ان دیکھا طلسم

3.8K 139 41
                                    

قسط نمبر 3 بے حد سے بھی تو بے خبر یوں ہوا
کہ دکھا گیا مجھ کو یہ ان دیکھا طلسم
ایمن خان
وہ جھجھکتے ہوئے اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔
" آپ کا زخم کیسا ہے اب زارا؟"
اس نے اس کے بازو کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
" جہ جی اب کافی بہتر ہے۔"
زارا تو اس کے سوالات پر بری طرح بوکھلا گئی تھی۔ اس کے جواب پر جبرئیل بے اختیار مسکرایا تھا مسکراتے ہوئے اس کے گال کا بڑا سا سیاہ تل کچھ نمایاں ہوتا تھا زارا اسے مسکراتا ہوا دیکھتی رہ گئی تھی۔
" ایک بات تو بتائیں زارا؟"
جبرئیل نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تھا۔ جس پر زارا جو اسے غور سے دیکھ رہی تھی فوری سمبھل کر بیٹھی تھی۔
" جہ جی!"
زارا کے منہ سے پھر بے اختیار وہی نکلا تھا جبرئیل کا فلک شگاف قہقہ گونجا تھا جس پر زارا قدرے نروس ہوگئی تھی۔
" آئی ایم سوری!"
اس نے ہاتھ بلند کرکے مسکراہٹ روک کر معذرت کی تھی۔
" آپ اتنا ڈرتی کیوں ہیں مجھ سے؟"
اس نے سنجیدگی سے اس کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا جو اس لمہے ضرورت سے زیادہ ہی سرخ نظر آرہا تھا۔
" کیونکہ مجھ۔۔مجھے فوجیوں سے ڈر لگتا ہے اتنی بڑی بڑی گنز لے کر پھرتے ہیں۔"
زارا نے باقاعدہ ہاتھوں سے گن کی لمبائی بتائی تھی۔ جبرئیل کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہنس ہنس کر برا حال کردے لیکن وہ زارا کی موجودگی کا لحاظ کیے اپنے قہقوں کا گلہ گھونٹ رہا تھا دروازے پر کھڑی ہوئی مائرہ کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔
" نہیں فوجی معصوم لڑکیوں کو کچھ نہیں کہتے اور میرے جیسے فوجی جو ہوتے ہیں نہ وہ بے گناہوں کو کچھ بھی نہیں کہتے سو ریلیکس۔"
اس نے نرمی سے اسے کہا تھا جس پر زارا کے تنے ہوئے اعصاب قدرے ڈھیلے پڑے تھے۔
" آپ سچ کہہ رہے ہیں نہ؟"
وہ اسے تائید چاہ رہی تھی۔
" ہاں بھئی پکا۔"
اس نے دونوں ہاتھ آپس میں ملا کر ہونٹوں پر رکھے تھے۔
" اچھا آپ میرے ساتھ پشاور چل رہی ہیں۔"
اس نے آخر اس سے وہ بات کہی تھی جو کہنے وہ آیا تھا۔
"پشاور! لیکن کیوں؟"
اس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔
" کیونکہ وہاں آپ محفوظ رہیں گی۔"
اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا تھا۔
" اور ایک بات اور میں آپ کو یوں دن کے وقت نہیں لے کر جاسکتا اور نہ ہی ایسے اکیلے بھجوا سکتا ہوں کیونکہ آپ کی سیفٹی کی زمہ داری کرنل نے مجھے دی ہے اس لیے آپ آج رات کو تیار رہیے گا ہم رات میں نکلے گئے۔"
اس نے اسے ساری بات سمجھائی تھی مگر زارا کا چہرہ ہنوز ہراساں ہی تھا۔ جبرئیل نے بغور اس کے تاثرات ملاحظہ کیے تھے اور پھر گہرا سانس بھر کر گویا ہوا تھا۔
" ٹیک اٹ ایزی زارا ٹرسٹ می آپ کو کچھ نہیں ہوگا کیونکہ میں ہونے نہیں دوں گا۔"
اس کے لہجے میں زارا کو ایک عجیب سا عزم محسوس ہوا تھا اس کے آنچ دیتے لہجے نے زارا کے اندر کے سارے خوف لمہوں میں ختم کردیے تھے کیونکہ کہیں نہ کہیں یہ بھی سچ تھا کہ اس واقعے کے بعد زارا نور اپنی بہادری کچھ کھو سی چکی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سیاہ گودام میں ایک واحد روشن دان تھا جس سے کچھ روشنی کی لکیر چھن کرکے اندر آرہی تھی اور اس سیاہی میں ڈوبے ہوئے واحد روشن دان کو ناکام روشنی دینے میں مصروف تھی۔ سردی کے پرسوز دنوں میں سیاہ اینٹوں کے ٹھنڈے ٹھار فرش پر وہ وجود دیوار کے ساتھ چپک کر بیٹھا ہوا تھا۔ کئی روز سے بے ترتیب بال اب کچھ الجھ چکے تھے۔ چہرے پر جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے ہونٹ پھٹ چکا تھا اور سانسیں بے ترتیب تھیں وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھی ہوئی تھی چہرے پر بلا کا سکون تھا جیسے یہ ساری سختیاں اور زیادتیوں سے اسے کوئی فرق نہ پڑ رہا ہو۔ وہ وجود یونہی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھا ہوا تھا جب نیچے آتی سیڑھیوں سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔
قدموں کی چاپ نزدیک سے نزدیک تر آتی جارہی تھی اور اسی کے ساتھ اس وجود کی مسکراہٹ بھی گہری سے گہری ہورہی تھی فرق صرف اتنا تھا کہ یہ مسکراہٹ خود میں خوشی کے بجائے طنز کا عنصر لیے ہوئی تھی۔ قدموں کی چاپ کے ساتھ سیاہ اینٹوں کے فرش پر کسی کا عکس بھی ابھرا تھا۔
دیوار سے ٹیک لگائے وجود نے آنکھیں ایک بار پھر موند لی تھیں۔
" ماننا پڑے کا بہت سخت جان ہو تم۔"
سائے کی جگہ اب جیتے جاگتے وجود نے لے لی تھی۔
اس نے آنکھیں کھولی تھیں اور چہرے پر ایک بار پھر سے طنز بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔
" سختی تم نے ابھی دیکھی ہی کہاں ہے۔"
اس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا تھا۔
" ہاہا!"
سیاہ انٹوں والے تحہ خانے میں قہقے کی آواز پوری طرح سے گونجی تھی۔
" اتنی سختی کی ہے تم پر پھر بھی تم کہہ رہی ہو سختی دیکھی ہی کہاں ہے۔"
قہقے کی آواز ایک دم بند ہوئی تھی ایک بار پھر سے سیاہ اینٹوں والے تحہ خانے میں سںناٹا چھا گیا تھا وہاں موجود نفوس کے صرف سانس لینے کی آواز آرہی تھی۔
" ہاں کیونکہ اتنے سالوں سے میں تمہارے دیے ہوئے زخموں کے ساتھ جی رہی ہوں اتنا سخت جان کردیا یے تم نے مجھے کہ اب یہ معمولی سی سختی مجھے سختی لگتی ہی نہیں ہے۔"
ٹیک لگائے ہوا وجود اب سیدھا ہوا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر آنکھوں میں آتے بال پیچھے ہٹائے تھے۔
" رسی جل گئی پر بل نہیں گئے۔ کہنا پڑے گا اتنے سالوں بعد بھی تم ویسے ہی حسین ہو۔"
وہ شخص دلکش مسکراہٹ کے ساتھ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا اور اپنی شہادت کی انگلی اس نحیف وجود کے چہرے پر پھیری تھی۔ اس نے ایک دم اپنا چہرہ پیچھے کیا تھا اور اس کے چہرے پر تھوکا تھا۔
" تیری جرات کیسے ہوئی میرے چہرے پر تھوکنے کی؟"
گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا وجود اشتعال میں آیا تھا اور اس کے بال بری طرح جکڑے تھے۔ سامنے بیٹھے نحیف وجود کی کراہ گونجی تھی۔
" ایک بار چھوڑ کر ہزار بار تھوکوں گی۔"
اس نے کہہ کر ایک بار اور اس کے چہرے پر تھوکا تھا۔
" ذلیل عورت! تو اس قابل ہی نہیں ہے کہ تجھ سے عزت سے بات کی جائے۔"
اس نے بے دریغ اس نحیف وجود کے چہرے پر تھپڑ مارے تھے۔
" بتا کہاں ہے زارا؟"
اس نے اب کی بار اپنے مطلب کی بات کی تھی۔
" نہیں بتاو گی تو ڈھونڈتا رہ جائے گا مگر کبھی اس تک نہیں پہنچ پائے گا۔"
اس نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا تھا۔
" بکواس بند کر اور شرافت سے بتا دے۔"
ایک بار پھر موہوم سی کوشیش کی گئی تھی۔لیکن اب کی بار بدلے میں بالکل خاموشی تھی جس کا مطلب صاف تھا کہ وہ اب بات نہیں کرنا چاہتی اور یہ بات تو شاہد سامنے بیٹھا وجود بھی جانتا تھا کہ جب وہ خاموش ہوتی پھر پوری طرح سے خاموش ہوجاتی تھی شاہد بہت سالوں سے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ بڑے سے پینٹ ہاوس کا منظر تھا جس کی بڑی بڑی کھڑکیاں شیشے کی بنائی گئی تھیں وسیع و عریض لاونج می خوبصورت صوفوں میں سے ایک ماسٹر چئیر پر وہ بہت دنوں بعد روشنی میں بیٹھی تھی۔ انتہائی سادہ مگر بیش قیمتی لباس وہ ہلکے نرنجی رنگ کی کھلی سی لمبی قمیض کو سفید شلوار کے ساتھ پہنے ہوئے تھی اپنے سیاہ لمبے بال اس نے پشت پر کھلے چھوڑ رکھے تھے مہرون چادر نے اس کے دونوں شانوں کو اچھے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ بڑی بڑی بھوری آنکھوں پر لمبی گھنی پلکوں کا سایہ تھا اور وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر اپنی مخروطی انگلیوں سے چائے کا مگ تھامے ہوئے بیٹھی تھی۔
" لڑکی کا پتہ چلا؟"
اس نے مگ لبوں کو لگاتے ہوئے پوچھا تھا۔ اس کے سامنے کھڑے ہوئے آدمیوں کا اس کے سامنے نظر نیچی کرکے بات کرنا ہمشہ مشکل ہوتا تھا کیونکہ وہ انتہائی دلکش تھی۔
" نہیں ایس۔کے!"
آدمی کے لہجے میں شرمندگی کا عنصر نمایاں تھا۔
" کب تک چلے گا؟"
ایک اور گھونٹ بھر کر اس نے کہا تھا۔
" ہم کوشیش کررہے ہیں۔"
آدمی نے سہم کر کہا تھا۔
" غلام بخش!"
اس نے سکوت کو اپنی دلفریب آواز کی دھاڑ سے توڑا تھا۔ غلام بخش بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوا تھا۔

دہلیز کے پار وہ ( مکمل✔)Where stories live. Discover now