سوکھے پتے

3.8K 152 34
                                    

قسط نمبر 5
میرا دل بھی گویا ایسا ہوگیا ہے بچھڑنے کے بعد
جیسے خوب ہریالی میں چند سوکھے ہوئے پتے

وہ مسلسل رات میں پچھلے لان میں ٹہل رہا تھا جب وہ پریشان ہوتا تنہائی میں ٹہلنا اس کا محبوب مشغلہ بن جاتا اور آج بھی وہ اسی طرح ٹہل رہا تھا اس کا ذہن مسلسل ڈی۔ایس۔پی سرمد احمد کے لفظوں میں تھا۔ جب انہوں نے کہا تھا کہ 2006 میں اس کے بابا بہت سارے کیسز کو لیڈ کررہے تھے اور وہ تمام کے تمام کیسز سمگلنگ اور کڈنیپننگ کے تھے اور ان تمام کیسز میں سے ہی ایک ایسا کیس تھا جس کو کھولنے کی صورت میں انہیں بے پناہ دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اسی کیس پر کام کرنے کے دوران ایک دن اچانک ان کی موت کی اطلاع آگئی تھی۔ ان کے لفظ آرون کا دماغ پاگل کررہے تھے اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر بھول چوک کہاں سے ہورہی ہے وہ کونسا سرا ہے جو اس کے ہاتھوں سے چھوٹ رہا ہے۔ وہ ٹہلتے ٹہلتے تھک گیا تھا۔ لان کے وسط میں رکھی ہوئی کین کی کرسیوں میں سے وہ ایک پر جا بیٹھا تھا اس کے سر میں درد کی شدید لہر اٹھی تھی جسے اس نے اپنے دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے مسلا تھا۔ وہ ابھی سر تھام کر بیٹھا ہی ہوا تھا جب گیٹ پر مخصوص ہارن ہوا تھا یہ ہارن جبرئیل کی جیپ کا تھا۔ چوکیدار نے جلدی سے گیٹ وا کیا تھا گیٹ کے کھلتے ہی وہ زن سے جیپ پورچ میں لے آیا تھا لیکن اس سب میں وہ پچھلے لان کی بتی جلتی ہوئی دیکھ چکا تھا جو صرف تب ہی جلائی جاتی تھی جب وہاں کوئی موجود ہوتا۔ وہ جیپ پارک کرکے چابی چوکیدار کی طرف بڑھا کر خود یونیفارم میں ہی پچھلے لان کی جانب چل دیا تھا جب وہ لان میں پہنچا تو اس کی نظر کین کی کرسی پر بیٹھے آرون پر پڑی تھی۔ وہ قدم قدم چلتا ہوا اس کے قریب آگیا تھا۔
" رون! کیا بات ہے ایسے کیوں بیٹھے ہوئے ہو؟"
جبرئیل نے تفکر سے اس سے پوچھا تھا اور میز پر اپنا سیل فون رکھتے ہوئے اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
" کچھ نہیں بھائی بس ایسے ہی سر میں درد تھا تو یہاں بیٹھ گیا۔"
آرون نے اپنے لہجے کو حتی المکان ہلکا پھلکا بنانے کی کوشیش کی تھی۔
" کیا ہوا ہے خیریت کوئی میڈیسن لی ہے کیا تم نے؟"
جبرئیل کو اب پریشانی نے گھیر لیا تھا۔
" بھائی! آپ کو زارا کیسی لگتی ہے؟"
اس نے جبرئیل سے اچانک ہی پوچھا تھا اس کے پیچھے اس کا مقصد صرف اسے موضوع سے ہٹانا تھا جس میں وہ اس سوال کے بعد کافی حد تک کامیاب ہوگیا تھا کیونکہ جبرئیل نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
" کیا مطلب کیسی لگتی ہے جیسی ساری لڑکیاں ہوتی ہیں وہ بھی ویسی ہی ہے کہ اس میں کوئی خاص قسم کے ہیرے موتی جڑنے تھے؟"
جبرئیل نے ایک ابرو اچکا کر اس سے کہا تھا گویا وہ حیران ہورہا ہو جیسے آرون کے عجیب سے سوال پر۔
" او ہو نہیں میرا مطلب یہ نہیں تھا جیسے آپ ہر بار صاریہ آپا کے سامنے زارا کی حمایت میں فوری کھڑے ہوجاتے ہیں اس سے تو دال مجھے کچھ کالی کالی سی لگ رہی ہے۔"
وہ مسکراہٹ دبا کر دونوں بازو میز پر رکھے ہوئے آگے کو ہوکر بیٹھا اس سے کہہ رہا تھا۔
" انسان بن جاو اور یہ جو زبان ہے نہ تمہاری جو ہر وقت بے دریغ قینچی کے جیسے چلتی ہے اسے قابو کر لو ایسا نہ ہو کسی دن ضائع ہوجاو میرے ہاتھ سے۔"
جبرئیل نے منہ بنا کر اس سے کہا تھا اور میز سے اپنا والٹ اور فون اٹھا کر اندر کی جانب بڑھ گیا تھا اسے تھوڑی دیر میں کشمیر کے لیے نکلنا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کمال ولا میں سناٹے اپنے جوبن پر تھے ایسے میں داور کمال علینہ کو ڈھونڈنے کے لیے اپنے سارے ذرائع استعمال کرچکے تھے مگر وہ تو جیسے روپوش ہی ہوگئی تھی کہیں۔ یہ تو طے تھا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گووا نہیں بلکہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اس ہندو لڑکے سے شادی کے لیے بھاگ گئی ہے کیونکہ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ داور کمال کبھی بھی اس کی شادی اس ہندو سے نہ کرتا اور وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ہندو تھا اس کے پیچھے وجہ داور کمال کی کمزوری تھی جو اگر کسی کے ہاتھ لگ جاتی تو جو محل اتنے عرصے سے اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑا تھا اس نے زمین بوس ہونے میں ایک لمہے کی بھی تاخیر نہیں کرنی تھی۔
وہ کمال ولا میں بنے اپنے چھوٹے سے قدیمی طرز کے بنے دفتر میں بیٹھے کچھ فائلوں میں غرق تھے مگر ان کا ذہن بیک وقت دو لوگوں کو سوچ رہا تھا ایک کے جانے سے وہ پریشان تھے تو دوسرے کو جواب دینے کی فکر انہیں ستا رہی تھی اور اسے جواب دینا شاہد داور کمال کی زندگی میں رونما ہونے والی سب سے بڑی مجبوری تھی۔ سگار سلگائے اپنی کنپٹیاں مسلتے وہ قابل رحم لگ ضرور رہے تھے مگر شاہد وہ قابل رحم تھے نہیں۔
وہ اپنی بے دریغ امڈنے والی سوچوں میں غرق تھے جب میز پر ایک جانب رکھا ہوا ان کا لینڈ لائن فون چیخا تھا وہ جانتے تھے کہ اس لمہے انہیں فون کون کرسکتا ہے اور ایسا کون تھا جو انہیں ہمشہ لینڈ لائن پر فون کرتا تھا پھر چاہے وہ ان کے آفس کا ہو یا سٹڈی کا۔ کمرے کی دل دہلا دینے والی خاموشی میں فون کی آواز دوسری جانب موجود شخص کے جلدی میں ہونے کا عندیہ دے رہی تھی۔ داور کمال کی دھڑکینں ڈوب کر ابھر رہی تھیں انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے فون اٹھایا تھا اور دھیرے دھیرے کان کی جانب لے کر گئے تھے۔
" ہہ۔ہیلو!"
ان کی آواز مضبوط ہونے کے باوجود لڑکھڑائی تھی۔
" کیسے ہیں آپ؟"
دوسری جانب سے بہت دوستانہ انداز اپنایا گیا تھا جو معمولی بات شاہد ہرگز نہیں تھی کیونکہ ہمشہ سردمہری اور لیہ دیا انداز ہی دیکھنے کو ملا تھا۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں تم بتاو؟"
وہ بھی اب دوسری جانب سے نارمل انداز دیکھ کر قدرے نارمل ہوگئے تھے۔
" علینہ کا پتہ چلا کچھ؟"
دوسری طرف سے شاہد کچھ کھایا جارہا تھا ساتھ ساتھ اس لیے آواز صاف نہیں آئی تھی۔
" میں کوشیش کررہا ہوں بہت جلد پتہ لگا لوں گا۔"
ان کے لہجے میں ہلکی سی لرزش تھی۔
" کب پتہ لگوائیں گئے تب جب وہ کسی ہندو سے شادی کرلے گی اور آپ کو کسی قابل نہیں چھوڑے گی جن ہندوں اور انتہا پسندوں کے پینل کے ساتھ آج آپ بڑے فخریہ انداز میں اٹھتے بیٹھتے ہیں نہ یاد رکھیے گا آپ کو یوں مسلیں گئے کہ آپ کا نشان بھی پورے انڈیا میں کہیں نہیں ملے گا۔"
دوسری جانب سے ایسی حقیقت آشکار کی گئی تھی کہ ایک پل کو تو داور کمال کانپ گئے تھے۔
" مہ۔۔میں ڈھونڈ لوں گا وہ کسی ہندو سے شادی نہیں کرے گی۔ میں ایسا نہیں ہونے دونگا۔"
انہوں نے دوسری جانب موجود شخص سے زیادہ شاہد خود کو یقین دلایا تھا۔
" ایسا ہی ہونا چائیے پھر بات ہوتی ہے خدا حافظ۔"
دوسری جانب سے فون کاٹ دیا گیا تھا مگر داور کمال ابھی بھی سن بیٹھے ہاتھ میں تھامے فون کو گھور رہے تھے وہ دل ہی دل میں سوچ چکے تھے کہ انہیں کسی بھی حال میں علینہ کو ہندو سے شادی کرنے سے روکنا ہے انہیں یہ کرنے سے پہلے ہی اسے ڈھونڈنا تھا لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کس نوعیت کا قہر ان کا منتظر ہے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اسے یونٹ سے بے شمار کالز آچکی تھیں اسے ہر حالت میں آج رات واپس کشمیر کے لیے نکلنا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ گھر میں کسی کو بھی اس کے جانے کے بارے میں معلوم نہیں تھا اس نے اپنے کمرے میں آکر اپنا کچھ ضروری سامان پیک کیا اور کندھے پر بیگ لٹکا کر سیڑھیاں اتر آیا۔ اس کا رخ عشرت بیگم کے کمرے کی جانب تھا اس نے آہستگی سے ان کے کمرے کا دروازہ کھولا تھا پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ ان کا کمرہ بھی نیم تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا کمرے میں نائٹ بلب روشن تھا اور وہ بیڈ پر کمگٹر اوڑھ کر سوئی ہوئی تھیں۔ اس نے کندھے سے بیگ اتار کر آہستگی سے صوفے پر رکھا اور خود ان کے بیڈ کے باس جاکر بیٹھ گیا۔ اس نے ان کا نحیف ہاتھ اپنے مضبوط اور توانا ہاتھوں میں لیا تھا اور ان کے ہاتھوں کی پشت پر اپنے لب رکھ کر ان کا بوسہ لیا تھا جبرئیل کے لمس سے شاہد ان کی آنکھ کھل گئی تھی۔ انہوں نے اسے اپنے قریب بیٹھے دیکھا تو پوری طرح سے بیدار ہوگئیں۔
" کیا ہوا بیٹا! اس وقت اتنی رات کو یہاں کیا کررہے ہو؟ تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے نہ؟"
انہوں نے ایک ساتھ اس سے بہت سے سوال پوچھ ڈالے تھے جس پر وہ بے اختیار مسکرایا تھا۔ وہ اس لمہے بلو جینز پر وائٹ چیک ڈریس شرٹ میں ملبوس تھا جس پر اس نے اپنی براون لیدر جیکیٹ پہن رکھی تھی۔ ان کے بے دریغ سوالات پر اس کے لب خود بخود مسکرائے تھے۔
" امی! میں کشمیر واپس جارہا ہوں۔"
اس نے انتہائی تحمل اور آرام سے انہیں یہ بات بتائی تھی۔
" لیکن کیوں جبرئیل؟ تمہاری پوسٹنگ تو پشاور میں ہوگئی تھی۔"
وہ ایک دم اس کے جانے سے پریشان ہوگئی تھیں۔
" امی! وہاں میری ضرورت ہے اس لیے مجھے جانا ہوگا آپ بس دعا کیجیے گا کہ میں جس کام کے لیے جارہا ہوں وہ کرکے ہی لوٹوں ورنہ بہت مشکل ہوجائے گی۔"
اس نے ان کے ہاتھ ہنوز تھامے ہوئے تھے اور وہ دھیرے دھیرے ان سے مخاطب تھا۔
" تم میرا مان ہو جبرئیل میرا فخر جس پر میں سر کڑا کر کے چلتی ہوں ہم سے زیادہ ملک کو ضرورت ہے تمہاری جاو میرے بیٹے اور اگر شہادت تمہارا مقدر ہوئی تو اس سے اجتناب مت کرنا شہید کی ماں کہلوانے پر میں فخر محسوس کروں گی جیسے آج تک شہید کی بیوی کہلاوانے پر کررہی ہوں۔"
انہوں نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا تھا جس پر جبرئیل نے سر ہلایا تھا۔
" امی! آپ پلیز زارا کا خیال رکھیے گا ابھی اس کی امی کا بھی پتہ لگوانا ہے پتہ نہیں زندہ بھی ہیں کہ نہیں اسے اکیلے ہرگز بھی باہر نکلنے مت دیجیے گا اس کی جان کو خطرہ ہے۔"
اس نے پریشانی سے ان سے کہا تھا۔
" تم فکر مت کرو میں اس کا پورا دھیان رکھوں گی۔"
انہوں نے مسکرا کر اس سے کہا تھا۔
" ٹھیک ہے اب میں نکلتا ہوں آپ اپنا خیال رکھیے گا خدا حافظ۔"
وہ ان سے کہہ کر ان کے قریب سے اٹھا تھا صوفے سے اپنا بیگ اٹھا کر وہ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آیا تھا بے ساختہ اس کی نظر سامنے والے کمرے کے بند دروازے پر گئی تھی جس کے پار زارا نور خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی اس کا دل کیا تھا کہ وہ ایک بار جانے سے پہلے اس سے ملتا ہوا جائے لیکن پھر اپنی ہی سوچ کو جھٹک کر وہ مین دروازہ تیزی سے پار کرگیا تھا جس کے باہر پورچ میں اس کی ملٹری جیپ کھڑی تھی جو چوبیس گھنٹے اس کے ساتھ رہتی تھی اس نے اپنا بیگ ساتھ والی سیٹ پر پٹخا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سمبھال کر جیپ زن سے خان ہاوس کے گیٹ سے پار کرگیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کیمپوں کے گرد معمول کی طرح لکڑیاں جل رہی تھیں اور کشمیر میں برف باری اپنے پورے جوبن پر تھی آسمان سے برف جب جلتی ہوئی آگ پر گرتی تو بے ساختہ لا تعداد چنگاریاں نمودار ہوتیں۔ چاروں اور سناٹوں کا راج تھا ایسے میں سرنگیں کھودنے کا کام بھی تیزی سے جاری تھا کیونکہ وقت کم تھا اور وہ لوگ یہ کام صرف رات کی تاریخی میں ہی سامنے بھارتی فوجیوں کی نظروں سے بچ کر کرسکتے تھے باڈر کی پچھلی طرف ہی انہوں نے سرنگیں کھودنا شروع کیں تھیں کیونکہ اگر اگلی طرف کرتے تو بہت بڑی مصیبت میں پھس سکتے تھے۔ احسن اپنے ہاتھوں کو رگڑتے ہوئے آگ کے قریب بیٹھا ہوا تھا وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھا اسے معلوم ہی نہیں ہوا کب کرنل خاور ڈھلوان چڑھ کر اس تک آگئے انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا وہ پوری طرح سے چونک کر ان کی جانب مڑا تھا۔
" کیا سوچ رہے ہو احسن؟"
انہوں نے سیدھے اس کی محویت کو نشانہ بنایا تھا۔ وہ ایک دم چونک کر ان کی جانب مڑا تھا۔
" کچھ بھی نہیں سر بس ایسے ہی۔"
اس نے مسکرانے کی ناکام کوشیش کرتے ہوئے نفی میں سر ہلایا تھا۔
" وہ خط آج پھر سے آیا ہے نہ؟"
انہوں نے اچانک ہی اس سے پوچھا تھا جس پر اس نے حیرت سے کرنل خاور کی جانب دیکھا تھا۔
" سر! آپ؟"
اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے اس کے چہرے کی حیرانی کرنل خاور کو مزہ دے گئی تھی۔
" دو سال ہوگئے ہیں نہ؟"
انہوں نے آگ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا برف باری میں تیزی آگئی تھی وہ دونوں کمیپوں کے داخلی راستوں پر آگ جلا کر بیٹھے ہوئے تھے۔
" مجھے سمجھ میں نہیں آتا سر کہ یہ خط مجھے کون اور کیوں بھیجتا ہے؟"
وہ انہیں بے بس دیکھائی دے رہا تھا۔
" تم ایک بہادر فوجی ہو احسن ایسے خطوط سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑنا چائیے۔"
کرنل خاور نے ہاتھ رگڑتے ہوئے کہا تھا۔
" سر بہادر فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ میں ایک انسان بھی ہوں جو اپنے اندر دل، جذبات، روح سب رکھتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ جب آپ اپنا رشتہ ملک اور فوج سے جوڑ لیتے ہیں تو آپ کے سارے دل ، جذبات اور روح تک مر جاتی ہے لیکن پھر بھی سر نہ چاہنے کے باوجود مجھے لگ رہا ہے میں کمزور پڑ رہا ہوں وہ لفظ مجھے کمزور کررہے ہیں۔ میں کمزور نہیں پڑنا چاہتا مگر ان لفظوں کی تاثیر اتنی زیادہ ہے کہ وہ میرے جیسے مضبوط و توانا انسان کو بھی دھیرے دھیرے کھوکھلا کررہی ہے۔"
اس کے لہجے کی بے بسی نے کرنل خاور کو ایک پل میں ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ احسن ایک ان دیکھے سراب کے پیچھے بھاگے جس کا وجود صرف ہوا میں تحلیل ہو جو کبھی سامنے آنے کی جرات نہ رکھتا ہو جس کے لفظ صرف کتابی حیثیت رکھتے ہوں وہ ایک شیر کو گیدڑ بنتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔
" نفس کی مار سب سے مشکل ہے احسن ! نفس مارتے مارتے سالوں لگ جاتے ہیں پھر بھی کہیں کوئی جراثیم باقی رہ جاتا ہے جو آپ کے کردار اور خواہشات کو پھر سے کھینچ کر آپ کے سامنے لے آتا ہے اور یقین کرو دوسری بار نفس مارنا پہلی بار مارنے سے زیادہ درد ناک اور مشکل ہے۔"
وہ سامنے دیکھتے ہوئے اس سے کہہ رہے تھے ان کے لہجے میں ناجانے کیا تھا کہ احسن ان کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
" جذبات مارنا نفس مارنے سے منسلق ہے نہ سر؟"
اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے ان سے کہا تھا۔
"بالکل جذبات اور نفس ایک دوسرے سے منسلق ہیں کیونکہ جذبات مارنا نفس مارنے کی پہلی سیڑھی ہے اور جب پہلا زینہ کامیابی سے طے ہو جائے تو باقی کی زینے پر قدم لڑکھڑاتے ضرور ہیں مگر منزل مل ہی جاتی ہے۔
انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا اور اٹھ کر پچھلی جانب چل دیے تھے جہاں سرنگیں کھودنے کا کام جاری تھا۔
*********************
وہ برآمدے کے کونے میں بنے ہوئے اپنے کمرے میں سو رہی تھی آسمان پر کہیں سے سورج کی ہلکی ہلکی کرنیں ابھر رہی تھیں اسی کے ساتھ اذانوں کی آواز بھی فضا میں گونج رہی تھی مگر وہ بے خبر سو رہی تھی جن لوگوں کو صبح اٹھنے کی عادت نہ ہو وہ اسی طرح سوتے رہ جاتے ہیں فاطمہ کا بھی یہی حال تھا وہ دین پڑھ رہی تھی مگر ابھی تک اس نے خود کو اس قابل نہیں سمجھا تھا کہ وہ اللہ کے حضور کھڑی ہوسکے اس لیے اذان سنتے ہوئے بھی اس کی آنکھیں بند تھیں اور سماعتیں اذان کے لفظوں پر لگی ہوئی تھیں وہ بے انتہا محو تھی۔
وہ نماز کے لیے ابھی اٹھا تھا اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر جب وہ باہر برآمدے میں آیا تو اس کی نظر فاطمہ کے کمرے کے آدھ کھلے دروازے پر پڑی اندر اندھیرا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ فاطمہ نماز کے لیے نہیں اٹھی تھی اس کے قدم ناچاہتے ہوئے بھی فاطمہ کے کمرے کی جانب اٹھے تھے۔ اس کے دروازے پر پہنچ کر اس نے گہرا سانس بھرا تھا اور پھر دستک دی تھی۔ دستک کے بعد وہ اندر سے کسی بھی قسم کی اجازت کا انتظار کیے دروازہ دھکیل کر اندر کی جانب داخل ہوگیا تھا۔ سامنے وہ چت اپنے بستر پر لحاف اوڑھ کر لیٹی ہوئی تھی شمس کا گھر کشمیر کے ہی ایک چھوٹے سے گاوں میں واقع تھا اس لیے وہ جب بھی ڈیوٹی اورز سے فارغ ہوتا سیدھا اپنے گھر آجاتا جیسے اب وہ کچھ دنوں کے لیے چھٹی پر آیا ہوا تھا۔
" فاطمہ!"
اس نے دھیرے سے اسے پکارا تھا اس کی پکار اس قدر آہستہ تھی کہ فاطمہ بامشکل ہی سن پائی تھی لیکن اس کی پکار میں ایسا کچھ ضرور تھا کہ فاطمہ نے آنکھیں پٹ سے کھول لیں تھیں لیکن اس کے وجود میں ہلکی سی بھی جنبش نہیں ہوئی تھی۔
" سکون کی تلاش میں ہیں اور جو سکون کا گڑ ہے اسی سے بچتی ہیں یہ کیسا راستہ ہے؟"
اس نے اپنی موڑی ہوئی آستینوں کی تہیں کھلولنا شروع کی تھیں لیکن دھیان کمبل میں لپٹی فاطمہ کی جانب تھا جو وہ جانتا تھا کہ جاگ رہی ہے لیکن شاہد اس نے سوال اتنا مشکل پوچھ ڈالا تھا کہ فاطمہ کو جواب دینے کے لیے وقت درکار تھا کم از کم شمس کو تو ایسا ہی محسوس ہوا تھا لیکن اسے جھٹکا تب لگا تھا جب فاطمہ کی پرسکون اور ٹھہری ہوئی آواز کمرے میں گونجی تھی جس میں بے بسی اور ندامت کے سوا کچھ نہ تھا۔
" اللہ کے حضور کھڑے ہونے کے لیے میرے نزدیک پاکیزگی درکار ہے جب کہ میرا وجود گناہ میں لپٹا ہوا ایک گندگی کا ڈھیر ہے تو میں کیسے اسے گھسیٹ کر اس کے حضور کھڑی ہوجاوں بہت کوشیش کی کیپٹن پر میرے اندر ہمت پیدا نہیں ہوئی۔"
اس کا لہجہ شمس کو بھیگا ہوا محسوس ہوا تھا اس کے ماتھے پر بے شمار بل نمودار ہوئے تھے سرخ و سفید چہرہ ناسمجھی کے ساتھ ساتھ الجھن میں بھی مبتلا ہوگیا تھا۔
" مطلب کیا ہے آپ کا؟"
وہ اسے جانچتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
" اپنی اماں سے پوچھ لیجیے گا وہ آپ کو سارے مطلب سمجھا دیں گئ جاتے ہوئے دروازہ بند کر جائیے گا۔"
اس نے کہہ کر منہ تک کمبل تان لیا تھا اب پورے کمرے میں کافی دیر اس کی سسکیاں گونجنی تھیں جو اس کا دل چیر دینے کے لیے ہی ابھرتی تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ صبح صبح سورج کے نکلتے ہی کشمیر پہنچ چکا تھا اب اس کی جیپ تیزی سے بیس کی جانب جاتے ہوئے راستے پر بھاگ رہی تھی دماغ صرف زارا میں اٹکا ہوا تھا اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کی سیفٹی کے بارے میں اتنا کیوں سوچ رہا ہے۔ لیکن اگر اس کی غیر موجودگی میں کوئی حادثہ ہوگیا اس کے ساتھ پھر کرنل خاور تو اسے کبھی بھی معاف نہیں کریں گئے۔
" اف گاڈ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کروں کیا؟"
اس نے خود سے کہتے ہوئے ہاتھ کا مکا بنا کر زور سے سٹیرنگ ویل پر مارا تھا اور پھر اپنا دایاں ہاتھ اپنے بالوں میں چلایا تھا۔ ابھی وہ الجھا ہی ہوا تھا کہ پیسنجر سیٹ پر رکھا ہوا اس کا فون چیخا تھا اس نے راستے سے نظریں ہٹا کر فون کی جانب کی تھیں جہاں کرنل خاور کالنگ کے حروف جگمگا رہے تھے اس نے جلدی سے گہرا سانس بھر کر خود کو کمپوز کیا تھا اور پھر ہاتھ بڑھا کر فون تھاما تھا۔
" گڈمارننگ سر!"
اس کی آواز ایک دم الڑٹ تھی ایسے جیسے کرنل خاور اس کے سامنے کھڑے ہوں اور وہ مودب بن کر کھڑا ہو۔
" کیسے ہو ینگ مین؟"
کرنل خاور کے لہجے سے آج ہمشہ کی طرح رہنے والا جوش کہیں غائب تھا اور جبرئیل کو یہ بات شدت سے محسوس ہوئی تھی۔
" الحمدواللہ سر!"
وہ ان سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن اس کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ ان سے یہ پوچھ سکے کہ وہ ٹھیک تو ہیں نہ۔
" میجر ریچیڈ ایٹ بیس شارپ 8.00 ۔"
انہوں نے عجلت میں اس سے کہا تھا۔
" اوکے سر آئی بی دئیر ایٹ شارپ 8.00۔"
اس نے کچھ بھی پوچھنے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے چند رسمی جملوں کے بعد کال بند کردی تھی اور جیپ کی رفتار بڑھا دی تھی کیونکہ آتھ بجنے میں صرف پچیس منٹ باقی تھے جبکہ سفر آدھے گھنٹے سے زیادہ کا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سورج نے پھولوں کے شہر پشاور پر اپنے پر پھیلائے تو مرغے بھی بانگیں دینے کو تیار ہوگئے اور فضا میں ہر سو خنکی پھیل گئی سردی کے ساتھ دھوپ کی امیزیش نے موسم مزید خوشگوار کردیا تھا۔
اس کی آنکھ بھی آج جلدی کھل گئی تھی اس نے بیڈ کراون سے ٹیک لگائی اور شانوں پر اپنے بکھرے ہوئے گھنگھریالے بال سمیٹ کر ڈھیلے سے جوڑے کی شکل دی تھی پتہ نہیں کیوں دل آج عجیب سا ہورہا تھا اس نے کمبل پرے ہٹایا اور منہ پر ہاتھ رکھ کر ابھرنے والی باسی کو روکا اور سیدھی واشروم میں چلی گئی وہ نماز پڑھ کر لیٹی تھی اس لیے زرہ سا فریش ہوئی اور باہر چلی گئی۔ خان ولا کے کیچن سے ناشتے کی دلفریب مہک آرہی تھی زارا کو یہاں کے کھانے بہت پسند آئے تھے کیونکہ پوری زندگی محرومیوں کے باعث وہ کچھ بھی اچھا نہیں کھا پائی تھی۔ لیکن اتنے دن سے رہنے کے باوجود اس کی جھجھک اور شرم ختم نہیں ہوئی تھی۔ وہ کشمکش کی کیفیت میں وہاں کھڑی تھی جب زیبا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
" کیا ہوا زارا؟ ناشتہ نہیں کرنا کیا؟"
اس نے دونوں ابرو اٹھا کر سوالیہ انداز میں اس سے پوچھا تھا۔
" وہ۔۔وہ میں تو بس ایسے ہی۔"
وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں مڑوڑتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" اچھا چلو میرے ساتھ آو ناشتہ کریں بڑی امی کب سے تمہیں بلا رہی ہیں۔"
اس نے اس کا ہاتھ تھاما اور کھینچتے ہوئے ڈائینگ آئیریا کی جانب لے گئی جہاں عشرت جہاں اور ماہ رخ بیگم کے ساتھ ساتھ آرون ، سبتین اور آنیہ بھی موجود تھے جبکہ سگرا بی آملیٹ سے بھری ہوئی پلیٹیں ٹیبل پر رکھ رہی تھیں۔
" آو بیٹا یہاں بیٹھو!"
عشرت جہاں نے اپنے ساتھ والی کرسی کی جانب اشارہ کیا تھا تو وہ ان کے قریب بیٹھ گئی اس کی نگاہیں مسلسل جبرئیل کی خالی کرسی کی جانب اٹھ رہی تھی جبکہ صاریہ ابھی تک ناشتے کی میز پر نہیں آئی تھی عشرت جہاں اس کی نظروں کا مفہوم سمجھ گئی تھیں۔
" وہ کشمیر چلا گیا ہے بیٹا!"
انہوں نے اس کی پلیٹ میں پراٹھا رکھتے ہوئے اسے بتایا تھا۔ ان کی آواز پر وہ ایک دم چونکی تھی۔
" مجھے چھوڑ کر وہ کشمیر چلے گئے ہیں؟"
اس کے لہجے میں حیرت ہی حیرت تھی جس نے ناصرف عشرت جہاں بلکہ وہاں موجود سارے نفوس کو ہی حیران کردیا تھا جبکہ سب کے اس طرح دیکھنے پر وہ سٹپٹا گئی تھی اور کافی شرمندہ بھی دیکھائی دے رہی تھی سب کے چہروں پر یک لخت دبی دبی ہنسی ابھری تھی جو وہ زارا کی پریشان شکل دیکھ کر چھپا گئے تھے۔
" کوئی بات نہیں وہ مجھے تمہارا خیال رکھنے کی ہدایت دے کر گیا ہے اور وہ جلدی واپس آجائے گا بیٹا تم فکر مت کرو۔"
انہوں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا جس پر وہ بامشکل ہی مسکرا پائی تھی۔
" ویسے امی! یہ زارا بھائی کو اتنا کس خوشی میں مس کررہی ہیں؟"
آرون نے اپنی مسکراہٹ چھپانے کے لیے جوس کا گلاس لبوں سے لگایا تھا۔ نوالہ سیدھا زارا کے حلق میں اٹکا تھا اور پھر کھانسی کا شدید دورا پڑا تھا اسے۔
" ارے ارے آرون باز آجاو دیکھو بچی کے حلق میں نوالہ اٹک گیا۔
عشرت جہاں نے اسے پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے آرون کو گھورا تھا جو ابھی تک ہنس رہا تھا۔
زارا نے پانی پیا تھا اور پھر ہی قدرے نارمل ہوئی تھی۔
" اگر وہ لوگ یہاں پر آگئے انٹی اور میجر جبرئیل بھی نہ ہوئے تو میں کیا کروں گی؟"
اس کی ننھی بوری آنکھوں میں اس لمہے شدید خوف ہلکورے لے رہا تھا۔
" ہم بھی پولیس میں ہیں ایسا کچھ ہوا تو دیکھ لیں گئے۔"
آرون نے فرضی کالر جھاڑتے ہوئے سبتین کی بھی تائید چاہی تھی جس نے اس کا اشارہ پاتے ہی فوری اس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی جس پر بے اختیار زارا کو ہنسی آئی تھی۔
" یہ تو ہیں ہی شیطان تم چھوڑو ان کو اور ناشتہ کرو۔"
انہوں نے ان دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی توجہ واپس ناشتے کی جانب کروائی تھی۔
" بڑی امی! میں اور آنیہ ہوسپٹل کے بعد شاپنگ پر جارہے ہیں کیا ہم زارا کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں ویسے بھی اسے کپڑوں اور دوسری چیزوں کی ضرورت ہے۔"
زیبا نے ناشتے سے فارغ ہوکر کرسی کی پشت سے اپنا لیب کوٹ اتارتے ہوئے پوچھا تھا جس پر وہ کافی پرسوچ دیکھائی دے رہی تھیں۔
" بیٹا! جبرئیل نے اسے باہر نکلنے سے منع کیا ہے پھر میں ایسے کیسے بھیج دوں اسے۔"
وہ شدید الجھن میں مبتلا تھیں۔
" میں گھر میں اس طرح قید ہوکر تو نہیں رہ سکتی نہ انٹی اور ویسے بھی مسلمان ہونے کی وجہ سے میرا یقین ہے کہ موت برحق ہے وہ جہاں بھی آنی ہے وہاں آ ہی جانی ہے اس کے لیے میں اس طرح قید تو نہیں ہوسکتی پلیز آپ مجھے جانے دیں ان کے ساتھ۔"
زارا نے بھی آہستگی سے ان سے کہا تھا۔
" ٹھیک ہے پر پہلے میں جبرئیل سے پوچھوں گی پھر جانے دوں گی تمہیں۔"
انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" ٹھیک ہے جیسا آپ مناسب سمجھیں۔"
زارا نے ان سے کہا اور پھر ناشتے میں مگن ہوگئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ اپنی ریوالونگ چئیر پر بیٹھے ہوئے تھے سامنے میز پر کچھ ہی دیر پہلے انہوں نے ایک فوٹو فریم نکال کر سجایا تھا اب ان کی توجہ مسلسل فوٹو فریم پر تھی جہاں دو نفوسوں کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھائی دے رہا تھا انہوں نے تصویر پر نظریں گاڑھی ہوئی تھی دل ایک دم ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا وہ کوشیش کرتے تھے کہ وہ یہ تصویر کم سے کم دیکھیں مگر جب دل بہت بھر جاتا پھر اپنے آفس ٹیبل کے دراز میں رکھا ہوا یہ فریم وہ کچھ دیر کے لیے اپنے سامنے میز پر سجا لیتے وہ نہیں جانتے تھے کہ ایسا کرنے سے انہیں کیا ملتا ہے مگر وہ ایسا کیا کرتے تھے۔
وہ ابھی اسی پوزیشن میں بیٹھے تھے جب آفس کا دروازہ کھڑکا تھا انہوں نے فریم اٹھا کر جلدی سے دراز میں واپس رکھا تھا اور پھر دراز بند کردیا تھا۔
" ہاں عبداللہ بولیں!"
انہوں نے اپنی مکمل توجہ عبداللہ کی جانب کی تھی۔
" سر میجر جبرئیل، طراب سر اور اسامہ سر میٹنگ روم میں کرنل احسن کے ساتھ آپ کا
ویٹ کررہے ہیں۔"
عبداللہ نے انہیں اطلاع دی تو وہ سیدھے ہوئے تھے۔
" آپ چلیں آئی بی دئیر!"
انہوں نے اسے جانے کے لیے کہا تھا جس پر وہ سر ہلا کر مڑ گیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد انہوں نے گہرا سانس بھر کر خود کو کمپوز کیا تھا اور اپنی آرمڈ کیپ اٹھا کر آفس سے باہر نکل گئے تھے اب ان کا رخ میٹنگ روم کی جانب تھا جہاں ان کی ٹیم کے افسران ان کا انتظار کررہے تھے۔
وہ چلتے ہوئے میٹنگ روم میں پہنچے تھے جیسے ہی انہوں نے دروازہ کھولا وہاں بیٹھے نفوس نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر انہیں سیلوٹ کیا تھا۔
" سٹ ڈاون ایوری ون!"
انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو بیٹھنے کو کہا تھا۔
" ہوپ یو ال آر فائن جینٹل مین!"
انہوں نے اپنی آرمڈ کیپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا جس پر سب نے سر ہلایا تھا۔
" سو جینٹل مین! آج کی میٹنگ کا پرپز یہ ہے کہ آپ سب کو آپ لوگوں کے فائینل مشن کے بارے میں بتایا جائے."
وہ بول کر کچھ دیر خاموش ہوئے تھے سب توجہ سے ان کی جانب دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ پھر سے گویا ہوئے تھے۔
" میں نے آپ سب کو دو ٹیمز میں ڈیوائیڈ کیا ہے اور ہر ٹیم کا ایک کیپٹن ہوگا جو اسے لیڈ کرے گا۔"
انہوں نے کہہ کر سب کی جانب دیکھا تھا جیسے اس بات پر سب کی تائید چاہ رہے ہو۔
" سر! مشن کیا ہے؟"
پوچھنے والا طراب تھا جو بس کچھ ہی دیر سنجیدہ ہوسکتا تھا۔
" ہولڈ ان طراب پہلے سن تو لو۔"
جبرئیل نے اسے گھور کر دیکھا تھا جس پر اس نے اپنی زبان دانتوں تلے دبائی تھی۔
" ہاں تو تم میں سے ایک ٹیم انڈیا جائے گی ان سرنگوں کے راستے جو ہم نے باڈر پر کھودی ہیں لیکن دھیان رہے یہ سب کام اس قدر راز داری سے ہونا چائیے کہ کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ ہو۔"
کرنل خاور نے انگلی اٹھا کر کہا تھا۔
" سر! ٹیمز کونسی ہیں؟"
اب کی بار جبرئیل کا سوال تھا جو بے حد سنجیدہ دیکھائی دے رہا تھا۔
"کیپٹن شمس، میجر طراب ، کیپٹن معیز اور کرنل احسن یہ ایک ٹیم میں ہونگے انہیں لیڈ کرنے والا احسن ہوگا اور دوسری ٹیم میں میجر اسامہ،کیپٹن عبداللہ،لیفٹیننٹ طلال اور میجر جبرئیل ہوگئیں انہیں لیڈ کرنے والا جبرئیل ہوگا اور میں تم دونوں ٹیمز کو لیڈ کروں گا گوٹ ڈیٹ بوائز؟"
انہوں نے سب کی جانب دیکھا تھا جس پر سب نے تائیدی انداز میں سر ہلایا تھا۔
" سر انڈیا میں خود جانا چاہتا ہوں مجھے زارا کی ماں کا پتہ کرنا ہے۔"
جبرئیل نے کرنل خاور سے کہا تھا جس پر انہوں نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
" نہیں جبرئیل تم اس طرح سے انڈیا نہیں جاو گئے میں بیجھنے کو تمہیں بھی بھیج سکتا تھا مگر تمہارا وہاں جانا ٹھیک نہیں ہے۔"
کرنل خاور نے اس سے نظریں چراتے ہوئے کہا تھا۔
" لیکن کیوں سر؟ میں کیوں نہیں جا سکتا؟"
اس کا سوال ابھی بھی وہی پر تھا۔
" وہ میں تمہیں ابھی نہیں بتا سکتا وقت آنے پر سب پتہ چل جائے گا۔"
انہوں نے اس سے کہا تھا اور کرسی چھوڑ کر باہر نکل گئے تھے پیچھے سب بس یہ سوچتے رہ گئے تھے کہ آگے کی بات تو انہوں نے بتائی ہی نہیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آسمان میں بڑھتے ہوئے اندھیرے کے ساتھ اس کے اندر کی ویرانیاں بھی بڑھتی ہی جارہی تھیں راکنگ چئیر پر جھولتا اس کا وجود جیسے اذیت کے آخری مراحل پر تھا۔ سلگایا ہوا سگریٹ اس کی انگلیوں میں ہی دبا ہوا تھا اور وہ مسلسل پتھر کا مجسمہ بنی راکنگ چئیر پر جھول رہی تھی۔ آج شکاگو میں برف باری ہورہی تھی اور وہ بھی ایسی کہ اندر آتش دان کے قریب بیٹھے ہونے کے باوجود ریڑھ کی ہڈیوں میں سنسناہٹ پیدا ہوجائے۔ اس کی آنکھیں آج عرصے بعد جل رہی تھیں راکنگ چئیر کے جھولنے میں بھی تیزی آگئی تھی اس کی آنکھیں بند تھیں اور دماغ اپنی ہی چیخوں کی آواز سے لرز رہا تھا۔ ننھے وجود کو انتہائی بے دردی سے کسی شیطان نے توڑا تھا۔ اس نے مٹھیاں غصے سے پینچی تھی اور وہ اپنی پوری طاقت سے چلائی تھی۔ شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیوں میں ایک لمہے کے لیے آواز سی پیدا ہوئی تھی اور پھر گہرا سناٹا چھا گیا تھا۔
" عزت کے بدلے عزت میجر جبرئیل! کاش کہ میں بھی ایک عام عورت ہوتی جو چاہتی وہ پالیتی لیکن افسوس کہ میں ایک عام عورت نہیں ہوں کیونکہ میرے وجود سے عاموں والی ساری حسوں کو بڑی ہی بے دردی سے نوچ ڈالا گیا تھا اور پھر اس میں ایک خاص قسم کا زہر انڈیلا گیا تھا۔ بے حسی کا زہر اور اس بے حسی کے زہر نے دھیرے دھیرے میرے پورے وجود کو کسی آگ کے شعلوں کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور اب تو صرف یہ وجود راکھ کا مجسمہ ہے سیاہ اور بے رحم راکھ۔"
اس کے لب ہولے ہولے حرکت کررہے تھے اور آنکھیں دھیرے دھیرے بند ہورہی تھیں سگریٹ انگلیوں کے بیچ سے چھوٹ کر کرسی کے قریب فرش پر گر کر کب کا بجھ گیا تھا لیکن وہ خود جل رہی تھی روم روم اور پل پل اس کا وجود سلگ رہا تھا۔ شازر و نادر ہی آنے والی راتوں میں آج کی رات بھی شامل ہوگئی تھی جب اس نے پوری رات راکنگ چئیر پر جھولنا تھا اور نشے میں دھت ہوکر اندر پلنے والے غموں کو دبانا تھا وہ اپنے کام پر لگ گئی تھی کیونکہ وہ کافی عرصے سے اب اس میں ماہر ہوچکی تھی۔
بیتاب ہیں شسد ہیں پریشان بہت ہیں
کیوں کر نہ ہوں دل ایک ہے ارمان بہت ہیں
کیوں یاد نہ رکھوں دشمن پنہاں
آخر میرے سر پر تیرے احسان بہت ہیں
ڈھونڈو تو کوئی کام کا بندہ نہیں ملتا
کہنے کو اس دنیا میں انسان بہت ہیں
اللہ اسے پار لگائے تو لگائے
کشتی میری کمزور ہے پر طوفان بہت ہیں

دہلیز کے پار وہ ( مکمل✔)Where stories live. Discover now