بوسیدہ اوراق

4.7K 183 88
                                    

قسط نمبر 9
بے بسی کی انتہا ہوتی جارہی ہے
ایسی ورق گردانی ہوتی جارہی ہے
وہ بے قرار کرنے والے لمس کی
دھیرے دھیرے یاد بھولی جارہی ہے
وہ بے چین کرتے ناموں کی تحریر
بے سبب دھندلی ہوتی جارہی ہے
ماضی جو تھا ان بوسیدہ اوراق میں
ان کی گرد بھی مٹتی جارہی ہے
آ تو ایک بار سامنے زرا سالوں بعد
تجھے معاف کرنے کی چاہ بڑھتی جارہی ہے
ایمن خان
وہ ان کے بالکل سامنے کھڑا تھا چہرے پر حیرت کا سمندر آباد کیے نہ صرف وہ انہیں دیکھ رہا تھا بلکہ وہ بھی اسے اسی طرح دیکھ رہے تھے۔
" اسلام علیکم!"
بل آخر آرون نے ہی سلام میں پہل کی تھی۔
" وعلیکم اسلام! کیسے ہو بیٹا تم؟"
انہوں نے مسکرا کر اس کا حال احوال پوچھا تھا۔
" میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟"
آرون نے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
" شکراللہ کا گزر رہی ہے اور اچھی گزر رہی ہے۔"
انہوں نے مسکرانے کی موہوم سی کوشیش کرتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ آرون کی سمجھ سے باہر تھا کہ جس کام کے لیے وہ یہاں آیا ہے وہ کام وہ کس طرح کرے دوسرا ابھرنے والا سوال یہ تھا کہ کہیں وہ کسی غلط گھر میں تو نہیں آگیا؟ اگر آگیا ہے تو وہ کس طرح بات ادھوری چھوڑ کر جائے گا وہ برا پھسا تھا اور اب اسے نکلنا مشکل لگ رہا تھا مگر وہ اس بات سے انجان تھا کہ اس لمہے وہ جس جگہ پر موجود ہے یہی جگہ اس کے دل میں ابھرتے اور دماغ میں مچلتے سوالوں کا جواب دے گی ہر چیز کھل کر شفاف آئینے کی طرح سامنے آنے والی تھی۔
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
میر پور خاص کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں اس کی نائٹ شفٹ تھی وہ وارڈ میں مریضوں کو دیکھ کر اپنے کیبن میں آکر ابھی بیٹھی ہی تھی کہ میز پر رکھا ہوا اس کا فون چیخا تھا۔ وہ جو آنکھیں موندے کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر بیٹھی تھی فون کی آواز پر ایک دم سے ہڑبڑا کر اٹھی تھی موبائل پر کوئی انجان نمبر چمک رہا تھا مائرہ نے کچھ الجھ کر فون پر چمکتے نمبر کی جانب دیکھا تھا اور پھر گہرا سانس بھر کر فون کان سے لگایا تھا اصل میں وہ خود بھی حیران تھی کہ اس وقت ایسا کون ہے جو اسے فون کررہا تھا۔
" ہیلو!"
مائرہ نے فون کان سے لگا کر اپنے بولنے کا احساس دلایا تھا لیکن دوسری جانب صرف محض سانسوں کی آواز تھی جو مائرہ کو اور بھی الجھن میں ڈال گئی تھی۔
" ہیلو کون؟''
اس نے ایک بار پھر سے اپنی موجودگی سے آگاہ کیا تھا۔
" ہیہ۔۔ہیلو ما۔۔مائرہ!"
دوسری جانب سے خالصتن زنانہ آواز تھی جو سیک لمہے میں مائرہ کی پہچان میں نہیں آئی تھی اسے بالکل بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ ایسا کون ہے جو اس کا نام جانتا ہے۔
" میں نے پہچانا نہیں کون بول رہا ہے؟"
اس نے اپنی ناسمجھی کا اظہار کرنے میں بھی تاخیر سے کام نہیں لیا تھا بلکہ فوری طور پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا کیونکہ یہ سچ تھا کہ وہ فون کرنے والے کے بارے میں متجسس تھی۔
" مہ۔مائرہ! میں صا۔۔صاریہ!"
اس نے آخری جملہ پورا کرہی دیا تھا اور مائرہ فون کے دوسری جانب صاریہ کو پاکر بے حد حیران ہوئی تھی۔
" صاریہ! تم؟"
مائرہ نے حیرت اور ناسمجھی کے ملے جلے تاثرات رکھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" ہاں مائرہ میں صاریہ سنا تھا تم کشمیر ہوتی ہو تو میں نے نائلہ سے تمہارا نمبر لیا اور اب تمہیں کال کی۔"
مائرہ کو صاریہ کی آواز قدرے آہستہ اور بوجھل محسوس ہوئی تھی۔
" کیا تم ٹھیک ہو صاریہ مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ تم ٹھیک نہیں ہو؟"
مائرہ اور صاریہ کالج میں اکھٹے پڑھا کرتی تھیں مائرہ ڈاکٹری کی پڑھائی کے لیے بیرون ملک چلی گئی جبکہ صاریہ نے ایم ایس میں داخلہ لے لیا اور پھر دونوں کا رابطہ ٹوٹ گیا دونوں کا رابطہ ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ صاریہ کی خود پسندی بھی تھی اور خودغرضی بھی مائرہ ہمشہ صاریہ کو جبرئیل کے حوالے سے سمجھایا کرتی تھی مگر وہ اپنی خود غرضی میں اتنا آگے نکل گئی تھی کہ مجبورا مائرہ نے صاریہ سے ہر تعلق ختم کرلیا اس نے صاریہ سے بات کرنا ترک کردی اور پھر دھیرے دھیرے دونوں میں اتنی دوری آگئی کہ انہیں ایک دوسرے سے ملے اور بات کیے سالوں بیت گئے اور اب جب ایک دم سے اچانک مائرہ کو صاریہ کا فون آیا تو اس کا چونکنا تو فطری تھا۔
" میں گھر چھوڑ کر کشمیر ہی آگئی ہوں مائرہ! یہاں ایک سکول میں جاب کررہی ہوں اتنے سالوں بعد ایسے ہی تم سے ملنے کو دل چاہا تو میں نے نائلہ کو فون کرکے تمہارا نمبر لے لیا۔"
صاریہ نے اسی مدہم لہجے میں اس سے کہا تھا۔
" بہت اچھا کیا کونسے سکول میں ہوتی ہو تم میں کل تمہیں پک کرلوں گی پھر ملتے ہیں۔"
مائرہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو صاریہ نے اسے سکول کا نام اور پتہ سب کچھ بتا دیا کچھ دیر بات چیت کے بعد دونوں نے فون بند کردیا۔ مائرہ نے فون بند کرنے کے بعد سر ریوالونگ چئیر کی پشت سے ٹکایا تھا اس کی سوچ کا محور مسلسل صاریہ کی ذات تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
طراب اور اسامہ کے جانے کے بعد وہ اندر آیا تھا اپنی میلٹری کیپ ہاتھ میں تھامے وہ کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔
" سلام سر!"
آغا خان نے اسے دیکھتے ہی سلام کیا تھا۔
" وعلیکم اسلام ! میڈم کدھر ہیں؟"
اس نے چھوٹتے ہی زارا کے متعلق پوچھا تھا کیونکہ اس سارے واقعے میں اسے اس کی سب سے زیادہ فکر تھی کہ پتہ نہیں ان دونوں نے زارا سے کیا کہا ہوگا۔
" وہ تو اوپر اپنے کمرے میں ہیں۔"
آغا خان نے مودب بنتے ہوئے اسے بتایا تھا۔
" کچھ کھایا انہوں نے؟''
سوال ایک بار پھر سے اس کی جانب سے کیا گیا تھا آغا خان کے لیے تو آج حیرتوں کا دن تھا اس کا باس کسی کی اتنی فکر بھی کرسکتا ہے اسے یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی۔
" نہیں سر میرے بہت کہنے کے باوجود بھی انہوں نے کھانا نہیں کھایا۔"
آغا خان نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا تھا۔
" اوکے تم ٹیبل پر کھانا لگاو میں دیکھتا ہوں۔"
وہ اسے کہہ کر اپنے یونیفارم کی آستین موڑتا ہوا لکڑی کی سیڑھیوں کی جانب چل دیا جس کے پار اس کا کمرہ تھا۔ اس نے دروازے کے باہر پہنچ کر انتہائی آہستگی سے دروازے کی ناب گھما کر دروازہ کھولا تو وہ خود بخود کھلتا چلا گیا کمرے میں نیم اندھیرا تھا مگر کمرہ پورا خالی تھا واشروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی جبرئیل کو یہ اندازہ لگانے میں لمہہ لگا تھا کہ وہ واشروم میں ہے۔ وہ بیڈ کے سامنے رکھے کاوچ پر بیٹھ کر اس کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگا کچھ ہی دیر میں واشروم کا دروازہ کھلا اور وہ تولیے سے منہ تھپکتی ہوئی باہر نکلی اس کے کپڑے بدلے ہوئے تھے سر پر اس لمہے سکارف کی بجائے کوئی بھی چیز موجود نہیں تھی بورے گھنگھریالے بال یونہی ڈھلیے سے جوڑے میں بندھے ہوئے تھے وہ عام دنوں سے مختلف حولیے میں تھی بلیک پلین کرتا سادے سے ٹراوز کے ساتھ پہنے ہوئے وہ بالکل سادے حلیے میں تھی۔ چہرے پر سنجیدگی کا عنصر نمایاں تھا جبرئیل نے گہرا سانس بھرا تھا۔
" کھانا کیوں نہیں کھایا؟"
اس نے وہی بیٹھے بیٹھے ہی اس سے پوچھا تھا جو نظریں جھکائے کھڑی تھی۔
" بھوک ہی نہیں تھی مجھے اس لیے کھایا ہی نہیں۔"
زارا نے یونہی کھڑے ہوئے اس سے کہا تھا۔ جبرئیل نے غور سے اس کے چہرے کی جانب دیکھا تھا جو بالکل سنجیدگی لیے ہوئے تھا اس نے گہرا سانس بھر کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
" یہاں آو میرے پاس؟"
اس نے اپنی جانب آنے کا اشارہ کیا تو وہ چپ چاپ اس کے قریب آگئی۔
" یہاں بیٹھو۔"
اس نے اپنے گھٹنوں کی جانب اشارہ کیا تو زارا نے چونک کر اس کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں ہلکی سی بھی مسکراہٹ نہیں تھی وہ بے حد نروس انداز میں وہاں کھڑی تھی۔جب وہ کچھ دیر یونہی کھڑی رہی تو جبرئیل نے اس کی کلائی تھام کر اپنی جانب کھینچی اور اسے اپنے گھٹنوں پر بیٹھا لیا زارا کا دل عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا وہ اس کا اپنے لیے یہ انداز سمجھ نہیں پارہی تھی۔
" کیا ہوا ہے آپ بتاو؟"
اس نے اس کے جوڑے میں بندھے ہوئے بال جوڑے کی قید سے آزاد کرتے ہوئے کہا تھا۔
" کچھ بھی نہیں ہوا۔"
اس نے اس کے یونیفارم کے بٹن سے کھیلتے ہوئے جواب دیا تھا جبرئیل نے اس کا وہی بٹن سے کھیلتا ہوا ہاتھ تھاما تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کا چہرہ اونچا کیا تھا۔
" طراب اور اسامہ میرے بہت اچھے دوست ہیں میرے بیسٹ فرینڈز اور ان کا ہرگز بھی وہ مطلب نہیں تھا جو تم سمجھ رہی ہو زارا وہ بس ایک دم شاک ہوگئے میری شادی کا جان کر ساری بات کلئیر ہوگئی ہے تم خوامخواہ میں ٹینشن مت لو۔"
اس نے اس کا ہاتھ تھپکتے ہوئے اسے دھیرے سے کہا تھا اور اس کے گرد اپنا حصار باندھا تھا۔
" کیا سچ میں بات کلئیر ہوگئی ہے؟"
زارا کو اس کے حصار سے زیادہ بات کے حل ہونے کی فکر تھی۔ جبرئیل کی مسکراہٹ خاصی گہری ہوئی تھی۔
" ہاں ہوگئی۔"
اس نے اپنے لب اس کے بالوں میں رکھے تو زارا نے اس کی گود سے اٹھنے کی کوشیش کی جس پر جبرئیل نے دوبارہ اس کی کلائی تھام کر واپس بیٹھایا۔
" ارے اتنی جلدی کہاں جارہی ہو؟"
اس نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے زارا سے پوچھا تھا جس پر زارا نے اسے اچھا خاصا گھور کر دیکھا تھا۔
" میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی میجر صاحب آپ اتنے بے ہودہ ہوں گئے۔"
اس نے نظریں جھکا کر اس سے کہا تھا جبرئیل کا فلک شگاف قہقہ کمرے میں گونجا تھا۔
" کیوں بھئی اس میں بے ہودگی کی کیا بات ہے تم تو ایسے بول رہی ہو جیسے تمہاری جگہ میں نے کسی اور انجان لڑکی کو اپنی گود میں بیٹھا لیا ہے۔"
وہ مصنوعی منہ پھلاتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا۔
" آپ سے یہ بھی بعید نہیں ہے کہ کل کو کسی اور کو بھی بیٹھا لیں اپنی گود میں۔"
اس نے اچھا خاصا منہ پھلایا تھا۔
" اچھا واڈروب سے میرے کپڑے نکال دو میں فریش ہوجاوں پھر ہم کھانا کھاتے ہیں۔"
اس نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا تھا جس پر زارا نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
" میں کیوں نکالوں اپنے کپڑے سنا ہے فوجیوں کو اپنے سارے کام کرنے کی خود عادت ہوتی ہے۔"
وہ پتہ نہیں کہا سے سنی ہوئی بات اسے سنارہی تھی۔ جس پر وہ مسکرایا تھا ہونٹ کے پاس والا تل تھوڑا نمایاں ہوا تھا زارا نے غور سے اسے دیکھا تھا۔
" ہاں لیکن جن فوجیوں کی بیویاں آجائیں وہ ہڈ حرام ہوجاتے ہیں میجر جبرئیل بھی زارا جبرئیل کے آنے سے ہڈ حرام ہوگئے ہیں اب جلدی کرو ڈونٹ ویسٹ ٹائم۔"
اس نے جلدی سے اسے واڈروب کی جانب دھکیلا تھا واڈروب سے اس نے جبرئیل کو ایک اوف وائٹ کلر کی شلوار قمیض نکال کے دی جسے تھام کر وہ واشروم میں چلا گیا اور خود زارا نیچے آگئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سیاہ لاینٹوں والے تحہ خانے میں سردی آج حد سے زیادہ تھی۔ ٹھنڈے ٹھار فرش پر بیٹھی آرا بے حس و حرکت بیٹھی ہوئی تھی سردی اس کے پھیپڑوں میں گھس رہی تھی بہت عرصے سے نہ نہانے کے باعث اسے خود سے گھن آرہی تھی اس کے کھلے ہوئے بال جڑ چکے تھے کسی بھی قسم کے گرم کپڑوں سے عاری اس کا وجود شاہد اس سرد تحہ خانے کی ٹھنڈ کا عادی ہوچکا تھا۔
آرا نے اپنے دونوں بازو اپنے گھٹنوں کے گرد پھیلائے تھے اور ان میں سر دے کر بیٹھ گئی تھی اس کے وجود پر ایک عجیب قسم کی کپکپی طاری تھی اس کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا کچھ ہی دیر میں سیڑھیوں پر قدموں کی چاپ سنائی دی تھی آرا جانتی تھی کہ اس تحہ خانے میں کون آسکتا تھا اس لیے اس نے سر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی سگار کی بو اور دھواں تحہ خانے میں ابھرا تھا۔
" اف بہت بدبو ہوگئی ہے یہاں۔"
نوریز نے اپنا ہاتھ اپنی ناک پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
"آرا تب بھی خاموش رہی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ کچھ بھی نہیں بول سکتی۔
" یہ لو اور جاکر نہا لو۔"
نوریز نے اس کے آگے کپڑے پھینکتے ہوئے کہا تھا آرا نے ایک نظر اپنے سامنے بکھرے ہوئے کپڑوں اور دوسری نظر نوریز پر ڈالی تھی جو مسلسل سگار کے کش لگاتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔
" کیوں آج تمہیں میرے کپڑوں اور حلیے کی اتنی فکر کیوں ہورہی ہے نوریز!؟"
آرا نے اپنے لہجے کو سپاٹ بنا کر کہا تھا۔ جس پر تحہ خانے میں نوریز کا قہقہ گونجا تھا۔
" ویسے آرا! ماننا پڑے گا تم اب بھی بہت سمجھ دار ہو ہمشہ کی طرح میری رگ رگ سے واقف!"
نوریز اس کے سامنے پینجوں کے بل بیٹھا تھا آرا کے بے حد قریب۔
"اپنی بکواس بند کرو نوریز! گھٹیا تو تم پہلے بھی تھے اور اب تو گر بھی چکے ہو۔"
آرا نے بے بسی سے اس سے کہا تھا جس پر وہ ایک بار پھر دلکشی سے مسکرایا تھا۔
" بالکل اور اس سے زیادہ گرنے میں بھی مجھے وقت نہیں لگے گا آرا ! خود سے اٹھ کر جاو ورنہ پھر یہ کام بھی مجھے ہی کرنا پڑے گا۔"
اس نے سگار نیچے پھینک کر اپنے بھاری بوٹ تلے مسلا تھا اور اس کی بات کے جواب میں آرا کی ریڑھ کی ہڈی میں عجیب سی سنسناہٹ ہوئی تھی۔
اس نے اٹھ کر جانے کی کوشیش کی تھی مگر نقاہت کے باعث اس سے اٹھا نہیں گیا تھا نوریز نے اسے اٹھا کر تحہ خانے کے کونے میں بنے ہوئے خستہ حال واشروم میں دھکیلا تھا اور خود دوسری جانب جالی کے پار لگے بوسیدہ لکڑی کے جھولے پر بیٹھ گیا تھا اب اس کے ہاتھ میں ایک اور سگار تھا جس کے کش لینے میں وہ مصروف تھا شاہد یہ اس کے انتظار کا سامان تھا آج ایک بار پھر سے بہت عرصے بعد وہ اپنے نفس کی تسکین چاہتا تھا اور اس کا باعث صرف اور صرف تحہ خانے میں موجود آرا کی ذات تھی۔ کچھ لمہوں بعد جب آرا باہر نکلی تو اس نے نوریز کو جالی کے پار بنے ہوئے جھولے پر بیٹھے دیکھا نجانے کیوں آرا کے اندر کچھ کھٹکا تھا کیونکہ وہ ہمشہ کی طرح آج بھی نوریز کے سامنے بے بس تھی۔ کھٹکے کی آواز کے ساتھ ہی نوریز سیدھا ہوا تھا آرا کے صاف ستھرے اور نکھرے روپ کو دیکھ کر نوریز کئی سال پیچھے چلا گیا تھا اس کے دل و دماغ میں ابھی تک پھر سے آرا کے حسن کا وہی عکس تھا۔ وہ دھیرے سے اس کی جانب بڑھا تھا آرا کے قدم بے ساختہ پیچھے کی جانب اٹھے تھے۔
" خبردار نوریز جو تم میری جانب آئے میں قسم کھا کر کہہ رہی ہوں میں تمہیں جان سے مار دوں گی۔"
آرا نے انگلی اٹھاتے ہوئے پتھریلے لہجے میں اس سے کہا تھا۔ جس پر نوریز کا قہقہ بلند ہوا تھا۔
" آرا ! میری جان تم ابھی بھی وہی بے بس چیونٹی ہوں جو برسوں پہلے ہوا کرتی تھی تم اچھے سے جانتی ہو کہ تم میرے آگے کچھ بھی نہیں کرسکتی پھر مذہمت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔"
نوریز نے ایک بار پھر سے منہ میں دبا ہوا سگار سیاہ اینٹوں کے فرش پر پھینک کر اپنے بوٹ سے مسلا تھا۔ اور آرا کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی جانب کھینچا تھا آرا کا ڈھلتی عمر کے باوجود حسین چہرہ نوریز کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔ اس نے سسکتی ہوئی آرا سے جی بھر کر تسکین حاصل کی تھی اس کی سسکیوں اور بدعاوں کا گواہ وہ سیاہ اینٹوں کا تحہ خانہ تھا جو آرا کی ہر آہ کا گواہ تھا۔ اپنی طلب مٹا کر اس نے آرا کو خود سے دور دھکیلا تھا جیسے وہ کوئی ناپاک اچوت ہو آرا کا نڈھال جسم سیاہ فرش پر ایک جانب کو لڑک گیا تھا خود نوریز تحہ خانے کی سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا آرا کی آواز نے ایک پل کے لیے اس کے قدم جکڑے تھے۔
" کل بھی میری یہی دعا تھی اور آج بھی یہی دعا ہے اور انتہائی دل سے ہے میرے جسم کا ہر اعضا اور میری روح کا ہر حصہ میرے خون کا ہر قطرہ میرا روم روم تمہارے مرنے کی دعا شدت سے کررہا ہے نوریز! اللہ کرے تم مر جاو اور نہ تو تمہیں کفن نصیب ہو اور نہ ہی قبر سنا تم نے نوریز! خدا کرے تم مر جاو مرجاو تم"
اس نے اپنے بے جان ہوتے جسم اور آنسوں سے تر چہرے کے ساتھ چیخ کر کہا تھا ایک لمہے کے لیے صرف ایک لمہے کے لیے نوریز کا دل کانپا تھا مگر شیطانیت اور بے حسی پھر سے اس کے اوپر غالب آگئی تھی اور وہ سر جھٹک کر تحہ خانے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا تھا پیچھے آرا کے وجود کے ٹکروں کو بھی سمبھالنے والا کوئی نہیں تھا۔ آرا کی بددعائیں نوریز کی زندگی میں کیا رنگ لانے والی تھی یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شام میں ہلکی ہلکی دھوپ تھی چائے کے مگ تھامے وہ دونوں لان میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ سگرا بوا نے میز پر چیز سنڈوجز کی ٹرے رکھی تو وہ ان کی جانب متوجہ ہوئی تھیں۔
" سگرا بوا اب آپ جائیں ریسٹ کر لیں باقی ہم خود دیکھ لیں گئے۔"
آنیہ نے پاس کھڑی سگرا بوا کو کہا تو وہ سر ہلاتی ہوئی اندر چلی گئی تھیں جبکہ آنیہ زیبا کی جانب متوجہ ہوئی تھی جو کسی غیر مرعی نقطے پر مرکوز تھی۔
" کیا بات ہے زیبی ایسے کیوں بیٹھی ہوئی ہو؟"
آنیہ نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تو اس نے نگاہوں کا زاویہ آنیہ کی جانب موڑا ۔
" صاریہ آپا مجھے بہت یاد آرہی ہیں۔"
زیبا نے بے بسی سے کہا تھا۔
" ہاں صاریہ آپا کو تو میں بھی بہت مس کررہی ہوں ان کا ہر وقت ٹوکنا لڑنا غلطیاں نکالنا رونق رہتی تھی اور اب جب سے وہ گئی ہیں جیسے پورا گھر ہی سنسان ہوگیا ہے۔"
آنیہ نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تھا۔ابھی وہ دونوں باتیں کرہی رہی تھیں کہ گیٹ کھلا تھا اور پھر سبتین کی سفید سویک اندر داخل ہوئی تھی گاڑی سرخ اینٹوں کی روش پر چلتی ہوئی پورچ میں رکی تھی وہ اپنی پولیس کی وردی پہنے ہوئے باہر نکلا تھا یقیننا وہ اس وقت تھانے سے آرہا تھا سیاہ شیڈز آنکھوں سے ہٹا کر وہ چلتا ہوا ان دونوں کے پاس ہی آگیا تھا جو لان میں بیٹھی چائے سے انصاف میں مصروف تھیں۔
" ہیلو گلز!"
اس نے دھڑم سے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
" ہائے سبتے!"
زیبا نے ویسے ہی اداس شکل بنائے ہوئے اسے ہاتھ ہلایا تھا۔
" تمہیں کیا ہوا ہے یہ اداس بندریا جیسی شکل کیوں بنائی ہوئی ہے؟"
سبتے نے ایک سینڈوچ لیتے ہوئے پوچھا تھا۔
" چپ کرجاو آئی مس صاریہ آپا الوٹ۔"
اس نے چائے پیتے ہوئے منہ لٹکا کر کہا تھا۔
" تو اس میں اتنی اداسی والی کونسی بات ہے آپا کو فون کرلو ان سے بات کرلو یقینا تم بہتر محسوس کرو گی۔"
اس نے اپنے فون پر صاریہ کا نمبر ملاتے ہوئے کہا تھا مگر مسلسل بیل جانے کے باوجود بھی کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔
" مجھے لگتا ہے ابھی وہ شاہد مصروف ہوں گی تم کچھ دیر بعد کال کرکے بات کرلینا۔"
اس نے فون میز پر رکھتے ہوئے کہا تھا جس پر زیبا نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ خاموشی سے سینڈوچ کھاتی آنیہ کی جانب متوجہ ہوا۔
" آنی!"
اس نے اسے پکارا تو آنیہ نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
" پلیز ایک کپ چائے مجھے بھی کمرے میں بھجوا دو میں چینج کرلو زرا۔"
سبتے نے آنیہ سے کہا تو وہ اپنا مگ خالی کرکے میز پر رکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اس کا رخ اب اندر کی جانب تھا۔
" کیا چل رہا ہے یہ تم چائے ہمشہ آنی سے ہی کیوں بنواتے ہو؟"
زیبا اس کے جانے کے بعد آنکھیں چھوٹی کرکے سبتے کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
" کیونکہ وہ تمہاری طرح پتلی پانی چائے نہیں بناتی اس لیے اس سے بنواتا ہوں ایک ذائقہ ہے اس کے ہاتھ میں۔"
وہ ایک ادا سے بولا تو زیبا نے گھور کر اسے دیکھا۔
" یہ جو چل رہا ہے نہ جلدی سے بتا دو مجھے۔"
زیبا نے آگے ہوتے ہوئے رازداری سے پوچھنے کی کوشیش کی تو سبتے نے اسے ایک ہلکی سی چت لگائی۔
" بی اماں کچھ نہیں چل رہا تم زیادہ دماغ خراب نہ کرو نہ اپنا اور نہ ہی میرا۔"
اس نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا اور قدم قدم چلتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیا۔
" کچھ تو گڑ بڑ ہے۔"
وہ ایس۔پی کی طرح ہاتھ گھوماتی ہوئی بولی تھی اور پھر خود ہی مسکرا دی۔
" یہ میرا ہیرو کدھر چلا گیا نظر ہی نہیں آتا آج کل۔"
اس نے آرون کے بارے میں سوچتے ہوئے مسکراہٹ دبائی تھی۔
" خیر آلینے دو اس سے بھی دو دو ہاتھ کرتی ہوں۔"
وہ کہتی ہوئی میز پر رکھے سارے برتن اٹھا کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شکاگو میں ہمشہ برف باری رہتی تھی آج بھی دن میں ہر چیز برف سے ڈھکی ہوئی تھی پے پناہ انتظار کے بعد بھی کوئی خط نہیں آیا تھا وہ جوابی خط کی امید چھوڑ چکی تھی لیکن وہ اسے خط لکھنا تو نہیں چھوڑ سکتی تھی کیونکہ یہ ایس۔کے کے بس میں نہیں تھا۔ وہ سرخ رنگ کی گھٹنوں تک آتی قمیض نیلی جینز کے ساتھ پہنے ہوئی تھی پینٹ ہاوس گرم ہونے کی وجہ سے اس نے کوئی بھی کوٹ نہیں پہنا ہوا تھا اس کے سلکی بال اس کی کمر پر بکھرے ہوئے تھے اور پینٹ ہاوس کے لاونج میں ایزی چئیر پر بیٹھی وہ سگریٹ کے گہرے کش لگانے میں مصروف تھی۔ اسے انتظار تھا غلام بخش کا کیونکہ آج وہ ایک اہم خبر لانے والا تھا۔ اس کا یہ انتظار مزید طویل نہیں ہوا تھا کیونکہ غلام بخش ہاتھ باندھے اند داخل ہوا تھا۔ بے ساختہ ایس۔کے کے چہرے پر مسکراہٹ رینگی تھی۔
" آو غلام بخش! مجھے تمہارا ہی انتظار تھا۔"
اس نے سگریٹ کا دھواں فضا میں چھوڑتے ہوئے کہا تو غلام بخش بھی مسکرا گیا۔
" جتنی دیر آپ میرا انتظار کرتی ہیں اتنی ہی جلدی مجھے آپ کے پاس پہنچنے کی ہوتی ہے۔"
اس نے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا تو ایس۔کے کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔
" خبر سناو جس کے لیے مجھے تمہارا انتظار تھا۔ "
اس نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے کہا تو غلام بخش بھی گویا ہوا۔
" سسٹم کو ہیک کرنے کے لیے ہیکرز ہائیر کرلیے ہیں اور انہوں نے اپنا کام شروع بھی کردیا ہے جلد ہی آپ کو ایک تباہ کن خبر ملے گی۔"
غلم بخش کے چہرے کی پرسرایت نے ایس۔کے کو ایک سکون تاثر فراہم کیا تھا۔
" اس سے مجھے کتنا اور کس قسم کا فائدہ ہونا چائیے یہ تمہیں معلوم ہونا چائیے بخش! جو فائدہ مجھے چائیے اس کی خبر بھی مجھ تک جلدی آنی چائیے کیونکہ انتظار ایس۔کے صرف کرنل کے خط کا کرسکتی ہے اور کسی بھی چیز کا انتظار مجھے لطف نہیں دیتا بلکہ میرے لیے سوہان روح ہوتا ہے۔"
اس لمہے اس کا چہرہ سنجیدگی اوڑے ہوئے تھا بخش کو اس کی بات سمجھنے میں صرف ایک لمہہ لگا تھا۔
" اب آپ کو اپنے لکھے ہوئے خط کے جواب کا انتظار کیوں نہیں ہے؟"
وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے گویا ہوا تھا۔
" انتظار تب کیا جاتا بخش! جب دوسری جانب کے جذبے کی بختگی پر مان ہو جب مجھے کوئی مان ہی نہیں ہے تو انتظار کس بات کا؟ مجھے صرف اپنے جذبے کی بختگی پر مان اور یقین ہے اس لیے مجھے اس کی جانب کے جذبے پر شکوے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا دوبارہ تم یہ سوال مجھ سے مت کرنا کیونکہ مجھے نہیں لگتا اس سوال کا میں مزید کوئی جواب دے پاوں گی اور دوبارہ کبھی بھی دے پاوں گی۔"
وہ کبھی اپنی نگاہیں کم از کم بخش کے سامنے نہیں جھکاتی تھی مگر آج اس کی یہ نگاہیں احسن کے ذکر پر بخش کے سامنے بھی جھک گئی تھی کم از کم ایس۔کے نے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا کہ محبت اسے اپنے ایک ملازم کے سامنے جھکا دے گی محبت کے بے رحم ہونے پر اسے زندگی میں پہلی بار یقین آیا تھا اور وہ وثوق سے کہہ سکتی تھی محبت بے حد بے رحم ہے نسلیں کھا کر بھی اسی شان سے براجمان رہتی ہے وہ سر دوبارہ کرسی کی پشت سے ٹکا چکی تھی سگریٹ سلگا کر اب اسے پھر سے اس کی طلب مٹانی تھی دل میں دبی ہوئی چنگاری کو سگریٹ کے بے رحم دھویں میں دبانا تھا سو وہ یہ کررہی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بالکل خاموش بیٹھے ہوئے تھے آرون اپنے سوال پوچھنے کے لیے لفظ تلاش کررہا تھا اور کرنل خاور اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے وہ ابھی کچھ دیر بعد ہی کشمیر کے لیے نکلنے والے تھے لیکن اب وہ خاموشی سے آرون کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
" کیا بات ہے بیٹا! تم یہاں ؟ "
آخر کو کرنل خاور نے خاموشی کو توڑ کر اس سے سوال کیا تھا۔
" سر! مجھے بالکل بھی معلوم نہیں تھا یہ آپ کا گھر ہے۔"
آرون نے انتہائی آہستگی سے ان سے کہا تھا۔
" کیا بات ہے واٹس دا میٹر؟"
کرنل خاور کی زیرک نگاہوں نے ایک منٹ میں اس کا مکمل تجزیہ کرلیا تھا۔
" میں یہاں ایک کیس کے سلسلے میں آیا ہوں۔"
آخر کو اس نے ہمت کرکے انہیں اپنے آنے کی وجہ بتائی تھی۔
" کس قسم کا کیس اور تمہارے کیس کا میرے گھر سے کیا تعلق ہے؟"
کرنل خاور کے لہجے اور چہرے دونوں پر ہی الجھن واضح تھی۔
" اصل میں سر میں جاننا چاہتا ہوں کہ بابا کیسے شہید ہوئے تھے اور جس کیس پر وہ کام کررہے تھے وہ ابھی تک حل نہیں ہوا میں نے 94 سے 2006 تک کے سارے اغوا شدہ کیسز کی فائل ری اوپن کی تھی اور جو 94 میں آخری اغوا ہوا تھا وہ آپ کے گھر سے ہوا تھا کیونکہ اس اغوا کی رپوٹ ایک بار لکھوا کر واپس لے لی گئی تھی اور پھر اس کے بعد کبھی بھی یہ کیس کھولا نہیں گیا میں جاننا چاہتا ہوں سر ! کہ آپ کے گھر سے کون اغوا ہوا تھا؟"
آرون نے ساری بات بتا کر آخر میں ان سے سوال کیا تھا جبکہ کرنل خاور کا چہرہ اس لمہے لٹھے کی مانند سفید تھا وہ حیرت سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے جس کے چہرے پر جاننے کا تجسس نظر آرہا تھا۔
" تم اس سب سے دور رہو ایس۔پی آرون خان!"
کچھ لمہے کی خاموشی کے بعد جب وہ بولے تو ان کا لہجہ قدرے سخت تھا آرون ان کا یہ ردعمل سمجھ نہیں پایا تھا آخر وہ اسے اس سب سے دور رہنے کا کیوں کہہ رہے تھے۔
" نہیں سر! میں اب چاہ کر بھی اس سب سے دور نہیں رہ سکتا اور پلیز آپ اس سب کے بارے میں بھائی کو ہرگز کچھ نہیں بتائیں گئے۔"
آرون نے اپنے دل میں مچلتا ہوا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
" دیکھو آرون! میں نے پچھلے تیرہ سال سے جبرئیل کو اس کیس سے دور رکھنے کی کوشیش کی ہے اور حالات اب یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ وہ بھی مزید خود کو اس کیس سے دور رکھنے کے لیے تیار نہیں ہے تمہارے باپ نے مرتے ہوئے تم دونوں کا خیال رکھنے کی تلقین کی تھی مجھے تم لوگ اس راہ پر چل کر کیوں مجھے اپنے باپ کے سامنے جواب دہ کررہے ہو۔"
کرنل خاور کے لہجے میں انتہا درجے کی بے بسی تھی ان کی ساری باتیں سننے کے بعد آرون نے گہرا سانس بھرا تھا۔
" پلیز سر! مرنے کی اذیت اتنی نہیں ہوتی جتنی یہ اذیت ہے کہ آخر کو ایسا ہوا کیا تھا کیوں ہوا تھا میں جب امی اور چچی دونوں کو دیکھتا ہوں تو میرا خون کھول اٹھتا ہے پلیز آپ میری مدد کریں تاکہ میں ہم سب کو اس اذیت سے نکال سکوں پھر اس میں میری جان بھی چلی جائے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔"
اس کا لہجہ منت سے بھرا ہوا تھا اس کے الفاظ نہ صرف آرون کے لیے تکلیف کا باعث تھے بلکہ وہ کرنل خاور کے بھی زخم ادھیڑ رہے تھے۔
" ٹھیک ہے اگر یہ سب اس طرح سے ہی ہونا ہے تو ایسے ہی صیح میں بھی چاہتا ہوں اس شخص کو سزا ملے اور میں اسے سزا دلوا کر رہوں گا۔"
کرنل خاور کے لہجے میں ایک عجیب قسم کا عزم تھا آرون کے چہرے پر ایک مسکراہٹ رینگی تھی آخر کو اذیت کا یہ مسلسل چلتا ہوا دور سب کے لیے ختم ہونے والا تھا۔
" پلیز بتائیں چوبیس سال پہلے جو آخری لڑکی اغوا ہوئی تھی اس سے آپ کا کیا رشتہ تھا؟"
آرون کے سوال پر کرنل خاور یوں تھے جیسے کاٹو تو جسم میں لہو نہیں اور انہیں واقعی ہی ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ بے جان وجود کے ساتھ وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ کتنی دیر کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں رہے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ دونون اب بھی ایک دوسرے کے سامنے ساکن بیٹھے ہوئے تھے وہ نگاہیں جھکائے ہوئے اور وہ مسلسل اس کے اذیت بھرے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے نگاہیں جھکا کر بیٹھنے کی وجہ وہ ذلت اور وہ شرمندگی تھی جو خود کے شمس کے سامنے عیاں ہونے پر اسے ہوئی تھی۔ علینہ کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ایک لمہے میں کیپٹن شمس حیدر کے سامنے برہنہ ہوگئی ہے اس کی ذات کے چیتھڑے کھل کر سامنے بیٹھے شخص کے سامنے آگئے ہیں۔
" میری طرف دیکھو!"
خاموش پرسوز ماحول میں اس کی گھمبیر آواز گونجی تھی وہ اس کی آواز کے باوجود سر نہیں اٹھا پائی تھی۔
" میں نے بولا میری جانب دیکھو۔"
اب کی بار لہجے میں سختی تھی علینہ نے اپنی جھکی ہوئی نگاہیں اٹھا کر دھیرے سے اس کے چہرے کی جانب دیکھا تھا جہاں اب بھی سنجیدگی رقم تھی۔
" عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا اور جن لوگوں کی عزت خود ان کی کوتاہی کی وجہ سے گئی ہو ان کے لیے تو سزا ہونی چائیے۔"
اس نے بول کر اس کی جانب دیکھا تھا علینہ نے چونک کر شمس کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں سنجیدگی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
" جہ۔۔جی!"
اس کا لہجہ لڑکھڑا گیا تھا۔
" کیا سزا ہونی چائیے تمہاری؟"
اس نے اسے بازوں سے تھام کر اپنے قریب کیا تھا۔
" یہ سزا کیا کم ہے کہ جس کے سامنے برہنہ ہونے کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک جھٹکے میں میری ذات کا سیاہ باپ اس کے سامنے کھل کر آگیا ہے؟"
وہ الٹا اس سے سوال کررہی تھی شاہد اتنی اذیت برداشت کرچکی تھی کہ اس کے ہاتھوں کی سختی تک بھی اسے محسوس نہیں ہوئی تھی۔
" کیوں نہیں سوچا تھا کہ تمہاری زندگی کا یہ سچ مجھے معلوم ہوگا؟"
اس کی گرفت ویسے ہی تھی علینہ فاطمہ کے چہرے پر ایک لمہے کے لیے اذیت کی شدید لہر لہرائی تھی۔
" کیونکہ شاہد انجانے میں آپ سے کچھ امیدیں وابسطہ کربیٹھی تھی۔"
لہجہ بے حد دھیما تھا اتنا کہ اتنے قریب بیٹھنے کے باوجود وہ بامشکل ہی سن پایا تھا۔
" کیسی امیدیں؟"
سوال پھر سے وہی تھا۔
" چھوڑیے کیپٹن جو امیدیں پوری نہ ہوں ان کے بارے میں بات کر کے خود کو اور دوسرے کو تکلیف کی اتہا گہرایوں میں ڈالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔"
اس نے اس سے اپنا آپ چھڑوایا تھا۔ شمس کی سنجیدگی اور خاموشی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
" میری نماز کا وقت ہورہا۔"
وہ کہہ کر اس کے قریب سے اٹھ کر باہر نکل گئی تھی اور وہ پیچھے اس کے نماز کے وقت پر ہی سوچتا رہ گیا تھا کچھ تو تھا اس لڑکی میں جو شمس جیسا مرد کچھ بہت انتہائی فیصلے پر پہنچ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کھانے کی میز پر وہ دونوں خاموش تھے۔ شاہد کوئی بات کہنے کے لیے نہیں بچی تھی۔
" یہ کھاو نہ پلیز تم۔"
جبرئیل نے اس کے آگے سالن کا ڈونگا رکھتے ہوئے کہا تھا۔
" نہیں بس میں کھا چکی ہوں۔"
اس نے کھانے سے ہاتھ روک کر میز پر رکھے نیپکین سے ہاتھ پونچھے تھے۔
" تمہیں چائے بنانی آتی ہے؟"
وہ بات کا رخ موڑنا چاہتا تھا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوگیا تھا۔
" ہاں جی آتی ہے۔"
زارا نے برتن اکھٹے کرتے ہوئے کہا تھا۔
" میرے اور اپنے لیے چائے بنا کر اوپر گیلری میں لے آو موسم اچھا ہے کچھ باتیں کرنی ہیں تم سے۔"
اس نے زارا سے بولا تو وہ سر ہلا کر کیچن کی جانب چل دی جہاں آغا خان برتن دھونے میں مصروف تھا۔
" میڈم! آپ یہاں کیوں آگئی؟ میں بس برتن سمیٹنے آنے ہی والا تھا۔"
آغا خان نے اس سے کہا تو اس نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔ آغا خان جبرئیل سے عمر میں چھوٹا نوجوان تھا جو اس کے سارے کام کیا کرتا تھا۔
" پلیز آغا بھائی! یہ مجھے میڈم مت کہا کریں۔"
اس نے چڑتے ہوئے کہا تو آغا خان نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔
" توبہ توبہ کیسی باتیں کرتی ہیں آپ سر نے سن لیا تو بہت غصہ ہوں گئے۔"
آغا خان نے منہ بناتے ہوئے کہا تو ناچاہتے ہوئے بھی زارا کو ہنسی آگئی دوسری جانب وہ چائے کا پانی گرم پانی کی کیتلی میں چڑھا چکی تھی۔
" نہیں ہوتے غصہ بس نہ یہ میڈم نہیں بولنا اپنے ایسا لگتا کسی گورنمنٹ سکول کی کوئی سخت سی ٹیچر ہوں۔"
زارا نے منہ بناتے ہوئے کہا تو آغا خان کو بھی ہنسی آگئی۔
" ٹھیک ہے پھر ہم آپ کو زارا بی بی کہہ دے گا۔"
آغا خان نے تائید چائی تو زارا نے اثبات میں سر ہلایا۔ "
" زارا بی بی! "
وہ چائے کے مگ لے کے پلٹنے والی تھی جب آغا خان کی آواز نے اس کے قدم جکڑے۔
" جی!"
زارا نے سوالیہ نگاہیں اس کے سامنے مرکوز کیں تو وہ اس کے قریب چلا آیا۔
" سر کو میں نے کبھی مسکراتے نہیں دیکھا اب آہ کے ساتھ میں نے انہیں پہلی بار مسکراتے دیکھا ہے کوشیش کیجیے گا کہ آپ کے ساتھ ان کی مسکراہٹ ہمشہ قائم رہے ان کی زندگی کی جو بھی الجھنیں ہیں انہیں سلجھا دیجیے گا زارا بی بی!"
آغا خان کے لہجے میں اپنے سر کے لیے محبت بول رہی تھی ناچاہتے ہوئے بھی زارا اثبات میں سر ہلاگئی۔
" میں کوشیش کروں گی کہ وہ ہمشہ مسکراتے رہیں۔"
وہ اس سے کہہ کر باہر آگئی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ یقین وہ آغا خان کو دلا کر آئی ہے یا پھر خود کو مگر وہ یقین دلا چکی تھی شاہد دونوں کو۔
وہ سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اس کے کمرے کے ساتھ بنی ہوئی گیلری میں آگئی جہاں بڑی سی شیشے کی کھڑکی تھی اور اس کے پیچھے دو خوبصورت اور آرام دہ کرسیاں رکھی گئی تھیں کہ جن کے درمیان ایک میز رکھا ہوا تھا وہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اس کا رخ کھڑکی کی جانب تھا وہ اپنے موبائل میں کچھ ٹائپ کررہا تھا میز پر مگ رکھنے کی آواز سے وہ اس کی طرف متوجہ ہوا تھا جو ساتھ والی کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔
" ہمم چائے اچھی ہے۔"
اس نے ایک چسکی لیتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا دی۔
" کیا تم مجھے بہت ظالم سمجھتی ہو؟"
اس نے بے حد سنجیدگی سے سوال کیا تھا زارا کو اس کے سوال کا مطلب اور مقصد دونوں ہی سمجھ میں نہیں آئے تھے۔
" نہیں میں آپ کو بھلا ظالم کیوں سمجھوں گی؟"
اس نے سوال کرتے ہوئے کندھے اچکائے تھے۔
" کیونکہ میں نے تم سے ایسے اچانک نکاح کرلیا اور پھر تمہاری مرضی کے بغیر تمہیں یہاں اپنی دنیا میں بھی لے آیا۔"
اس کے لہجے میں کچھ شرمندگی تھی زارا کے دل کو کچھ ہوا تھا۔
" نہیں آپ نے جو بھی کیا سب میری مرضی سے کیا ہاں یہ سب اچانک ضرور تھا مگر پھر بھی مجھے برا نہیں لگا۔"
زارا کے لہجے میں خود سپردگی تھی۔
" میری زندگی کے بہت سے پہلو ہیں اور میں تمہیں ہر پہلو سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں ابھی تو شرواعت ہے بہت جلد تم مجھے جان لو گی۔"
اس نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تو زارا مسکرا دی اسے ہمسفر جلدی مل گیا تھا وہ بھی بہترین بے شک اسے بھی بہترین سے نوازا گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ آج بہت عرصے بعد ڈیوٹی سے گھر گیا تھا۔ ایبٹ آباد کے ایک پوش علاقے میں واقع بنگلے کے سامنے اس نے گاڑی روکی تھی وہ گھر اسے فوج کی طرف سے دیا گیا تھا۔ جونہی اس نے گاڑی روک کر ہارن بجایا اندر موجود چوکیدار نے گیٹ وا کردیا وہ زن سے گاڑی سیاہ روش سے گزار کر پورچ تک لے آیا اس کے ملازم چلتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے وہ گاڑی سے باہر نکلا تو نوراللہ نے مودب بن کر سلام کیا۔
" سلام صاحب!"
نوراللہ نے سلام کیا تو اس نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔
" بی اماں کیسی ہیں نوراللہ!؟"
اس نے چھوٹتے ہی بی اماں کے بارے میں بوچھا تھا۔
" صاحب رات سے ان کا بی پی تھوڑا ہائی ہے لیکن میں نے ڈاکٹر کو بلوا کر چیک کروالیا تھا اب وہ ٹھیک ہیں۔"
نوراللہ نے اس سے کہا تو وہ بغیر اس کی بات پر توجہ دیے تیزی سے اندر کی جانب بڑھا تھا۔ وسیع کاریڈور عبور کرکے بائیں جانب سیڑھیوں کے نیچے بی اماں کا کمرہ تھا جس کا دروازہ آدھ کھلا ہوا تھا. اس نے دھیرے سے دروازہ کھولا اور اندر کی جانب بڑھا کمرے میں نیم اندھیرا تھا مگر کمرے کے وسط میں لگا ہوا فینوس روشن تھا کمرے کے سائیڈ پر رکھی ہوئی نماز کی چونکی پر بی اماں شاہد کوئی نوافل ادا کررہی تھیں وہ بیڈ کے سامنے رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھ کر ان کی نماز کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا جونہی انہوں نے سلام پھیرا ان کی نگاہیں صوفے پر بیٹھے احسن کی جانب اٹھی تھیں۔
" آگیا میرا بچہ!؟"
بی اماں نے دھیرے سے مسکرا کر کہا تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے قریب چونکی پر بیٹھ گیا۔
" کیسی ہیں آپ؟ نوراللہ بتا رہا تھا آپ کی طبعیت خراب ہے؟"
اس نے ان کے ہاتھ تھام کر چومتے ہوئے پوچھا تو بے اختیار ان کے جھریوں زدہ چہرے پر مسکراہٹ رینگی۔
" نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں اور مزید ٹھیک ہوجاوں گی اگر تم میری بات مان جاو۔"
بی اماں نے اس کے ماتھے پر بکھرے ہوئے بال زرا پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا تھا۔
" ہمم کیسی بات اور کونسی بات؟"
احسن نے آنکھیں چھوٹی کرکے اپنی الجھن ظاہر کرنے کی کوشیش کی تھی۔
" شادی والی بات اور کونسی؟"
بی اماں مزے سے اس کے سر میں ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی تھیں جو اب وہی ان کے گھٹنوں پر سر رکھ کر لیٹ گیا تھا۔
" ناٹ اگین بی اماں! کہا بھی تھا آپ سے ابھی نہیں کرنی شادی۔"
اس نے منہ بناتے ہوئے کہا تو بی اماں نے ایک دھپ اس کے سر پر رسید کی وہ ایک جھٹکے میں بلک کر سیدھا ہوا تھا۔
" کیوں نہیں کرنی بڈھے ہوکر کرے گا کیا جب تیرے آدھے سے زیادہ دانت بھی گر چکے ہوں گئے؟"
بی اماں تو غصے میں ہی آگئی تھیں۔
" نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا بی اماں آپ سمجھتی کیوں نہیں ہیں؟"
وہ اب تنگ کر ان سے کہہ رہا تھا۔
" بس اب مجھے کچھ نہیں سننا آج ہی میں رشیدہ کو بلاتی ہوں کہ اچھے اچھے رشتے دیکھائے مجھے میرا اتنا سوہنا پوتر ہے وہ بھی فوج میں دیکھنا ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی ملے گی۔"
بی اماں نے تسبح ایک جانب کو رکھتے ہوئے باقائدہ اعلان کیا تھا۔
" پلیز بی اماں! میں نہیں جانتا کیوں مگر یہ شادی ابھی کچھ وقت کے لیے روک دیں اس کے بعد جو آپ کہیں گی میں وہی کروں گا۔"
اس نے ان کے ہاتھ پھر سے چومتے ہوئے کہا تو بی اماں نے منہ بنایا۔
" ٹھیک ہے لیکن زیادہ دیر مت کرنا۔"
انہوں نے جیسے احسان کرتے ہوئے اس کی بات مانی تھی مگر اس پر ہی اس نے سکون کی سانس خارج کی تھی چلو کچھ عرصے کے لیے تو بلا ٹلی۔
" میں چینج کرلوں پھر اکھٹے کھانا کھاتے ہیں۔"
اس نے ان کا ماتھا چوما اور اپنی کیپ اٹھا کر ان کے کمرے سے باہر آگیا۔
مہلت تو اس نے لے لی تھی لیکن کیوں کس کے لیے یہ اسے سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ کیا جذبہ تھا وہ کون تھی وہ ان دیکھی شخصیت جسے شاہد زندگی میں جگہ دینے پر اس کا دل آمادگی ظاہر کررہا تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا جس کی چاہ وہ کررہا ہے وہ کبھی اسے حاصل بھی ہوگی یا نہیں لیکن اسے اس چیز کا شدت سے اندازہ ہوگیا تھا کہ بی اماں کو وہ مزید نہیں روک پائے گا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سکول سے واپسی کے وقت مائرہ نے اسے پک کرلیا تھا اور اب وہ اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی۔ کندھوں سے کچھ نیچے تک آتے بال کھلے ہوئے تھے چہرہ میک اپ سے مبرہ تھا گھٹنوں تک آتے پیڑٹ گرین کرتے پر وہ ہلکا سا سویٹر پہنے ہوئی تھی شانوں پر گرم شال ڈالے وہ اتنی ہی خاموش تھی جتنے خاموش رویے کی امید مائرہ نے اس سے کی تھی۔
" کیا بات ہے صاریہ! از ایوری تھنگ آلرائیٹ؟"
مائرہ نے تھک کر اس سے پوچھا تھا۔
" یس۔"
اس نے انتہائی دھیرے سے جواب دیا تھا۔
" ہم کہاں جارہے ہیں مائرہ؟"
صاریہ نے ونڈ سکرین کے پار دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
"میرے گھر۔"
مائرہ نے موڑ کاٹتے ہوئے اس سے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا تب تک وہ مائرہ کی سوسائٹی میں داخل ہوچکی تھیں۔ مائرہ نے پارک لاٹ میں گاڑی پارک کی تو دونوں اتر کر اندر کی جانب بڑھ گئیں لفٹ سے اوپر دائیں جانب مائرہ کا اپارٹمنٹ تھا اس نے چابی لگا کر دروازہ کھولا تو دروازہ کھلتا چلا گیا۔
" آجاو صاریہ!"
مائرہ نے اس سے کہا تو وہ اندر داخل ہوگئی۔
" بیٹھو میں پانی لاتی ہوں۔"
اس نے لاونج میں لگے ایک صوفے کی جانب اشارہ کیا تو وہ چپ چاپ وہاں بیٹھ گئی اس پورے عرصے میں وہ اس کے گھر کا مکمل جائزہ لے چکی تھی۔
" یہ لو پانی!"
اس نے گلاس اس کی جانب بڑھایا تھا جسے اس نے خاموشی سے تھام لیا۔
" اب بتاو کیا ہوا اور تم یہاں کشمیر کیوں آئی؟"
مائرہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تو صاریہ کی آنکھوں نے ٹپ ٹپ آنسو برسانا شروع کیے۔ مائرہ نے چونک کر اس کی آنکھ سے بہتے آنسوں کی جانب دیکھا تھا۔
" کبھی کبھی نہ خودغرض لوگ ایک نہج پر آکر رو پڑتے اور جانتی ہو یہ ان کے کونسے آنسو ہوتے؟"
مائرہ نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔ صاریہ نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
" یہ ان کے غفلت کے بعد خود آگاہی اور بیداری کے آنسو ہوتے جب ہم خودغرضی میں ہوتے تو صرف اپنا سوچ رہے ہوتے اور جب ہم خود آگاہی میں ہوتے تو اپنا تجزیہ کررہے ہوتے۔ اپنے بارے میں سوچنا اور تجزیہ کرنا دو مختلف چیزیں ہیں صاریہ!"
اس نے صاریہ کے آگے ایک فروٹ باسکٹ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
" کیسے؟"
صاریہ نے گلاس خالی کرکے میز پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
" خود کے بارے میں سوچنا صرف یوں ہے کہ کیا میرے لیے اچھا ہے اس میں برا کہیں نہیں آتا اس میں صرف یہ آتا کہ یہ کروں گی تو پیاری دکھوں گی اس سے میرا بھلا اور دوسروں کو نقصان ہوگا یہ میری طلب ہے اسے ہر صورت پوری ہونا ہے یہ میری خواہش ہے یہ تکمیل تک نہ پہنچی تو میں برباد کردوں گی یہ بات مجھے منوانی ہے یہ سب چیزیں اپنے بارے میں سوچنے میں آتی ہیں اور خود کے تجزیے میں تو اپنی شخصیت کو کھنگالا جاتا ہے اپنی کمیاں دیکھی جاتی ہیں اور پھر ان پر سوچا جاتا ہے اپنی سوچ کی ہی نفی کی جاتی ہے کہ کس قدر غلطی پر تھا میں کہ اتنے خوبصورت دل کے باوجود اس پر گرد کی موٹی تحہ جمائے بیٹھا تھا کہ کسی کے ساتھ نیکی اور اچھائی کا خیال تک سرایت نہیں کرتا تھا اتنا سیاہ کیوں تھا میں ؟"
آخر میں وہ بھی صاریہ کے لیے ایک سوال چھوڑ گئی تھی۔
صاریہ کے کچھ بھی بولنے سے پہلے مائرہ نے وہ کچھ بول دیا تھا کہ صاریہ ہونک بنی بس بیٹھی رہ گئی تھی۔
" کیا سوچ رہی ہو؟"
مائرہ نے اس کا کندھا ایک بار پھر سے ہلایا تھا۔
" سوچ رہی ہوں اتنی زیادہ گرد کے بعد روشنی کہاں اور کب ملتی ہے؟"
اس نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے ایک اہم نقطے پر جمائی تھیں۔
" یہی آپ کے اپنے اندر جہاں ایک سیاہ خانہ ہوتا ہے وہاں روشنی کے لیے بھی جگہ ہوتی ہے مگر فرق صرف اتنا ہوتا کہ گرد ہر لمہے جمی رہتی اور روشنی تب ابھرتی جب اسے داخل ہونے کی اجازت دی جاتی جب دل کا وسیع و عریض خانہ اس کی گزرگاہ بنایا جاتا۔ سامان یہاں شفٹ کرلوں تم کسی ہوسٹل یا ہوٹل میں نہیں رہو گی۔"
اس نے جیسے اپنی بات ختم کرکے حکم صادر کیا تھا۔
" میں ٹھیک ہوں وہاں۔"
اس نے بے بسی سے کہا تھا۔مائرہ کچھ بولنے والی تھی جب ڈور بیل بجی تھی وہ گہرا سانس بھر کر دروازے کی جانب بڑھی تھی مگر یہ تو طے تھا وہ اسے یہاں سے جانے نہیں دینے والی تھی۔ دروازہ کھولا تو سامنے طراب اور اسامہ کو کھڑے پایا جو حسب عادت چہرے پر رسمی مسکراہٹ سجائے کھڑے تھے۔
" اسلام علیکم بھابھی!"
اسامہ نے چہرے پر بشاش مسکراہٹ سجا کر اس سے کہا تو مائرہ جھینپ کر مسکرا دی۔
" وعلیکم اسلام کیسے ہو اسامہ!"
مائرہ بھی بھرپور فرینک انداز میں اس کے سلام کا جواب دے رہی تھی۔
" اسامہ کی کچھ لگتی ادھر ساتھ میں بھی آیا ہوں کیسی بے مروت ہو نہ کوئی سلام نہ دعا۔"
طراب نے چہرے پر مصنوعی غصہ طاری کرکے اس سے کہا تو مائرہ کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔
" سلام دعا کو چھوڑیے میجر طراب علی یہ بتائیے کہ شادی سے پہلے آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟"
وہ اب ایک ابرو اچکا کر ایک ہاتھ دروازے پر رکھ کر کہہ رہی تھی۔
" جناب ہٹیے آگے سے۔"
طراب نے اس سے کہا تو وہ پیچھے ہٹ گئی اس کے پیچھے پیچھے اسامہ بھی داخل ہوا تھا دونوں کسی بات پر ہنس رہے تھے لاونج کے صوفے پر بیٹھی صاریہ باہر سے آتے شور کی وجہ جاننے کی کوشیش میں ہلکان ہورہی تھی۔ پہلا قدم لاونج میں رکھنے والا طراب تھا وہ صاریہ کو دیکھ کر وہی رک گیا تھا جبکہ اس کے پیچھے داخل ہونے والا اسامہ ساکت ہوا تھا اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ کوئی بھی حرکت نہیں کرپائے گا تین سال بعد وہ اپنے سامنے بیٹھے اس وجود کو دیکھ رہا تھا۔ دنیا و مافیا سے بے خبر ہر چیز سے بے نیاز صرف اس کے نقش گننے میں محو تھا۔ مرجھایا ہوا چہرہ روئی ہوئی سرخ آنکھیں کھلے بال ہمشہ کی طرح ترو تازہ اور خوبصورت دکھنے والا وہ چہرہ پستیوں میں گم تھا اور وجہ شاہد اسامہ رحمان کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا تھا محبت نے دونوں کو توڑا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ دونوں کی محبت کی نوعیت مختلف تھی صاریہ کی محبت جبرئیل کے لیے شاہد ختم ہوگئی تھی یا کہیں بیچ میں لٹک گئی تھی اس میں وہ یہ بات ماننے کی کوشیش کررہی تھی کہ وہ اس کی دسترس سے دور جاچکا ہے اس کے وجود پر کسی اور کا حق ہے کیونکہ وہ مراحل تجزیہ سے گزر رہی تھی اور یقینا جب وہ اپنی ذات کے پہلووں کے بارے میں سوچ رہی تھی خود کے منفی رویے کو سوچ رہی تھی تو دل شرم سے بھر رہا تھا جبکہ اسامہ کے دل میں محض یہی کسک رقصاں تھی کہ اس کی محبت کے دل میں کوئی اور بستا ہے اور یہ کسک تمام تر تکلیفوں سے بھاری پڑ جاتی ہے لیکن اب جب وہ اس کی تکلیف کی اذیت کو سوچ رہا تھا تو اس کا دل ایک دم سے بھاری پڑرہا تھا اور صاریہ وہ تو بالکل ہی سامنے کھڑے شخص کے جذبے سے انجان تھی مگر اس کا چہرہ دیکھ کر صاریہ کو عجیب سا احساس ہوا تھا تو یہ ثابت ہوا تھا کہ میجر اسامہ رحمان کے دل کی دنیا میں پنپتی محبت چہرے پر اپنی شبیہ چھوڑنے کا ہنر سیکھ گئی تھی لیکن اس کی یہ شبیہ صرف اس کے چہرے کو روشن رکھتی تھی اور اس کی جانب دیکھنے والوں کو عجیب سا تاثر دیتی تھی۔
معصوم سی خواہش ہے دل کی
پاکیزہ چاہت ہے میری
کوئی داغ لگے تو کیسے
باوضو محبت ہے میری

دہلیز کے پار وہ ( مکمل✔)Where stories live. Discover now