پوشیدہ راز

5.9K 189 158
                                    

قسط نمبر 10
تھک گئی ہاں محبت کر کر میں
کچھ حاصل نہیں ہویا مینو
نازک رسی دی پینگاں عشق دیاں
مڑ مڑ چھلنی کردیاں دل
بے حس لگدا اے او آپ ہی
جیڑا ویکھ کے منہ موڑ دا
ادھیڑ کے رکھ دیندا اے
جدو کھول دا اے پوشیدہ راز
آج وی انوں پتہ اے لوگو!
محبت سچا جذبہ میرا
پینگاں عشق دیاں کچیاں تے کی
محبت پکا آم اے لوگو!
ایمن خان
وہ انتہائی تھک کر رات واپس گھر آیا تھا۔ باہر شدید سردی کا راج تھا جونہی اس نے اپنی میلٹری جیپ پورچ میں پارک کی یخ بستہ ہوا نے اس کا استقبال کیا ساتھ والی سیٹ سے پیراشوٹ کی سیاہ جیکٹ اٹھا کر اس نے اپنے یونیفارم سے سجے جسم کو سردی سے بچانے کے لیے ڈھانپا اور ایک نظر کلائی پر باندھی ہوئی ڈیجیٹل ایپل واچ پر ڈالی جو رات کے ایک بجا رہی تھی اس نے گہرا سانس بھر کر فضا میں دھواں خارج کیا سامنے ایک نظر سر اکڑائے پہاڑوں کو دیکھا جس کی چوٹیوں سے سفید ابشار جمی ہوئی اندھیرے میں اپنی سفیدی کو نمایاں کررہی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ جیب میں پھسائے اور چلتا ہوا ماربل کی سیڑھیوں کی جانب آگیا جس کے اوپر لکڑی کا دو پنوں کا دروازہ تھا۔ دروازہ کھول کر جب وہ اندر داخل ہوا تو نیم اندھیرے نے اس کا استقبال لیا اپنے پیچھے دروازہ بند کرکے وہ قدم قدم چلتا ہوا کیچن میں آیا ایک نظر آغا خان کے کمرے کے بند دروازے پر ڈالی شاہد وہ بارہ بجے تک اس کا انتظار کرکے سو گیا تھا۔ کیچن میں پہنچ کر اس نے شیلف پر رکھا ہوا پانی کا جگ اٹھایا اور گلاس میں انڈیل کر پی لیا وہاں سے سیدھا وہ اوپر جانے والی سیڑھیوں کی جانب آیا تھا اس کے دل میں ایک عجیب سی اداسی تھی صبح جاتے ہوئے بھی وہ سوئی ہوئی تھی اور اب رات اسے آتے اتنی دیر ہوگئی ہے یقینا وہ سوگئی ہوگی اس نے دل میں خود کو کوسا تھا ایک بار فون بھی کیا تو میں کس طرح تلخ لہجے میں بات کرگیا۔ کمرے کا دروازہ ناب گھما کر کھولا تو دروازہ کھلتا چلا گیا کمرے میں نیم اندھیرا تھا اور فضا میں حدت تھی جبرئیل کے یخ بستہ اعصاب لمہوں میں نارمل ہوئے تھے۔ بیڈ کے ایک طرف وہ بیڈ کراون سے ٹیک لگائے اڑے ترچھے انداز میں لیٹی ہوئی تھی کھلا ہوا سکارف تکیے پر پڑا ہوا تھا اور بورے گھنگریالے بال کچھ چہرے اور کچھ پیچھے کو بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا تھا وہ بغیر رکے سیدھا ڈریسنگ کی جانب گیا تھا کچھ دیر میں فریش ہوکر باہر آیا تو اسے اسی حالت میں پایا بیڈ کے دوسری جانب کو بیٹھتے ہوئے اس نے ہاتھ اس کی جانب بڑھائے تھے تاکہ اسے سیدھا کرکے لیٹا سکے ابھی وہ اسے سیدھا کرنے ہی والا تھا جب اس کی آواز جبرئیل کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
" مجھے ہاتھ مت لگائیں میں خود سیدھی ہوکر لیٹ سکتی ہوں۔"
آنکھیں ہنوز بند تھیں وہ اپنی جگہ حیرت زدہ سا ہوگیا ہاتھ جہاں تھے وہی پر ساکت ہوگئے چہرے پر الجھن نمایاں ہوگئی۔
" تم جاگ رہی ہو؟"
لہجے کو حتی المکان نارمل بنا کر پوچھا تھا لہجے میں ابھی بھی نرمی گھلی ہوئی تھی۔
" آپ کو کیا فرق پڑتا میں سو رہی ہوں یا جاگ رہی ہوں کھڑی ہوں یا بیٹھی ہوں بھاگ رہی ہوں یا رک رہی ہوں۔"
وہ اس سے ایسے پوچھ رہی تھی جیسے میجر جبرئیل نے اس سے یہ سوال کرکے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کردی ہو وہ حیرت زدہ سا تھا زارا ایک دم سے پھٹ کر اس کے سامنے آئی تھی کچھ لمہوں کی حیرت کے بعد وہاں مسکراہٹ نمایاں ہوگئی۔
" مجھے نہیں تو اور کسے فرق پڑے گا مسز!۔"
وہ اب خود بھی بیڈ کراون سے ٹیک لگا چکا تھا نگاہوں کا محور گندمی چہرے پر غصے کی سرخی لیے وہ لڑکی تھی جو اس سے چند انچ کے فاصلے پر تھی۔
" تب ہی اتنے فضول طریقے سے بات کررہے تھے آپ مجھ سے صبح۔"
اس نے لہجے میں طنز سمو کر دونوں بازو سینے پر باندھتے ہوئے کہا تھا منہ ہنوز پھولا ہوا تھا۔
" اس وقت تازہ تازہ بےعزتی کروا کر آیا تھا موڈ تو خراب ہونا ہی تھا اس لیے ناچاہتے ہوئے بھی تھوڑا روڈ ہوگیا۔"
وہ اب معصوم صورت بنا کر اپنی غلطی کا اعتراف کررہا تھا۔
" تھوڑا روڈ؟"
اس نے آنکھیں پھیلا کر روڈ کو کافی لمبا کھینچا تھا۔
" اچھا بھئی زیادہ ہوگیا اب معافی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے تو بتاو ورنہ پھر مابدولت کوئی اور حل نکالتے ہیں۔"
لہجے میں معنی خیزی گھلی ہوئی تھی۔ زارا کے تو ساری بات اوپر سے گزر گئی ایک لفظ بھی پلے نہیں پڑا اسے بس معافی کی صورت ہی سمجھ آئی تھی اس لیے جھٹ بولی تھی۔
" میرا ایڈمیشن کروا دیں آگے میرا رزلٹ آگیا ہے میں پاس ہوگئی ہوں۔"
اس نے نگاہیں جھکاتے ہوئے کہا تھا جیسے اپنے پاس ہونے کی خبر نہ دے رہی ہو بلکہ اپنے کسی جرم کا اعتراف کررہی ہو۔
" ہمم اور تمہیں کیسے پتہ چلا کہ تم پاس ہوگئی ہو؟"
وہ چہرے پر سنجیدگی طاری کیے اس سے پوچھ رہا تھا۔
" زیبی کا فون آیا تھا انہوں نے بتایا ہے۔"
اس نے اب کی بار اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
" کس فیلڈ میں ایڈمیشن لینا چاہتی ہو؟"
اس نے اب کی بار اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اسے اپنے قریب دھکیلا تھا۔
" سائنس کی کسی بھی فیلڈ میں کیونکہ میں نے ایف۔ایس۔سی پری میڈیکل کے ساتھ کی ہے۔"
اس نے گویا اس کی معلومات میں اضافہ کیا تھا۔
" اچھا لیکن تم کسی یونی ورسٹی میں نہیں جاسکتی کیوں کہ ابھی تم پوری طرح سے سیف نہیں ہو۔"
اس نے بالکل اسے اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔
" میجر صاحب چھوڑ تو دیں مجھے سانس بند ہورہا میرا۔"
زارا نے اس کے گھیرے سے نکلنے کی کوشیش کرتے ہوئے کہا تھا۔
" چپ کرجاو سانس بند ہونے کی بچی! ہو تم اتنی چھوٹی سی اور باتیں دیکھو کیسے کرتی ہو۔"
اس نے اس کے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا تھا۔بدلے میں زارا نے منہ بنایا تھا۔
" میرے چھوٹے ہونے کا ناجائز فائدہ مت اٹھایا کریں آپ۔"
وہ اسے انگلی دیکھاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" اچھا میری ماں۔"
اس نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنا سر ہاتھوں پر رکھا تھا۔
" ہو میجر صاحب ماں تو مت بولیں نکاح خراب ہوجائے گا ہمارا۔"
وہ حیران ہونے کی بھرپور اداکاری کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" اب بڑی فکر ہے کہ نکاح خراب ہوجائے گا ویسے تو ہاتھ بھی لگا لو تو دم گھٹ جاتا تمہارا۔"
وہ اب تکیے پر سر رکھتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا کمفٹر منہ تک تان چکا تھا۔
" بس سونے لگے ہیں آپ اتنی جلدی۔"
اس نے اس کے منہ سے کمفٹر ہٹاتے ہوئے کہا تھا۔
" تمہیں ڈر نہیں لگتا مجھ سے؟"
وہ اس کی جانب غور سے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
" ڈری تو کبھی میں ان سے بھی نہیں تھی جو سرعام لڑکیوں کی عزت تار تار کردیتے تھے پھر اپنے محافظ سے کیوں ڈروں گی؟"
وہ ساتھ بیٹھی ہوئی چھوٹی سی لڑکی اسے ایک لمہے میں لاجواب کرگئی تھی اسے ایک پل میں اندازہ ہوا تھا کہ واقعی میں ایک فوجی کی بیوی کو اتنا ہی بہادر ہونا چائیے تھا اس کی ماں کا انتخاب بالکل درست تھا۔ وہ بغیر کوئی بھی جواب دیے آنکھیں موند گیا تھا شاہد اس نے اپنے سوال کا جواب بھی خود ہی سوال میں دے دیا تھا قسمت کبھی کبھی بری مات دے دیتی ہے۔
                ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شکاگو میں دھیرے دھیرے سورج غروب ہورہا تھا لیکن سردی کی شدت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی وہ آج لائٹ پرپل قمیض کو نیلی جینز پر پہنے ہوئے تھی گلے میں ہم رنگ سکارف لپیٹ رکھا تھا بورے سلکی بال یونہی پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔ آنکھیں اور دل ویران تھا وہ کوئی ساتواں سگریٹ جلا چکی تھی ہر سگریٹ وہ اس طرح پی رہی تھی جیسے کوئی کھانے والی چیز ہو ایک کے بعد ایک سگریٹ صرف لمہوں میں ختم ہورہی تھی۔ آنکھیں سرخ انگارہ ہورہی تھیں پر پرواہ کسے تھی وہ تو بس دل میں امڈتے ہوئے لاوے کو بجھانے کی تگو دو میں ہلکان ہورہی تھی۔ جب سے اس کی بات صمن بیگم سے ہوئی تھی تب سے اس کی یہی حالت تھی۔ ماضی اس بری طرح سے ایک بار پھر سامنے آگیا تھا کہ اس کے پورے وجود کو ہلا کر رکھ گیا تھا جس وجود کو سینت کر صلاح سے ایس۔کے بنایا تھا وہ ایک بار پھر سے ٹوٹ کر صلاح کی ریت میں جذب ہورہا تھا۔ ہاں وہ کوئی اور نہیں تھی ایس۔کے سے پہلے وہ صلاح کمال کہلاتی تھی لیکن اس نے محض اٹھارہ سال کی عمر میں کمال ولا چھوڑ دیا تھا وہ شکاگو پڑھنے کے لیے آئی تھی وہ بھی زبردستی کیونکہ صمن کمال اسے مزید  کمال ولا رکھنے پر رضا مند نہیں تھیں جب وہ سترہ سال کی تھی تو اس کے ساتھ ایک ایسا حادثہ پیش آیا تھا جس نے ایس۔کے کے اندر کی عورت کو مار دیا تھا۔ عورتوں کی طرح کا نرم دل بہت پہلے ہی اس کے وجود سے باہر نکل گیا تھا اور اس کی جگہ ایک سخت اور بے رحم دل نے لے لی تھی۔ وہ آج تک نہیں سمجھ پائی تھی کہ اس بات کے بعد صمن بیگم نے اسے کمال ولا سے بیجھنا کیوں چاہا تھا لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ نیو یارک میں اپنا وہ مقام بنا گئی تھی جو اس کی جگہ کوئی عام عورت ہوتی تو شاہد کبھی نہ کرپاتی۔ اس نے پورے پانچ سال تک اپنی ماں سے کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہیں رکھا تھا اس کے خیال میں وہ اپنے ملک اپنے گھر سے بدر کردی گئی تھی اور اپنا باپ جو شاہد اسے کبھی بھی اپنا باپ محسوس نہیں ہوا تھا اس سے وہ ہمشہ لیے دیے ہی رہتی تھی اس کی حرکات و سکنات اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں یہی وجہ تھی کہ وہ ان سے بہت ہی کم بات کیا کرتی تھی۔ ماضی کے واقعات کسی فلم کی صورت میں اس کی آنکھوں کے پردے پر چل رہے تھے۔ دو سال کی تھی جب وہ کمال ولا میں صمن بیگم کی انگلی پکڑ کر چلا کرتی تھی سات سال کی تھی جب غلام بخش کو کمال ولا میں اس کے کئیر ٹیکر کے طور پر رکھا گیا تھا۔ غلام بخش ایک انتہائی سلجھا ہوا نوجوان تھا جو لگ بھگ اس وقت سترہ سال کا ہوگا جوانی کی دہلیز پر غلام بخش کے قدم ابھی بالکل نئے تھے ماں باپ کی ایک حادثے میں موت کے بعد وہ نوکری کی تلاش میں صمن بیگم کو ایک کیٹی پارٹی میں نظر آیا تھا جو وہاں موجود ان کی ایک دوست کا ملازم تھا۔ صمن بیگم نے انہیں پیسے دے کر غلام بخش کو مستقل کمال ولا میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہ ان کی اس وقت اکلوتی اولاد صلاح کا خیال رکھے سچ بات یہ تھی کہ اس وقت صمن بیگم کو صلاح کے چھن جانے کا بہت ڈر تھا انہیں ہر وقت اور ہر لمہے یہی لگا کرتا کہ کوئی ان سے ان کی بیٹی کو چھین لے گا جس کے باعث انہوں نے اس پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینی شروع کردی۔ دھیرے دھیرے ایس۔کے ان کی بے دریغ اور بے پناہ توجہ کی اتنی عادی ہوگئ کہ اسے ان کے بغیر لمہہ بھی گزارنا مشکل لگتا پھر تقریبا تین سال بعد کمال ولا میں علینہ فاطمہ کی پیدائش ہوئی تھی۔ علینہ کے پیدا ہونے کے بعد صمن بیگم چاہ کر بھی ایس۔کے کو اتنی توجہ نہ دے پاتیں جس کے باعث دھیرے دھیرے دونوں کے درمیان ایک ان دیکھی انجانی سی دیوار کھڑی ہوگئی اس دوران ایس۔کے بری طرح سے غلام بخش سے مانوس ہوگئی اس سے اپنی ساری باتیں کرنا ایس۔کے کو بہت اچھا لگتا تھا اور وہی عرصہ تھا جس نے غلام بخش کو مجبور کیا تھا کہ وہ اس سے محبت کرے اور غلام بخش کو اندازہ بھی نہیں ہوا تھا اور اس نے محبت کے بے حد مشکل راستے پر اپنے قدم ڈال لیے تھے۔ وقت گزرتا گیا کیونکہ اسے گزرنا ہی تھا اور پھر صلاح کی زندگی میں وہ سیاہ دن آیا جس دن کسی نے بے دردی سے اسے نوچ لیا۔ صمن بیگم علینہ کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گئی ہوئی تھیں غلام بخش صلاح کی کہی ہوئی چیز لینے بازار تک گیا تھا گھر میں اس لمہے وہ تنہا اپنے کمرے میں بیٹھی سکول کا ہوم ورک کررہی تھی اس وقت صرف اس کی عمر تیرہ سال تھی دروازہ بند تھا مگر کنڈی نہیں لگی ہوئی تھی دوپہر کے وقت تو سارے ملازمین اپنے کام نمٹا کر اپنے اپنے کواٹروں میں تھے سیاہ ماسک سے ڈھکا ہوا وہ چہرہ اب بھی جب ایس۔کے کی نظروں میں سماتا تھا اس کی ریڑھ کی ہڈی میں عجیب سی سنسناہٹ پیدا ہوجاتی تھی وہ سیاہ ماسک سے ڈھکا ہوا چہرہ محض پندرہ منٹ میں اس سے اس کی معصومیت چھین گیا تھا اس دن صیح معنوں میں صلاح مر گئی تھی اس کا وجود فنا ہوگیا تھا اور اس کی جگہ ایس۔کے پیدا ہوئی تھی۔  شکاگو آنے کے پانچ سال بعد جب صمن بیگم نے اسے فون کیا تو اس نے پہلی بار انہیں ایس۔کے کہہ کر مخاطب کیا تھا شاہد وہ اپنے اور ان کے بیچ کے رشتے کو بھولا دینا چاہتی تھی شاہد اسے اندازہ تھا کہ یہ لفظ اور یہ رشتہ زندگی میں کہیں نہ کہیں اس کے پیروں کی زنجیر بن سکتا ہے۔ وہ ایس۔کے کہہ کر انہیں ہمشہ یاد کراتی تھی کہ وہ فون پر اسے ایس۔کے ہی مخاطب کریں مگر وہ کبھی بھی اسے ایس۔کے نہیں بلاتی تھیں وہ اسے صلاح ہی مخاطب کیا کرتی تھیں۔ بے
    بے پناہ سگریٹ پھونکنے کے بعد بھی اس کا دل اور آنکھیں یونہی جل رہی تھیں بدلے کی آگ اس میں بری طرح سر اٹھا چکی تھی اس لمہے وہ جنونی ہورہی تھی وہ پاگل ہورہی تھی۔ لمہوں میں اس نے ایک فیصلہ کیا تھا اور وہ فیصلہ کوئی اور نہیں بلکہ دس سال بعد اینڈیا جانے کا تھا۔ آخری سگریٹ ایسٹرے میں بجھانے کے بعد وہ غلام بخش کے کمرے کی جانب بڑھی تھی شاہد ان دس سالوں میں پہلی بار وہ اپنے کسی کام کے لیے خود اس کے کمرے میں جارہی تھی۔ اس کا بکھرا ہوا حولیہ اس بات کا گواہ تھا کہ جو اشتعال اس کے اندر برپا تھا جلد وہ باہر آنے والا تھا۔
              ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنا سارا سامان اٹھا کر مائرہ کے فلیٹ میں آچکی تھی۔ مائرہ کی نائٹ شفٹ تھی جس کے باعث وہ گھر نہیں آئی تھی جبکہ اسے خود سکول جانا تھا۔ وہ کمرے میں رکھے ڈریسنگ میز کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی جب سائیڈ پر رکھا فون چیخا تھا۔ وہ کم از کم خان ولا سے آنے والی کسی بھی کال کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی لیکن مسلسل دو دن سے آتی زیبا کی کالز نے اسے اب کی بار فون اٹھانے پر مجبور کردیا تھا۔
" ہیلو!"
صاریہ نے لہجے کو حتی المکان بشاش بنانے کی کوشیش کی تھی۔
" کیسی ہیں آپ؟"
زیبا کی بے قرار آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔
" زندہ سلامت تم بتاو؟"
وہ گہرا سانس بھر کر گویا ہوئی تھی اس کے لفظوں نے زیبا کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیری تھی۔
" وہاں جاکر بھی اپنے لفظوں کے نشتروں سے باز نہیں آئیں آپ آپا؟"
وہ ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی صاریہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ رینگی تھی۔
" کیا کرو ان لفظوں کے نشتروں اور بے حسی نے تو خان ولا کی دہلیز عبور کروائی تھی۔"
لہجہ ایک دم سنجیدہ ہوا تھا۔
" احساس پیدا ہوتے ہی ہر غلطی کا مدعوع کرجاتا ہے آپا اور نجانے کیوں مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے تم میں احساس نے جگہ لے لی ہے۔"
زیبا کا کہا گیا ایک ایک جملہ درست تھا اور یہ بات صاریہ اچھے سے جانتی تھی اور اب تو وہ اس جگہ پر کھڑی ہے جہاں محض احساس ہی نہیں ہے بلکہ خود کی غلطی تسلیم کرنے کا حوصلہ بھی ہے۔
" صیح کہہ رہی ہو تم زیبا میرے اس جذبے نے مجھے رسوا کروایا جو شاہد بے جا تھا میں اس شے کی طلب میں مر رہی تھی زیبی جو بہت پہلے سے زارا کے مقدر میں لکھی جاچکی تھی سچ کہتے ہیں انسان نادان ہوتا ہے وہ تب سمجھتا جب اس کی من چاہی چیز اس کی دسترس سے دور چلی جاتی۔"
وہ افسردگی سے کہہ رہی تھی۔
" آپا! جب کوئی من چاہی چیز دسترس سے دور جاتی ہے تو اس کی جگہ کچھ ایسا عطا بھی کیا جاتا ہے جو  فل وقت تو نہ سہی مگر کچھ وقت بعد وہ جگہ لے جاتا ہے جو شاہد من چاہی چیز کے درجے سے بھی اونچی ہوتی ہے۔"
زیبا کی بات پر نجانے کیوں اسے خود کو اسامہ کا دیکھنا یاد آیا تھا مگر صرف ایک پل میں اس نے خود کو اس لمہے کی قید سے آزاد کرایا تھا اور پھر سنجیدگی سے گویا ہوئی تھی۔
" میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں زیبی سکول کے لیے دیر ہورہی مجھے۔"
اس نے چند رسمی کلمات کے بعد فون بند کردیا تھا مگر وہ اپنی چند لمہوں پہلے والی سوچ پر خود بھی حیران تھی آخر کیا سوچ کر اسے اسامہ یاد آگیا تھا۔ اپنی ہی سوچ کو ترک کرکے وہ جلدی جلدی سکول کے لیے تیار ہونے لگی وہ پہلے ہی لیٹ ہوچکی تھی اور اس پر نجانے کیوں اسے فاطمہ سے ملنے کا دل چاہا تھا۔
          ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ ایک بار پھر سے فائلوں کا ڈھیر اپنے سامنے لگائے ریوالونگ چئیر پر جھول رہا تھا جو فائل اس کے سامنے کھلی ہوئی تھی اس پر موجود نام سے بے شک وہ پہلی بار واقف ہوا تھا مگر جو پہچان اس شخصیت کی اس کے سامنے آئی تھی وہ ایک بار میں تو آرون خان کو ہلا کر رکھ گئی تھی مگر وہ ایک مضبوط اعصاب کا افیسر تھا ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں اس کے ذہن کو زیادہ عرصے تک متاثر نہیں رکھ سکتی تھیں۔ اس نے کرائیڈل سے ریسیور اٹھا کر ایک نمبر ڈائل کیا تھا۔ کچھ دیر بات کرنے کے بعد اس نے فون واپس رکھ دیا تھا صرف چند سیکنڈ بعد اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکا تھا اور ایک انسپیکٹر ایک آدمی کے ساتھ داخل ہوا تھا۔
" ٹھیک ہے دانش! تم جاو۔"
آرون نے دانش سے کہا تو وہ اسے سیلوٹ کرکے واپس مڑ گیا۔ وہ آدمی اب آرون کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔ آرون نے ایک نظر سامنے بیٹھے ہوئے شخص پر ڈالی اور دوسری نظر اپنے سامنے رکھے ہوئے فون پر اس نے فون اٹھا کر نمبر ڈائل کیا اور فون کان سے لگایا۔
" اسلام علیکم بھائی!"
آرون نے نمبر کسی اور کو نہیں بلکہ جبرئیل کو ملایا تھا۔
" ہاں رون بولو؟"
دوسری جانب وہ عجلت میں بولا تھا۔
" بھائی جس شخص کو بلانے کا آپ نے بولا تھا وہ اس وقت میرے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔"
آرون نے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو ایک نظر دیکھا اور فون کے اس پار موجود جبرئیل کی جانب متوجہ ہوا۔
" فون اسپیکر پر ڈالو رون؟"
اس کی جانب سے اگلا حکم جاری ہوا تھا جس کی تکمیل اس نے فوری کی تھی۔
" مصطفی مراد صاحب! میری بات زرا غور سے سنیں اور پھر اس کا جواب اچھے سے یاد کرکے دیں۔"
" جو کیس تیرہ سال پہلے دائر ہوا تھا ان تمام لڑکیوں کی رپوٹس کتنے پرسنٹ تک دائر ہوئی تھیں۔"
اس کے لہجے میں حد درجے کی سنجیدگی گھلی ہوئی تھی۔
" سر! اس وقت تقریبا 80 لڑکیاں اغوا ہوئی تھیں جن کا تعلق اچھے گھرانوں سے تھا اور ان میں سے صرف 30 گھرانے ایسے تھے جنہوں نے اپنی لڑکیوں کے غائب ہونے کی رپوٹ درج کرائی تھی جبکہ باقی سب لوگ ایسے طابقے سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے پولیس کو تفتیش میں اس لیے شامل نہیں کیا کیونکہ ان کے خیال کے مطابق ان کی جگ ہرسائی ہوگی۔"
سامنے بیٹھا ہوا شخص کسی پروفیشنل انداز میں ان دو نفوس کو ساری معلومات فراہم کی تھی۔
" ہوں اور اس کیس کے بارے میں کیا جانتے ہیں آپ جو 1994 کا آخری اغوا کا کیس تھا؟"
جبرئیل کے سوال پر آرون کی سنجیدگی میں اور اضافہ ہوا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے دھند بڑھ رہی تھی مگر وہ ضبط سے بیٹھا ہوا تھا۔
" سر! شاہد کوئی اور یہ بات نہ جانتا ہوں مجھے یہ بتانے کی اجازت بھی نہیں ہے لیکن اس بار معاملہ مختلف ہے وہی حالات ایک بار پھر سے پیدا ہورہے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ اگر اس وقت ہم کچھ نہہں کرپائے تھے تو اب بھی اپنے سامنے یہ سب ہوتا ہوئے دیکھتے رہیں۔"
سامنے بیٹھے مصطفی مراد کا انداز ہی ایسا تھا کہ وہ کوئی بہت ہی پروفیشنل قسم کا انسان معلوم ہورہا تھا۔
" مصطفی مراد صاحب اور سنائیں کیسے ہیں آپ؟"
فون میں سے جبرئیل کا ایک لمہے میں بات بدلنا مصطفی اور آرون دونوں کو چوکنا کرگیا تھا۔
" اوکے رون میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔"
جبرئیل نے انتہائی ٹھہرے ہوئے لہجے میں بات ختم کرکے فون بند کردیا تھا۔ فون کے بند ہوتے ہی آرون کو ایک میسج رسیو ہوا تھا۔
" رون! ہماری یہاں پر ہونے والی گفتگو مونیٹر کی جانی شروع کردی گئی ہے۔ اور یہ عمل ابھی ابھی شروع ہوا ہے تم ایک کام کرو مصطفی مراد کے نمبر پر مسیج چھوڑ دو کہ وہ تمہیں کسی پبلک پلیس پر ملے اور اس سے کیا پوچھنا ہے یہ ساری گفتگو میں تمہیں سمجھا دوں گا۔"
اس نے میسج پڑھ کر ایک ٹیکسٹ مصطفی مراد کے نمبر پر کیا اور اپنی سیٹ سے اٹھتے ہوئے اس سے ہاتھ ملا کر یہ تاثر دیا کہ وہ ایک رسمی سی ملاقات تھی جوں ہی مصطفی مراد تھانے سے باہر نکلا وہ گہرا سانس بھر کر واپس اپنی سیٹ پر بیٹھا یہ بات تو طے تھی کہ آرون خان کو پوری طرح سے مانیٹر کرنا شروع کردیا گیا تھا جس بات کا جبرئیل کو ڈر تھا وہی ہورہا تھا دیکھنا یہ تھا کہ کیا تاریخ اپنے آپ کو پھر سے دوہراے گی یا اس بار کچھ الگ ہوگا۔
           ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ ایک بار پھر سے کرنل خاور کے دفتر میں ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا چہرہ از حد سنجیدہ تھا۔ کرنل خاور بڑی باریک بینی سے اس کے تاثرات کو جانچ رہے تھے ۔ وہ انتظار کررہے تھے کہ کب وہ ان سے اپنے آنے کا مقصد بیان کرے لیکن وہ تھا کہ چپ سادے بیٹھا ہوا تھا آخر کو انہیں ہی اسے مخاطب کرنا پڑا۔
"ینگ مین واٹس دا میٹر؟"
کرنل خاور نے میز پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے جھک کر اس سے پوچھا تھا۔
" سر! مجھے صاف صاف اور سچ سچ بتائیں میرے بابا اور چاچو کس طرح شہید ہوئے تھے میں تھک گیا ہوں اس بات کا سراغ لگاتے لگاتے جب میں اپنے گھر میں اپنی ماں اور چچی کو دیکھتا ہوں تو میری رگوں میں دوڑتا ہوا خون مجھے یہ احساس دلاتا ہے کہ میں ایک اپنے خون کا بدلہ بھی نہیں لے سکا۔"
وہ بے بسی سے کہہ رہا تھا۔
" دیکھو ینگ مین! بہت سال بیت گئے مجھے اس بات کو چھپاتے ہوئے دباتے ہوئے اور اس بات کو چھپا کر ہی میں برسوں سے اپنے قریبی لوگ بچاتا آرہا ہوں ورنہ برگئیڈیر ابراہیم اور اسمائیل کی شہادت کے بعد میں ان کی نسل کے بھی ایک ایک انسان کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھتا۔"
وہ سنجیدگی سے اس سے مخاطب تھے بدلے میں اس کے تاثرات بھی دیکھنے لائق تھے چہرے پر فکر کے تاثرات واضح تھے۔
" تم نے کیا کیا ہے میجر!؟"
کرنل خاور نے ایک لمہے میں ہی اپنی زیرک نگاہوں سے اس کا تجزیہ کیا تھا۔ جبرئیل نے الجھ کر ان کے سامنے اپنی نظریں جھکائیں تھیں۔
" تم اور آرون کیا کررہے ہو مل کر؟''
ایک اور سوال نے اس کے حواس بیدار کیے تھے۔
" آرون میرے گھر کیوں آیا تھا؟"
سوال میں اب کی بار سختی تھی لہجہ سپاٹ تھا۔
" آخری اغوا کے بارے میں پوچھنے۔"
اس نے آہستگی سے کہا تھا۔
" یہ پوچھنے کہ وہ آخری عورت میری چھوٹی بہن تھی۔"
آنکھیں سرخ ہورہی تھیں لہجے میں عجیب سی کپکپاہٹ تھی۔
" وہ یا میں اس سے پہلے نہیں جانتے تھے کہ وہ آپ کی چھوٹی بہن ہوگی۔"
جبرئیل نے نگاہیں جھکاتے ہوئے کہا تھا۔
" اب تو جان گئے ہو نہ؟ برسوں لگ گئے اس تکلیف کو بھولانے میں پھر بھی کم بخت ایسا ناسور ہے جو میرے اندر پلتا ہی جارہا ہے اس زخم کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ پورا وجود زخمی کرگئی ہیں۔"
وہ بے بسی سے کہہ رہے تھے۔
" سر! اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس کے پیچھے اصل ہاتھ کو جڑ سے پکڑ لیں لیکن اس سے پہلے آپ کو مجھے ساری سچائی بتانی پڑے گی۔"
جبرئیل نے کرنل خاور کی دکھتی رگ پر پاوں رکھا تھا۔
" اس سے پہلے تمہیں آرون کو روکنا ہوگا میں نہیں چاہتا کہ اس جنگ کا اگلا شکار برگئیڈیر ابراہیم کا بیٹا بنے اس لیے اس کی توجہ فی الوقت کے لیے  اس کیس سے ہٹا دو پھر جو ہم کریں گئے اس میں آرون اور سبتین کی پولیس فورس کی مدد بھی درکار ہوگی لیکن اس سے پہلے آرون کا کچھ عرصے کے لیے منظر سے غائب ہونا ہی بہتر ہے کیونکہ آرون یہ کیس کھول چکا ہے اور یہ خبر شاہد ان تک پہنچ گئی ہے۔"
کرنل خاور نے اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے اس سے کہا تو اس نے سر ہلایا تھا۔
" شام میں تم مجھے گھر پر ملو وہی بات ہوگی۔"
وہ اپنی سیٹ سے کھڑے ہوتے ہوئے کہہ گئے تھے۔ وہ بھی سامنے کی سیٹ سے کھڑے ہوکر ان کی تلقید میں باہر نکل گیا تھا۔
        ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ سکول پہنچی تو اس کی نظر سب سے پہلے سٹاف روم کے باہر کھڑی ہلکے گرے رنگ کے شلوار سوٹ پر پیچ سکارف اوڑے فاطمہ پر پڑی جو کندھے پر بیگ لٹکائے اور ہاتھوں میں کچھ کتابیں تھامے کھڑی تھی اسے دیکھ کر صاریہ کے لبوں پر مسکراہٹ آئی تھی وہ یہی تو چاہتی تھی کہ وہ آج سب سے پہلے فاطمہ سے ملے نجانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ اس کے بہت سے سوالوں کے جواب فاطمہ کے پاس ہیں۔ وہ قدم قدم چلتی ہوئی اس کے قریب آگئی۔
" اسلام علیکم!"
صاریہ نے لہجے کو شائستہ بنانے کی ممکن کوشیش کرتے ہوئے فاطمہ کو سلام کیا تھا۔ اس نے آواز کے تعاقب میں دیکھا تو ہلکا سا مسکرائی وہ جانتی تھی کہ صاریہ اس کے پاس دوبارہ ضرور آئے گی۔
" کیسی ہیں آپ صاریہ؟"
فاطمہ نے رسما اس سے حال احوال دریافت کیا تھا۔
" میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو؟"
صاریہ نے بھی بدلے میں بھرپور قسم کا اخلاق نبھایا تھا۔
" آئیں پلیز وہاں بیٹھتے ہیں۔"
فاطمہ نے قریب لگے بنیچ کی جانب اشارہ کیا تو دونوں چلتی ہوئی وہاں آگئیں۔
" میں بہت پریشان ہوں فاطمہ؟ میرا دل کہتا کہ میں ایک اچھی لڑکی نہیں ہوں۔"
وہ انتہائی الجھے ہوئے لہجے میں اسے بتارہی تھی۔ اس کی بات پر فاطمہ بے اختیار مسکرائی تھی اسے اپنے بارے میں بھی اپنے دل کے ایسے ہی انکشاف پر ہنسی آئی تھی۔
" انسان کی اچھائی کا فیصلہ کبھی بھی وہ خود نہیں کرتا صاریہ! وہ کبھی خود کر ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ فیصلہ اس کے لیے اللہ کرتا ہے اگر انسان کا دل کہتا ہے کہ وہ اچھا نہیں ہے تو اللہ اس کے سامنے وہ راستہ کھول دیتا ہے جس پر چل کر اس کا دل اس کے اچھے ہونے کی گواہی دے۔"
فاطمہ اپنی ذات کا سارا تجزیہ اس کے سامنے من و عن بیان کررہی تھی اور صاریہ کی سماعتیں فاطمہ کے لفظوں کے سحر میں بری طرح جکڑی ہوئی تھیں۔
قرآن پاک کی سورت یونس کی آیت نمبر 5 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ:
ھوالذی جعل الشمس ضیاء والقمر نور و قدرہ منازل
لتعلمو عدد السنین والحساب ما خلق اللہ ذلک الا بالحق یفصل الایت لقوم یعلمون○
وہ اللہ تعالی ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایا اور اس کے لیے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو۔اللہ تعالی نے یہ چیزیں بے فائدہ نہیں پیدا کیں۔ وہ یہ دلائل ان کو صاف صاف بتا رہا ہے جو دانش رکھتے ہیں۔"
فاطمہ نے خود پڑھی ہوئی ایک قرآنی آیت اس کے گوش گزار کی تھی اور وہ یہ سب ایسے سن رہی تھی جیسے زندگی میں پہلی بار کسی نے حقیقت کا آئینہ دیکھایا ہو جب آپ کسی کے بارے میں کچھ بھی برا سوچتے ہیں یا کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تب آپ کو یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ آپ اپنے ہر عمل کے لیے جواب دہ ہیں اس وقت صرف خودغرضی کیوں سوار ہوتی ہے؟ اس وقت وہ یاد کیوں نہیں آتا جس نے تمہیں جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا؟ صاریہ کے اندر سوالات کنڈلی مار کر بیٹھتے جارہے تھے اور جواب صرف ایک تھا اور وہ تھا خود سے ناآشنائی وہ اپنے آپ کو جانتی ہی نہیں تھی۔
" ایک بات بتاو فاطمہ! اگر ہم کسی چیز کی بہت سچے دل سے طلب کریں وہ مانگیں اور پھر بھی وہ چیز ہمیں نہ ملے تو وہ کیوں نہیں ملتی حالاکہ کہا جاتا کہ دعا سے سب مل جاتا ہے۔"
وہ آنکھیں چھوٹی کیے فاطمہ سے پوچھ رہی تھی کہیں ایک آنسو دور سے فاطمہ کی آنکھ میں بھی آیا تھا جسے پلکیں جھپک کر وہ خود میں اتار گئی تھی۔
" جانتی ہو صاریہ کوئی چیز کیوں نہیں ملتی اور خاص کر تب جب وہ آپ کی پسندیدہ ہوتی ہے جسے آپ نے سب سے زیادہ مانگا ہوتا ہے؟"
اس نے بات کرکے اس کی تائید چاہی تھی اس نے جب سر ہلایا تو وہ مزید گویا ہوئی۔
" آپ کی پسند کی چیز آپ کو کبھی کبھی اس لیے نہیں ملتی بے شک آپ نے اسے اپنی ساری چیزوں سے بڑھ کر ہی کیوں نہ مانگا ہو کہ اس چیز کی چاہ کوئی اور بھی کررہا ہوتا ہے اور اس کی چاہ آپ کی چاہت اور طلب سے کئی زیادہ ہوتی اس چیز سے کسی اور کا فائدہ متوقع ہوتا اس کی ضرورت آپ سے زیادہ کسی اور کو ہوتی اس لیے وہ آپ کا نہیں کسی اور کا مقدر ٹھہرائی جاتی لیکن وہ چیزیں بھی ہوتی ہیں جو آپ کے کسی اور کو مانگنے کے دوران آپ کی طلب کررہی ہوتی آپ کی خواہش اور ان کی طلب اس قدر شدید اور سچی ہوتی کہ جسے آپ مانگ رہے ہوتے اسے آپ سے دور کرکے آپ کو اس کے لیے وقف کردیا جاتا جو آپ کی چاہ آپ کی کسی اور کے لیے چاہ سے زیادہ کررہا ہوتا۔"
ہر چیز ہر بات بالکل واضح ہوچکی تھی ان دونوں کو ہی اندازہ نہیں ہوا کہ پورا وقت وہ دونوں ایک ہی بینچ پر بیٹھ کر باتیں کرتی رہیں چھٹی کی بیل بجی تو دونوں ہوش میں واپس آئیں شکر تھا کہ صاریہ کی آج کوئی کلاس نہیں تھی۔ وہ فاطمہ سے مل کر گیٹ پر آگئی تھی جہاں ایک سفید رنگ کی سیوک اس کے انتظار میں کھڑی تھی اور ساتھ میں اس کا مکین بھی۔
         ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ راستے میں تھا وہ گھر جارہا تھا کشمیر کے پہاڑی راستوں اور چھوٹی سڑکوں پر جیپ دوڑاتا اندر خود سے ہی الجھ رہا تھا بے پناہ سوالات اس کے پورے وجود کو جکڑے ہوئے تھے آرون کی حفاظت اسے اپنی جان سے زیادہ مقدم تھی اس کے ذہن میں ایک خیال لمہے میں کلک ہوا تھا ساتھ والی سیٹ پر رکھا ہوا اپنا موبائل اس نے اٹھایا تھا کان میں بلو توتھ سٹ کرکے فون واپس سیٹ پر رکھا اور عشرت جہاں کا نمبر ملایا تقریبا تیسری بیل پر کال اٹھا لی گئی تھی۔
" اسلام علیکم ماں!"
اس نے مسکراتے ہوئے سلام کیا تھا۔
" وعلیکم اسلام کیسے ہو میرے بچے؟"
انہوں نے پرجوش طریقے سے اس کے سلام کا جواب دیا تھا۔
" ماں آپ کو ابھی اور اسی وقت ایک کام کرنا ہے۔"
وہ عجلت میں سنائی دے رہا تھا۔
" کیا ہوا سب خیر بچے؟"
وہ بھی دوسری جانب پریشان ہوگئی تھیں۔
" جی ماں بس آپ ابھی اور اسی ٹائم چچی جان کے پاس جائیں اور ان سے آرون اور زیبا کی شادی کی بات کریں آج بدھ ہے ویک اینڈ پر شادی کی ڈیٹ فائینل کردیں میں کل زارا کو لے کر پشاور آرہا ہوں۔"
اس نے فون کے دوسری جانب موجود عشرت جہاں پر گویا کوئی بم ہی پھوڑا تھا۔
" یہ کیا کہہ رہے ہو ایسے اچانک کیسے میں جاکر شادی کی بات کردوں ویسے بھی میرا ارادہ آنیہ کی شادی سبتین سے کرنے کا تھا آرون کہاں سے آگیا بیچ میں؟"
وہ کافی الجھے ہوئے لہجے میں اس سے کہہ رہی تھیں۔
" ماں! آپ سمجھ نہیں رہیں آرون زیبی کو پسند کرتا ہے اور یہ شادی بہت ضروری ہے اور ویسے بھی اگر آپ آنیہ کے لیے سبتے کو چاہتی ہیں تو اس میں پرابلم کیا ہے دونوں کی ساتھ میں کردیں لیکن یہ شادی دو دن کے اندر اندر ہونا بہت ضروری ہے اس کے بعد ہوئی تو مشکل ہوجائے گی۔"
وہ اب کی بار شدید ٹھہرے ہوئے لہجے میں انہیں سمجھا رہا تھا۔
" جبرئیل بچے! اب تم مجھے پریشان کررہے ہو آخر ایسی بھی کیا بات ہے جس کی وجہ سے تم مجھے دو دن میں شادی کرنے کا کہہ رہے ہو اتنی تیاریاں ہیں دو دن میں سب کیسے ہوگا۔"
عشرت جہاں کی بھی بات اپنی جگہ پر درست تھی مگر وہ اب مزید آرون کی زندگی کو رسک میں نہیں ڈال سکتا تھا وہ اچھے سے جانتا تھا کہ اب آرون کسی بھی حال میں پیچھے نہیں ہٹے گا اور فل حال کے لیے کسی بھی کیس میں آرون کی پیش قدمی اس کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی تھی اس لیے وہ فل حال وہ چاہتا تھا جلدی سی شادی کرکے وہ آرون کو کچھ دنوں کے لیے کہیں بھیج دے۔
" ماں! آپ کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں سب سمبھال لوں گا آپ فل حال چچی سے ہی جاکر بات کریں بس باقی آئی ول ہینڈل۔"
اس نے کہہ کر موڑ کاٹتے ہوئے فون بند کردیا تھا وہ بس کرنل خاور کے گھر کے نزدیک ہی تھا۔ آسمان پر شام کے سائے گہرے ہورہے تھے اور اسے آج کے آج ہی ساری حقیقت جاننی تھی یہ اس کے اگلے لاحہ عمل کے لیے بے حد ضروری تھا برسوں پہلے کا رکا ہوا سیکرٹ مشن ایک بار پھر سے شروع ہونے والا تھا لیکن اب کی بار سارا کام اتنی احتیاط سے کرنا تھا کہ سو فیصد کامیابی متوقع ہو۔ اس کی گاڑی سیدھی کرنل خاور کے کشمیر پورچ میں داخل ہوئی تھی وہ یونیفارم میں ہی ملبوس تھا چہرے پر تھکن کے آثار واضح تھے لیکن جو آج اس نے جاننے کی ٹھانی ہوئی تھی وہ اسے جاننا ہی تھا۔ وہ زارا کو اپنے لیٹ آنے کے متعلق آغاہ کرچکا تھا۔ گاڑی سے اتر کر وہ سیدھا مین ڈور کی جانب بڑھا تھا دروازہ کھٹکانے پر ان کے ملازم نے دروازہ کھول کر اسے اندر آنے کی اجازت دی تھی ڈرائینگ روم میں بیٹھتے ہی نجانے کیوں اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا وہ ان کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا آخر آج وہ دن آہی گیا تھا جب اس پر آج پرسوں پرانے راز آفشاں ہونے تھے۔
              ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
خان ولا میں ماہ رخ بیگم کے کمرے میں عشرت جہاں اور وہ خود آمنے سامنے بیٹھی ہوئی تھیں دونوں کے درمیان طویل خاموشی کا سلسلہ جاری تھا۔ دونوں کی آنکھوں کے گوشے بھیگے ہوئے تھے۔
" بولو ماہ رخ میری بیٹی لے کر کیا تم مجھے اپنی بیٹی دے سکتی ہو؟"
وہ ایک بار پھر سے ان کے سامنے سوالی بن کر اپنی درخواست پیش کررہی تھیں بدلے میں وہ صرف آنسو بہا رہی تھیں۔
" بھابھی حق تو میری صاریہ کا بھی تھا کہ وہ آپ کی بہو بنتی۔"
وہ چاہتے ہوئے بھی خود کو یہ بات کہنے سے نہیں روک پائی تھیں۔
" حق وہاں سمجھے جاتے ہیں ماہ رخ جہاں مان دینے کی امید بھی ہو مجھے معلوم تھا میرا جبرئیل تمہاری صاریہ کو وہ مان کبھی بھی نہیں دے پائے گا جو اس کا بنیادی حق ہے اس لیے میں نے تم سے وہ مانگی بھی نہیں تھی لیکن جو مانگ رہی ہوں اس کی ضمانت دیتی ہوں ماضی کے سیاہ اوراق میں اتنا کچھ ہوچکا ہے کہ اپنی بچیوں کو آنکھوں کے سامنے سے دور کرنے سے ہی دل ڈر جاتا ہے۔"
وہ اپنی آنکھ کے بھیگے گوشے پونچھتے ہوئے ان سے کہہ رہی تھی وہ بھی مجبور تھی کیونکہ ماضی کے واقعات واقعی ہی میں دل دہلا دیتے تھے۔
" ٹھیک ہے بھابھی ہفتے کو آکر اپنی امانت لے جائیے گا اور میں بھی اپنی امانت لینے آجاو گئی۔"
انہوں نے بھی مسکرانے کی ناکام کوشیش کرتے ہوئے کہا تھا۔
" ٹھیک ہے کل جبرئیل آرہا ہے زارا بھی اس کے ساتھ آرہی ہے۔"
وہ انہیں بتاتے ہوئے اٹھ کر جانے والی تھیں جب ماہ رخ بیگم نے ان کی کلائی تھامی تھی وہ بھی شاہد جانتی تھیں کہ وہ ان سے کیا سوال کرنے والی ہیں۔
" اس لڑکی کو میرے بچوں کی خوشیوں میں شامل ہونے کا نہ تو کوئی حق ہے اور نہ ہی اجازت۔"
وہ سختی سے کہتے ہوئے نرمی سے ان کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے چلی گئی تھیں جبکہ پیچھے ان کے پاس آنسو بہانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا وہ صاریہ کی قسمت پر آنسو بہارہی تھیں اس نے سب کچھ اپنے سب رشتے اپنے ہی ہاتھوں سے برباد کرلیے تھے  وہ خود اپنی خوشیوں کی دشمن بن گئی تھی ایسے میں ماہ رخ بیگم تو کیا کوئی اور بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا۔
       ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آج رات اس نے واپس کشمیر کے لیے نکلنا تھا دل عجیب سا بوجھل ہورہا تھا کمرے میں بند رہ کر بھی وہ تھک چکا تھا۔ آخری خط کا سوال ابھی بھی ذہن کے کونوں میں اسی آب و تاب کے ساتھ گردش کررہا تھا جیسے پہلی بار کیا تھا۔ دل کہہ رہا تھا کہ محبت میں سفیدی سیاہی کو قبول کرلیتی ہے۔ دل نے بے ساختہ محبت پکارا تھا۔ اس نے لاشعوری طور پر اپنا ہاتھ اپنے دل پر رکھا تھا جو اسی انداز میں دھڑک رہا تھا جیسے ہمشہ دھڑکتا  تھا۔
" محبت!"
ایک بار پھر سے دل نے محبت کی پکار لگائی تھی۔ دھڑکن کے اشتعال میں تیزی آئی تھی۔
" کیا محبت ہوگئی ہے مجھے؟ کیا کسی کو جانے بغیر محبت ہوسکتی ہے؟"
بیک وقت بے شمار سوالات نے دل میں جگہ لی تھی۔ محض دل میں ہی نہیں بلکہ زبان بھی یہی سوالات دھرا رہی تھی۔
" محبت اندھا کنواں ہے بن سوچے بن دیکھے ہوجاتی ہے۔"
وہ دروازے پر کھڑی بی اماں کی آواز پر چونکا تھا جو ہاتھ میں اپنی چھڑی لیے پوری شان اور تمکنت سے کھڑی تھیں۔
" ارے بی اماں! آپ کھڑی کیوں ہیں آئیں نہ پلیز۔"
اس نے اپنے بیڈ پر بکھرے ہوئے کپڑے ایک طرف کرکے ان کے بیٹھنے کی جگہ بناتے ہوئے کہا تھا۔بی اماں مسکرا کر چلتی ہوئی اس کے بیڈ پر بیٹھ گئی تھیں۔
" ہاں تو برخودار ! کون ہے وہ جس کے لیے دل محبت کی پکار دے رہا ہے؟"
بی اماں کا چہرے ہمشہ کی طرح مسکرا رہا تھا وہ ایسی ہی تھیں بڑی سے بڑی بات بھی مسکرا کر اگلوا لیتی تھیں ان کے سامنے بیٹھے ہوئے احسن کو اس بات کا اندازہ باخوبی تھا کہ وہ اب ان کے سامنے اس بات کو مزید چھپا نہیں سکتا۔
" پتہ نہیں بی اماں!"
اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے نگاہیں جھکا لیں تھیں۔
" تو اس وجہ سے شادی پر رضا مند نہیں ہورہے تھے تم؟"
وہ ایک اور نقطہ کہیں سے نکال کر لے آئی تھیں۔ احسن کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ کیا جو سوال بی اماں نے اس سے کیا ہے وہی وجہ تھی جو وہ مسلسل بی اماں کو انکار کررہا تھا۔
" دیکھو بیٹے! محبت ایک ایسا جذبہ ہے جسے اگر ہم ایک اندھا کنواں کہیں تو ہرگز بھی غلط نہیں ہوگا یہ واقعی میں ہی ایک اندھا کنواں ہے جو اس قدر اندھیر ہے کہ اس میں ڈوبتے ہوئے کچھ نظر نہیں آتا نا ہی کوئی دیوار اور نہ ہی اس کی گہرائی کا اندازہ۔"
بی اماں کا لہجہ نرمی سموئے ہوئے تھا۔
" بی اماں وہ کہتی ہے کہ مہلت کم ہے اور اشتیاق زیادہ محبت بھی ہے اور برابر کا جنون بھی تو شفاف ہے اور میرے وجود میں داغ کیا کبھی ملا ہے سفیدی کو سیاہ نشان؟"
اس نے اپنا جملہ مکمل کرکے بی اماں کی جانب دیکھا تھا جو بالکل ویسے ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔
" اور تمہارے پاس اتنا ظرف نہیں تھا احسن پتر! کہ تم اس سوال کا جواب دے پاتے کیونکہ اس سوال کا جواب تو وہی دے سکتا تھا جو محبت میں دل گردہ رکھتا ہو۔"
بی اماں کے چہرے سے نرمی غائب ہوچکی تھی وہاں اب نرمی کی جگہ سنجیدگی نمایاں تھی۔
" بی اماں میں یہ سوال اور اس کا مقصد دونوں ہی نہیں سمجھ پایا"
وہ کندھے اچکاتے ہوئے ناسمجھی سے کہہ رہا تھا۔
" وہ تجھ سے پوچھ رہی ہے کہ اگر اس کے وجود میں کسی گناہ کی آمیزیش شامل ہوگی یا اس کے کردار پر کوئی سیاہ داغ ہوگا تو کیا تمہاری محبت میں اتنی وسعت ہے کہ تم ان سب داغوں سمیت اسے اپنا سکو کیا ہے تم میں اتنا ظرف کہ اپنی محبت کو محبت سے اپنی آغوش میں سمیٹ لو؟"
بی اماں کے جملوں نے احسن کے چہرے پر حیرت واضح کردی تھی وہ یک ٹک انہیں دیکھ رہا تھا۔
" تیری حیرت بتا رہی ہے پتر کہ تو محبت میں ابھی کچا ہے اور مقابل محبت میں اتنا ہی پکا تجھ سے سارے سوال کر کے وہ خود کو تجھ پر عیاں کرنا چاہتی ہے اگر اسے تیری بزدلی کی زرہ سی بھی شبہ نظر آئی تو وہ خود ہی روح پوش ہوجائے گی وہ بھی ایسا کہ اپنی غلطی ماننے کے باوجود تو اس کا نشان تک نہیں ڈھونڈ پائے گا پتر کیونکہ وہ محبت سے گوندھی ہوئی پکی کھلاڑی ہے جہاں حوصلہ اور ظرف سب سے پہلے آزمایا جاتا۔"
بی اماں اب اٹھ کر اس کے سامنے کھڑی ہوچکی تھیں وہ ساکن بت بنا بی اماں کو دیکھ رہا تھا۔ دل و دماغ عجیب سی زد میں تھے بی اماں دروازے کی سمت بڑھ رہی تھیں اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
" نہیں بی اماں میں محبت میں کچا نہیں ہوں شرط یہ ہے کہ محبت کا ادراک ہوجائے وہ مجھ پر کھل جائے محبت مجھ پر کھل گئی ہے وہ مجھے اپنی ہر سیاہی کے ساتھ قبول ہے۔"
اس کے آخری جملوں نے بی اماں کو مسکرانے پر مجبور کردیا تھا۔
" جاو پھر بتاو اسے کہ سفیدی کو سیاہی قبول ہے۔"
وہ مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی تھیں جبکہ اس کی دنوں کی الجھن لمہوں میں سلجھ گئی تھی۔
         ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ غلام بخش کے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑی تھی۔ دل میں پکتے ہوئے لاوے کو اس نے گہرا سانس بھر کر خارج کیا تھا۔ سانس خارج کرنے کے ساتھ ہی منہ میں بھرا ہوا سگریٹ کا دھواں بھی باہر نکلا تھا۔ دروازہ کھٹکانے کی بجائے اس نے سیدھا ناب گھما کر دروازہ کھولا تھا۔ کمرہ خالی نہیں تھا بیڈ کے سامنے رکھے ہوئے کاوچ پر غلام بخش جوتوں سمیت نیم دراز تھا آنکھیں موندھی ہوئی تھیں۔ اس کی موجودگی محسوس کرتے ہوئے غلام بخش نے جھٹ سے آنکھیں کھولی تھیں آنکھوں میں حیرت واضح تھی۔ غلام بخش کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ ایس۔کے ناچاہتے ہوئے بھی مسکرائی تھی وہ ایک جھٹکے میں کاوچ سے اٹھ کر اس کے مقابل کھڑا ہوا تھا۔
" یقین کرکو بخش! میں خود آئی ہوں تمہارے کمرے میں۔"
وہ مسکراتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی۔
" یہی تو یقین نہیں ہورہا دس سال میں پہلی بار اور وجہ نادرد۔"
وہ کندھے اچکاتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا جو اب سنجیدگی کی چادر اوڑھ چکی تھی۔
" ہمشہ مجھے کام ہی تم تک لے کر آتا ہے اور اس وقت بھی کام ہی لایا ہے بخش!"
وہ اسے حقیقت کی دنیا میں کھینچ کر واپس لائی تھی۔
" حکم کریں۔"
" اپنے ہیکرز کو کہو اپنا کام تیز کریں زرہ اور دوسرہ بات اس لڑکی کیا نام تھا جو جبرئیل کے پاس تھی۔"
وہ اپنے دماغ پر زور دیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" زارا ایس۔کے!"
غلام بخش نے جلدی سے اس کی مشکل آسان کی تھی۔
" ہاں وہی اٹھوا لو اسے لیکن ابھی نہیں جب میں کہو گی داور کمال سے اب کچھ نہیں ہونا مجھے ہی کرنا پڑے گا سب اور ہاں پیکنگ کرالو ہم انڈیا جارہے ہیں اور تم پاکستان بھی جاو گئے لیکن لیگلی تمہاری تو فیملی بھی تھی نہ وہاں؟"
اس نے اپنی بات مکمل کرکے اس سے سوال پوچھا تھا جس کا جواب یقینا مثبت تھا کیونکہ غلام بخش کے متعلق معلومات اس کے پاس غلط نہیں ہوسکتی۔
وہ کہہ کر باہر جانے والی تھی جب بخش کے سوال نے اس کے قدم جکڑے تھے۔
" اور کرنل کا کوئی خط آگیا پیچھے سے تو؟"
غلام بخش نے سوالیہ نگاہیں اس کے چہرے پر ٹکائی تھیں۔
" اس کا خط اب نہیں آئے گا بخش!"
وہ کہتی ہوئی تیزی سے باہر نکلی تھی لیکن شاہد زندگی میں پہلی بار اس کا کوئی اندازہ غلط ثابت ہونے والا تھا لیکن وہ اس بات سے یکسر انجان تھی۔
  پیچھے غلام بخش اس کے اس فیصلے پر حیران رہ گیا تھا اسے تو نفرت تھی انڈیا جانے سے پھر اچانک ایسا فیصلہ کیوں کیا اس نے اس کے پاس اختیار نہیں تھا کہ وہ اس سب سے متعلق سوال کرتا اس سے لیکن یہ بھی سچ تھا اس کے اندر عجیب سے جھکڑ چل رہے تھے زندگی غلام بخش کو عجیب دورایے پر کھڑا کرنے والی تھی اس کی پندرہ سالہ محبت کا امتحان ہونے والا تھا اور اس امتحان میں غلام بخش پوری طرح کامیاب ہونے والا تھا لیکن کیسے اور کب اور کیوں یہ اسے بہت جلد وقت بتانے والا تھا لیکن اسے یقین تھا کہ اس کی محبت ہر امتحان میں سرخرو ہوگی یا یہ محض اس کا گمان تھا زندگی اسے بتانے والی تھی۔
          ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ سکول کے گیٹ پر حیرت سے سفید سویک اور اس کے ساتھ لگ کر کھڑے آرمی یونیفارم میں ملبوس شخص کو دیکھ رہی تھی جو اسے انتہا درجے کا سنجیدہ دیکھائی دیا تھا۔ صاریہ اس کے قریب سے گزر جانا چاہتی تھی اور وہ گزر بھی گئی تھی جب اس کی آواز نے صاریہ کے بڑھتے ہوئے قدموں کو جکڑا تھا۔
" کبھی اگر نظر انداز نہیں کریں گی تو میرا نہیں خیال آپ کی شان میں کوئی فرق آجائے گا۔"
وہ سنجیدہ تاثرات اور لہجے میں سنجیدگی سموئے رخ موڑے کھڑی صاریہ کو کہہ رہا تھا جو اس کا لہجہ اور اس میں موجود طنز کو کسی بھی طور سمجھ نہیں پائی تھی ۔ وہ تیزی سے اس کی جانب مڑی تھی اپنی سوالیہ نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز کیے وہ اس کے طنز کا مقصد جاننے کی کوشیش کررہی تھی۔
" گاڑی میں بیٹھیں۔"
اس نے اپنے سینے پر بازو فولڈ کرتے ہوئے گویا اسے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن کیا تھا۔ وہ چہرے پر حیرت لیے ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
" سنا نہیں میں نے آپ سے کیا کہا کہ گاڑی میں بیٹھیں۔"
ایک بار پھر سے اس نے اپنے لفظوں پر زور دے کر کہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اس سے یہ سب کیوں بول رہا ہے وہ تو اسے صیح سے جانتی بھی نہیں تھی پھر وہ آخر کیوں کر اس کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھتی۔
اب کی بار اس نے اس سے کہا نہیں تھا بلکہ دروازہ کھول کر اسے کلائی سے تھام کر اندر بیٹھایا تھا وہ اس کے اچانک افتاد پر بالکل کچھ بھی سمجھ نہیں پائی تھی۔ دوسری جانب سے اس نے اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی تھی اور تیزی سے سکول والے علاقے سے باہر نکال گیا تھا وہ کبھی سڑک پر دیکھتی تو کبھی اس کے سرد و سپاٹ چہرے پر آرمی مین کا غصہ اسے اپنی ہتھیلیاں بھیگتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔
" آپ ایسا کیوں کررہے ہیں اور کہاں لے کر جارہے ہیں آپ مجھے اور کیوں؟"
آخر کار صاریہ نے اپنی چپ کا روزہ توڑ کر اس سے سوال کیا تھا بدلے میں وہ بالکل خاموش تھا۔
" پلیز اسامہ بتائیں یہ سب کیوں کررہے ہیں آپ؟"
وہ اب رونے والی ہوگئی تھی اسامہ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر گہرا سانس بھرا تھا۔
" بہت مزہ آتا ہے نہ آپ کو خود کو تکلیف دے کر؟"
وہ کیا سوال کررہا تھا اس سے صاریہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اسامہ کا اس کے پریشان ہونے یا تکلیف دینے سے کیا تعلق ہے۔
" جی! میں سمجھی نہیں۔"
اس نے ناسمجھی سے سر دونوں جانب ہلایا تھا اسے واقعی ہی میں اسامہ کی حرکت ہرگز سمجھ میں نہیں آئی تھی۔
" سب سمجھتی ہو تم صاریہ ! جبرئیل کے پیچھے تم نے خود کو کتنی تکلیف دی ہے کتنا تڑپی ہو تم اس کے لیے۔"
صاریہ کے لیے اس کی تمام باتیں حیرت کا باعث تھیں کیونکہ وہ سب وہ باتیں جانتا تھا جو شاہد صاریہ کی زندگی میں ایک راز کی حیثیت رکھتی تھیں وہ اس کی باتوں پر نگاہیں جھکا چکی تھیں گو کہ اسے نظریں ملانا محال لگ رہا تھا۔
" تڑپنا میرے بس میں تھا لیکن محبت میرے بس میں نہیں تھی اس لیے میں نے وہ کیا جو میرے بس میں تھا۔"
وہ نگاہیں جھکا کر انتہائی آہستگی سے بولی تھی اتنا کہ اس کے برابر کی سیٹ پر بیٹھا ہوا چھ فٹ ایک انچ کا فوجی بامشکل ہی سن پایا تھا۔
" اور میرے بس میں صاریہ جی! میرے بس میں کیا تھا نہ ہی محبت اور نہ ہی تڑپ!"
اس نے مدہم لہجے میں بوجھل لہجے کے ساتھ کہا تھا۔ صاریہ نے حیرت سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا جہاں اب بھی سنجیدگی تھی ورنہ شاہد مسکراہٹ اس چہرے کی شان ہوا کرتی ہے۔
" کیا مطلب محبت کسی کے بس میں نہیں ہوتی اسامہ رحمان صاحب ہاں کسی کی تڑپ آپ کے بس میں ضرور ہوتی ہے کیونکہ کسی کی طلب آپ میں تڑپ بڑھا دیتی ہے۔"
وہ اپنی آنکھوں سے نکلتے ہوئے آنسوں کو صاف کرتے ہوئے کہہ رہی تھی اسامہ نے بے اختیار اس کی آنسوں سے برستی برسات کو دیکھا تھا جسے وہ بار بار بہنے سے روک رہی تھی شاہد وہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ اس کے سامنے یہ آنسو باہر آئیں۔
" تو پھر میرے حصے میں تو دوگنی تکلیف آئی تھی صاریہ!"
اس نے گاڑی ایک جانب روکتے ہوئے سر سیٹ کی پشت سے ٹکایا تھا صاریہ نے اس کی سرخ ہوتی آنکھوں پر ایک نظر ڈالی تھی۔
" دوگنی تکلیف؟"
صاریہ کو اپنی ہی آواز کسی گہری کھائی سے آتی ہوئی سنائی دی تھی۔
" ہاں ایک تمہاری تڑپ کی جو جبرئیل کے لیے تھی اور ایک میری اپنی تڑپ کی جو تمہارے لیے ہے۔"
اس نے آنکھیں موندے ہی نجانے یہ الفاظ کس مشکل سے ادا کیے تھے صاریہ کو یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے تپتی ہوئی ریت پر کھڑا کردیا ہو اس نے آنکھیں زور سے میچی تھیں گویا چاہتی تھی کہ جو اس لمہے ہورہا ہے وہ کوئی خواب ہو اور آنکھیں کھولنے پر وہ خان ولا میں اپنی ماں کی چھاوں میں ہو مگر اس نے آنکھیں میچ کر کھول بھی لیں لیکن منظر میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی وہ اسی طرح ساتھ والی سیٹ پر آنکھیں بند کیے بیٹھا ہوا تھا کیونکہ اس لمہے اپنی محبت ہارنے کی ہمت اسامہ رحمان میں بالکل نہیں تھی۔
" میں کسی کو محبت نہیں دے سکتی کیونکہ میں محبت کے لائق نہیں ہو اسامہ!"
اس نے ہارتے ہوئے کہا تھا کہیں نہ کہیں وہ اور اسامہ ایک ہی کشتی کے سوار تھے۔
" میں پھر بھی مجبور ہوں کہ میں تم سے ہی محبت کرو کیونکہ میرا دل کسی بھی دلیل کو ماننے سے انکاری ہے صاریہ! ہم دونوں میں سے کسی ایک کی تکلیف کم ہونی چائیے ہم میں سے کوئی ایک تکلیف سے آزاد ہونا چائیے اور میں چاہتا ہوں کہ اس بار میں تکلیف سے آزاد ہوجاوں میں مجبور ہوں کیونکہ ہاں میری محبت خودغرض ہے تم مجھے اس تکلیف کے بوجھ سے آزاد کردو صاریہ خان مجھے رہائی دے دو۔"
وہ اس کے آگے ہاتھ کیے بے بسی سے کہہ رہا تھا اس کی سرخ آنکھیں بس بھیگنے ہی والی تھیں صاریہ نے واقعی ہی بے بسی سے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کی جانب دیکھا تھا۔
" جب اللہ کوئی چیز چھین لیتا ہے تو اس کا نعم البدل بھی جلد عطا کرتا ہے وہ بھی وہ جو آپ کی سوچ سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔"
زیبا کا کہا گیا جملہ اس کے کانوں میں گونجا تھا۔
ایک بار پھر سے اس نے اسامہ کے بڑھے ہوئے ہاتھ اور ضبط کی زیادتی سے سرخ چہرے کو دیکھا تھا۔
" جب کچھ نہیں ملتا تو وہ اس لیے نہیں ملتا کہ کوئی اور آپ کی اس سے زیادہ چاہ کررہا ہوتا ہے اس کی چاہت کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ جسے آپ مانگ رہے ہوتے ہو وہ آپ سے دور کردیا جاتا ہے۔"
اس کے آنسو بے اختیار چھلکے تھے اپنے سارے گناہ لمہوں میں یاد آئے تھے ابھی تو توبہ بھی نہیں کی تھی انعام پہلے ہی مل گیا تھا ابھی تو اسے اس اللہ کے حضور معافی طلب کرنی تھی اسے اپنے ہر گناہ کا اعتراف کرنا تھا ابھی تو توبہ باقی تھی۔ آنسو بھل بھل آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ اس کا بڑھا ہوا ہاتھ لرز رہا تھا اس نے اپنا لرزتا کانپتا ہاتھ اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر رکھا تھا اور جب گویا ہوئی تو آواز حلق میں آنسوں کا گولا پھسنے کی وجہ سے بے پناہ بھاری ہورہی تھی۔
" میں نے آپ کو محبت کی تکلیف سے آزاد کیا اسامہ! میں نے آپ کو اذیت سے رہائی دے دی میں نہیں جانتی میری اذیت کی مدت کتنی ہے مگر میں نے آج آپ کو آزاد کردیا۔"
صاریہ نے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتے ہوئے ضبط سے کہا تھا اسامہ کے آنسو تمام بندھ توڑ کر بہہ نکلے تھے اس نے صاریہ کے ہاتھ پر اپنا سر ٹکایا تھا اور ایک ہچکی لی تھی۔
" تمہارے سارے دکھ میرے۔"
اس نے کہہ کر انگلیوں کی پوروں سے آنسو رگڑے تھے اور کی ہول میں چابی لگا کر گاڑی سٹارٹ کی تھی البتہ اب پوری گاڑی میں صاریہ کی سسکیاں گونج رہی تھیں شاہد آج سارا درد ساری تکلیف اسامہ رحمان کے سامنے بہانی تھی جسے اس نے ابھی بھی تکلیف سے رہائی دلائی تھی۔ صاریہ خان کو اپنی ہر غلطی ازبر ہوئی تھی جو فیصلہ اس نے اس لمہے کیا تھا وہ انتہائی سخت تھا۔
           ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ گھر میں داخل ہوا تو صحن کے پار دالان میں تخت پر اس کی اماں سلائی مشین لے کر بیٹھی ہوئی تھیں سردی کے باعث دالان کے آگے بھاری پردے گرے ہوئے تھے۔ دائیں پردے کا کونا اٹھا ہونے کے باعث وہ دروازے سے باآسانی دالان میں موجود اپنی اماں کو دیکھ سکتا تھا۔یونیفارم کے کف فولڈ کرتے اس نے ایک نظر دالان پر ڈالی تھی اور پھر صحن کے دائیں جانب لگے بیسن پر سے ہاتھ منہ دھویا تھا اور پھر تولیے سے منہ پونچھتا ہوا دالان میں داخل ہوا تھا۔ شمیم نے ایک نظر اس کی جانب دیکھا تھا اور پھر مسکرائیں تھیں وہ نائٹ ڈیوٹی کرکے واپس آیا تھا۔
" اسلام علیکم اماں!"
اس نے ان کے قریب تخت پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا آنکھیں سرخ ہورہی تھی۔
" وعلیکم اسلام دیر نہیں ہوگئی آج تمہیں؟"
وہ قینچی سے قمیض سے اضافی کپڑا کاٹتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
" ہاں بس بیس میں رپوٹ دینی تھی آتے آتے ہی دیر ہوگئی۔"
وہ ہاتھ سے بال پیچھے ہٹاتا ہوا بولا تھا۔
" آپ کس کے کپڑے سی رہی ہیں میں نے پہلے تو کبھی نہیں دیکھا آپ کو کچھ سلائی کرتے ہوئے۔"
وہ حیرت سے آنکھیں چھوٹی کیے کہہ رہا تھا اس کی بات پر وہ ہلکا سا مسکرائی تھیں۔
" فاطمہ کا سوٹ سی رہی ہوں کل ہی میں بازار سے لے کر آئی تھی سوچا سی دوں کہاں درزن ڈھونڈتی پھرے گی بچی۔"
وہ مصروف انداز میں اس سے کہہ رہی تھیں جو الٹ پلٹ کرکے سوٹ دیکھ رہا تھا جو ہلکے گلابی  رنگ کا تھا جس پر ہلکی ہلکی سبز رنگ کی کڑھائی ہوئی تھی اس نے تصور میں فاطمہ کو اس سوٹ میں دیکھا تھا جو مسکرا رہی تھی۔ بے ساختہ اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگی تھی شمیم بیگم نے بیٹے کے کھلتے چہرے کو دیکھا تھا وہ بہت کم مسکراتا تھا لیکن آج کل جیسے مسکراہٹ اس کے چہرے کا خاصہ بن گئی تھی۔
فاطمہ! شمس کے لیے ناشتہ لے آو بیٹا!"
وہ کیچن کی جانب منہ کرکے فاطمہ کو آواز دے رہی تھیں۔ اس نے حیرت سے کچن کی جانب دیکھا تھا۔
" آج فاطمہ سکول نہیں گئی کیا؟"
اس نے پاوں اوپر کرتے ہوئے ریلیکس انداز میں کہا تھا۔
" نہیں اس کی کچھ طبعیت نہیں ٹھیک تھی اس لیے چھٹی کرلی۔"
شمیم متواتر اپنے کام میں مصروف تھیں جبکہ اس کے ماتھے پر کچھ بل نمودار ہوئے تھے۔
" ایک طرف آپ کہہ رہی ہیں کہ وہ بیمار ہے اور دوسری جانب آپ اس سے میرا ناشتہ بھی بنوا رہی ہیں کیا ہو کیا گیا ہے آپ کو اماں!؟"
وہ خاصا جھنجھلاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ تب تک فاطمہ اس کے آگے ناشتے کی ٹرے رکھ چکی تھی سر پر گرے سکارف اوڑے ہلکے براون رنگ کے شلوار سوٹ میں اس کی شہابی رنگت تھوڑی مانند نظر آرہی تھی اس نے اپنے لب پینچے تھے۔
" بیمار ہو نہ تم؟"
اس نے ابرو اچکاتے ہوئے ٹھنڈے لہجے میں اس سے پوچھا تھا جو ٹرے رکھ کر جانے والی تھی اس کے سوال پر ٹھٹھک کر رک گئی تھی۔
" کیا پوچھا میں نے؟"
سوال اور لہجہ دونوں وہی تھے فاطمہ ایک دم پیچھے ہٹی تھی۔
" کیا ہوگیا ہے تمہیں ہر وقت پھاڑ کھانے والے لہجے میں مخاطب کرتے ہو تم اسے۔"
شمیم نے کپڑے تحہ لگاتے ہوئے اسے سرزنش کی تھی جس کا رتی برابر بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
" جہ جی۔"
وہ جلدی سے بولی تھی موبادہ پھر ہی نہ کوئی بات کردے۔
" تو جاو اندر آرام کرو مجھے چلتی پھرتی نہ نظر آو تم سمجھی۔"
اس نے اسے وارن کرنے والے انداز میں کہا تو وہ بھاگ کر اپنے کمرے کی جانب چلی گئی۔ شمیم نے اس کے جانے کے بعد اس کے چہرے کو دیکھا اور پھر ماتھے پر تیوری لیے مخاطب ہوئی۔
" یہ تم کس طرح بات کررہے تھے اس بچی سے تمہیں کوئی حق نہیں ہے اسے اس طرح مخاطب کرنے کا پرائی بچی ہے اور تم پتہ نہیں خود کو سمجھتے کیا ہو۔"
وہ غصیلے لہجے میں اسے ڈانٹ رہی تھیں مگر وہ ادھر ایسے بیٹھا ہوا تھا جیسے یہ سب اسے نہیں کسی اور کو کہا جارہا ہو۔
" تم سن رہے ہو میں نے کیا کہا ہے؟"
انہوں نے اب کی بار اس کا کندھا ہلایا تھا۔
" مجھے اس لڑکی سے صرف تین دن میں نکاح کرنا ہے چاہے کچھ بھی ہوجائے پھر تو ہوگا نہ حق؟''
اس نے حق خو ذرا لمبا کھینچا تھا۔ شمیم نے بے یقینی سے اپنے کیپٹن سپوت کو دیکھا تھا جس کی منتک ہی نرالی تھی۔
" تمہارا دماغ ٹھیک ہے وہ کوئی میری یا تمہاری زر خرید غلام نہیں ہے جس پر ہم حکم جاری کریں گئے اور وہ جی حضور کہہ کر مان جائے گی جس طرح کا رویہ تم اس کے ساتھ رکھتے ہو ایسے میں وہ تم سے نکاح کر ہی نہ لے کہیں۔"
شمیم نے اسے حقیقت کا آئینہ دیکھانا لازمی سمجھا تھا۔
" نکاح تو اسے کرنا ہی پڑے گا اماں! وہ بھی صرف تین دن میں ورنہ میں اسے کسی اور کے لائق بھی نہیں چھوڑوں گا۔"
وہ ناشتے کی ٹرے پرے کھسکا کر وہاں سے تیزی سے نکل گیا اور اماں پیچھے حق دق بیٹھی رہ گئی انہیں اپنی تربیت پر شدت سے افسوس ہورہا تھا ان کا بیٹا ایسا کیسے کرسکتا تھا مگر وہ ہمشہ کی طرح اب بھی اس کے سامنے بے بس ہی تھیں۔
            ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کرنل خاور کا گھر سنسان تھا وہاں کی خاموشی جبرئیل کو اپنے اندر محسوس ہوئی تھی۔ وہ چلتا ہوا ڈرائینگ روم میں بیٹھ گیا۔ ابھی کچھ ہی دیر بیتی تھی کہ ملازم چائے کی ٹرالی لیے اندر داخل ہوا تھا۔ اس نے چائے کا کپ تھاما اور گھونٹ گھونٹ کرکے خود میں انڈیلی سچ تو یہ تھا کہ اسے اس لمے کوئی بھی چیز اچھی نہیں لگ رہی تھی دل و دماغ بری طرح الجھا ہوا تھا۔ وہ ابھی چائے کا آخری گھونٹ بھر ہی رہا تھا جب کرنل خاور ڈرائینگ روم میں داخل ہوتے نظر آئے ان کے ہاتھ میں  کچھ فریم اور ایک ایل بم تھی انہوں نے وہ فریم اور البم میز پر جبرئیل کے سامنے رکھی تھی اور اسے اٹھانے کا اشارہ کیا تھا۔ اس نے سیاہ کور میں لپٹے اس ایل بم کو اٹھا کر پہلے پھونک مار کر اس پر لگی گرد جھاڑی تھی اور پھر اسے کھولا تھا۔
وہ ایک فیملی ایل بم تھی جس میں کرنل خاور کے ساتھ دو اور لوگوں کی بھی تصویریں تھیں ایک انتہائی خوش شکل عورت جو بالکل آنیہ جیسی لگ رہیں تھیں کم از کم جبرئیل کو تو یونہی لگا تھا اور ان کی گود میں ایک چھوٹی سی معصوم گول مٹول بچی جو سفید فیری فراک میں بالکل کوئی پری معلوم ہوتی تھی۔ البم کے صفحات پلٹتے ہوئے ہوئے اس کے ماتھے پر عجیب بل نمودار ہورہے تھے چہرے پر سوالات کا ایک جہان آباد تھا۔ البم بند کرکے اس نے وہ فریم اٹھایا تھا جو البم کے ساتھ رکھا ہوا تھا خوبصورت فوٹو فریم جس میں ایک خوبصورت لڑکی کالج یونیفارم میں ملبوس ہاتھوں میں کتابیں تھامے کھڑی تھی چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے ایک نظر کرنل خاور کی جانب دیکھا تھا جن کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا شاہد درد پینے کی ناکام کوشیش کررہے تھے۔
" یہ میری فیملی تھی اور یہ میری بہن۔"
انہوں نے دھیمے لہجے میں جبرئیل کے سوال کا جواب دیا تھا۔
" اب کہاں ہے آپ کی فیملی؟"
اس نے کچھ جھجکتے ہوئے ان سے پوچھا تھا اسے یہ انتہائی پرسنل نوعیت کا سوال لگ رہا تھا مگر وہ پھر بھی ناچاہنے کے باوجود پوچھ بیٹھا تھا۔
" معلوم نہیں۔"
انہوں نے سرسری انداز میں کہہ کر کندھے اچکائے تھے۔
" کیا مطلب معلوم نہیں یہ آپ کی بیٹی اور یہ آپ کی بیوی ہے نہ؟"
اس نے باری باری دونوں تصویروں پر ہاتھ رکھ کر اپنے اندازے کی تصدیق کی تھی۔
" ہاں لیکن چوبیس سال سے میں نہیں جانتا کہ یہ لوگ کہاں ہیں؟"
ان کے آنسو ان کا ضبط بہت ہی بری طرح آزما رہے تھے جبرئیل کے ماتھے کی سلوٹوں میں اضافہ ہورہا تھا کرنل خاور اسے اصل بات بتانا ہی نہیں چاہ رہے تھے لیکن یہ صرف اس کی خام خیالی تھی ساری حقیقت وہ آج یہاں سے جان کر ہی اٹھنے والا تھا۔
" تمہارے والد اور چچا کے ساتھ میری ہمشہ بہت گہری دوستی رہی تھی ہماری فیملیاں آپس میں بہت ملتی جلتی تھیں میں اس وقت فوج میں نیا نیا بھرتی ہوا تھا تمہارے والد اس وقت کیپٹن ہوا کرتے تھے اور میں محض ایک معمولی سا سپاہی بھرتی ہوا تھا فوج میں نوکری کے ساتھ ساتھ میں اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھا تمہارے چچا اور میں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے ہم دونوں نے ہی آرمی میں ٹیسٹ دیا تھا اور دونوں ہی میرٹ پر سلیکٹ ہوئے تھے۔"
وہ دھیرے دھیرے سپاٹ تاثرات کے ساتھ اسے اپنے ماضی کے سیاہ پنے سنا رہے تھے خود وہ بظاہر اس کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے مگر ذہن وہیں ماضی کے ان واقعات میں الجھ چکا تھا۔ جبرئیل نے انہیں ہرگز بھی ٹوکنے کی کوشیش نہیں کی تھی سچائی جاننے سے زیادہ اس کے لیے یہ تھا کہ کرنل خاور کا دل ہلکا ہوجائے وہ غبار ان کے دل سے نکل جائے جو وہ چاہ کر بھی کسی کو نہیں سنا پائے۔
" جب میں نے گریجوئشن کی ڈگری لی اور میں گھر آیا گھر کا ماحول یکسر بدلا ہوا تھا میں بہت چھوٹا تھا جب میرے بابا کی وفات ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئی تھی اماں نے ساری زندگی مجھے اور میری بہن کو پالا تھا والد اتنی جائیداد تو چھوڑ کر گئے تھے کہ ہمارا آرام سے گزر بسر ہوجاتا اور پھر وہ پشاور والا اتنا بڑا گھر بھی تو اماں کے نام کرگئے تھے۔ میں ڈگری لے کر گھر آیا تو گھر میں عجیب سی چہل پہل نے میرا استعبال کیا پھولوں اور مٹھایوں کے ٹوکرے میری چھوٹی بہن کی تیاریاں کچھ تھا جو میرے اندر کھٹکا تھا۔"
وہ سانس لینے کو خاموش ہوئے تھے پورا ڈراینگ روم خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا وہاں بیٹھے دونوں نفوس اپنی اپنی سوچوں میں الجھے ہوئے تھے جبرئیل کی بے چینی حد سے سوا تھی۔
" پھر آگے کیا ہوا تھا؟"
اس نے خود پر ضبط کرتے ہوئے ان سے پوچھا تھا۔
" میں نے پریشانی سے اپنی بہن سے پوچھا تھا جس پر وہ مجھے شریر انداز میں چھیڑ گئی تھی بھابھی آنے والی ہیں بھائی! اس کے جملے پر میں نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا تھا اماں سے تصدیق کرنے پر پتہ چلا وہ کیپٹن ابراہیم کی بہن کے لیے میرا رشتہ لینے جارہی ہیں۔"
انہوں نے جملہ مکمل کرکے جبرئیل کی جانب دیکھا تھا جس کا چہرہ ایک دم ناسمجھی کی کیفیت میں بدلا تھا۔
" کیپٹن ابراہیم کی بہن؟ یعنی میرے بابا کی بہن؟"
اس نے تصدیق چاہی تھی ان کے اثبات میں سر ہلانے کی دیر تھی وہ صوفے پر ڈھے گیا تھا۔
" اس وقت تم صرف ایک سال کے تھے۔ میں نے اپنی ماں کو بہت سمجھایا کہ وہ بڑے لوگ ہیں ہم ان کے گھر رشتہ لینے جاتے ہوئے اچھے لگے گئے بھلا لیکن میری ماں نے مجھے اپنی خرابی صحت کے واسطے دے کر خاموش کرادیا اور مجھے اور میری بہن کو لیے خان ولا میں آگئیں۔ تمہارے دادا دادی کی دیتھ تمہارے والدین کی بہت جوانی میں ہوگئی تھی۔ خان ولا میں جاکر جب میری اماں نے تمہاری پھوپھو کے لیے سوال کیا تو ابراہیم کی خوشی کی تو کوئی حد نہ ہوئی وہ اس رشتے پر بہت خوش تھے اور اپنی بہن کے لیے انہیں مجھ سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں چائیے تھا بچپن کا ساتھ دیکھا بھالا اپنا گھر بار پھر انکار کی کوئی گنجائش نہیں بچتی تھی لہذا دو دن کے وقفے کے بعد خان ولا سے مثبت جواب آگیا میرے گھر میں تو جیسے شادیانے بج اٹھے تمہاری پھوپھو کو اپنی بہو بنانا میری اماں کی سب سے بڑی خواہش تھی اور ان کی یہ خواہش پوری بھی ہوگئی تھی اسی طرح تین مہینے بعد میری شادی تمہاری پھوپھو سے ہوگئی۔"
وہ کہہ کر ایک بار پھر خاموش ہوئے تھے اس سب کے دوران جبرئیل کا چہرہ دیکھنا لازمی تھا جہاں چٹانوں کی سی سختی تھی وہ بالکل خاموش تھا جیسے ان کے مزید آگے بولنے کا منتظر ہو اور اس کی بصات کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا کیونکہ کچھ  پل کے توقف کے بعد وہ پھر سے گویا ہوئے تھے۔
" شادی کرکے تو جیسے میری زندگی ہی بدل گئی تھی خوبصورت بیوی جس کسی کی بھی ہو وہ انسان خود کو خوش نصیب ہی سمجھتا ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ میں بھی ایسے ہی انسانوں کی فرہست میں شمار ہوتا تھا ہر وقت اپنی بیوی کے آگے پیچھے گھومنا اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں پر سر خم کرکے پورا کرنا ایک سال بعد میری بہت پیاری بیٹی پیدا ہوئی بہت خوبصورت بالکل اپنی ماں کی کاربن کاپی خوبصورتی میں دونوں ماں بیٹی کا کوئی ثانی نہیں تھا۔"
آواز ایک دم بھرا گئی تھی سامنے صوفے پر بیٹھا ہوا جبرئیل اس لمہے انہیں ضبط کے کڑے مراحل سے گزرتا ہوا دیکھ رہا تھا ان کے لہجے اور دکھ پر اسے اپنی آنکھیں بھی بھیگی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔
"وہ ابھی ایک سال کی تھی جب ایک دن  اس کی پھوپھو گھر سے غائب ہوگئی بلکہ غائب نہیں ہوئی اسے کالج کے راستے سے اغواہ کرلیا گیا اس وقت شاہد کوئی بھی لڑکی اپنے گھر محفوظ نہیں تھی اماں اور مجھ پر تو جیسے کوئی آسمان آگرا تھا میں گیڈٹ سے پاس آوٹ ہوکر کیپٹن کے عہدے پر ترقی کرچکا تھا میں نے اپنے تمام خفیہ ذرائع لڑا لیے پولیس میں رپوٹ بھی درج کرادی لیکن اسے نا ملنا تھا اور نہ وہ ملی اور جو سب سے بڑی اذیت تھی جانتے ہو وہ کیا تھی؟"
انہوں نے بے بسی سے اس کے چہرے کی جانب دیکھا تھا جس کی نگاہیں سوالیہ ہورہی تھیں۔
" سب سے بڑی اذیت سے تمہارے چاچو گزرے تھے کیونکہ اس دن اس کا نکاح تھا میری بہن سے وہ بہت پسند کرتا تھا نگت کو بہت ضد کرکے شادی کررہا تھا اس سے ابراہیم اس کے لیے اپنی کزن ماہ رخ کو پسند کیے بیٹھے تھے لیکن وہ بضد تھا کہ شادی صرف نگت سے کرے گا۔"
بولتے بولتے وہ ایک دم مسکرائے تھے جبرئیل نے انہیں کہیں پر بھی نہیں ٹوکا تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ آج وہ اپنا سارا غبار نکال دیں۔
" نگت کے جانے کے بعد اماں بہت بیمار رہنے لگ گئی اور اسی طرح ایک دن خاموشی سے آنکھیں موند گئیں۔"
اب کی بار کچھ اور آنسو اس چہرے پر چمکے تھے۔ جبرئیل اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے پہلو میں آبیٹھا تھا اس نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر گویا دلاسہ دیا تھا۔
" سر! پھر کیا ہوا تھا؟"
اس نے انتہائی آہستگی سے پوچھا تھا۔ انہوں نے اس کے سوال پر اس کی جانب دیکھا تھا اور اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنے آنسو پونچھے تھے۔
" اماں کے جانے کے بعد میں نے اپنی بیٹی اور بیوی دونوں کو لاشعوری پر نظر انداز کردیا تھا میرا زیادہ تر وقت نگت کو ڈھونڈنے میں صرف ہونے لگا اور  شاہد یہی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی راتوں کو باہر رہنے لگا گھر سے توجہ کم کردی اور جب ایک دن میں ڈیوٹی سے صبح واپس آیا تو میرے گھر میں کسی زی روح کا کوئی بھی نشان نہیں تھا میں نے پاگلوں کی طرح پورے گھر میں اپنی بیٹی اور بیوی کو ڈھونڈا لیکن نتیجہ صفر کمرے کی میز پر رکھے ہوئے خط میں وہ مجھے موت کا پروانہ تھما گئی تھی اپنے ہی ہاتھوں سے میرا جیتے جی گلہ گونٹ گئی تھی۔"
چہرہ اس لمہے کسی بھی احساس سے عاری ہورہا تھا ایک دم سپاٹ اور پتھریلے تاثرات تھے ان کے چہرے پر جبرئیل نے حیرت سے ان کے چہرے کے بدلتے رنگ اور اس پر تیش کی آمیزیش دیکھی تھی۔
"خط میں کیا تھا سر!"
اس نے بے چینی سے پوچھا تھا۔ انہوں نے اسی تاثرات سے اس کے چہرے کی جانب دیکھا تھا۔
" یہی کہ وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے اور وہ مجھے چھوڑ کر میری بیٹی کو لے کر جارہی ہے کیونکہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ اس کی روز بروز بڑھتی ہوئی خواہشات کا بوجھ اٹھا اسکو میری حلال کمائی سے اسے اپنی خواہشات کی تکمیل مشکل نہیں نامعمکن لگ رہی تھی۔ اور ساتھ میں خلع کے کاغذات بھی موجود تھے میری ناک کے نیچے وہ یہ کب سے کررہی تھی میں سمجھ نہیں سکا اس سے محبت کرنا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی اور دوسری بڑی غلطی میں نے اس سے شادی کرکے کی۔"
وہ اپنے لہجے کو سخت بناتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
" یعنی آپ ان سے محبت اپنی شادی سے پہلے سے کرتے تھے؟"
جبرئیل نے حیرت سے ان سے پوچھا تھا جس پر انہوں نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
" جب میں میڑک میں تھا تب سے لیکن اس کے خواب ہمشہ بہت اونچے تھے بھائیوں سے اپنی ہر ضد منواتی تھی بڑی بڑی خواہشات کرنا اور کم پیسے والوں کو حقیر سمجھنا اس کی فطرت میں شامل تھا اس لیے ہی اس حق میں نہیں تھا کہ شادی ہو لیکن اماں نے بس مجبور کردیا مجھے وہ کیسے مجبور کی گئی یہ تمہیں تمہاری ماں بہتر بتاسکتی ہیں۔ اس کی بے وفائی نے میرے اندر ایک سفاک انسان کو جنم دے دیا مجھے کسی بھی مجرم پر رحم نہیں آتا اور اس سب کی زمہ دار تمہاری پھوپھو ہے آج تک نہیں جانتا میری بیٹی کیسی ہے بڑی ہوکر کیسی دکھتی ہوگی اس کے بچپن سے جوانی تک کے لمہات چھین لیے اس عورت نے مجھ سے نفرت ہے مجھے تمہاری پھوپھو سے میجر جبرئیل اس عورت کے لیے نفرت شاہد بہت چھوٹا لفظ ہے۔"
وہ اپنی نشست سے کھڑے ہوچکے تھے۔ اور ایک بلو کور کی فائل اس کے آگے سرکائی تھی۔
" 94 سے لے کر 2006 تمام اغوا شدہ کیسز کی ساری تفصیلات درج ہیں کون کون ٹریس ہورہا ہے اور کس کس تک پہنچنا ہے ساری کی ساری معلومات ہے اس میں آئی پرمیٹ یو ٹو ہینڈل دس کیس لیٹس بیگن یور مشن اٹس آ ٹائم فار دا رئیل ریونج اینڈ آئی نیڈ ہنڈرڈ پرسنٹ سکسیس۔"
انہوں نے اس کو فائل تھماتے ہوئے ساتھ میں وارنگ دی تھی۔
" راجر سر انشاءاللہ آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔"
جبرئیل نے فائل تھامتے ہوئے انہیں یقین دلایا تھا جس پر انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
" کرنل احسن سے لے کر ساری ٹیم کو اس مشن سے متعلق آگاہ کردیا گیا ہے تم پشاور سے اپنے کام کا آغاز کردو اور مجھے بالکل بھی تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تمہیں وہاں کیا کرنا ہے۔"
" فائن سر!"
وہ سیلوٹ مارتا ہوا وہاں سے نکلا تھا لیکن اس کا ذہن بری طرح سے الجھا ہوا تھا ایک شخص کے ساتھ اتنا کچھ بھی ہوسکتا ہے وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا دنیا میں نام بنانے والا شخص تیزی سے کام کرنے والا مجرموں اور غداروں کو عبرت کا نشان بنانے والا وہ انسان اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے زندگی امتحان لیتے وقت یا درد دیتے وقت یہ نہیں سوچتی کہ کس انسان کا کیا کیلی بر ہے وہ بس آزمائش لے کر سامنے کھڑی ہوجاتی ہے اور اس قدر سفاکی سے امتحان لے جاتی ہے کہ چاہ کر بھی انسان کچھ نہیں کرپاتا۔
بے خیالی میں گاڑی چلاتے ہوئے مسلسل اس نے اپنے محسن، اپنے سینر کرنل خاور کو سوچا تھا اسے واقعی ہی اپنی پھوپھو سے شدید نفرت ہوئی تھی وہ بھی بن دیکھے من ملے وہ ان کی ذات سے شدید نفرت میں مبتلا ہوا تھا اس کے نزدیک بھی محبت میں بے وفائی کی کوئی معافی نہیں تھی پھر چاہے محبت کی حد کہیں بھی ہو۔ اس نے جیپ اپنے ہی گھر کے باہر روکی تھی۔ گھر کے سامنے پہنچ کر اسے گھر کے مکین کا خیال آیا تھا اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگی تھی محبت میں بے وفائی کے خیال نے اسے اتنا ڈرا دیا تھا کہ وہ زارا کو اپنے اور اس کے رشتے کی حساسیت کا احساس دلانے کا ارادہ رکھتا تھا وہ چاہتا تھا کہ کم از کم اس کے اس مشن پر جانے سے پہلے ان دونوں میں باقاعدہ میاں بیوی والا تعلق قائم ہوجائے مگر کیسے وہ ابھی تک یہ سمجھ نہیں پایا تھا۔ لاتعداد سوچوں کا جال لیے وہ گھر میں داخل ہوا تھا جس کی بتیاں آج بھی دھیرے دھیرے بند ہورہی تھیں۔
           ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آنیہ اور زیبا نے ایک دوسرے کی جانب ایک بار پھر سے دیکھا تھا پچھلے ایک گھنٹے سے وہ دونوں ساتھ بیٹھی یہی حرکتیں کررہی تھیں۔ آج شام ہی ان دونوں کو ان کی دو دن بعد متوقع ہونے والی شادی کی خبر سنائی گئی تھی اور تب سے وہ دونوں شاک میں ایسے ہی کررہی تھیں اب تو ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر بھی وہ تنگ آچکی تھیں۔
"آنی کیا تمہیں سمجھ آیا ہے کہ یہ ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے؟"
زیبا نے آنیہ کی پشت سے تکیہ اٹھا کر اپنی گود میں رکھتے ہوئے کہا تھا۔
" میرے تو حواس ہی نہیں بحال ہورہے مجھے سمجھ کیا خاک آنی؟"
آنیہ نے بری سی شکل بنا کر کہا تو بے اختیار زیبا کو ہنسی آگئی۔
" بیٹا ہنس لو تمہاری تو من کی مراد پوری ہورہی ہے اور میں نے کبھی ان سے صیح سے بات بھی نہیں کی۔"
آنیہ تو صیح معنوں میں پریشان ہورہی تھی جبکہ زینا نے بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی۔
" کن سے؟"
اس نے آنکھیں میچ کر اسے کونی ماری تھی۔
" بدتمیزی نہیں کرو اور جاو اپنے کمرے میں فضول دماغ کھارہی ہو میرا۔"
آنیہ نے اسے خود سے دور دھکیلتے ہوئے رونی صورت بنا کر کہا تھا۔
" کھا نہیں جائے گا میرا بھائی تمہیں پسند کرتا ہے تمہیں۔"
زیبا نے جیسے اسے اپنی طرف سے بڑے ہی پتے کی بات بتائی تھی آنیہ نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
" یہ کس نے کہا تم سے؟"
اس نے ماتھے پر بل ڈال کر اس سے پوچھا تھا جس پر وہ سہولت سے کندھے اچکا گئی تھی۔
" پتہ ہے مجھے بس۔"
اس نے کہہ کر وہاں سے دوڑ لگائی تھی جبکہ آنیہ نے وہی تکیہ اسے دے مارا تھا جو وہ گود میں رکھ کر بیٹھی ہوئی تھی اسے واقعی ہی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اتنی جلدی اپنا ذہن کیسے وہ اس شادی کے لیے تیار کرے آخر کو کوئی مذاق نہیں تھا اور انکار کی نہ تو انہیں آپشن ملی تھی اور نہ ہی اجازت لہذا انکار تو سوچنا ہی فضول تھا۔ وہ سوچتے سوچتے نیند کی وادیوں میں اترگئی تھی جو بھی تھا شادی تو اب کرنی ہی تھی اور دو دن بعد واقعی ہی یہ شادی ہونے والی تھی۔
دوسری جانب آرون تک جب یہ خبر پہنچی تو وہ کتنی دیر تک کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں رہا تھا یہ سچ تھا کہ زیبا سے شادی اس کی زندگی کی اوالین خواہش تھی لیکن اس طرح اچانک وہ بھی اتنی جلدی اسے پریشان کرگئی تھی شاہد جبرئیل جانتا تھا کہ آرون اتنی آسانی سے نہیں مانے گا لہذا اس نے آرون کو ایک میسج پر ریکویسٹ کی تھی کہ یہ شادی کس قدر ضروری ہے لیکن سبتین کو ماننا مشکل ہورہا تھا ذہنی طور پر وہ بھی اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھا خیر اللہ اللہ کرکے آرون نے سبتے کو بھی اس کے لیے راضی کیا تھا اور اب سب کچھ ہونے کے بعد کل شام زیبا اور آنیہ کا مایوں تھا۔ جبرئیل نے عشرت جہاں سے اپنی کال ختم کرنے کے بعد ساری ضرورت کی اشیا گھر پر بھیجوا دی تھیں اور کپڑے اور زیورات والوں کو اس نے کل گھر پر ہی آنے کا کہا تھا تاکہ جو بھی چیز عورتوں نے پسند کرنی ہو اپنی پسند سے لے لیں اس لیے عشرت جہاں کو شاپنگ سے متعلق کوئی ٹینشن نہیں تھی سب کچھ میجر جبرئیل بہت اچھے سے سمبھال چکا تھا۔
             ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
گھر میں حسب معمول اندھیرا ہوچکا تھا وہ کچھ بھی دیکھے بغیر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنے کمرے میں آگیا ویسے بھی جو حقیقتیں آج اس پر آشکار ہوئی تھیں اس کے لیے اس میں ذہنی سکون کا ہونا بہت ضروری تھا اور اس لمہے میجر جبرئیل خان کو ذہنی سکون ایک ہی ہستی دے سکتی تھی اور وہ زارا جبرئیل کے علاوہ اور کوئی نہیں تھی لیکن اس سے پہلے زارا کو نرمی سے سمجھانا ضروری تھا اور یہ کام بھی مجبورا میجر جبرئیل کو خود ہی کرنا تھا۔ جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا اس کی نظر بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھی زارا پر پڑی جو شاہد کوئی کتاب پڑھتے پڑھتے سوگئی تھی لیکن اس کی نیند بہت پکی نہیں تھی دروازہ بند ہونے کی آہٹ پر وہ جاگ گئی تھی مندی مندی آنکھوں سے اس نے دروازہ بند کرتے اپنے میجر کو دیکھا تھا جس کا چہرہ از حد سنجیدہ دیکھائی دے رہا تھا وہ فوری سیدھی ہوکر بیٹھی تھی اور قریب رکھا ہوا اپنا دوپٹہ اس نے خود پر اوڑا تھا۔ جبرئیل نے گہرا سانس بھرا تھا اور اس کی حرکت پر سر دائیں بائیں ہلا کر وہ فریش ہونے واشروم میں چلا گیا تھا کچھ دیر بعد نکلا تو تب بھی وہ اسی حالت میں بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ بلیک ٹراوزر پر گرے ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھا۔
" کچھ کھائیں گئے آپ میں لاو؟"
اس نے بیڈ سے اترتے ہوئے کہا تو اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اثبات میں سر ہلایا۔
" کیا کھائیں گئے؟"
زارا دانستہ اس کے نزدیک آکر پوچھ رہی تھی۔
" تمہیں۔"
اس نے دونوں بازو سینے پر باندھتے ہوئے اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لینا چاہا تھا اور اس کی سوچ کے عین مطابق اس کے چہرے پر حیرانی واضح تھی وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے بیڈ تک لے کر آیا تھا اور اسے اپنے سامنے بیڈ پر بیٹھا کر اس کے دونوں ہاتھ تھامے تھے وہ مسلسل نوٹ کررہا تھا کہ وہ اپنے لب کاٹ رہی ہے جبرئیل نے اس کے لبوں کی دلخراش بناوٹ کو انتہائی غور اور دلچسپی سے دیکھا تھا۔
" کیا ہوا آپ مجھے ایسے عجیب نظروں سے کیوں دیکھ رہے ہیں آج؟"
وہ آخر دھڑکتے دل کے ساتھ اس سے پوچھ بیٹھی تھی وہ ایک عورت تھی اور ایک مرد کی اپنی طرف اٹھنے والی نظروں سے وہ اتنی بھی انجان نہیں تھی چاہے وہ مرد پھر اس کا شوہر ہی کیوں نہ ہو وہ عمر میں تھوڑی کم ضرور تھی مگر وقت نے اسے اپنی عمر سے بہت بڑا بنا دیا تھا جائز اور ناجائز رشتے کا فرق تو اسے کشمیر میں رہتے بہت اچھے سے پتہ چل گیا تھا جب کوئی بھی دن دہاڑے کسی بھی گھر میں گھس کر کسی بھی لڑکی کو اپنے ساتھ اپنے نفس کے سامان کے طور پر لے جاتا اور پھر جس حالت میں وہ گھر لوٹائی جاتی وہ منظر دیکھتے ہوئے کتنی بار زارا کی روح کانپی تھی وہ بہت پہلے ہی بڑی ہوگئی تھی وہ چھوٹی ہرگز نہیں تھی۔
" مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔"
اس نے نگاہیں جھکائے اس سے کہا تھا زارا کے یخ بستہ ہاتھ ابھی بھی جبرئیل کے ہاتھوں میں تھے جن کی کپکپاہٹ وہ بخوبی محسوس کرسکتا تھا۔
" یہی نہ کہ اب آپ مجھ سے اپنا حق چاہتے ہیں۔"
وہ اتنا آہستہ اور فوری بولی تھی کہ مقابل کچھ بھی بولنے کے لائق نہیں رہا تھا جتنا چھوٹا اور ناسمجھ وہ اسے سمجھ رہا تھا وہ تو ہرگز بھی ویسی نہیں تھی مردوں کا اپنی عورتوں پر کیا حق ہوتا ہے حیرت انگیز طور پر زارا نور اس سے واقف تھی۔
" میں نہیں جانتا زارا کہ میں تم سے یہ سب کیوں چاہتا ہوں مگر میں واقعی ہی کوئی بہت فرشتہ صفت انسان نہیں ہوں میرے اندر بھی ساری حسیں عام مردوں کی طرح ہیں جذبات اور احساسات کا وہی سمندر مجھ میں بھی ہے جو کسی بھی مرد میں ایک عورت کے لیے اپنے جائز رشتے کو لے کر ہوتا ہے اور میں ذہنی طور پر آج بہت ٹوٹا ہوا ہوں مجھے تمہاری قربت کی ضرورت ہے۔''
اس نے بولتے بولتے اپنا سر اس کی گود میں رکھا تھا اور پاوں بیڈ پر پھیلائے تھے زارا نے دھیرے دھیرے اپنی انگلیاں اس کے گیلے بالوں میں چلائی تھیں اور پھر گہرا سانس بھرتے ہوئے گویا ہوئی تھی۔
" مجھے چھونے کا حق صرف آپ کے پاس ہے میجر صاحب آپ کے سب حقوق صرف اور صرف مجھ سے وابستہ ہیں میری طرف سے آپ کو اپنی ہر وصولی کی اجازت ہے۔"
اس نے ہاتھ چلاتے چلاتے ایک دم روکے تھے جبرئیل نے اس کی گود سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا جہاں صرف سنجیدگی نہیں تھی بلکہ سرخی بھی تھی گندمی رنگت میں حیا کی لالی گھلی ہوئی تھی سرخ گالوں پر پلکوں کی جھالر گری ہوئی تھی اس نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر مہر محبت ثبت کی تھی وہ اس کے چہرے کے ہر نقش پر اپنی چھاپ چھوڑنا چاہتا تھا اور وہ اس پر بھرپور طریقے سے عمل درآمد بھی کررہا تھا۔ اس کے بورے گھنگریالے بال  پشت پر بکھرے ہوئے تھے جب سے وہ یہاں کشمیر آئی تھی وہ سکارف نہیں اوڑتی تھی بلکہ دوپٹہ لیتی تھی۔ جبرئیل نے اس کی گردن پر اپنا لمس چھوڑا تھا زارا نے آنکھیں بند کرکے اس کے لمس کو محسوس کیا تھا اس کی وارفتگیاں بھڑتی جارہی تھیں وہ آج اس پر کھل کر اپنا آپ آشکار کررہا تھا زارا نے اس کی مرضی کے آگے ہار مان لی تھی کیونکہ یہ ہمشہ سچ ہے کہ عورت اپنے مرد کے آگے کمزور ہی ہوتی ہے۔ دور کہیں آسمان پر چمکتا چاند ان کے ملن پر مسکرارہا تھا مگر ان کا ساتھ کتنے پل کا تھا یہ چاند سمیت کوئی نہیں جانتا تھا۔
                   ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سکول سے گھر آئی تو چہرہ رونے کی چغلی واضح کھا رہا تھا۔ گھر آتے آتے اسے شام ہوگئی تھی اسامہ اسے مائرہ کے فلیٹ کے سامنے اتار کر چلا گیا تھا اسے محض ابھی دو دن ہی ہوئے تھے مائرہ کے فلیٹ میں شفٹ ہوئے۔ مائرہ نے ایک چابی اسے دی تھی تاکہ وہ جب مرضی آسانی سے گھر آسکے اتفاقا مائرہ صاریہ سے کچھ دیر پہلے ہی گھر آئی تھی جونہی صاریہ چابی لگا کر اندر آئی اس کا سامنا ڈائینگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھی پانی پیتی مائرہ سے ہوا۔ چہرہ اور آنکھیں دونوں ہی سرخ ہورہی تھیں۔
" کیا بات ہے آج سکول سے رو کر آئی ہو کسی نے کچھ کہا ہے کیا کوئی لڑائی ہوئی ہے؟"
مائرہ نے پانی کا گلاس اسے پکڑاتے ہوئے پوچھا تھا خود بھی وہ اس سے چند انچ کے فاصلے پر بیٹھ گئی تھی۔
" مجھے کوئی کیا کہے گا میں تو محبت کے کھیل میں کسی کو جتا کر آرہی ہوں۔"
اس نے پانی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تھا البتہ لہجہ ابھی بھی ٹوٹا بکھرا ہی ہوا تھا۔
" کس کو جتا کر آرہی ہو کیا کہہ رہی ہو یار؟"
مائرہ نے حیرت سے اس سے پوچھا تھا اسے صاریہ کی کوئی بھی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔
" تمہارے منگیتر کے دوست کو۔"
صاریہ نے اس کے چہرے کی جانب دیکھا تھا جہاں حیرت واضح تھی۔
" میرے منگیتر کے دوست اسامہ کو یا جبرئیل کو؟"
مائرہ نے الجھتے ہوئے پوچھا تھا۔
" جبرئیل نے تو مجھے ہرایا ہے اور میں نے اس سے ہار کر اسامہ کو جتا دیا کسی ایک کی تکلیف کم کرنا ضروری تھا۔"
اس نے یوں کہا گویا بڑا معرکہ سر کرکے آرہی ہو۔
" تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا اسامہ کہاں سے آگیا بیچ میں۔"
مائرہ نے اب کی بار درشتگی سے پوچھا تھا۔
" ویسے ہی جیسے میں آئی تھی جبرئیل کی زندگی میں۔"
وہ حیرت زدہ رہ گئی تھی۔ صاریہ کے پاس ہر سوال کا جواب موجود تھا۔
" اگر یہ بات ہے نہ صاریہ تو تم نے پہلی بار کوئی کام دوسروں کے لیے کیا ہے اور یقین مانو خود کے بجائے دوسروں کے لیے جینا نہ زیادہ خوشی کا باعث ہوتا ہے جو سکون اور راحت کسی کے لیے کچھ کرکے ملتی نہ وہ سکون کسی سے کچھ چھین کر کبھی مل ہی نہیں سکتا۔"
مائرہ نے اس کا ہاتھ تھام کر دھیرے دھیرے کہا تھا۔
" سچ کہا تم نے آج لگ رہا ہے جیسے دل سے کسی نے منوں بوجھ دھو دیا ہو اسامہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھنے کے بعد مجھے احساس ہوا تھا کہ کبھی کبھی آپ کا من پسند شخص آپ کو کیوں نہیں ملتا کیونکہ آپ کو کوئی اور اس سے زیادہ شدت سے مانگ رہا ہوتا جتنی شدت سے آپ اپنی خواہش مانگ رہے ہوتے میں جان گئی ہو مائرہ کہ جب جب میں نے دعا میں جبرئیل کو مانگا تب تب اسامہ نے اس سے زیادہ شدت سے مجھے مانگا اور اللہ کو تو اسی کے حق میں فیصلہ دینا تھا نہ جس کے جذبات میں شدت اور سچائی زیادہ ہوتی۔"
ایک بار پھر کہتے کہتے بہت روکنے کے باوجود اس کے آنسو بہہ نکلے تھے۔
" شیش! بس کردو۔"
مائرہ نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے اس کا سر تھپکا تھا۔
" میرے گناہوں کی سزا ہے یہ مائرہ میں نے کسی کی جان لینے کی کوشیش کی تھی محبت اور خودغرضی نے آندھا کردیا تھا مجھے۔"
وہ کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی شاہد یہ ندامت کے وہ آنسو تھے جو اس کی پلکوں سے تب تک نکلنے تھے جب تک اسے خان ولا سے معافی نہیں مل جاتی اور معافی مانگنے کی ہمت چاہ کر بھی صاریہ خود میں نہیں پارہی تھی۔
                   ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
صبح فجر کے وقت وہ اٹھا تو وضو کرنے کے لیے اپنے کمرے سے باہر نکلا سامنے ہی نظر فاطمہ کے کمرے کے بند دروازے پر پڑی وہ چاہتا تھا کہ وہ جاکر اسے اٹھائے لیکن وہ چاہ کر بھی خود میں ہمت نہی پیدا کرپایا تھا۔ وہ سر جھٹک کر واش بیسن کی جانب بڑھ گیا وضو کرکے فارغ ہوکر وہ نماز کے لیے جاہی رہا تھا جب اس نے اپنی اماں کو اس کے کمرے کے دروازے کے باہر دیکھا تو سمجھ گیا تھا کہ وہ اسے نماز کے لیے اٹھانے کے بہانے اس سے کیا بات کرنے والی ہیں وہ چپ چاپ رخ موڑے اپنے کمرے میں واپس آگیا۔
شمیم اس کے کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ نائٹ بلب کی روشنی میں انہیں ایک جانب جانماز بچھائے نماز پڑھتے ہوئے نظر آئی وہ بیڈ کی پائنتی پر بیٹھ کر اس کی نماز کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگیں جس امتحان میں انہیں ان کے بیٹے نے ڈالا تھا ان کے لیے اس امتحان سے نکلنا انتہائی مشکل مرحلہ تھا جونہی وہ نماز اور دعا سے فارغ ہوئی اس کی نظر بستر پر پریشان حال بیٹھیں اماں پر پڑی وہ جانماز کو طے لگا کر ان کے قریب آگئی اور ان کے ہاتھ تھام کر گویا ہوئی۔
" کیا بات ہے اس وقت آپ اس طرح یہاں کیوں بیٹھی ہوئی ہیں؟"
اس نے سر پر حجاب کے انداز میں باندھے ہوئے دوپٹے کو ڈھیلا کرکے ان سے پوچھا تھا جس پر انہوں نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
" سمجھ نہیں آرہا کہ کیسے بات کرو۔"
انہوں نے الجھن زدہ لہجے میں اس سے کہا تھا۔ فاطمہ کو صرف ایک لمہہ لگا تھا ان کے آنے کا مقصد سمجھنے میں اور اس ایک لمہے نے ہی اس کے اندر انجانی قوت پیدا کردی تھی۔
" اگر آپ یہاں پر اپنے بیٹے کی وکالت کرکے اس کی ڈیمامڈ لے کر آئیں ہیں اماں تو میں بہت معافی چاہتی ہوں میں یہ نہیں کرسکتی میرا وجود اس قابل نہیں ہے کہ کسی عزت دار شخص کے پہلو کی زینت بنے لہذا یہ ہاتھ دیکھیں جوڑے ہوئے جاکر ان کو انکار کردیں۔"
اس نے ان کے سامنے اپنے ہاتھ جوڑتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا تھا اس کا انداز ایسا تھا کہ شمیم کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں رہی تھیں وہ جانتی تھیں کہ وہ اس لمہے بے حد جذباتی انداز میں سوچ رہی ہے اس لیے اسے کچھ بھی سمجھانا بیکار ہے وہ خاموشی سے بغیر کچھ بھی کہے اس کے کمرے سے نکل گئیں تھیں لیکن اس کے کمرے کے سائیڈ پر کھڑے شمس نے انتہائی ضبط سے اپنی مٹھیاں پینچی تھیں اور پھر دروازہ کھول کر اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا وہ ابھی بھی اسی جگہ پر بیٹھی ہوئی تھی جس تیزی سے وہ اندر داخل ہوا تھا فاطمہ ہکا بکا رہ گئی تھی۔ شمس نے اسے بازوں سے تھام کر بالکل اپنے مقابل کھڑا کیا تھا چہرے پر اس قدر سختی تھی کہ فاطمہ اندر تک کانپ گئی تھی۔
" اگر پرسوں تم نے مجھ سے یہ نکاح نہ کیا تو یاد رکھنا کسی اور کے لائق بھی نہیں چھوڑوں گا تمہیں میری نہیں تو کسی کی بھی نہیں یہ سزا ہے تمہاری اپنی عزت کو سمبھال کر نہ رکھنے کی جب تم جیسی لڑکیاں اپنی قیمتی چیزیں یوں کھو دیں تو سزا کے طور پر انہیں مجھ جیسے مرد ہی ملتے ہیں۔"
اس نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا تھا وہ سیدھا بیڈ پر گری تھی اور وہ جس تیزی سے داخل ہوا تھا اسی تیزی سے واپس بھی چلا گیا تھا۔ علینہ فاطمہ کو شاہد کوئی محبت راس نہیں آتی تھی وہ غلط شخص سے امید وابستہ کربیٹھی تھی اور اس کی زندگی میں یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ وہ مردوں کے معاملے میں غلطی کردیتی تھی وہ ہر دفعہ مرد کو پہچاننے میں غلطی کرتی تھی اور اس کی یہ غلطی کتنی درست تھی یہ یقینا اسے دو دن بعد صیح معنوں میں پتہ چلنے والا تھا۔

دہلیز کے پار وہ ( مکمل✔)Where stories live. Discover now