Episode#24

2.2K 137 23
                                    

انہوں نے آج گاڑی بابا جی کے آستانے کے تھوڑا دور کھڑی کی تھی۔ ہمیشہ بابا جی ان کے لیے سب لوگوں کو واپس بھیج دیا کرتے تھے ان کو بابا جی کا یہ عمل ہر گز پسند نہیں تھا۔ اس کے پیچھے ان کے لیے بابا جی کا بے پناہ پیار تھا وہ تو آج تک یہ سمجھتے رہے تھے پر بعض اوقات حقیقت ہمیں نظر نہیں آ رہی ہوتی۔ اس لیے انہوں نے سوچا کے آج گاڑی باہر کھڑی کر دیں کسی کو ان کی آمد کے بارے میں علم نہیں ہو گا۔جب وہ بابا جی کے حجرے کے قریب پہنچے تو خلاف توقع آج کوئی بھی وہاں نہیں تھا آس پاس مکمل سناٹا تھا۔ بس ایسے خاموش ماحول میں بابا جی کے قہقہوں کی آواز گونج رہی تھی جو ان کے حجرے سے باہر بھی آ رہی تھی۔ انھیں زور کا جھٹکا لگا تھا۔ وہ بابا جی جو ہلکا سا مسکرایا بھی نہیں کرتے تھے آج ان کے ہی فلک شگاف قہقہے گونج رہے تھے۔ تجسس کی وجہ سے وہ ذرا ان کے حجرے کے قریب گئے تھے اب انہیں اندر موجود لوگوں کی آواز بلکل واضح سنائی دے رہی تھی۔
"بابا جی کیا واقعی آپ نے اس ٹارگٹ کلر کو ریاض احمد کی ہدایت کے برعکس کام کرنے کے ایکسٹرا پیسے دیے تھے؟"
کسی شخص نے صدمے سے پوچھا تھا۔
"ہاں اور یہی نہیں میں نے ہی تو خورشید کو ریاض کے آفس بھیجا تھا وہ بیوقوف آدمی سمجھ رہا ہو گا کے میں اس کے آفس کی ترقی کا خواہشمند ہوں مگر اسے کیا معلوم وہ آفس کی ڈیلنگز کے بہانے سارے پیسے مجھے دے جاتا ہے۔ اب تک تو ہم نے کتنے کروڑ اڑا بھی لئے ہیں۔ وہ اب بھی نہیں جان پاۓ گا کون اس کے ساتھ مخلص ہے اور کون نہیں۔۔ اسی وجہ سے تو اس نے اپنے سب اپنوں کو کھو دیا یہاں تک کے اس کی اپنی وجہ سے اس کے بیٹے بھی چل بسے اور اب وہ اسی غم میں مبتلا رہے گا اور ہماری بھی عیش ہوتی رہے گی۔ اتنی محنت اس پر ایسے ہی نہیں کی تھی میں نے"
بابا جی کے الفاظ سن کر ان کے لئے اپنے قدموں پر کھڑا رہنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ لڑکھڑاتے ہوئے وہ اپنی گاڑی تک پہنچے تھے۔ یہ تھا وہ شخص جس کے لیے انہوں نے سب کو کھو دیا تھا۔ یہ تھا وہ انسان جس کی وہ بیحد عزت کیا کرتا تھا اور یہاں تک کے اس شخص کو اس نے خدا کے برابر تصور کر لیا مگر یہی تو حماقت تھی۔ جب اللّه خود قرآن پاک میں متعدد مقامات میں فرماتا ہے کہ اس کا کوئی شریک ہے ہی نہیں تو پھر انسان کیسے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی سب سے اہم اور بڑی وجہ یہی ہے کے ہم قرآن نہیں پڑھتے ہم خداتعالیٰ کی کتاب کھول کر دیکھتے ہی نہیں کے اس نے ہمیں کون کونسے احکامات دیے ہیں اور کن باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اللّه تعالیٰ سوره اخلاص میں فرماتے ہیں۔
"کہہ دجیۓ اللّه ایک ہے۔ اللّه بے نیاز ہے۔ نا وہ کسی سے پیدا ہوا ہے نا اس سے کوئی پیدا ہوا ہے۔ اور اس کا کوئی ہم پلہ نہیں ہے۔"
پھر بھی لوگ اتنی آسانی سے کیسے مشرک لوگوں کی بات میں آ جاتے ہیں۔ انسان غلطیوں کا پتلا ضرور ہے۔ مگر ایک ہی غلطی بار بار کرتا رہے تو وہ اس کی حماقت ہوتی ہے۔ اور یہ شرک کرنا کوئی معمولی غلطی نہیں ہے یہ گناہ ہے اور گناہوں کی فہرست میں سب سے کبیرہ گناہ یہی ہے۔ نا جانے لوگ کس گمان میں رہتے ہیں کے یہ بخش دے جائیں گیں؟؟ ایسے لوگ جو دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر در پے در گناہ کیے جاتے ہیں خصوصاً وہ جو مشرک ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
"اللّه شرک کرنے والے کو معاف نہیں کر تا اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف کر دے گا"
پر سچے دل سے کی گئی توبہ انسان کو معاف کروا ہی دیتی ہے رب تو کہتا ہے کے میری رحمت میرے غضب پر بھاری ہے تو لوگ کیوں نہیں اس سے اس کی رحمت کی بھیک مانگتے۔۔ کیوں اس وقت اپنی عقل کو ہاتھ مارتے ہیں جب توبہ کا دروازہ ان پر بند کر دیا جاتا ہے۔ اپنے کے گئے سارے اعمال پر آج وہ تہے دل سے شرمندہ تھے۔ ابھی وہ یہیں سوچوں میں ڈوبے تھے کے یکا یک پولیس کی دو تین گاڑیاں انہی کی جانب آ تی دکھائی دیں تھیں۔ وہ حیرت سے ان گاڑیوں کو تک رہے تھے۔ بابا جی کا آستانہ ایک سنسان سے علاقے میں تھا جہاں صرف اس کے عقیدت ماند ہی آتے تھے پر آج پولیس کی یہاں آمد پر وہ حیرت کا مجسمہ بنے کھڑے تھے۔ اب پولیس والے گاڑیوں سے نکل کر بہت احتیاط سے آستانے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ وہ ان کی کاروائی دیکھ کر دل میں آنے والے خیالات کو جھٹکا رہے تھے۔ کچھ لمحات بعد ہی بابا جی بھاگتے ہوئے ان کی جانب آ رہے تھے۔ ان کے پیچھے ہی پولیس کے آفیسرز ہاتھوں میں گن پکڑے ان کا نشانہ لیتے ہوئے آ رہے تھے پیچھے بابا جی کے تمام ما تحت پولیس کے باقی آدمیوں کے ہمرا آرہے تھے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ بابا جی بھاگتے ہوئے ایک دم سے ریاض کے پیچھے چھپے تھے۔
"ریاض تم مجھے بچا لو انہیں کچھ رقم دے دو مگر مہربانی کرو مجھ پر اپنے بابا جی کو بچا لو یا اللّه مجھے معاف کر دے مجھے بچا لے۔"
وہ خوف سے بول رہے تھے ان کی آواز کی لرزش واضح محسوس کی جا سکتی تھی۔ وہ شخص جو خود کو خدا کے برابر تسلیم کرواتا تھا آج جب اس کی اپنی جان خطرے میں تھی تو اسی رب سے مدد کی پکار کر رہا تھا۔ اگر وہ اتنا ہی طاقتور تھا جیسے دوسروں کے سامنے اپنے آپ کو ان کا داتا کہلواتا تھا تو آج اس کی وہ طاقت اس کے کام کیوں نہیں آ رہی تھی وہ تنہا اور  بےبس کیوں تھا؟؟
" بات کیا ہے انسپکٹر ؟"
وہ سنجیدگی سے اس آفت کی وجہ پوچھنے لگے۔
"یہ شخص اپنے گروہ کے ساتھ مل کر معصوم اور امیر لوگوں کو بیوقوف بناتا ہے اور ان کی جائیداد ضبط کر لیتا ہے اور ان کے آفس میں بھی قبضہ کر لیتا ہے اور جب وہ نادان حقیقت جان لیتا ہے تو پھر شہر سے ہی غائب ہو جاتا ہے۔کتنے ہی مہینوں سے ہم اسے تلاش رہے ہیں ۔ فائنلی آج یہ ہاتھ لگ ہی گیا۔"
وہ ان پر کئی انکشاف کر رہے تھے انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کے کس قسم کا اظہار کریں۔۔ ان کے چہرے پر کئی سائے آ کر گزرے تھے۔ انسپکٹر نے ان کی شخصیت کے رعب اور دھیمے پن کی وجہ سے انہیں بابا جی کا ما تحت نہیں سمجھا تھا نہیں تو آج وہ بھی ان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے جو بابا جی کا مقدر  بننے جا رہا تھا۔
"پر یہ تو۔۔۔۔"
ان کے الفاظ ہی نہیں نکل رہے تھے یا پھر شاید ایک مشرک شخص اور مشرک بنا دینے والے شخص کے لیے صحیح الفاظ کا منتخب کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔
"جی کہیں آپ بھی تو ان کے مرشد نہیں؟"
افسر نے انہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھا تھا۔ ان دونوں کو محو گفتگو دیکھ کر بابا جی فرار ہونے کی کوششوں میں تھے۔ جسے اس افسر کی گہری آنکھیں دیکھ چکی تھیں۔ انھوں نے فوراً ریاض صاحب کو جھکنے کو کہا تھا وہ بغیر کوئی سوال کیے نیچے کی جانب جھکے تھے اور پولیس افسر نے یکے بعد دیگرے فائر کیے تھے۔ بابا جی زمین پر ڈھے گئے تھے۔ ساری زمین لہو لہو ہو رہی تھی۔ ریاض احمد یہ سارا منظر دیکھ کر شش و پنج میں مبتلا تھے۔ جو دوسروں کی زندگیاں لمبی کرنے کا دعوه کیا کرتا تھا آج خود موت کا شکار ہوا تھا۔ بہت سی حقیقتیں انہیں سمجھ آئیں تھیں۔ مگر اب پچھتاوے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں تھا۔ پولیس کی گاڑیاں ایک ایک کر کے نکلنے لگی تھیں۔ ایمبولینس بھی بلوا لی گئی تھی۔ بابا کی لاش کو بھی لے جایا گیا تھا۔ وہاں اگر کوئی رہ گیا تھا تو وہ تھے اور ان کے لا تعداد غم اور پچھتاوے۔ اولاد کھو دینے کا دکھ۔۔ بہن سے بچھڑ جانے کا ملال۔۔ پوتے کو باہر بھیج دینے کی اداسی اور پوتی جن کی انہیں شکل دیکھنا تک بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ "پوتی"۔۔ ان نے ذہن میں جھماکہ ہوا تھا۔ میری پوتی بس بہت ہو گیا جتنی غلطیاں اور گناہ کرنے تھے کر لیے اب اور نہیں انہوں نے گاڑی جمیلہ کے گھر کی طرف بھگانی شروع کی تھی۔ مگر افسوس جمیلہ کا دروازہ کھٹکھٹانے پر انہیں معلوم ہوا کے وہ گھر کرائے پر دے چکی ہیں اور اب وہ کہاں گئیں ہیں کسی کو کچھ خبر نہیں۔ ایک بار پھر شکستہ قدم وہ لوٹے تھے۔ گھر آ کر نجانے کتنے برس بعد انہوں نے وضو کیا تھا جاۓ نماز بچھاتے ہوئے ملال اور رنج تھا جو ان کے چہرے پر رقم تھا۔۔ کئی سالوں بعد اللّه نے انہیں سجدہ کرنے کی توفیق دی تھی۔ سجدے کی حالات میں نا جانے وہ کتنی دیر رب کے حضور روتے رہے تھے۔ توبہ کرتے رہے تھے اپنی گزشتہ زندگی کے گناہوں کی توبہ کرتے رہے تھے۔ انہوں نے آج سب کچھ کھو دیا تھا سب اپنے بچھڑ گئے تھے۔ باقی رہا تھا تو وہ خدا جو تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔۔ کون ہے جو اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔۔ وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔۔ انہوں نے کئی معاملات میں خود کی اصلاح کر لی تھی۔ اب باقائدگی سے نماز پڑھنے لگے تھے مسجدوں کے لیے کثیر رقم دینا اور یتیموں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھنا ان کی روز کی زندگی کا معمول بن گیا تھا۔ آفس کو بھی خود دیکھنے لگے تھے۔ ان کا بزنس اب بہت ترقی کر رہا تھا اپنے پرانے یادوں سے بھرے گھر میں ان کے لیے رہنا آسان کام نہیں تھا اس لیے انہوں نے ایک نیا بنگلہ خرید لیا تھا۔ اب زندگی تھوڑی پرسکون ہو گئی تھی۔ زیان کی پڑھائی مکمل ہوتے ہی انہوں نے اسے اپنے پاس بلا لیا تھا وہ بھی ان سے کھنچا کھنچا سا رہتا تھا پر یہ ان کے لیے تکلیف دہ ضرور تھا مگر ان کا آخری سہارا تھا۔ ان کا اپنا خون ان کا واحد اپنا وہ اس کو اس کے تمام رویوں سمیت بہت محبت کرتے تھے۔ عنایہ کو پہلے دن آفس میں دیکھ کر انہیں کچھ کھویا ہوا پا لینے کا احساس ہوا تھا مگر انہوں نے اس احساس کو دل کی خوشفہمی کا نام دے دیا۔۔ پر وقت گزرتا گیا اور وہ حجابی لڑکی ان کے دل کے بہت قریب ہوتی گئی۔۔ پھر دبئی میٹنگ میں کامیابی کی خوشی میں ان کے گھر وہ مدعو تھی۔ انہیں اس لڑکی کو پہلی دفع گھر بلانے کی بہت خوشی تھی مگر وہ دن شاید انکشافات کا دن تھا۔وہ دن سب کے لیے ایک بڑا شاک اپنے ساتھ لایا  تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمیلہ بیگم کے لیے اس گھر میں رہنا اب بہت مشکل ہو گیا تھا ۔اس گھر میں انہوں نے اتنی خوشیاں دیکھی تھیں اب وہاں رہنا ان کے لیے محال تھا۔ انہوں نے عنایہ کو لے کر شہر کے پاس ایک گاؤں میں رہائش گاہ کا بندو بست کر لیا تھا اپنے گھر کو کرائے پر دے دیا تھا جس سے ان کے گھر کا نظام چل جایا کرتا تھا۔ باقی کے اخراجات وہ چھوٹی موٹی نوکری کر کے پورے کیا کرتی تھیں۔ عنایہ کی تعلیم انہوں نے بہت محنت کر کے پوری کروائی تھی۔ تعلیم کے مکمل ہونے پر ان کا گزارا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ عنایہ بہت پر اعتماد لڑکی تھی۔ عنایہ کے ہی ضد کرنے پر انہیں دوبارہ اسی شہر میں آنا پڑا تھا جہاں ان کا بھائی بھی رہتا تھا۔ وہ ان کی اولاد نہیں تھی پر اولاد سے کم بھی نہیں تھی اولاد کی ضد کے آگے ماں باپ ہار ہی جاتے ہیں۔ وہ عنایہ کی خوشی کے لیے  شہر واپس آئیں اپنے گھر میں رہنا شروع کیا جہاں بہت سی خوش گوار یادیں تھیں۔ پر آخری یاد ان کے لیے بلکل بھی خوشگوار نہیں تھی۔ پھر گھر کے اور انکے اپنے اخراجات اٹھانا اب بہت مشکل ہو گیا تھا وہ اب بوڑھی ہو گئیں تھیں اور کوئی کام نہیں کر سکتی تھیں۔ عنایہ کے بے جا زور لگانے پر انہوں نے اسے نوکری کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ پھر وہ دن آیا جب وہ پہلی دفع زیان کے ساتھ ان کی سالگرہ میں آئی تھی۔ زیان کو دیکھ کر انہیں لگا ان کا ضبط ٹوٹ جاۓ گا انہیں بار بار یہی احساس ہوتا رہا تھا جیسے وہ ان کا اپنا نواسہ ہو۔۔ خونی رشتوں میں بہت کشش ہوتی ہے۔ وہ آپ کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ پر انہوں نے اپنے دل کو سمجھا لیا تھا۔۔ اور ایک بار پھر سے ساری توجہ عنایہ پر کر لی تھی۔
ان کے گھر کے ساتھ ان کی پرانی دوست ان کی واپسی تک وہیں مقیم تھی۔۔ وہ اکثر وقت گزاری کے لیے وہاں چلی جاتی تھیں وہ ان کی دوست کم اور بہن زیادہ بن گئی تھیں۔ عنایہ نے تو ان کو واقعی اپنی نانی ماں کی صحیح والی بہن سمجھ لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                     حال (PRESENT TIME)
وہ سب گنگ بیٹھے تھے۔ آنکھیں اشکبار تھیں۔ زبان کو تو جیسے تالے لگ چکے تھے۔ وہ آج تک جیسا سمجھتے رہے تھے ویسا نہیں تھا۔
"اب بس تم دونوں سے گزارش ہے کہ مجھے معاف کر دو میں اب مزید کسی کو کھو دینے کا حوصلہ نہیں رکھتا"
ریاض صاحب ان دونوں کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے تھے۔
"سر یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟"
عنایہ جلدی سے صوفے سے اٹھ کر ان کے قدموں میں بیٹھی تھی زیان نے حیرت سے اس لڑکی کو دیکھا تھا جس کے ماں باپ اس کے اپنے دادا کی وجہ سے انتقال کر گئے رہے تھے آج اسی شخص کو معافی مانگنے سے بھی منع کر رہی تھی۔ وہ تو پھر بھی ماں باپ کی گود میں کھیلا تھا ان سے لاڈ اٹھوائے تھے۔اور مریم نے بھی تو اسے کم پیار سے نہیں پالا تھا۔ پر عنایہ نے تو ساری عمر نانی ماں سے پرورش پائی تھی ۔ ماں باپ کا چہرہ دیکھنا بھی اسے نصیب نہیں ہوا تھا۔ یہ سب دیکھ کر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا۔
"عنایہ کیا کر رہی ہو تم ایسے شخص کے لیے رحم کے جذبات رکھتی ہو جس نے ہمارے ماں باپ کو ہمیشہ کے لیے ہم سے دور کر دیا!!"
وہ غم و غصے سے بولا تھا۔۔
"عنایہ تم اس کو معاف نہیں کرو گی چلو اپنے گھر چلیں"
جمیلہ بیگم نے لاؤنج میں قدم رکھتے ہی حتمی فیصلہ سنایا تھا۔ان کی سب نے مڑ کے دیکھا تھا ریاض تو ان سے نظریں نہیں ملا پا رہے تھے۔
"آپا جان" وہ چہرہ جھکائے بولے تھے۔
"مت کہو تم مجھے آپا جان۔۔ آج سے بیس سال پہلے میں نے تم سے اپنے سارے رشتے ختم کر دیے تھے"
وہ مضبوط لہجے میں بولی تھیں۔
"آپا جان پر کہہ دینے سے رشتے اور تعلق ختم تو نہیں ہو جایا کرتے نا۔۔ مہربانی کریں مجھ پر مجھے معاف کر دیں۔۔مجھ سے بہت سے گناہ ہوئے ہیں میں نے توبہ کر لی ہے مجھے آپ بھی معاف کر دیں۔۔ میرا آپ کے اور ان بچوں کے سوا اب کوئی نہیں رہا۔۔ بیس سالوں سے میں آپ دونوں کو ڈھونڈ رہا ہوں پر مجھے ہمیشہ ناکامی ہوئی۔ شاید ہمارا ملنا یوں لکھا تھا۔۔ آپا جان پلیز مجھے معاف کر دیں ایک موقع دے کر تو دیکھیں"
وہ ان کے قدموں میں گڑے تھے۔۔ رو رہے تھے بلک رہے تھے۔۔ وہ چاروں حیرت کا مجسمہ بنے کھڑے تھے جو ریاض آفس میں اتنی متاثر کن شخصیت رکھتے تھے آج بڑی بہن کے قدموں میں بیٹھے ہاتھ جوڑتے ہوئے ان سے معافی مانگ رہے تھے۔ جمیلہ نے خود کو کمزور پڑتا ہوا محسوس کیا تھا جو وہ نہیں چاہتی تھیں۔
"نانی ماں دیکھیں میری بات سنیں جو ہونا تھا وہ ہو چکا نا۔ اور اللّه نے جو ہماری قسمت میں ہمارے لیے لکھ دیا ہے وہ تو ہو کر ہی رہنا ہے چاہے اس کا وسیلہ کوئی بھی شخص بنے۔ سر نے ہمارے ماں باپ کو مارا نہیں ہے ان کی موت لکھ دی گئی تھی اور بس یہ وسیلہ تھے۔۔ آپ پلیز انہیں معاف کر دیں"
وہ ان کے قریب آ کر انہیں پیار سے سمجھا رہی تھی۔
"تم اتنی آسانی سے کیسے کہہ سکتی ہو یہ سب تم نے بھی تو اپنے ماں باپ کھوئے ہیں۔۔ کیا تمہیں سچ سن کر ان پر ذرا بھی غصہ نہیں آیا؟؟"
وہ اس کی خلاف توقع بات سن کر بولی تھیں۔
"پر نانی ماں آپ سب یہ بھی تو دیکھیں نا کے جس بات پر آپ لوگ آج تک یوں ایک دوسرے سے دور رہے ہیں اس بات کو بیس سال گزر چکے ہیں۔۔ اللّه نے ان سب کی موت یونہی لکھ دی گئی تھی کیا اس سب میں ہم کچھ کر سکتے ہیں؟؟"
"عنایہ یہ کوئی چھوٹی سی بات نہیں ہے"
زیان سنجیدگی سے بولا تھا۔۔
"لیکن جس بات کی نا ہم اصلاح کر سکتے ہیں نا ہم وقت پیچھے جا کر صحیح کر سکتے ہیں اس بات پر افسوس کرنے یا لڑنے جھگڑنے کا کوئی فائدہ۔۔؟؟ دیکھیں آج اتنے سالوں بعد اگر ہم ملے ہیں  تو اس عمل کے پیچھے چھپی اللہ کی حکمت جاننے کی کوشش کریں۔۔ اب ہم ساتھ رہ سکتے ہیں۔ جو اب صحیح ہو ہی نہیں سکتا اس پر کیسا افسوس یا کیسا غصہ۔۔ ہم سب اللّه کے نظام میں زندگی گزارنے کے پابند ہیں ہیں اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتے اللّه کے سامنے ہم سب بےبس ہیں۔۔ بس جو ہوا سو ہوا اسے اللّه کی رضا سمجھ کر قبول کر لیں۔ ان کی موت یونہی ہونا لکھی تھی"
وہ بڑے پیار اور نرمی سے سب کو اپنی بات سمجھا رہی تھی۔
"عنایہ تمہاری سب باتیں ٹھیک ہیں مگر۔۔"
جمیلہ بولی تھیں۔
"مگر کیا پیاری نانی ماں؟؟ دیکھیں اگر اللّه نے آج بیس سال بعد سب اپنوں کو اکھٹا کیا ہے تو آپ کیوں گریز کر رہے ہیں۔۔ ہمیں اب ممتا اور شفقت دونوں ساتھ مل رہی ہیں تو کیوں یہ سنہری موقع گنوائیں کیوں زیان؟"
زیان نے ہلکا سا مسکرا کر اس پیاری لڑکی کو دیکھا تھا۔وہ اس کی باتوں سے قائل ہو گیا تھا بلکہ وہاں موجود سب ہی دل سے اس کی باتوں کے قائل ہوئے تھے۔
"چلیں صلح کریں بھئی ملائیں ہاتھ"
وہ آنسو صاف کرتے ہوئے مسکرا کر بولی تھی۔ سب کی آنکھیں اشکبار تھیں۔
"ریاض"
جمیلہ نے دھیرے سے انہیں پکارا تھا
"آپا جان مجھے معاف کر دیں"
وہ پھر روتے ہوئے بولے تھے۔
"میں نے تمہیں معاف کیا خدا کی رضا کے لیے"
انہوں نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔
"آپا جان"
وہ اٹھ کر انہیں حیرت سے دیکھنے لگے تھے۔
"ہاں ریاض میں نے تمہیں معاف کیا میرے بھائی"
وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بولی تھیں۔۔
"آپا جان"
ریاض سے شدتِ جذبات سے انہیں اپنے بانہوں  میں لیا تھا۔ سب یہ منظر دیکھ کر مسکرا اٹھے تھے۔ آنکھیں سب کی رونے سے سرخ ہو رہی تھیں۔۔زیان نے مسکرا کر عنایہ کو دیکھا تھا جس کی وجہ سے آج سب پھر سے ایک ہو گئے تھے نہیں تو کیا پتا تھا کہ یہ صلح کبھی نا ہوتی اور دو بہن بھائی اگلے بیس سال تک ایک دوسرے سے ملتے ہی نا۔۔۔۔ ذرا سی بات پر آج کل گہرے تعلقات ختم کر دیے جاتے ہیں۔ اگر انہیں عقلمندی سے حل کر لیا جاۓ تو کبھی کوئی اپنے دور نا ہوں پر دماغ کے بجاۓ دل سے فیصلہ کرنے والوں کو کون سمجھائے پر یہ بھی سچ ہے کہ دل سے کیے گئے فیصلے بھی اکثر بہت سی خوشیوں کا سبب بنتے ہیں۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Where stories live. Discover now