Episode#17

2.5K 155 33
                                    

وہ سب انہیں ہی سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ نانی ماں کے ردعمل پر کچھ کہنے کی بجاۓ نظریں چڑانے کی وجہ جاننے کے لیے بے قرار و بےسکون ۔ وہ بھی ان سب کی نظریں خود پر مرکوز محسوس کر چکے تھے۔ پر براہ راست ان کی آنکھوں میں دیکھنے کی تاب نہ لا سکے تھے۔
"اوہ پلیز دادا سچ کیا ہے اب بتا دیں۔ ورنہ سوچ سوچ کر میرے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گیں۔"
زیان نے ضبط کرتے ہوئے کہا تھا۔
"پلیز بتا دیں آج تک میں نے نانی ماں کو اس قدر بھڑکتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ تو ہمیشہ پرسکون رہتی ہیں۔"
عنایہ کی بھی دھیمی سی آواز آئی تھی۔ سوچ سوچ کر اس نے بھی خود کو ہلکان کر لیا تھا مگر کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔
"مجھ میں ہمت نہیں کے میں پھر سے اس دردناک ماضی کو کرید سکوں"
وہ تھکن بھرے لہجے میں گویا ہوئے۔
"پر ہمیں اس مصیبت سے نجات دلائیں۔ اب مزید برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔ آخر کیا ہے ایسا جو آپ دونوں ہم سے چھپا رہے ہیں؟"
زیان تبذب کا شکار بولا تھا۔
"اگر میں نے بتا دیا تو میں ان سب کی طرح تم دونوں کو بھی کھو دوں گا اور میں ایسا نہیں چاہتا میرے بچوں۔ تم دونوں میں ہی میری جان بستی ہے اب"
وہ افسردہ لہجے میں بولے تھے۔ اداسی اور پریشانی ان کے چہرے سے صاف واضح ہو رہی تھی۔
"انکل یہ تو حقیقت بتانے کے بعد معلوم ہوگا نہ۔ آپ پلیز بتائیں۔"
سفیان نے تحمل سے کہا تھا۔
"آخر کیا ہوا تھا بیس سال پہلے؟"
زرشالا نے پوچھا تھا۔
"تو سنو پھر بیس سال پہلے میری حماقتوں کی وجہ سے ہمارا خاندان بکھرا تھا۔ سب کچھ تہس نہس ہو گیا تھا۔ میں اور تمہاری نانی اماں۔۔ عنایہ وہ میری سگی بڑی بہن ہیں۔۔ میری آپا جان ہم دونوں ٹوٹے تھے۔ سب کچھ ختم ہو گیا تھا صرف میری وجہ سے"
یہ کہتے ہوئے ان کے جھریوں والے چہرے پر آنسو موتیوں کی مانند ٹوٹ کر گرے تھے۔
************ بیس سال پہلے *************
"چلو بلال جلدی کرو بابا جی کو وقت کی تاخیر پسند نہیں۔ جلدی سے نیاز بھجواؤ۔"
ریاض احمد کی برہم آواز آئی تھی۔
"جی ابا جان"
وہ کہتے ہوئے آگے بڑھے تھے اور بابا جی کو بھیجے جانی والی نیاز سے بھری گاڑیوں کا ایک دفع خود سے جائزہ لینے لگے تھے۔ کام میں کسی بھی قسم کی کوتاہی ریاض احمد برداشت نہ کرتے تھے۔ اگر آج ایسا ہو جاتا تو ایک نہ ایک ملازم اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔
کیا ہوا بھیا آج پھر ابّا جان نے بابا جی کو "بھجوانا ہے کچھ"
دانیال جمائی روکتا ہوا بولا تھا۔ اس کے چہرے پر اس کے سلکے بال بکھرے ہوئے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ابھی ابھی سو کر اٹھ کر آیا تھا۔
"ہاں یار۔ اوہ اٹھ گئے تم؟ ہو گئی تمہاری صبح؟"
بلال خفگی سے بولا تھا۔ اسے دانیال کی یہ دیر تک سوتے رہنے کی عادت سخت ناپسند تھی۔
"ہاں دِکھ نہیں رہا یا بھابھی سے دو دن کی جدائی نے آپ کو اندھا بنا دیا ہے؟"
دانیال نے کہتے ہوئے شرارت سے اپنی گرے کلر کی خوبصورت آنکھیں گھمائی تھیں۔
"تو باز نہیں آئے گا؟"
بلال نے تنگ ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔
"نہیں میں اگر تمہیں نہ تنگ کروں تو کیا وہ مہوش کرے گی"
"تم نہیں کرو گے تو وہ کرے گی اور اگر وہ نہیں کرے گی تو تم کرو گے۔ مجھے تو دونوں طرف ہی سکوں نہیں مل سکتا۔"
"بیٹا شادی ہو گئی تمہاری اور سکون کی چاہ کر رہے ہو؟ "
دانیال نے اس کے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرامائی انداز اپناتے ہوئے کہا تھا۔
"شرم کر دانیال بڑا بھائی ہوں تیرا۔ تیرا بھی کوئی انتظام کرنا پڑے گا ایسے نہیں تو سدھرنے والا۔"
بلال نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا تھا۔
"کہو تو تمہاری سالی پٹا لوں اچھی رونق لگی رہا کرے گی"
اس نے آنکھ دباتے ہوئے کہا تھا۔
"تو باز آ رہا ہے کے بتاؤں ابّا جان کو؟"
وہ سنجیدہ ہوا تھا مذاق میں بھی کسی لڑکی کے بارے میں ایسا کہنا ہر گز انہیں زیب نہ دیتا تھا۔
"اچھا اچھا نہیں کہہ رہا کچھ۔"
اس کو خاموش کھڑا دیکھ کر وہ سکون سے باقی کا کام نبٹانے لگا تھا۔
"اچھا بھیا سنو"
دانیال کی زبان میں پھر کھجلی ہوئی تھی۔
"بھابھی کو لینے میں چلا جاؤں؟ پلیز "
وہ انتہائی معصوم لگ رہا تھا ایسے پوچھتے ہوئے۔
"کیوں؟"
وہ کام میں مصروف بولا تھا۔
"وہ مہوش سے بھی ملاقات ہو جاۓ گی نہ"
وہ پھر دانت نکوستے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
"رک جا تو "
بلال کہتے ہوئے اس کی طرف لپکا تھا مگر وہ اس کا ارادہ بھامپ کر پہلے ہی بھاگ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارے واہ بھابھی آپ لوگوں نے نئی کام والی رکھ لی؟ کمال ہے۔"
اس کو ٹوٹے ہوئے گلاس کے ٹکرے اٹھاتے ہوئے دیکھ کر دانیال اونچی آواز میں سحرش کو مخاطب کر رہا تھا۔
"بکواس بند کرو تم دانی آپی نہانے گئیں ہیں اور آہستہ بولو زیان سو رہا ہے"
مہوش غصے سے بولی تھی۔
"اور پھپھو کہاں ہیں؟"
وہ اس کے قریب جھک کر اس کے ساتھ شیشے کے ٹکرے اٹھانے لگا تھا۔
"وہ کسی ہمسائی کی طرف گئیں ہیں۔"
وہ جھجھکتے ہوئے بولی تھی۔ دانیال اس وقت اس کے بے حد قریب تھا۔ اس کے پرفیوم کی تیز خوشبو اس کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی تھی۔
"تم رہنے دو میں کر لوں گی خود"
وہ نرمی سے بولی تھی۔
"ایک بات کہوں؟"
وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا تھا۔ شاید اس کی آنکھوں میں اپنا عکس تلاش کر رہا تھا۔ جواباً مہوش نے اس کی جانب دیکھا تھا۔
"میں تمہیں اپنی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بنانا چاہتا ہوں۔ ایسا حصہ کے اگر تم بے چین ہو تو سکوں میری ذات کو بھی میسر نہ ہو۔آئی لو یو مہوش۔ یقین کرو میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔"
وہ اتنے عرصے سے اس کی ایسی زومعنی باتوں کو اگنور کر رہی تھی پر آج اس نے پھر سے وہی بات کی تھی۔ آج یہ سب اس کی برداشت سے باہر ہو گیا تھا۔ وہ جھٹکے سے اٹھی تھی۔ اور آگے بڑھنے لگی تھی۔ دانیال بھی اسی تیزی سے اٹھا تھا۔ اور اس کا بازو تھام کر اس کا راستہ روکا تھا۔
"راستہ چھوڑو میرا دانی"
وہ ضبط کرتے ہوئے بولی تھی۔ چہرہ اب برداشت سے سرخ ہو رہا تھا۔ وہ یہاں سے جلدی سے جلدی چلی جانا چاہتی تھی اسے ڈر تھا اگر وہ کچھ اور دیر اس کے سامنے کھڑی رہی تو کہیں اسے مہوش کی محبت کی بھنک نہ پر جاۓ۔ وہ بھی تو اس سے محبت کرتی تھی۔ اتنی ہی زیادہ جتنی وہ کرتا تھا۔ اتنی ہی شدت کی جتنی وہ کرتا تھا۔ پر وہ بتانے سے ڈرتی تھی گھبراتی تھی کہیں اس کی یہ محبت ان دونوں کے لیے مسلہ نہ کھڑا کر دے۔
"تم راستہ چھوڑنے کی بات کر رہی وشی اور میں ہماری منزل ایک کرنے کی شدت سے کوششیں کر رہا ہوں۔"
وہ اس کے ذرا قریب ہوتے ہوئے گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔
"تو نہ کرو تم کوششیں اس طرح کی"
وہ ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی تھی۔
"کیوں نہ کروں؟"
وہ تڑپ اٹھا تھا۔
"کیوں کہ کوئی فائدہ نہیں ہونے والا"
اس نے نظریں پھیری تھیں۔ شاید اچانک سے امڈ آنے والے آنسو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
کیوں نہیں ہونے والا کوئی فائدہ۔مہوش میں جانتا ہوں کے تم ابا جان کی وجہ سے ڈرتی ہو۔ پر یقین کرو  ان کے بابا میرے یا تمہارے درمیان نہیں آئیں گیں۔ تم ایک بار کہہ دو کے تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو پھر دیکھنا ہم ایک ہوجائیں گیں۔ پر ایک بار صرف ایک بار مجھ پر بھروسہ کر کے تو دیکھو"
وہ اس کے مزید قریب ہوا تھا اس کو دونوں بازوؤں سے تھامے ہوئے وہ اس کے جواب کا منتظر تھا۔
"ہاں کرتی ہوں میں تم سے محبت۔ شاید اتنی ہی زیادہ جتنی تم کرتے ہو۔ لو کرو اب سب ٹھیک "
وہ شدت سے روتے ہوئے بولی تھی۔
"کرتا ہوں میں بھائی بھابھی سے بات تم پریشان نا ہو۔"
وہ بھی نم آنکھوں سے مسکرایا تھا۔ کتنے مہینوں کی کوششوں کے بعد آج اس نے اظہار کیا تھا۔ آج وہ کامیاب ہوا تھا۔ اگر مہوش نے اس پر بھروسہ کر کے اسے اپنے جذبات کا بتایا تھا تو اب اسے بھی یہ بھروسہ قائم رکھنا تھا۔
"بھائی بھابھی کو کیا بتاؤ گے تم۔ سن لیا ہے ہم نے"
بلال کی آواز سے ماحول ایک دم سے بدلا تھا وہ دونوں فوراً سیدھے ہو کر کھڑے ہوئے تھے۔مہوش نے جلدی سے اپنے رخسار پر بہتے آنسو صاف کیے تھے۔
"بھائی آپ کب آئے؟"
وہ ہکلاتے ہوئے بولا تھا۔ مہوش بھی موقع دیکھ کر بھاگنے والی ہی تھی جب آگے بھاگتے ہوئے سحرش نے اسے تھاما تھا اور آگے جانے سے روک لیا تھا۔ اور اسے ساتھ لیتیں ان دونوں کے قریب آئی تھی۔
"جب تم اظہارِ محبت کر رہے تھے"
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تھا۔
"وہ بھائی میں آپ کو بتانے ہی والا تھا۔ پر آپ یہاں کیوں آئے؟"
اس نے بات کا رخ بدلا تھا۔
"میں نے کہا میں اپنی بیوی کو خود لینے جاتا ہوں تمہارا کیا بھروسہ گاڑی نا کہیں مار دو۔"
وہ ہنستے ہوئے بولا تھا۔ سحرش نے اس کی بات پر چہرہ جھکا لیا تھا۔
"جی جی جیسے مجھے آپ کا پتا نہیں۔ گزارا نہیں ہوتا آپ کا ان کے بغیر"
وہ بھی اسے چھیڑنے سے باز نہیں آیا تھا۔
"نہیں ہوتا اب؟"
بلال نے بلآخر مان ہی لیا تھا۔ سحرش کے چہرے پر حیا کے رنگ بھکرے تھے
"اب یہ کے ہمارا بھی کوئی بند و بست کر دیں آپ دونوں"
وہ مسکین شکل بناتے ہوئے بولا تھا۔ بلال نے آگے بڑھ کے زیان کو اٹھایا تھا جو ابھی ابھی سو کر اٹھا تھا اور اب رو رہا تھا۔
"سوچتے ہیں کچھ"
سحرش نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا تھا۔
"جلدی سوچیں"
وہ اس کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اب سحرش کی ایک طرف مہوش تھی تو دوسری طرف وہ کھڑا تھا۔
"سوچ لیتے ہیں دیور جی اتنی بھی کیا جلدی ہے"
وہ شرارت سے بولی تھی۔
"بھائی دیکھ لیں بھابھی کو"
وہ شکایتی لہجے میں بولا تھا۔
"دیکھا ہوا ہے"
وہ سحرش کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"اف آپ دونوں کا کچھ نہیں ہو سکتا مجھے خودی کچھ کرنا پڑے گا۔"
وہ غصے سے کہتا ہوا باہر نکال گیا تھا۔ پیچھے سے ان سبھی کاجاندار قہقہہ نکلا تھا۔ مہوش بھی دانی کے جاتے ہی ان دونوں کی عدالت میں پیشی سے جان چھڑوا کر پہلے ہی بھاگ گئی تھی۔
"کیا خیال ہیں بیگم پھر اپنی بہن کو دیورانی بنانا چاہیں گیں؟"
بلال مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
"نیکی اور پوچھ پوچھ"
وہ بھی جواباً مسکرائی تھی اور زیان کو اس سے لے لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"پر کیوں ابّا جان ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟"
وہ ضبط کرتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولا تھا۔
"بتایا نہ بابا جی نے نیک خیال ظاہر نہیں کیا تمہارے لیے اس رشتے پر"
وہ غصے سے بولے تھے۔
"مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کے آخر آپ کیوں اس فضول آدمی کی اتنی مانتے ہیں۔ وہ بھلا کیا جانے میرے لیے کونسا رشتہ بہتر ہے"
آج اسے بھی اشتعال آیا تھا۔ ضبط اور صبر کی بھی انتہا ہوتی ہے۔کسی بھی بات کو اک حد سے زیادہ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ بعض اوقات ایک بندے کی ہٹ دھرمی اور ضد آپ کے اندر کا لاوا پھٹنے کا باعث بنتی ہے۔
"بس کرو تم۔ میں بابا جی کے بارے میں ایک بھی برا لفظ برداشت نہیں کروں گا۔ وہ ہم سے بہتر جانتے ہیں ۔ اس لیے تمہاری شادی مہوش سے کسی صورت نہیں ہو سکتی۔"
"بس کریں ابا جان بھلا ہم جیسا ایک مٹی کا بنا انسان یہ کیسے جان سکتا ہے کے ہمارے لیے مستقبل میں کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔؟ آپ بھی کن لوگوں کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔"
دانیال طیش میں بولا تھا۔ وہ ایسا ہی تھا۔ جو دل میں ہوتا اسے زبان پر لے آنے میں ماہر۔
"بس کرو تم۔ کہا نا تمہیں وہ ہمارے بارے میں بہتر جانتے ہیں۔"
وہ بلکل بھی ہار ماننے والوں میں سے نا تھے۔ آج بھی ہارنا نہیں چاہتے تھے اگر انھیں پتا ہوتا اس چھوٹی سی جیت کی وجہ سے وہ اپنی زندگی ہار جائیں گیں تو کبھی جیتنے کی چاہ نا کرتے۔
پر کون جانے آگے کیا ہوگا۔ اور آگے جو ہوگا وہ ہماری زندگی میں کیسی کیسی تبدیلی لاۓ گا۔
"ٹھیک ہے پھر میں بھی اس بار آپ کی ایک نہیں سنوں گا۔ وہی کروں گا جو میرا دل چاہے گا۔"
وہ دو ٹوک لہجے میں بولا تھا ۔ اس کے لہجے کی سختی سے خاموش تماشائی بنا بلال بھی کانپ اٹھا تھا۔ وہ اپنے بھائی کی رگ رگ سے واقف تھا اس لیے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر چونکا تھا۔وہ خود بھی اپنے ابا جان کے اس عمل سے نا واقف نا تھا۔ سید وقاص شاہ سے ریاض احمد انتہائی عقیدت رکھتے تھے۔  اور یہی وجہ تھی کے وہ ان پر بھروسہ کرتے تھے۔  ان کے کیے ہوئے ہر فیصلے پر اپنا سر جھکا دیتے تھے۔  خوا وہ ان کی اپنی اولاد کو پسند ہوتا یا نا۔ ایسا ہی ایک فیصلہ انہوں نے بلال کی زندگی کا  کیا تھا۔اصولاً تو ایسا فیصلہ کرنے کا حق یا تو خود بلال کے پاس تھا یا پھر اس کے باپ کے پاس ماں تو ان کی ہے نہیں تھی۔ پر وہ اپنے بابا کے خلاف آواز بلند نا کر سکا تھا اس معاملے میں اس کا بھائی زیادہ خوش قسمت تھا۔ پر اسے سحرش سے شادی نا  کرنے پر کوئی اعتراض بھی نا تھا وہ بلاشبہ ایک اچھی لڑکی تھی خوبصورت بھی اور خوب سیرت بھی۔ مگر یہ فیصلہ بھی ریاض احمد نے بابا جی کے کہنے پر کیا تھا۔  ان سے اجازت لینے کے بعد۔ ریاض احمد  برسوں سے ان کے ہاں نیاز بھجوا رہے تھے۔ اب تو وہ یہ سمجھنے لگے تھے کے ان کی زندگی میں جو بھی خوشیاں اور آسائشیں ہیں وہ سب بابا جی کی کی گئیں دعاؤں کی بدولت ہے۔ اس لیے ایک عرصے سے نا انھوں نے کوئی نماز پڑھی تھی نا قرآن کو ہاتھ لگایا تھا۔ ان کی سمجھ کے مطابق ان کے سارے کام بابا جی کو کہنے سے خودی ہو جایا کرتے تھے۔
"تمہارے بھیا کی بھی شادی میں نے بابا جی کے مشورے سے سحرش سے کی تھی۔ اس نے تو ایک لفظ بھی باپ کی مخالفت میں نہیں کہا۔ پر تم ایک معمولی لڑکی کے لیے مجھ سے بحث کر رہے ہو"
وہ دلیل دینے لگے تھے۔
"معمولی لڑکی؟؟"
اس کے اس طرح سے پوچھنے پر انہوں نے نظریں پھیری تھیں۔ یہ وہی لڑکی تھی جسے انھوں نے ہمیشہ بیٹیوں سے بڑھ کر پالا تھا۔ پیار کیا تھا۔ آج وہی لڑکی ان کے لیے معمولی بن گئی تھی۔
صرف ایک ایسے انسان کی وجہ سے جو اس سے دلی کوئی انسیت نہیں رکھتا تھا بلکے اپنے مفاد کے لیے اس سے جڑا ہوا تھا
"آپ اسے معمولی کہہ رہے ہیں!! مت بھولیں ابا جان یہ وہی مہوش ہے جسے آپ نے ہم دونوں بھائیوں سے بڑھ کر پیار کیا ہے اور آج آپ کی ہی راۓ اس کے بارے میں بدل رہی ہے۔"
غصے سے بولتے ہوئے اس کی آواز اونچی ہوئی تھی۔ وہ جانتا تھا کے بڑوں کے آگے خصوصاً باپ کے آگے اونچا بولنا بدتمیزی میں شمار ہوتا ہے مگر کبھی کبھی بڑوں کی اصلاح کے لیے ہمیں ایسے کام بھی کرنے پر جاتے ہیں جو ہمیں زیب نہیں دیتے۔ ضروری نہیں بڑے ہمیشہ ٹھیک کہتے اور کرتے ہیں۔ اکثر ان سے بھی غلط فیصلے ہو جایا کرتے ہیں۔ آخرکار وہ بھی ہماری طرح مٹی سے بنے عام انسان ہیں۔ پر ہمارے معاشرے میں بڑوں کی اصلاح کرنا بدتمیزی میں شمار ہوتا ہے۔ اور اکثر ایسا کرنے پر کرنے والے سے ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کر لیا جاتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی تلخ سہی مگر حقیقت تو ہے۔
"ہاں تو یہ ضروری تو نہیں جس سے پیار ہو اس کو اپنے گھر کا حصہ بنا لیا جاۓ۔"
ریاض احمد کی برہم آواز آئی تھی۔
"یہ ضروری نہیں ہے۔ مگر میں پھر بھی اسی سے شادی کرنی ہے۔ ویسے بھی تو شادی ہونی ہی ہے تو اس سے کیوں نہیں جس سے میں کرنا چاہتا ہوں؟ پسند کی شادی کی اجازت تو ہمیں ہمارا اسلام بھی دیتا ہے۔"
وہ انہیں سمجھتے ہوئے نرم پڑا تھا۔
"ایسا بھی کیا ہے اس لڑکی میں دانی؟"
"محبت ہے وہ میری"
اس کے محبت کے اعتراف و اظہار پر وہ حیرت کا شدید جھٹکا کھا کر رہ گئے تھے اور بے یقینی سے اپنے خبرو بیٹے کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔

Guys kesi lagi ep mjhe review zroor djyega.. Aur imp announcement k ab kuch din tk ep nahi aa ske gi because of my exams😥😥
Koi bhi reader naraz na ho please😕
I can't  seriously afford that😩
But Remember me in your prayers💕😍
#Zoha

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Onde histórias criam vida. Descubra agora