طلسمی کھیل

5.6K 189 125
                                    

قسط نمبر 11
بہت انجان تھی میں ان لفظوں سے
جو جگا دیتے تھے روح کو میری
بہت لاپرواہی تھی مجھ میں
جو بھلا دیتی تھی ضرورت تیری
بہت مہنگا تھا وہ سودا محبت
جو بکا دیتا تھا قربت تیری
کھیل گیا جو تو طلسمی کھیل
جیت مشکل تھی تیرے آگے میری
ہار کر بھی جیت گئی تھی میں
ایسی جان لیوا محبت تھی تیری
ایمن خان
اسامہ کا وجود ایک لمہے میں زرا سا لڑکھڑایا تھا طراب نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر اسے سہارا دیا تھا جبرئیل کا چہرہ سپاٹ تھا پتہ نہیں وہ ضبط میں تھا یا کوئی اور تاثر تھا جو اس لمہے اس کے چہرے کا حصہ بنا ہوا تھا۔ زیبا کے کمرے کے دروازے کے ساتھ زارا بھی ٹیک لگائے کھڑی ہوئی تھی جس کا چہرہ جھکا ہوا تھا لیکن وہ مزید کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی اس لیے انتہائی ٹھہرے ہوئے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
" ان کی نفرت کا شکار میں ہوئی تھی میجر صاحب! انٹی! جانتے ہیں آپ سب کئی محبتیں خود غرض ہوتی ہیں وہ کوئی نفع کوئی نقصان نہ تو مانتی ہیں اور نہ ہی دیکھتی ہیں۔ محبت میں جذبات بےلگام گھوڑے کی طرح ہوتے جسے کب کیا کرنا ہے کہاں رکنا کہاں چلنا یہ اس کے اختیار سے باہر ہوتا ہے اور یہ گولی بھی اسی جذبات کا ایک حصہ تھی اور محبت کے اصولوں میں تو کسی بھی جرم کی کوئی سزا نہیں ہوتی محبت میں تو سب گناہ سب قصور معاف کردیے جاتے ما سوائے بے وفائی کے۔"
وہ بول رہی تھی اور وہاں صرف اسی کی آواز تھی باقی سب تو گویا پتھر کے ہوگئے تھے وہ جسے سب ننھی سی لڑکی سمجھتے تھے محبت کی اتنی گہری ساکھ سے واقف تھی وہاں موجود ہر نفس اس بات پر ایمان لانے پر مجبور تھا کہ محبت میں سب قصور معاف ہیں۔"
" چچی جان! اسے فون کرکے بلوائیں اور کہیں کہ کل نکاح سے پہلے وہ خان ولا میں ہو۔"
جبرئیل کی آواز نے سب کو ہوش کی دنیا میں دھکیلا تھا۔ ماہ رخ بیگم نے عشرت جہاں کی جانب دیکھا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے اندر کی جانب چلی گئیں۔
" بہت شکریہ جبرئیل! تم نے صاریہ کو آنے کی اجازت دے کر ایک ماں کے دل کو سکون بخشا ہے۔"
انہوں نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی ہلکا سا مسکرایا۔ زارا کے لب بھی مسکرا رہے تھے جبکہ اسامہ اب بالکل سپاٹ تاثرات سے کھڑا تھا لیکن زارا کی بات سے اس کے دل میں موجود غصے کا اثر ذائل ہوگیا تھا۔
ماہ رخ بیگم بھی اندر کی جانب چلی گئی تو جبرئیل زارا کی جانب بڑھا جو وہاں ایسے ہی کھڑی تھی.
" واو۔ مسز محبت کے بارے میں تو خاصہ کچھ جانتی ہیں نہیں؟"
اس نے اسے خود سے قریب کرتے ہوئے کہا تھا جس پر زارا نے اس کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں رکھ کر اسے دور دھکیلنے کی کوشیش کی تھی۔
" اپنی بےہودگی بعد میں دیکھا لیجیے گا میجر صاحب یہ آپ کا بیڈ روم نہیں ہے۔"
اس نے اپنا آپ اس کی گرفت سے چھڑاتے ہوئے کہا تو بے اختیار جبرئیل مسکرا اٹھا ہونٹ کے پاس والا تل ایک بار پھر سے نمایاں ہوا تھا زارا نے غور سے اس تل کو دیکھا تھا گہرا بورا اور گولائی میں پھیلا ہوا وہ تل اس کے ہونٹ کے قریب خوب جچتا تھا۔
" شرم نہیں آتی شوہر کو تاڑتے ہوئے؟"
وہ لبوں پر مچلتی مسکراہٹ کو دباتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
" نہیں آتی کیونکہ اپنے میجر کو تاڑنے کا پرمننٹ لائسنس ہے میرے پاس۔"
وہ اس سے فاصلہ بڑھاتی ہوئی کہہ رہی تھی۔
"یہ میرا نام کیوں نہیں لیتی تم؟"
وہ حیرت سے ابرو اچکا کر اس سے پوچھ رہا تھا وہ کبھی بھی اس کا نام نہیں لیتی تھی۔
" کیونکہ چڑتا نہیں میری زبان پر۔"
وہ کندھے اچکاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" تو جب میرا رینک بڑھ جائے گا پھر بھی کیا میجر صاحب کہو گی؟"
اس نے دور جاتی ہوئی زارا کا ہاتھ ایک بار پھر پکڑا تھا۔
"آہ نہیں پھر برگئیڈیر صاحب کہہ لوں گی۔"
وہ مسکراتی ہوئی اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ گئی تھی جبکہ وہ اس کے ہونے پر شکر کرکے رہ گیا تھا ہاں یہ سچ تھا کہ زارا نور اس کی سب سے بڑی خوشی تھی۔
سنیں میجر صاحب!"
اس نے دور سے جاتے ہوئے اسے آواز لگائی تو اس نے سوالیہ نگاہوں سے اس کے چہرے کی جانب دیکھا۔
"مجھے نہ۔"
وہ بول کر ایک دم رکی تھی ہونٹ دانتوں تلے دبائے ہوئے تھے۔
" تمہیں نہ کیا؟"
اس نے پھر سے اس سے پوچھا تھا۔
" آپ کا یہ تل بہت قاتل لگتا مجھے۔"
اس نے اس کے ہونٹ کے پاس اشارہ کیا تھا اور پھر وہاں سے بھاگ گئی تھی جبکہ جبرئیل کا قہقہ پورے خان ولا میں گونجا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

دہلیز کے پار وہ ( مکمل✔)Where stories live. Discover now