"نانی ماں جلدی بھی تیار ہو جائیں۔ ہم لیٹ ہو جائیں گیں۔"
عنایہ نے کمرے میں آتے ہوئے کہا تھا۔ وہ ابھی تک کپڑے لیے ویسے ہی بیٹھی ہوئی تھیں جیسے وہ کچھ دیر قبل ان کو بیٹھا چھوڑ کر نہانے گئی تھی۔
"کیا بات ہے؟"
ان کو مسلسل خاموش پا کر وہ ان کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی۔
"بیٹا ایسے نہیں بیٹھتے اوپر بیڈ پر آؤ"
انہوں نے اس کے چہرے پر پیار سے ہاتھ پھیر کر کہا تھا۔
"اچھا اب بتائیں کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہیں؟"
"کچھ نہیں بس سوچ رہی تھی کہ خالی ہاتھ جائیں گیں تو اچھا نہیں لگےگا کچھ فروٹ یا جوس لے کر چلتے ہیں۔"
"ارے بس اتنی سی بات۔ اوکے نانی ماں جاتے ہوئے لے لیں گیں۔"
وہ مطمین سی ہو کر حجاب اوڑھنے لگی تھی پر اب جمیلہ بیگم اسے کیا بتاتیں کہ ایک بے نام سی بیچنی نے انہیں گھیرا ہوا تھا۔ ایک عجیب سا وہم لاحق تھا انہیں کہ جس شخص کو انہوں نے زندگی بڑھ نہ دیکھنے کی ٹھانی ہوئی تھی آج اس سے ان کا ٹکراؤ ضرور ہوگا۔ دل میں الگ قسم کے وسوسے آ رہے تھے۔ اپنی تمام تر منفی سوچوں کو جھٹک کر وہ کپڑے تبدیل کرنے کے لیے اٹھ گئیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں پھر کب تک پہنچ رہا ہے؟"
سفیان کے فون اٹھاتے ہی زیان نے کہا تھا۔
"بس یار میں تو نکل آیا ہوں پر زرشی میڈم کی کال آئی تھی کے سفی پلیز مجھے بھی ساتھ لے جانا۔ اس کی طرف جا رہا ہوں نہیں تو اب تک تیرے پاس ہونا تھا۔"
اس نے زرشی کے کہنے کے انداز کی نقل اتارتے ہوئے کہا تھا۔
"اوہ ہو شادی کے بعد تو سبھی ہوتے ہیں پر تو تو شادی سے پہلے ہی جورو کا غلام بن گیا ہے میرے یار"
اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
"بچو تیرا بھی ٹائم آنے والا ہے۔ تو بھی مزے کر لے جتنے کرنے ہیں۔"
سفیان نے حساب برابر کرنا چاہا تھا پر مقابل بھی خطروں کا کھلاڑی تھا اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھبرانے کی بجاۓ کہنے والوں کو ایسا جواب دیتا کہ ان کی دوبارہ کچھ کہنے کی جرات نہ ہوتی۔
"دیکھا جائےگا۔ پر یار میں ایک بات سوچ رہا تھا۔"
زیان نے بظاھر سنجیدگی سے کہا تھا۔
"ہاں کیا؟"
سفیان بھی سنجیدہ ہوا تھا۔
"یار وہ تمہاری اور زرشی کی شادی کے بعد تم لوگوں کا گھر پاگل خانہ کہلاۓ گا نہ۔ وہ کیا کہتے ہیں خوب جمے گی جب مل بیٹھیں گیں دو پاگل"
بات مکمل ہوتے ہی دونوں طرف فلک شگاف قہقہے گونجے تھے۔
"بس یار تیری شادی ہونے دے گن گن کر بدلے لوں گا تجھ سے۔"
سفیان نے اس کو وارن کیا تھا پر وہ بھی اعلی قسم کا ڈھیٹ تھا۔
"ضرور ضرور مجھے تب شرمانے کا موقع مل جائےگا ویسے تو تیرے ساتھ رہ کر شرم وحیا سے بلکل ہی لاتعلق ہو گیا ہوں"
اس نے سارا حساب برابر کر دیا تھا۔
"ٹھیک ہے تنگ نہ کر آ گیا ہے زرشی کا گھر"
زیان سب کو باتوں میں پورا کر دیتا تھا اور اس وقت سفیان نے کال بند کرنے کو ترجیح دی تھی۔ ورنہ اس نے ہار کر اپنا موڈ خراب کر لینا تھا۔جو وہ اس وقت بلکل بھی افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔
"اچھا جلدی اس کو لے کر پہنچ۔ دادا کب سے ویٹ کر رہے ہیں۔ عنایہ بھی آتی ہوگی۔"
"اوکے بائے۔"
سفیان نے کہتے ساتھ کال کاٹ دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جلدی نہیں آ سکتے تھے تم؟"
وہ گاڑی میں بیٹھتے ساتھ اس پر برس رہی تھی۔
"تو اور کیا دیر سے آیا ہوں؟"
وہ بھی اسی کے انداز میں بولا تھا۔ فلائٹ کے بعد آج اسے زرشالا کو دیکھنے کا موقع ملا تھا اور وہ ملتے ہی اس سے لڑنے لگی تھی۔
"ہاں پورے پانچ منٹ"
وہ تنک کر بولی تھی۔
"اوکے بابا سوری۔"
سفیان نے اس بےتکے جھگڑے سے جان چھڑوانی چاہی تھی۔
"ٹھیک ہے آئندہ خیال رکھنا۔"
وہ فاتحانہ انداز میں مسکرائی تھی۔
"آئندہ سے کیا مطلب ہے تمہارا؟ میں نے کوئی ساری زندگی کے لیے تمہیں پک اینڈ ڈراپ کرنے کی ذمہ داری تھوڑی قبول کی ہے۔"
سفیان بےدھیانی میں کیا بول گیا تھا اسے بھی ہمیشہ کی طرح بولنے کے بعد احساس ہوا تھا۔ دونوں نے پہلے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا اور دوسرے ہی لمحے نظریں پھیر لی گئیں تھیں۔ان کے درمیان کافی دیر تک خاموشی رہی تھی۔
"قلفی کھاؤ گی؟"
کافی دیر کے بعد سفی نے ہمت کر کے گاڑی کے اندر کے ماحول کی گھٹن کو کم کرنے کوشش کی تھی۔
"ہاں کہاں ہے؟"
وہ پرجوش ہوئی تھی۔
"لاتا ہوں۔"
کہتے ہوئے اس نے بریک لگائی تھی۔ اور گاڑی سے باہر نکل کر پاس ہی میں بنی ایک دکان سے قلفی لینے گیا تھا۔جب وہ قلفی لے کر آیا تو زرشی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا تھا۔
"سفی میں کیسے کھاؤں؟"
"منہ سے"
وہ اپنی قلفی سے انصاف کرتا ہوا بولا تھا۔
"افو میرا حجاب خراب ہو جائے گا"
وہ تنگ آ کر بولی تھی۔
"تو میں کھا لیتا ہوں تمہاری"
اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا تھا۔
"بکواس بند کرو اور ٹشو دو تم۔ میں خود ہی کچھ کر لوں گی"
وہ بھڑک اٹھی تھی۔
"اچھا اچھا ڈیش بورڈ میں پڑے ہیں لے لو۔"
زرشی نے ٹشو نکال کر قلفی کے نیچے سٹک کے اوپر اچھے سے لپیٹا تھا۔ تا کے اگر کوئی قطرہ گرے تو اس کے کپڑے یا حجاب پر دھاگ نہ لگ جاۓ۔ آخر اس کو سر ریاض نے اپنے گھر ڈنر پر انوائٹ کیا تھا۔ یہ ڈنر دبئی کی میٹنگ کی کامیابی کی خوشی میں رکھا گیا تھا آفس میں ورکرز کو علیحدہ سے پارٹی دی جانی تھی اس لیے یہ ڈنر خصوصی ان چاروں کے لیے تھا اور زیان کے بے حد اسرار پر عنایہ کے ساتھ اس کی نانو کو بھی انوائٹ کیا گیا تھا۔
"عقل مند نہیں ہو گئی تم؟"
سفیان نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا تھا۔
"ہاں تم سے دو دن دور رہی ہوں نہ شاید اس لیے۔"
زرشالا نے شانے اچکتے ہوئے کہا تھا۔
اس کی بات کے جواب میں سفیان خاموش رہا تھا یا اس زرشالا کی اس حاضر جوابی پر وہ کچھ بولنے سے قاصر ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے سے اندر کوئی بھی آتا تو لاؤنج کے صوفے پر بیٹھا ہوا شخص اسے آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جو شاید دونوں کے لیے قیامت تھا۔ ایک احساس شرمندگی کی وجہ سے اس لمحے کے کبھی نہ آنے کا خواہشمند تھا تو دوسرا خونی رشتوں کی اہمیت خاک برابر ہو جانے کے خوف سے اس لمحے کے نہ آنے کا خواہاں تھا۔ پر ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ ہمشہ وہ عمل ہو کر رہتا ہے جس میں خدا کی رضا شامل ہو۔ کوئی بھی ہونے کو نہیں ٹال سکتا جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ کبھی کبھی انسان کچھ لمحوں کے خوف سے کہیں ایسی جگہ چھپ جانا چاہتا ہے جہاں اسے کوئی بھی ڈھونڈ نہ سکے۔ پر اس لمحے شاید وہ بھول جاتا ہے کہ خدا کی نگاہ سے کوئی بھی چھپ نہیں سکتا چاہے وہ کہیں بھی بسیرا کر لے۔ خدا تو وہ ہے جو ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کی گہرائی تک نگاہ رکھتا ہے۔ پر ہمیشہ وہ نہیں ہوتا جو انسان چاہ کرتا ہے۔ لمحے یا وقت کیسا بھی ہو گزر جاتا ہے۔ پر کچھ لمحے انسان کو صدیوں برابر لگتے ہیں۔ انسان بھی عجیب شہ ہے کبھی خواہش کرتا ہے کے حسین لمحوں کو اپنی مٹھی میں قید کر لے۔ وہ کبھی ختم نہ ہوں ۔ اور وہ وقت لا محدود ہو جائے۔ مگر ہائے لاحاصل خواہشات ہی کا نام تو زندگی ہے۔ اور کبھی کبھی انسان چاہتا ہے کے کئی لمحے اس کی زندگی میں آئے ہی نہ۔ وہ کہیں روپوش ہو جاۓ۔ انسان سمجھنے میں اس قدر پیچیدہ ہے کہ اپنے بنانے والے کے علاوہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔
عین اس وقت دروازہ کھلا تھا۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ صوفے سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ عنایہ اور زیان کا ہاتھ تھامے ہوئے وہ اندر داخل ہوئی تھیں۔ دونوں کی نظریں ایک ساتھ ٹکرائی تھیں۔ جہاں جمیلا کی گرفت ان دونوں کے ہاتھوں پر مضبوط ہوئی تھی وہیں انہیں بھی مزید کھڑے رہنے اور آگے آنے والے لمحوں کے لیے سہارا لینا پڑا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جو شاید نہ آتا ان سب کے لیے بہتر ہوتا پر تلخ حقیقتیں جان لینا ان کے لیے سب سے زیادہ بہتر تھا۔ جمیلا بیگم کے قدم وہیں رک گئے تھے۔ ان کے اس عمل پر حیرت سے عنایہ اور زیان نے ان کی جانب دیکھا تھا پھر ان کے نظروں کے تعقب میں ریاض احمد پر ان کی نگاہ پڑی تھی۔ دونوں ایک سی حالت میں کھڑے تھے۔ یک ٹک ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے۔ اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے۔ خدا کی مصلحت سے انجان۔
"کیا ہوا نانی ماں؟"
عنایہ نے گھبرا کر پوچھا تھا۔ مگر اس کی بات کا جواب دینے کی بجاۓ وہ آگے بڑھی تھیں۔ اور انتہائی طیش کے عالم میں انہوں نے ریاض احمد کے دونوں بازوؤں سے تھام کر ان کو جھنجھوڑ ڈالا تھا نجانےان کے کمزور بازوؤں میں اتنی طاقت کہاں سے آ گئی تھی۔ یا شاید یہ ان بیس سالوں کا غصہ تھا جو آج اکھٹا نکلا تھا۔ ریاض احمد ان سے شاید کچھ ایسا ہی توقع کر رہے تھے۔ اس لیے اپنی جگہ پر جامد رہے تھے۔ ان میں شاید اب ہلنے کی سکت بھی نہیں رہی تھی۔ وہ کہیں بھاگ جانا چاہتے تھے اس لمحے سے نظریں چڑا کر آگے بڑھ جانا چاہتے تھے مگر ایسا ممکن نہ تھا۔
"تم آج بھی کس بےشرمی سے میرے سامنے کھڑے ہو ریاض احمد۔۔۔ تمہاری وجہ سے۔۔۔ صرف تمہاری وجہ سے میں نے بیس سال۔۔۔ بیس سال پہلے اپنی دونوں جان سے پیاری بیٹیوں کو کھو دیا تھا۔۔۔۔تم اتنے سنگدل کیسے ہو سکتے ہو۔۔۔ تمہاری رگوں میں بھی تو ہمارے خاندان کا خون دوڑتا ہے۔۔ پھر بھی تم اتنے سفاک اور ظالم کیسے ہو سکتے ہو۔۔۔۔۔تمہاری وجہ سے میں نے اپنی بیٹیاں۔۔۔ ان کے شوہر وہ تو تمہاری اپنی اولاد تھی نہ۔۔۔ میرے داماد۔۔۔ تم نے انھیں بھی نہیں چھوڑا۔۔۔ تمہاری ضد اور سخت دلی کی وجہ سے میں نے اپنا سب کچھ کھو دیا تھا۔۔۔ باقی تو تمہارا بھی کچھ نہیں رہا ریاض۔۔۔تمہیں خدا پوچھے گا روز محشر دیکھنا تم۔۔۔۔"
غصے سے بولنے کی وجہ سے ان کا سانس پھول رہا تھا۔
"آپا جان ایسا مت کہیں اگر خدا نے واقعی مجھ سے پوچھ لیا تو کیا بچے گا میرا۔۔"
وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے تھے۔ ابھی تک ایک لفظ بھی شرمندگی کا ان کی زبان سے نہیں نکلا تھا۔
"تم نے مجھے جیتے جی مار دیا تھا ریاض۔۔۔میرے جینے کی وجہ۔۔۔ میری بچی عنایہ ہے مہوش کی بیٹی۔۔۔ہیں تو یہ بھی معلوم نہ ہوگا۔۔۔ اور میرا نواسہ سحرش کا بیٹا۔۔۔زیان۔۔۔مجھے اس سے پہلی دفعہ مل کر ہی محسوس ہوا تھا یہ میرا نواسہ ہے۔۔۔ پر مجھے محض یہ میری غلطفہمی لگتی تھی۔۔ مگر ایسا نہ تھا۔۔ یہ خدا کی طرف سے ایک اشارہ تھا۔۔ مجھے لگا میں نے اسے بھی کھو دیا مگر شکر میرے خدا کا۔۔تم کو کبھی معاف نہیں کروں گی میں۔۔۔ ریاض احمد کبھی نہیں۔۔۔۔"
یہ کہتے ہوئے ان کی ساری طاقت ختم ہو گئی تھی۔ اور وہ ریاض احمد کے مضبوط بازوؤں میں ڈھے گئیں تھیں۔کیا نہیں تھا ان کے لہجے ان کے الفاظ میں غصہ ، دکھ ، رنج ، ملال ، افسوس۔ان کے وجود کو یوں بے جان ہوتے دیکھ کر زیان اور سفیان جلدی سے آگے بڑھے تھے اور انہیں تھاما تھا۔ سفیان اور زرشالا بھی ان کے پیچھے پیچھے ہی پہنچے تھے اور جمیلا بیگم کا سارا رد عمل زیان اور عنایہ کی طرح بے یقینی سے دیکھ رہے تھے۔جمیلا بیگم کو جلدی سے کمرے میں لے جایا گیا تھا اور ڈاکٹر کو بلایا گیا تھا۔ڈاکٹر نے چیک کرنے کے بعد کچھ ضروری ہدایات دی تھیں۔
"ان کا خیال رکھیں۔ شدید قسم کاشاک لگا ہے انہیں۔ انہیں ہر قسم کے سٹریس سے دور رکھیں۔ دوائی ٹائم پر دیں انشاءاللہ جلد ٹھیک ہو جائیں گیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چاروں اس وقت لاؤنج میں صوفوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ آج جو ہوا کسی کے وہم و گمان میں بھی کا تھا۔ سب تذبذب کا شکار بیٹھے ہوئے تھے۔ جب ریاض احمد بوجھل قدم اٹھاتے ان تک آئے تھے۔ قدموں کے ساتھ ان کا دل بھی بوجھل تھا مگر ابھی انہیں ایک اور امتحان کا سامنا کرنا تھا جو بہت دشوار تھا۔۔۔
YOU ARE READING
حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)
Short Storyقدیم روایتوں کی وجہ سے خاندانوں کی بربادی کی ایک داستان... محبتوں کے امتحان کی داستان... زندگی کی مشکلات اور آزمائشون کی ایک کہانی.. پڑھیے اور اپنی رائے ضرور دیں.. Insta @zoha_asif_novels Fb @zohaasifnovels