قسط نمبر 2 جبرئیل کے سوال پر زارا مزید سہم گئی تھی۔ جبرئیل نے اس کا سہمنا بغور دیکھا تھا مگر اس لمہے اسے صرف ہوش سے کام لینا تھا جوش سے کام اس کا بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتا تھا۔
" پلیز زارا کچھ بولیں آپ کی خاموشی پورے ملک کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔"
اب کی بار تو جبرئیل خاصہ جھنجھلا گیا تھا۔
" دیکھو زارا تمہیں نہیں معلوم کہ ان دو آدمیوں نے تمہاری ماں کے ساتھ کیا کیا ہے یہ تم صرف اسی صورت پتہ لگا سکتی ہو جب تم ہماری مدد کرو اور ہمیں بتاو کہ تم نے اپنی کیچن کی کھڑکی سے کیا سنا تھا۔ وہ دو لوگ کیا بات کررہے تھے آپس میں؟"
مائرہ نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
زارا کی ماں کا چہرہ اس کے سامنے ایک پل کو لہرایا تھا اور پھر شاہد وہ بہت کچھ سوچ چکی تھی۔
" وہ لوگ بہت سی لڑکیوں کو کہیں رکھنے کی بات کررہے تھے اور اس کے علاوہ کسی سسٹم کی بھی جو شاہد پاکستان کا کوئی سیکیورٹی سسٹم ہے۔"
وہ دماغ پر زور ڈالتے ہوئے یاد کرتے ہوئے انہیں بتا رہی تھی۔
" اور؟ اور کیا کہہ رہے تھے وہ لوگ؟"
جبرئیل نے بے تابی سے پوچھا تھا۔
" اور وہ کسی عورت کو بتانے کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ اسے رپوٹ دینی ہے۔"
زارا نے ان کے آخری کہے ہوئے الفاظ بھی وہاں موجود نفوس کے گوش گزار کیے تھے۔
" معلومات ادھوری ہے مگر کوئی بات نہیں کبھی کبھی ادھوری چیزیں ہی مکمل خاکہ پیش کرتی ہیں۔"
جبرئیل نے اٹھتے ہوئے کہا تھا اور اپنے بجتے ہوئے وائیرلیس کو آن کرتے ہوئے کیمپ سے باہر آگیا تھا جہاں اب بھرپور سردی کے ساتھ دھوپ نے بھی ہر طرف اپنے پر پھیلا لیے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پھولوں کے شہر پشاور میں بھی ہر طرف سردی کا راج تھا۔ لاونج میں موجود واحد آتش دان روز کی طرح دہک رہا تھا اور عشرت جہاں اور ماہ رخ بیگم دونوں ہی اس کے قریب صوفوں پر بیٹھی ہوئی تھیں۔
" بھابھی ایک بات بتانی تھی آپ کو؟"
ماہ رخ بیگم نے زندگی میں پہلی بار عشرت جہاں کے آگے تمہید باندھی تھی۔ جس پر عشرت جہاں نے غور سے انہیں دیکھا تھا۔
" سب خیر تو ہے نہ ماہ رخ آج سے پہلے کبھی تم نے اس طرح تمہید نہیں باندھی جو کہنا ہوتا ہے تم بلا جھجھک کہ دیتی ہو۔"
عشرت جہاں نے پریشانی سے کہا تھا۔
" وہ بھابھی صاریہ کے لیے ایک رشتہ آیا ہے۔"
انہوں نے ٹھہر ٹھہر کر انہیں پوری بات بتائی تھی۔
" رشتہ! کب اور کس کا؟ تم اچھے سے جانتی ہو ماہ رخ کہ وہ جبرئیل۔۔ میرا مطلب!"
وہ چاہ کر بھی جملہ مکمل نہیں کر پائیں تھیں۔
" جس طرح بھابھی آپ نے یہ جملہ ادھورا چھوڑا ہے نہ اسی طرح جبرئیل نے صاریہ کی شخصیت بھی ادھوری کردی ہے۔"
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے سامنے گلہ کرگئی تھیں۔
" ماہ رخ بیگم کی بات سن کر عشرت جہاں کو منوں شرمندگی نے گھیرا تھا۔
" لیکن ماہ رخ صاریہ کبھی نہیں مانے گی وہ تو جبرئیل سے محبت کرتی ہے۔"
عشرت جہاں نے ان سے کہا تھا۔
" لیکن جبرئیل اس سے محبت نہیں کرتا ہے بھابھی ایک ان چاہے رشتے کا بوجھ میں دونوں ہی بچوں پر نہیں لادنا چاہتی کیوں کہ جبرئیل بھی مجھے اپنی اولاد کی طرح ہی عزیز ہے۔"
ماہ رخ بیگم کے لہجے سے جبرئیل کے لیے محبت ہی محبت ٹپک رہی تھی۔
" لیکن میں کسی اور سے شادی ہرگز نہیں کرو گی۔ میری یہ بات آپ دونوں اچھے سے سن لیں اور جبرئیل کو بھی سمجھا دیں تو بہتر ہے۔"
ان دونوں نے چونک کر دروازے کی جانب دیکھا تو صاریہ خون خوار تیور لیے اپنی ماں اور تائی کو گھور رہی تھی وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ چور ہوئی تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ ایک وسیع و عریض بنگلے کا منظر تھا جہاں سڑک پر اس کی حدود شروع ہوتے ہی سیاہ رنگ کی ایک بڑی سی باڑ لگائی گئی تھی باہر بے شمار گاڈز کھڑے تھے۔ بنگلے کے اندر باڑ کو پار کرکے ایک وسیع و عریض روش شروع ہوتی تھی جس کے دونوں جانب پودے لگا کر ایک راہداری کی شکل دی گئی تھی راہداری عبور کرکے ایک بہت بڑا صدر دروازہ تھا جو خوبصورت اور مضبوط لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک اور راہداری تھی جسے عبور کرکے ایک وسیع و عریض لاونج تھا جس کی تینوں دیواروں پر بڑی بڑی قدیمی طرز کی کھڑکیاں بنائی گئی تھیں جن کے آگے بھاری مخملی پردے کیے گئے تھے لاونج کے وسط میں نرم و ملائم ایرانی قالین بچھایا گیا جو کہ پردوں کا ہی ہم رنگ تھا۔ ویلوٹ کی پوشیش سے سجے صوفے اس قیمیتی اور پر آسائش لاونج کو اور بھی خوبصورت بنارہے تھے۔ لاونج کے سامنے سے ایک گول دائرے کی صورت میں سیڑھیاں اوپر کو جاتی تھیں جو کہ چوڑائی میں بنائی گئی تھیں اور انہیں بھی سرخ مخملی قالین سے سجایا گیا تھا۔ لاونج کے صوفے پر صمن بیگم انتہائی مختصر بلوز کے ساتھ شیفون کی ہلکے گلابی رنگ کی ساڑھی پہنے اپنے ڈائی شولڈر کٹ بال نفاست سے کھولے اپنی مخروطی انگلیاں اپنے سامنے کیے ان کے لمبے اور خوبصورت ناخن تراش رہی تھیں۔ ایک ایک ناخن تراشنے کے بعد وہ اس پر پھونک بھی مار رہی تھیں شاہد تراشیدہ گرد کو ہٹانا چاہتی تھیں وہ اپنے کام میں مگن تھیں جب سیڑھیوں سے اکیس بائیس سالہ خوبصورت سی صاف رنگت اور نارمل نقوش کی مالک لڑکی بلو جینز کے اوپر خوبصورت اور سٹائلیش سا مہرون ٹاپ پہنے بالوں کو اونچی پونی میں قید کیے فون کان سے لگائے وہ شاہد کوئی کال سن رہی تھی اترتی ہوئی نیچے آئی تھی اور صوفے پر ان کے قریب بیٹھ گئی تھی۔ اس نے تسلی سے اپنی کال ختم کی تھی اور پھر صمن بیگم کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
" مام! نیڈ سم منی؟"
وہ خالصتن بیرٹش لہجے میں ان سے مخاطب تھی۔
صمن بیگم نے سر اٹھا کر اور کچھ چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
" بٹ ہنی وائے یو نیڈ منی ریسنٹلی آئی گیو یو۔"
صمن بیگم حیران ہوتی ہوئی کہ رہی تھیں۔
" مام پلیز میرے ساتھ انویسٹی گیشن مت کریں اور پیسے دیں مجھے اپنے فرینڈز کے ساتھ گووا جانا ہے۔"
اس نے کچھ برہمی سے ان سے کہا تھا۔انہوں نے قریب رکھے ہوئے اپنے پرس میں سے اچھی خاصی رقم نکال کر اس کے حوالے کی تھی۔
" علینہ ہنی! جانے سے پہلے اپنے ڈیڈ سے پرمیشن لے کر جانا ورنہ پھر وہ مجھ پر غصہ ہونگے کہ میں نے تمہیں بغیر کسی انویسٹی گیشن کے جانے دیا ہے۔"
انہوں نے اپنے شوہر کے ڈر سے اپنی بیٹی سے کہا تھا۔
" شیور۔"
وہ کہ کر ان کا گال ہلکا سا چومتی ہوئی باہر نکل گئی۔ یہ معمبئی کے پوش علاقے میں واقع ایک خوبصورت اور وسیع بنگلہ تھا جو کمال ولا کہلاتا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
" مارننگ سر!"
اس نے وائیرلیس کا سپیکر ان کرتے ہوئے اپنے لہجے کو حتی المکان سنجیدہ بناتے ہوئے کہا تھا۔
" مارننگ جبرئیل! کیسے ہو؟"
سپیکر سے کرنل خاور کی ترو تازہ آواز ابھری تھی۔
" فائن سر!"
اس نے پھر سے دو حرفی جواب دیا تھا وہ اس لمہے بالکل اپنے پروفیشنل لہجے میں گفتگو کررہا تھا جس میں ہلکی سی بھی لچک نہیں پائی جاتی تھی۔
" لسن جبرئیل!"
دوسری جانب سے کرنل خاور کی سنجیدہ مگر ترو تازہ آواز ایک بار پھر سے ابھری تھی۔
" یس سر!"
اس نے تابعداری سے انہیں جواب دیا تھا اس کی تمام تر سماعت کرنل خاور کے اگلے حکم کی منتظر تھی۔
" ابھی تھوڑی دیر میں کرنل احسن یہاں پہنچنے والے ہیں میں نے ان کی ٹرانسفر یہاں کشمیر میں کردی ہے آئی تھینک یو نیڈ سم ون فار ہیلپ۔"
انہوں نے اس کا خیال کرتے ہوئے کہا تھا۔
" اوکے سر بٹ آپ کب تک آئیں گئے؟"
جبرئیل نے کرنل خاور کی بات سن کر بے چینی سے ان کے آنے کی بابد پوچھا تھا۔
" ریلیکس ینگ مین آئی ریچیڈ دئیر ٹو نائیٹ۔"
انہوں نے ہلکا سا مسکرا کر کہا تھا۔
" اوکے سر آئی ول ویٹ فار یو دئیر از لوٹ اف انفارمیشن فار یو۔"
جبرئیل کے لہجے کی بے چینی دوسری جانب کرنل خاور کو بھی کھٹک سی رہی تھی اس لیے انہوں نے اس سے رات آنے کا کہہ کر فون بند کردیا تھا مگر ان کی پیشانی پر اس لمہے لاتعداد لکیروں کا جال تھا کیوں کہ وہ ہر ایک بات ایک مختلف پہلو سے سوچ رہے تھے۔
وہ وائیرلیس بند کرکے پیچھے پلٹا تو کیپٹن شمس مودب بن کر کھڑا تھا۔
" یس کیپٹن واٹ ازرونگ؟"
اس نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر ایک آبرو اچکا کر سوالیہ نگاہوں سے شمس کی جانب دیکھا تھا۔
" کرنل احسن از ریچیڈ سر!"
اس نے ہاتھ پیچھے کو باندھ کر مودب بن کر کہا تھا۔
" اوکے لیٹس گو عبداللہ اور طلال کو بھی کہہ دو۔"
اسے کہ کر وہ خود کیمپوں والی جگہ سے ڈھلوان اترتا ہوا نیچے آیا تھا جہاں کرنل احسن اپنی جیپ پارک کررہے تھے۔
" سر!"
اس نے مودب بن کر اور الرٹ ہوکر کرنل احسن کو سیلوٹ کیا تھا۔ جس پر انہوں نے مسکرا کر سر خم کرنے کے بعد آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا تھا۔
" کیسے ہو ینگ مین؟"
کرنل احسن نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا تھا جس پر جبرئیل بھی قہقہ لگا کر ہنسا تھا۔
" سر پلیز ڈونٹ کاپی کرنل خاور۔"
جبرئیل نے مشکل سے اپنی مسکراہٹ روک کر کہا تھا۔
" ہاہا کیوں بھئی ہم تمہیں ینگ مین نہیں کہہ سکتے کیا؟"
کرنل احسن خاصے اچھے موڈ میں اس سے مخاطب تھے۔
" کیوں نہیں سر پر آپ کو نہیں لگتا جب ایک اچھا خاصہ ہینڈسم اور ینگ مین اپنے جیسے دوسرے ہینڈسم اور ینگ مین کو ینگ مین کہے تو کچھ عجیب سا لگتا ہے؟"
اس نے مسکرا کر ان سے سوال کیا تھا وہ دونوں اب آہستہ آہستہ ڈھلوان چڑھ کر اوپر کی جانب آرہے تھے جہاں پر آرمی کیمپ لگے ہوئے تھے۔
"ہاہا ویسے جبرئیل ماننا پڑے گا بھئی تم ہو بہت ہی ذہین۔"
کرنل احسن نے کھلے دل سے جبرئیل کی ذہانت کو سراہا تھا۔
" تھینک یو سو مچ سر! اور یہ بھی ماننا ہی پڑے گا کہ آپ مجھ سے بھی زیادہ ذہین ہیں تب ہی تو اتنی کم عمر میں آپ کا رینک کرنل کا ہے۔"
جبرئیل ہمشہ سے ہی احسن سے حد درجہ متاثر تھا اور وجہ یہ تھی کہ وہ انتہائی کم عمر میں اپنی قابلیت اور ذہانت کے بل بوتے پر ترقی کرکے آج کرنل کے عہدے پر تھا ورنہ عمر میں وہ جبرئیل،طراب اور اسامہ وغیرہ سے تھوڑا ہی بڑا تھا۔
" او بہت شکریہ۔"
احسن نے کھلے دل سے اس کا شکریہ ادا کیا تھا۔
" پھر کیا خیال ہے سر؟"
جبرئیل انتہائی سنجیدگی سے گویا ہوا تھا جس پر کرنل احسن چونکے تھے اور اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے بھی دیکھ رہے تھے۔
" شادی کے بارے میں سر اور کس بارے میں۔"
وہ مسکراہٹ دبا کر سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
" ہاہا یار تم اس لمہے بالکل مجھے بی جان لگے ہو۔"
احسن کی مسکراہٹ کافی گہری تھی۔
" تو سر اپنی بی جان کی بات مان کیوں نہیں لیتے ہیں آپ؟"
جبرئیل نے پھر سے اس سے وہی بات کی تھی۔
" آہ سوچتے ہیں اس بارے میں بھی اب کچھ۔"
احسن نے مسکراہٹ دبا کر کہا تھا۔ وہ دونوں اب کیمپوں والی جگہ پر پہنچ چکے تھے۔سامنے سے ڈاکٹر مائرہ زارا کے کیمپ سے نکلتی ہوئی دیکھائی دی تھیں۔
" مارننگ سر!"
اس نے بھی مودب بن کر اسے سلام کیا تھا۔ احسن مائرہ کو دیکھ کر قدرے حیران ہوا تھا کیونکہ وہ زارا کی موجودگی سے بالکل بھی واقف نہیں تھا۔
" مارننگ ڈاکٹر مائرہ آپ یہاں اس وقت؟"
احسن نے قدرے حیرانگی سے کہا تھا۔
مائرہ نے جبرئیل کی طرف دیکھا تھا اور پھر کرنل احسن کی جانب۔
" وہ اصل میں سر ایک مسئلہ ہوگیا ہے۔"
جبرئیل نے پریشانی سے کہا تھا۔
" کیسا مسئلہ میجر جبرئیل؟"
احسن نے حیرانگی اور ناسمجھی کی ملی جلی کیفیت میں جبرئیل سے پوچھا تھا۔ جواب میں جبرئیل نے گزشتہ رات کا سارا واقعہ کرنل احسن کے گوش گزار کیا تھا۔ ساری بات سننے کے بعد کرنل احسن بھی کافی پریشان ہوئے تھے۔
" او مائی گاڈ جبرئیل اٹس آ ہیوج نیوز۔"
وہ پریشانی اور جوش میں جبرئیل سے بولے تھے۔
" یس سر بٹ اٹس آ بیگنگ اف آ وری بیگ کیس۔"
جبرئیل نے اپنی سمجھ کے مطابق اس سے کہا تھا جس پر احسن بھی اس سے متفق نظر آرہا تھا۔ مائرہ ابھی بھی ادھر ہی کھڑی تھی۔
" مگر سر اس سب سے پہلے اس لڑکی کی سیکیورٹی کی ضرورت ہے ورنہ جیسے وہ لوگ زارا کے پیچھے بھاگے تھے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ زارا ان کے بارے میں کچھ ایسا جان گئی ہے جو ان لوگوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔"
مائرہ نے انتہائی مناسب وقت پر بہت ہی اچھی بات کی تھی جس سے کرنل احسن اور جبرئیل دونوں ہی متفق نظر آرہے تھے۔
" پر کرنل خاور کے آنے تک ہم کوئی سٹیپ نہیں لے سکتے۔"
جبرئیل نے اپنی شہادت کی انگلی اپنے دانتوں تلے کاٹی تھی۔ جب وہ پریشان ہوتا تھا تو ضرور اپنی شہادت کی انگلی اپنے دانت تلے کاٹتا تھا۔
" ہوں پر پہلے مجھے اس سے ملنا ہوگا پھر شام تک فائینل ڈسین تو کرنل خاور کا ہی ہوگا۔"
احسن کہتے ہوئے اپنے کیمپ کی جانب بڑھ گئے تھے جبکہ جبرئیل ان کے پیچھے گیا تھا مائرہ پہلے ہی زارا کے کیمپ کی جانب چلی گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پھولوں کے شہر پشاور میں شام کے سائے گہرے ہورہے تھے موسم آج اپنی رنگینیاں دیکھانے کے درپے تھا۔ شام کے گہرے سایوں کے ساتھ ہی پورے آسمان پر کالے بادلوں کا راج تھا وہ دونوں شام میں چائے کے مگ لے کر لان میں رکھی پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھی ہوئی تھیں ساتھ میں ہلکی پھلکی گفتگو کا سلسلہ بھی جاری تھا۔
" آنیہ جبرئیل بھائی کب آرہے ہیں؟"
زیبا نے اپنے مگ میں سے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے آنیہ سے پوچھا تھا۔
" معلوم نہیں بھائی کا کچھ پتہ نہیں چلتا زیبی۔"
آنیہ نے پلیٹ میں سے چند کاجو اٹھا کر منہ میں رکھے تھے اور کندھے اچکا کر لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
" کیوں ہماری موجودگی سے آپ ڈیپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں جو جبرئیل بھائی کی آمد سے آپ کو فریشنس محسوس ہوتی ہے؟"
وہ چہرے پر بشاش مسکراہٹ سجائے پولیس کی وردی میں بال پیچھے کو سلیقے سے سیٹ کیے ایک پاوں میز پر رکھے زیبا کی جانب جھک کر پوچھ رہا تھا اس کے اس انداز پر زیبا تو زیبا آنیہ بھی ہک دک رہ گئی تھی۔
" رون حوصلہ کرو ذرا اور پیچھے ہوکر بات کرو تم۔"
زیبا نے اپنی کرسی زرا پیچھے سرکاتے ہوئے گھور کر اس سے کہا تھا۔
" کیوں پیچھے ہوکر بات کروں جو پوچھا ہے اس کا جواب دو نہ؟"
آرون کے تو آج رنگ ڈھنگ ہی بدلے ہوئے تھے۔ اس کے انداز پر زیبا کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔ آرون بڑی ہی دلچسپی سے اس کے چہرے کی سرخی اور ماتھے پر چمکتی ننھی پسینے کی بوندیں دیکھ رہا تھا ضبط سے اس نے اپنے ہونٹ سختی سے پینچ رکھے تھے۔
" تمہاری ایسی حرکتوں سے نہ مجھے ڈیپریشن ہی ہوسکتا ہے کون کہے گا کہ اتنے ہینڈسم پولیس والے کے پیچھے کس قدر کا چھچھورا مرد چھپا ہوا ہے۔"
اس نے اچھا خاصہ منہ بنا کر کہا تھا جس پر جیپ پارک کرکے آتے سبتین اور کاجو کھاتی آنیہ دونوں کا ہی قہقہ بلند ہوا تھا۔ جبکہ میز پر ایک پاوں رکھ کر کھڑے آرون کی مسکراہٹ بے ساختہ تھی لیکن زیبا اپنا ہی جملہ کہہ کر خاصی شرمندہ دیکھائی دے رہی تھی۔
" یہ اتنے ٹھٹے کس چکر میں لگ رہے ہیں؟"
صاریہ نے روش پر کھڑے ہوکر ان سب کو نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا تھا۔ اس کی آواز پر سب اپنی اپنی جگہ خاموش ہوئے تھے۔
" کیوں آپا ہمارے ٹھٹھوں سے تمہیں کوئی مسئلہ ہے کیا؟"
سبتین نے جیپ کی چابی میز پر رکھتے ہوئے ایک خالی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
" میری بلا سے جو مرضی کرو میرا کیا جارہا ہے۔"
اس نے نخوت سے منہ بنایا تھا اور واپس اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
داور کمال مخملی صوفے پر ٹانگ پے ٹانگ چڑھا کر انگلیوں میں سگار دبائے گہرے کش لیتے بیٹھے ہوئے تھے۔سامنے دیوار گیر ایل۔ای۔ڈی ان تھی جس کی آواز بند تھی مگر کشمیر میں ہونے والے دنگا فساد کے مناظر صاف دیکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے انگلیوں میں دبے ہوئے سگار سے گہرا کش لیا تھا اور پھر دھویں کا ایک بھاری مرغولہ فضا میں چھوڑا تھا ان کے چہرے پر استزایہ مسکراہٹ تھی۔
صمن بیگم نک سک سے تیار حسب معمول مختصر بلوز کے اوپر سیاہ سلک کی ساڑھی زیب تن کیے اپنے ڈائی شولڈر کٹ بال کھولے ٹک ٹک کرتی ہوئیں ان کے برابر میں آ بیٹھی تھیں۔
" علینہ کدھر ہے صمن؟"
انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا سگار سامنے میز پر رکھے ایسٹرے میں بجھا کر پوچھا تھا۔ صمن بیگم پہلے تو حیرت میں ڈوبی تھیں اور پھر جب بات سمجھ آئی تو انہیں ہمشہ کی طرح آلینہ پر غصہ آرہا تھا جو ایسے ہی بغیر بتائے چلی جاتی تھی۔
" آپ کو پھر سے وہ بتا کر نہیں گئی میں تو تنگ آگئی ہو ہمشہ کہتی ہے ڈیڈ کو بتا کر جاوں گئی اور پھر سے وہی کام کرتی ہے۔"
وہ ہاتھ سے اپنے بالوں کی لٹ میں انگلیاں چلاتی ہوئی نخوت سے کہہ رہی تھیں۔
" کیا مطلب ہے تمہارا کہ وہ ہر بار کی طرح اس بار بھی تمہاری آنکھوں میں دھول جھونک کر سیر سپاٹے کو نکل گئی ہے؟"
وہ ان کی جانب سوال کرتے ہوئے خاصے غصے میں دیکھائی دے رہے تھے جس پر صمن بیگم ہمشہ کی طرح پہلے تو سہم گئی تھیں لیکن پھر کچھ ہی دیر میں نارمل ہوگئی تھیں۔
" میرے کہنے میں نہیں ہے آپ کی اولاد پہلے خود ہی آزادی دیتے ہیں اور پھر خود ہی روکتے ہیں۔"
صمن بیگم منہ بناتے ہوئے بولیں تھیں۔
" تم اچھے سے جانتی ہو صمن کہ میں کیوں روک ٹوک کرتا ہوں تمہاری یہ بیٹی بہت لاپرواہ ہے۔"
انہوں نے ایک اور سگار سلگا کر کہا تھا۔
" ہاں جانتی ہوں آپ نے ہماری زندگی کتنی مشکل بنائی ہوئی ہے اور میری بیٹی تو آپ ایسے کہہ رہے ہیں جیسے میں پیچھے جہیز میں لے کر آئی تھی۔"
صمن بیگم نے بال جھٹکتے ہوئے کہا تھا۔
" ہاں جہیز کے نام پر تو تم ایک تنکا نہیں لے کر آئی تھی۔"
ان کا طنز بھرا انداز صمن بیگم کو بہت کچھ باور کرانے کے لیے کافی تھا وہ ایک جھٹکے سے ان کے برابر سے اٹھی تھیں اور ٹک ٹک کرتی ہوئی واک اوٹ کرگئی تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ڈاکٹر مائرہ زارا کے ساتھ رات سے کیمپ میں ہی موجود تھیں اور ابھی بھی وہ زارا کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں۔
" سو زارا کیا کرتی ہو تم؟"
مائرہ اسے قدرے ریلیکس کرنے کے لیے ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہی تھی۔
" میں سیکنڈ ائیر کے پیپر دے کر فری ہوئی تھی۔"
زارا نے کچھ جھجھکتے ہوئے اس کے سوال کا جواب دیا تھا جب کرنل احسن اور جبرئیل جھک کر کیمپ کے اندر داخل ہوئے تھے۔
" کیسی ہیں زارا آپ؟"
جبرئیل نے مسکرا کر اس سے حال پوچھا تھا جب کہ زارا نے غور سے اب جبرئیل کو دیکھا تھا اس کی سرخ ہوتی آنکھیں کتنی راتوں سے نہ سونے کی روداد باخوبی سنا رہی تھیں۔ بے ساختہ زارا کو احساس ہوا تھا کہ یہ لوگ جاگتے ہیں تو اندر ہم لوگ سکون کی نیند سو پاتے ہیں جیسے وہ گزشتہ رات سکون سے بغیر کسی خوف کے سوئی تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ باہر یہ سب لوگ جاگ کر اپنا کام کررہے ہیں۔
" زارا! آر یو اوکے؟"
اس نے ایک بار پھر سے پوچھا تھا اس بار لہجے میں تشویش اور فکر واضح تھی۔
" جہ۔۔جی میں ٹھیک ہوں۔"
اس نے انگلیاں مڑوڑتے ہوئے کہا تھا۔
" اوکے گڈ زارا یہ کرنل احسن ہیں یہ آپ سے کچھ سوال پوچھیں گئے۔"
اس نے اسے ریلیکس کرتے ہوئے بتایا تھا۔
" مجھ۔۔مجھے کسی سوال کا جواب نہیں دینا ہے۔"
وہ کافی زیادہ ڈری ہوئی لگ رہی تھی کرنل احسن اور جبرئیل دونوں نے بے ساختہ ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا۔
" دیکھیں زارا ریلیکس آپ بالکل محفوظ ہیں میرا یقین کریں یہاں کوئی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا میرے ہوتے کوئی نہیں آئے گا یہاں پلیز تھوڑا کاپریٹ کریں۔"
جبرئیل نے انتہائی ٹھہرے ہوئے لہجے میں اسے یقین دلایا تھا۔
" سر آپ پوچھیں جو بھی آپ کو پوچھنا ہے؟"
اس نے کرنل احسن سے کہا تو انہوں نے سر ہلایا اور گہرا سانس بھر کر اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
" زارا! جب آپ نے اپنے کیچن کی کھڑکی سے وہ ساری گفتگو سنی تھی تو اس وقت آپ کو کتنے آدمیوں کا گمان ہوا تھا؟"
کرنل احسن انتہائی زیرک نگاہوں سے اس کا مشاہدہ کرتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔
" سہ۔۔سر دو آدمی تھے۔"
زارا نے کچھ اٹکتے ہوئے ان سے کہا تھا۔ وہ اس کے چہرے پر موجود خوف اور پسینے کے قطرے واضح دیکھ سکتے تھے۔
" اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ ان کی گفتگو میں زیادہ زور کس بات پر دیا جارہا تھا میرا مطلب ہے کہ کوئی ایسی بات جس کے بارے میں بات کرتے ہوئے آپ کو لگا ہو کہ وہ تھوڑے خوفزدہ ہوگئے ہیں۔"
وہ اس لمہے انتہائی پروفیشنل انداز میں اس سے سوالات کررہے تھے جس پر زارا قدرے پرسوچ دیکھائی دے رہی تھی۔
" سر دو باتیں مجھے ایسی لگی تھیں جن پر وہ زیادہ بات کررہے تھے اور اس بارے میں بات کرتے ہویے مجھے ان کے لہجے میں تھوڑا خوف بھی محسوس ہوا تھا۔
" کون سی دو باتیں تھیں وہ؟"
احسن نے اپنی تھوڑی پر ہاتھ جما کر بے تابی سے پوچھا تھا۔
" سر ایک تو کسی سیکیورٹی سسٹم میں گھسنے کے لیے پاسورڈ کا کوئی مسئلہ تھا اور جو دوسری اور اہم بات تھی وہ یہ تھی کہ انہیں اس سب کے بعد کسی عورت کو پوری رپوٹ دینی تھی جو شاہد بہت خطرناک تھی انہیں اپنی جانیں جانے کا خطرہ تھا۔"
کچھ ہی لمہوں میں زارا کے اندر کا اعتماد کافی حد تک بحال ہوچکا تھا اور وہ پہلے والی زارا بن گئی تھی۔
" جبرئیل! میرے ساتھ آو زرا۔"
انہوں نے سنجیدگی سے جبرئیل سے کہا اور خود باہر نکل گئے۔ باہر نکل کر وہ انتہائی پرسوچ دیکھائی دے رہے تھے۔
" سیکورٹی سسٹم کونسا ہوسکتا ہے جس کے پاسورڈ سے وہ گھسنا چاہتے تھے۔"
احسن پرسوچ دیکھائی دے رہا تھا اور یہی حال جبرئیل کا بھی تھا۔
" سر کہیں پنڈی والا سسٹم تو نہیں جس پر پورے ملک کی سیکیورٹی ڈیپینڈ کرتی ہے؟"
جبرئیل نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا جب کہ احسن اس کی بات پر بے حد فکر مند نظر آرہا تھا۔
" سر مجھے لگتا ہے کوئی بہت ہی بڑی سازش رچائی جارہی ہے کوئی بہت بڑی پلینگ ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے یہ جو خاموشی ہے نہ کسی طوفان کے آنے کی خبر دے رہی ہے۔"
جبرئیل پریشانی سے کہہ رہا تھا جب کہ احسن اس کی باتوں کے جواب میں خاموش تھا۔
" جبرئیل! ایسا کرو تم اب اپنے گھر جاو میں دیکھ رہا ہوں کہ تم مسلسل کافی راتوں سے جاگ رہے ہو اگر فریش نہ ہوئے تو کام کرنا مشکل ہوگا اس لیے ابھی تم ریسٹ کرلو تھوڑا جیسے ہی کرنل خاور یونٹ پہنچے گئے میں تمہیں رپوٹ کروں گا۔"
کرنل احسن نے نرمی سے اسے آرام کرنے کے لیے کہا تھا کیونکہ انہیں اس کی حالت واقعی ہی بہت غیر لگی تھی اس لیے انہوں نے اسے گھر جانے کو کہا تھا۔
" لیکن سر وہ زارا؟"
اس نے کچھ جھجھکتے ہوئے زارا کے بارے میں پوچھا تھا۔
" ڈونٹ وری میں ابھی کچھ ہی دیر میں زارا کو ڈاکٹر مائرہ کے فلیٹ میں ان کے ساتھ بھجوا دونگا جب تک ان کے رہنے کا کوئی پراپر انتظام نہیں ہوجاتا۔"
احسن نے پرسوچ انداز اپنا کر کہا تھا۔
" ٹھیک ہے تھینک یو سر میں چلتا ہوں۔"
وہ ان کا شکریہ ادا کرکے سیلوٹ مار کر ڈھلوان سے نیچے اتر آیا تھا جہاں اس کی جیپ کھڑی تھی اس نے اپنی کیپ ڈیش بورڈ پر رکھی اور آنکھوں پر اپنے سیاہ شیڈز لگا کر جیپ سٹارٹ کی اور آہستہ سے چڑھائی اترنے لگا۔ آج کشمیر میں سردی کے ساتھ دھوپ کا عنصر بھی شامل تھا۔ اس کی ہلکے سبز رنگ کی جیپ جو کہ خالصتن فوج کی تھی کشمیر کے خوبصورت راستوں سے گزر رہی تھی۔ ایک جانب پہاڑ تھے اور دوسری جانب گہری گہری کھایاں لیکن وہ انتہائی مہارت سے ڈرائیونگ کررہا تھا۔
اس نے ایک جھٹکے سے جیپ ایک لکڑی کے گھر کے سامنے پارک کی تھی وہ گھر انتہائی خوبصورت تھا ایک ننھی پہاڑی کے اوپر بنایا گیا تھا وہ جیپ سے اترا تھا لکڑی کی چھوٹی سی باڑ گھر کے چاروں طرف لگائی گئی تھی جس کے درمیان میں چھوٹا سا لکڑی کا گیٹ تھا جو باڑ کے ہی سائز کا بنایا گیا تھا۔ باڑ کے پار چھوٹا سا ہرا بھرا لان تھا جہاں مختلف پیڑ،پودے لگائے گئے تھے اور ایک طرف خوبصورت لکڑی تراش کر بیٹھنے کے لیے کرسیاں اور میز بھی بنایا گیا تھا۔ لان کو پار کرتے ہی خوبصورت سفید ماربل کے دو تین سٹیپ تھے جس پر چڑھ کر وہ مین دروازے کی جانب آیا تھا وہاں کھڑے ہوکر اس نے لاک میں چابی گھمائی تھی تو دروازہ کھڑل کی آواز کے ساتھ کھلتا چلا گیا تھا پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اس نے اندر داخل ہوکر اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور جیب سے اپنا سیل فون نکال کر اس کی ٹارچ روشن کی راہداری میں لکڑی کے فرش پر ایک درمیانے سائز کا رگ بچھا ہوا تھا وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا ہوا راہداری کے آخر میں آیا تھا جہاں سویچ بورڈ تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر راہداری میں لگا ہوا اکلوتا بلب جلایا تو اس کی حیرت اور خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی سامنے لاونج میں لکڑی کے خوبصورت اور جدید طرز کے ڈائینگ ٹیبل پر ایک کیک رکھا ہوا تھا اور ساتھ میں کچھ گفٹس بھی تھے ایک بوکے بھی رکھا گیا تھا جو خالصتن گلاب کے پھولوں کا تھا کیک کے اوپر موم بتی روشن تھی لیکن اسے لگانے والے یکسر کہیں غائب تھے وہ مسکراتا ہوا لاونج میں آیا تھا اور ڈائینگ ٹیبل کے پاس کھڑا ہوگیا تھا اس کے چہرے پر شرارت واضح تھی۔
" پھر میں اکیلے کیک کاٹ لوں؟"
اس نے اپنی مسکراہٹ دبا کر انتہائی سنجیدگی سے اونچی آواز میں کہا تھا لیکن کوئی باہر نہیں آیا تھا اب کی بار مسکراہٹ نے پھر سے اس کے خوبصورت چہرے کو چھوا تھا اس نے بڑی مشکل سے اپنے لب کاٹ کر اپنے بے ساختہ امڈنے والے قہقے کا گلہ گھونٹا تھا۔
" میں کاٹنے لگا ہوں۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو می ہیپی برتھ ڈے ٹو می ہیپی برتھ ڈے ٹو جبرئیل ہیپی برتھ ڈے ٹو می۔"
اس نے اونچی آواز میں گانا گا کر زور سے تالیاں بھی بجائی تھیں۔
" ابے سالے بڑی جلدی ہے تجھے ہیپی برتھ ڈے کرنے کی ہیں؟"
طراب ایپرن باندھے منہ پر اچھے خاصے لوازمات لگائے کیچن سے برآمد ہوا تھا اور اب دانت پیس کر جبرئیل کو دیکھ رہا تھا جو قہقے لگا رہا تھا۔
" ہاں تو میں نے پوچھا کہ کیا خود اکیلے کاٹ لوں تو تم لوگ کیا منہ میں گھنگریاں ڈال کر بیٹھے ہوئے تھے جو بول نہیں سکتے تھے۔
" بےغیرت ہے یہ طراب ایک نمبر کا احسان فراموش نہ ہو تو ایک تو سارے کام چھوڑ کر بے بی بوائے کی برتھ ڈے ارینج کرو اوپر سے یہ نخرے بھی دیکھا رہا ہے۔"
اسامہ ہاتھ میں ڈوئی لیے کسی لڑاکا عورت کی طرح تیلی بھڑکانے کا کام کررہا تھا۔
" بکواس نہ کرو تم دونوں اب جلدی دفع ہوجاو ادھر اور یہ کیچن میں کیا کررہے تھے تم لوگ؟ اگر میرے کیچن کا بیڑا غرق کیا نہ تم لوگوں نے دیکھنا پھر۔"
وہ انگلی اٹھاتے ہوئے دونوں کو گھور کر کہہ رہا تھا۔
" ینگ مین ٹینشن نہ لو میں نے خود ساری صفائی ان دونوں سے کروائی ہے۔"
کرنل احسن بھی کیچن سے برآمد ہوئے تھے اور جبرئیل کو حیرت بھی ہوئی تھی کیونکہ ہمشہ اسے اس طرح کا سرپرائز طراب اور اسامہ ہی دیتے تھے لیکن آج تو کرنل احسن بھی شامل ہوگئے تھے۔
" سر آپ بھی؟"
جبرئیل نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات میں گھر کر کرنل احسن سے کہا تھا۔
" ہاں بھئی تمہاری برتھ ڈے تھی تو سوچا تمہیں ہم بھی سرپرائز کردیں۔"
انہوں نے نرم مسکراہٹ سے کہا تھا۔
" تھینک یو سو مچ سر!"
جبرئیل جذباتی انداز میں کہہ رہا تھا۔
" اچھا بھئی کیک کاٹو اب۔"
طراب اور اسامہ نے کہا تو وہ بھی چپ چاپ ڈائینگ ٹیبل کی جانب آگیا۔پھر چاروں نے مل کر کیک کاٹا اور طراب اور اسامہ کا بنایا ہوا کھانا بھی کھایا۔ کھانے سے فارغ ہوکر قہوے کا دور چلا تھا اور پھر ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد کرنل احسن نے ان تینوں کو صبح یونٹ میں ہونے والی میٹنگ کے متعلق آگاہ کیا اور خود چلے گئے تھے۔
ان کے جانے کے بعد جبرئیل اپنے کمرے میں آیا تھا جب کہ طراب اور اسامہ کیچن سمیٹ رہے تھے کیونکہ جبرئیل کا باورچی دو دن کی چھٹی پر گیا ہوا تھا اس لیے کام سارا ان دونوں کو ہی کرنا پڑ رہا تھا۔ اس نے شاور لیا تھا اور شاور لینے کے بعد وہ خود کو قدرے ہلکا محسوس کررہا تھا شاور لے کر اس نے ہلکی پھلکی سی نیوی بلو ٹی شرٹ بلیک ٹراوزر کے ساتھ پہنی اور بالوں میں برش کرکے اپنے فون کی طرف متوجہ ہوا جسے اس نے گھر آکر چارج پر لگایا تھا چونکہ کیمپ میں سگنل نہیں آتے تھے اس لیے اسے بالکل بھی نہیں اندازہ تھا کہ کن لوگوں نے اسے کالز اور مسجز کیے ہیں جوں ہی اس نے فون ہاتھ میں لیا بے شمار نوٹی فیکشنز آنے لگے جس میں آرون،آنیہ،زیبا کے مسجز جبکہ صاریہ کی دس مسڈ کالز اور لاتعداد مسجز تھے اور ایک کال عشرت جہاں کی بھی تھی۔
صاریہ کے مسجز اور کالز سے تو اس کا دماغ ایک پل میں گھوما تھا۔ ابھی فون اس کے ہاتھ میں ہی تھا جب ایک بار پھر سے اس کا فون بجا تھا اور حسب توقع کال صاریہ کی جانب سے ہی کی گئی تھی جبرئیل نے ہونٹ پینچ کر اور اپنے آپ کو قدرے قابو میں کرکے مسلسل آتی ہوئی کال اٹھائی تھی۔
" بولو کیا مصیبت آگئی ہے؟"
اس نے دانت پیس کر کہا تھا۔
" ہیپی برتھ ڈے جبرئیل!"
صاریہ نے دوسری جانب مترنم آواز میں اسے سالگرہ کی مبارک باد دے رہی تھی۔
" تھینکس۔"
جبرئیل نے انتہائی بیزاری سے کہا تھا۔
" تم ہمشہ مجھ سے ایسے بات کیوں کرتے ہو؟"
دوسری جانب صاریہ کا لہجہ دکھی ہوا تھا۔
"کیونکہ تم ہمشہ مجھ سے خوامخواہ فری ہونے کی کوشیش کرتی ہو۔"
اب کی بار اس کے لہجے میں الجھن واضح محسوس کی جاسکتی تھی۔
" میں محبت کرتی ہوں تم سے۔"
صاریہ نے زندگی کی سب سے تلخ حقیقت اسے یاد کروائی تھی۔
"بکواس بند کرو صاریہ اپنی اس فضول سی محبت کے پیچھے تم الریڈی بہت کچھ کرچکی ہو مزید بس کرو رحم کھاو مجھ پر۔"
جبرئیل نے تلخی سے کہہ کر کال کاٹ دی تھی۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے اسامہ کی رنگت پل بھر میں بدلی تھی لیکن وہ جبرئیل تک پہنچتے ہی خود کو کافی حد تک سمبھال چکا تھا۔
" آجا اب باہر بہت خدمتیں کروا لی ہیں ہم سے اب کافی بنا کر پلا ہم دونوں کو۔"
اسامہ نے ہلکا پھلکا انداز اپنا کر کہا تو وہ بھی سر جھٹک کر مسکرا کر اس کے پیچھے باہر نکل گیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کمرے میں حسب معمول اندھیرے کا راج تھا۔ بھاری مخملی پردے بڑی بڑی کھڑکیوں پر ویسے ہی برابر کررکھے تھے اور ہر رات کی طرح وہ وجود پھر سے ہاتھ میں سگریٹ دبائے راکنگ چئیر پر جھول رہا تھا۔ تھوڑا سا جھول کر وہ کرسی روکتی تھی اور پھر ہاتھ میں دبائے ہوئے سگریٹ کا گہرا کش لیتی تھی کش لینے کے بعد وہ دھویں کا بھاری مرغولہ فضا میں چھوڑتی تھی اور پھر ایک اور گہرا کش لگاتی اسی طرح وہ پچھلے دو گھنٹوں میں بارہ سگرہٹ پھونک چکی تھی۔
" ایس کے!"
اسے اپنے عقب سے کسی کی پکار سنائی دی تھی اس نے سرخ ہوتی آنکھوں کے بھاری پپوٹوں کو بامشکل کھول کر آواز کی سمت دیکھا تھا جہاں ایک درمیانے سے تھوڑے چھوٹے قد کا آدمی کھڑا تھا۔
" بس کردیں اتنے سگریٹ پیئں گئی تو بیمار پڑ جائیں گی۔"
اس آدمی کے لہجے سے اس کے لیے احترام اور بے حد فکر جھلک رہی تھی۔
" اور اگر اتنے سگریٹ نہ پیے نہ تو میں مر جاوں گئی غلام بخش۔"
غلام بخش کو مضبوط و توانا عورت کا لہجہ آج ٹوٹ پھوٹ کا شکار لگا تھا اسے لگا تھا جیسے آج شیرنی کو کوئی توڑ گیا ہو۔
" غلام بخش! ایک اچھی سی اور سٹرونگ سی ڈرینک بنا کر لاو۔"
اس کے شکستہ لہجے میں دیے جانے والے حکم پر غلام بخش کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا۔
" ایس۔کے پاگل ہوگئیں ہیں کیا آپ؟"
غلام بخش صدمے سے چلا ہی اٹھا تھا۔
" تمہیں کیا پتہ ہو غلام بخش جب دل میں بدلے کی آگ لگی ہوتی ہے نہ تو پورا وجود اس آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے پھر سگریٹ کا دھواں اور شراب کا نشہ بھی مدہوش نہیں کرپاتا روح بے چینی کی زد میں آجاتی ہے۔"
اس کے لہجے کی شکستگی کی جگہ اب غصے نے لے لی تھی اور جس راکنگ چئیر پر وہ جھول رہی تھی اس کے ہلنے میں بھی تیزی آگئی تھی۔ غلام بخش نے شراب کا گلاس بھر کر اس کی جانب بڑھایا تھا جسے وہ ایک ہی سانس میں ختم کرگئی تھی پورا گلاس بھر کر پینے کے باوجود بھی ایس۔کے اپنے پورے ہوش و حواس میں تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کشمیر میں سردی کا زور بڑھتا ہی جارہا تھا۔ مائرہ کے فلیٹ میں بھی آتش دان جل رہا تھا اور وہ لاونج میں رکھے صوفوں میں سے ایک پر لحاف اوڑھے بیٹھی ہوئی تھی۔ مائرہ نے ایک کافی کا بھرا ہوا بھاپ اڑاتا مگ اس کی جانب بڑھایا اور دوسرا خود لے کر اسی کے ساتھ لحاف میں گھس گئی۔
" تمہیں کیا لگتا ہے زارا کہ اب آگے کیا ہونے والا ہے؟"
مائرہ نے گرم گرم کافی کا گھونٹ بھر کر زارا سے پوچھا تھا۔جس پر زارا نے چونک کر کچھ ناسمجھی کی کیفیت میں مائرہ کی جانب دیکھا تھا۔
" میں سمجھی نہیں آپ کی بات۔"
زارا نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ناسمجھی سے اس سے کہا تھا۔
" تمہیں کیا لگتا ہے زارا تم بھاگ کر انڈیا سے باڈر کراس کرکے یہاں پاکستان آگئی ہو تو وہاں کی آرمی تمہیں چھوڑ دے گی نہیں زارا وہاں کی آرمی تمہارے پیچھے ہے صرف وہاں ابھی یہ بات پھیلی نہیں ہے کہ تم ان کی نظروں سے بچ کر بغیر ویزے کے باڈر کراس کرچکی ہو اور دوسری بات وہ لوگ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون تھے اور ان کا کیا مقصد تھا لیکن اگر وہ تمہارے پیچھے بھاگے تھے تو اس کا مطلب صاف تھا کہ ضرور تم نے کوئی ایسی بات سنی ہے جو ان کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے اور جو تم نے سنا وہ تم نے جبرئیل اور کرنل کو بتا دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان باتوں میں ایسی کیا خاص بات ہے جس کے کھلنے کے ڈر سے انہیں نقصان ہوسکتا ہے۔"
مائرہ آرمی میں ڈاکٹر تھی اس کی ٹریننگ بھی سارے کیڈٹس کی طرح ہی ہوئی ہوئی تھی اس لیے وہ زارا کو وہ سارے پہلو بتا رہی تھی جن پر معمکنہ طور پر تمام آفسران کو سوچنا تھا اور وہ سوچ بھی رہے تھے ایسے میں سب سے زیادہ قیمتی جان زارا کی ہی تھی کیونکہ وہ واحد شاہد تھی جس نے ان کی آوازیں سنی تھی اور گفتگو بھی اور سب سے زیادہ خطرہ بھی زارا نور کی جان کو ہی تھا۔
مائرہ کی باتیں سن کر زارا کا رنگ لمہوں میں فق ہوا تھا اور خوف سے اس کی رنگت پیلی پڑ رہی تھی۔
" ریلیکس زارا تمہیں کچھ نہیں ہوگا جبرئیل نے خود تمہاری زمہ داری لی ہے اور تم یقین نہیں کروگی مگر جبرئیل از ایکسٹرا بریلیٹ ان ہز ورک۔"
مائرہ کے لہجے میں زارا کو جبرئیل کے لیے ایک عجیب سا مان محسوس ہوا تھا نجانے کیوں مگر جبرئیل پر زارا کا اعتماد بھی مزید پختہ ہوا تھا۔
وہ گھڑی وہ پل وہ وقت ہی تو تھا
وہ لمہے وہ سماں وہ رنج ہی تو تھا
تیرا دل وہ وجود اور لمس ہی تو تھا
میری دھڑکن اور دھڑکتا دل ہی تو تھا
وہ مسکان وہ شرم اور درد ہی تو تھا
تیرا بچھڑنا چھوڑنا اور جانا ہی تو تھا
میرا ٹوٹنا بکھرنا اور مرنا ہی تو تھا
( ایمن خان )
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ تینوں جبرئیل کے لاونج میں بیٹھے اسی کی بنائی گئی کافی سے انصاف کر رہے تھے۔ جبرئیل کے چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی کا راج تھا شاہد یہ صاریہ کی کال کا اثر تھا کہ اس کا دن برباد ہوچکا تھا۔
" کیا ہوگیا یار؟"
طراب نے اس کی خاموشی محسوس کرکے آخر کپ میز پر رکھ کر سوال پوچھ ہی ڈالا تھا۔
" آہ کچھ نہیں بس یہی جو آج کل ہورہا ہے میں اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔"
اس نے اپنے کپ سے آخری گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تھا۔
" کیا ہورہا ہے آج کل جو بھی ہورہا ہے یار یہ تو ہماری زندگیوں کا حصہ ہے اور اس سب کو فیس کرنے کی اب تو عادت ہوچکی ہے اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟"
طراب کو جبرئیل کی خاموشی کی سمجھ بالکل بھی نہیں آرہی تھی ہمشہ جب کوئی کیس آتا وہ پرجوش ہوجاتا تھا کہ اسے کم نقصان کے ساتھ کیسے نپٹائے مگر اس دفعہ وہ خود خاصہ جھنجھلایا ہوا لگ رہا تھا۔
" تو سمجھ نہیں رہا طراب اس دفع معاملہ ایک لڑکی کا ہے یار اس کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے مجھے اس کے لیے کوئی بہت ہی محفوظ ٹھکانہ تلاش کرنا ہے جہاں پر اس تک کوئی پہنچ نہ پائے۔"
جبرئیل انتہائی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا جب کہ اسامہ بے حد خاموش تھا۔
" اب تجھے کیا ہوگیا ہے؟"
طراب نے اب کی بار اسامہ کو آڑھے ہاتھوں لیا تھا۔
" آہ۔۔ہاں کچھ نہیں میں تو بس ایسے ہی۔"
اسامہ نے گڑبڑا کر جواب دیا تھا۔
" چلو تم دونوں نکلو اب ٹائم کافی ہوگیا ہے مجھے بھی صبح ڈائیرکٹ کرنل خاور کے پاس یونٹ پہنچنا ہے۔"
جبرئیل نے ان دونوں سے کہا تھا اور خود اٹھ کر تینوں کافی کے کپ ٹرے میں رکھے تھے اب اس کا رخ کیچن کی جانب تھا۔
" چل پھر صبح میٹنگ پر ملتے ہیں۔"
وہ دونوں اس سے مل کر باہر نکل گئے تھے جب کہ وہ کیچن سے کپ دھو کر اپنے بیڈ روم میں آگیا تھا اس کی سوچ کا مرکز مسلسل صاریہ اور زارا تھیں اس نے سر جھٹک کر سائیڈ لیمپ اف کرکے آنکھیں موند لیں تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آنیہ لاونج میں ہلکی پیلی روشنی میں صوفے پر لحاف اوڑھے بیٹھی ہوئی تھی اس لمہے اس نے آنکھوں پر اپنے نظر کے چشمے لگا رکھے تھے جن کو وہ صرف پڑھنے وقت استعمال کیا کرتی تھی اس کے آگے صوفے پر دو تین موٹی موٹی کتابیں کھلی ہوئی تھیں ساتھ میں ایک رجسٹر رکھا ہوا تھا کچھ چیزیں میز کی زینت بنی ہوئی تھیں چیزوں کے ساتھ ہی میز پر بھاپ اڑاتا ہوا گرما گرم چائے کا مگ بھی رکھا ہوا تھا۔ وہ اپنے سلکی سیاہ بالوں کو ڈھیلے سے جوڑے میں لپیٹے مکمل طور پر کچھ لکھنے میں غرق تھی جب اس کے فون کی مسج ٹون نے اس کی توجہ اپنی جانب کروائی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھایا اور ان باکس اوپن کیا تو سبتین کا مسج چمک رہا تھا۔
" فری ہو تو ایک کپ چائے دے جاو زیبا تو شاہد سوگئی ہے اور آپا سے کہنا تو تمہیں معلوم ہی ہے۔"
اسی کے ساتھ افسردہ ایموجی بنائی گئی تھی جسے دیکھ کر آنیہ کو ہنسی آگئی تھی۔اس نے مسکراتے ہوئے ٹائپ کیا تھا۔
" فری تو نہیں ہوں مگر میں نے اپنے لیے چائے بنائی ہے ابھی ابھی آپ فری ہیں تو وہ لے جائیں آکر میں بعد میں خود دوسری بنا لوگی۔"
اس نے سینڈ کرکے فون ایک طرف رکھ دیا اور خود واپس لکھنے میں مگن ہوگئی۔کچھ ہی دیر میں سبتین اپنے کمرے سے باہر نکل آیا تھا۔ وہ سیڑھیوں پر کھڑا تھا جب اس کی نظر نیچے بیٹھی لکھنے میں مگن آنیہ پر پڑی تھی وہ اپنے کام میں اتنی مگن تھی کہ اسے کسی اور بات کا کوئی ہوش نہیں تھا اور زندگی میں شاید پہلی بار سبتین نے آنیہ کو اتنے غور سے دیکھا تھا اسے ایک عجیب سے احساس نے گھیرا تھا۔ وہ آہستگی سے سیڑھیاں اترتا ہوا لاونج میں آگیا تھا۔ آہٹ پر آنیہ نے سر اٹھا کر دیکھا تھا اور مسکرائی تھی۔
" یہ چائے یہاں رکھی ہے ٹیبل پر میں نے کچھ دیر پہلے ہی بنائی ہے ابھی گرم ہی ہے۔"
اس نے سرسری سا کہا تھا اور کپ اٹھا کر اس کی جانب بڑھایا تھا جسے شکریہ کے ساتھ اس نے تھام لیا تھا۔
" اتنی رات گئے تک تم پڑھ رہی ہو سو جاو بس کرو۔"
اس نے چائے کے مگ سے گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا تھا۔
"میرا کل ایک امپورٹنٹ ٹیسٹ ہے اسی کی تیاری کررہی ہو۔"
اس نے جھنجھلاتے ہوئے کہا تھا۔
" اوکے یو کیری ان اینڈ تھینکس فار دس۔"
اس نے مسکرا کر چائے کی جانب اشارہ کیا تھا اور پھر سیڑھیاں چڑھ گیا تھا۔"
اس کے جاتے ہی آنیہ نے گہرا سانس بھرا تھا وہ ہمشہ اسے یونہی نروس کرجاتا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
" ہاں کچھ پتہ چلا کہ کہاں گئی وہ؟"
داور کمال نے سگار سلگاتے ہوئے اپنے سامنے کھڑے آدمی سے پوچھا تھا۔
" صاحب بی بی اپنے کہنے کے مطابق گووا میں ہی ہیں۔"
سامنے کھڑے آدمی نے مودب لہجے میں ان سے کہا تھا۔
" ہوں!"
انہوں نے گہرا ہنکارا بھرا تھا اس لمہے وہ اپنے جدید طرز کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے اور سامنے کھڑا ہونے والا ان کا خاص ملازم تھا۔
" گووا میں کس کے ساتھ ہے وہ؟"
اب کی بار انہوں نے سامنے کھڑے شخص سے وہ سوال کر ڈالا تھا جو کافی دیر سے ان کے دل میں مچل رہا تھا۔
" صاحب ویسے تو پورا ایک گروپ ہے لیکن انہیں دو تین بار اکیلے کسی لڑکے کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔"
ملازم نے ایک بار پھر سے ان کے اوسان خطا کیے تھے۔
" اس پر نظر رکھو امین! اس کے پل پل کی خبر کرو مجھے وہ کہاں جاتی ہے کب جاتی ہے اور کس کے ساتھ جاتی ہے ساری ڈیٹیل چائیے مجھے ہر ایک ایک تفصیل سمجھے نہ آلینہ تمہاری آنکھوں سے ایک لمہے کے لیے بھی اوجھل نہیں ہونی چائیے سمجھے نہ؟"
ساری ہدایات جاری کرنے کے بعد انہوں نے تائیدی نگاہوں سے امین کو دیکھا تھا جو ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
" جو حکم صاحب!"
وہ ان سے اجازت لے کر کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ انہوں نے سامنے پڑا ہوا اپنا فون اٹھا کر کسی کو کال ملائی۔ تقریبا دوسری بیل پر ہی دوسری جانب سے فون اٹھا لیا گیا تھا۔
" ہاں وہ گووا میں ہی ہے اپنے دوستوں کے گروپ کے ساتھ۔"
انہوں نے کچھ دیر پہلے کی جانے والی گفتگو کسی کے گوش گزار کی تھی۔
" ہاں ہاں میں نے اس پر نظر رکھوائی ہوئی ہے تم فکر مت کرو علینہ کی طرف سے بس تم اپنے کام کرو۔"
ایک بار پھر سے کہہ کر انہوں نے چند رسمی جملوں کے بعد فون کاٹ دیا تھا۔ اب وہ قدرے پرسکون تھے ورنہ انہیں آلینہ کی فکر کھائے جارہی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
صبح آٹھ بجے کے قریب سب یونٹ پہنچ چکے تھے۔ یونٹ کے ایک بہت بڑے حال میں یہ میٹنگ رکھی گئی تھی۔میز کے دونوں جانب کرسیاں رکھی گئی تھیں اور ان کرسیوں پر کرنل خاور کی ٹیم براجمان تھی اس لمہے اس حال میں کیپٹن شمس،کیپٹن عبداللہ،لیفٹئننٹ طلال، کیپٹن معضم، میجر اسامہ رحمان، میجر طراب علی اور میجر جبرئیل خان کے علاوہ کرنل احسن اور کرنل خاور موجود تھے۔ یہ سب افسران کرنل خاور کی ٹیم میں تھے جو پچھلے تیرا سال سے ایک کیس پر کام کررہے تھے اور کسی وجہ سے تب وہ کیس بند ہوگیا تھا لیکن اب جبکہ کشمیر میں دنگے فساد شروع ہوئے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے قریب باڈر پر کئی مہینوں سے ٹیوٹی دینے کے بعد کچھ بہت ہی اہم حقائق تھے جو وہاں موجود افسران کے سامنے آیے تھے اور ان حقائق کو کرنل احسن کی زبانی سننے کے بعد یہ تمام قصہ چیف تک پہنچ چکا تھا اور اس لیے بات اب بہت آگے جاچکی تھی اسی پر لاحہ عمل کے لیے باقاعدہ میٹنگ رکھی گئی تھی کیونکہ اب وقت آگیا تھا کہ سب کو سب کی زمہ داریاں دی جاسکیں۔
کرنل خاور نے سربراہ کی کرسی سمبھالی تو ان کے سامنے والی کرسی پر کرنل احسن براجمان ہوگئے۔ باقی سب افسران سائیڈ پر رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھے ان کے بولنے کے منتظر تھے۔
میٹنگ میں کرنل خاور نے تمام افسران کو کچھ ضروری ہدایات دی تھیں اور تقریبا ایک گھنٹے کے بعد وہ میٹنگ اپنے اختتام کو پہنچی تھی سب جونیر افسران میٹنگ کے ختم ہوتے ہی باہر چلے گئے تھے جبکہ سینئیر افسران ابھی بھی اسی کمرے میں موجود تھے۔
" ہاں تو تم بتاو جبرئیل کیا معاملہ ہے؟"
کرنل خاور نے اپنی انگلیوں کے درمیان بال پوائنٹ گھما کر سنجیدگی سے اس کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے کہا تھا۔
" سر! احسن سر آپ کو ساری صورتحال تو بتا ہی چکے ہیں کہ کس طرح سے وہ لڑکی میرے پاس آئی اس وقت اس کی کیا حالت تھی اور پھر اس کے ہوش میں آنے کے بعد جو کچھ اس نے بتایا وہ سب آپ کے سامنے تھا۔"
جبرئیل نے اپنی بات ختم کرکے ان کے جواب کے لیے ان کی جانب دیکھا تھا جو بالکل خاموش کسی اہم نقطے پر سوچ رہے تھے۔
" جبرئیل! کیا تم نے یہ سوچا اگر وہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہوئی پھر؟"
انہوں نے بال پوائینٹ اپنے نچلے ہونٹ پر رکھ کر اس سے پوچھا تھا۔
" سر اس کی باڈی لینگویج سے کسی صورت ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے وہ بہت ڈری ہوئی تھی سر اس کے بازو میں گولی لگی ہوئی تھی اس کا سکارف ایک جانب کو ڈھلکا ہوا تھا اور وہ یہاں میرے بازوں میں بے ہوش ہوئی تھی۔"
وہ حد درجہ جذباتی ہوکر ان سے کہہ رہا تھا جس پر سب منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے مگر کرنل خاور ہنوز سنجیدہ ہی تھے۔
" اس پر نظر رکھو جبرئیل اور اس پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی سیکیورٹی کی زمہ داری بھی تمہیں ہی لینی ہوگی تو بہتر ہے تم اسے پشاور لے جاو اور اپنے گھر میں رکھو اس طرح سے تم اس پر نظر بھی رکھ سکو گئے اور حفاظت بھی کرسکو گئے۔"
انہوں نے اسے حکم دے کر اس کی جانب دیکھا تھا جو حیرت میں گھرا ہوا تھا۔
" مگر سر میرے گھر!"
اس نے ناسمجھی سے ان کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
" اینی پرابلم میجر جبرئیل؟"
کرنل خاور نے اسے نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا تھا۔
" نو۔۔نو سر!"
وہ جلدی سے بولا تھا۔
" ڈیٹس گڈ آپ مجھے کچھ دیر میں میرے آفس میں ملیں ضروری بات کرنی ہے اور آپ سب لوگ زارا کیس کے سلسلے میں کرنل احسن کے انسٹرکشنز فولو کریں سب سے پہلے پتہ لگائیں کہ وہ دو آدمی کون تھے اور دوسری بات جس سیکیورٹی سسٹم کی بات وہ لوگ کررہے تھے وہ خصوصی پاکستان کا تھا اس بات پر زور دیا گیا ہے تو پاکستان میں بہت ساری سیکیورٹی ایجنسیاں ہیں جس میں سے کسی ایک کا پاسورڈ حاصل کرنے سے بھی ملک کی ساکھ بہت زیادہ متاثر ہوسکتی ہے ملک کو خطرہ ہوسکتا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان ایجنسیوں میں سے ایسی کونسی ایجنسی ہے جس کے اندر گھسنے سےاتنا بڑا نقصان ہوگا کہ اس کا سارا فاعدہ دشمن ملک کو پہنچے گا۔"
کرنل خاور نے پورا شجرہ نصب کھول کر رکھ دیا تھا اور اس لمہے اس میٹنگ میں بیٹھا ہر فرد فکر مند اور پرسوچ دیکھائی دے رہا تھا۔
" اس پر ورکنگ کریں اور پھر کچھ پتہ چلتا ہے تو مجھے انفارم کریں سب سے پہلے تو ہمیں لڑکیاں بچانی ہیں۔"
وہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تھے جبکہ باقی سب ابھی بھی وہی جمے ہوئے تھے انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کام شروع کہاں سے کریں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ جلتی بلی کے پیر کی طرح کمرے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی غصے اور احانت سے اس کا چہرہ سرخ پڑ رہا تھا۔
" سمجھتا کیا ہے خود کو کہ میں اس کے آگے اپنے پیار کی بھیک مانگتی رہو گئی اور وہ ہر بار مجھے ٹھکراتا رہے گا لیکن کب تک آخر مجھ سے پیچھا چھڑائے گا وہ۔"
وہ کمرے میں چکر کاٹتی ہوئی مسلسل بڑ بڑا رہی تھی۔ بیڈ پر تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھی زیبا اس کی بڑ بڑاہٹ بخوبی سن رہی تھی اور اسے ہمشہ کی طرح افسوس نے ہی گھیرا ہوا تھا۔
" آپا! کبھی تو خود سے ہٹ کر بھی سوچ لیا کرو ہر بار اپنا ہی خیال سب سے پہلے کرتی ہو تم؟"
زیبا نے ہاتھوں پر لوشن لگاتے ہوئے کہا تھا۔
" تم اپنی بکواس بند رکھو یہ جو آجکل تمہارا اور آرون کا چل رہا ہے نہ دیکھ رہی ہو میں سب اندھی نہیں ہو میں مجھے سب نظر آرہا ہے۔"
اس نے زیبا کی جانب ایک اور تیر پھینکا تھا جو سیدھا نشانے پر لگا تھا اس کے کیے جانے والے وار پر تو زیبا صدمے سے بے ہوش ہونے کے قریب تھی کچھ نہ کر کے بھی اس پر اتنا بڑا الظام اسی کی بہن نے لگایا تھا۔
" خدا کا نام لو آپا! مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم اپنی سگی بہن کے بارے میں ایسا سوچتی ہو؟"
ناچاہتے ہوئے بھی زیبا کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں شاہد خود کے بارے میں ایسا الظام زیبا کے لیے ناقابل فراموش تھا۔
" ہاں تو جو ہے وہی بولوں گی نہ دونوں بھائی ہی پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتے ہیں بڑے کے مزاج نہیں ملتے اور چھوٹا پھسانے کے چکر میں ہے۔"
وہ نخوت سے منہ بناتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" آپا! اللہ نے ہر انسان کے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھی ہے شعور دیا ہے کہ وہ خود کے بارے میں کچھ بہتر فیصلہ لے سکے تو معاف کرنا جبرئیل بھائی کی جگہ تو اگر میں بھی ہوتی نہ تو تم جیسی خود غرض لڑکی کی محبت کبھی قبول نہ کرتی محبت میں جو خراج تم جبرئیل بھائی سے چاہ رہی ہو نہ وہ ناقابل فہم ہے۔"
وہ آنسو صاف کرتی ہوئی غصے سے کہہ کر بیڈ سے اپنا تکیہ اور چادر اٹھا کر باہر نکل گئی اب اس کا رخ آنیہ کے کمرے کی جانب تھا جبکہ صاریہ کو تو اس کے جملے پتنگے ہی لگا گئے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ سفید خوبصورت چہرے کے گرد سرخ سکارف لپیٹے وہ کوئی نورانی مورت والی گڑیا لگ رہی تھی۔ وہ سکارف لپیٹ کر آئینے کے سامنے کھڑی اپنا جائزہ لے رہی تھی۔ صاف رنگت پر نارمل نقوش اس کے سکاف کے ہالے میں لپٹے ہوئے چہرے پر بہت جچ رہے تھے۔ وہ ابھی وہی کھڑی تھی شاہد آج سے پہلے اس نے اپنا اتنا خوبصورت روپ کبھی نہیں دیکھا تھا۔وہ خود میں محو تھی جب دروازے پر دستک ہوئی تھی اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ عورت شفیق مسکراہٹ چہرے پر سجائے اسی کی جانب دیکھ رہی تھیں۔
" ماشاءاللہ بیٹا! تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔"
انہوں نے اس کے قریب آکر اسے کندھے سے تھام کر کہا تھا جس پر وہ بھی مسکرائی تھی شاہد زندگی میں پہلی بار سب کچھ بھول کر وہ مسکرائی تھی اور یہ مسکراہٹ اس کے دل کی دنیا عیاں کررہی تھی۔
" شکریہ اماں! یہ آپ کی اور بابا کی بدولت معمکن ہوا ہے کہ مجھے اتنا سکون مل رہا ہے ورنہ شاہد میں تو سکون ہی بھول گئی تھی۔"
اس نے اپنی آنکھ کے گوشے سے نکلتے ہوئے آنسو کو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ رات سے مسلسل ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی۔ مائرہ کی کہی گئی باتیں بار بار زارا کی سماعتوں میں گونج رہی تھیں۔ وہ ایک ہی رات میں ٹھیک ٹھاک ہراساں ہوچکی تھی۔ وہ دو دن سے انہی کپڑوں میں ملبوس تھی جوگرد آلود تھے مائرہ کے لاکھ کہنے کے باوجود بھی زارا نے اپنی کشمیری کڑھائی والا سوٹ نہیں اتارا تھا۔ وہ سوٹ اس کی ماں نے اپنے ہاتھوں سے زارا کے لیے بنایا تھا اس لیے وہ اسے بدل نہیں رہی تھی۔ ڈر اور خوف اس کے دل و دماغ میں بری طرح گھر کر چکا تھا۔ وہ اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھی ہوئی تھی جب مائرہ نے اس کے قریب آکر اسے کندھے سے ہلایا تھا۔
" زارا ! بس کرو اب اٹھو اور یہ سوٹ لو میرا اور جاکر شاور لو دیکھو کیا حالت ہوئی ہے تمہاری۔"
مائرہ نے اسے اٹھاتے ہوئے زبردستی سوٹ اس کے ہاتھ میں تھمایا تھا۔
" مائرہ آپی! مجھے نہیں پہننا یہ میری اماں کے ہاتھ کا بنایا ہوا سوٹ ہے میں کیسے اسے الگ کردوں۔"
زارا تکلیف سے کہہ رہی تھی جس پر مائرہ بھی کچھ نرم پڑی تھی۔
" جانتی ہوں میں زارا لیکن تم ایسے نہیں پھر سکتی ہو اپنی حالت دیکھو کیا بنی ہوئی ہے۔"
مائرہ نے اسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا تھا۔
" وہ لوگ مجھے مار دیں گئے نہ؟"
وہ ہراساں چہرے کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
" کوئی نہیں مارے گا تمہیں زارا ہمارے ہوتے کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا یو جسٹ ریلیکس تم فریش ہو کر آو پھر میں نے تمہاری بینڈیج بھی تبدیل کرنی ہے۔"
مائرہ نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا تھا جس پر وہ قدرے ریلیکس بھی ہوگئی تھی اور اس سے کپڑے تھام کر وہ شاور لینے چلی گئی تھی جبکہ اس کے جانے کے بعد مائرہ نے جبرئیل کو کال ملائی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ پشت پر ہاتھ باندھے انتہائی مودب انداز میں کرنل خاور کے سامنے ان کے آفس میں کھڑا تھا۔
" سٹ ینگ مین!"
انہوں نے سامنے رکھی ہوئی کرسی کی جانب اشارہ کیا تو وہ سر ہلا کر اس کرسی پر بیٹھ گیا۔
" ہاں تو بتاو جبرئیل کیسے ہو تم؟"
وہ اب اپنے سابقہ دوستانہ انداز میں لوٹ آئے تھے۔
" الحمدواللہ سر!"
اس نے مسکرا کر کہا تھا۔
" جبرئیل! تم جانتے ہو کہ آج سے تیرہ سال پہلے کیا ہوا تھا؟"
کرنل خاور یک دم سنجیدہ ہوئے تھے جس پر جبرئیل حیرت اور ناسمجھی کی ملی جلی کیفیت میں کرنل خاور کی جانب دیکھ رہا تھا۔
" سر آج سے تیرہ سال پہلے تو بابا کی شہادت ہوئی تھی۔"
اس نے کچھ الجھے ہوئے لہجے میں تیرہ سال پہلے شہید ہونے والے اپنے بابا کے بارے میں کہا تھا۔
" یس ایگزیکلی! لیکن کیا تمہیں یہ پتہ کہ وہ شہید کیسے ہوئے تھے؟"
کرنل خاور پتہ نہیں اسے آج کیا بتانا چاہ رہے تھے.
" سر! وہ کوئی ڈرگز کا کیس تھا جس پر انہوں نے کوئی فائل کھلوائی تھی شاہد لیکن پھر کسی حملے میں وہ مارے گئے تھے۔"
وہ انتہائی سوچ سوچ کر بول رہا تھا جیسے شاہد خود کو بھی اصل بات معلوم نہ ہو۔
" جبرئیل وہ کسی حملے میں شہید نہیں ہوا تھا اسے شہید کیا گیا تھا اور نہ صرف اسے بلکہ تمہارے چچا کو بھی۔"
کرنل خاور کے چہرے پر ایک عجیب سی اذیت تھی جسے جبرئیل سمجھنے سے قاصر تھا۔
" کیا مطلب ہے آپ کا؟ کہ میرے بابا کا مرڈر!۔۔۔؟؟"
اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس قسم کے تاثرات کا اظہار کرے۔
" ہاں نہ صرف برگیڈیر ابراہیم کا مرڈر کیا گیا تھا بلکہ کرنل اسمائیل کو بھی مارا گیا تھا۔"
کرنل خاور اپنی آنکھوں میں آئی ہوئی نمی کو خود میں اتارتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
YOU ARE READING
دہلیز کے پار وہ ( مکمل✔)
Mystery / Thrillerیہ کہانی ہے ظلم سے لڑتے لوگوں کی۔۔ اپنی عزتیں بجاتی لڑکیوں کی۔۔ ایک ایسی لڑکی کی جس نے عزت کی خاطر اپنا گھر اور اپنی ماں کھو دی۔ ایک ایسے جانباز سپاہی کی جو ملک کی خاطر سینہ تان کر کھڑا رہتا ہے لاکھوں ،ماوں بہنوں کی عزتوں کے رکھوالوں کی۔۔ یہ کہانی ہ...