Episode#2

4.5K 188 46
                                    

وہ فائلز ہاتھوں میں تھامے آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ ریاض احمد کا آفس اب چند قدموں کی مسافت پے تھا۔ کہ اچانک ایک بھاری  وجود سے اس کا زبردست تصادم ہوا تھا۔ اسکا سر ایک دم  سے گھوم گیا تھا۔ آنکھوں کے سامنے تارے ناچتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی چٹان سے ٹکرا گئی ہو۔ اس نے   شدید غصے میں سر اٹھا کر دیکھا تھا۔ 
"آنکھیں ہیں یا بٹن ؟دکھائی نہیں دیتا کیا آپ کو ؟ بینائی  کس کو کرائے  پر  دے آئے  ہیں ؟"
وہ اپنے سامنے کھڑے اجنبی کو تیش بھری  نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بولی تھی۔
جب کے مخالف سمت میں کھڑا وہ شخص  گلابی حجاب کے حالے میں یہ حسین چہرہ دیکھنے میں مگن تھا۔  وہ بلاشبہ بہت حسین تھی۔ خوبصورت گرے آنکھیں جن میں کاجل کا نام و نشان بھی نا تھا پر اس کے بغیر بھی وہ بہت حسین لگتی تھیں۔ وہ انتہائی معصوم اور خوبصورت تھی گرے خوبصورت آنکھیں میں آشنا لوگوں کے لیے شرارت جبکہ غیر لوگوں کے لیے ایک عجیب سی سردمہری ہوتی تھی گرے آنکھوں کو گھنی پلکوں کی جھالر نے ڈھانپا ہوتا تھا سپید رنگت پر تیکھی ناک اور عنابی خوبصورت ہونٹ سجائے اپنے شفاف چہرے کے گرد گلابی حجاب لپیٹے وہ حسن کا چلتا پھرتا مجسمہ تھی۔۔
"اوہ ہیلو کہاں کھو گئے ہیں ؟ فائلز پکڑایے اب۔۔"
وہ حکم سنا رہی تھی۔
"بدتمیز لڑکی ایک تو اتنی زور سے ٹکرائی ہو اور اس طرح مجھے آرڈر کر رہی ہو۔۔ جانتی بھی ہو میں کون ہوں ؟"
وہ شخص اس سے بھی زیادہ غصّے سے بولا تھا۔
"سوری کل کے اخبار میں میں نے آپ کی  کوئی بھی خبر نہیں پڑھی۔ لہذا خود ہی بتا دیں  کونسے سیارے سے آئے ہیں؟ "
"کیا میں تمہیں Alien  نظر آ رہا ہوں ؟"
اسکی بات پر وہ  انتہائی جلا دینے والی مسکراہٹ لئے فائلز اٹھا کر آگے بڑھ گئی۔
جب کے زیان اس کے آگے آیا تھا اور کہا تھا
"تمیز سے بات کرنا سیکھو لڑکی۔ مجھ سے آیندہ اس طرح بات کی تو انجام کی تم خود زمہ دار ہو گی ۔۔"
یہ کہہ  کر وہ رکا  نہیں تھا  بلکے ہوا کی تیزی سے آگے بڑھ گیا تھا۔
"سڑیل کہیں کا " وہ بڑبڑائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سمجھتا کیا ہے خود کو ۔۔ حکم ایسے چلا کر گیا ہے جیسے یہ آفس اس کے باپ کا ہو اور ہم اسکے ملازم ہوں۔ "
وہ غصّے سے پیچ و تاب کھا رہی تھی۔
"یار ویسے ایک بات کہوں ؟" زرشالہ نے اس کے غصّے سے سرخ چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے ڈرتے ڈرتے  کہا تھا۔
"ہاں بولو ؟" وہ پرانے انداز میں ہی بولی تھی۔
"یہ آفس سچ میں اسکا  ہے۔  جس سے تم ابھی بحث کر کے آ رہی ہو وہ ہمارے باس کا پوتا ہے۔۔"
"کیا مطلب ؟"
"مطلب یہ پاگل کہ ریاض احمد اس کے دادا ہیں۔۔۔"
"کیا سچی میں ؟" وہ شاید کنفرم کرنا چاہ رہی تھی۔
"نہیں نہیں مذاق  کر رہی تھی۔ " زرشالہ نے اپنا سر پیٹا تھا۔
"شکر ہے میں تو پریشان ہی ہو گئی تھی۔ "
"پاگل عورت میں سچ کہہ رہی ہوں۔ "
"اف اب کیا ہو گا زری"
"ہونا کیا ہے جاب گئی تمہاری ۔ تمہیں ابھی اس خبطی انسان کا پتا نہیں ہے۔ "
"نکال کر دیکھے اسے بھی ابھی تک میرا پتا نہیں ہے۔ "
"تم اس کو سیریس نہیں لے رہی۔ وہ واقعی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ "
"کر تو میں بھی بہت کچھ سکتی ہوں۔  "
"کیا مطلب ہوا اس بات کا "
"Just Wait And Watch"
"عنایہ کیا کرو گی تم ؟" زرشالہ واقعی پریشان ہوئی تھی۔
"فکر نہیں کرو تم۔  میں ایسے ہی کسی کو پریشان نہیں کرتی بس کوئی مجھ سے پنگا لے تو ایسا  جواب دیتی ہوں کے اگلے بندے کی دوبارہ ہمّت نہیں ہوتی۔ " عنایہ نے تسکین آمیز مسکراہٹ ہونٹوں پے لئے جواب دیا تھا۔
"چلو تم نے سر کو فائلز دینے نہیں جانا تھا؟"
"اوہ ہاں اس کھڑوس کے چکر میں تو میں یہ  بھول ہی گئی تھی۔ چلو میں چلتی ہوں سی یو۔ "
"ہاں دھیان سے جانا کہیں دوبارہ نا ٹکرا جاؤ۔ "
زرشالہ کہہ کر اپنے کیبن کا دروازہ بند کر چکی تھی۔ کیوں کہ عنایہ کا کوئی بھروسہ نہیں تھا وہ ادھر ہی اسکی شامت لے آتی۔
عنایہ بھی سر جھٹکتی ہوئی ریاض احمد کے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ غصے سے انکے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔  کمرے میں پہلا قدم رکھتے ہی اسکا چہرہ غصّے سے سرخ ہوا تھا کیوں کہ عنایہ کی بات وہ سن چکا تھا۔
"سر آپ سیکورٹی گارڈ کو سخت تاکید کریں کہ وہ اپنی ڈیوٹی ٹھیک سے کیا کرے پتا نہیں کیسے کیسے لوگوں کو آفس کے اندر  بھیج دیتا ہے۔ "
اس کی بات سن کے زیان کو اندر  داخل ہوتا دیکھ کر وہ ساری بات سمجھ چکے تھے۔ اور اس وجہ سے انکے لبوں پے ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
"دادا آپ نے یہ کس کو صفائی والی رکھ لیا ہے۔  دیکھیں کتنی دھول ہے یہاں۔ "
اپنے بارے میں ایسے الفاظ سن کر زیان حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ  رہا تھا پھر جواب دینا تو اسے بھی خوب آتا  تھا۔وہ  بھلا کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔
"مسٹر میں یہاں جاب کر رہی ہوں اور صفائی والے ہو گیں آپ "
عنایہ نے فوراً جواب دیا  تھا۔
"بس کریں آپ دونوں۔
Let me introduce both of you.."
ان کی لڑائی کو بڑھتا ہوا دیکھ کر ریاض احمد درمیان میں بولے تھے۔
"عنایہ یہ زیان ہے میرا پوتا اور زیان یہ عنایہ ہے ہمارے آفس کی نئی ورکر۔ اب آپ دونوں مجھے اس طرح سے بات کرتے نظر نا آئیں"
"یس سر "
عنایہ کہہ کر کرسی پے بیٹھ چکی تھی اور اس نے ایسے ظاہر کیا تھا جیسے وہ واقعی سامنے  کھڑے شخص کو نہیں جانتی کے وہ کون ہے۔ زیان بھی اس کی برابر والی کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔ وہ لوگ کمپنی کے نئے پروجیکٹ کے بارے میں گفتگو کرنے لگے  تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"پر یار کیا ضرورت تھی اتنی بڑی پارٹی منظم کرنے کی؟"
عنایہ سخت جھنجھنلاہٹ کا شکار تھی۔ زرشالہ بھی آج اس کے گھر میں آئی ہوئی تھی۔
"اف دیکھو وہ زیان احمد پہلی دفع اتنا بڑا  پروجیکٹ کامیابی سے پورا کر کے آیا ہے اس خوشی میں سر نے یہ پارٹی رکھی ہے۔"
زرشالہ نے اسے پیار سے سمجھایا تھا۔
"تو اس میں کونسی اتنی بڑی بات ہے؟"
وہ ابھی بھی نا جانے کے موڈ میں تھی۔
"اس نے پہلی دفع کمپنی میں کوئی کام ٹھیک سے کیا ہے اور اب وہ اپنا بزنس تھوڑا سنجیدہ ہو کے دیکھنے لگا ہے۔ "
زرشالہ  نے دوبارہ اسے سمجھایا تھا وہ پارٹی میں لازمی جانا چاہتی تھی اور عنایہ کے ساتھ ہی جانا چاہتی تھی۔ پر وہ یہ بھی جانتی تھی کے اپنی اس دوست کو سمجھانا ایسے تھا جیسے پتھر سے سر ٹکرانا۔
"اوہ تمہارا مطلب وہ اب آ کر اس بزنس کو دیکھنے لگا ہے اور گزشتہ تمام سالوں سے سر ریاض ہی کام کر رہے ہیں؟ "
"جی بلکل۔ "
"واٹ آ گریٹ مین "
اسکی آنکھوں میں ایک انوکھی سی چمک آئی تھی۔
"اب چلو گی کے نہیں؟"
"ہاں ٹھیک ہے اب تم اتنا ہی کہہ رہی ہو تو چلی جاتی ہوں ویسے بھی گھر میں تو آج بور ہی ہونا ہے۔ "
"کیوں بھئی نانی ماں کہاں ہیں؟ "
"وہ انھوں نے آج اپنی بہن کے گھر جانا تھا۔ "
"اوہ اچھا اچھا۔ اسی لیے گھر میں خاموشی ہے۔  چلو ریڈی ہو جاؤ تھوڑی دیر میں نکلنا ہے۔"
"ہاں گھر میں بس ہم دو ہی تو لوگ ہیں۔  ایک نا ہو تو بلکل خاموشی رہتی ہے۔  "
"ہاں یہ بات تو ہے۔" زرشالہ نے تائید کی تھی۔
"چلو میں نہا لوں پھر۔" عنایہ نے اپنے کپڑے اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔
"جی بڑی مہربانی آپ کی "
وہ ہنس کر باتھ روم چلی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاض احمد کے گھر کا لان بہت اچھے سے سجایا گیا تھا۔ ہر کونے پے غبارے لگائے گئے تھے۔ ہر سمت لگے ہوئے پھول بھی منظر کو مزید حسین بنا رہے تھے۔  ایسے میں مہمانوں کے لیے لان میں ہی کرسیاں لگوادیں گئیں تھیں۔
درمیان میں لمبا سا ٹیبل رکھا گیا تھا جس پے زیان احمد کے لیے کیک رکھا جانا تھا۔  چاروں اطراف میں لگائی گئیں کرسیوں کے درمیان بھی گول شکل کے میز رکھےہوئے تھے۔ ہر کوئی پہلی نظر میں ہی ڈیکوریشن کو سراہ رہا تھا۔
لان میں لگے ہوئے رنگ بھرنگے پھولوں نے لان کی خوبصورتی کو مزید دو بالا کر دیا تھا۔
جو بھی مہمان آرہا تھا ریاض احمد انکا ویلکم کرتے جا رہے تھے۔ اچانک ان کی نظر مین گیٹ  سے اندر داخل ہوتی عنایہ پر پڑی ۔ مہرون کلر  کی لونگ میکسی پر سلور کلر کی نفیس کڑھائی ہوئی تھی۔ یہ کلر اس پر بہت عمدہ لگ رہا تھا۔ نیچے سلور کلر کی کیپری پہنے اور پاؤں کو خوبصورت سلور کلر کی سینڈل  میں قید کیے اور سلودر کلر کا حجاب اوڑھ کر وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ انہوں نے دل میں ماشاءالله کہا تھا۔ نا جانے وہ کیوں انھیں اپنے دل کے بہت قریب لگی تھی۔ اب  وہ انکے قریب پہنچ چکی تھی۔
"السلام عليكم سر کیسے ہیں؟"
اس نے خوش اخلاقی سے سلام کیا تھا۔
"وعلیکم سلام۔ مجھے تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ  ڈھیر ماہ میرے آفس میں کام کرنے والی یہ سادہ سی لڑکی تھوڑی سی تبدیلی سے اتنی پیاری بھی لگ سکتی ہے۔ "
"بس سر دیکھ لیں کبھی کبھی وہ ہو جاتا ہے جس کی ہم توقعہ نہیں کر رہے ہوتے۔ "
"باتیں تو آپ ہمیشہ ہی بڑی بڑی کر جاتی ہیں۔  بہت گہری۔" ریاض احمد نے دل سے اس کی سچی اور گہری باتوں کی تعریف کی تھی۔
"سر اب اندر بھی جانے دیں گیں  یا نہیں؟ "
پیچھے سے زرشالہ سے بولی تھی۔
"اوہ آپ بھی آئی ہیں؟  آپ کو کس نے انوائٹ کیا ہے؟ " ریاض احمد  شرارت سے بولے تھے۔
"ہو ہائے کیا مطلب ہے کس نے انوائٹ کیا مجھے؟ آپ ہی نے تو  کل میٹنگ روم میں سب کو انوائٹ کیا تھا۔"
"اچھا آپ بھی تھیں وہاں؟ "
وہ اپنے اسٹاف کے  سب ورکرز کے ساتھ ایسا  ہی رویہ رکھتے تھے۔  کام کے وقت کام کو ترجیح دی جاتی تھی اور دوسرے موقع پر ہنسی  مذاق بھی۔ وہ خصوصاً سٹاف کی لڑکیوں کو اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھتے تھے۔  شاید ماضی میں کی گئی اپنی سنگین غلطی کا مداوا کرنا چاہتے تھے۔
"جی ہاں " اس نے ہاں پے زور دیتے ہوئے  کہا تھا۔
"اچھا اچھا بیٹا آپ دونوں اندر تشریف رکھیں۔ "
وہ کہہ کر آگے دوسرے مہمانوں کے پاس بڑھ گئے  تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب مہمان آ چکے تھے۔ بس ایک وہ نہیں تھا جس کے لئے اتنی بڑی پارٹی رکھی گئی تھی۔
عنایہ انجانے میں ہی سہی پر زیان کے سامنے آنے کا ویٹ کر رہی تھی۔  وہ اپنے بے چین دل کی حالت سمجھتے ہوئے بھی نا سمجھ بن کر بیٹھی ہوئی تھی۔  جب ایک دم سے سارے مہمان زیان احمد کے ویلکم کے لیے کھڑے ہو گئے  تھے۔ مجبور ہو کر اسے بھی اٹھنا پڑا تھا۔
اس پر جاتی اسکی نظر وہیں رک گئی تھی۔  اور وہ دنیا جہاں سے بے خبر ہو کر اسے تکنے میں مگن تھی۔  وہ بلاشبہ ایک خبرو نوجوان تھا۔ وہ انتہائی سحر انگیز شخصیت کا مالک ہلکی بھوری آنکھیں اور بھورے بال جو پیچھے کو سلیقے سے سیٹ کیے رہتے تھے سرخ و سپید رنگت پر ہلکی ہلکی بڑھی ہوئی شیو اسے مزید جازب بناتی تھی آنکھوں سے ہی غرور کی لہر جھلکتی تھی آنکھوں کو ٹرانسپیرنٹ شیڈز سے ڈھکا ہوتا تھا جو صرف شوق کے لیے ہی تھی ورنہ نظر تو اس کی تیر کی طرح سیدھی تھی۔
وہ وہیں اس کی ذات میں گم تھی جب زرشالہ نے اسے کوہنی ماری تھی۔ اور اب اس کی خیر نہیں تھی۔  وہ جان گئی تھی کہ  زرشالہ اب اس کا خوب ریکارڈ لگائےگی۔پر فکر کسے تھی۔  وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارٹی خوب زور و شور سے چل رہی تھی۔ ہر کوئی لطف اٹھا رہا تھا۔  لان کے ایک کونے پے بڑا سا میوزک سسٹم بھی سیٹ کیا گیا تھا۔ کھانا تناول کر لیا گیا تھا۔ سب کی نظریں اب زیان کی طرف اٹھی تھیں۔ جو مائک کی جانب بڑھ رہا تھا۔
"اب اسے کیا ہوا؟ " عنایہ کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔  وہ اس سے بلکل خوف زدہ  نہیں ہوئی تھی پر ایک گھبراہٹ طاری ہو گئی تھی۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ زیان احمد اپنی تمام تر معصومیت لیے اعلان کر رہا تھا  "لیڈیز اینڈ جنٹلمین آئی نیڈ یور اٹینشن پلیز۔۔ عنایہ احمد کو تو آپ سب ہی جانتے ہیں۔ انہوں  نے  اپنی رضامندی سے ہمارے مارکیٹنگ سپروائزر عقیل قریشی کی ذمداریاں پورے
ایک ہفتے کے لیے قبول کی  ہیں۔ چونکہ  عقیل صاحب ایک ہفتے کی لیو پر ہیں اس لیے عنایہ  پورے ایک ہفتے کے لیے عقیل صاحب کی ذمداریاں نبھائیں گیں۔۔"
اس کی بات سن کر سب کی نظریں اب عنایہ کی جانب تھیں۔  وہ سب اس کے اس عمل پر تالیوں کے ذریعے اسے داد دے رہے تھے۔ عنایہ نے خون خوار نظروں سے زیان کو دیکھا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے اٹھ کر زیان کا گلہ دبا دے۔ اس نے اسے اس قدر ذمداریاں سونپ دی تھیں کے بندہ دن  سے رات تک کام میں لگا رہے اور اسے سر کھجانے کی بھی فرصت نا ہو۔
"تمھیں تو میں دیکھ لوں گی۔ "
اس نے اشارے سے زیان کو کہا تھا ۔۔
"شوک سے دیکھو ۔۔"
وہ بھی کہاں باز آنے والا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Where stories live. Discover now