Second Last Episode(Part#I)

2.4K 128 14
                                    

"اللہ‎ تعالیٰ آپ تو سب جانتے ہیں نا۔۔ میرے دل میں جنم لینے والے اس نئے احساس کے بارے میں۔۔۔ تو تو میرے ماضی حال اور مستقبل کو جانتا ہے نا۔۔ میں نے کبھی یہ احساس کسی کے لیے محسوس نہیں کیا۔۔ میں ہمیشہ سے سمجھتی آئی ہوں کے میری محبت میری چاہت پر میرے محرم کا حق ہے۔۔ یا اللہ‎ تو پلیز میرے دل سے نامحرم کی محبت کو نکال دے۔۔ یا اللہ‎ تو مجھے ہمت و صبر عطا کر۔۔ میرے مالک مجھے ہمت دے کے میں زیان کی دی گئی تکلیف بھولا سکوں۔۔ میں تو دکھ دینے والی باتیں کبھی بھی دھیان میں نہیں رکھتی تو کیوں اس کی دی گئی اذیت میرے دماغ پر حاوی رہتی ہے۔۔ مجھے ستاتی ہے۔۔ یا اللہ‎ تو میرے دل و دماغ کو سکوں کی دولت سے نواز دے۔۔ بیشک سکوں تیرے ذکر میں ہی ملتا ہے۔۔"
وہ کافی دیر سے عنایہ کو دیکھ رہی تھیں جس نے اب دعا مکمل کر کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا۔ نماز تو وہ ہمیشہ ہی باقائدگی سے پڑھتی تھی مگر کبھی اتنی مگن ہو کر انہوں نے اسے نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا۔ نجانے وہ اللہ‎ سے کیا باتیں کرنے میں مصروف تھی جس نے اسے ارد گرد سے بلکل بیگانہ کر دیا تھا۔
"عنایہ بیٹا خیریت ہے؟؟"
اس کے آنسوؤں سے تر چہرے کو دیکھ کر جمیلہ نے اسے اپنے پاس بلایا تھا۔ عنایہ ان کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔
"جی نانی ماں سب خیریت ہی ہے"
اس نے ان کی تسلی کے لیے مسکرانے کی کوشش کی تھی مگر مکمل طور پر مسکرا نا سکی۔۔
"عنایہ سچ بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے میری جان؟"
انہیں تشویش ہوئی تھی۔
"نانی ماں کیوں پریشان ہو رہی ہیں؟؟ ٹھیک ہے سب"
وہ نظریں پھیرتے ہوئے بولی تھی۔
"بیٹا میں تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں چلو بتاؤ کیا ہوا ہے؟؟"
وہ اس کا چہرہ اپنے جھڑیوں والے بوڑھے ہاتھوں میں لے کر بولی تھیں۔
"نانی ماں۔۔۔"
اس نے بلک بلک کر ساری کی ساری حقیقت ان کے سامنے کھول کر رکھ دی تھی۔۔ اپنا سارا حالِ دل سنا ڈالا تھا۔۔ جمیلہ کچھ دیر تک خاموش بیٹھی رہیں تھیں۔
"نانی ماں؟؟"
عنایہ نے انہیں آواز دی تھی۔
"بیٹا ان کے لیے اپنے آنسو ضائع نہیں کرتے جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔۔"
"نانی ماں یہ میرے بس میں نہیں ہے۔۔"
وہ بےبسی سے بولی تھی۔۔
"بیٹا سب کچھ بس میں ہوتا ہے بس ہم یہ سوچ کر بیٹھ جاتے ہیں کے ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہم وہ کام کرنے کا عزم تو کریں۔۔ لیکن ہم کیے بغیر ہی یہ سوچ کر بیٹھ جاتے ہیں کے ہم سے نہیں ہو گا۔۔"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی تھیں۔
"نانی ماں میں اس کو معاف کر چکی ہوں یقین کریں۔۔ دل سے معاف کر چکی ہوں۔۔ اس کے معافی مانگے بغیر ہی۔۔ پر آنسوؤں پر میرا کنٹرول نہیں ہے خود بخود وہ منظر میرے سامنے آ جاتا ہے اور میں پھر خود کو وہیں محسوس کرتی ہوں"
وہ صاف گوئی سے بولی ۔
"بیٹا معاف کر چکی ہو تو پھر یہ کیا ہے؟؟اسکو صحیح طرح کیوں نہیں بلا رہی تم؟؟"
"نانی ماں اس نے ایک بار بھی مجھ سے معافی نہیں مانگی۔۔ چلیں معافی نا مانگے پر اپنی غلطی تو تسلیم کر لے نا۔۔ اس دور ناگوار میں اپنی غلطی تسلیم کر لینا بھی بڑی بات ہے۔۔ مگر اسے ذرا احساس نہیں ہے کے مجھے پر کیا بیت رہی ہے اس کی وجہ سے"
اس کی آنکھیں پھر سے رونے کی تیاری کرنے لگیں تھیں اس نے بڑی مشکل سے خود کو قابو کیا ہوا تھا۔۔
"بیٹا پھر اگر اسے احساس نہیں ہو رہا تو تم اسے احساس دلاؤ"
وہ مسکراتے ہوئے بولی تھیں۔
"میں۔۔؟؟؟ کیسے۔؟؟"
وہ ناسمجھی سے بولی تھی۔۔
"بڑی آسان سی ترکیب ہے۔۔ اسے اگنور کرو اور اپنی اہمیت کا احساس دلاؤ۔۔ کبھی بھی اپنی خود اعتمادی کو کسی بھی وجہ سے کم نا ہونے دینا۔۔ اسے لاتعلق ہو جاؤ کچھ عرصہ کے لیے ہی مگر ہو جاؤ اس سے تم دونوں کو اپنی زندگیوں میں ایک دوسرے کی اہمیت کا علم ہو گا"
نانی ماں اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے سنجیدگی سے اسے سمجھا رہی تھیں۔۔ وہ ان دونوں کو اچھے سے جانتی تھیں۔۔ محبت کر بیٹھے تھے دو نادان مگر کہنے کا حوصلہ نا رکھتے تھے۔۔ اور ایک دوسرے کی سوا سب سے اپنا حالِ دل کہہ بیٹھے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آنٹی میں آ جاؤں؟؟"
زیان نے مریم کا دروازہ ناک کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
"ہاں بیٹا"
اندر سے فوراً آواز آئی تھی۔۔زیان اندر آ کر مریم کی گود میں سر رکھ کے لیٹ گیا تھا۔۔
"آنٹی آپ اکیلی ہیں سیمل کہاں گئی ہے؟"
"تمہیں تو پتا ہے نا اس کا سفیان کا اتنا سر کھایا ہوا تھا کے رشتہ پکا ہونے کی خوشی میں ٹریٹ چاہیے کچھ ہی دیر ہوئی ہے وہ اسے آئس کریم کھلانے لے کر گیا ہے"
وہ ہنستے ہوئے بولی تھیں۔
"ہاہا اچھا ہے بعد میں آنٹی یہ روز کی کہانی ہو گی بس سیمل کی جگہ زرشی ہو گی"
وہ بھی شرارت سے بولا تھا۔
"بدتمیز تم انھیں چھوڑو اپنا بتاؤ"
وہ مسکراتے ہوئے بولی تھیں۔
"میرا۔۔۔کیا مطلب؟؟"
وہ الجھا تھا۔۔
"بھئی سفیان اور تم ہم عمر ہو نا تو اس حساب سے تم دونوں کی شادی کر دینی چاہیے اب۔۔ اس کا تو آدھا کام ہو گیا تم اپنی بتاؤ"
وہ آہستہ آہستہ اس موضوع پر آ رہی تھیں جس پر وہ کئی دنوں سے بات کرنا چاہتی تھیں۔
"مجھے ابھی شادی نہیں کرنی"
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ اس کا سر جھک گیا تھا۔
"کیوں نہیں کرنی کوئی لڑکی پسند ہے تو بتاؤ؟"
وہ جانتی تھیں اس کی پسند کون ہے مگر اس کے منہ سے سننا چاہتی تھیں۔
"نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں"
اس نے جھوٹ بول کر اپنی جان چھڑوانی چاہی تھی۔
"ادھر دیکھو میری طرف؟"
مریم نے اس کی ٹھوڑی چھوتے ہوئے کہا تھا۔ زیان نے بمشکل سر اٹھا کر ان کی جانب دیکھا تھا۔۔ وہ ان کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا۔
"کیا بات ہے بیٹا؟؟ سچ سچ بتاؤ"
اس کے چہرے پر رقم دکھ کی تحریر پڑھ کے وہ پریشان ہوئی تھیں۔
"آنٹی وہ۔۔۔۔۔"
اس نے عنایہ سے پہلی ملاقات سے لے کر موجودہ تلخی کے بارے میں سب بتا دیا تھا۔
"بیٹا محبت کی پہلی سیڑھی ہی یقین ہوتی ہے ایک دوسرے پر اعتماد ہوتا ہے۔۔ مگر تم نے اس کے اعتماد کو اس کے مان کو ٹھیس پہنچائی ہے۔۔ اب اسے معاف کرنے میں ٹائم تو لگے گا نا۔"
"پر آنٹی اس نے کبھی نہیں کہا کے اسے مجھ سے محبت ہے"
وہ سچ ہی تو کہہ رہا تھا۔
"تو گدھے کہیں کے تم نے اسے کہنا تھا یا اس نے؟؟ تم ابھی تک اس کی نیچر سے واقف نہیں ہوئے"
مریم نے اس کے سر پر چپت لگائی تھی۔
"اوہ ہاں۔۔"
اس کے دماغ میں کچھ تو سمجھ آ ہی گئی تھی۔
"اور تم نے اس سے معافی مانگی؟؟"
وہ تیوری چڑھاتے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔
"میں بہت ہمت کرتا ہوں پر اس کی سرد مہری دیکھ کر میری ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔۔"
وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔
"بیٹا لڑکیوں کے جذبات بہت نازک ہوتے ہیں۔۔ ان کا دل کانچ کے جیسا ہوتا ہے ذرا سی خراش پر ٹوٹ جاتا ہے اور تم نے تو اس کی مخلصی پر اتنی بڑی بات کہہ دی۔۔"
مریم بولی تھیں۔
"میں مانتا ہوں اپنی غلطی۔۔ مگر اس کی سرد مہری مجھے بہت تکلیف دیتی ہے۔"
"کیا تم جانتے ہو اس کی سرد مہری کی وجہ کیا ہے؟؟"
وہ اس سے پیار سے پوچھ رہی تھیں۔
"ہاں ظاہر ہے میں خود ہوں نا میں اس دن بکواس کرتا نا آج وہ مجھ سے اتنا بیغانہ ہوتی۔۔"
وہ اپنے سر ہاتھوں میں تھامتے ہوئے بولا۔
"تو تم یہ بھی جانتے ہو گے کے اس کا رویہ پہلے جیسا کیسے کیا جاۓ؟؟"
وہ مسکراتے ہوئے بولی تھیں۔
"میں کیسے کر سکتا ہوں بھلا؟؟"
وہ سمجھ نہیں سکا تھا۔
"ظاہر ہے اس کو مناؤ۔۔تھوڑے عرصے تک اس کی سرد مہری برداشت کرو۔۔اس کے نخرے اٹھاؤ ۔۔ اس کے یقین اور اعتماد کو پھر سر بحال کرو۔۔ اور اس کا مان دوبارہ قائم کرو میری جان"
وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔
"کیا ایسا کرنے سے وہ مجھے معاف کر دےگی ہاں؟"
"ہاں ہاں وہ بہت انمول لڑکی ہے زیان تم اپنی غلطیوں کی وجہ سے اسے کھو مت دینا۔۔"
"آپ فکر نا کریں میں جانتا ہوں اسے کیسے ماننا ہے"
زیان کی ہمت بندھی تھی۔ اور اٹھ کر وہ اپنے روم میں چلے گیا تھا۔
اللہ‎ ان دونوں کے درمیان سب ٹھیک کر دے۔ مریم نے دل سے ان کی خوشیوں کی دعا کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں بھائی خیر تھی آج کیسے موڈ ہو گیا مجھے کافی پلانے کا؟"
سفیان خوش ہوتا ہوا اس کے گلے لگا تھا۔۔ وہ اس وقت کیفیٹیریا میں کافی پینے آئے تھے۔ اور حیرت انگیز طور پر یہ کافی آج زیان کی طرف سے تھی۔
"بس میں نے کہا غریبوں کا بھی بھلا کر دینا چاہیے کبھی کبھی"
وہ اسے چڑاتا ہوا بولا۔۔
"تو کبھی کبھی کیوں روز کیا کر میرا بھی کھانے کا خرچہ بچے گا۔"
وہ اس کی بات کا ذرا بھی اثر لئے بغیر بولا تھا۔
"شرم کر بُھکر"
"اوہ وہ تو نہیں کر سکتا اور میرے بس میں کچھ ہو تو بتا۔"
"ہاں وہی بتانے کے لیے یہاں بلایا ہے تجھے"
زیان ایک دم سنجیدہ ہوا تھا۔
"کیا ہوا سب خیریت؟"
سفیان کو اس کے غیر معمولی سنجیدگی دیکھ کر تشویش ہوئی تھی۔
"یار وہ مجھے بلکل نہیں بلاتی۔۔۔ نا میرے میسجز اور کالز کا جواب دیتی ہے۔۔ اور اگر براہ راست ملیں تو بلکل مجھ سے لاتعلق رہتی ہے۔۔"
وہ دکھی لہجے میں بولا تھا۔
"کون؟؟"
سفیان نے جان بوجھ کر پوچھا تھا۔
"عنایہ اور کون؟"
زیان اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
اسی دوران ان کے کافی کے مگ آ گئے تھے ویٹر سے ٹرے کا توازن ایک لمحے کے لیے برقرار نا ہو سکا جس کی وجہ سے ان کے ٹیبل پر تھوڑی سی کافی چھلکی تھی۔
"ہینڈل ود کیئر یار"
زیان ویٹر سے مخاطب ہوا تھا۔ وہ سر ہلا کر چلا گیا تھا۔
"ہاں تو میں اس میں تیری کیا مدد کر سکتا ہوں؟"
سفیان نے اپنا مگ اپنی طرف کھسکایا تھا۔
"ظاہر ہے مجھے بتا میں کیا کروں تو تو ایکسپرٹ ہے نا اس معاملے میں۔"
وہ تھوڑی سی خوشامند کرتے ہوئے بولا تھا جب کے مقابل اسے اپنی تعریف سمجھ بیٹا تھا اور اکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔ زیان کو اس کر اکڑ کر بیٹھنے پر بڑی ہنسی آئی تھی مگر کنٹرول کر گیا تھا۔
"اچھا اب صحیح بتاؤں؟"
سفیان سنجیدہ ہوا۔
"ہاں؟؟؟"
وہ بیچینی سے بولا تھا۔
"تو بھی وہی کر ہو تونے ابھی ویٹر کو کرنے کو کہا۔"
وہ اسے الجھن میں ڈال کر بولا تھا۔
"کیا مطلب۔۔! میں نے کیا کہا ہے ویٹر کو؟؟"
وہ الجھن کا شکار ہوتے ہوئے بولا تھا۔
"ہینڈل ود کیئر میری جان"
کچھ کچھ اس کے پلے پڑ گیا تھا۔
"ہاں ٹھیک سمجھا تو۔۔ اسے پیار سے مانا میرے بھائی۔۔ کیئر سے۔۔ وہ بہت اچھی لڑکی ہے تم سے تو کیا کسی سے بھی زیادہ ٹائم کے لیے ناراض نہیں ہوتی وہ۔۔"
سفیان اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا تھا۔
"ہاں یار میں پوری کوشش کروں گا۔۔"
وہ خوش ہو کر بولا تھا۔
"چل پھر اسی بات پر منگوا ایک کافی اور"
زیان نے حیرت سے اس بھوکے انسان کو دیکھا تھا زیان کا ایک مگ بھی ابھی پورا نہیں ہوا تھا اور وہ دوسرے کی فرمائش کر رہا تھا۔
"آرام سے بیٹھ جا۔۔"
وہ اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے بولا تھا۔
"سوچ لے میں ابھی عنایہ کو کہہ سکتا ہوں کے زیان بندر کو تجھ سے محبت ہو گئی ہے"
وہ اسے دھمکاتے ہوئے بولا۔۔
"اچھا بھائی منگوا رہا ہوں غصہ کیوں کر رہا ہے"
وہ غصے سے چبا چبا کر بولا تھا۔
"ہاں مانتا ہے نا مجھے اپنا باپ"
"جی ابا جی اپنی کافی سے لطف لیں۔۔"
اس کا دوسرا مگ آ گیا تھا۔ اسی دوران سفیان کے موبائل پر کال آئی تھی۔ موبائل سکرین پر زرشی کا نمبر جگمگا رہا تھا جسے دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری تھی۔ اس نے جاندار مسکراہٹ لیے فون اٹھایا تھا۔ اسی لمحے زیان اٹھ کر کہیں گیا تھا۔ سفیان نے دھیان نہیں دیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ فون سے فارغ ہوا تو اس نے دیکھا کے کیفیٹیریا میں زیان کا نام و نشان تک نا تھا۔۔ ابھی وہ اس کی تلاش میں نکلنے ہی لگا تھا جب ویٹر اس کے پاس آیا تھا۔ یہ وہی ویٹر تھا جو اس کی کال کے دوران دو مرتبہ اس سے بات کرنے آیا تھا۔
"سر بل"
وہ ادب سے بولا تھا۔
"تو کیا کروں میں اس کا؟"
وہ حیران ہوتے ہوئے بولا تھا۔
"ظاہر ہے بل ہے پے کیجیے"
وہ اس شخص کے اندر دماغ تلاش کر رہا تھا شاید جسے یہی نہیں معلوم تھا کے بل کیوں دیا جاتا ہے۔
"یہاں جو کچھ دیر پہلے میرے ساتھ بیٹھا تھا آپ کو پتا ہے وہ کہاں ہے؟"
اس نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا تھا۔
"جی وہ تو کب کے جا چکے ہیں ہاں انہوں نے آپ کو یہ دینے کو کہا تھا۔"
ویٹر نے اسے ایک چٹ پکڑائی تھی۔ سفیان نے اس کے ہاتھ سے چھین کر چٹ کھولی تھی۔
"بیٹا تیرا باپ میں ہی ہوں۔ اب بتا مانتا ہے نا مجھے اپنا باپ "
چٹ کے وسط میں ایک چھوٹی سی سطر لکھی گئی تھی۔ سفیان نے بڑی مشکل سے اپنا دل سمبھال کر بل پے کیا تھا اور زیان سے ملنے نکلا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا زیان اس وقت کہاں ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اوہ ہیلو تم کہاں گھسے چلے آ رہے ہو؟"
زرشالا نے حیرت سے زیان کو دیکھا تھا۔
"کون ہے بیٹا؟"
جمیلہ نے اس کا انداز دیکھ کر حیرت سے پوچھا تھا وہ اس وقت عنایہ کے گھر آئی ہوئی تھی۔
"السلام عليكم نانی ماں"
اس نے آگے بڑھ کے جھک کے نانی ماں سے پیار لیا تھا۔
"کیسا ہے میرا بچہ؟"
انہوں نے پیار سے پوچھا تھا۔
"کون سا بچہ؟"
وہ ان کے پاس ٹیبل پر پڑی بریانی کی پلیٹ پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔ اور بریانی سے انصاف کرنے لگا تھا۔
"تم اور کون"
وہ بھی اس کی شرارت پڑ ہنس پر تھیں۔
"عنایہ زیان تمہاری پلیٹ پکڑ کے بیٹھ چکا ہے۔۔۔ آ جاؤ جلدی"
زرشالا نے لاؤنج سے ہی آواز لگائی تھی۔ اس کے کہنے کی دیر تھی وہ بھاگتی ہوئی آئی تھی۔ پر اس نے کچھ کہا نہیں تھا بس دیکھ کر دوبارہ چلی گئی تھی۔ اس کے بھاگ کر آنے پر زیان کے دل میں جو خوشفہمی پیدا ہوئی تھی وہ اک پل میں دور ہو گئی تھی۔ اسے لگا تھا کے وہ آئے گی اور پہلے کی طرح اس سے لڑنا شروع ہو جاۓ گی۔۔ مگر ایسا نا ہوا تھا وہ تو بس لاتعلقی کا اظہار کر کے چلی گئی تھی۔۔۔ زیان کو پھر شدت سے اس کے اس رویے کا بہت دکھ ہوا تھا۔
"وہ نہیں کہہ رہی تو میں تو ہوں نا اس کی اصلی دوست لاؤ واپس کرو"
زرشالا کمر پر دونوں ہاتھ رکھے کہتی آگے آئی تھی۔ جمیلہ اور زیان اس کا سٹائل دیکھ کر ہنس پڑے تھے۔
"نہیں دوں گا کیا کر لو گی؟"
وہ اسے مزید تنگ کرتے ہوئے بولا۔
"ابھی بتاتی ہوں تمہیں میں۔"
وہ زچ ہو کر بولی تھی۔ اسی دوران دروازہ بجا تھا زیان نے فوراً پلیٹ زرشی کے ہاتھ میں تھمائی تھی اور کچن میں چلا گیا تھا۔
اسے کیا ہوا وہ حیرت سے سوچتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھی تھی۔ اس نے دروازہ کھولا ہی تھا کے سفیان یوں آگے بڑھا تھا جیسے دو دن کا بھوکا کھانے کی طرف بڑھتا ہے۔
"اوہ ہیلو تمہیں کیا ہوا اب؟"
زرشی نے حیرت سے اس کی حرکت دیکھی تھی۔
"کچھ نہیں کیا زیان ادھر آیا؟"
زرشی ابھی بولنے ہی والی تھی جب اندر سے زیان کی آواز آئی تھی
"زرشی اسے کہہ دو کے وہ گھر نہیں آیا"
زرشالا نے اسی کے انداز میں اس کا جملہ دہرا دیا تھا۔
"زیان کے بچے"
وہ کچن کی طرف بھاگا تھا۔ پر کچن میں داخل ہوتے ساتھ ہی عنایہ سامنے تھی زیان اس کے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔
"عنایہ ہٹ جاؤ سامنے سے۔۔میں کہہ رہا ہوں ہٹ جاؤ "
وہ جذباتی ہوتے ہوئے بولا۔
"کیوں ہٹوں؟"
وہ از حد سکون سے بولی تھی۔
"دیکھو تمہاری وجہ سے یہ میرے ہاتھ سے نکل جاۓ گا"
سفیان عنایہ کے پیچھے کھڑے زیان کو گھور کر بولا تھا۔
"بھائی میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گی پھر"
وہ مسکراتے ہوئے سائیڈ پر ہوئی تھی اور سفیان اور زیان ایک دوسرے سے گھتم گھتا ہو گئے تھے۔
"کیا ہو رہا ہے یہاں؟"
ان کا شور سن کر جمیلہ اور زرشی بھی وہیں آ گئے تھے۔ اب منظر کچھ یوں تھا کے عنایہ کچن کر دروازے میں کھڑی ان دونوں کو لڑتے دیکھ کر لطف لے رہی تھی زیان نے ایک ہاتھ سے سفیان کے بال پکڑے ہوئے تھے اور دوسرے سے سفیان کے ہاتھ کا مقابلہ کر رہا تھا سفیان نے بھی اسی طرح ایک ہاتھ سے زیان کے بال پکڑے تھے اور دوسرا ہاتھ سے زیان کا ہاتھ سختی سے پکڑا ہوا تھا۔ نانی ماں کی آواز پر وہ دونوں سیدھے ہو کر کھڑے ہوئے تھے۔
"کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو ہاں؟ کیوں لڑ رہے ہو یوں؟"
زرشالا نے غصے سے پوچھا تھا۔
"اس نے میرے ساتھ۔۔۔۔"
سفیان نے بل والی ساری بات ان کے گوش گزار کر دی تھی جس پر ان سب کے قہقہے گونجے تھے۔
"بہت اچھا ہوا"
زرشی اسے چڑاتے ہوئے بولی تھی۔
"تمہارا تو میں بندو بست کرتا ہوں"
وہ بھی اسی کے انداز میں گویا ہوا۔
"کیا کرو گے اس کا بند و بست تم؟"
عنایہ نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"بس تمہیں فنکشن انجواۓ کرنے تھے نا بس ایک ہفتہ انتظار کر لو"
"کیا مطلب ہے تمہارا ہاں؟"
عنایہ حیرت سے کھڑی اس کی شکل دیکھ رہی تھی۔
"بھئی تم تو اس دن جلدی چلی گئی تھی نا اس لیے تمہیں کچھ نہیں معلوم بلکہ اس نکمی کو بھی کچھ نہیں معلوم۔۔ میں بتاتا ہوں۔ آنٹی مریم نے زرشی کی اماں کو صاف لفظوں میں جہیز لینے سے انکار کر دیا تھا اور ان دونوں میں طہ ہوا تھا کے منگنی کرنے کی بجائے سیدھا شادی ہو گی۔۔ اور اس کے لیے انہوں نے دن ایک ماہ بعد رکھنے تھے لیکن تم فکر نا کرو میری بہن عنایہ میں آج ہی آنٹی سے فون کروا رہا ہوں کے اگلے ہی ہفتے ہماری شادی کا انتظام کریں تیاریاں دونوں طرف مکمل ہیں۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔ زرشی تو شرم سے چہرہ چھپاتی وہاں سے بھاگ گئی تھی۔
"ارے واہ۔۔ مزہ آئے گا پھر تو"
عنایہ پرجوش ہوتی بولی تھی۔
"چلو تم نانی ماں پاس بیٹھو میں تمہارے لیے چاۓ لاتی ہوں"
عنایہ نے کہا تھا نانی ماں اور سفیان باہر چلے گئے تھے۔ جب کے زیان کی عنایہ مکمل طور پر نظر انداز کر رہی تھی۔
"عنایہ؟؟"
زیان نے اس کا نام پکارا تھا۔
دوسری طرف مکمل خاموشی تھی۔
"عنایہ میری بات تو سن لو نا یار"
وہ تڑپ کر بولا تھا۔
"مجھے تم سے کچھ نہیں سننا بہتر ہوگا چلے جاؤ یہاں سے"
وہ سختی سے بولی تھی۔
"عنایہ میں مانتا ہوں۔۔۔۔"
زیان کا فون بجا تھا اور اس کی بات ادھوری رہ گئی تھی۔ اس نے نمبر دیکھا جہاں دادا کے نام سے کال آ رہی تھی اس نے کال اٹھائی تو کوئی انجان شخص بول رہا تھا۔ اس نے شروع کی بات سنی تھی اور آگے اسے کچھ سنائی نہیں دیا تھا۔
"کون سا ہسپتال؟"
ٹوٹے ٹوٹے سے لفظ نکلے تھے اس کی زبان سے۔۔
عنایہ بھی اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔ اس کے دل میں وسوسے آ رہے تھے۔ فون بند کر کے وہ عجیب نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
"کیا ہوا ہے زیان؟"
عنایہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا۔
وہ کچھ بول نہیں سکا تھا۔
"زیان بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے!! تم کچھ بولتے کیوں نہیں؟؟؟؟"
وہ چیختے ہوئے اس کا کندھا ہلا رہی تھی۔ اس کی چیخیں سن کر سب وہاں آ گئے تھے۔
"کیا ہوا ہے خیریت ہے نا؟"
نانی ماں مختلف خدشوں سے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تھیں۔
"وہ دادا کے نمبر سے کال تھی۔۔۔ کوئی انجان بول رہا تھا۔۔۔ وہ کہہ رہا تھا کے۔۔۔۔"
اس سے لفظ ادا نہیں کیے جا رہے تھے۔
"بول دو بیٹا میری جان نکل رہی ہے۔۔ کیا ہوا ہے ریاض کو؟؟"
"ان کا۔۔۔ ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔۔۔ حالت بہت خراب ہے۔۔۔ آپ سب دعا کریں۔۔"
خبر تھی یا کوئی دھماکا جو ان کے سر پر کیا گیا تھا۔۔ وہ سب گم سم ہو کر ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ مراقبے سے تب نکلے جب نانی ماں ہوش سے بیگانہ ہوتی نیچے گرنے والی تھیں۔۔ زیان اور سفیان نے جلدی سے آگے بڑھ کر انہیں تھاما تھا اور انہیں بیڈ پر لٹایا تھا۔
"سفی تم ڈاکٹر کو بلاؤ۔۔ میں دادا کے پاس جاتا ہوں تم ان کے پاس رہنا۔۔۔"
"زیان میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی"
عنایہ بولی تھی۔
"تم نانی ماں کے پاس رکو میں جا رہا ہوں نا"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے نرمی سے بولا تھا۔
"میں نے کہا نا مجھے تمہارے ساتھ جانا ہے۔۔ نانی ماں کے پاس زرشی اور سفیان ہیں۔۔۔"
وہ آنکھوں سے ٹپکتے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی تھی۔
"چلو"
زیان کہتا ہوا باہر نکلا تھا۔ چادر لے کر عنایہ بھی اس کے پیچھے نکلی تھی۔ حجاب اس نے پہلے ہی کیا ہوا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)حيث تعيش القصص. اكتشف الآن