Episode#22

2K 127 13
                                    

وہ بابا شریف کے آستانے کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ نگاہوں کا زاویہ بدل کر جونہی اس نے اس ماحول پر ڈالی جہاں اس وقت وہ کھڑا اسے اپنے وجود میں عجیب س احساس ہوا تھا۔ ذہن میں بیٹوں اور بہن کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔ برگد کے درخت جہاں بے شمار لال دھاگے بندھے ہوئے تھے ان درختوں کی چھاوں میں بے شمار لوگ چٹائی بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے جہاں پر شاید وہ سب اپنی باری کا انتظار کررہے تھے برگد کے درخت کے ساتھ ہی چھوٹی سی جھوگی بنی ہوئی نظر آتی تھی وہ بابا شریف کا حجرہ تھا سیاہ موٹے کپڑے سے بنا ہوا وہ حجرہ جس کے باہر ایک آدمی کھڑا برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے لوگوں کو ایک ایک کرکے اندر بھیج رہا تھا وہ ابھی وہیں پر کھڑا تھا جب سیاہ حجرے کا پردہ سرکا تھا اور اس کی نظر اندر کے منظر پر گئی تھی بے شک وہ اتنی سی دیر میں بابا شریف کو نہیں دیکھ پایا تھا مگر وہاں ایک بڑا سا میز نما فرشی میز رکھا ہوا تھا جس کے اوپر اسے کسی چیز کا ڈھیر نظر آیا تھا ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑا انتظار کرنے کے بعد اس کا نام پکارا گیا تھا۔ اس کے قیمتی کپڑے اور جوتوں کی وجہ سے شاید وہاں بیٹھے تمام لوگوں میں سے اسے پہلے بابا جی کے پاس جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
"سلام بابا جی"
وہ اپنے مخصوص انداز میں ان کے سامنے بیٹھ چکا تھا۔
"بڑی دیر بعد چکڑ لگایا ہے ریاض کیا ہوا اب میری ضرورت نہیں رہی تمھیں؟"
سامنے تخت پر بیٹھا وہ شخص تشویش سے پوچھ رہا تھا۔
"نہیں نہیں بابا جی بس کچھ دفتری مصروفیت رہی ہے۔ بس آج فرصت سے آیا ہوں کچھ باتیں کرنی تھیں آپ سے۔"
ان کا لہجہ ان کے دل کی اداسی ظاہر کر رہا تھا۔
ٹھیک ہے تم ذرا خورشید کو بھیجو پھر تفصیل سے بات ہوتی ہے۔ ریاض صاحب نے باہر کھڑے شخص کو اندر جانے کا اشارہ کیا تھا۔
"جی آپ نے بلایا؟"
وہ ادب سے سر جھکاۓ کھڑا تھا۔
"ہاں میری بات سنو مجھے لگتا ہے آخری پتا پھینکنے کا وقت آ گیا ہے۔ ریاض بڑا غمگین لگ رہا ہے۔ لگتا ہے اس کے بیٹوں نے چھوڑ دیا اسے بیچارہ سمجھ نہیں پایا کے اس کی طاقت اس کے وہ بیٹے ہیں خیر اس سے مجھے کیا فرق پڑتا ہے میرا کام مزید آسان ہو گیا ہے۔ میرے لیے اس نے انھیں چھوڑ دیا ہے۔ میں اب اس کو اپنے منصوبے کے مطابق مشورہ دوں گا اور تم باقی سب کو کہہ دو کے باقیوں کی مراد کل سنی جاۓ گی۔"
"ٹھیک ہے بابا شریف"
وہ اثبات میں سر ہلاتا باہر نکل گیا تھا۔بابا جی کی نصیحت کے مطابق اس نے باقی تمام افراد کو کل آ جانے کا کہہ دیا تھا اور ریاض صاحب کو ان کے حجرے میں بھیج دیا تھا۔
"بابا جی آپ نے سب کو بھیج کیوں دیا میں انتظار کر لیتا"
ریاض صاحب گویا ہوئے۔
"تم میرے لیے ان سب سے زیادہ اہم ہو ریاض"
بابا جی نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے ریاض صاحب کو دیکھا تھا جس سے انہیں مزید اپنی بات کہنا آسان ہو گیا تھا۔
"بابا جی دراصل میں بہت پریشان ہوں"
"ہاں تو بتاؤ تمہارے بیٹوں نے کیا کیا ہے تمہارے ساتھ؟"
وہ سنجیدگی سے پوچھ رہے تھے۔ ان کا اندازہ صحیح تھا اور اس صحیح تُکے سے ان پر ریاض صاحب کا یقین اور بھی پختہ ہو گیا تھا۔
"بابا جی انہوں نے مجھے چھوڑ دیا ہے یہاں تک
کے میری اکلوتی بڑی بہن نے بھی"
وہ اداسی سے بولے تھے۔ دو موتی ٹوٹ کر ان کی آنکھوں سے گرے تھے۔ بابا جی نے اس شخص کو غور سے دیکھا تھا جیسے ان کے اندر کی کیفیات کو کنگھال رہے ہوں۔
"وہ تو ہونا ہی تھا ریاض وہ سب گمراہی پر چل نکلے ہیں۔ یقیناً انہوں نے میرے ہاں آنے سے بھی تمہیں منع کیا ہو گا"
انہوں نے بلکل نشانے پر تیر پھینکا تھا اور وہ اپنا اثر دکھا گیا تھا۔ آخر اتنے عرصے کی کوشش تھی ان کی ریاض صاحب جیسے شخص کو اصل راہ سے گمراہ کرنے کی اور اب وہ اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان کی چاپلوسی اور غیر معمولی توجہ سے ریاض صاحب ان کے گرویدہ ہو کر رہ گئے تھے۔
"جی ایسا ہی ہے"
وہ سر جھکاۓ بولے تھے۔
"بابا جی میرے وہ بیٹے جو میرا فخر میرا مان میرا غرور سب کچھ تھے آج مجھے وہ مشرک کہہ رہے ہیں مجھے گمراہ کہہ رہے ہیں مجھے توبہ کرنے کو کہہ رہے ہیں اب آپ ہی بتائیں کیا یہ سب باتیں انہیں کہنا زیب دیتا ہے جب کہ ان کا تو حقیقت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔"
وہ اپنا مسلہ ان کے سامنے رکھتے ہوئے بولے تھے۔
"ان کی جھوٹی باتوں پر کان نا دھڑو تم"
وہ ناک سے مکھی اڑاتے ہوئے بولے تھے۔ انہیں بس کسی بھی حال میں ریاض احمد کو ان کے گھر والوں کی باتوں سے قائل نہیں ہونے دینا تھا۔
"بابا جی وہ۔۔۔"
"ہاں کہو گھبراتے کیوں ہو؟"
وہ لہجے کو انتہائی نرم رکھتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔
"بابا جی میں بلال کی طرح دانیال کی شادی بھی آپ کی اجازت سے جہاں آپ کہتے وہاں کرنا چاہتا تھا پر اس نے اپنے باپ کی بھی نہیں سنی اور گھر چھوڑ دیا اس کو دیکھ کر میرے بڑے بیٹے نے بھی بہو اور پوتے سمیت گھر چھوڑ دیا ہے۔ اب میں بلکل تنہا ہو کر رہ گیا ہوں بابا جی۔ میرا آپ کے سوا کوئی بھی نہیں رہا۔ بس آپ ہی ہیں جو مجھے سمجھتے ہیں۔"
اپنی تدابیر کی کامیابی پر وہ خوش ہو کر مسکرا اٹھے تھے پر جلد ہی اس مسکراہٹ پر قابو پا لیا تھا۔
"تو ایسی نا فرمان اولاد کو سزا ضرور ملنی چاہیے۔ اس نے صرف تم سے بدتمیزی نہیں کی تم سے رشتہ توڑ دیا ہے اس کے ساتھ ساتھ تمہاری خاندانی روایات کو بھی ٹھکرایا ہے۔"
وہ ان کی حالت کا مزہ لیتے ہوئے سنجیدگی سے بولے تھے۔
"بلکل بابا جی پر مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں اس نے میری بھانجی سے شادی کر لی ہے اپنی پسند سے۔جب کہ ہماری خاندانی روایت اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کے پسند کی شادی کی جاۓ۔"
وہ اپنا حالِ دل ان پر بیان کرتے ہوئے بولے تھے۔
"ایسی نا فرمان اولاد کو سزا تو ملنی ہی چاہیے اور تو اور وہ تمہیں اس عمر میں تنہا چھوڑ گئے ہیں۔"
بابا جی سخت تیور لیے بولے تھے۔
تھوڑی دیر اور وہاں بیٹھ کر ریاض صاحب جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اب وہ بہت پرسکون محسوس کر رہے تھے۔ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر چکے تھے۔ اب انہیں گھر جا کر بابا جی کے مشورے پر عمل کرنا تھا اور اپنے بیٹوں کو سبق سیکھنا تھا۔
"ٹھیک ہے ریاض تم اپنا خیال رکھنا اور جلد میں تم سے آج کی بات کے مطابق خوشخبری سننا چاہوں گا۔ امید ہے تم میری نصیحت پر عمل کرو گے"
وہ ان کے شانے پر ہلکا سا دباؤ ڈالتے ہوئے مسکرا کر بولے تھے۔
"جی بابا جی ضرور اب میں چلتا ہوں"
وہ کہتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا واقعی بابا جی آپ نے یہ مشورہ دے دیا ریاض کو؟"
ان کا سب سے بھروسہ مند ما تحت خورشید  ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ جسے وہ آج کے دن کی ساری روداد سنا رہے تھے۔
"ہاں آج نہیں تو کل یہی کہنا تھا ہمیں بس آج ہی لوہا گرم دیکھ کر میں نے اسے کہہ دیا"
"پر بابا جی یہ کچھ زیادہ نہیں ہو جاۓ گا؟ مطلب آپ نے اس کے ہاتھوں اس کی اپنی اولاد کا قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا اور ریاض کو بھی کہہ دیا آپ تو جانتے ہیں نا وہ آپ کی باتیں ہی مانتا ہے اور کبھی آپ کی بات نہیں ٹالتا۔"
وہ ذرا پریشان ہوتے ہوئے بولا تھا۔ ان کا یہ فیصلہ ان کے لیے کافی مسائل کھڑے کر سکتا تھا۔
"نہیں بس میں نے اسے اتنا کہا ہے کے کسی طرح انھیں ایسا سبق سیکھاۓ کہ وہ یاد رکھیں۔ بس وہ ہمارے ہی منتخب کر دہ آدمی سے اپنا کام کروائے گا۔ میرے خیال سے ریاض معمولی سے ایکسیڈنٹ کا حکم دے گا مگر میرا آدمی تو میری دی گئی ہدایات پر عمل کرے گا اور ریاض کو خبر بھی نہیں ہو گی۔ اور اس کا یہی عمل اس کے لیے عمر بھر کا پچھتاوا بن جائے گا۔ اور تمھیں بھی پتا ہے نا وہ کس قدر جنونی انسان ہے۔ میری بات کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک چلا جاۓ گا بلکہ کیا تم جانتے ہو میں نے اسے اس کی اولاد کو کیا سبق دینے کو کہا ہے؟"
وہ شاطرانہ مسکراہٹ لیے بولے تھے۔
"جی کیا؟"
ان کی مسکراہٹ اس کے ذہن میں کئی طرح کے وسوسے لا رہی تھی وہ سہم کر پوچھ رہا تھا۔
"میں نے اسے کہا ہے کے جب اس کے چھوٹے بیٹے کی اولاد کی پیدائش کا وقت آئے تو وہ کچھ ایسا کر دے کہ اس کا بیٹا بھی سبق سیکھ جاۓ اولاد کا دکھ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اور تم دیکھنا وہ ایسا ہی کچھ کر گزرے گا۔ وہ خبطی انسان کیا جانے ایسا کرنے سے وہ خود بھی اپنی اولاد سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور پھر ہم اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گیں۔"
بابا جی شیطانی مسکراہٹ چہرے پے سجاتے ہوئے بولے تھے۔
"بابا جی"
وہ صدمے سے بولا تھا۔ کوئی اس قدر کیسے گر سکتا تھا صرف پیسے کے لالچ میں۔
"بیوقوف انسان تم بس یہ دیکھو ہمیں کتنا فائدہ ہو گا پیسوں کی ریل پیل ہو گی یہاں اور وہ ریاض تو ویسے ہی میری مٹھی میں ہے۔ اس حادثے کے بعد وہ دماغی طور پر بہت کمزور ہو جاۓ گا۔ اور سمجھ نہیں پاۓ گا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اور ہم آسانی سے اس کے بزنس پر قبضہ کر لیں گیں۔"
وہ بڑی بے حسی سے اپنے منصوبوں سے اسے آگاہ کر رہے تھے۔
"بابا جی پر آپ کو کیسے معلوم کے اس کے چھوٹے بیٹے کے ہاں اولاد ہونے والی ہے۔؟"
اس نے اپنی پریشانی ان پر واضح کی تھی۔
"میرے پاس بیٹھا ہوا تھا نا آج وہ تو اسی دوران اس کے بیٹے کی کال آئی تھی میرے کہنے پر اس نے اٹھا لی اور فون سپیکر پر لگوایا۔ وہ بیچارہ بڑی خوشی سے اپنے باپ کو خوشخبری سنا رہا تھا مگر اس کے باپ نے میرے ایک اشارے پر اس کو آیندہ فون نا کرنے کا کہہ کر فون کاٹ دیا۔ بس ایسے مجھے معلوم ہوا۔"
بابا نے اسے آگاہ کیا تھا۔
"بابا ویسے یہ انتہائی گھٹیا حرکت ہے"
اس کی بات پر ان کے چہرے پر غصے کے تاثرات ابھرے تھے۔
"کیا گھٹیا حرکت ہے ہاں؟ تم بس یہ دیکھو نکمے آدمی کے ہمارا کتنا فائدہ ہے اس میں۔ اتنی ہی اگر اس ریاض میں عقل ہوتی تو کبھی میری سنتا ہی نا پر ہمارا کام مشورہ دینا ہوتا ہے وہ چاہے اس پر عمل کرے یا چاہے تو نا کرے۔ ہم اسے اپنے مشوروں کے پابند تھوڑی نا کرتے ہیں۔ اس لیے اگر وہ یہ عمل کر گزرتا ہے تو اس میں ہم گناہ گار نہیں ہوں گیں آئی سمجھ؟؟ اب جاؤ مجھے آرام کرنا ہے میرا سر نا کھاؤ مزید"
وہ غصے سے چلاۓ تھے۔ ان کا غصہ دیکھ کر وہ شخص مزید سہم گیا تھا اس لیے وہاں سے چلے جانے میں ہی اپنی بھلائی جانی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں آپ سے آخری بار پوچھ رہا ہوں کیا آپ واقعی ایسا کرنا چاہتے ہیں؟"
دوسری جانب خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
"بتائیں جلدی ہمارے پاس ایسا وقت اور موقع دونوں دوبارہ نہیں آئیں گیں۔ ٹریکر کے مطابق کسی بھی لمحے آپ کے بیٹے کی گاڑی یہاں سے گزرنے والی ہے ان کے گھر سے بس ایک یہی رستہ ہے قریبی ہسپتال جانے کا کیا آپ واقعی چاہتے ہیں؟"
دوسری جانب جو سوال پوچھا جا رہا تھا انہیں اسی سوال کا تو اتنے عرصے سے انتظار تھا انھیں نے نو ماہ تک صبر کیا تھا اس ایک لمحے کا۔ انہیں آج بھی تھوڑا سا بھی افسوس نہیں تھا کیسے انہوں نے اپنی ضد اور انا میں اپنے بیٹے کے ارمانوں کا خون کیا تھا۔ نو ماہ پہلے بھی کتنی خوشی سے دانیال نے انہیں کال کر کے انہیں خوشخبری سنائی تھی۔ وہ یقیناً بہت خوشی کا اظہار کرتے اگر بابا جی کا حکم انہیں نا ماننا ہوتا انہوں نے بڑی بے رحمی سے اس کا دل توڑا تھا۔ اور مبارکباد کیا خوشی کا ایک لفظ بھی کہے بغیر اسے دوبارہ فون نا کرنے کو کہا تھا۔ بس نو ماہ سے وہ یہی انتظار کر رہے تھے کے اولاد پا لینے کے قریب ہی جب وہ اپنی اولاد سے ہاتھ دھو بیٹھے گا تب ہی دانی کو احساس ہو گا کے اولاد کا دکھ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اور پھر وہ روتا بلکتا ہوا آئے گا اور اپنے ابا جان کے قدموں میں گر کر معافی مانگے گا بس یہ سوچ کر انہیں مسرت کا احساس ہوتا تھا۔ اور بابا جی کے بچھائے ہوئے جال میں وہ کتنی آسانی سے وہ پھنس چکے تھے انہیں فلوقت اس بات کا احساس نہیں ہوا تھا۔ بابا جی کی مدد سے ہی انہوں نے کا ایک بندہ ڈھونڈا تھا۔ جو ٹارگٹ کلنگ میں ماہر تھا۔
"سر؟؟"
سوچوں کی دنیا سے نکل کر وہ حال میں واپس آئے تھے۔ جب کان پر لگے فون سے آواز آئی تھی۔
"یس شوٹ دا ٹائر"
وہ بے رحمی سے بولے تھے اپنی ہی اولاد کے ساتھ ایسی گھٹیا ترین حرکت کرتے ہوئے انہیں ذرا بھی شرم یا ندامت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
کچھ لمحوں بعد انہیں اسی نمبر سے کال ریسیو ہوئی تھی۔ انھوں نے موبائل کان کے ساتھ لگایا تھا۔
"سر ہم نے دو ٹائر پے فائر کیا تھا اندر چار جوان لوگ موجود تھے دو مرد اور دو عورتیں سمیت اس حاملہ عورت کے۔ ان میں سے کوئی بھی نہیں بچا ہو گا کوئی موجزہ ہو تو شاید ایک آدھا بندا بچ گیا ہو۔۔ ابھی کافی لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہو گیا ہے۔۔ لوگ انہیں ہسپتال بھجوا رہے ہیں۔ کسی کو بھی اندازہ نہیں ہوا کہ یہ ایکسیڈنٹ کروایا گیا ہے۔ آپ بے فکر رہیں ہم میں سے کسی پر بھی نام نہیں آئے گا۔ اور میری فیس تیار رکھیں۔"
اس شخص کے الفاظ تھے یا کوئی تیر جو ان کے دل میں پیوست ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی آدھی بات سن کر ہی ان کا ذہن مؤف ہوا تھا۔ انہوں نے تو معمولی سے ایکسیڈنٹ کا کہا تھا پھر اس بندے نے ھدایات سے مختلف کام کیوں کیا تھا۔۔ وہ اس وقت کچھ بھی سوچنے سے قاصر تھے۔ انہیں سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کس قسم کا اظہار کریں۔ اب دوسرے مشکل منصوبے پر عمل کرنا تھا۔ جو اس سے تھوڑا مشکل تھا۔۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Where stories live. Discover now