دیار دل

4.5K 172 67
                                    

کوئی بھی نہیں بس سکا اس دیار دل میں
کب سے سجا رکھا ہے اس نے نام تیرا
کسی اور کی ضرورت کہاں ہے اس دیار دل میں
ورد بس جاری و ساری ہی ہے تیرا
ایمن خان
وہ ایک جھٹکے سے زمین پر گری تھی شاہد اب اس کا گرنا ہی بنتا تھا بے شک انسان کے اعمال ہی اسے پستی کی اتہا گہرائیوں میں دھکا دیتے ہیں جس ضمیر کو تھپک کر اس نے دو دن قبل سلایا تھا اسے ابدی نیند سلانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا کیونکہ گناہ تو چھپے ہوئے بھی سامنے آجاتے ہیں پھر صاریہ کا کیوں کر چھپتا اس ایک گناہ نے اس کی محبت اس کی دسترس سے اتنی دور کردی تھی کہ صاریہ اسے دیکھ تو سکتی تھی مگر چھو نہیں سکتی تھی اور یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی بے بسی تھی۔ ماہ رخ بیگم لپک کر اس کے بے ہوش وجود کے قریب آئی تھیں جس کی گالوں پر آنسو بہہ رہے تھے چہرے پر اذیت کی تصویر تھی۔
" آنکھیں کھولو صاریہ!"
انہوں نے اس کے گال تھپتھپائے تھے مگر صاریہ ہوش و خرد سے بیگانہ تھی۔
" سبتے!"
انہوں نے تقریبا چلا کر سبتین کو آواز لگائی تھی جس پر وہ بھی بھاگتا ہوا ان کے کمرے میں آیا تھا۔
" کیا ہوا امی!"
اس کی نظر ابھی فرش پر ہوش و خرد سے بیگانہ صاریہ پر نہیں پڑی تھی۔
" صا۔۔صاریہ!"
ان کا لہجہ انتہا سے زیادہ پریشانی لیے ہوئے تھا جونہی اس نے ان کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا اس کا اوپر کا سانس اوپر رہ گیا۔
" کیا ہوا انہیں؟"
اس نے پریشانی سے ان سے پوچھا تھا۔
" پتہ نہیں بیٹا اٹھاو اسے جلدی سے اور اس کے کمرے میں لے کر جاو۔"
انہوں نے اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا سبتے نے صاریہ کو اپنے مضبوط بازوں میں اٹھایا تھا اور اس کے کمرے کی جانب چلا گیا تھا۔ یہ بیگانگی محبت کی جانب سے ملی تھی صاریہ نے ہوش اس کے محبت جبرن حاصل کرنے کے باعث کھوئے تھے کاش وہ جذباتی نہ ہوتی کاش قسمت کا لکھا سمجھ کر جبرئیل سے جدائی قبول کرلیتی تو آج شاہد اس کی زندگی مشکل نہ ہوتی شاہد اسے صبر آجاتا مگر اس کی خود سری نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا زندگی نجانے کیوں اس سے روٹھ گئی تھی اسے انتظار کرنا تھا کہ زندگی اس پر مہربان ہوتی ہے کہ نہیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ریوالونگ چئیر پر جھولتا صمن بیگم کا وجود سوگواریت میں ڈوبا ہوا تھا اف وائٹ شفون کی ساڑھی حسب عادت سلیو لیس بلاوز کے ساتھ پہنے شولڈر کٹ بالوں کو ڈھیلی پونی میں بندھے وہ آنکھیں بند کیے داور کمال کی سٹڈی میں رکھی راکنگ چئیر پر جھول رہی تھیں۔ آنکھوں سے گرم سیال رواں تھا جسے خشک یا صاف کرنے کی کوشیش انہوں نے نہیں کی تھی آنکھوں کے نیچے پڑے ہوئے گہرے ہلکے اب اتنے گہرے اور نمایاں ہوگئے تھے کہ منہ پر کیا گیا منوں میک اپ انہیں ڈھکنے میں ناکام ہوگیا تھا۔ میک اپ کی شدید تہوں کے باوجود وہ ان کے چہرے کا سب سے بدنما حصہ لگ رہا تھا کیونکہ پچھلے ایک مہینے سے انہوں نے کسی بھی بیوٹی سیلون کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ وہ اپنے آنسوں کو روکنے کی سہی نہیں کررہی تھیں کیونکہ ان کے بقول داور کمال کی غیر موجودگی ان کے لیے وہ خوشگوار لمہات ہوتے تھے جن میں وہ اپنے اندر بڑھنے والی گھٹن کو فرار کا راستہ فراہم کرتی تھی۔ ابھی بھی وہ آنسو بہا کر یہی کرنے میں محو تھیں جب راکنگ چئیر کے ساتھ پڑے ہوئے میز پر رکھا ہوا ان کا فون چیخا تھا انہوں نے بند آنکھوں کو ہلکا سا کھول کر فون کی جانب دیکھا تھا اور پھر فون اٹھا کر کان سے لگایا تھا۔
" دوا کھائی؟"
دوسری جانب سے لہجے میں بے انتہا فکر مندی تھی۔
" سلام تو لے لو پہلے۔"
انہوں نے گہرا سانس لیتے ہوئے مقابل کو کہا تھا۔
" سانس لینے کے لیے عمر پڑی ہے آپ اپنی دوا کا بتائیں؟"
سوال ایک بار پھر سے وہی تھا بس انداز الگ تھا۔
" لے لی۔"
ان کی جانب سے بے حد مختصر گفتگو کی گئی تھی ہمشہ کی طرح۔
" وہ گھر پر نہیں ہے نہ؟"
ہمشہ کی طرح مقابل کو ساری معلومات تھی۔
" جب سب پتہ تو پوچھنے کا مقصد؟"
اب کی بار صمن بیگم عاجز آتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی۔
" آپ کے منہ سے سننا تھا۔"
کیا تھا مقابل صمن بیگم سمجھنے سے قاصر تھیں ازلی ڈھیٹ،خود سر بے رخ۔"
انہوں نے گہرا سانس بھرا تھا اور دل ہی دل میں مقابل کو ان سارے القابات سے نوازا تھا۔
" بات نہ ماننے کی قسم کھا رکھی ہے جب کچھ سننا ہی نہیں ہوتا تو فون کرنے کا تردد بھی مت کیا کرو۔"
ناچاہنے کے باوجود ان کی زبان سے شکوہ پھسل گیا تھا۔
" آپ جانتی ہیں اچھے سے کہ مجھے آپ کی آواز سننا پسند ہیں پھر بھی ایسی باتیں کرتی ہیں میرا دل دکھ جاتا ہے۔"
دوسری جانب سے کہے گئے جملے سے ایک لمہے میں ان کے چہرے پر مسکراہٹ رینگی تھی اور وہ جیسے ہلکی پھلکی ہوگئی تھیں۔
" اپنی راہوں کو مشکل مت بناو۔"
انہوں نے جیسے ہار مانتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" جب تک راہ مشکل نہ ہو منزل نہیں ملتی ایس۔کے!"
دوسری جانب سے انہیں کہا گیا تھا وہ ایک دم خاموش سی ہوگئی تھیں۔
" خیال رکھنا اپنا۔"
انہوں نے کہہ کر کال بند کردی تھی کیونکہ وہ مزید مقابل کے لفظ نہیں سن سکتی تھیں ان کی آنکھوں سے ایک بار پھر سے گرم گرم سیال روا ہونا شروع ہوگیا تھا جو اب ان کے روکنے میں نہیں آنا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ دونوں پھولوں کے گلدستے کے ساتھ ڈی۔ایچ۔کیو ہسپتال میر پور کی حدود میں داخل ہوئے تھے۔
" میں ٹھیک تو لگ رہا ہوں نہ؟"
طراب کوئی بیسویں بار اس سے یہ سوال پوچھ چکا تھا اب کی بار تو اسامہ کا دل چاہ رہا تھا کہ کوئی چیز اٹھا کر زور سے اس کے سر پر دے مارے اس نے خونخوار نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
" اگر اب تو نے مجھ سے یہ سوال کیا نہ میں تیرا خون کردوں گا۔"
اس نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا۔
" اچھا یار کیا ہوگیا ہے ایسے کیوں بول رہا ہے اب بندہ پوچھ بھی نہیں سکتا کیا؟"
اس نے تیوری چڑھا کر تقریبا برا مانتے ہوئے ہی کہا تھا۔
" جتنی بار پوچھ چکا ہے نہ اتنی بار تو بندر بھی پوچھ لے تو اسے بھی حفظ ہوجاتا ہے لیکن تو وہی رٹو طوطا۔"
اسامہ نے اپنی امڈتی ہوئی مسکراہٹ کو دبا کر اس سے کہا تھا۔
" اچھا بس چپ کر وہ سامنے اس کا کمرہ ہے اف یار مجھے لگ رہا میرا دل بند ہوجائے گا۔"
طراب نے منہ بناتے ہوئے اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں پر ہاتھ رکھا تھا۔
" چی! چی! تف ہے تجھ پر اتنا بہادر میجر ہونے کے باوجود ایک ڈاکٹر سے ڈر رہا ہے بیٹا تجھے زہر والا انجیکشن تو نہیں لگا دینا اس نے پر کیا پتہ لگا بھی دے پھر راتوں رات تیری لاش غائب کردے۔"
وہ فضا میں ہاتھ گھوماتے ہوئے ایسا نقشہ کھینچ رہا تھا کہ بے ساختہ طراب کو جھرجھری آئی تھی۔
" لعنت ہو خبیث انسان!"
اس نے سر دائیں بائیں نفی میں ہلا کر ایک زور دار جھرجھری لی تھی۔
" ارے طراب اور اسامہ! تم دونوں یہاں ہوسپٹل میں خیریت ہے نہ کوئی ایڈمیٹ ہے کیا؟"
وہ ابھی اسے مزید گالیاں دینے کا ارادہ رکھتا ہی تھا کہ کمرے کا دروازہ کھول کر مائرہ بازو پر کوٹ ڈالے گلے میں سیتھروسکوپ پہنے انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
" اہم!! "
وہ جو اسے بولتے ہوئے بڑے ہی انمہاک سے سن رہا تھا اسامہ کے کونی مارنے پر بلبلا ہی اٹھا تھا۔
"یہ آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہے ڈاکٹر مائرہ!"
اسامہ نے مائرہ کی توجہ طراب کی جانب کروائی تھی جو اب اسامہ کو گھورنے میں مصروف تھا۔
" جی ! بولیں طراب پلیز!"
وہ پوری طرح سے اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
" وہ۔۔ اصل میں۔"
وہ نیچے فرش کو گھورتے ہوئے بول رہا تھا۔
" کیا بات ہے از اینی تھینگ سیریس؟"
اس نے ایک آبرو اچکاتے ہوئے اس سے پوچھا تھا جو بالکل خاموش شاہد اپنی بات کہنے کے لیے مناسب الفاظ تلاش کررہا تھا۔
" دیکھیں مائرہ! شاہد مجھے بہت زیادہ لفظ بولنے نہیں آتے یا میں کوئی بہت ہی رومینٹک قسم کا انسان نہیں ہوں میں انتہائی پریکٹیکل سا بندہ ہوں بس سارے کام سوچتا ہوں اور پھر پتہ بھی نہیں چلتا اور وہ کام ہوجاتے ہیں لیکن یہ مرحلہ شاہد میری زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ ہے کیونکہ اس میں الفاظ کی ضرورت زیادہ ہے جبکہ میرے پاس الفاظ کی کثیر تعداد نہیں پائی جاتی۔"
وہ از حد سنجیدگی سے بول رہا تھا اتنی سنجیدگی سے کہ اس کے ساتھ کھڑا اسامہ چونک کر اسے دیکھ رہا تھا اور مائرہ صرف اسے بولتے ہوئے سن رہی تھی چہرہ بے تاثر تھا۔
" میں نہیں جانتا تھا کہ کالج کے بعد کبھی آپ کو اس طرح سے کہوں گا پر میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں اگر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہے تو یہ بوکے اسامہ سے لے لیں دوسری جانب آپ کو اپنی زندگی پر مکمل اختیار ہے۔"
اس لمہے وہی جانتا تھا کہ اس نے یہ بات کس طرح سے کہی ہے مگر وہ ایسا انسان نہیں تھا جو محبت میں زبردستی کرتا وہ محبت میں باہمی رضا مندی کا قائل تھا۔ مائرہ کے چہرئے پر سنجیدگی ہنوز برقرار تھی طراب کو اپنی دھڑکنوں کا شور اپنے کانوں میں محسوس ہورہا تھا وہ دم سادے وہاں کھڑا اس کے جواب کا منتظر تھا جب کچھ دیر بیتی تو مائرہ سپاٹ چہرے سے گویا ہوئی تھی۔
" میں یہ بوکے نہیں لوں گی مسٹر طراب علی!"
اس نے اپنے جملے کو چبا کر ادا کیا تھا طراب کو اپنی سانس اپنے سینے میں ہی اٹکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی اس نے نے بے یقینی سے سامنے کھڑی مائرہ کو دیکھا تھا جس کے چہرے پر سنجیدگی رقم تھی۔ وہ دھیرے سے بنا کچھ کہے دو قدم پیچھے ہٹا تھا اور پھر اسی سمت کو مڑ گیا تھا کچھ اس طرح کے مائرہ کی جانب اس کی پیٹھ تھی۔ وہ ابھی کچھ ہی دور گیا تھا جب مائرہ کی پکار نے اس کے قدم جکڑے تھے۔
" میں بوکے کیوں لوں وہ بھی اسامہ کے ہاتھوں سے شادی آپ کو کرنی یا اسامہ کو؟"
وہ اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے زرا اونچی آواز میں بولی تھی اس کی آواز اتنی تو ضرور تھی کہ رسیپشن پر بیٹھی نرس اور کچھ گردو نوا کے لوگوں نے سنی تھی سب ایک دم ان کی جانب متوجہ ہوگئے تھے۔ اسامہ نے بے ساختہ لاحولا پڑھا تھا۔ طراب ایک دم اس کی جانب مڑا تھا اور اسامی کے ہاتوں سے بوکے تقریبا جھپٹنے والے انداز میں لیا اور قدم قدم چلتا ہوا مائرہ کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔
" ویل یو میری می ڈاکٹر مائرہ؟"
اس نے گلدستہ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے پوچھا تھا جس پر وہ مسکرائی تھی۔
" میں کبھی ہاں نہ کہتی اگر جبرئیل مجھے فون کرکے بتا نہ دیتا کہ تم کب سے میرے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔"
اس نے اس کے ہاتھ سے سرخ گلابوں کا گلدستہ لیتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا جبکہ طراب دل ہی دل میں جبرئیل کی درگت بنانے کا سوچ چکا تھا۔
طراب نے اپنی جیب سے ایک سرخ رنگ کا کیس بھی نکالا تھا اور اس میں سے نازک آبگینے کی انگھوٹی نکال کر مائرہ کے دائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں پہنائی تھی۔ اسامہ نے تالی کے ساتھ ہوٹنگ کرکے شور مچایا تھا بے ساختہ فضا میں بہت سی تالیوں کی آواز گونجی تھی جس پر وہ دونوں ہی جھینپ گئے تھے۔
" چلو شکر مشن سکسیس فل۔"
اسامہ نے اوپر کی جانب دیکھتے ہوئے منہ پر ہاتھ پھیرے تھے جس پر طراب نے اسے مکا جڑا تھا۔مائری نے دل ہی دل میں دونوں کی دوستی کی نظر اتاری تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اس کے سامنے بیڈ پر اس کے نکاح کا جوڑا اور زیور رکھا ہوا تھا جو آنیہ اور زیبا اس کے لیے خرید کر لائی تھیں لیکن اس نے ابھی تک بھی ان دونوں میں سے کسی بھی چیز کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ کل کے بعد سے اب تک اس کے گھر ہونے کے باوجود زارا کا سامنا جبرئیل سے نہیں ہوا تھا دل عجیب قسم کے وہم و وسوسوں میں گھرا ہوا تھا اس کے ذہن میں صرف ایک بات تھی اور وہ تھی زمہ داری چاہت نام کا تصور اس کے اعصاب کو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔
" ٹھیک کہا تھا تمہاری ماں نے میجر جبرئیل تم اپنی زمہ داری سے کبھی بھی نہیں چوکتے اور اب بھی تم زمہ داری اور فرض پورا کرنے کے لیے نکاح تک کے لیے تیار ہوگئے۔"
اس نے اپنی گال پر سے لڑھک کر آتا ہوا آنسو پونچھا تھا اور سامنے رکھے ہوئے جوڑے کو چھو کر دیکھا تھا۔
" کبھی سوچا بھی نہیں تھا اماں! کہ تمہارے بغیر میں یہ جوڑا پہنو گی لیکن دیکھ لو آج یہ جوڑا یہ زیور اور حتی کہ اپنا آپ بھی تمہارے بغیر میں کسی کے سپرد کردوں گی۔ آج محسوس ہورہا ہے کہ محبت دینے کی امید لگانے والے لوگ جب فرض کی رسی تھماتے ہیں تو کہیں اندر سے جیسے پنپتی محبت کا بھرم بھی ٹوٹ جاتا ہے میں آج تک نہیں جان پائی کہ یہ محبت کرنا کیا ہوتا ہے لیکن جب ایک انجانی امید کی کونپل دل کے گوشے میں پھوٹ جائے اور وہ پروان چڑھنے سے پہلے ہی آئینہ دیکھا کر مسل دی جائے تو امید سے بھی بھروسہ ختم ہوجاتا ہے۔"
اس کے آنسو متواتر بہہ رہے تھے زارا نور اپنی زندگی میں ایک بہت خاص عورت بننا چاہتی تھی وہ عورت جس کا مقصد حیات ایسا ہو کہ اس کے بارے میں سوچ کر ہی وہ مطمعن ہوجائے مگر زندگی آپ کو ہمشہ آپ کی چاہت نہیں دیتی وہ کبھی دے کر آزماتی ہے تو کبھی چھین کر اور تکلیف دونوں صورتوں میں ہی ہوتی ہے اگر ہو تو اسے سمبھال کر رکھنا تکلیف دے ہوتا ہے اور اگر نہ ہوتو اس کی طلب آپ کو تکلیف سے ہمکنار کرتی ہے۔
وہ ابھی اپنی سوچوں کے تانے بانے بننے میں ہی محو تھی جب اس کے کمرے کے دروازے پر کھٹکا ہوا تھا۔
اس نے تھک کر سر بیڈ کراون سے ٹکایا تھا وہ جانتی تھی کہ آنے والی زیبا یا آنیہ میں سے ہی کوئی ہوگی اور نتیجہ اس کی توقع کے عین مطابق تھا آنے والی آنیہ تھی جس کے پیچھے ایک بیس بچیس سال کی لڑکی بھی تھی جو شاہد اسے دلہن بنانے آئی تھی۔ زارا نور نے ایک گہرا سانس بھرا تھا اور خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا دیکھنا یہ تھا کہ اس کی زندگی اسے کہاں لے کر جاتی ہے اور وہ وقت زیادہ دور بھی نہیں تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ لمبے ٹخنوں تک آتے پلم فراک میں ملبوس تھی جس پر خوبصورت گرے کلر سے کڑھائی کی گئی تھی اپنے سیاہ بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے وہ کانوں میں جھمکے پہن کر وہ اپنی لپ اسٹک کو ڈبل کوڈ دے رہی تھی جب ایک دم اس کے کمرے کی بتی بند ہوئی تھی سارے کمرے میں نیم اندھیرا پھیل گیا تھا اسے ہمشہ اندھیرے سے زرا خوف محسوس ہوتا تھا وہ تو اکثر اوقات اپنی سائیڈ کا لیمپ بھی جلا کر سوتی تھی اور اب ایک دم سے لائٹ کا چلے جانا زیبا کا چڑیا جیسا دل سہم کر حلق میں آگیا تھا وہ کوئی موم بتی یا فون ڈھونڈنے کے لیے جدو جہد کرنے ہی والی تھی جب اسے اپنی گردن پر کسی کا سرسراتا ہوا نرم گرم لمس محسوس ہوا تھا وہ کرنٹ کھا کر پلٹی تھی مگر مقابل کی گرفت مضبوط تھی۔ اچانک کمرے میں لائیٹر کی مدہم روشنی ابھری تھی جس نے زیبا کے چہرے کو قدرے روشن کردیا تھا زیبا نے دم سادھے اپنے سامنے کھڑے آرون کو دیکھا تھا جس کی سپید رنگت اندھیرے میں بھی چمک رہی تھی وہ اندھیرے کے باوجود بتا سکتی تھی کہ وہ اس لمہے کریم کلر کی شلوار قمیض پر براون ویسٹ کوٹ پہنے ہوا ہے۔
" تہ۔تم یہاں کیا کررہے ہو اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟"
زیبا کی خوف کے باعث آواز لڑکھڑا گئی تھی۔
" اپنی ملکیت کے پاس جانے کے لیے کسی کے دیکھنے کی پرواہ کون کافر کرتا ہے اس میں تو صرف ہم ہوتا ہے۔"
اس نے ایک ہاتھ سے لائیٹر جبکہ دوسرا ہاتھ زیبا کی نازک کمر میں ڈال کر اپنے قریب کیا تھا وہ بھی کسی سہمی ہوئی چڑیا کی طرح اس کی طرف کھینچی چلی آئی تھی اس نے آرون کے سینے پر ایک ہاتھ دھر کر اس کے اور اپنے درمیان کا فاصلہ برقرار کیا تھا۔
" مجھے لگتا اب تو امی سے جلدی بات کرنی پڑے گی ورنہ تم تو مجھے پاگل ہی کردو گی۔"
اس نے اس کے کان کے قریب مدہم آواز میں سرگوشی کرنے سے انداز میں کہا تھا زیبا کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا دل ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔
"آرون پلیز!"
اس کی پلکیں لرز رہی تھیں آرون نے دھیرے سے اپنے ہونٹ اس کی لرزتی ہوئی پلکوں پر رکھے تھے زیبا کو لگا تھا وہ اب کبھی سانس نہیں لے پائے گی آرون کا لمس اس کے اندر جیسے ایک ٹھہراو پیدا کرگیا تھا۔
" مجھے لگا تم۔۔ مجھ سے ناراض!"
اس کے لفظ ابھی منہ میں ہی تھے جب آرون نے اپنی شہادت کی انگلی اس کے لبوں پر رکھی تھی۔
" مجھے صرف لگا تھا کہ یہ سب تمہاری غلطی سے ہوا لیکن پھر اس میں تمہاری غلطی نہیں تھی۔ آئی ایم رئیلی سوری زیب میں نے تمہیں اگنور کیا۔"
اس نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر انتہائی نرمی سے کہا تھا لائیٹر کی روشنی بھی اب بجھ چکی تھی۔
" اٹس اوکے۔"
زیبا نے اس کے ہاتھ تھپتھپائے تھے۔
" تم جاو اب اس سے پہلے کہ لائٹ آجائے اور کوئی تمہیں دیکھ لے۔"
زیبا نے اسے اندازے سے دروازے کی جانب دھکیلا تھا جو مسکراتا ہوا باہر نکل گیا تھا اس کے جانے کے بعد زیبا نے گہرا سانس بھرا تھا اور وہ اتنے دن میں پہلی بار جی بھر کر مسکرائی تھی۔ ایک لمہے کی تاخیر کے بغیر پورا کمرا روشنی میں واپس نہا گیا تھا۔
آنیہ اپنا پیچ فراک سمبھالتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی۔
" کب سے ڈھونڈ رہی ہوں تمہیں چلو باہر سب ویٹ کررہے ہیں قازی صاحب بھی کب سے آکر بیٹھے ہوئے ہیں۔"
آنیہ نے تیزی سے بولتے ہوئے اس کی کلائی تھامی تھی اور تقریبا کھینچتے ہوئے باہر کی جانب لے گئی تھی جہاں قازی صاحب کے ساتھ سبتین بیٹھا نکاح نامہ بھروا رہا تھا جبکہ جبرئیل کہیں بھی نظر نہیں آیا تھا۔
" رون!"
عشرت جہاں نے اپنے کمرے سے باہر آتے آرون کو آواز لگائی تھی جو اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتا ہوا آرہا تھا۔
" جی ماں!"
اس نے ان کی جانب سوالیہ نگاہیں مرکوز کی تھیں۔
" بچے! جبرئیل کو دیکھو تیار ہوا کہ نہیں سب ویٹ کررہے ہیں اس کا۔"
انہوں نے گویا حکم جاری کیا تھا۔ جس پر وہ سر ہلا کر واپس سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا۔ جبرئیل کے کمرے کے باہر پہنچ کر اس نے دروازہ کھٹکایا تھا اندر سے یس کی آواز پر وہ دروازے کی ناب گھما کر اندر داخل ہوگیا تھا کمرہ ہنوز نفاست سے سجا ہوا تھا وہ آئینے کے سامنے کھڑا اپنی ویسٹ کوٹ کے بٹن بند کررہا تھا اوف وائٹ شلوار قمیض پر بلیک پلین ویسٹ کوٹ پہنے اپنے فوجی کٹ بال سلیقے سے سیٹ کیے دمکتی ہوئی سرخ و سپید رنگت اور چوڑے شانوں کے ساتھ وہ غضب کی حد تک وجیہ لگ رہا تھا اتنا کہ اس پر نظر ٹکانا مشکل ہورہا تھا آرون نے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری تھی۔
" ماشاءاللہ بھائی! زارا کو آج بے ہوش کرنے کا ارادہ ہے کیا؟"
آرون نے شرارت سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا تھا جس پر جبرئیل بے ساختہ مسکرایا تھا۔
" کیوں تم زیبا کو بے ہوش کرآئے ہو کیا؟''
وار اتنا بے ساختہ تھا کہ آرون ایک پل میں گڑبڑا گیا تھا۔
" میں بھلا اسے کیوں بے ہوش کرنے لگا؟''
اس نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاکر زرا سمبھل کر کہا تھا۔
" بیٹا! یہ جو ہورہا ہے نہ دکھ رہا ہے مجھے ملیٹری مین ہوں زیرک نگاہیں ہیں میری اندھا نہیں ہوں۔"
اس نے اپنے اوپر کور پرفیوم کی بوتل اٹھا کر اسپرے کرتے ہوئے کہا تھا۔
" اللہ بجائے ملیٹری مین سے توبہ ماں بلا رہی ہیں ہار سنگار ہوگیا ہو تو جلدی تشریف لے آئیں۔"
وہ تن فن کرتا ہوا اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا تھا جبکہ اس کے جانے کے بعد جبرئیل کا قہقہ بے ساختہ تھا۔
کچھ ہی دیر میں وہ اپنی مکمل تیاری کے ساتھ لاونج میں قازی صاحب کے ساتھ بیٹھا ہوا نکاح کے کاغذات پر نظر دوڑا رہا تھا۔
" لڑکی سے اجازت لے لیں۔"
قازی نے قریب بیٹھے سبتے سے کہا تو اس نے عشرت جہاں کی جانب دیکھا تھا جنہوں نے سر ہلا کر اجازت دی تھی۔ قازی کے ساتھ آرون،سبتین اور عشرت جہاں زارا کے کمرے کی جانب چل دیے تھے جبکہ جبرئیل نے گہرا سانس بھرا تھا اور ایک آخری کام پورا کرنے اٹھا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ اپنے کمرے میں بند پاگلوں کی طرح چکر کاٹ رہی تھی غصہ، اشتعال اور آنسو بیک وقت بہہ رہے تھے صاریہ خان کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ہار رہی ہے جبرئیل، انا اور محبت تینوں ایسی چیزیں تھیں جو صاریہ کے اندر جنون کی طرح بھری ہوئی تھیں اور اب جبکہ باہر جبرئیل کا نکاح ہورہا تھا اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ سب کچھ ہار گئی ہے اس کی ذات ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی تھی اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا دل بند ہوجائے گا اور پھر کبھی وہ خود میں زندگی محسوس نہیں کرپائے گی۔ بچپن سے صاریہ نے صرف اور صرف جبرئیل کے خواب دیکھے تھے اور اب سارے کے سارے خواب جیسے ایک جھٹکے میں چکنا چور ہوگئے تھے وہ شدید اشتعال کے عالم میں نیچے فرش پر بیٹھتی چلی گئی تھی آنکھوں سے جو آنسو بہہ رہے تھے ان میں روانی پیدا ہوگئی تھی اور اب باقاعدہ اس کی سسکیاں اور ہچکیاں پورے کمرے کے درو دیوار میں گونج رہی تھیں بے ساختہ دروازہ کھٹکا تھا اس نے دھیان نہ دیتے ہوئے اپنا شغل جاری رکھا تھا دوسری بار کھٹکنے کی بجائے دروازہ کھل گیا تھا اور وہ اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ شاہد زندگی میں پہلی بار صاریہ کے کمرے میں داخل ہوا تھا اس نے بے یقینی سے دروازے میں کھڑے جبرئیل خان کو دیکھا تھا اور والہانہ اس کی جانب لپکی تھی اس نے جبرئیل کو گریبان سے تھاما تھا اور پھر وہ تقریبا چیخی تھی۔
" کس نے حق دیا تمہیں میری محبت کو ٹھکرانے کا بولو جبرئیل! جواب دو ہے کوئی جواب تمہارے پاس؟"
بے دردی سے اپنے آنسو رگڑتے ہوئے اس نے ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" اپنی بکواس بند کرو صاریہ یہ حق میرے پاس تب سے ہے جب سے میں نے شعور کی سیڑھی پر قدم رکھا ہے تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتی تھی کیوں کرتا میں تمہاری محبت قبول بولو اس لیے تاکہ تم جشن منا سکتی کہ تم نے میجر جبرئیل خان کو بھی اپنی انا کی تسکین کے لیے تسخیر کرلیا ہے نہ صاریہ نہ میں وہ وقت نہیں بھولا ہوں جب تم میرے بابا سے مجھ سے زیادہ پیار لے لیا کرتی تھی میں وہ نہیں بھولا جب تمہاری وجہ سے انہوں نے مجھ پر زندگی میں پہلی بار ہاتھ اٹھایا تھا تم خود غرض صرف اپنے بارے میں سوچتی ہو ارے محبت کرنے والے تو محبوب کی خوشی میں ہی خوش ہوجاتے ہیں اور ایک تم ہو کہ صرف محبوب کو اپنا بنا لینے پر ہی یقین رکھتی ہوں۔ میں صرف تمہیں اتنا کہنے آیا تھا کہ کوشیش کرنا آئیندہ میرے راستے میں مت آو اور ایک بات اور۔"
وہ سانس لینے کو تھوڑی دیر رکا تھا صاریہ بے یقینی سے ابھی بھی اس کا گریبان تھامے کھڑی تھی آنکھوں کی پتلیاں بے یقینی سے ساکت تھیں۔
" زارا سے دور رہنا صاریہ میں تمہاری اپنے ساتھ کی ہوئی زیادتی تو معاف کرسکتا ہوں لیکن یاد رہے جس دن مجھے علم ہوا نہ کہ تم نے زارا کے ساتھ کچھ بھی غلط کیا ہے اس دن تمہارا اس دنیا اور خان ہاوس میں آخری دن ہوگا اور تمہیں شوٹ کرنے والا کوئی اور نہیں میجر جبرئیل خان خود ہوگا اینڈ مائینڈ ڈیٹ۔"
اس نے اس سے ایک جھٹکے میں اپنا گریبان چھڑوایا تھا اور لمبے لمبے ڈنگ بھرتا ہوا اس کے کمرے کی دہلیز عبور کرگیا تھا پیچھے صاریہ بے یقینی سے وہی کی وہی کھڑی رہ گئی تھی۔
زارا بیڈ پر سرخ دوپٹہ منہ تک اوڑھے بیٹھی ہوئی تھی اس کا دل بے ہنگم انداز میں شور مچا رہا تھا آنسو ایک لڑی کی مانند بہہ رہے تھے لاکھ کوشیش کے بعد بھی اس کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ قازی تیسری بار بھی اس سے پوچھ چکا تھا لیکن وہ پہلی دو بار کی طرح اس لمہے بھی خاموش تھی۔
" زارا! بچے بولو نہ۔"
عشرت جہاں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے حوصلہ دینے کی کوشیش کی تھی مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔ ساری صورتحال کے پیش نظر آرون کو ایک ہی خیال آیا تھا۔
" امی! آپ زارا کو سمبھالیں میں ابھی آیا۔"
اس نے ان سے کہا اور خود کمرے کا دروازہ کھول کر باہر لاونج میں نکل آیا جہاں جبرئیل صوفے پر بیٹھا بے چینی سے اپنی بائیں ٹانگ ہلا رہا تھا۔ آرون کو دیکھ کر وہ ایک پل میں اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا.
" کیا ہوا ہے اتنی دیر کیوں لگارہے ہو تم لوگ؟"
اس نے ماتھے پر بل ڈال کر اس سے پوچھا تھا۔
" وہ بھائی زارا بس روئے جارہی ہے خاموش ہی نہیں ہورہی قازی صاحب پوچھ رہے ہیں مگر وہ آگے سے خاموش ہے کوئی جواب ہی نہیں دے رہی ہے آپ چلیں نہ پلیز اس سے بات کریں۔"
آرون نے اسے زارا کے کمرے میں چلنے کے لیے کہا تھا جس پر اس نے گہرا سانس بھرا تھا اور پھر گویا ہوا تھا۔
" میں ابھی اس سے نہیں ملنا چاہتا رون خاص کر تب تک جب تک وہ میرے نکاح میں نہیں آجاتی تم ایک کام کرو یہ اپنا فون اس کے کان سے لگاو میں کال کرتا ہوں۔"
اس نے جیسے ایک فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا وہ سمجھ گیا تھا کہ زارا اس لمہے اس تکلیف سے دوچار ہے کچھ ہی لمہوں میں وہ روتی ہوئی زارا کے کان سے فون لگا چکا تھا جس کے دوسرے پار جبرئیل تھا زارا کی سسکیوں کی آواز آئیر پیس سے باہر آرہی تھی اور جبرئیل نے بے ساختہ لب پینچے تھے۔
" کیوں رو رہی ہو تم؟"
لہجے میں سختی نہیں تھی بلکہ الجھن اور غم تھا کم از کم زارا کو تو یوں ہی محسوس ہوا تھا اس کے آنسو ایک لمہے میں تھمے تھے لیکن اس کی اتنی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ اس کے سوال کا جواب دے سکے۔
" بولو کیا پوچھ رہا ہوں میں کہ کیوں رو رہی ہو؟"
اب کی بار لہجہ سخت تھا زارا کو اس کے لہجے کی سختی اپنے دل میں محسوس ہوئی تھی۔
" ام۔۔اماں کی یاد آہ۔۔رہی ہے۔"
اس نے روتے روتے اپنا جملہ پورا کیا تھا۔
" یہ نکاح کرنا چاہتی کہ نہیں؟"
لہجہ ابھی بھی ویسا ہی تھا سخت زارا کی ریڑھ کی ہڈی میں عجیب سی سنسناہٹ ہوئی تھی۔ اس کے بہتے ہوئے آنسو ایک لمہے کی تاخیر کے بغیر تھمے تھے۔
" اور اگر میرا جواب نہ ہو تو؟"
وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اس سے یہ سوال کیوں کررہی تھی مگر ہاں یہ سچ تھا اور وہاں موجود نفوس نے سنا تھا اس نے اس سے یہ سوال کیا تھا جبرئیل کی دھڑکن ایک لمہے کے لیے ڈوب کر ابھری تھی اور پھر سے اس کے چہرے نے وہی سختی بھرے تاثرات لے لیے تھے۔
"تو آئی پرومیس یہ سب جو ہورہا ہے یہ ابھی کہ ابھی ختم ہوجائے گا اور کوئی تم سے کسی قسم کا سوال نہیں کرے گا۔"
وہ بول کر خاموش ہوگیا تھا مگر زارا نے دکھ سے آنکھیں میچی تھیں اس کے آنسوں کی ایک قطار اس کی آنکھ سے بہی تھی۔
" تو آخر تم نے اپنے منہ سے بول ہی دیا کہ تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا نکاح ہو یا نہ ہو تو چلو تمہیں نہ کرکے کوئی فرق نہیں پڑتا تو مجھے کرکے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔"
اس نے اپنی آنکھ سے آنسو صاف کیے تمام کے تمام افراد اس کی جانب ہی متوجہ تھے جو سب کی موجودگی کو یکسر نظر انداز کیے اس سے فون پر بات کررہی تھی۔
" مجھے کوئی اعتراز نہیں ہے۔"
اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ بولا تھا اور فون ایک ہی جھٹکے سے بند کردیا تھا۔ دوسری جانب اس نے بھی گہرا سانس بھرا تھا اور واپس جاکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا تھا۔
دونوں کی زندگی کا فیصلہ لمہوں میں ہوا تھا زارا کے دستخط کے بعد نکاح نامہ جبرئیل کے سامنے پڑا ہوا تھا اس نے ایک نظر زارا کے دستخط پر ڈالی تھی اور پھر نکاح نامے پر قلم گھسیٹ کر اس نے ہمشہ کے لیے زارا نور کو زارا جبرئیل بنا دیا تھا اس کے سارے جملہ حقوق اپنے نام کرلیے تھے۔ نجانے اس لمہے کتنے دل یک گونہ سکون کا شکار ہوئے تھے عشرت جہاں نے تو باقاعدہ اللہ کا شکر ادا کیا تھا جو انہوں نے سوچا تھا وہ کام ہوگیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
تحہ شدہ کاغذ اس کے سامنے کھلا ہوا تھا اور اس میں درج تحریر بھی وہ دم سادھے یک لخت اس سیاہ تحریر کو دیکھ رہی تھی جس پر اس کے محبوب کا لمس اس کی توجہ بکھری ہوئی تھی۔ وہ الفاظ نہیں تھے وہ تو سیدھی سیدھی اس سے ملنے کی خواہش تھی اسے جاننے کا تجسس تھا اور یہ بات ایس۔کے کے لیے سوہان روح تھی کہ اس کا محبوب اس سے ملنے کا منتظر ہے۔ وہ احسن کو اپنے بیجھے ہوئے خطوط میں سے کسی پر بھی پتہ درج نہیں کرتی تھی مگر ناجانے کیوں آخری بیجھے ہوئے خط پر اس نے نیو یارک جنکشن کا پتہ لکھ دیا شاہد اس امید پر کہ وہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر اسے واپس خط لکھے اور یوں تو ہو نہیں سکتا تھا کہ اس کے بارے میں ایس۔کے کچھ سوچے اور وہ غلط ثابت ہوجائے ہمشہ کی طرح اس کا اندازہ درست نکلا تھا وہ تحریر کو گھور رہی تھی اس میں وہ احسن کا لمس تلاش کررہی تھی جو یقینا اس خط میں تھا اور اسے محسوس بھی ہوگیا تھا کیونکہ جیسے ایس۔کے اسے محسوس کرسکتی تھی شاہد دنیا میں ویسا کوئی بھی نہ ہو جو احسن کو جانتا ہو اسے محسوس کرسکے۔ وہ یونہی سن بیٹھی ہوئی مسلسل کاغذ کے اس ٹکرے کو گھور رہی تھی جو دکھنے میں محض ایک کاغذ تھا لیکن خود میں دو لوگوں کے جذبات کا ایک جہان آباد کیے ہوئے تھا۔
" انتظار ختم ہوا اب کب مل رہی ہیں اس سے؟"
اسے معلوم ہی نہیں ہوا غلام بخش چائے کا مگ تھامے کمرے کے دروازے میں کھڑا اس سے سوال کررہا تھا اس کی آواز پر وہ چونک کر حال میں واپس لوٹی تھی۔
" ملنے سے انتظار ختم ہوجاتا بخش اور اور جو انتظار ختم ہوجاتے وہ منزل کی طرف نہیں لے کر جاتے۔"
وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوکر اس کے قریب آئی اور چائے کا بھرا ہوا مگ اس کے ہاتھ سے لے کر ایک گھونٹ بھرتے ہوئے گویا ہوئی تھی۔
" جب انتظار ختم ہی نہیں کرنے ہوتے تو پھر کرتے ہی کیوں ؟ کیا محبت میں انتظار بہت ضروری ہے؟"
سوال کر کون رہا تھا وہ جو خود پور پور گہرائی سے اس موذی لاعلاج مرض میں ڈوبا ہوا تھا ہاں وہ جانتا تھا کہ محبت میں انتظار کیوں کیا جاتا مگر پھر بھی وہ پوچھ رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ سامنے کھڑی اس کی متائے حیات بھی وہی جواب دے گی جو بخش کے ذہن میں پہلے سے گردش کررہا تھا وہ اسے ہر بار کی طرح ایک بار پھر آزما رہا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ ہر بار وہ اگلی بار آزمانے کے ارادے سے آزماتا تھا اور اس بار وہ آخری بار آزما رہا تھا کیونکہ نہ تو اب وجہ بچی تھی اور نہ ہی حق۔
" کیونکہ محبت میں انتظار آپ کو یاد کراتا رہتا ہے کہ آپ کے اس دل کی دھڑکن میں کوئی ہے جسے حق ہے کہ وہ آپ کو انتظار کروائے اسے حق ہے کہ ہر وقت اس کے بارے میں سوچا جائے بے شک اس سے ملا نہ جائے مگر دل میں اس کو اپنے سامنے دیکھنے کی تڑپ ہی ایسی ہو کہ وہ کبھی ایک لمہے کے لیے بھی آپ کو بھولنے نہ دے کہ ہاں آپ کسی سے محبت میں ہو۔"
وہ چائے کا مگ تھامے سامنے دیکھتے ہوئے کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں بول رہی تھی اور غلام بخش بغیر سانس لیے صرف اسے دیکھ رہا تھا اسے لگ رہا تھا کہ یہ چہرا اب شاہد اس کی دسترس سے دور چلا جائے گا وہ غلامی اور محبت دونوں میں وفاداری کا قائل تھا اور محبت میں وہ چاہ کر بھی وفاداری نہیں نبھا سکتا تھا لیکن غلامی میں وفاداری نبھانا اس پر فرض تھا تب ہی گویا ہوا تھا۔
" جذبات میں بہک کر اپنے مقصد سے مت ہٹ جائیے گا ایس۔کے!"
اس نے جیسے اسے اس کا بھولا ہوا مقصد یاد دلایا تھا۔
" ہاہا غلام بخش! تم ہمشہ ایسا کیوں سوچتے ہو کہ میں دماغ کی بجائے دل سے سوچتی ہوں؟"
اس نے جیسے اس سے یہ سوال پوچھ کر اسے لاجواب کردیا تھا۔
" کیونکہ جب آپ جذبات میں ہوتی ہیں تو آپ بہت مختلف نظر آتی ہیں۔"
غلام بخش نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا تھا۔
" وہ اس لیے کیونکہ اس لمہے میں دل و دماغ دونوں سے سوچ رہی ہوتی ہوں محبت میں دل سے اور نفرت میں دماغ سے۔"
اس نے مگ خالی کرکے اسے پکڑایا اور پھر اگلا جواب طلب کیا تھا۔
" بولو پھر تلاش کہاں تک پہنچی؟"
اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ پوچھا تھا۔
" سمجھ لیں کہ شکار بہت قریب ہے جلد ہی آپ کی دسترس میں ہوگا۔"
اس نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا تھا اور باہر نکل گیا تھا جبکہ پیچھے وہ معنی خیزی سے مسکرا کر رہ گئی تھی۔ اس کا پلین بہت حد تک کامیاب نظر آرہا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شام میں وہ برآمدے میں سبز سکارف ہلکے سرخ رنگ کے جوڑے میں اوڑھے قرآن پاک کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی مگر دل عجیب سا بوجھل ہورہا تھا جو گزشتہ روز اس نے شمس کے ساتھ کیا تھا وہ اس کی درستگی اور غلط ہونے کے وسط میں پھسی ہوئی تھی دل کہہ رہا تھا کہ فاطمہ! کچھ بہت ہی غلط کر بیٹھی ہو دنیا کا ہر مرد غلیظ نہیں ہوتا اور دماغ کہہ رہا تھا ایک بار عزت جانے کے بعد دنیا کا ہر مرد غلیظ ہی معلوم ہوتا ہے قصور فاطمہ کا بھی نہیں تھا اگر اس نے کچھ غلط تصور کیا تھا قصور تقدیر کا تھا جس نے یہ رنگ دیکھائے تھے اور وہ اپنی ادھوری ذات کے ساتھ چکنا چور ہوگئی تھی۔ ایک بار پھر دنیاوی خیالات جھٹک کر اس نے دل اور ذہن قرآن پاک پر لگایا تھا جہاں ایک آیت چمک رہی تھی۔
" امر یقولون افترئہ قل فاتو بعشر سور مثلہ مفتریت وادعو من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدیقین۔
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ پھر جواب دیجیے کہ تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آو اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ ملا بھی لو اگر تم سچے ہو۔"
یعنی کہ جب اللہ تعالی کی کہی ہوئی باتوں کی نافرمانی کی جاتی ہے جب انہیں جھوٹ کہا جاتا ہے جب اس کی نازل کردہ تحریر کو ماننے سے انکار کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ جاو پھر تم خود اس جیسا کلام نکال کر دیکھاو ڈھونڈو کوئی اس جیسا جو تمہارے ساتھ مل جائے اگر تمہاری باتوں میں سچائی ہے تو اور پھر بندہ سوچ میں پڑجاتا کہ اس جیسا تو کوئی بھی نہیں اس کی تو کوئی مثل نہیں تو پھر نافرمانی کیوں پھر گناہ کیوں پھر توبہ کیوں نہیں؟ جب معلوم کہ انسان اس کے سامنے ایک چیونٹی کی مانند ہے تو پھر غرور کیوں پھر شکر کیوں نہیں؟ پھر سجدہ کیوں نہیں پھر اس کی نعمتوں کی خواہش کیوں نہیں؟ یہ انسان ہے جس میں بیک وقت اچھائی اور برائی کا مادہ پایا جاتا اس میں بیک وقت دل و دماغ کی جنگ چل رہی ہوتی ایک طرف اللہ کا شکر ادا کرنے کا دل ہوتا تو دوسری جانب کچھ نہ ملنے پر اس سے شکوہ۔ جوں جوں وہ سوچ رہی تھی دماغ الجھ رہا تھا وہ بھی تو یہی کر رہی تھی۔ عزت چھین جانے پر شکوہ کررہی تھی اور خود سے آگاہی پر شکر بھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی جو خدا عزت چھینے پر قادر ہے وہ عزت سے مالا مال کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے اس کے ایک اشارے پر سب کچھ ہل کر رہ جاتا ہے عرش،فرش تو پھر یہ تو دنیا تھی جس کی اور جس میں بسنے والوں کی حیشیت ایک کمزور چیونٹی سے بھی کم کی تھی۔ قرآن کی وہ آیت اس کے رونگٹے کھڑے کرنے والی تھی وہ مکمل پڑھنے کے باوجود بھی اسی کے سحر میں تھی ۔
" بندے کو اللہ سے امیدیں ہوتی ہیں تو اللہ کو بھی تو بندے سے امیدیں وابسطہ ہوں گی ہم چاہتے وہ ہماری امیدوں پر پورا اترے تو کیا ہم اس کی امیدوں پر پورا اترتے ہیں؟"
آگے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان تھا اور وہ اچھے سے جانتی تھی کہ جواب نفی میں ہے اور جن سوالوں کا جواب نفی میں ہوتا ہے وہ سوال کبھی بھی پورے نہیں ہوتے۔ اس کا وجود پسینے سے بھیگ گیا تھا وہ اتنی محو تھی کہ گھر میں داخل ہوتے شمس کی موجودگی کو محسوس ہی نہیں کرپائی۔ شمس نے ایک نظر ساکن بیٹھے اس کے وجود کو دیکھا تھا اور پھر اس کے آنسوں سے بھیگے چہرے کو اب وہ سمجھنے لگ گئی تھی کہ قرآن کی کس آیت میں کیا کہا گیا ہے کونسی آیت خود میں کیا مفہوم سمیٹے ہوئے ہے کس میں کن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔
" فاطمہ تم رو رہی ہو؟"
اس نے حیرت سے اس کے قریب آتے ہوئے کہا تھا جس پر فاطمہ نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔ایک لمہے میں اسے اپنا گزشتہ رویہ یاد آیا تھا اور وہ کافی حد تک شرمندہ بھی ہوئی تھی۔
" آہ۔۔نہیں تو میں کیوں رو گی بھلا۔"
اس نے جلدی سے اپنے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا تو شمس اس کے سامنے رکھی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔
" میں نہیں جانتا فاطمہ! کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا کیا غلط ہوا کیا صیح ہوا اور تم مجھے کیا سمجھ رہی ہو لیکن جو تم سمجھ رہی تھی ویسا کچھ بھی نہیں ہے میں مانتا ہوں کہ میں تھوڑا سخت مزاج ہوں جلدی غصے میں آجاتا ہوں مگر کیپٹن شمس نہ آج بدکردار ہے اور نہ کل تھا۔"
وہ ایک جھٹکے سے کرسی کو ٹھوکر مارتے ہوئے اٹھا تھا اور لمبے لمبے ڈنگ بھرتا ہوا برآمدے کی راہداری عبور کرگیا تھا پیچھے وہ بس خود پر مزید شرمندہ ہوکر رہ گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
دھیرے دھیرے سب کمرے سے نکل گئے تھے کمرہ بالکل خالی ہوگیا تھا وہ تنہا بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی دل ایک دم خالی تھا کیا ہوا تھا سوائے اس کے کہ وہ اب زارا نور نہیں رہی تھی بلکہ زارا جبرئیل بن گئی تھی جبرئیل خان کی منکوحہ کیسا احساس تھا یہ جو وہ چاہ کر بھی خود میں محسوس نہیں کرپا رہی تھی۔ جبرئیل خان کی منکوحہ کے عہدے پر فائز ہونا یقینا زارا جبرئیل کے لیے اعزاز کی بات ہونی چائیے تھی مگر وہ اس لمہے احساس سے عاری تھی۔ وہ ایک جھٹکے سے بیڈ سے اتری تھی اور کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی ہوئی تھی جہاں دور کہیں پہاڑوں پر سورج چمکتا ہوا محسوس ہورہا تھا جس کی روشنی پہاڑوں کی چوٹیوں سے ہوتی ہوئی پوری زمین پر اپنا سایہ کیے ہوئے تھی اس نے ایک گہرا سانس بھرا تھا شاہد زندگی بھی سورج کی اس روشنی کی مانند ہوگئی تھی جو پہاڑوں کی چوٹیوں کی اونچائی کو چھوتے ہوئے بڑی مشکل سے زمین کو چھو رہی تھی وہ مگن تھی پہاڑ اس کی چوٹیاں اور سورج تنیوں کے تال میل جوڑنے میں جب کلک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا تھا وہ پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی وہ اندر داخل ہوا تھا اور انتہائی آہستگی سے اپنے پیچھے دروازہ بند کرگیا تھا وہ جبرئیل کی جانب پشت کیے کھڑی تھی ہلکے گلابی گرارے پر سرخ ٹشو کا دوپٹہ لیے ہوئے وہ کھڑکی کی جانب رخ موڑے ہوئے کھڑی تھی وہ ابھی تک اسے اپنے نام کے جوڑے میں نہیں دیکھ سکا تھا وہ بغیر کسی آواز کے بالکل اس کے پیچھے جاکر رکا تھا وہ زارا کے اتنا قریب تھا کہ اگر زارا زرا سا بھی ہلتی تو یقینا وہ جبرئیل سے ٹکرا جاتی۔ پہاڑوں کو دلجمی سے دیکھتے زارا کو گرم سانسوں کی تپش اپنی گردن پر محسوس ہوئی تھی اور کسی کے سانس لینے کی آواز بھی اتنا تو وہ بھی جانتی تھی کہ وہ کون ہے جسے حق ہے اس کے اتنا قریب کھڑے ہونے کا زارا کو لگ رہا تھا کہ وہ سانس نہیں لے پائے گی وہ سانس روک چکی تھی جبرئیل کے سانس لینے کی مسلسل آواز زارا کے کانوں میں سرسراہٹ کررہی تھی یہ صرف آواز نہیں تھی کچھ ہی لمہوں میں اس کا لمس بھی تھا جو زارا کو اپنے کندھوں پر محسوس ہوا تھا جبرئیل نے اس کا رخ اپنی جانب موڑا تھا اور وہ کسی مومی گڑیا کی طرح مڑ گئی تھی بڑی بڑی بھوری کاجل اور مسکارے سے سجی آنکھیں گندمی گلابی گالوں پر سجدہ ریز تھیں ماتھے کی بندیا چمک رہی تھی اور خوبصورت عنابی ہونٹ گلابی سرخی سے سجے ہوئے تھے ناک میں چھوٹی سی نتھ پہنے وہ ہلکے گلابی گرارے پر سرخ ٹشو کا کامدانی دوپٹہ اوڑھے زیورات سے آراستہ سر سے پیر تک اس کے لیے سجی ہوئی تھی ہونٹ اور پلکیں دونوں لرز رہی تھیں دل تھا کہ اتنا تیز دھڑک رہا تھا کہ اس کی دھڑکن کی آواز زارا کو اپنے آویزوں سے سجے کانوں میں سنائی دے رہی تھیں۔
" ان کے چہرے کی بات ہوجائے
آج ذکر گلاب رہنے دو"
اس نے اتنی دھیرے سے بولا تھا کہ زارا کی جان ہوا ہورہی تھی اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کے سامنے کھڑا ہوا شخص کچھ دیر فون پر بات کرنے والا شخص ہے یا وہ جو اس لمہے وہ ہے جو بھی تھا وہ آج مان گئی تھی کہ وہ میجر جبرئیل خان کو کبھی نہیں سمجھ پائی جہاں سے وہ سوچنا چھوڑتی ہے وہاں سے وہ سوچنا شروع کرتا تھا۔
انتہائی دھیرے سے اس نے زارا کا سر پر اوڑھا ہوا سرخ دوپٹہ پنوں کی قید سے آزاد کیا تھا دوپٹہ ایک جھٹکے میں ڈھلک کر اس کے کندھے پر آگیا تھا گھنگھریالے بالوں کو جوڑے کی قید سے آزاد کردیا گیا تھا اب کھلے بالوں پر بندیا چمک رہی تھی زارا بے بسی سے آنکھیں بند کرگئی تھی اسے حق نہیں تھا کہ وہ اس کو روک سکتی کیونکہ کچھ لمہے پہلے وہ اس کے سارے حقوق اپنے نام کرچکا تھا۔ اس نے تو زارا کو اتنا بھی حق نہیں دیا تھا کہ وہ اپنے شوہر کو نظر بھر کر دیکھ ہی لیتی اس کی شخصیت اتنی جازب تھی کہ زارا نظریں نہیں اٹھا پائی تھی۔ جبرئیل نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے دائیں بائیں رخساروں پر رکھے تھے اور پھر اسے تھام کر اس پر جھکا تھا زارا کی دھڑکن میں ایک پل میں اشتعال پیدا ہوا تھا جبرئیل نے اس کی بندیا سے سجی پیشانی پر اپنے لب رکھے تھے اس کے پہلے لمس نے زارا کے اندر سکون سا بھر دیا تھا۔
" نکاح مبارک ہو زارا!"
آواز انتہائی دھیمی تھی لیکن اس ایک جملے میں جذبات کا ٹھاٹھے مارتا سمندر تھا کم از کم زارا کو تو یونہی محسوس ہوا تھا۔ زارا کا چہرہ ابھی بھی جبرئیل کے ہاتھوں کے پیالے میں تھا وہ یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا اس کی نظروں سے زارا پزل ہورہی تھی بے حد ہمت جمع کرنے کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوئی تھی۔
" ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟"
آخر کو اس نے سوال کرہی ڈالا تھا۔
" دیکھ رہا ہوں کوئی دلہن اتنی حسین کیسے ہوسکتی ہے۔"
اس نے اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تھا۔
" میں اتنی حسین نہیں ہوں اور یہ آپ اچھے سے جانتے ہیں۔"
اس کا اشارہ اپنی گندمی رنگت کی جانب تھا جسے سن کر ایک پل میں جبرئیل کے ماتھے پر بلوں کا جال نمودار ہوکر غائب ہوا تھا اس نے باری باری اس کے دونوں ہاتھوں کی پشت چومی تھی۔
" تم زارا جبرئیل! میجر جبرئیل خان کی منکوحہ ہو اور میجر جبرئیل خان کی بیوی کوئی عام عورت نہیں ہوسکتی اس لیے خود کو عام سمجھنا چھوڑ دو اور یاد رکھو کہ اگر تم عام ہوتی تو میری بیوی کی جگہ پر نہ ہوتی۔"
اس نے اس کے بالوں کی لٹ پیچھے ہٹاتے ہوئے انتہائی بوجھل لہجے میں کہا تھا۔ اس کے جواب پر بہت دیر کے لیے زارا کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں رہی تھی وہ خود تو خاص تھا ہی اپنے ساتھ اس نے زارا کو بھی عام لوگوں کی فہرست سے نکال کر خاص بنا دیا تھا۔
" اگر ابھی رخصتی کرالوں تو کیا لڑو گی تم مجھ سے؟"
وہ انتہا سے زیادہ سنجیدہ دیکھائی دے رہا تھا زارا کے دونوں ہاتھ ابھی بھی اس کے ہاتھوں میں ہی موجود تھے زارا کو اس کے سوال کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
" جواب دو خاموش کیوں ہو؟"
ایک جھٹکے سے اس نے زارا کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی جانب کھنچا تھا وہ بالکل اس کے قریب تھی جبرئیل کا چہرہ زارا کے چہرے کے اتنے قریب تھا کہ زارا کا سانس لینا دشوار ہورہا تھا۔
" لہ۔۔لیکن۔۔ انٹی نے بولا تھا کہ ابھ۔۔ابھی رخصتی نہیں ہوگی ابھی صرف نکاح۔۔!
آگے سے جملہ ادھورا رہ گیا تھا کیونکہ اس نے زارا کے ہونٹوں پر اپنی شہادت کی انگلی رکھی تھی۔
" شیش! وہ تب کی بات تھی اب کی بات کرو رخصتی کراکے تمہیں اپنے کمرے میں لے جاوں تو لڑو گی مجھ سے؟"
سوال پھر سے وہی تھا لیکن جواب کیا دے زارا کی سمجھ سے باہر تھا اسے اپنے ہاتھ پاوں پھولتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔
" رخصتی کی بات نہیں ہوئی تھی میجر صاحب!"
زارا نے دھیرے سے کہا تھا آنکھیں ہنوز نیچے تھیں اور وہ اس کی گرفت میں تھی جبرئیل کے مکمل حصار نے زارا کا احاطہ کیا ہوا تھا۔
" میں اب کہہ رہا ہوں مسز میجر صاحب!"
جواب اسی کے انداز میں تھا۔
" لیکن کیوں؟"
وہ تنگ آچکی تھی۔
" کیونکہ تمہیں چھوڑ کر جانے کو دل راضی نہیں اور جب جبرئیل کا دل راضی نہ ہو وہ کام نہیں کرتا میں اب بولو لڑو گی؟"
تان پھر سےوہی آکر ٹوٹی تھی۔
" مجھے ابھی آگے پڑھنا ہے۔"
لہجہ بے بسی لیے ہوئے تھا۔
" میں پڑھا دوں گا اب بولو لڑو گی؟" گرفت مضبوط ہوئی تھی فاصلہ سمٹتا ہی جارہا تھا زارا اس کی گرفت میں کوئی معصوم چڑیا لگ رہی تھی وہ خاموش تھی بالکل خاموش جیسے سمجھ نہ آرہا ہو کہ کہے کیا۔
" بولو تمہاری خاموشی مجھے ہاں کا عندیہ دے رہی ہے۔"
اس نے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔
" نہ۔۔نہیں لڑو گی۔"
زارا بے ساختہ بولی تھی اس کی مسکراہٹ یقینی تھی۔
" اوکے رخصتی کے لیے تیار کرلو خود کو دو دن بعد میں واپس جارہا ہوں اور تم میرے ساتھ جاوں گی تب تک مائینڈ سیٹ کرلو۔"
اس نے اس کا گال تھپکتے ہوئے اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا تھا اور ایک بار پھر سے ہونٹ اس کی پیشانی پر رکھے تھے زارا آنکھیں بند کرگئی تھی۔
" ایک بار پھر سے ویلکم ٹو مائی لائف!"
آہستگی سے کہہ کر وہ اس سے دور ہوا تھا اور لمہوں میں کمرے سے غائب ہوگیا تھا پیچھے اس کے پرفیوم کی خوشبو رہ گئی تھی جو اس کی موجودگی کا عندیہ دے رہی تھی اب تو زارا کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ جبرئیل کے ساتھ ایک لمہہ بھی نہ رہی تو وہ سانس نہیں لے سکے گی کیا کوئی ایک ہی ملاقات میں اپنا عادی بنا جاتا ہے شاہد نہیں مگر وہ کوئی نہیں تھا وہ جبرئیل تھا وہ بنا سکتا تھا کیونکہ وہ عام لوگوں سے مختلف تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کمال ولا میں سناٹوں کا راج تھا صمن بیگم تنہا اپنے کمرے میں اجڑے حلیے میں بستر پر کچھ سامان بکھیرے بیٹھی ہوئی تھیں جس میں علینہ کی بے شمار بچپن کی تصاویر تھیں اور بھی بہت سی تصویریں بکھری ہوئی تھیں جن میں علینہ کے ساتھ ایک اور ہنستی مسکراتی لڑکی اس کا ہاتھ تھامے کھڑی تھی صمن بیگم نے اس تصویر پر ہاتھ پھیرا تھا ان کے چہرے پر اس لمہے زمانے بھر کی محبت تھی تصویریں الٹ پلٹ کرتے ہوئے اچانک وہ ساکت ہوئی تھیں کسی نے سالوں بعد ان کے دل کی دھڑکن روک لی تھی اور وہ اب بھی وہی شخص تھا جس سے کبھی انہوں نے بے تحاشہ محبت کی تھی تصویر میں یونیفارم میں ملبوس وہ کس قدر جازب نظر آرہا تھا صمن بیگم کو لگ رہا تھا کہ وہ سالوں بعد بھی ان کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا ہے اور وہ ہل نہیں پائیں گئی۔
" میڈم!"
دروازے پر ہونے والی دستک سے وہ حال میں واپس لوٹی تھیں۔
" ہوں نوراں بولو؟"
انہوں نے آنسو پونچھتے ہوئے سوالیہ نگاہیں نوراں کے چہرے پر مرکوز کی تھیں۔
" وہ میڈم سر آگئے ہیں۔"
اس نے مودب ہوکر داور کمال کی موجودگی کے بارے میں آگاہ گیا تھا۔
" علہ۔۔علینہ بھی آئی ہوگی۔"
وہ جلدی سے بیڈ سے نیچے اتری تھیں سیاہ نائٹ سوٹ میں ملبوس بالوں کو جوڑے میں باندھے میک سے مبرا چہرے کے ساتھ وہ انتہائی بیمار لگ رہی تھیں۔
وہ بھاگتی ہوئی سیڑھیاں اتری تھیں جہاں صوفے پر داور کمال ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھے ہوئے تھے۔
" علینہ! میری علینہ آئی ہوگی آپ کے ساتھ؟"
وہ حواس باختہ انداز میں ان کا بازو تھام کر آس بھری نظروں سے سگار منہ میں سلگائے داور کمال سے پوچھ رہی تھیں۔
" بھاگ گئی تمہاری بیٹی میرے منہ پر کالک مل کر بھاگ گئی بہت شوق تھا تم دونوں ماں بیٹی کو میری ساک اینڈیا میں خراب کرنے کا تو کو صمن بیگم جس روز یہ بات باہر نکلی کہ داور کمال کی اکلوتی بیٹی کمال ولا سے اپنے ہندو عاشق کے ساتھ بھاگ نکلی ہے تو وہی پر میری عزت کا جنازہ نکل جائے گا ہوجانا پھر تم اور وہ خوش۔"
وہ چیختے ہوئے ایک لمہے میں کھڑے ہوئے تھے اور تن فن کرتے ہوئے وہاں سے نکلتے چلے گیے تھے پیچھے صمن بیگم جہاں کھڑی تھیں وہی زمین پر بیٹھ گئی تھیں۔
" سب میرا قصور ہے سب میرا نہ میں اس روز وہ غلطی کرتی اور نہ میری زندگی برباد ہوتی سب اپنے ان ہاتھوں سے ختم کردیا میں نے علینہ!"
وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں مگر صد افسوس کہ کمال ولا میں ان کی یہ چیخیں سننے والا کوئی بھی نہیں تھا پورے کمال ولا میں ملازموں کے علاوہ ان کی صدائیں سننے والا کوئی بھی اپنا نہیں تھا انہیں شدت سے اپنے گزرے ماہ و سال یاد آرہے تھے کیا کیا تھا انہوں نے خود کے ساتھ ہاں وہ تھیں بے وفا، بدکردار ان کے پیچھے اگر لوگ انہیں یہ کہتے ہوں گئے تو غلط نہیں کہتے ہوں گئے آج تو وہ خود بھی کہہ رہی تھیں۔ "بیٹیاں ماوں کا عکس ہوا کرتی ہیں صمن بیگم! اور خوش قسمتی سے نہیں بدقسمتی سے تمہاری بیٹی بھی تمہارا ہی عکس نکلی وہ بھی تمہارے ہی نقش قدم پر چلی۔"
اردگرد سے جھنجھوڑ دینے والی آواز آرہی تھی جو صمن بیگم کا کلیجہ چیرنے کے لیے کافی تھی انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھے تھے اور زور دار چیخ ماری تھیں ان کی سسکیاں کمال ولا برسوں سے سن رہا تھا اور اب تو کمال ولا کو دوہری سسکیاں دفن کرنی تھیں کوئی اور بھی تھا جس کی سسکیاں کمال ولا کے درو دیوار میں دن رات گونجتی تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
خان ہاوس میں پرسکون صبح نے اپنے پر پھیلائے تھے پورے خان ہاوس میں سناٹوں کا راج تھا جو اس بات کی دلیل تھا کہ سب اپنے اپنے کمروں میں پرسکون سورہے ہیں صرف جاگ رہی تھی تو صاریہ جسے شاہد اب کبھی بھی نیند نہیں آنی تھی ساری رات وہ پاگلوں کی طرح جاگی تھی دماغ جبرئیل کے الفاظ کسی ہتھوڑے کی مانند اس پر برسا رہا تھا وہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر خود کو ان آوازوں ان درد ناک جملوں سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی مگر اس کی کی گئی ہر کوشیش ناکام جارہی تھی۔
" ہاں تو اب بتاو آپا کیسا لگ رہا ہے جبرئیل بھائی کسی اور کے ہوگئے؟"
زیبا نے اس کی جانب کروٹ لیتے ہویے کہا تھا صاریہ کے درد پر زیبا نے نمک سے گہرا وار کیا تھا جس پر وہ تو بلبلا ہی اٹھی تھی۔
" وہ میرا نہیں ہوا زیبی اس نے مجھے دھتکار دیا بولا کہ میں تو اس کی نفرت کے لائق بھی نہیں ہوں بچپن سے لے کر آج تک میں نے ایک ہی خواب دیکھا تھا زیبی! اور وہ بھی جبرئیل کے ساتھ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا مگر اس نے میرا یہ خواب بھی توڑ دیا آخر آج اس نے مجھ سے بچپن کا بدلہ لے ہی لیا۔"
اس کے بے بس آنسو چھلک کر اس کے رخساروں پر کسی آبشار کی طرح بہہ رہے تھے زیبا کو زندگی میں پہلی بار اپنی بڑی بہن کی بے بسی پر ترس آیا تھا۔
" کیا تم جبرئیل بھائی کو بھول نہیں سکتی آپا ! کیا تم اپنی محبت کی خوشی میں خوش نہیں ہوسکتی؟"
زیبا نے شاہد آج صاریہ کو محبت کی اذیت سے نکالنے کی ٹھان لی تھی تب ہی اس نے بہت آہستگی سے اس کی دکھتی رگ پر پاوں رکھ دیا تھا۔
" خود سر لوگ محبت کی خوشی میں خوش نہیں ہوا کرتے زیبی جانتی ہو کیوں؟"
اس نے عجیب سے انداز میں اس سے سوال کیا تھا جس پر زیبا اس کا خود کو خود غرض کہنا کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔
" کیوں آپا خود غرض لوگ کیا خود غرضی بھلا کر ظرف نہیں دکھا سکتے؟"
وہ اب اٹھ کر بیٹھ گئی تھی اور مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ ہوکر اس سے پوچھ رہی تھی۔ بدلے میں وہ بے ہنگم انداز میں ہنسی تھی زیبا نے حیرت و بے بسی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
" خود غرض لوگ اگر خود غرضی بھلا دیں گئے تو عاشق اور جنونی کہاں سے پیدا ہوں گئے بھلا۔"
وہ بڑے آرام سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہی تھی۔ زیبا کو یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے سننے میں کوئی غلطی کی ہے۔
" عاشق اور جنونی لوگ ہمشہ در بدر ہی بھٹکتے ہیں آپا! کم از کم محبت کھونے کے بعد تو کچھ ایسا کر لو کہ تمہارا محبوب تمہیں اچھے الفاظ میں تو یاد رکھے نہ کہ ایک عمر تم سے نفرت کرنے میں گزار دے۔"
زیبا کی باتوں نے صاریہ کے اندر عجیب سا تاثر پیدا کیا تھا جو وہ کہہ رہی تھی یقینا وہ صیح تھا لیکن دل کا کیا کرتی جو محبوب کے کسی اور کا ہونے کے باوجود بھی اسی کے نام کی گردان کررہا تھا۔
" اب وقت ہے آپا! کچھ دوسروں کے لیے بھی کرو ہمشہ خودغرضی سے مت سوچا کرو۔"
زیبا نے اس کا ہاتھ دبا کر کہا تھا اور بستر چھوڑ کر واشروم کی جانب بڑھ گئی تھی جبکہ صاریہ کا ضمیر بری طرح جھنجھوڑ چکی تھی وہ بھی بستر سے اٹھی تھی اور دروازہ کھول کر باہر نکل آئی تھی۔ ماہ رخ بیگم کے کمرے کے باہر پہنچ کر اس نے گہرا سانس بھرا تھا شاہد خود کو بہت کچھ کہنے کے لیے تیار کیا تھا اور دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی تھی ماہ رخ بیگم اپنے بستر پر نیم دراز سر بیڈ کراون سے ٹکائے شاہد کچھ پڑھنے میں مصروف تھیں۔
" امی!"
صاریہ کی آواز پر انہوں نے آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا تھا جو کافی حد تک بکھرے ہوئے حلیے میں تھی شکن آلود لباس خاصہ ملنگجا ہورہا تھا۔
" صاریہ! یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے تم نے؟"
اس کے حال پر وہ کافی حد تک پریشان ہوگئی تھیں۔
" میری حالت کو رہنے دیں امی! مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔"
اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا۔
" بولو کیا بات ہے؟"
وہ مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ ہوئی تھیں۔
" میں کشمیر جانا چاہتی ہوں امی!"
اس نے ایک ہی سانس میں اپنے آنے کا مدعا بیان کیا تھا جس پر لمہوں میں ان کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے تھے۔
" کشمیر کیا لینے جانا ہے تم نے صاریہ! اس لیے کہ جبرئیل بھی وہی ہوتا ہے؟"
انہوں نے ماتھے پر تیوری چڑھا کر پوچھا تھا جس پر صاریہ نے ایک بار پھر سے گہرا سانس لے کر خود کو کمپوز کیا تھا۔
" امی! وہاں ایک سکول ہے میں نے بہت عرصہ پہلے وہاں اپلائی کیا تھا اور اب مجھے کنفرمیشن لیٹر ملا ہے میں دور جانا چاہتی اس ماحول سے اور ویسے بھی جبرئیل میر پور خاص ہے مجھے مظفر آباد جانا ہے میں اب جبرئیل کے راستے میں نہیں آنا چاہتی امی جو ہونا تھا وہ ہوگیا میں صرف دور جانا چاہتی ہوں اس سے محبت چھوڈ دینا میرے اختیار میں نہیں ہے لیکن اگر وہ خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں۔"
اس کے لہجے اور چہرے سے دکھ کی گہری لکیر جھلک رہی تھی ماہ رخ بیگم کا دل اس کی حالت پر کٹ کر رہ گیا تھا مگر وہ بے بس تھیں چاہ کر بھی اس کے نقصان کا مدعوع نہیں کرسکتی تھیں پر وہ یہ بات بھی نہیں جھٹلا سکتی تھیں کہ ان کی بیٹی نے خود غرضی میں کسی کی جان لینے کی کوشیش کی تھی۔
" جہاں تمہارا دل چاہے جاو میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔"
ماہ رخ بیگم نے رخ موڑتے ہوئے سپاٹ لہجے میں اس سے کہا تھا۔ صاریہ حق دق ان کی جانب بس دیکھتی رہ گئی تھی۔
" امی!"
اس کے لہجے میں حد سے زیادہ بے یقینی تھی۔
" جتنی جلدی ہوسکے چلی جاو یہاں سے صاریہ میں تمہیں اس گھر میں مزید برداشت نہیں کرسکتی۔"
لہجے میں کسی بھی قسم کی لچک نہیں تھی صاریہ نے بے یقینی و حیرت سے اپنی ماں کو دیکھا تھا جو اس لمہے بالکل ہی انجان معلوم ہورہی تھی اس کے آنسو بے ساختہ تھے یہ تھا اس خود غرضی کا انجام جو اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
وہ کچھ دیر بے یقینی سے کھڑے رہنے کے بعد ان کے کمرے سے نکل کر باہر آگئی تھی مگر اب کی بار اس کے دل پر دوسری بار وار ہوا تھا پہلا وار جبرئیل کی جانب سے ہوا تھا اور دوسرا وار اس کے دوسرے محبوب رشتے نے کیا تھا اب صیح معنوں میں وہ ٹوٹ کر بکھری تھی لمہوں میں اس نے وہ فیصلہ کرلیا تھا جو اسے کافی دیر سے بے حد مشکل لگ رہا تھا اور وہ فیصلہ کوئی اور نہیں بلکہ خان ہاوس چھوڑنے کا تھا ہاں یہ سچ تھا کہ صاریہ خان نہ صرف اپنا دل مار کر جبرئیل کو چھوڑ رہی تھی بلکہ خان ہاوس کو بھی چھوڑ چکی تھی شاہد ہمشہ کے لیے اسے نہیں معلوم تھا کہ زندگی اسے اب کہاں لے کر جارہی ہے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سیاہ اینٹوں والے تحہ خانے میں آج مکمل سناٹہ تھا آرا کی سسکیاں ہچکیاں تو شاہد کب کی بند ہوگئی تھیں اس لیے وہ اب چپ چاپ خاموشی سے اس قید کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کرچکی تھی بہت دنوں سے نوریز نے تحہ خانے کا چکر نہیں لگایا تھا اور یہ بات بھی آرا کے حق میں ہی تھی اسے نفرت تھی نوریز سے کیونکہ آرا کے نزدیک وہ صرف اور صرف نفرت کے ہی لائق تھا لیکن اس کا پاگل دل ابھی بھی گواہی دے رہا تھا کہ جیسے آج سیاہ اینٹوں والے تحہ خانے میں نوریز کے قدم اتریں گئے اور اس کا یہ گمان صرف گمان نہیں تھا یہ حقیقت تھی کیونکہ کچھ ہی دیر بعد سیاہ اینٹوں والے تحہ خانے کی سیڑھیوں پر قدموں کی چاپ ابھری تھی اور پھر کچھ ہی دیر میں قدموں کی چاپ کے ساتھ میں سایہ بھی ہمشہ کی طرح سگار کے دھوئے میں لپٹا ہوا سایہ جو زمین پر جتنا سیاہ تھا فطرتن اس سے کہیں زیادہ سیاہ تھا اور یہ بات آرا سے بہتر اور کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ ہمشہ کی طرح آج بھی اس کی آمد پر آرا آنکھیں موند گئی تھی کیونکہ وہ اس کی ایک پل میں ابھرنے والی پہلی جھلک سے اجتناب برتتی تھی اور اب بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ قدموں کی چاپ قریب سے قریب تر آتی جارہی تھی اور آرا کی بند پلکلیں بے وجہ لرزتی جارہی تھیں نوریز کی زیرک نگاہوں نے ہمشہ کی طرح اس کی آمد پر آرا کی لرزتی ہوئی پلکوں کی باڑ دیکھ لی تھی مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا تھا۔
" لگتا ہے بہت یاد کررہی تھی مجھے۔"
وہی کھنکتا ہوا لہجہ جو ہمشہ سے آرا کی کمزوری تھا مگر اب وہ کمزوری کمزوری نہیں رہی تھی بلکہ نفرت بن گئی تھی۔
" ہاں یاد تو کررہی تھی لیکن جانتے ہوں کس طرح؟"
آرا نے اپنا بکھرے بالوں والا چہرہ اٹھا کر عجیب سے لہجے میں اس سے پوچھا تھا جس کے جواب میں نوریز کے چہرے پر حیرت کے علاوہ اور کوئی تاثر نہیں تھا۔
" نفرت سے یاد کررہی تھی میں تمہیں اللہ کرے تم مرجاو نوریز مرجاو تم۔"
اس کے لہجے میں شاید آج پہلی بار نوریز کے سامنے آنسوں کی آمیزیش شامل ہوئی تھی۔
" ہاہا! نجانے کتنے لوگ دن میں میرے مرنے کی دعا کرتے ہیں تو تم نے کردی تو کیا ہوگیا آرا ڈارلنگ!"
اس نے اس کے گال پر اپنے ہاتھ کی انگلی پھیری تھی آرا نے اپنا منہ پیچھے کیا تھا۔
" زارا تک میں بس پہنچنے ہی والا ہوں اس کے پاس میرے راز ہیں آرا اور تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ میں اپنے راز کسی کو بھی نہیں دیتا پھر چاہے وہ میری بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔"
وہ اتنے آرام سے اتنی بڑی بات کہہ گیا تھا آرا اپنی جگہ سن رہ گئی تھی وہ اس کے سامنے سے اٹھا تھا اور جیسے آیا تھا ویسے ہی سیاہ اینٹوں والے تحہ خانے سے غائب ہوگیا تھا پیچھے آرا نے بہت مشکل سے اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ اپنے کمرے میں واڈروب کھولے کھڑا اپنی وائٹ ڈریس شرٹ تلاش کررہا تھا اسے کچھ دیر کے لیے سیول ڈریس میں پشاور ہیڈ کواٹر کسی کام سے جانا تھا اس کا ارادہ تھا کہ اپنی وائٹ شرٹ پہن کر جائے مگر وہ تھی کہ مل کر نہیں دے رہی تھی وہ براون آدھی آستین کی ٹی شرٹ میں ملبوس تھا اسے کچھ کچھ سمجھ میں آگیا تھا کہ اس کی شرٹ کہاں ہوگی وہ آرام سے آرون کے کمرے کی جانب بڑھا تھا اس کے کمرے کے باہر پہنچ کر اس نے دروازہ ناک کیا تھا جب تیسری بار بھی ناک کرنے سے آرون نے دروازہ نہیں کھولا تو وہ آرام سے دروازہ کھول کر اس کے کمرے میں داخل ہوگیا جہاں حسب معمول گند پڑا ہوا تھا اور واشروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔
" اف نجانے کب یہ صاف صفائی سیکھے گا۔"
اس نے دانت پیستے ہوئے سوچا تھا اور واشروم کے دروازے کے باہر پہنچ کر آرون کو آواز لگائی تھی۔
" رون! یار میری وائٹ شرٹ کیا تمہاری واڈروب میں ہے؟"
اس نے بڑے تحمل سے اس سے پوچھا تھا ورنہ وہ اپنی چیزوں کے معاملے میں خاصا حساس تھا۔
" جی بھائی! میرے ہینگر والے بلاک میں ہینگ ہوئی ہوئی ہے مجھے چائیے تھی تو آپ کی واڈروب سے نکالی تھی میں نے۔"
اندر سے آرون کی مسکراتی ہوئی آواز آئی تھی جبرئیل نے بھی سر جھٹکا تھا اور واڈروب کی جانب متوجہ ہوا تھا اس نے واڈروب کھولی تو سامنے ہی اس کی وائٹ شرٹ شان سے ہینگ ہوئی تھی اس نے شرٹ باہر نکالی تھی اور جوں ہی واڈروب بند کرنے لگا نظر ایک ریڈ کور والی فائل پر پڑی تھی جو نچلے خانے میں سب سے الگ کرکے رکھی گئی تھی جبرئیل کو لگا تھا جیسے اسے چھپانے کی کوشیش کی گئی ہو اس نے شرٹ بیڈ پر رکھی تھی اور فائل نکال کر واڈروب بند کی اس نے فائل کھول کر پڑھنا شروع کی تھی جوں جوں اس نے فائل پر نظر دوڑائی تھی اس کے ماتھے پر بل گہرے سے گہرے ہوتے جارہے تھے اس کے چہرے پر اس لمہے سختی در آئی تھی وہ فائل ہاتھ میں تھامے واڈروب کے پاس کھڑا تھا جب کلک کی آواز کے ساتھ واشروم کا دروازہ کھلا تھا اور تولیے سے بال رگڑتا ہوا آرون برآمد ہوا تھا لیکن جبرئیل کے ہاتھ میں فائل دیکھ کر وہ اپنی جگہ ساکت ہوا تھا اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ فائل جبرئیل کے ہاتھ لگی کیسے اس نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا تھا اور پھر خود کو بے شمار سوالوں کے لیے تیار کیا تھا۔
" یہ سب کیا ہے رون؟ اور تم کرتے کیا پھر رہے ہو؟"
لہجے میں اس لمہے حد سے زیادہ سنجیدگی تھی۔
" آپ دیکھ چکے ہیں کہ اس میں کیا ہے میرا نہیں خیال مجھے کچھ بھی اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔"
آرون نے بھی اسی کے لہجے میں زمانے بھر کی سنجیدگی سموتے ہوئے کہا تھا۔
" تم دور رہو اس سب سے سمجھے نہ؟"
جبرئیل نے اسے تنبی کرنے والے لہجے میں کہا تھا۔
" بھائی میں ایک پولیس والا ہوں اور ایک پولیس والا ہونے سے پہلے ایک بیٹا بھی ہوں میرا حق ہے کہ میں جانوں کہ میرا باپ کیسے شہید ہوا تھا وہ شہید ہوا تھا یا وہ کسی خونی کھیل کا حصہ بن گیا تھا۔"
آرون پھر سے جبرئیل کو وہ تلخ حقیقت یاد دلا رہا تھا جسے شاہد اس نے بڑی ہی مشکل سے برداشت کیا تھا۔
" پلیز رون! بابا کے ساتھ جو بھی ہوا تھا وہ تو میں بہت جلد پتہ لگوا لوں گا لیکن پلیز تم دور رہو اس سب سے بس اپنے کیسز دیکھو اس کیس کو میں اور میری ٹیم ہینڈل کرلیں گئے۔"
جبرئیل نے دوٹوک لہجے میں اس سے کہا تھا۔
" نہیں بھائی! مجھے پتہ لگوانا ہے کہ آخر اس خونی کھیل کے پیچھے تھا کون اتنی لڑکیوں کو اغوا کرانے والا تھا کون اور پھر اس کیس کو بند کرنے والا تھا کون یہ تھا کون بہت سارے سوال ہیں بھائی لیکن ان میں سے کسی ایک کا جواب بھی اے ایس پی آرون خان کے پاس نہیں ہے تو کیا فائدہ ایسی وردی کا جو اپبے باپ کا قاتل بھی نہ پکڑ سکے جو اپنے چچا کے قاتل کو پھانسی کے تختے پر نہ پہنچا سکے۔"
وہ از حد سپاٹ لہجے میں اس سے کہہ رہا تھا جس پر جبرئیل ایک لمہے میں نرم پڑا تھا۔
" میں تمہارے جذبات سمجھ سکتا ہوں رون! لیکن تم میرے جذبات بھی تو سمجھو پہلے بابا نے اس کیس میں ہاتھ ڈالا انہیں مار دیا گیا پھر چاچو نے ان کی کمان سمبھال لی تو انہیں بھی مار دیا گیا اور اب تم!"
اس سے آگے جبرئیل سے لفظ ادا کرنے مشکل ہورہے تھے۔
" آپ کو یہ خوف کہ کہیں بابا اور چاچو کی طرح میں بھی !"
اس کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے جب جبرئیل نے اسے ٹوکا تھا۔
" پلیز رون!" جبرئیل نے درشت لہجے میں کہا تھا۔
" کیوں بھائی؟ میرے مرنے کا آپ کو اتنا خوف ہے اور خود آپ موت سے نڈر ہیں آپ کو کیا لگتا ہم سب کو بچا کر خود آپ خوشی خوشی موت کو گلے لگا لیں گئے اور میں یہ ہونے دوں گا۔ نہیں بھائی ہرگز نہیں میں یہ کیس پھر سے کھول چکا ہوں اور میں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک بابا ، چاچو اور ان سب لڑکیوں کے مجرم تختہ دار تک نہیں پہنچ جاتے۔"
لہجہ دوٹوک تھا جیسے اب وہ مزید اس بارے میں اور کوئی بات نہیں کرنا چاہتا جبرئیل نے گہرا سانس بھرا تھا کیونکہ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ آرون پیچھے نہیں ہٹے گا اسے اور کچھ سوچنا تھا جس سے آرون کا دھیان فل حال کے لیے اس کیس سے ہٹ جائے وہ سر جھٹک کر اس کے کمرے سے باہر نکل گیا تھا پیچھے آرون اس گھڑی کو پچھتا رہا تھا جب اس نے وہ فائل الماری میں رکھی تھی اسے کہیں اور رکھنی چائیے تھی مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
بڑے سے لاونج میں وسیع کھڑکیوں پر دبیز پردے برابر کیے ہوئے تھے بہت دنوں بعد وہ پشاور میں اپنے اس گھر میں موجود تھے جہاں انہوں نے اپنا بچپن گزارا تھا جہاں انہوں نے اپنی جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھا تھا جہاں انہوں نے اپنی زندگی کا بہترین وقت گزرا تھا کتنی سکون آور جگہ ہوتی تھی وہ جو اب بے سکون ہوگئی تھی اگر اس جگہ ان کی زندگی کا بہترین وقت گزرا تھا تو ان کی زندگی کے بدترین ماہ و سال بھی وہی بیتے تھے جہاں انہیں خوشی ملی تھی تو ان کی زندگی کا سب سے بڑا غم بھی اسی جگہ نے انہیں دیا تھا مگر وہ پھر بھی وہاں موجود تھے کیونکہ وہ چاہ کر بھی کہیں اور نہیں جاسکتے تھے کچھ جگہیں اپنے اندر ایک سراب سمیٹے ہوتے ہیں جو آپ کو اپنی جانب بے دردی سے کھینچ لیتا ہے اسی طرح کا سراب خاور ہاوس میں بھی تھا وہ جتنا اس جگہ سے دور بھاگتے تھے وہ اتنا ہی انہیں اپنی جانب کھینچ لیتی تھی وہ لاونج میں صوفے پر نیم دراز اخبار پڑھنے میں مصروف تھے جب دین محمد جوس کا گلاس لیے نمودار ہوئے تھے۔ دین محمد کرنل خاور کے خاندانی ملازم تھے جو تقریبا پچھلے بیس بائیس سال سے ان کے لیے کام کررہے تھے۔
" صاحب! جوس"
دین بابا نے جوس کا گلاس میز پر رکھتے ہوئے ان سے کہا تھا۔
" شکریہ دین بابا کیسے ہیں آپ میں رات میں لیٹ ہوگیا تھا اس لیے آپ سے بات نہیں ہوپائی۔"
آخر میں ہمشہ کی طرح کرنل خاور نے خوش اخلاقی سے دین بابا کا حال احوال پوچھا تھا۔
" صاحب اللہ کا بہت کرم ہے پر آپ ٹھیک نہیں لگ رہے ڈیوٹی میں کوئی مسئلہ ہے کیا؟"
دین بابا ہمشہ سے کرنل خاور کے دوستوں میں ہی رہے تھے اگرچے وہ عمر میں کرنل خاور سے کچھ بڑے تھے مگر سب انہیں دین بابا کہہ کر ہی مخاطب کرتے تھے ۔
" نہیں بابا! جب دل ہی اداس اور ویران ہو تو کوئی اور مسئلہ کیا ہونا آپ تو جانتے ہیں کہ برسوں سے میں تنہا ہوں کیونکہ اب تنہائی میں رہنے کی عادت ہوگئی ہے۔"
وہ تھکے ہوئے لہجے میں ان سے کہہ رہے تھے۔
" ارے صاحب اتنی جلدی تھک گئے آپ؟"
دین محمد عجیب سے انداز میں ان سے پوچھ رہے تھے۔
" نہیں بابا ابھی کہاں ابھی تو بہت سے لوگوں سے بہت سے حساب برابر کرنے ہیں کچھ کو سزا دینی ہے تو کچھ کو مقام۔"
چہرہ ایک پل میں سپاٹ ہوا تھا دین محمد نے گہرا سانس بھرا تھا۔
" میرا خیال ہے آپ کو کچھ دیر کے لیے اس کمرے میں وقت گزارنا چائیے یقیننا آپ وہاں جاکر پرسکون محسوس کریں گئے۔"
دین محمد نے انہیں وہ حل بتایا تھا جو شاہد زندگی میں ان کے لیے بہترین سکون کا باعث تھا انہوں نے گہرا سانس بھرا تھا اور سیڑھیوں کی جانب بڑھے تھے جن کے پار وہ کمرہ تھا ان کی عزیز از جان جگہ۔ سیڑھیاں عبور کرکے وہ کمرے کے باہر رکے تھے انہوں نے ناب گھما کر دروازہ کھولا تو نیم اندھیرے نے ان کا استقبال کیا تھا انہوں نے دروازے کے ساتھ بنے سویچ بوڈ پر ہاتھ مار کر ساری بتیاں روشن کی تھیں کمرہ ابھی بھی اسی حالت میں تھا جیسے بائیس سال پہلے تھا حتی کہ بیڈ شیٹ بھی وہی بچھی ہوئی تھی وہاں کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی صرف ہفتے میں ایک بار صفائی کی جاتی تھی بیڈ کے سامنے رکھا ڈریسنگ ٹیبل کاسمیٹکس سے بھرا ہوا تھا ڈریسنگ ٹیبل کے بعد وہ الماری کی جانب بڑھے تھے الماری کھولتے ہی ان کی نظر قطار در قطار لٹکے ہوئے زنانہ کپڑوں پر پڑی تھی جن میں سے شاہد بہت سارے ان کے خود کے لائے ہوئے تھے۔
" دیکھ لو تم گئی تو سب مجھے چھوڑ کر چلے گئے میں بالکل تنہا ہوگیا کچھ لوگوں کی بے وفائی نے مار ڈالا مجھے بائیس سال پہلے تم گئی اور پھر کبھی لوٹ کر واپس نہ آئی یہ کیسی محبت تھی تمہاری؟"
وہ انتہائی آہستگی سے ان کپڑوں کو چھوتے ہوئے کہہ رہے تھے انہیں اپنے چہرے پر نمی کا احساس شدت سے ہورہا تھا جتنے بہادر وہ اپنی ڈیوٹی کے وقت تھے اتنے ہی ٹوٹے ہوئے وہ اس وقت دیکھائی دے رہے تھے۔ وقت بہت ظالم ہوتا ہے انسان پر ایسی ضربیں لگاتا ہے کہ ان کے نشان اس کی روح تک کو گھائل کردیتے ہیں ایسی ہی ضربیں بے رحم وقت نے کرنل خاور کے وجود پر بھی بے دریغ لگائی تھیں ان کا وجود اس قدر گھائل ہوچکا تھا کہ مزید برداشت کی گنجائش نہیں نکلتی تھی لیکن وہ بھی صیح وقت کا انتظار پچھلے بائیس سالوں سے کررہے تھے بہت سے لوگ اس دوران بچھڑے تھے اب وقت تھا کہ تمام بچھڑے ہوئے لوگوں سے حساب طلب کیا جائے اور وہ بہت جلد حساب لینے والے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
خان ولا میں ناشتے کی میز پر سب ایسے بیٹھے ہوئے تھے جیسے ایک دوسرے سے نظریں ملائیں گئے تو کوئی فرد جرم سب پر عائید ہوجائے گا عجیب سناٹے کا سماں تھا زارا اور جبرئیل کے علاوہ میز پر سب موجود تھے۔
" بڑی امی! میں آج دوپہر کو کشمیر جارہی ہوں۔"
صاریہ نے کھانے سے ہاتھ روک کر انہیں مخاطب کرتے ہوئے بتایا تھا مگر عشرت جہاں نے مکمل طور پر صاریہ کو نظر انداز کردیا تھا جیسے اس کی بات اور اس کی موجودگی کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔
" یہ جبرئیل اور زارا کیوں نہیں آئے ناشتے پر؟"
انہوں نے ہاتھ روک کر آنیہ کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
" وہ امی زارا تو شاہد سو رہی تھی جبکہ بھائی تو صبح صبح ہی کسی کام سے باہر گئے ہیں۔"
آنیہ نے چھری سے انڈا الگ کرتے ہوئے بتایا تھا۔
" لیکن آپا تم کشمیر کیوں جارہی ہو؟"
کسی اور نے تو نہ صیح مگر زیبا نے ضرور اس سے کشمیر جانے کی وجہ طلب کی تھی۔
" وہاں ایک سکول میں میری جاب ہوگئی ہے اس لیے۔"
اس نے ناشتے سے ہاتھ کھینچ کر زیبا کو بتایا تھا اس کا لہجہ ایسا تھا کہ زیبا اسے کچھ بھی اور کہنے کی ہمت نہیں کرپائی تھی۔ اس پوری دنیا میں عشرت جہاں کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جن سے صاریہ سب سے زیادہ محبت کرتی تھی بچپن سے لے کر آج تک صاریہ نے ان سے اپنی ہر بات منوائی تھی اور انہوں نے اس کی تمام باتیں مانی بھی تھیں مگر کچھ لمہات اور باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان نہیں مان سکتا بڑوں کا پیار دیکھ دیکھ کر چھوٹوں کو ان کے پیار کی ایسی عادت پڑجاتی ہے کہ وہ اچھے اور برے میں فرق ہی بھول جاتے ہیں پھر بڑوں کو انہیں بھلا کر یاد کرانا پڑتا ہے کہ ہمشہ وہ صیح نہیں ہوتے ہیں کبھی غلط بھی ہوتے ہیں۔ ماہ رخ بیگم اس کی سگی ماں ہونے کے باوجود اس سے لاتعلق تھیں اور وجہ کیا تھی وہی کہ وہ خودغرضی میں انسانیت کے فرق کو ہی بھول گئی تھی۔
" آنی! جاکر زارا کو اٹھا کر لاو۔"
انہوں نے سنجیدگی سے آنیہ سے کہا تو وہ سر ہلاتی ہوئی اپنی کرسی دھکیل کر اٹھ گئی تھی اس کا رخ اب زارا کے کمرے کی جانب تھا۔ ایک وقت تھا جب وہ اسی طرح سے اس کی فکر کیا کرتی تھیں اور اب زارا کی وجہ سے اس کے دونوں محبوب لوگ اس سے دور ہوئے تھے صیح کہا تھا جبرئیل نے اسے بیک وقت اس کا کہا گیا جملہ یاد آیا تھا۔
" اگر زارا کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچا بھی تو اس دن خان ولا میں تمہارا آخری دن ہوگا" اور آج واقعی ہی اس کا کہا خان ولا میں آخری دن تھا محبت کی طاقت اس نے اپنی نظروں کے سامنے دیکھی تھی جس کے جذبے میں شدت ہوتی ہے بازی وہی جیت کر لے جاتا ہے پھر چاہے وہ محبت کا ہو یا نفرت کا جبرئیل کے صاریہ سے نفرت کے جذبے کی شدت شاہد صاریہ کے محبت کے جذبے سے کئی زیادہ تھی اس لیے جبرئیل کی نفرت جیت گئی تھی اور صاریہ کی محبت ہار گئی تھی وہ خود کو محبت میں ہار قبول کرنے کے لیے تیار کررہی تھی وہ زارا کے سلام کی آواز پر چونک کر حال میں لوٹی تھی اس نے غور سے زارا کی جانب دیکھا تھا بھوری بڑی بڑی آنکھیں گندمی سرخ رنگت پر عنابی ہونٹ بھورے لمبے گھنگریالے بال کشمیری سکارف میں لپٹے ہوئے تھے وہ اتنی خوبصورت بے شک نہیں تھی جتنی صاریہ تھی لیکن پھر بھی وہ اس سے کئی زیادہ خوبصورت تھی کیونکہ وہ جبرئیل خان کی منکوحہ تھی اور ایسا کیسے ہوسکتا تھا کوئی اس کے ساتھ جڑا ہو اور وہ خوبصورت نہ ہو صاریہ کی آنکھوں میں ایک حسرت تھی شاہد جبرئیل کو پانے کی حسرت اسے شدت سے محسوس ہورہی تھی وہ اسی کی جانب دیکھ رہی تھی جو اب کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی تھی۔
" کیا بات ہے تم ابھی تک سورہی تھی طبعیت تو ٹھیک ہے نہ؟"
انہوں نے کچھ پریشانی کے عالم میں اس سے پوچھا تھا ان کی پریشانی دیکھتے ہوئے زارا مسکرائی تھی۔
" ارے انٹی! کچھ بھی نہیں ہوا تھا ویسے ہی زرہ لیٹ سوئی تھی تو میری آنکھ نہیں کھلی تھی اس لیے لیٹ ہوگئی آئی ایم سوری۔"
اس نے بھی ان کی فکر دیکھتے خاصی شرمندگی سے کہا تھا۔
" گڈ مارننگ ایوری ون!"
وہ بشاش لہجے میں بولتا ہوا لاونج کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔
" صبح صبح کدھر گئے تھے تم؟"
عشرت جہاں نے چائے کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" ایک ضروری کام سے گیا تھا۔"
اس نے زارا کی جانب ایک نظر دیکھتے ہوئے ان سے کہا تھا۔
" امی! میں کل واپس جارہا ہوں۔"
اس کی بات پر صرف عشرت جہاں نے ہی نہیں سب نے ہی بیک وقت سر اٹھا کر دیکھا تھا حتی کہ زارا نے بھی۔
" اتنی جلدی!"
عشرت جہاں نے کپ میز پر رکھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" جی امی! مجھے جاکر ایک کیس پر کام شروع کرنا ہے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔"
اس نے جوس گلاس میں انڈیلا تھا اور مکھن لگے سلائس کو کترتے ہوئے وجہ بیان کی تھی۔
" ٹھیک ہے بچے! جیسا تم مناسب سمجھو۔"
انہوں نے تو جیسے اسے اجازت دی تھی۔
" لیکن امی! اس بار میں اکیلا نہیں جاوں گا۔"
اس کا اتنا جملہ کہنے کی دیر تھی سب نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا مگر وہ کسی کے بھی دیکھنے کا نوٹس لیے بغیر سکون سے ناشتہ کررہا تھا۔
" کیا مطلب کہ اکیلے نہیں جائیں گئے؟"
آرون نے اس سے پوچھا تھا جبکہ عشرت جہاں اس کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے ایک دم خاموش ہوگئی تھیں شاہد انہیں اپنے زارا کے ساتھ کیے گئے وعدے یاد آگئے تھے۔
" میں اپنی منکوحہ کی رخصتی کروا کر اسے اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں۔"
جواب انتہائی سیدھا تھا لیکن وہاں بیٹھے نفوس کے لیے انتہائی اچانک تھا۔
" لیکن اس طرح کی کوئی بھی بات تم نے پہلے نہیں تھی۔"
عشرت جہاں نے زارا کی جانب بے بسی سے دیکھا تھا جو نیچے نظریں جھکائے بیٹھی ہوئی تھی وہ جانتی تھیں کہ زارا ابھی کسی بھی صورت رخصتی نہیں چاہتی تھی اس نے جبرئیل سے نکاح ہی اسی شرط پر کیا تھا کہ اس کی رخصتی ابھی نہیں کی جائے گئی وہ تو ابھی شاید اس رشتے کے لیے بہت چھوٹی تھی اس کے ننھے دل پر محبت کی پہلی پو بھی ابھی پوری طرح سے نہیں کھلی تھی اور ایسے میں اسے ایک نئے تعلق میں باندھنا وہ خاصی مشکل میں آگئی تھیں وہ اچھے سے جانتی تھیں کہ اگر ان کے بیٹے کی جانب سے یہ فرمائش آئی ہے تو یہ محض فرمائش نہیں تھی یہ خواہش بھی تھی اور یہ حکم بھی تھا کیونکہ اس کے بعد انکار کا کوئی بھی جواز نہیں بچا تھا۔
" زارا آگے بڑھنا چاہتی ہے جبرئیل! پلیز بچے بات کو سمجھو۔"
اب کی بار عشرت جہاں نے اسے دوسری طرح سے سمجھانے کی کوشیش کی تھی مگر وہ انہیں ابھی بھی پرسکون ہی دیکھائی دے رہا تھا۔
" میں پڑھا دوں گا اور کوئی فرمائش ہے مسز جبرئیل کی تو وہ بھی بتادیں میجر جبرئیل خان پوری کردیں گئے۔"
اس نے نیپکین سے اپنا منہ تھپکا تھا اور کرسی چھوڑ کر کھڑا ہوگیا تھا چہرے پر اس لمہے بلا کی سنجیدگی رکم تھی۔
" بی رئیڈی کل صبح ساڑھے پانچ بجے نکلنا ہے مجھے جاکر ڈیوٹی بھی جوائن کرنی ہے۔"
وہ حکم نامہ جاری کرکے وہاں سے نکل گیا تھا جبکہ زارا کے لیے سمجھنا مشکل تھا کہ یہ کل رات والا جبرئیل ہے یا پھر اب جو اس کے سامنے تھا۔
" اف یہ انسان مجھے پاگل کردے گا پتہ نہیں اس کے کتنے چہرے ہیں اور یہ ہر کسی کے سامنے الگ چہرے کے ساتھ ملتا ہے میں اس بندے کو کبھی سمجھ نہیں پاوں گئی۔"
زارا نے دل میں سوچا تھا تب تک وہ وہاں سے جاچکا تھا۔
" آئی ایم سوری بچے! یہ ایسا ہی ہے ایک منٹ میں فیصلہ کرنے والا۔"
وہ خوامخواہ میں اس کی جانب سے شرمندہ دیکھائی دے رہی تھیں۔
" اٹس اوکے انٹی میں چلی جاوں گی۔"
اس نے جیسے انہیں ریلیکس کرنے کی کوشیش کی تھی مگر اصل میں خود وہ خاصی خوفزدہ ہوگئی تھی پتہ نہیں کیسا انسان ہوگا۔"
زارا کے سامنے ایک نیا امتحان کھڑا تھا جسے اس نے پاس کرنا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
روز بروز بڑھتا ہوا تجسس اب بے چینی کی شکل اختیار کرچکا تھا احسن واقعی ہی ایک موذی بیماری میں مبتلا ہوگیا تھا جسے شاہد نہیں یقینا محبت کہتے ہیں اتنے سارے لوگوں کی یک طرفہ محبت میں شاہد ایس۔کے اور احسن دو واحد لوگ تھے جو دو طرفہ محبت میں تھے ان میں یک طرفہ کچھ بھی نہیں تھا اگر محبت تھی تو دو طرفہ اگر تجسس تھا تو دو طرفہ تھا اگر خواہش تھی تو وہ بھی دو طرفہ تھی لیکن دونوں کی محبتوں میں صرف ایک فرق تھا اور وہ فرق یہ تھا کہ ایس۔کے کو احسن سے محبت دیکھ کر ہوئی تھی جبکہ احسن ایس کے سے ان دیکھی محبت میں مبتلا ہوا تھا جو صرف تحریر کی حد تک محدود تھی ایس۔کے کے لفظوں کے گہرے جال نے احسن کو اپنا اسیر کرلیا تھا وہ چاہ کر بھی ان لفظوں اور ان میں چھپے جذبوں سے دامن نہیں بچا پایا تھا لیکن یہ بھی سچ تھا کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس بیماری نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسے ملنے کی خواہش تھی لیکن وہ ملنا چاہتا نہیں تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ محبت میں کوئی آزمائش اس کے آگے آکر کھڑی ہوجائے وہ ڈرتا تھا کہ نجانے وہ کسی آزمائش پر پورا اتر بھی پائے گا کہ نہیں مگر وہ انجان تھا اس بات سے کہ اسے تو اللہ نے آزمائش کے لیے چن لیا تھا اب تو صرف وقت آنا تھا جب امتحان ہونا تھا دیکھنا یہ تھا کہ احسن اس کے دیے گئے امتحان میں سرخ روح ہوتا کہ نہیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ رات میں اپنے اب تک کے تمام کپڑے الماری سے نکال کر بستر پر رکھ چکی تھی پاس ہی ایک سوٹ کیس کھلا ہوا پڑا ہوا تھا جس میں وہ ساتھ ساتھ کچھ کپڑے رکھ بھی رہی تھی دل عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا کسی کی منکوحہ ہونا اور بات ہوتی ہے مگر بیوی ہونا اور وہ اتنی بھی بچی نہیں تھی کہ نکاح یا شادی جیسے ناموں اور بندھن سے انجان ہوں اسے واقعی ہی بہت خوف آرہا تھا وہ ایک روز قبل جبرئیل کی شدتیں دیکھ چکی تھی اور اب جبکہ وہ اس کی بیوی کی حیثیت سے موجود ہوگی تو کیا ہوگا زارا کا دل بے اختیار دھڑک گیا تھا ۔
وہ ابھی کپڑے رکھ ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی تھی۔
" آجائیں"
اس نے مصروف انداز میں آنے والے کو اجازت دی تھی عشرت جہاں ہاتھ میں ایک خوبصورے پیکٹ تھامے اس کے پاس آئی تھیں۔
" میں جانتی ہوں بیٹا کہ یہ تھوڑا مشکل ہے مگر وہ جو ایک بار ٹھان لیتا ہے نہ پھر کرکے ہی رہتا ہے اگر وہ تمہیں اپنے ساتھ کشمیر لے کر جانا چاہتا ہے تو میں اسے چاہ کر بھی نہیں روک سکتی میں اسے ایک بات کہوں گئی اور وہ آگے سے ہزاروں دلائل دے کر رد کردے گا اس لیے اس کی بات ماننا ہی بہتر ہوتا ہے۔
انہوں نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ ان سے کہا تھا۔
" اچھا یہ جوڑا دیکھو کل رخصتی ہے نہ تمہاری تم یہی پہن کر اس کے ساتھ کشمیر جاو گئی۔"
انہوں نے جوڑے کا پیکٹ بیڈ پر رکھا تھا۔ زارا ان سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے وہ شدید پریشان ہوگئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

دہلیز کے پار وہ ( مکمل✔)Where stories live. Discover now