گل لالہ

3.7K 150 29
                                    

قسط نمبر 4
بکھرے تبسم کی موجودگی کو ختم کرو کوئی
سارے زمانے میں پھیل گئی ہے گل لالہ کی مہک
(ایمن خان)
" تم جانتے ہو جبرئیل انتیس سال پہلے یہ سارا کھیل شروع ہوا تھا۔ تب میں میجر تھا انتیس سال پہلے کشمیر سے لڑکیاں غائب ہونا شروع ہوئی تھیں تمہارے بابا کرنل اور چچا بھی میجر تھے ہم تینوں کی دوستی پورے یونٹ میں مشہور ہوا کرتی تھی تمہارے بابا بے شک ہم دونوں سے سنئیر تھے مگر جب وہ میری اور اسمائیل کی کمپنی میں بیٹھے ہوتے تو یوں معلوم ہوتا جیسے ہمارا ہی کوئی ہم خیال ہو۔ تمہارے بابا کی تب نئی نئی شادی ہوئی تھی تمہاری امی سے ہم نے بہت ہنگامہ کیا تھا ان کی شادی پر۔
تمہیں معلوم کے ان دنوں تمہارے چچا اسمائیل میری بہن کو پسند کرتے تھے اور اس سے شادی کے خواہش مند بھی تھے لیکن پھر۔۔۔"
اس پھر سے آگے کرنل خاور ایک دم خاموش سے ہوگئے تھے شاہد پھر کے آگے کوئی بہت ہی تلخ سچائی چھپی ہوئی تھی۔
" پھر کیا ہوا تھا سر؟"
جبرئیل نے تجسس سے پوچھا تھا کیونکہ کہانی اتنی سیدھی نہیں تھی جتنی وہ سمجھ رہا تھا کرنل خاور کا سنجیدہ انداز جس میں اسے ضبط زیادہ نظر آرہا تھا اس کے دل میں عجیب وہم اور خدشے ڈال رہا تھا اسے نہیں معلوم تھا کہ جلد ہی اس پر بہت سی حقیقتیں واضح ہونے والی ہیں۔
" 1990 میں کشمیر سے پہلی عورت اغوا ہوئی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہت ساری آئے دن خبر ملتی کہ اتنی لڑکیاں اغوا کرلی گئی ہیں اور ہم چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر پاتے میں اسمائیل اور برگئیڈیر ابراہیم اور ہماری پوری ٹیم عجیب سی کشمکش میں تھی کہ آخر اس سب کے پیچھے ہے کون۔ ہم نے اس کیس پر کام کرنا شروع کیا تھا لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ موصول نہیں ہوا پھر ایک دن میری بہن اغوا ہوگئی۔ وہ یونی ورسٹی گئی تھی اور پھر واپس نہیں آئی اور جانتے ہو اس دن کیا تھا جس دن وہ اغوا ہوئی؟"
کرنل خاور نے سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ جس پر اس نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
" اس دن اس کی منگنی تھی جبرئیل اور کسی نے اسے آغوا کرلیا اسمائیل کے دل پر کیا بیتی ہوگی میری ماں کس قرب سے گزری تھی تم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کتوں کی طرح بو سونگھی تھی ہم نے کہ آخر کون ہے اس سب کے پیچھے شاہد انہیں بھی معلوم ہو چکا تھا وہ بھی نہیں ملی اور اغواوں کا سلسلہ بھی ایک دم رک گیا کتنی دیر کوشیش کے بعد بھی جب کوئی سراغ نہ ملا تو ہمیں اوپر سے کیس بند کرنے کے آڈرز جاری ہوگئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کیس بند ہوگیا۔"
وہ بولتے بولتے تھک سے گئے تھے سانس لینے کو لمہہ بھر رکے تھے کمرے میں سکوت تھا جبرئیل ساکن بیٹھا ان کا ایک ایک لفظ سن رہا تھا کرنل خاور اور اپنے باپ اور چچا کا قرب اسے آج محسوس ہورہا تھا۔
" سر ! آپ نے کبھی اپنی مسز اور بچوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا؟"
جبرئیل کے ذہن میں نجانے کیوں یہ سوال آیا تھا۔ کیونکہ اس نے جب سے ہوش سمبھالا تھا تب سے کرنل خاور کو تنہا ہی دیکھا تھا۔ اس کے سوال پر کرنل خاور کے چہرے کا رنگ یک لخت بدلا تھا جو جبرئیل کی زیرک نگاہوں نے فوری دیکھ لیا تھا۔
" میری کوئی فیملی نہیں ہے۔"
انہوں نے سپاٹ لہجے میں کہا تھا جیسے اب اس بارے میں مزید وہ کوئی بات نہ کرنا چاہتے ہوں۔
" تم جاو اب باقی کے پوانٹس ہم کل ڈسکس کریں گئے۔"
وہ وہاں سے اسے اٹھانا چاہتے تھے کیونکہ جبرئیل کی سوال کرتی ہوئی نظریں انہیں پریشان کررہی تھیں اور فل حال وہ اس کے کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے تھے وہ پھر سے اپنے تکلیف دہ ماضی میں چلے گئے تھے جس سے پیچھے چھڑاتے چھڑاتے انہیں انتیس سال بیت گئے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ان کے لفظ ماحول میں سحر کی طرح چھا رہے تھے ان کے الفاظ بالکل گل لالہ کی طرح تھے بے داغ بغیر کسی جھول کے ایک دم پرکشیش اور طاقت ور کسی کے بھی دل کی گہرائی میں اترنے والے جیسے اس لمہے وہ اس کی گہرائی میں اتر رہے تھے اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کے پاس کوئی قرآن کی ان خوبصورت آیات کی وضاحت کرتا رہے اور وہ بس بغیر کسی حرکت کے ساکن ہوکر سنتی رہے۔
" اب سمجھ میں آیا بچے کہ توبہ کے کیا فوائد ہیں؟"
انہوں نے اس کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تھا جہاں یک گونہ سکون کی بے شمار لہریں موجود تھیں۔
" جی میں سمجھ گئی کہ اگر ایک بار اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ کرلو تو وہ اپنے گناہ گار بندے کو معاف کرنے میں ایک لمہہ بھی نہیں لگاتا۔ لیکن ناجانے کیوں بابا مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں بہت گناہ گار ہوں میرے گناہوں کی تعداد اتنی کثیر ہے کہ وہ مجھے معاف نہیں کرے گا۔"
وہ چہرے پر پریشانی طاری کیے ان سے پوچھ رہی تھی۔ آنکھیں جیسے خوف سے بھیگ سی گئی تھیں۔اس کی بات سن کر وہ مسکرائے تھے اور پھر گویا ہوئے تھے۔
" گناہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ایک نہ ایک واپسی کا راستہ ضرور رکھا گیا ہے حضرت آدم علیہ سلام اور اماں حوا نے بھی اللہ کی نافرمانی کی تھی اور وہ اس درخت کے پاس چلے گئے تھے جس کے پاس جانے سے انہیں اللہ نے منع فرمایا تھا اور اللہ نے انہیں سزا کے طور پر اس دنیا میں بھیج دیا تھا لیکن ان کی توبہ پر اللہ نے انہیں معاف فرما دیا تھا اور کل کائنات کے والدین کے عہدے پر فائز کیا تھا یہ تھا اللہ کا ان کی توبہ پر ان کے لیے انعام اسی طرح وہ توبہ کے در ہمشہ کھلے رکھتا ہے صرف توبہ کے لیے دل کی گہرائی ہونا ضروری ہے نیت کا صاف اور گناہ سے بچنے کا عزم ہوگا تو اس کے توبہ کے در تک رسائی آسان ہوجائے گئی اور بے شک وہ تو خاموشیوں کو بھی سن لیتا ہے۔"
ایک بار پھر سے ہر جانب سکوت تھا اس کا دل توبہ کے نور سے منور ہوگیا تھا اور یہ اس کا توبہ کی جانب پہلا قدم تھا جسے اس نے بڑی ہی کامیابی سے رکھا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اس کے جانے کے بعد سے وہ وہی بیٹھی ہوئی تھی۔ ہستی کھیلتی زندگی پل میں بدل جاتی ہے یہ صرف زارا کا ذاتی خیال تھا اور واقعی ہی ایسا ہوتا ہے وہ اپنے گھر میں اپنی ماں کے ساتھ کتنی خوش تھی چھوٹے سے جھونپڑے میں وہ زندگی کی رنگینیوں کو کھل کر جی رہی تھی مگر اب اس طرح کسی کے گھر رہنا وہ بھی موت کے مسلسل منڈلاتے ہوئے خوف کے ساتھ یہ زارا نور کے لیے ایک انتہائی مشکل کام تھا۔ وہ یہاں پر کیوں تھی؟ یہ وہ سوال تھا جو اس کے ذہن نے سب سے پہلے کیا تھا۔
" وہ یہاں اس لیے تھی کیونکہ اسے زندہ رہنا تھا۔"
" کیا زندہ رہنا اس کے لیے بہت ضروری تھا مر بھی جاتی تو اس کے پیچھے رونے والا کون تھا۔"
نہیں اسے اپنی ماں کے لیے زندہ رہنا تھا اسے پتہ لگانا تھا کہ اس کے بعد اس کی ماں کے ساتھ کیا ہوا ہے اس کے بعد اس کی ماں کہاں گئی تھی۔
بے شمار سوالات اس کے ذہن میں چل رہے تھے صاریہ کے رویے نے اسے سختی سے اپنے اس گھر میں ہونے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ وہ ابھی ادھر ہی بیٹھی ہوئی تھی جب دروازے پر کھٹکا ہوا تھا وہ ایک دم سیدھی ہوکر بیٹھی تھی۔
آنے والی زیبا تھی۔ زارا اس قدر گم تھی کہ اس کے آنے پر مسکرا بھی نہ سکی تھی۔
" میں اندر آجاو زارا؟"
اس نے دروازے پر کھڑے ہوکر اندر آنے کی اجازت طلب کی تھی۔ زارا نے سر اٹھا کر دیکھا تھا اور سر کے اشارے سے اندر آنے کا کہا تھا جس پر زیبا مسکرا کر اندر آئی تھی۔
" پلیز بیٹھیں!"
زارا نے اپنے سامنے رکھے کاوئچ کی جانب اشارہ کیا تو زیبا آرام دہ انداز میں اس کے سامنے بیٹھ گئی۔
" مجھے تم سے معافی مانگنی تھی زارا!"
اس نے زارا کو مخاطب کرکے تمہید باندھی تھی۔
" معافی کس چیز کی؟"
زارا نے کچھ الجھ کر اس سے پوچھا تھا۔
" صاریہ آپا نے ابھی جو کچھ بھی تم سے کہا وہ انہیں نہیں کہنا چائیے تھا۔"
وہ قدرے شرمندہ دکھائی دے رہی تھی۔
" اٹس اوکے زیبا آپ کی اس میں کوئی بھی غلطی نہیں تھی غلطی کسی کی بھی نہیں ہے شاہد غلطی حالات کی ہے جو میرے ساتھ ایسے ہوگئے اور میں اپنے گھر سے بے دخل ہوکر کسی کے گھر کی پناہ میں آگئی۔"
اس نے انتہائی بےبسی سے کہا تھا۔
" تمہیں پتہ ہے زارا کہ انسان کے حالات کب بدلتے ہیں؟"
وہ اس کی جانب منہ کرکے غور سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ جس پر اس نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
" انسان کے حالات تب بدلتے ہیں جب اس کے قدم کسی آزمائش کی جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں اور یہ تو تم جانتی ہی ہوگی کہ آزمائش اللہ کے علاوہ بندے پر کوئی بھی نہیں ڈال سکتا اور اللہ اپنے جس بندے کو آزمائش کے لیے چنتا ہے نہ ضرور وہ اس کی نظر میں کوئی خاص حیثیت اور مقام رکھتا ہے۔ ڈٹ کر کھڑی رہو گی تو منزل آسان ہوجائے۔"
آخر میں اس نے اسے کچھ ہمت دلائی تھی۔
" منزلیں ان کی آسان ہوتی ہیں زیبا جن کی کوئی منزل ہوتی ہے جن لوگوں کی راہیں ہی سنسان اور کھوٹی ہوں وہ بھلا منزل کا اور اس کے سہل ہونے کا انتظار کیوں کریں گئے؟"
اس نے اپنی بات سے زیبا کو لاجواب کردیا تھا کیونکہ واقعی میں زیبا کے پاس اس کے اس سوال کا کوئی بھی جواب موجود نہیں تھا۔
" نہیں ہے نہ جواب؟ اس لیے نہیں ہے کیونکہ آپ نے خود کو کبھی بغیر منزل کے تصور ہی نہیں کیا آپ کے دل و دماغ میں ہر لمہہ ایک عزم ایک منزل کی جستجو چل رہی ہوتی ہے آپ کا دل اس تک رسائی کی آسانیاں تلاش کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے میں اپنے خالی دل کے لیے کیا کرسکتی ہوں بھلا۔"
وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے ہلکا سا مسکرائی تھی۔
" کوئی بھی انسان کچھ نہیں کرسکتا کرتا تو صرف وہ ہے جو اوپر بیٹھا ہوا ہے زارا! مایوس کبھی مت ہونا ہمشہ امید پر قائم رہنا۔''
وہ مسکرا کر کہہ کر اس کا کندھا تھپک کر باہر نکل گئی تھی اور وہ خاموشی سے وہاں بیٹھی رہی تھی۔ ابھی تو بہت کچھ دیکھنا باقی تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ ہیڈ کواٹر سے باہر نکلا تو شدید الجھا ہوا تھا ۔ اس کا زہن بے شمار الجھنوں کا شکار تھا۔ آج پرانی فائلوں کے ساتھ پرانے زخم بھی کھلے تھے اور جبرئیل نئے سرے سے گھائل ہوا تھا۔ یہ سوچ ہی کہ اس کے بابا اس کے چچا کو کسی نے مارا تھا اس کا خون کھولا رہی تھی۔ بے شمار سوالات اس کے ذہن میں مچل رہے تھے اور اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ان سوالات کے جواب کہاں سے لے کس سے پوچھے کہ آخر یہ سب کیا ہورہا ہے۔
حال میں غائب ہونے والی لڑکیوں نے ماضی کے پرخچے کھول کر رکھ دیے تھے اور اب میجر جبرئیل خان کو ایک ایک گوتھی بڑی ہی عقل مندی سے سلجھانی تھی کیونکہ چھوٹی سی غلطی زارا کی جان لے سکتی تھی۔
وہ ہیڈ کواٹر سے نکل کر اپنی جیپ کی جانب جارہا تھا جب اس کا فون بجا تھا۔ اس نے جیب سے فون نکال کر دیکھا تو طراب کی کال تھی اس نے مسکرا کر یس کی اور کال اٹھائی تھی۔
" اسلام علیکم!"
جبرئیل نے ہمشہ کی طرح سلام میں پہل کی تھی۔
" وعلیکم اسلام میرے یار کیسا ہے تو؟"
طراب اپنے ازلی پرجوش انداز میں شروع ہوچکا تھا جس نے جبرئیل کو مسکرانے پر مجبور کردیا تھا۔
" تیری بریکس ہر لمہہ فیل کیوں ہوتی ہیں؟"
جبرئیل نے ہونٹوں میں مسکراہٹ کا گلا گھونٹتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" کیونکہ میری بریکس بنی ہی فیل ہونے کے لیے ہیں اور تیری بریکس کو بھی فیل کرنے کے لیے ہی میں دنیا میں آیا تھا۔"
وہ بشاش لہجے میں اس سے مخاطب تھا۔
" یہ بتا طراب وہاں کی کیا رپوٹ ہے؟"
اس نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا تھا۔
" رپوٹ کچھ اچھی نہیں ہے جبرئیل ! صرف دو دن میں چار لڑکیاں غائب ہوچکی ہیں اور ہمارے سارے ذرائع بیکار جارہے ہیں کہیں سے بھی کوئی سرا ہاتھ میں نہیں آرہا ہے۔"
طراب کے لہجے کی سینگینی اور پریشانی نے جبرئیل کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
" کرنل خاور کو رپوٹ کی ہے؟ ان کا کیا کہنا ہے اس بارے میں؟"
اس نے پرسوچ انداز میں اس سے پوچھا تھا۔
" ہاں کرنل خاور کو رپوٹ کردی ہے انہوں نے آج رات ہی کشمیر بیس میں میٹنگ بلائی ہے۔ وہ اور تم پشاور ہیڈ کواٹر سے سکائپ پر رہو گئے اور باقی پوری ٹیم کشمیر بیس میٹنگ روم میں آج رات جمع ہوگی اور پھر ہی کوئی لاحہ عمل طے کیا جائے گا۔"
طراب نے اسے ساری بات بتا کر چند رسمی جملوں کے بعد کال بند کردی تھی جبکہ جبرئیل کے لیے سوچ کے در وا ہوگئے تھے اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ فل حال اسے گھر جانا تھا اور پھر ہی اس کے بعد کوئی اور قدم اٹھانا تھا۔ معاملہ الجھتا ہی جارہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ جبرئیل کی ذات بھی الجھ رہی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
دنوں کے گزرنے کے ساتھ ساتھ موسم بھی سرد ہوتا جارہا تھا۔ پشاور میں دھوپ کے ساتھ ساتھ فضا میں سردی کا عنصر بھی ہوتا تھا لیکن پچھلے دو دنوں سے پشاور میں دھوپ کا ایک لمہہ بھی میسر نہیں آیا تھا اور مسلسل نیلے آسمان پر بادلوں کا راج تھا جس کے باعث فضا میں سردی کا زور بڑھ رہا تھا۔ خان ہاوس میں سارے کھڑکیاں دروازے مکمل طور پر بند تھے دھوپ نہ ہونے کے باعث تمام کھڑکیوں پر پردے برابر کر رکھے تھے اور لاونج میں موجود واحد آتش دان بھی وہاں کے مکینوں کو گرمائش فراہم کرنے کی کوشیش میں ہلکان ہورہا تھا۔
کیچن کا چولہا جل رہا تھا اور حمیدہ بی کے ساتھ ساتھ آنیہ اور زیبا بھی آج کچھ نئے تجربات کرنے میں مصروف دیکھائی دے رہی تھیں۔ ان کے بے حد اصرار کے باعث زارا بھی کیچن میں موجود چھوٹے ڈائینگ ٹیبل پر چائے کا مگ رکھے بیٹھی ہوئی چائے اور ان دونوں کی ہلکی پھلکی گپ شپ سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ صاریہ کی تلخ گفتگو کا اثر کب کازائل ہوچکا تھا اور اب صرف خوشگوار ماحول ہی چل رہا تھا۔
" تم کیا کیا بنا لیتی ہو زارا؟"
آنیہ نے کڑاہی میں اچھا خاصہ تیل ڈالتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" امم ویسے تو سب کچھ ہی بنا لیتی ہوں لیکن میری اماں نے کبھی مجھے اتنا کام کرنے ہی نہیں دیا تھا۔"
اس نے چائے کے مگ میں سے گھونٹ بھرتے ہوئے افسردگی سے کہا تھا۔
" ہائے ہاو لکی اور ادھر ہماری اماں ہیں کہ کہتی ہیں بس کیچن سے باہر ہی نہ نکلو۔"
زیبا نے بیسن لگی بون لیس مچھلی گرم کیے ہوئے تیل میں ڈالی تھی اور ساتھ میں ماہ رخ بیگم پر بڑا سنگین تبصرہ بھی کیا تھا۔
" ہائے زیبی قسم سے ہماری ماوں نے یونہی ہماری ہڈیاں گلا دینی ہیں کام کرا کرا کے۔"
آنیہ نے سلاد کے لیے گاجر کاٹتے ہوئے افسردہ شکل بنا کر کہا تھا۔ دونوں کی افسردگی بھری کہانی سن کر زارا کو بے ساختہ ہنسی آئی تھی۔ اس کی ہنسی کی آواز اتنی تو ضرور تھی کہ کیچن کی جانب پانی کی غرض سے آتے جبرئیل کے کان فیض یاب ہوتے۔
" کام کرنا اتنا مشکل تو نہیں ہوتا ہے۔"
زارا نے کندھے اچکاتے ہوئے دونوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
" لیکن نکمے اور ہڈ حرام لوگوں کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔"
اس نے اندر آتے ہوئے سنجیدگی سے تبصرہ کیا تھا اور فریج کی جانب بڑھ گیا تھا۔ زارا سمیت وہ تینوں اس کی اچانک آمد پر سٹپٹائی تھیں۔ تب تک وہ پانی کی بوتل اور گلاس سٹینڈ سے گلاس لے کر زارا کے سامنے والی کرسی سمبھال چکا تھا۔ کیچن میں کڑہائی میں فرائی ہوتی مچھلی کی شوں شوں کی آواز فضا میں بڑا سوز پیدا کررہی تھی اور اسی کے ساتھ مچھلی کی دلفریب مہک نے جبرئیل کو یاد کرایا تھا کہ اس نے تو صبح سے کچھ کھایا ہی نہیں ہے۔ اس نے بوتل سے گلاس میں پانی انڈیل کر پیا تھا اس سارے عرصے میں زارا اسے غور سے دیکھ رہی تھی جو جبرئیل کی زیرک فوجی نگاہیں بھانپ چکی تھیں۔ اس نے پانی پی کر گلاس میز پر رکھا تھا اور دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر ابرو اچکاتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا تھا۔
" کیا آپ کو بھی پیاس لگی ہے؟ پانی پینا ہے کیا؟"
اس نے سنجیدگی سے اس سے پوچھا تھا جس پر زارا دو سیکنڈ کے اندر اندر ماحول میں لوٹی تھی اور جلدی جلدی نفی میں سر ہلایا تھا۔
" لیکن ہمیں پانی پینا ہے۔"
کیچن کے دروازے میں آرون اور سبتین کھڑے شرارت سے مسکرا رہے تھے جبرئیل کو بھی ان کی شرارت سمجھ میں آچکی تھی۔
" تو پی لو روکا کس نے ہے وہ فریج ہے اور وہ گلاس پکڑو اور پیو۔"
اس نے کندھے اچکاتے ہوئے بڑے ہی آرام سے کہا تھا تب تک آنیہ سلاد اور زیبا مچھلی کے کافی پیس فرائی کرچکی تھی اس نے میز پر فرائی کیے ہوئے پیس رکھے تھے اور ساتھ میں سلاد بھی آرون اور سبتین بھی وہی پر بیٹھ گئے تھے۔ اب منظر کچھ یوں ہوگیا تھا کہ چھ کرسیاں تھیں جن پر جبرئیل اور زارا آمنے سامنے تھے زارا کے ساتھ کرسی خالی تھی جبرئیل کے ساتھ آرون جبکہ ماسٹر چئیر کی جگہ سبتین براجمان تھا اور مچھلی سے بھرپور طریقے سے انصاف کیا جارہا تھا۔ زارا کی چائے کب کی ختم ہوچکی تھی اور اب وہ ان تینوں کو مچھلی کھاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
" امی اور چچی کو بھی بلا لیتی؟"
جبرئیل نے کانٹے سے مچھلی کا ٹکرا کاٹتے ہوئے کہا تھا۔
" میں گئی تھی مگر ان دونوں کے بلڈ پریشر کے مسائل ہیں آپ کو پتہ تو ہے تو وہ کہہ رہی کہ انہوں نے نہیں کھانی۔"
آنیہ نے مصروف انداز میں اسے بتایا تھا جس پر اس نے سر ہلایا تھا اور پھر زارا کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
" آپ کی بھوک ہرتال ہے کیا آج؟"
لہجے میں ہنوز سنجیدگی کا عنصر تھا۔
" نہ۔۔نہیں تو۔"
وہ ایک دم گڑبڑا گئی تھی۔
" پھر کھا کیوں نہیں رہیں؟"
اس نے اس کے آگے رکھی پلیٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ سبتین اور آرون نے بیک وقت مسکراہٹیں دبا کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا۔ جبکہ زیبا اور آنیہ کے تاثرات بھی ان سے مختلف نہ تھے۔ زارا نے کچھ نروس ہوکر کھانا شروع کیا تھا۔ وہ دونوں بھی ادھر ہی بیٹھ گئی تھیں جب صاریہ کیچن میں داخل ہوئی تھی۔
" یہ سب کیا ہورہا ہے؟"
جبرئیل کی پشت صاریہ کی جانب تھی اس لیے اسے احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ بھی وہی موجود ہے۔ جبرئیل نے صاریہ کو یکسر نظر انداز کیا تھا اور اپنے کھانے پر متوجہ رہا تھا۔
" تم لوگوں نے فش فرائی کی اور مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا؟"
صاریہ صدمے کی کیفیت میں گھر کر ان لوگوں سے کہہ رہی تھی۔
" آپا مچھلی کی تیز ترین خوشبو اپنے ہونے کی گواہ خود تھی تم تو ویسے ہی اپنی سماعتوں کا علاج کروا لو آئے دن شکایتیں رہتی ہیں۔"
سبتین نے مچھلی کاٹتے ہوئے منہ بنا کر اس سے کہا تھا۔
" اور یہ ہماری فیملی میں کہاں سے آگئی؟"
صاریہ نے منہ بناتے ہوئے اونچی آواز میں کہا تھا۔
" ہولڈ اون مس صاریہ شی از فیملی تمہیں آخر پرابلم کیا ہے؟"
جبرئیل نے اپنا کانٹا پلیٹ میں پٹخا تھا اور غصے سے کرسی چھوڑ کر کھڑا ہوگیا تھا۔ زارا نے شرمندگی سے سر جھکایا تھا اور صاریہ کو جبرئیل کی موجودگی کا علم ہوا تو وہ بھی اپنی جگہ گڑبڑا گئی تھی۔
" مہ۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔"
کچھ دیر پہلے شیر بنی ہوئی صاریہ ایک پل میں بھیگی بلی بنی تھی۔
" تمہارا جو بھی مطلب تھا وہ میں نے یہاں پر ابھی ابھی سن لیا ہے اور دیس از اونلی لاسٹ ٹائم اس کے بعد میں معاف نہیں کرونگا اینڈ ریممبر دیس۔"
وہ کہہ کر کیچن سے باہر نکل گیا تھا جبکہ باقی سب نے صاریہ کو اچھا خاصہ گھور کر دیکھا تھا۔
" یہ سب اس لڑکی کی وجہ سے ہوا ہے ہمشہ جبرئیل کو مجھ سے بدگمان کرتی ہے آخر وہ اس کی اتنی طرفداری کرتا کیوں ہے لگتی کیا ہے یہ اس کی؟"
صاریہ تو غصے میں آپے سے باہر ہی ہورہی تھی۔
" پلیز آپا آپ بھی تو ہر دفع خوامخواہ میں بھائی کے سامنے اوور ہوجاتی ہیں بھگتیں اب۔"
آرون نے کہہ کر سبتین کو بازو سے تھاما اور باہر نکل گیا جبکہ زارا بھی وہاں سے جانے کے چکر میں تھی جب صاریہ نے اس کی کلائی تھامی تھی۔
صاریہ کی گرفت زارا کی کلائی پر اتنی سخت تھی کہ زارا کی آنکھوں سے بے اختیار پانی بہا تھا۔
" میرے جبرئیل سے دور رہنا سمجھی جس لمہے میں نے تمہیں اس کے آس پاس بھی دیکھا نہ اس دن تمہارا اس گھر میں آخری دن ہوگا۔"
صاریہ نے اس کی کلائی اپنی گرفت سے آزاد کرتے تنبہی کرتے ہوئے لہجے میں کہا تھا اور خود وہاں سے جانے لگی تھی۔ بے ساختہ زارا کے ذہن میں جبرئیل کے کہے گئے جملے گونجے تھے۔
" لوگ آپ کو تب تک دباتے رہیں گئے جب تک آپ ان سے دبتی رہیں گئی میں ہمشہ آپ کو صاریہ یا اس جیسے کسی اور شخص سے بچانے نہیں آوں گا آپ کو اپنا دفاع خود کرنا ہوگا۔"
زارا کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ اس میں اتنی ہمت کہاں سے آئی تھی اس نے بے ساختہ صاریہ کی کلائی تھام کر اسے روکا تھا اور خود بالکل اس کے عین سامنے جاکھڑی ہوئی تھی۔ اس کی جرات پر صاریہ کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئی تھیں۔
" اور آپ کو یہ غلط فہمی کیوں کر ہے صاریہ جی کہ میجر جبرئیل آپ کے ہیں میں نے تو ان کا آپ میں ایسا کوئی انٹرسٹ نہیں دیکھا۔"
زارا کے لہجے کی کاٹ اور طنز نے صاریہ کے اندر جھکڑ برپا کردیے تھے۔ وہ ابھی کچھ بولنے ہی والی تھی جب زارا پھر سے گویا ہوئی تھی۔
" یک طرفہ محبت کی راہ ایک ایسا سراب ہے جس کے پیچھے بھاگتے ہوئے آپ کا جذبہ نہیں قدم تھکتے ہیں صاریہ جی! جذبے تو تب تھکتے ہیں جب محبوب کا رد کردیا جانا قلب بشر قبول کرتا ہے اور یقین جانیے اس لمہے صرف افسوس اور پچھتاوے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا اور جانتی ہیں وجہ کیا ہوتی ہے؟"
اس نے اس سے پوچھ کر کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کیا تھا مگر جب وہ خاموش رہی تو وہ خود ہی گویا ہوگئی تھی۔
" کیونکہ افسوس غالب آجاتا ہے کہ ایک ایسے شخص کے پیچھے اپنی بے قدری کی جسے زندگی میں آپ کے ہونے نا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے دعا اور کوشیش کرنا اچھی بات ہوتی ہے لیکن تقدیر سے لڑ جانے کے دعوے پتھروں سے ٹھوکر لگ کر زخمی ہونے کے مترادف ہوتے ہیں۔"
وہ صاریہ کو حیرت میں چھوڑ کر وہاں سے تیزی سے نکل گئی تھی جبکہ صاریہ حیرت میں ڈوبی ہوئی تھی کہ ایک چھوٹی سی لڑکی کیسے اسے حقیقت کا آئینہ دکھا گئی تھی لیکن کبھی کبھی انسان سب کچھ جانتے ہوئے بھی آنکھیں بند کرکے انجان بن جاتا ہے اور یہی صاریہ کررہی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ غلط ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے غلط کو صیح کرنے پر بضد تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پینٹ ہاوس میں دیوار گیر ایل آی ڈی پر کوئی پریس کانفریس چل رہی تھی اور ایل ای ڈی کے سامنے رکھی کمفٹ چئیر پر سگریٹ کے کش لگاتی وہ ہلکی مسٹڈ شلوار قمیض پر سفید دوپٹہ لیے بال کھولے بیٹھی ہوئی تھی۔ ایل ای ڈی پر نظر آتا شخص مسلسل اس کی نظروں کے حصار میں تھا ایس۔کے اسے پلکیں جھپکے بغیر مسلسل دیکھ رہی تھی شاہد بہت دنوں بعد دل پر بنی ہوئی تصویر سامنے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔
وہ بغیر کسی حرکت کے بالکل ساکن سامنے دیکھ رہی تھی۔ ٹی وی پر موجود وجود نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا ایس۔ کے بے ساختہ مسکرائی تھی غلام بخش جو کسی کام سے اس کے پاس آرہا تھا اسے مسکراتا ہوا دیکھ کر وہی رک گیا تھا۔ اس نے بہت عرصے بعد ایس۔کے کو دل سے مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ بہت غور سے ایس۔کے کو دیکھا تھا وہ پندرہ سال سے ایس۔کے کے ساتھ تھا تب سے جب وہ بے حد معصوم ہوا کرتی تھی وہ سمجھتا تھا کہ غلاموں کو محبت کا کوئی حق نہیں ہوتا مگر غلام بخش یہ بات خود سے بھی چھپاتے چھپاتے تھک چکا تھا کہ پندرہ سال سے وہ ایس۔کے کی محبت میں گرفتار تھا اسے بے حد قریب سے دیکھنے اور جاننے والا صرف اور صرف وہی تھا۔
محبت کے باوجود وہ ایس۔کے کو اس کی محبت مل جانے کی دعائیں کرتا تھا۔ اسے تکلیف ہوتی تھی جب ایس۔کے سگریٹ کے دھویں اور شراب کے نشے کو بغیر دریغ اپنے اندر اتارتی تھی اور پھر اس کے لیے تکلیف کے لمہات بڑھ جاتے تھے جب ضرورت سے زیادہ سگریٹ اور شراب کے استعمال سے بھی وہ ہوش کا ایک ذرہ بھی نہیں کھوتی تھی۔ بعض اوقات غلام بخش کو لگتا جیسے سگریٹ اور شراب ہی اس کی زندگی میں راحت کے واحد سکون آور ہتھیار ہیں جنہیں وہ اپنے جسم کے اندر اتارتی اور کچھ لمہوں کے لیے پرسکون ہوجاتی ورنہ بے سکونی کے لمہات میں وہ ہر وقت شدت پسند ہوتی تھی جن لڑکیوں اور لوگوں کو وہ اٹھواتی ان پر ظلم و ستم کے ڈھیروں پہاڑ توڑتی اور دل جب پھر بھی پرسکون نہ ہوتا تو اپنے نازک ہاتھوں میں بندوق تھام کر گولیوں سے اوروں کا سینہ چھلنی کردیتی۔
اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا تھا وہ اس سب کی زمہ دار کچھ لوگوں کو گردانتی تھی اور اپنا غصہ وہ معصوموں پر نکال کر پرسکون محسوس کرتی تھی۔ ایس۔کے ایک ایسا نام تھا جو دنیا کی نظر میں بے حد پوشیدہ تھا وہ پندرہ سال سے دنیا کی نظروں سے کہیں غائب تھی۔ ایس۔کے ایک ایسا نام بن چکا تھا جو اپنی مرضی سے لوگوں کو اپنے اشارے پر چلاتا تھا اور بدلے میں بھی اتنا ہی پوشیدہ تھا جتنا اس سے پہلے۔
وہ ابھی بھی ٹی وی سکرین کو دیکھ رہی تھی اس کے چہرے پر وہی دل چھو لینے والی مسکراہٹ تھی وہ اپنے یونی فارم میں ملبوس آنکھوں پر سیاہ شیڈز لگائے کھڑا مائیک میں کچھ بول رہا تھا۔ ایس۔کے اس لمہے انٹرنیشنل چینل لگائے بیٹھی تھی جہاں اس کی پریس کانفرنس دنیا بھر میں دیکھائی جارہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ٹی۔وی سکرین پر نظر آنے والے وجود کا ایک ایک نقش چرا کر اپنے پاس سمبھال لے وہ مکمل طور پر اس شخص کی شخصیت کے اثر میں کھوئی ہوئی تھی اتنی کہ اسے یہ تک پتہ نہیں چلا کہ اس کی پریس کانفرس کی جگہ اب نیوز کاسٹر آچکی تھی غلام بخش نے آگے بڑھ کر ریموٹ سے ٹی وی بند کیا تھا وہ ایک دم ہوش کی دنیا میں واپس آئی تھی۔
" کبھی کبھی جب آپ خیالوں کی دنیا میں جاتی ہیں نہ تو ایک عام عورت لگتی ہیں؟"
غلام بخش نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
" عام عورت اور مجھ میں کیا فرق ہے غلام بخش!"
اس نے سوال پوچھ کر سر کرسی کی پشت سے ٹکالیا تھا فضا میں خاموشی
کا راج تھا شاہد وہ غلام بخش کے جواب کی منتظر تھی مگر جب کچھ دیر بھی اس کا جواب نہ آیا تو وہ بول پڑی۔
" جب تم خاموش ہوتے ہو نہ تو مجھے تمہاری خاموشی سے خوف محسوس ہوتا ہے غلام بخش!"
اس نے آنکھیں موندے ہی آہستگی سے کہا تھا۔
" عام عورت ایک مومی گڑیا ہوتی ہے جس میں جذبات کا ایک ٹھاٹے مارتا سمندر ہوتا ہے جب کہ آپ ایک ٹھہرا ہوا سمندر ہیں جو جتنا پرسکون ہے اتنا ہی گہرا اور خطرناک بھی جس میں جھانکنے کی کوشیش ہی خود میں نگل لیتی ہے اور پھر ایسا نگلتی ہے کہ نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔"
غلام بخش کے لہجے کے سکون نے ایس۔کے کو قہقہ لگانے پر مجبور کیا تھا۔
" یعنی کہ تم کہنا چاہ رہے ہو کہ مومی گڑیا قاتل ہے؟"
وہ ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہورہی تھی۔
" میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ مومی گڑیا سمندر ہے۔"
غلام بخش نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
" اور اگر اس سمندر نے تمہیں ہی سب سے پہلے نگل لیا تو پھر کیا کہو گئے تم؟"
وہ پتہ نہیں اس سے کیا پوچھنا چاہ رہی تھی۔
" تو میں خوشی خوشی اس سمندر کا نوالہ بن جاوں گا کیونکہ جہاں چاہ ہوتی ہے وہاں سوال نہیں ہوتا وہاں صرف ہاں ہوتی ہے یا پھر نہ ہوتی ہے نہ بھی اسی صورت میں صرف جب فائدہ چاہ کا ہوتا ہے۔"
اس نے ہاتھوں کو باہم پھنسا کر کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا اسے بھی لگ رہا تھا کچھ دیر اور بیٹھا تو کہیں دل کا چور زبان پر عیاں نہ ہوجائے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سیاہ اینٹوں والے تحہ خانے میں آج ایک ہفتے بعد کھانے کی پلیٹ آئی تھی اب سے پہلے صرف اسے اتنا دیا جاتا جتنا اسے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوتا لیکن آج ایسا ہوا تھا کہ پلیٹ میں وافر مقدار میں کھانا موجود تھا۔ آرا کو کھانے میں ہمشہ کی طرح بالکل بھی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ وہ کھانے کی بھری ہوئی پلیٹ دیکھ کر بے ساختہ مسکرائی تھی۔
" واہ رہے اپنے مطلب کی خاطر تو لوگ فقروں کو بھی بادشاہ سمجھ لیتے ہیں۔"
اس نے مسکرا کر پلیٹ اپنی جانب کھسکائی تھی اور اس میں سے نوالہ لیا تھا۔ ہر ہفتے کی طرح آج پھر سے سیاہ اینٹوں کے سرد تحہ خانے کی اندھیری سیڑھیوں سے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی اور پھر ہمشہ کی طرح فرش پر سیاہ ابھرا تھا۔ آرا نے اس شخص کی آمد میں کوئی بھی دلچسپی محسوس کیے بغیر اپنا سارا دھیان کھانے کی پلیٹ کی جانب ہی رکھا تھا۔
" بڑی بے مروت ہو تم آج کھانا دیکھ کر میرا انتظار کرنا بھی بھول گئی تم؟"
وہ اس کے سامنے پیروں کے بل بیٹھ گیا تھا۔
" ہاہا! میں اور تمہارا انتظار بہت خوش فہمی ہے تمہیں اپنے بارے میں ویسے وہ ایک زمانہ ہی تھا جب یہ آرا سارا سارا وقت تمہارا انتظار کیا کرتی تھی اور تم! تمہیں اپنی رنگ رلیوں سے فرصت نہیں ملا کرتی تھی اب وہ زمانے گزر گئے ہیں نوریز جب یہ آرا تمہارا انتظار کیا کرتی تھی اب تو صرف نفرت ہے وہ بھی ایسی کہ تم مجھے اب کھولو اور میں تمہاری بوٹیاں کرکے چیل کووں کو کھلا دوں اور افسوس کا ایک لمہہ بھی مجھ پر حاوی نہیں ہوگا۔"
آرا کا لہجہ زہر میں بجھا ہوا تھا جس سے سامنے بیٹھے نوریز کی رگیں تن رہی تھیں۔
" زارا کہاں ہے آرا میں پھر تم سے پوچھ رہا ہوں؟"
اس نے ایک بار پھر سے اس کا منہ تھوڑی سے پکڑ کر بلند کیا تھا۔
" زارا تک تو تم کبھی بھی نہیں پہنچ پاو گئے نوریز اب وہی ہے جو تم جیسے ناسور کا خاتمہ جڑ سے کرے گی اور یقین جانو اسے تمہیں مارتے ہوئے زرا بھی تکلیف نہیں ہوگی کہتے ہیں کہ انسان وہی کاٹتا ہے جو اس نے بویا ہوتا ہے تو سمجھ لو نوریز تمہیں بھی وہی کاٹنا ہے جو تم نے زندگی بھر بویا ہے۔"
آرا کے کہنے کی دیر تھی نوریز نے اس کے منہ پر بے دریغ تھپڑوں سے وار کیا تھا نوریز کے بھاری ہاتھ آرا کے نحیف وجود پر کسی فولاد کی طرح برس رہے تھے۔
" اپنی بکواس بند کر اور جہاں تک بات رہی زارا کی تو اسے تو میں ڈھونڈ ہی نکالوں گا اور یاد رکھنا آرا اگر ایک بار وہ مجھے مل گئی نہ تو اس کا وہ حال کروں گا کہ میرا خاتمہ کرنے سے پہلے اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔"
وہ نفرت سے کہتا ہوا اس کے قریب سے اٹھا تھا اور جاتے جاتے زور سے اپنے بھاری جوتے سے اس کے پیٹ میں وار کر گیا تھا۔ آرا کی کراہ سے پورا تحہ خانہ گونج اٹھا تھا اب ایک اور رات وہاں آرا کی سسکیاں گونجنی تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کچھ دیر بعد دانش واپس آرون کے آفس میں داخل ہوا تھا اس کے ہاتھ میں اس لمہے ایک سفید کاغذ بھی موجود تھا جس میں شاہد سرمد کا پتہ اور نمبر تھا۔ اس نے مودب بن کر وہ کاغذ آرون کی میز پر رکھا تھا اور اجازت لے کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔
" رون! "
سبتین نے ایک فائل دیکھتے ہوئے آرون کو مخاطب کیا تھا۔
" ہوں!"
آرون جو کہ کاغذ دیکھنے میں مگن تھا فوری اس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
" یہ دیکھو 2006 میں تقریبا زیادہ تر کیسز اغوا کے تھے جس میں نشانہ عورتوں کو بنایا گیا تھا۔"
سبتین نے ایک فائل اس کی جانب بڑھائی تو اس نے بھی سیدھے ہوتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ فائل کی جانب مبذول کرلی ۔ آرون فائل دیکھنے میں مگن تھا جب اچانک اس کی نظر ایک تاریخ پر پڑی تھی جو اس کے بابا کے شہید ہونے سے تقریبا ایک مہینے پہلے کی تھی۔ فائل میں ساری تفصیل درج تھی جس کے مطابق یہ کیس آرمی بھی الگ سے دیکھ رہی تھی۔
اس نے وہ فائل ایک طرف کی تھی اور اپنی چابیاں اور والٹ اٹھا کر کھڑا ہوا تھا۔
" کہاں جارہے ہو تم؟"
سبتین نے حیرت میں ڈوب کر اس سے پوچھا تھا۔
" غلام دین کے گھر۔"
اس نے کہا اور باہر کو نکل گیا سبتین بھی اس کے پیچھے ہی باہر نکلا تھا۔ دونوں پولیس جیپ میں بیٹھ کر کاغذ پر درج پتے پر پہنچے تھے۔ وہ ایک خوبصورت دس مرلے کا گھر تھا جو انتہائی خوبصورتی سے بنایا گیا تھا۔ آرون نے جیپ اس گھر کے باہر پارک کی تو دونوں اتر کر گھر کے گیٹ کی جانب بڑھ گئے جس پر سرمد ریٹائڈ ڈی۔ایس۔پی کی پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ اس نے گہرا سانس بھر کر خود کو کمپوز کیا تھا اور بیل بجائی تھی۔ نجانے کیوں اس لمہے ان دونوں کی ہی دھڑکنیں بے قابو ہورہی تھی عجیب وہم اور وسوسے انہیں ستا رہے تھے کہ نجانے اب کونسی حقیقت ان کی منتظر تھی۔
کچھ ہی لمہوں بعد گیٹ کھلا تھا اور ایک ادھیڑ عمر شخص باہر نکلا تھا چونکہ وہ دونوں پولیس کی وردی میں تھے اس لیے اس نے مودب بن کر دونوں کو سلام کیا تھا۔
" جی صاحب کس سے ملنا ہے آپ کو؟"
اس شخص نے ان دونوں کو نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے پوچھا تھا۔
" سرمد صاحب کا گھر یہی ہے کیا؟"
سبتین نے اس سے پوچھا تھا جس پر اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
" کیا وہ گھر پر ہیں اس وقت اصل میں ہمیں کسی ضروری کام کے سلسلے میں ان سے ملنا تھا۔"
آرون نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
"ایک منٹ میں ان سے پوچھ کر آتا ہوں تب تک آپ یہی پر انتظار کریں۔"
وہ کہہ کر اندر کی جانب بڑھ گیا تھا تقریبا پانچ منٹ بعد وہ واپس آیا تھا۔
" صاحب آپ لوگوں کا اندر انتظار کررہے ہیں آیے میرے ساتھ!"
اس نے ان دونوں کے آگے چلتے ہوئے کہا تھا وہ دونوں بھی اس کی تقلید میں چل دیے تھے۔ چھوٹا سا لان عبور کرکے ایک راہداری تھی جس پر چل کر ایک لکڑی کا دروازہ آتا تھا۔ اس شخص نے ان سے پہلے وہ دروازہ کھولا تھا۔ شاہد وہ اس گھر کا ڈرائینگ روم تھا جو کہ بہت ہی اچھے انداز سے سجایا گیا تھا۔ اس کی ہر چیز خریدنے والے کے اعلی ذوق کی گواہ محسوس ہورہی تھی۔
وہ دونوں ایک جانب رکھے ہوئے ٹو سیٹر صوفے پر ریلیکس انداز میں بیٹھ گئے تھے۔ ابھی انہیں بیٹھے چند لمہے ہی بیتے تھے جب ڈرائینگ روم کے دروازے سے قدموں کی چاپ ابھری تھی۔
وہ بہت پراثر شخصیت کے حامل انسان تھے دراز قد گھنی موچھیں بارعب شخصیت ان دونوں نے اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر انہیں سیلوٹ کیا تھا جس کا مسکرا کر جواب دیا گیا تھا۔
" سوری میں نے آپ لوگوں کو پہچانا نہیں۔"
انہوں نے الجھ کر ان سے کہا تھا۔
" سر وہ اس لیے کہ آج سے پہلے ہم ملے ہی نہیں۔"
آرون نے ان کی جانب متوجہ ہوکر ان سے کہا تھا۔
" تو پھر آپ لوگ یہاں میرا مطلب!"
وہ خاصے الجھے ہوئے لگ رہے تھے۔
" اصل میں سر ہم آپ سے تیرہ سال پہلے پیش آنے والے چند واقعات کے بارے میں جاننے آئے تھے۔"
وہ دونوں یونیفارم میں ہونے کی وجہ سے وہاں اس طرح سے بات کر رہے تھے۔
" آپ لوگ ہیں کون؟"
اب کی بار انہوں نے باضابطہ سنجیدگی سے پوچھا تھا۔
" اصل میں سر جس تھانے سے آپ ریٹائیڈ ہوئے ہیں میں نے باضابطہ طور پر آج ہی ایس۔پی کی حیثیت سے اس کا چارج سمبھالا ہے۔"
آرون نے انہیں تفصیل سے بتایا تھا۔
" تو چارج آپ آج سمبھال رہے ہیں مگر تفصیل تیرہ سال قبل کیس کی جاننے آئے ہیں۔"
سرمد نے حیرت سے اس سے پوچھا تھا۔
" سر! تیرہ سال پہلے ایک کیس آیا تھا آپ کے ہی تھانے میں جس میں مختلف عورتیں یہاں پشاور سے اغوا کی گئی تھیں لیکن اس سے پہلے کشمیر میں بھی بہت سی عورتیں اغوا ہوچکی تھیں ان کیسز کو آئی تھنک 1990 کے بعد ری اوپن کیا گیا تھا کیونکہ وہی مسئلہ تب شروع ہوا تھا اور وہی مسئلہ اب پھر سے شروع ہوگیا ہے۔ اس کیس کو آی ایس پی آر افیسرز میں سے کون دیکھ رہا تھا اور پھر کیا ہوا تھا؟"
آرون کو خود سے جتنی معلومات تھی اس نے ان کے گوش گزار کی تھی جسے وہ بڑے ہی تحمل سے سن رہے تھے اس کی بات مکمل ہونے کے بعد وہ آرون کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
" تمہارا اس کیس سے کیا لینا دینا ہے؟ تم کیوں جاننا چاہتے ہو یہ سب؟"
ڈی ایس پی سرمد غصے میں آگئے تھے۔
" سوری سر اگر آپ کو برا لگا ہو تو مگر یہ سب میرے لیے جاننا بہت ضروری ہے تیرہ سال پہلے ایسے ہی کسی کیس میں میرے بابا کی شہادت ہوئی تھی اور اس کے اگلے ہی سال اسی کیس میں میرے چچا بھی شہید ہوگئے تھے۔"
آرون کے لہجے میں افسردگی کا عنصر صاف محسوس کیا جاسکتا تھا۔
" میں خود اس کیس پر کام کرنا چاہتا ہوں اور ان کے مجرموں کو پھانسی کے تختے تک لے کر جانا ہے مجھے۔"
اس کا نوجوان خون جوش مار رہا تھا باپ کی موت کا بدلہ لینے کے جنون نے اس کے اندر سر اٹھایا تھا۔
" کیا نام تھا تمہارے باپ کا؟"
انہوں نے اب کی بار اس کی بات میں بھرپور انداز میں دلچسپی دیکھائی تھی۔
" برگئیڈئیر ابرائیم!"
آرون نے دھیمی آواز میں کہا تھا۔ لیکن مقابل ایسے تھا جیسے کسی نے اس کو سانپ سونگھا دیا ہو مانو کہ جسم میں کاٹو تو لہو کا قطرہ بھی میسر نہ آئے۔
****************
کمال ولا کی سٹڈی آج اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی جس سے یہ ثابت ہورہا تھا کہ وہاں کا مکین روشنی سے تنگ آگیا ہے اس لیے روشنی کے ہوتے ہوئے بھی اندھیرے کو ترجیح دے رہا ہے۔ مکمل اندھیرا بھی اس کے اعصاب پر صیح ثابت نہیں ہوتا تھا اس لیے کہیں کہیں کتابوں کے ریکس کی ابھری ہوئی پٹیوں پر جلتی ہوئی موم بتیاں روشن تھیں جو اس وسیع و عریض سٹڈی کے ماحول کو خاصہ خواب ناک اور پر اسرار بنا رہی تھیں۔
راکنگ چئیر پر اس سٹڈی کے مکین کا وجود ہاتھوں میں سگار دبائے جھول رہا تھا۔ آنکھیں شدت ضبط سے لال انگارہ ہورہی تھیں۔ سائیڈ میز پر رکھا ہوا اس کا فون مسلسل چیخ رہا تھا اور سٹڈی میں موجود سکون کو غارت کررہا تھا۔ داور کمال نے بیزاری سے فون اٹھایا تھا لیکن اوپر موجود نام نے ان کی آنکھیں پوری طرح سے کھول دی تھیں۔
" نہ۔نہیں علینہ کسی ہندو سے شادی نہیں کرے گی کر بھی لے تو تمہارا کیا جاتا ہے؟"
دوسرہ طرف سے شاہد علینہ کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔
" تم اپنے کام پر دھیان دو صرف علینہ کی فکر چھوڑ دو میں سمبھال لوں گا اسے بھی اور اس کی ماں کو بھی۔"
اب کی بار ان کے لہجے میں لاپرواہی تھی۔
" اچھا بھئی دونوں کو کچھ نہیں کروں گا صرف علینہ کو ڈھونڈ نکالوں گا۔"
ان کے لہجے میں ایک دم خوف کی لہر ابھری تھی۔
کیونکہ فون کے پار انسان ان کا بازو تھا جس کے ماسٹر مائینڈ دماغ کی بدولت ہی وہ اپنے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچا پاتے تھے اور اب انہیں خوف تھا کہ اگر انہوں نے اس کی بات ٹالی تو جو سب کچھ بنانے کی طاقت رکھتی ہے تو سب کچھ تباہ کرنے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔ وہ وجود داور کمال کے لیے ایسا تھا جیسے اپنے ہی شاگرد کو اپنے سارے گن سکھانے کے بعد استاد اسی کی شاگردی کا محتاج ہوجائے۔ وہ عجیب سی سوچ میں گھرے ہوئے تھے جب سٹڈی کا دروازہ دھکیل کر گرین سلک کی ساڑھی انتہائی مختصر بلوز کے ساتھ پہنے ہاتھوں میں دو کافی کے مگ تھامے صمن بیگم اندر داخل ہوئی تھیں۔ انہوں نے کافی کا مگ سائیڈ میز پر رکھا تھا اور خود اپنا مگ لے کر سائید پر رکھے صوفے پر بیٹھ گئی تھیں۔
" تم یہاں کیوں آئی ہو؟"
انہوں نے آنکھیں بند کیے ہوئے ہی ان سے پوچھا تھا۔
" مجھے لگا آپ کو کافی کی ضرورت ہے اس لیے میں خود لے کر آگئی۔"
انہوں نے اپنے مگ میں سے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تھا۔
" تمہاری بیٹی سے بات ہوئی تمہاری؟"
انہوں نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا تھا۔
" وہ آپ کی بھی بیٹی ہے۔"
صمن بیگم نے منہ بنا کر کہا تھا۔
" کب گھر آرہی ہے وہ؟''
ان کے لہجے کی لاپرواہی نے صمن بیگم کو اتھاہ تکلیف میں مبتلا کردیا تھا۔
" آپ نہیں جانتے کیا کہ وہ اب گھر نہیں آئے گی میری بیٹی کسی ہندو سے شادی کرلے گی۔"
ان کے آنسو ان کی آنکھوں سے یک لخت ہی چھلک پڑے تھے۔
" خاموش کر جاو صمن ہر وقت جاہل عورتوں کی طرح رونا دھونا مت شروع کردیا کرو اور وہ کسی ہندو سے شادی کر بھی لے تو کیا مسئلہ ہے تمہیں ہم ان کے ملک،ان کے شہر میں رہتے ہیں۔"
انہوں نے کندھے اچکاتے ہوئے اتنے آرام سے کہا تھا جیسے یہ کوئی بات ہی نہ ہو۔
" کمال کی بات ہے ویسے داور کمال کہ تم اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بیٹی کو ان ہندوں کے آگے بیچنے کی بات کررہے ہو؟''
وہ چہرے پر بے یقینی کی کیفیت طاری کیے ہوئے ان سے کہہ رہی تھیں وہ داور کمال کے کاروبار سے یکسر انجان تھیں وہ ان عورتوں میں سے تھیں جنہیں بس پیسے سے مطلب تھا چاہے اس کا ذریعہ کوئی بھی ہو۔
" بکواس بند کرو صمن مت بھولو کہ تمہاری بیٹی خود اس ہندو کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی مانند گر رہی ہے میں نے اسے بولا تھا کہ کسی ہندو سے عشق کی پینگیں بڑھائے نہیں نہ؟ تو کرنے دو جو کرتی ہے جب در در کی خاک چھانے کی تو خودی عقل واپس آجائے گی۔"
وہ ہلکے پھلکے انداز میں اپنی ہی بیٹی کے لیے گفتگو کررہا تھا۔
" تمہیں خوف نہیں آرہا داور کمال؟"
انہوں نے چہرے پر حیرت سمو کر ان سے پوچھا تھا۔
" کس چیز کا خوف؟"
کافی کے بعد اب داور کمال سگار کے گہرے کش لگا رہے تھے۔
" وہی خوف کہ جو تم نے میری بیٹی کے ساتھ کیا کہیں تمہاری بیٹی کے ساتھ نہ ہوجائے۔"
صمن بیگم کے لہجے میں بلا کی کاٹ تھی جس کے باعث داور کمال کو صرف ہوش میں آنے میں ایک لمہہ لگا تھا۔ سائیڈ میز پر رکھا ہوا کافی کا خالی مگ اٹھا کر انہوں نے پوری قوت سے صمن بیگم کی جانب اچھالا تھا جس کی نوک سیدھی ان کے ماتھے پر جالگی تھی۔ تکلیف سے ان کی چیخ بلند ہوئی تھی اور اسی کے ساتھ کپ فرش پر گر کر چکنا چور ہوگیا تھا۔
" آئیندہ کوئی بھی بکواس کرنے سے پہلے یہ تکلیف یاد کرلینا تمہارے حق میں بہتر ہوگا اب دفع ہو جاو یہاں سے۔"
انہوں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں ان سے کہہ کر سٹڈی کے دروازے کی جانب اشارہ کیا تھا جسے پاتے ہی وہ اپنا دایاں ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھ کر خون روکنے کی ناکام کوشیش کرتے ہوئے باہر کو بھاگی تھیں جہاں سے سونیتی نے انہیں تھاما تھا اور ان کے کمرے میں لے گئی تھی۔
**********************
زارا کی باتیں صاریہ کے دل میں کہیں تو تھیں لیکن کہاں یہ اسے فل حال سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
" محبت سے دسبردار ہو جاوں یہ چاہتی وہ چھٹانک بھر کی لڑکی؟"
وہ خود سے ہمکلام تھی۔
" نہ۔۔۔نہیں جبرئیل صرف میرا ہے میں اسے زارا کا کبھی بھی نہیں ہونے دوں گی وہ چاہتی ہے میں جبرئیل اور اس کے راستے سے ہٹ جاوں تاکہ وہ میری جگہ پر قابض ہوجائے نہ زارا بی بی ایسا تو صاریہ کبھی بھی نہیں ہونے دے گی بس اب تم دیکھتی جاو کہ میں تمہارے ساتھ کیا کرتی ہوں تمہاری سات نسلیں اس خواہش پر نہ پچھتائی نہ تو میرا نام بھی صاریہ نہیں۔"
وہ کہہ کر جلدی سے اٹھی تھی اور واشروم کی جانب گئی تھی اس کا ارادہ اپنا منہ ہاتھ دھو کر فریش ہونے کا تھا۔
لان میں گولیوں کی تھرتھراہٹ گونج رہی تھی رات کے سناٹے میں گولیوں کا شور کمرے میں سوئی ہوئی زارا کے حواس بیدار کر گیا تھا کچھ وقت پہلے کا عرصہ اس کے ذہن کی سکرین پر نمودار ہوا تھا جس نے اس کے پورے وجود میں خوف و ہراس بھر دیا تھا اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کانپ رہی ہو اور یہ سچ بھی تھا کہ اس کا پورا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا اس کے بال اس لمہے کھولے ہوئے رومال سے آزاد تھے وہ اپنے بستر سے نیچے اتری تھی پیروں میں سلیپر پھنسا کر وہ گیسٹ روم کا دروازہ کھول کر باہر نکلی تھی پورا گھر اندھیرے میں نہایا ہوا تھا ہر جانب سناٹے کا راج تھا۔ وہ شدید حیرت میں مبتلا ہورہی تھی کہ اتنی زیادہ گولیوں کے باوجود گھر کے کسی فرد کی آنکھ کیوں نہیں کھلی کوئی بھاگ دوڑ کوئی خوف و ہراس کیوں نہیں پھیلا وہ دوپٹے سے بے نیاز آگے بڑھ رہی تھی۔ لان کی جانب کھلتے ہوئے دروازے کے ہینڈل پر اس کی گرفت مضبوط ہوئی تھی اس نے تجسس اور دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں زور سے میچ کر دروازہ کھولا تھا اور باہر آئی تھی۔ پورا لان بھی اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا مگر گولیوں کی تھرتھراہٹ ویسے ہی جاری و ساری تھی۔ وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھا کر آگے بڑھ رہی تھی اچانک اس کی نظر سامنے پڑی تھی وہ پشت سے آسانی سے پہچان سکتی تھی کہ گولیاں چلانے والا وجود کس کا ہے۔ وہ عام سے حولیے میں ٹراوزر کے اوپر ٹی شرٹ پہنے بغیر کسی سوئیٹر اور جیکٹ کے ہاتھ میں اپنی نائن ایم ایم کی پسٹل سے سامنے موجود بورڈ پر نشانے لگانے میں مصروف تھا اس کے کانوں میں ہیڈ فون ہونے کی وجہ سے وہ بہت آرام سے نشانے لگا رہا تھا۔ گھر میں سب جانتے تھے کہ وہ اسی طرح رات میں ٹارگٹ کیلینگ کی پریکٹیس کرتا تھا اس لیے سب آرام سے سو رہے تھے لیکن زارا اس بات سے بالکل ہی انجان تھی۔ جبرئیل کو دیکھ کر زارا کا سانس کچھ بحال ہوا تھا جب سانس بحال ہوا تو اسے اپنی حالت کا اندازہ ہوا تھا کہ وہ کس حولیے میں باہر کھڑی تھی اگر جبرئیل مڑ جاتا اور اسے اس طرح دیکھتا تو اس کے لیے کس قدر شرمندگی کا مقام ہوتا لیکن بعض اوقات آپ جو سوچتے ہو وہی ہو جاتا ہے جبرئیل بھی اسی لمہے پلٹ گیا تھا زارا اچھا خاصہ شرمندہ ہوئی تھی اور شرمندگی کے مارے نظریں جھکا گئی تھی۔ جبرئیل نے ہیڈ فون اتار کر لکڑی کی میز پر رکھے اور اس کے قریب آگیا۔
" پیچھے ٹیبل پر میری شال پڑی ہوئی ہے وہ اوڑھ لیں۔"
اس نے زارا کے پیچھے رکھے میز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ وہ ایک لمہے کی بھی تاخیر کیے بغیر پیچھے مڑی تھی جہاں جبرئیل کی سیاہ شال رکھی ہوئی تھی زارا نے جلدی سے وہ شال اٹھا کر اوڑی تھی تب تک وہ اس کے قریب آگیا تھا۔
" آپ اس وقت باہر کیا کررہی ہیں؟"
اس نے پسٹل میز پر رکھتے ہوئے کہا تھا اب اس نے کافی کا بھاپ اڑاتا مگ اٹھایا تھا اور اس میں سے چند گھونٹ بھرے تھے۔
" وہ۔۔وہ میں ڈر گئی تھی مجھے لگا وہ لوگ یہاں بھی آگئے ہیں۔"
وہ سانس روکے انتہائی خوفزدہ لہجے میں اسے بتا رہی تھی۔
" یہاں بیٹھیں زارا اور میری بات سنیں دھیان سے۔"
اس نے کرسی کی جانب اشارہ کیا تھا اور خود اپنا مگ لے کر اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
" آپ جانتی ہیں کہ آپ اس وقت کہاں ہیں؟"
اس نے اس کی جانب نگاہیں مرکوز کیے ہوئے ایک ابرو اچکا کر اس سے پوچھا تھا جس پر بے ساختہ زارا نے نفی میں سر ہلایا تھا۔ جبرئیل نے فضا میں ایک گہرا سانس خارج کیا تھا اور پھر اس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
" آپ اس وقت پشاور کے ملٹری ایریا میں واقع میجر جبرئیل کے گھر پر ہیں جہاں کوئی آدمی تو دور کی بات ہے چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی سمجھی آپ؟"
اس نے دونوں ہاتھ فولڈ کرتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" جہ۔جی ۔"
اس نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
" یو ار فری ٹو ٹیک بریتھ ان دیس ہاوس ناو گو اینڈ ٹیک آ گڈ سلیپ۔"
اس نے انتہائی ٹھہرے ہوئے لہجے میں اس سے کہا تھا اور خود ٹیبل پر رکھا اپنا ہیڈ فون اور گن اٹھا کر اندر کی جانب بڑھ گیا تھا کچھ لمہے وہاں کھڑے رہنے کے بعد زارا بھی اس کے پیچھے اندر چلی گئی تھی۔
اپنے کمرے میں آکر جبرئیل نے گن اور ہیڈ فون سائیڈ میز پر رکھے اور واشروم میں فریش ہونے چلا گیا تقریبا پانچ منٹ بعد وہ واپس آیا تھا۔ اپنے بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے اس کی سوچ کا محور زارا کی ذات تھی۔ کچھ حادثات آپ کو کتنا بزدل بنا دیتے ہیں یا شاہد یہ کہنا زیادہ صیح رہے گا کہ کچھ حادثات آپ کو کمزور کردیتے ہیں کہ ان حادثات میں آپ نے وہ کھویا ہوتا ہے جو آپ کی کل حیات کی قیمتی متہ ہوتی ہے اور جب ہم کوئی قیمتی چیز یوں کھو دیتے ہیں تو خود بخود دل کمزور ہوجاتا ہے اسے بھی یاد تھا جب اس نے اپنا باپ کھویا تھا کتنی راتوں تک وہ سو نہیں پایا تھا اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے اسے برہنہ کردیا ہو اس کا مضبوط سایہ اس سے چھین لیا ہو وہ پھر بھی خوش قسمت تھا کیونکہ اس کے پاس اس کی ماں موجود تھی لیکن زارا اس کے پاس تو تھی ہی صرف ماں وہ بھی کسی نے انتہائی سفاکی سے اس سے چھین لی تھی۔ ایک دم جبرئیل اشتعال میں آیا تھا اپنے باپ اور چچا کی موت اسے ایک بار پھر شدت سے یاد آئی تھی اور اسی کے ساتھ اس کے خون میں بدلہ لینے کا جوش ابھرا تھا لیکن وہ ایک عام انسان نہیں تھا جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا وہ ایک فوجی تھا جس کی رگ رگ میں ملک و قوم کی خدمت گردش کررہی تھی بدلہ تو اس نے ایسا لینا تھا کہ قاتل کی سات پشتیں یاد رکھتی نجانے کب سوچتے سوچتے وہ نیند کی وادیوں میں اتر گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اس کی ڈیوٹی اب بھی کشمیر میں ہی تھی وہ مسلسل تین دن سے جاگ رہا تھا ایک کے بعد ایک لڑکی غائب ہورہی تھی لیکن کوئی بھی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ اس لمہے وہ تینوں یونٹ سے نکل رہے تھے۔
" کیا بات ہے سر از ایوری تھیبگ آلرائیٹ؟"
طراب نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے اس سے پوچھا تھا جس پر احسن نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔ اسامہ ، طراب اور احسن کشمیر باڈر کی جانب جارہے تھے۔
" یس میجر طراب آئی ایم فائن۔"
لہجے میں پھر سے ایک عجیب سا تاثر تھا جو وہ دونوں محسوس کیے بغیر نہیں رہ پائے تھے۔
" سر آپ ٹھیک نہیں لگ رہے ہیں کیا کیس کی ٹینشن ہے؟"
اسامہ نے بھی اپنے مطابق پوچھ ڈالا تھا۔
" ارے نہیں یار کیس کی ٹینشن تو ہے ہی وہ تو انشاءاللہ اللہ نے چاہا تو ہم نے حل کر لینا ہے تم لوگ یہ بتاو کہ جبرئیل سے بات ہوئی تم لوگوں کی؟"
اب کی بار اس نے بات شدید ٹالنے کی کوشیش کی تھی اور وہ اس میں کافی حد تک کامیان بھی ہوگیا تھا کیونکہ جبرئیل ایک ایسا موضوع تھا جس پر وہ دونوں نان سٹاپ بول سکتے تھے۔
" یس سر وہاں کے کام نمٹا کر وہ کل یہی آرہا ہے واپس۔"
طراب نے پرجوش طریقے سے کہا تھا۔
" چلو شکر ہے اب کل سے باقاعدہ پیلنگ کے تحت کام شروع ہوگا یہ تو زارا کی وجہ سے جبرئیل کو پشاور جانا پڑا تھا۔"
احسن نے ہلکے پھلکے انداز میں ابھی کہا ہی تھا کہ جیب میں رکھا ہوا اس کا فون بج اٹھا۔ وہ دھیرے دھیرے اوپر کی جانب جارہے تھے جہاں سگنل کا مسئلہ رہتا تھا پھر ایسے میں وہ لوگ رابطے کے لیے وائیرلیس فونز ہی استعمال کیا کرتے تھے وہ ان دونوں کو دھیرے دھیرے اوپر جانے کا کہہ کر خود فون سننے ایک جانب ہوگیا تھا۔
" اسلام علیکم بی جان!"
اس نے اپنی آواز کو قدرے بشاش بنانے کی کوشیش کی تھی مگر مقابل بی جان تھیں کیسے نہ اس کی آواز میں چھپی ہوئی تھکاوٹ کو پہچانتی۔
" ٹھیک ٹھیک بتا پتر کتنے دن ہوگئے تو سویا نہیں ہے؟"
بی جان نے ہمشہ کی طرح بڑا درست اندازہ لگایا تھا۔
" تین دن بی جان!"
اس نے قدرے شرمندہ ہوتے ہوئے بی جان سے کہا تھا جس پر دوسری جانب بالکل خاموشی چھا گئی تھی۔ احسن کو بی جان کی خانوشی سے ہمشہ خوف محسوس ہوتا تھا کیونکہ جب وہ خاموش ہوتی تھیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ کسی گہرے دکھ کو کشادہ پشانی سے برداشت کرنے کی کوشیش کررہی ہیں۔
" بی جان کتنی بار آپ سے کہا ہے کہ یوں خاموش مت ہوا کریں۔"
اس نے بے بسی سے کہا تھا۔
" اور میں نے بھی تجھے کتنی بار کہا ہے کہ میرے لیے تکلیف کا باعث مت بنا کر آج ستائیس سال ہوگئے احسن تیرے ماں باپ کو گزرے اور مجھے لگتا ہے تیری خوشیوں کے انتظار میں میرا وقت بھی یونہی پورا ہوجانا ہے۔"
بی جان تو فل جذباتی ہورہی تھیں۔
" پلیز بی جان میری کمزوری مت بنا کریں آپ میری طاقت ہیں اور وہی رہا کریں آپ جانتی ہیں کہ میں ابھی کس صورتحال میں ہوں ایسے میں آپ مجھے شادی کا کہہ کر کسی کی زندگی کیوں خراب کرنا چاہتی ہیں؟ سو جائیں رات کافی ہوچکی ہے آپ کی طبعیت خراب ہوجائے گی۔"
اس نے ان سے کہہ کر فون بند کردیا تھا مگر یہ سچ تھا کہ ہمشہ کی طرح ان کے فون کے بعد وہ پریشان ہوگیا تھا۔
اس کا رخ باڈر کی جانب تھا جہاں مقبوضہ کشمیر کی جانب جانے والی سرنگیں کھودنے کا کام جاری تھا اب جو بھی سرا ملنا تھا وہ تو مقبوضہ کشمیر جا کر ہی ملنا تھا زارا کے گھر سے لے کر اس کے باڈر آنے کے بیچ میں کیا ہوا تھا یہ سب کچھ انہیں انڈیا جا کر ہی پتہ چلنا تھا اور انڈیا وہ لوگ فل حال نارمل سویلین طریقے سے جا نہیں سکتے تھے کیونکہ آئی ایس پی ار سے تعلق جان کر ہی ان کے پکڑے جانے کا ڈر تھا اس لیے وہ غیر قانونی طریقہ استعمال کررہے تھے کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی بھی چارہ نہیں تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ رات کی تاریخی میں ہمشہ کی طرح پینٹ ہاوس سے نکلی تھی لمبی گلابی قمیض کے ساتھ جینز پہنے اس نے اپنے سر کو اور چہرے کو اچھے سے سکارف سے ڈھانپا ہوا تھا شکاگو میں سردی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے ایک بھاری بھرکم اوورکوٹ اپنی لمبی گلابی قمیض کے اوپر پہن رکھا تھا جس کی لمبائی بھی تقریبا قمیض جتنی ہی تھی پیروں کو لمبے بوٹوں میں قید کیے وہ تیزی سے سڑک پر چل رہی تھی اس کے پیچھے ہی کچھ فاصلے پر غلام بخش بھی آرہا تھا۔ اردگرد رات کو لوگوں کا رش تھا کچھ اپنے دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں مصروف تھے تو کچھ ایک دوسرے کو پیار بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے وہ سڑک پر چلتے ہوئے سب لوگوں کا مشاہدہ کررہی تھی وہ چلتی ہوئی بھیڑ والے علاقے سے نکل کر قدرے سنسان علاقے میں آگئی تھی جہاں مین سڑک کے اردگرد تین گلیاں تھیں جو اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں وہ ان تین گلیوں میں سے بیچ والی میں مڑ گئی تھی غلام بخش گلی کے شروع میں ہی کھڑا تھا۔ گلی کے آخر میں اندھیرے میں چند سائے ابھرے ہوئے تھے جن کے عکس گلی کی پچھلی دیوار پر ابھر رہے تھے وہ ایک دم گلی کے آخر میں جاکر ٹھہر گئی تھی۔
" گڈ ایوننگ میڈم!"
ان میں سے ایک سائے نے اس کے قریب ہوتے ہوئے سرگوشی کی تھی۔
" گڈایوننگ مسٹر براٹ!"
اس نے بھی سر خم کرتے ہوئے اس کے سلام کا جواب دیا تھا۔
" دیس از یور اوڈرڈ پارسل میڈم! ( یہ آپ کا منگوایا ہوا پارسل ہے محترمہ)"
اس نے لکڑی کا بڑا سا بکسہ اس کے سامنے زمین پر رکھا تھا۔
" وائے یو ریفیوز ٹو گیو دس ٹو مائی مین ؟( تم نے یہ میرے آدمی کو دینے سے کیوں منع کیا تھا۔؟"
ایس۔کے نے درشتگی سے اس سے کہا تھا۔
" بیکاز آئی وانٹ ٹو میٹ یو( کیونکہ میں تم سے ملنا چاہتا تھا)"
براٹ کے لہجے کے اشتیاق نے ایس۔کے کے اشتعال میں مزید اضافہ کیا تھا۔
" اوپن اٹ!" ( کھولو اسے)"
اس نے بکسے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بیزاری سے کہا تھا۔ براٹ نے اپنے پیچھے کھڑے ہوئے آدمیوں کو اشارہ کیا تھا اور انہوں نے آگے بڑھ کر لکڑی کے بڑے سے بکسے کا ڈھکن کھولا تھا ایس۔کے کی مکمل توجہ اس بکسے کی جانب تھی جس میں ڈھیڑ سارے بورے کے نیچے اور اوپر 32 بور کی بڑی بڑی رائیفلز موجود تھیں۔
" آئی وانٹ ٹو سی دا کوالٹی( میں اس کی خاصیت دیکھنا چاہتی ہوں)"
ایس۔کے نے کہا تو براٹ کے اشارے پر اس آدمی نے لکڑی کے بکسے میں سے ایک رائیفل نکال کر ایس۔کے کی جانب بڑھائی جس کا وزن اتنا تھا کہ عام عورت کو پکڑنے میں مشکل ہوتی مگر ایس۔کے کوئی عام عورت نہیں تھی اس لیے اس نے آرام سے وہ رائیفل اپنے ہاتھ میں تھام لی تھی اور باریک بینی سے اس کا معائنہ کیا تھا اچھی طرح سے تسلی کرنے کے بعد اس نے وہ رائیفل واپس اس آدمی کے ہاتھ میں دی تھی جسے اس نے بکسے میں واپس رکھ دیا تھا۔
" یو مسٹ پارسل دیس ٹو دا اڈریس یو ٹیک فرام مائی مین اینڈ آئی نیڈ دیس ایز سون ایز پوسبل مسٹر براٹ!"( اسے اس پتے پر پہنچا دینا جو تم میرے آدمی سے لو گے اور یہ مجھے جلد سے جلد چائیے)"
ایس۔کے نے اس سے کہنے کے بعد اپنے پرس میں سے چیک بک اور پین نکالا تھا اور چیک سائن کرکے براٹ کی جانب بڑھایا تھا۔ براٹ نے ہاتھ ملانے کے لیے آگے کیا تھا جسے ایس۔کے نے دیکھ کر نظر انداز کیا تھا اور پھر گویا ہوئی تھی۔
" آئی کین ناٹ شیک ہینڈ ود مین یو کین شیک آ ہینڈ ود مائی مین اٹس آ سمٹم اف سائنینگ دا ڈیل۔( میں مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی تم میرے آدمی سے ہاتھ ملا لو یہ اس چیز کی علامت ہوگا کہ ہمارے درمیان معائدہ طے ہوچکا ہے۔)"
اس نے بے نیازی سے کہہ کر غلام بخش کو اشارہ کیا تھا جو گلی کے شروع میں کھڑا تھا اس کا اشارہ ملتے ہی وہ آگے آیا تھا اور براٹ سے ہاتھ ملایا تھا۔ ڈیل سائین کرنے کے بعد وہ خاموشی سے جیسے اس گلی میں آئی تھی ویسے ہی وہاں سے نکل گئی تھی اور متواتر چال چلتی ہوئی سب وے کی جانب بڑھ گئی تھی جہاں سے اس نے اپنے پینٹ ہاوس پہنچنا تھا۔ وہ تیزی سے سب وے کی جانب بڑھ رہی تھی غلام بخش بڑی مشکل سے اس کے برابر میں آیا تھا۔
" آپ نے یہ ڈیل کیوں کی ایس کے؟"
غلام بخش کے دل میں کب سے مچلتا ہوا سوال اس کی زبان سے پھسل ہی گیا تھا۔
" کیا مطلب ہے کیوں کی ایسی ہزاروں ڈیلز تو یوتی رہتی ہیں غلام بخش کم اون۔"
اس نے سر پر جمایا ہوا اپنا سکارف صیح کرتے ہوئے کہا تھا۔
" ایسی ہزاروں ڈیلز ہوتی ہیں ایس۔کے لیکن کوئی بھی ڈیل آپ اس طرح سے خود نہیں کرنے جاتیں۔"
غلام بخش نے اس کے ساتھ سب۔وے میں داخل ہوتے ہوئے کہا تھا۔
" مجھے اتنا مت جانا کرو غلام بخش نگل لوں گی کسی دن تمہیں بھی۔"
اس نے عجیب سے انداز میں اس سے کہا تھا۔ غلام بخش نے کچھ لمہے تک اس کی جانب دیکھا تھا جو بالکل ساکن سامنے دیکھ رہی تھی۔
" جب نگلیں گی تو دیکھ لیجیے گا شکوہ کر جاوں تو جو نمک آپ کا کھاتا رہا ہوں وہ حرام جائے۔"
غلام بخش کے لہجے میں کچھ تھا جس نے ایس۔کے کو اس کی جانب دیکھنے پر مجبور کردیا تھا۔
" یوں مت دیکھیں یقین نہیں ہے تو آزما کر دیکھ لیجیے گا۔"
غلام بخش نے مسکرا کر کہا تھا جس پر ایس۔کے نے نظریں پھیر کر کھڑکی سے باہر کرلی تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ لیپ ٹاپ اپنے سامنے رکھے بڑے سے دالان میں بچھے تخت پر دونوں پاوں فولڈ کیے بیٹھی ہوئی تھی۔ سکارف نے اس کے سر اور چہرے کو چاروں اور سے ڈھانپ رکھا تھا صرف اس کی آنکھیں،ناک اور ہونٹوں کا کچھ حصہ نظر آرہا تھا وہ سورت توبہ کی تفسیر پڑھنے میں مصروف تھی وہ جب سے یہاں آئی تھی سورت توبہ کو روح میں اتارنے کی کوشیش کررہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کتنی گناہ گار ہے وہ اپنے لیے توبہ کے در کھولنا چاہتی تھی وہ جاننا چاہتی تھی کہ جس اللہ کے سامنے کبھی سر نہ جھکایا ہو اس سے توبہ کا طریقہ کیا ہوتا ہے وہ اس بات سے انجان تھی کہ وہ تو تب بھی معاف کردیتا ہے جب اسے صرف دل میں پکارا جائے وہ تو تب بھی سنتا ہے جب صرف خیال ہی کیا جائے کہ اس سے پکارنا ہی ہے وہ تو تب بھی سن لیتا یے جب صرف توبہ کی نیت باندھی جاتی ہے وہ تو ہے ہی شہ رگ سے زیادہ قریب تو وہ کیسے نہ سنے لیکن اس کے دل میں جیسے اللہ کو جاننے کا جنون سوار ہوگیا تھا وہ جاننا چاہتی تھی کہ وہ کتنا غفور رو رحیم ہے اس کے فضل کی حد کیا ہے اس کی رحمت میں کتنی وسعت ہے وہ خود کو اس کے سامنے جانے کے قابل بنا رہی تھی ابھی تک اس نے ایک بھی نماز ادا نہیں کی تھی کیونکہ اسے لگتا تھا کہ نماز ادا کرنے کے لیے ہمت درکار ہے جانماز پر اس کے حضور کھڑے ہونے کے لیے پاکیزگی درکار ہے اور وہ خود کو گناہ میں لپٹی ہوئی کوئی شے سمجھتی تھی۔
وہ مکمل طور پر مگن تھی جب دالان کے اس پار بڑے سے دروازے کے کھلنے کی آواز آئی تھی اور اسی کے ساتھ وہ وردی میں اندر داخل ہوا تھا وہ اپنے دھیان مگن انداز میں چلتا آرہا تھا جب اچانک سے دالان میں موجود تخت پر بیٹھی لڑکی پر اس کی نظر پڑی تھی۔ شمس کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا کوئی لڑکی اس طرح سے اس کے گھر میں بڑے ہی نارمل انداز میں بیٹھی ہوئی اسی کا لیپ ٹاپ تھامے کچھ کررہی تھی دھچکا تو اسے لگنا ہی تھا۔
" او ہیلو محترمہ آپ کون ہیں اور یہاں کیا کررہی ہیں؟"
وہ بغیر کچھ بھی سوچے سمجھے سیدھا دروازہ بند کرکے دالان میں آیا تھا۔ تخت پر بیٹھی لڑکی کا طلسم ٹوٹا تھا اور اس نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا وہ بے حد خوفزدہ ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔
" یہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کیا دیکھ رہی ہیں اور ایسے کیسے کسی کی بھی چیزوں کو ہاتھ لگا لیا آپ نے کچھ تمیز ہے کہ نہیں؟"
شمس تو آگ بگولہ ہی ہوگیا تھا۔
" جی۔وہ۔۔میں!"
اس سے کچھ بھی بولنا مشکل ہورہا تھا۔
" کیا جی وہ میں لگا رکھی ہے بولنا نہیں آتا کیا آپ کو؟"
اسے تو پتنگے ہی لگ گئے تھے۔
" ارے ارے شمش بیٹا! کیا ہوگیا ہے کیوں آتے ہی بچی پر غصہ شروع کردیا ہے۔"
سمعیہ بیگم جو اندر عصر پڑھ رہی تھیں ایک دم شور کی آواز سن کر باہر آئیں تھیں انہیں بھی سمجھ آگئی تھی کہ ان کا سپوت آندھی طوفان کی طرح تشریف لا چکا تھا۔
" ماں! یہ کون ہے اور میرا لیپ ٹاپ ان کے پاس کیا کررہا ہے؟"
اس کا سوال ابھی بھی وہی تھا۔
" فاطمہ! بیٹا تم کیچن سے پانی لے کر آو زرا شمس کے لیے۔"
انہوں نے تخت پر ہکا بکا بیٹھی ہوئی فاطمہ کو کہا تھا جس پر وہ سر ہلا کر فوری اندر کی جانب بڑھی تھی۔
" کیا بدتمیزی تھی یہ؟"
انہوں نے اب شمس کو گھیرا تھا جو ابھی بھی تیوری چڑھائے کھڑا تھا۔
" یہ تو آپ بتائیں کہ کیا تھا یہ سب کون ہے یہ؟"
اس نے ان کی طرف مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا جس پر انہوں نے اسے کندھوں سے تھام کر تخت پر بیٹھایا تھا اور فاطمہ کے متعلق اسے ساری بات بتائی تھی لیکن سچائی کا کچھ حصہ وہ اس سے مصلحتن چھپا گئی تھیں۔
" ماں ! ایسے کیسے آپ کسی پر بھی یقین کرسکتی ہیں کوئی گڑ بڑ ہوئی یا کسی سازش کا حصہ ہوئی یہ لڑکی تو پھر؟"
اس نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے ان سے کہا تھا۔
" بس کردو شمس ہر جگہ ہر کسی کو اپنی فوجی نظروں سے مت دیکھا کرو وہ لڑکی بہت اچھی ہے اور تمہارے بابا کو بھی بہت پسند آئی ہے۔"
انہوں نے اب کی بار اس کے بابا کا حوالہ دیتے ہوئے یقین دلایا تھا۔
"اچھا مجھے کیا جو بھی کریں آپ دونوں لیکن نظر رکھیے گا۔"
اس نے ابھی ان سے کہا ہی تھا کہ اس کی نظر لاونج کے دروازے پر پانی کا گلاس تھامے کھڑی فاطمہ پر پڑی تھی وہ قدرے شرمندہ بھی ہوا تھا لیکن پھر نظر انداز کرکے اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس تھاما تھا اور ایک ہی سانس میں خالی کرکے اندر کی جانب بڑھ گیا تھا دو آنسو ٹوٹ کر فاطمہ کی آنکھ سے بہے تھے جنہیں اس نے بے دردی سے رگڑا تھا کیونکہ یہ آنسو تو اب مقدر کا حصہ تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

دہلیز کے پار وہ ( مکمل✔)Onde histórias criam vida. Descubra agora