تھیں اور صرف ماہ رخ بیگم ہی نہیں دروازے میں کھڑی صاریہ کے ہاتھ سے بھی دودھ کا گلاس زمین بوس ہوکر چکنا چور ہوچکا تھا اس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہوگیا تھا مانو جسم میں کاٹو تو لہو نہیں وہ بت بنی کمرے میں موجود ان دونوں کو دیکھ رہی تھی اس کے اس ردعمل سے ماہ رخ تو پریشان ہوئی تھیں لیکن عشرت جہاں کے تاثرات اتنے پتھریلے تھے کہ انہوں نے ماہ رخ بیگم کو بھی چونکنے پر مجبور کردیا تھا۔
" یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ بھابھی ایسے کیسے آپ کسی بھی اجنبی لڑکی سے جس کے نہ خاندان کا پتہ ہے اور نہ ہی ذات کا نکاح کرسکتی ہیں اپنے بیٹے سے؟"
ماہ رخ بیگم نے عشرت جہاں سے لمہے میں انتہائی کڑا سوال کرڈالا تھا۔
" ماہ رخ میرے لیے انسانیت کا درجہ خاندان اور ذات پات سے زیادہ رکھتا ہے میرے لیے اس بچی کی حفاظت اہم ہے ورنہ لوگوں نے تو اسے موت کے گھاٹ اتارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔"
انہوں نے آخر میں بت بنی صاریہ کی جانب دیکھتے ہوئے طنز سے کہا تھا۔
" ٹھیک ہے بھابھی! جب آپ نے اپنے مرحوم شوہر کے کہے گئے لفظوں کا پاس نہیں رکھا تو میں کیا کہہ سکتی ہوں آپ کا بیٹا ہے جیسا آپ کو مناسب لگے۔"
آخر میں انہوں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے ان سے کہا تھا۔
" لیکن مجھے فرق پڑتا ہے جبرئیل صرف میرا ہے میں اسے کسی اور کا نہیں ہونے دوں گی اور اس دو ٹکے کی زارا کا تو ہرگز نہیں۔"
غصے میں صاریہ بالکل ہی اپنے آپے سے باہر ہورہی تھی اس کے اس طرح کے جملے استعمال کرنے پر عشرت جہاں بے حد اشتعال کے عالم میں اپنی جگہ سے اٹھیں تھیں اور صاریہ کے عین مقابل کھڑی ہوئی تھیں۔ کمرے کی خاموش فضا میں تھپڑ کی آواز اپنی پوری قوت سے گونجی تھی اور ساتھ میں عشرت جہاں کے الفاظ بھی۔
" بے حیا،بے شرم لڑکی تمہیں زرہ شرم نہیں آتی اپنی ماں اور تائی کے سامنے ایک غیر مرد کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے کچھ تو شرم کرلو صاریہ تم زارا کو دو ٹکے کی بول رہی ہو نہ کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے کہ خود کیا ہو دو ٹکے کی لڑکیوں والی حرکتیں تم خود کرتی ہو اور پھر بھی دو ٹکے کا کسی اور کو ہی بولتی ہو سلام ہے تمہاری ڈھٹائی پر۔"
انہوں نے انتہائی سخت لہجے میں اس سے کہا تھا جو اپنے بائیں گال پر ہاتھ رکھے ہوئے بے یقینی سے کھڑی ان کی جانب دیکھتے ہوئے ان کی باتیں سن رہی تھی۔
" بڑی امی! آپ؟"
اس نے کچھ بولنے کی کوشیش کی تھی جسے انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے بیچ میں ہی روک دیا تھا۔
" خبردار صاریہ! خبردار جو تم نے مجھے بڑی امی کہا ہو کاش کے تم نے اس لفظ کی لاج رکھی ہوتی تو آج میں یہاں کھڑی ہوئی تمہیں تھپڑ نہ مار رہی ہوتی۔"
انہوں نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ماہ رخ بیگم وہی سن کھڑی اپنی بیٹی کو عشرت جہاں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھیں مگر ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ جھٹک سکتی یا انہیں روک سکتی کیونکہ انہیں خود بھی اندازہ تھا کہ ان کی بیٹی نے کیا حرکت کی ہے۔
" میرا بیٹا اگر تم سے نفرت کرتا ہے نہ تو وہ بالکل ٹھیک کرتا ہے صاریہ کیوں کہ تم میں محبت کرنے لائق کچھ بھی نہیں ہے۔"
انہوں نے اس کے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوتے دل پر آخری وار کیا تھا اور کمرے کے دروازے سے باہر نکل گئی تھیں صاریہ جو بت بنی وہی کھڑی تھی ایک لمہے میں زمین بوس ہوئی تھی۔
میری محبت بھی فقط تھی
دو لوگوں کے لیے ہی
ایک تھا وقت اور ایک تھے تم
ٹوٹ گئی ہوں میں کچھ اس طرح
ظلم ہوگیا ہے مجھ پر کچھ اس طرح
ایک گزر گیا جو گزر گیا وہ وقت تھا
ایک مکر گیا جو مکر گیا وہ تم تھے
ایمن خان
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
YOU ARE READING
دہلیز کے پار وہ ( مکمل✔)
Mystery / Thrillerیہ کہانی ہے ظلم سے لڑتے لوگوں کی۔۔ اپنی عزتیں بجاتی لڑکیوں کی۔۔ ایک ایسی لڑکی کی جس نے عزت کی خاطر اپنا گھر اور اپنی ماں کھو دی۔ ایک ایسے جانباز سپاہی کی جو ملک کی خاطر سینہ تان کر کھڑا رہتا ہے لاکھوں ،ماوں بہنوں کی عزتوں کے رکھوالوں کی۔۔ یہ کہانی ہ...