Episode#23

2.1K 126 10
                                    

انہیں جو خبر دی گئی تھی انہیں اس کی توقع نہیں تھی انہیں ایک زور کا چکڑ آیا تھا۔ فون کے دوسرے جانب وہ انجان آدمی جو بھی کہہ رہا تھا انہیں سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ننھا سا زیان ان کی ٹانگوں سے لپٹا کھڑا تھا۔ وہ رو رہا تھا ماما کی گردان کر رہا تھا انہیں ہمت کرنی تھی اپنے اس نواسے کے لیے۔ انہوں نے جلدی سے اس کو اٹھایا تھا۔ اور ہسپتال کی جانب نکلی تھیں۔
وہاں پہنچ کر انہیں اپنے بھائی کو دیکھ کر شدید حیرت ہوئی تھی۔ انہوں نے نم آنکھوں سے اپنے بھائی کو دیکھا تھا جس کے چہرے پر افسوس یا غم کے کوئی تاثرات نہیں تھے۔ ریاض احمد نے ابھی انہیں نہیں دیکھا تھا۔ وہ انہیں ہی دھندلی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں جب ایک شخص ریاض احمد کے قریب آیا تھا اور ان سے مخاطب ہوا تھا۔
"سر میں نے اپنا کام بخوبی انجام دیا ہے اب لائیں میرا انعام"
وہ مسکراتا ہوا کہہ رہا تھا۔ ریاض احمد نے کوئی بھی تاثر دیے بغیر اس کے ہاتھ میں ایک چیک تھمایا تھا اور ڈاکٹر سے بات کرنے لگے تھے جو ابھی ابھی روم سے نکلے تھے۔ جمیلہ بیگم بیشک انہیں نظر نہیں آئی تھیں پر وہ ان کے اتنے قریب ضرور تھیں کہ سب کچھ با آسانی سن سکتی تھیں۔ ڈاکٹر کے جو الفاظ تھے اسے سن کر دونوں بہن بھائی اپنی اپنی جگہ ساکت کھڑے رہ گئے تھے۔ انہیں لگا تھا کے انہیں سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔ پر یہ حقیقت تھی جسے انہیں قبول کرنا تھا۔
"گاڑی میں چار افراد سوار تھے۔ ایکسیڈنٹ بہت شدید قسم کا ہوا ہے۔ دونوں مرد تو موقع پر ہی جان بحق ہو گئے تھے۔ ایک عورت کی حالت بہت تشویش ناک ہے دوسری عورت حاملہ تھیں ان کی کنڈیشن بھی اچھی نہیں تھی ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ جیسی ان کی حالت ہے بچے اور ماں میں سے کسی ایک کو ہی بچایا جا سکتا ہے پر آپ فکر نا کریں ہم اپنی پوری کوشش کریں گیں۔"
ڈاکٹر کے الفاظ کم اور نیزہ زیادہ لگ رہے تھے جو ان دونوں کمزور لوگوں کے دل کو گھائل کرتا جا رہا تھا۔ انہیں محسوس ہوا تھا جیسے ان چاروں کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی روحیں بھی قبض کر لی گئیں ہوں۔ وہ ڈاکٹر کی بات سن کر مڑے ہی تھے کے ایک زور دار تھپڑ تھا جس نے ان کا استقبال کیا تھا۔
آپا جان!!"
"شرم نہیں آئی تمہیں ایسی گھٹیا حرکت کرتے ہوئے؟؟ ارے تم بھی تو اولاد والے تھے نا پھر اپنے ہی بیٹے کے ساتھ تم نے آج ایسی شرم ناک حرکت کی ہے۔ ریاض مجھے گھن آ رہی ہے تم سے۔۔ جس بھائی پر میں ساری زندگی فخر کرتی رہی ہوں آج اسے بھائی کہتے ہوئے شرم آ رہی ہے مجھے۔"
وہ اپنے تیزی سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کرتے ہوئے بولی تھیں۔ اور وہ گم سم سے کھڑے اپنے گریبان کو سختی سے جھنجھوڑتے ہوئے ان ہاتھوں کو دیکھ رہے تھے جو کبھی ان کے سر پر ہوا کرتے تھے۔ آج ایک غلط آدمی پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے انہوں نے سب اپنوں کو کھو دیا تھا۔
"آپا جان میرا یقین کریں میں نے ایسا ہر گز نہیں چاہا تھا۔۔۔ میرا یقین کریں آپا جان میں تو بس دانی کو چھوٹا سا سبق دینا چاہتا تھا کے اولاد کی دوری ماں باپ کے لیے کیا ہوتی ہے۔۔ بس۔۔"
وہ ان کے سامنے گھٹنوں کے بل گڑے تھے۔ آس پاس موجود لوگ ان کی طرف متوجہ تھے۔ اچھا خاصا تماشا لگ چکا تھا۔
اسی دوران دو ڈاکٹر جو پہلے ہی انہیں حیران پریشان نظروں سے دیکھ رہے تھے ان کی جانب بڑھے تھے ۔۔
"کیا تماشا لگا رکھا ہے آپ نے یہ ہسپتال ہے کوئی تفریح کی جگہ نہیں۔۔ اور ان دو لیڈیز کے ساتھ کون ہے؟"
وہ سختی سے بولنے کے بعد تھوڑا نرم پڑے تھے۔
"جی۔۔ میں ہوں"
جمیلہ بیگم ہمت کرتے ہوئے بولی تھیں۔ آواز کی لڑکھڑاہٹ صاف واضح تھی۔
"ان میں سے دونوں ہی نہیں بچ سکیں آپ ہمت کریں۔ پر خدا کا معجزہ ہے کے حاملہ خاتون کی بیٹی پیدا ہوئی ہے لیکن ہم اس کی ماں کو پوری کوشش کرنے کے بعد بھی بچا نہیں سکے۔ ہمت و حوصلہ سے کام لیں اللّه آپ کو صبر دے"
انہیں زور کا دھچکا لگا تھا صبح تک ان کا گھر کتنا خوشیوں سے مہک رہا تھا پر اسی شام کو یہ کیا ہو گیا تھا۔ زندگی ایک پل میں بدل کر رہ گئی تھی۔ ہستے بستے گھر کی خوشیوں کو آگ لگ گئی تھی اور اس سب کا قصوروار اس گھر کا ہی ایک ممبر تھا۔۔
"ریاض"
وہ صدمے سے بولی تھیں۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا انہیں اس وقت دنیا کا سب سے دشوار کام لگا تھا۔ وہ تو خود انہی کیفیات سے گزر رہے تھے اپنی بہن کو حوصلہ کیسے دیتے۔۔
"آج سے۔۔۔ ابھی سے میرا تم سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔"
وہ غصے سے چیخی تھیں۔ وہ ان کے الفاظ پر ہی ڈھے گئے تھے۔ اولاد تو جا چکی تھی آج بہن کا ساتھ بھی چھوٹ گیا تھا۔
"کہاں ہے میری نواسی؟؟"
وہ ایک دم سے ڈاکٹر کی طرف مڑی تھیں۔ جس نے انہیں روم کی طرف گائیڈ کر دیا تھا۔ وہ بوجھل قدموں سے روم کی طرف بڑھی تھیں۔ سامنے ہی ایک بیڈ پر ان کی بیٹی کی لاش پڑی تھی۔۔ آنسو ان کی آنکھوں سے بڑی روانی سے بہے چلے جا رہے تھے۔
"یہ لیں"
نرس نے آ کر ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی گڑیا پکڑائی تھی کم از کم انہیں تو ایسا ہی لگا تھا۔ وہ بہت حسین تھی آنکھیں اس کی بلکل اپنے باپ دانیال جیسی تھیں۔ اور حسن میں اپنی ماں کی طرح تھی۔
جمیلہ بیگم نے بھیگے چہرے سے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔ اور ایمبولینس میں اپنے چاروں جوان بچوں کی لاشیں لیے گھر کے لیے نکلی تھیں۔ زیان گم سم سا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ تین سال کا بچہ کیا جانے اس کی دنیا اس کے دادا کی وجہ سے ہی لٹ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپا جان میرے بچوں کی میت میرے گھر سے اٹھائی جاۓ گی۔"
وہ بغیر تمہید باندھے مدعے پر آئے تھے۔ جمیلہ بیگم نے حیرت سے اپنے بھائی کو دیکھا تھا وہ کس قدر بےشرمی اور ڈھٹائی سے ان کے گھر آئے تھے اور اب کیا تقاضہ کر رہے تھے۔
"کون سے بچے وہ جنہیں تم نے ان کو زندگی میں ہی اپنی زندگی سے نکال دیا تھا؟ تنہا چھوڑ دیا تھا ؟؟"
وہ غصے سے بھڑکی تھیں۔ اتنا بڑا غم تھا جسے صبر سے برداشت کرنا تھا اور ایک ریاض صاحب تھے جنہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا اور بار بار جمیلہ بیگم کا امتحان لینے چلے آ رہے تھے۔
"آپا جان میں آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتا۔۔ انہیں ایمبولینس میں ڈالو"
وہ بے رحمی سے بولے تھے اور ایمبولینس والے لڑکوں کو حکم دیا تھا جمیلہ بیگم نے اب چپ سادھ لی تھی۔ انہوں نے سوچ لیا تھا کہ اب انہیں ریاض احمد کو کچھ نہیں کہنا۔۔ اب وقت انہیں بتاۓ گا۔ اللّه ان کی عقل ٹھکانے لگاۓ گا۔
ریاض احمد نے یہاں بھی بس نہیں کی تھی اور آگے بڑھ کر زیان کو اٹھایا تھا۔ جمیلہ بیگم کے دل پر ان کا یہ قدم دیکھ کر ہزاروں چڑھیاں چل رہی تھیں۔ پر وہ خاموش تھیں۔ بےبس تھیں۔ اپنے نواسے کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔ ان کا مقابلہ ان کے اپنے بھائی سے تھا پر ہے تو وہ ایک مرد تھے وہ اکیلی عورت کرتی بھی تو کیا۔۔ ریاض احمد نے اپنی پوتی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا اور نا ہی جمیلہ بیگم نے انہیں یاد کروانے کی زحمت کی تھی۔ صد شکر کے ان کی پوتی ابھی کمرے کے اندر تھی اس لیے ریاض احمد کا دھیان ادھر نہیں گیا تھا۔وہاں موجود سب لوگ یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ کسی کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا تھا ریاض احمد کی اس حرکت پر انسانیت بھی شرمندہ تھی۔
"آیندہ کے بعد میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی"
وہ منہ پھیرے بولی تھیں۔ جسے ریاض احمد نظرانداز کرتے باہر نکل گئے تھے۔ اب جمیلہ بیگم کے پاس ان کی دونوں جوان بیٹیوں کی میتیں تھیں اور ایک ننھی سی جان جو آج ہی اس دنیا میں آئی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ماہ گزر گئے تھے۔ ریاض احمد ذرا معقول انداز میں سوچنے لگے تھے۔ پہلے ان کے بیٹے اس دنیا میں تو تھے کیا ہوا جو ان سے تھوڑا دور تھے پر ہے تو اسی نا پائیدار دنیا میں۔ انہیں آج بھی یاد تھا کہ انہوں نے اس ٹارگٹ کلر کو بس معمولی سا ایکسیڈنٹ کرنے کو کہا تھا جس سے کسی کو اتنی چوٹ نا آئے۔۔ پر اس نے ان کی ہدایت سے الٹا کام کیوں کیا تھا انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اب صحیح معنوں میں وہ صدمے میں تھے اپنی جوان اولاد کھو دیا تھا۔ دیر سے ہی صحیح پر اب انہیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس ہوا تھا۔ وہ سچ میں شرمندہ تھے دل کہیں لگتا ہی نہیں تھا نا بیٹھے چین آتا تھا نا لیٹے۔ آفس بھی وہ کچھ دنوں سے جا نہیں رہے تھے آفس کا سارا کام بابا جی اور ان کے ماتحت دیکھ رہے تھے کیوں کے انہیں ابھی بھی ان پر بہت بھروسہ تھا۔ ان کی سوچوں کا تسلسل تب ٹوٹا جب خادم نے آ کر بتایا کہ سحرش کی دوست مریم آئی ہے۔
"انہیں بٹھاؤ میں آتا ہوں"
انہوں نے خادم کو ہدایات دے کر رخصت کیا تھا۔
وہ جب لاؤنج میں داخل ہوئے تو ایک نوجوان خاتون لاؤنج کے صوفے پر بیٹھیں زیان کو گود میں لے کر اس کے ساتھ کھیل رہی تھی۔
"سلام انکل"
"وعلیکم سلام"
وہ تعزیت کرنے آئی تھی جب کر کے جانے لگی تو ریاض احمد کی بات پر واپس مڑی تھی۔
"بیٹا ایک بوڑھے آدمی کی گزارش ہے اگر تم پورا کر سکو تو"
وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے تھے۔
"جی جی انکل یہ آپ کیا کر رہے ہیں کہیں۔۔"
وہ گھبرا کر بولی تھیں۔ ریاض احمد کے اس عمل سے وہ پریشان ہو گئی تھی۔
"بیٹا یہ زیان ہے میرا پوتا اس کا اب اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے تم سحرش کی بہنوں کی طرح تھی اس بات کا اندازہ مجھے ہے۔۔ پر آج اس کی بہن بھی زندہ نہیں ہے تم سے اس بوڑھے آدمی کی درخواست ہے کے زیان کو اس کی ماں کی کمی محسوس نا ہونے دینا اس کی پرورش کر دو میں کسی خادم یا آیا پر بھروسہ نہیں کر سکتا اب۔ تمہیں اس لیے کہا ہے کے شاید تم کر سکو مجھ پر مہربانی کرو اور اپنی دوست کی دوستی کا حق ادا کر دو"
وہ اب انہیں کیا جواب دیتی۔ ان کی ایک بیٹی تھی شوہر کا انتقال ہو چکا تھا اور وہ دبئی میں مقیم تھی۔ پاکستان آتی رہتی تھی اور سحرش کی بچپن کی دوست تھی۔ اس کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی تھی پھر اس سوچ کر جھٹک دیا۔ پر اب جب انہیں خود کہا جا رہا تھا وہ کیسے انکار کرتی۔
"جی انکل آپ پریشان نا ہوں میں زیان کی تربیت بہت اچھے سے کروں گی اور جب بھی آپ کہیں گیں اس کو آپ کے پاس بھجوا دوں گی۔ مہوش سے بھی ملی ہوں میں وہ بہت اچھی تھی۔ بہت اچانک ہوگیا یہ سب۔ خیر اللّه کی جو بھی مرضی ہو۔ اس کے پپیرز وغیرہ تیار کروا دیں پھر مجھے بتا دیجیے گا میں اس حساب سے ٹکٹس کر وا لوں گی۔"
وہ ان کی پریشانی دور کرتی زیان کو پیار کرنے لگی تھی۔۔۔ ریاض صاحب تھوڑا مطمعین ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس معاملے میں بھی جمیلہ سے بات کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ اور زیان کو رخصت کرتے وقت ان کو اطلاح دینے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ نا جانے وہ احساس ندامت تھا یا کچھ اور جو انہیں جمیلہ بیگم کا سامنا  کرنے میں بےبس ثابت کر دیتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سر ہمیں پھر سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے"
ان کے آفس آتے ہی مینیجر نے انہیں اطلاح دی تھی۔ آج وہ کافی دن کے بعد آفس آ سکے تھے۔
"کیا ہو گیا ہے تم سب کو میں اگر کچھ دن نہیں آ سکا تو تم لوگوں نے تو اپنا کام صحیح طرح کرنا تھا۔ "
وہ غصے سے ان پر برسے تھے۔
"سر پہلے ڈیلنگز بلال سر اور دانیال سر کرتے تھے اور کمپنی کو بہت فائدہ ہو رہا تھا پر آپ نے جو نئے سر رکھے ہیں برا نا مانیےگا وہ کام صحیح طرح نہیں کر رہے تھے اور جب ہم نے ان کی اصلاح کرنی چاہی انہوں نے بدتمیزی کی اور ہمیں نوکری سے نکال دینے کی دھمکی دی اور ہم لوگ پھر خاموش ہو گئے۔"
مینیجر ڈرتے ڈرتے راست گوئی سے بولا تھا۔۔
"کیا یہ سچ کہہ رہا ہے؟"
انہوں نے باقی سٹاف سے کنفرم کرنا ضروری سمجھا تھا۔
"یس سر۔۔"
ان کے ذہن میں بابا جی کے الفاظ گونج رہے تھے۔
ریاض تم میرے بیٹوں کی طرح نہیں میرے بیٹے ہی ہو ابھی تم ذہنی طور پر کافی پریشان ہو اتنا بڑا صدمہ لگا ہے تمہیں کچھ دن تم گھر میں آرام کرو کاروبار کی فکر نا کرو وہ میں دیکھ لوں گا۔"
اور انھوں نے بھروسہ کر لیا تھا۔ 
سب لوگ ڈرتے ڈرتے وہ سب بتانے لگے تھے جو ریاض احمد کی غیر موجودگی میں ان کے آفس ہوتا رہا تھا۔ وہ ان سب کی باتیں سن کر پریشان ہو گئے تھے۔ بابا جی نے تو مجھے بےفکر ہو جانے کو کہا تھا کے کمپنی کے کام وہ دیکھ لیں گیں پر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔ ان کا سر چکڑایا تھا۔
"اف بابا جی کے پاس جا کر ہی پتا چلے گا"
کچھ سوچ کر انہوں نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی تھی۔۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora