Episode #28

2.4K 133 30
                                    

"دیکھو تم دونوں پہلے مجھ سے وعدہ کرو کے میری بات کا یقین کرو گے اور سنجیدگی سے اس مسلے پر مجھے مشورہ دو گے"
عنایہ نے زرشی اور سفیان کو اعتماد میں لینا ضروری سمجھا تھا۔اسے یقین تھا کے زیان اس کی بات مانے گا اسے اس پر پورا اعتماد تھا وہ اس کے مان کو برقرار رکھے گا اسے کوئی ٹھیس نہیں پہنچاۓ گا۔ اس وقت اس نے زرشالا اور سفی کو اپنے گھر بلایا تھا۔ نانی ماں کسی کام سے ہمسائی کی طرف گئیں تھیں اس لیے اس کے لیے بات کرنا آسان ہو گیا تھا۔
"اف عنایہ ایسی بھی کیا بات ہے جس کے لیے تم اتنی تمہید باندھ رہی ہو سیدھا سیدھا کہو"
زرشالا نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
"ہاں پر مجھے سمجھ نہیں آ رہا کے میں کیا کروں"
عنایہ پریشانی سے بولی تھی
"عنایہ دیکھو مجھے اور زرشی کو تم پر پورا بھروسہ ہے اور ہم تمہاری بات کا یقین کریں گیں تم بس بغیر کسی خوف کے ساری بات ایک ہی بار میں کہہ ڈالو"
سفیان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔
"دراصل میں نے سیمل کو کسی مرد سے بات کرتے ہوئے سنا۔۔۔۔۔"
عنایہ نے انہیں ساری بات بغیر کسی جھوٹ کے سنا ڈالی تھی۔
"صائم تو اس کا منگیتر ہے اور سیمل ایسا نہیں کر سکتی ہم تینوں اکھٹے پلے بڑھے ہیں میں اسے جانتا ہوں وہ ایسی نیچ اور گھٹیا حرکت نہیں کر سکتی"
سفیان پیشانی مسلتے ہوئے بولا تھا۔
"پر عنایہ کہہ رہی ہے تو ضرور ایسی ہی بات ہے اور سیمل نے اگر ایسا کچھ کہا ہے تو وہ کر گزرے گی کیوں کے انسان محبت میں بہت سے غلط قدم بھی اٹھا لیتا ہے۔"
زرشالا نے کہا تھا۔
"مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا میں کیا کروں اس لیے تم دونوں سے مشورہ کرنا مناسب سمجھا اور اب تم دونوں کو ہی میری مدد کرنا ہو گی میں زیان کے ساتھ کسی بھی حال میں اتنا بڑا دھوکہ نہیں ہونے دے سکتی"
عنایہ نے ان پر اپنا مسلہ بیان کیا تھا۔
"تم فکر نہیں کرو ہمیں تمہاری بات پر مکمل بھروسہ ہے اور ہم تمہارے ساتھ ہیں عنایہ اور میں بھی کبھی اپنے جان سے پیارے دوست کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دوں گا "
سفیان نے اسے یقین دلایا تھا۔
"تو اب کیا کرنا ہے؟زرشالا نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"ابھی عنایہ پہلے بات کرے اور اگر وہ نا مانا تو ہم بھی اس کے ساتھ ہی ہوں گیں سمجھا لیں گیں اسے"
سفیان نے تجویز دی تھی۔
"مجھے یقین ہے وہ سمجھ جاۓ گا اور خود کو اتنے بڑے دھوکے سے محفوظ کر لے گا"
زرشالا نے کہا تھا۔
"عنایہ کی بات تو سنے گا ہی"
سفیان نے شرارت سے کہا تھا۔
"بکو مت تم"
عنایہ نے غصے سے اس کے اوپر صوفے کا ایک کشن اچھالا تھا جو اس نے کمال مہارت سے کیچ کر لیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ‎ میں نے اس قدر غصے کا مظاہرہ کیوں کیا چھوٹی سی تو بات تھی بس اس نے میری شرارت پر اگنور ہی تو کیا تھا میں اس پر اتنا ہائپر کیوں ہو گیا تھا۔ زیان بیچینی سے سوچوں میں گم تھا۔ اسے بس عنایہ کا اسے لفٹ نا کرانا برا لگا تھا مگر اس نے زیادہ ہی غصہ دکھا دیا تھا سفیان کی تو خیر تھی وہ بچپن سے اکھٹے رہے تھے اس لیے ایک دوسرے کی فطرت کو بخوبی سمجھتے تھے مگر عنایہ۔۔ وہ تو کچھ عرصہ پہلے اس کی زندگی میں آئی تھی۔ اور آج بھی وہ اپنے دل کی بات ماننے کو تیار نا تھا اس نے کبھی کسی سے بھی اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا یہاں تک کے خود سے بھی اعتراف نہیں کیا تھا۔ اسے بس رہ رہ کر عنایہ کی بےرخی یاد آ رہی تھی۔ لیکن وہ لمحہ یاد کر کے وہ مسکرایا تھا کم از کم اس نے ایک اشارہ تو دیا تھا کے عنایہ کو زیان کا سیمل کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا پسند نہیں تھا۔ محبت میں بےرخی سہنے کا بھی ایک الگ ہی لطف ہے سب کہتے ہیں کے عاشق مزاج لوگوں کو اپنے محبوب کی باتوں کا غصہ نہیں آتا وہ نادان لوگ یہ کہاں سمجھتے ہیں کے اس کے پیچھے چھپا ہوا راز کیا ہے وہ اپنے محبوب سے ایک چھوٹا سا لفظ بھی سن لینے کے نشے میں ہوتے ہیں محبوب نے ان پر دھیان دیا ان کی بات سنی اور توجہ بھی دی جواب تو دیا چاہے تلخ ہی سہی مگر ان کے ساتھ دو پل کی گفتگو تو ہوئی یہ خوشی ان کے لیے دنیا جہاں کی تمام بے انتہا خوبصورت چیزوں سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ بس اب جلد ہی اسے اپنا حالِ دل سنا دوں گا۔۔وہ کرسی پر بیٹھے اس کی بیک سے ٹیک لگاۓ آنکھیں موندے اپنے ہی خیالوں میں مگن تھا اس حسین حجابی لڑکی کے بارے میں سوچنا اسے اچھا لگ رہا تھا اس کی بےرخی بھی اسے سکون سا بخش رہی تھی۔۔ ایک گمان سا ہوا تھا کہیں وہ بھی تو مجھ سے۔۔ ابھی آگے کچھ سوچنے سمجھنے والا ہی تھا کے اس کے کمرے کا دروازہ بجا تھا۔
"میں اندر آ جاؤں؟
دروازے کے باہر سیمل تھی جو اس سے اندر آنے کی اجازت چاہ رہی تھی۔
"یس"
زیان مختصر سا جواب دے کر سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔
"زیان وہ مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے"
وہ بیچینی سے بولی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پیوست کی ہوئی تھیں۔
اور چہرے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔
" کیا بات ہے تم پریشان لگ رہی ہو؟"
زیان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"وہ پہلے تم وعدہ کرو میری بات سن کر میرا مذاق نہیں بناؤ گے اور میرا یقین کرو گے"
وہ سنجیدگی سے کہتی ہوئی دو قدم آگے آئی تھی۔
"ہاں ہاں بتاؤ تو کیا بات ہے؟"
زیان نے الجھن سے اسے دیکھا تھا۔
"زیان میں کب سے تم سے کہنا چاہتی تھی پر کبھی ہمت نہیں کر پائی میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں مجھے ہمیشہ سے لگتا ہے کے تم بھی مجھ سے محبت کرتے ہو اور اظہار کرنے سے ڈرتے ہو یقین کرو بہت ہمت کر کے آج تم سے یہ کہنے آئی ہوں۔"
وہ ہتھیلیاں مسلتے ہوئے بولی تھی۔
"یہ تم کیا کہہ رہی ہو سیمل!!"
زیان تو بونچکا کر رہ گیا تھا اسے یقین نہیں تھا کے سیمل کبھی اس سے اس قسم کی بھی بات کہے گی۔
"ہاں زیان میرا یقین کرو میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں تم بھی تو مجھ سے محبت کرتے ہو پر کہنے سے ڈرتے تھے نا۔۔تم بھی میری طرح ۔۔ دیکھو آج میں نے کہہ ڈالا تم بھی کہ دو زیان"
سیمل اس کے تھوڑا قریب آئی تھی۔
"سیمل دیکھو یہ محبت کوئی مذاق نہیں ہے اور میں نے کبھی تم سے نہیں کہا کے میں تم سے محبت کرتا ہوں پھر تمہیں یہ گمان مجھ سے کیوں ہونے لگا؟؟"
زیان حیران پریشان سا کھڑا اس کا چہرہ تک رہا تھا۔
"بس پتا چل جاتا ہے"
سیمل کمال کی اداکاری کرتے ہوئے بولی تھی۔
زیان کے ذہن میں جھماکا ہوا تھا۔ سفیان نے بھی تو یہی کہا تھا۔۔۔
"پر تمہیں غلط لگتا ہے میں تم سے محبت نہیں کرتا"
زیان اس کی بات کاٹتے ہوئے گویا ہوا۔
"دیکھو زیان تم مجھ سے محبت کرتے ہو یا نہیں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بس مجھے یہ پتا ہے کے میں تم سے محبت کرتی ہوں اور تمہیں مجھ سے شادی کرنا ہو گی"
زیان گنگ رہ گیا تھا وہ لڑکی اتنی بے باکی سے اس سے شادی کی بات کر رہی تھی اسے سیمل کی یہ حرکت ہر گز پسند نہیں آئی تھی۔
"سیمل دیکھو تم میری بہت اچھی دوست ہو پر میں تم سے محبت نہیں کرتا میں نے تو کبھی تمہارے بارے میں ایسا سوچا تک نہیں۔۔۔ میں تم سے شادی نہیں کر سکتا"
زیان نے پوری کوشش کی تھی کے وہ نرمی سے سب سمجھ جاۓ۔
"تو ٹھیک ہے میں ابھی کے ابھی اپنی جان لے لوں گی"
سیمل ایک جھٹکے سے اس سے پیچھے ہوئی تھی۔ اور کمرے سے باہر کی طرف جانے لگی تھی لیکن زیان کے بروقت اس کا ہاتھ تھام لینے سے وہ ایسا نہیں کر پائی تھی۔
"کیا ہو گیا ہے پاگل تو نہیں ہو گئی تم؟"
زیان غصے سے دھاڑا تھا۔ اس کی اب برداشت ختم ہو رہی تھی۔
"ہاں ہو گئی ہوں میں پاگل"
وہ بھی دو بدو چیخ کر بولی تھی۔
زیان نے اس کو دونوں بازوؤں سے تھام کر اپنے سامنے کھڑا کیا تھا اتنا کے ان دونوں میں ابھی بھی بہت فاصلہ تھا۔ اس کی تیز اور اونچی آواز سن کر ریاض صاحب اور مریم بھی وہیں آ گئے تھے۔ مریم اور سیمل زیان کے فورس کرنے پر وہیں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اور ان دونوں کو اس طرح دیکھ کر وہ شاک رہ گئے تھے۔
"میں تم سے محبت نہیں کرتا اور نا ہی تم سے شادی کروں گا آئی سمجھ؟"
"تم محبت نہیں کرتے تو نا صحیح۔۔پر آج میری ماں نے جو تمہاری تربیت کی ہے اس کا بدلہ چکانا ہوگا تمہیں زیان احمد۔۔ تم مجھے پسند کرتے ہو یا نہیں تمہیں مجھ سے ہی شادی کرنا ہو گی۔۔سنا تم نے"
وہ غصے اور غم سے چیختے ہوئے بولی تھی۔
زیان نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"اگر آنٹی مریم کی تربیت کا صلہ میں یوں دے سکتا ہوں تو میں تیار ہوں"
وہ ہار مانتے ہوئے بولا تھا۔ آنٹی مریم نے اسے ہمیشہ اپنے بیٹوں کی طرح پالا تھا۔ آج وقت آ گیا تھا کے وہ ان کی محبت کا بدلہ اتار دے۔
"کیا ہمیں کوئی بتاۓ گا یہاں کیا ہو رہا ہے؟"
ریاض نے سختی سے با رعب آواز میں پوچھا تھا۔
"دادا سیمل مجھ محبت کرتی ہے اور شادی کرنا چاہتی ہے اور میں نے ابھی آپ کے سامنے ہاں کہہ دی ہے"
زیان نارمل لہجے میں بولا تھا مگر اس کے اندر بہت کچھ ٹوٹا تھا۔ سب کچھ بکھر سا گیا تھا۔ وہ بھی تو کسی سے محبت کر بیٹھا تھا جس کا اعتراف آج وہ خود سے کرنے والا تھا۔ مگر پھر اس سے محبت کرنے کا دعویدار آ گیا کیا اسے حق نہیں تھا کے وہ بھی اپنی محبت سے شادی کرتا۔ وہ چاہتا تھا کے جلد سے جلد سب اس کے کمرے سے چلے جائیں وہ تنہا کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا۔
"بیٹا شادی کوئی مذاق نہیں ہے۔۔ اور سیمل تمہیں کوئی شرم لحاظ رہ گیا ہے کے نہیں تم کسی کی منگیتر ہو اور تم اپنے بھائی سے محبت کے دعوے کرتی پھر رہی ہو"
مریم نے سختی سے سیمل کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"یہ میرا بھائی نہیں ہے ماما آپ بھی جانتی ہیں یہ اور آپ نے بغیر کسی صلے کے اس کی پرورش کی ہے آج اسے اس کا حق ادا کرنا ہو گا اسے مجھ سے شادی کرنا ہو گی ماما بس"
وہ اپنی ضد پر اڑتے ہوئے بولی تھی۔
"حواس قائم ہیں کے نہیں تمہارے؟؟ تمہاری منگنی ہو چکی ہے صائم کے ساتھ۔۔"
وہ غصے سے تیز لہجے میں بولی تھیں۔
اسی کے لیے تو کر رہی ہوں ماما سب کچھ میں اس نے دل میں اپنی ماما کو مخاطب کر کے کہا تھا۔
"میں تم سے بات کر رہی ہوں سیمل"
انہوں نے اس کے قریب آ کر اس کا بازو جھنجھوڑا تھا۔
"میں زیان سے محبت کرتی ہوں اماں"
وہ نظریں پھیرتے ہوئے بولی تھی۔
"آنٹی اسے کچھ مت کہیں شاید واقعی مجھے آپ کی محبت کا حق اس طرح سے چکانا ہو گا آپ فکر مت کریں میں آپ کی بیٹی کا خیال رکھوں گا"
وہ مضبوط لہجے میں بولا تھا مگر وہ اس وقت محسوس کیا کر رہا تھا یہ وہی جانتا تھا۔
"بیٹا تم پر کوئی زبردستی نہیں ہے اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے میں ابھی ٹھکانے لگاتی ہوں"
وہ اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے بولی تھیں۔ انہوں نے زیان کی پرورش اس لیے تھوڑی کی تھی کے آج اسے اس طرح سا اس کا حق دا کرنا پڑے بدلہ چکانا پڑے۔۔
"نہیں ماما میں نے کہہ دیا نا میری شادی اگر آپ لوگوں نے زیان سے نا کی تو میں زہر کھا لوں گی"
وہ غصے سے کہتی ہوئی تن فن کرتی وہاں سے چلی گئی تھی۔ اس کے پیچھے مریم بھی گئیں تھیں ریاض صاحب بس زیان کا زرد چہرہ دیکھ کر رہ گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زیان؟؟"
عنایہ نے بہت ہمت کر کے اس کے کمرے میں قدم رکھا تھا۔ سفیان اور زرشالا بھی اس کے ساتھ ہی آئے تھے مگر سفیان کو آنٹی نے بلا لیا تھا۔ اس لیے عنایہ اکیلی ہی زیان سے بات کرنے آئی تھی۔۔
زیان ابھی اس لڑکی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔اس نے بڑی مشکل سے اپنے دل کو قابو میں کیا تھا۔۔
"عنایہ پلیز میں ابھی کسی سے ملنا نہیں چاہتا"
اس نے اسے دیکھ کر رخ موڑتے ہوئے کہا تھا۔
"زیان دیکھو جو بات میں کرنے آئی ہوں وہ بہت ضروری ہے پلیز ایک دفع بات تو کر لو"
عنایہ کو ابھی یہ بات نہیں پتا تھی کے تھوڑی دیر پہلے کیا تماشا ہوا تھا۔ مریم نے سفیان کو یہی سب بتانے کے لیے بلایا تھا۔
"عنایہ تمہیں ایک بات دوبارہ کیوں بتانی پڑتی ہے؟"
وہ غصے سے اس پر دھاڑا تھا۔ وہ تو سہم گئی تھی اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کے زیان کبھی اس سے اتنی اونچی آواز میں بات کرے گا۔۔۔ مارے خوف کے اس کے چہرے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہوئے تھے۔
"زیان"
عنایہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔
"چلی جاؤ پلیز عنایہ میں تمہیں ہرٹ نہیں کرنا چاہتا میں خود بہت ڈسٹرب ہوں"
وہ نرم پڑتا ہوا بولا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کے کیا کرے جس سے وہ شادی کرنے کا اعلان تھوڑی دیر پہلے کر چکا تھا وہ اس لڑکی سے محبت نہیں کرتا تھا اور جس لڑکی کو دل و جان سے چاہتا تھا اسے بتا نہیں پا رہا تھا اور نا ہی اس کا اظہار کر پا رہا تھا۔
"زیان سیمل تمہیں دھوکہ دے رہی ہے وہ تم سے محبت نہیں کرتی"
عنایہ نے ہمت کرتے آنکھیں بند کر کے ایک ہی سانس میں کہہ دیا تھا۔
"کیا کہا تم نے؟"
زیان اٹھ کر اس کے قریب آیا تھا۔ عنایہ نے اپنے قریب اس کی آواز سن کر دھیرے سے آنکھیں کھولی تھیں۔
"سیمل۔۔ تم سے محبت۔۔۔ نہیں کرتی۔۔۔ وہ تم سے شادی اپنے منگیتر کی خاطر کرنا چاہ رہی ہے۔"
اس نے ڈرتے ہوئے اس پر ساری حقیقت کھول کر رکھ دی تھی۔
"کیا تمہیں یہ اس نے خود بتایا ہے؟"
وہ انتہائی نرمی سے اس سے پوچھ رہا تھا
"نہیں میں نے اس کی باتیں سن لی تھیں جو وہ اپنے منگیتر سے کر رہی تھی۔۔"
"عنایہ تمہیں لگتا ہے میں تمہاری اس فضول بکواس پر یقین کروں گا؟"
وہ انتہائی سنجیدگی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔
"زیان میں سچ کہہ رہی ہوں"
عنایہ نے سچ بولا تھا۔
"عنایہ ابھی کے ابھی یہاں سے چلی جاؤ اس سے پہلے میں اپنے آپے سے باہر ہو جاؤں"
وہ سختی سے بولا تھا۔
"زیان میری بات۔۔۔"
عنایہ نے تھوک نگلا تھا ابھی اس کی بات مکمل نا ہوئی تھی جب زیان اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا تھا۔
"تم دولت کے لیے اس حد تک چلی جاؤ گی میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔"
عنایہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔ وہ اس کے خلوص اس کی نیت پر شک کیے بیٹھا تھا۔
"زیان یہ تم کیا۔۔"
یہ ایک بار پھر اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا تھا۔
"تمہیں بھی دادا حصہ دے رہے ہیں نا بزنس کا تم نے سوچا آدھا کیوں پورا لے لیتی ہوں اس لیے اب برداشت نہیں ہو رہا نا کے میں سیمل سے شادی کر رہا ہوں اور تمہارا منصوبہ ناکام ہو جاۓ گا"
وہ انتہائی درشتگی سے بولا تھا۔۔۔عنایہ لب بھینچے اس کی بات سن رہی تھی۔۔ اس وقت اسے اپنے پورے وجود میں تپش سی محسوس ہو رہی تھی۔
"دیکھو میں تمہیں وضاحت دینے کی پابند نہیں ہوں اگر تمہیں میری بات پر یقین نہیں تو۔۔"
عنایہ نے مضبوط لہجے میں بولا تھا مگر زیان اسے بولنے کا موقع نہیں دے رہا تھا۔
"تم جیسے دھوکے باز لوگ ایسا ہی کرتے ہیں جو ہر معاملے میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔۔ اور اب تمہیں اپنا فائدہ نقصان میں بدلتا محسوس ہوا تو فوراً اتنی گنہونی سازش لے کر میرے سامنے آ گئی ہو شرم آنی چاہیے تمہیں ایسا سوچتے ہوئے"
وہ غصے سے اس پر دھارا تھا۔ عنایہ بس بے یقین کھڑی تھی۔
"میں اپنے خلوص اور ذات کی وضاحتیں دینے کی پابند نہیں"
وہ سختی سے اس کے چہرے پر نظریں جما کر کہتی ہوئی اس کے کمرے سے جانے لگی تھی۔
پر زیان نے اس کا بازو سختی سے کھینچ کر اسے ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔
"تم وضاحتوں سے نہیں بلکہ اپنے پکڑے جانے پر منہ چھپا کر بھاگ رہی ہو"
شیطان اب بھی اس پر حاوی تھا۔۔ وہ پھر کہہ چکا تھا جو اسے نہیں کہنا چاہیے تھا۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔
"زیان تم۔۔"
وہ بس اتنا ہی کہہ پائی تھی۔ اور اسی لمحے دو موتی اس آنکھوں سے ٹوٹ کر گرے تھے۔ وہ پھرتی سے اپنے آنسو صاف کر کے ایک قہر برساتی نظر اس پر ڈالتی ہوئی بازو چھڑا کر باہر نکلی تھی۔ پر آگے اس کے لیے ایک اور امتحان تیار کھڑا تھا۔ ریاض صاحب زیان سے کچھ دیر پہلے ہوئے واقعہ کے بارے میں بات کرنے آئے تھے مگر کمرے سے آتی ہوئی زیان اور عنایہ کی باتیں سن کر ان کے قدم وہیں تھم گئے تھے۔ عنایہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر انہیں بہت تکلیف ہوئی تھی۔ وہ ان سے بھی نظریں نہیں ملا پا رہی تھی اس لیے چپ چاپ بس باہر چلی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عنایہ کیا ہوا ہے تمہیں؟"
زرشالا نے اس کے سرخ چہرے کو  دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"کچھ نہیں گھر چلو زرشی مجھے گھر جانا ہے"
وہ ضبط کرتے ہوئے بولی تھی۔
"اچھا رکو میں زیان سے تو مل لوں پھر چلتے ہیں"
وہ نارمل انداز میں کہتی ہوئی زیان کے روم کی  طرف جانے لگی تھی۔
"نہیں میں نے تم سے کہا نا مجھے ابھی گھر جانا ہے پلیز زرشی چلو"
عنایہ نے  اسے بازو سے پکڑ کر کہا تھا۔
"ٹھیک ہے چلو"
زرشی کو اندازہ ہو گیا تھا کے کچھ گڑبڑ ہے مگر اس نے اسے مزید تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
"عنایہ تم ٹھیک ہو نا؟؟"
زرشالا نے اسے پریشانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
"ہاں مجھے کیا ہونا ٹھیک ہوں بلکل"
وہ نظریں پھیرتے ہوئے بولی تھی۔ اور اپنی نظریں ونڈو سکرین سے باہر دیکھنے پر مرکوز کر دی تھیں۔
"عنایہ میں تمہیں اچھے سے جانتی ہوں بچپن سے ایک دوسرے کی بات کہنے سے پہلے سمجھ لیتے ہیں اس لیے پلیز اب جھوٹ نا کہو مجھ سے"
زرشالا نے اسے دیکھ کر کہا تھا۔
"زرشی"
وہ ضبط کھو بیٹھی تھی۔ اور آنکھوں سے آنسو موتیوں کی لڑی کی صورت آتے ہی جا رہے تھے۔ زرشالا تو عنایہ کو اس حال میں دیکھ کر حواس باختہ ہو گئی تھی۔
"عنایہ؟؟؟؟"
اس نے گاڑی روک دی تھی اور پوری کی پوری اس کی طرف متوجہ تھی۔
"زرشی وہ"
وہ روتے ہوئے بولی تھی۔
"کیا ہوا ہے عنایہ بتا دو میری جان نکل رہی ہے تمہیں یوں دیکھ کر"
عنایہ کو لگاتار روتے دیکھ کر زرشالا کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا۔
عنایہ نے روتے ہوئے ساری بات اسے سنا دی تھی وہ اپنی باتیں اپنے دکھ اللہ‎ کے سوا کسی سے بھی نہیں بانٹا کرتی تھی مگر آج اس کا شدت سے دل چاہا تھا کے کسی کے کندھے پر سر رکھ کر خوب روۓ۔۔
"عنایہ تم نے مجھے تب کیوں نہیں بتایا میں تب ہی اس کی طبیعت درست کرتی۔۔ اس نے میری پیاری دوست کو رلایا تمہارے خلوص پر شک کیا"
زرشالا کا بس نہیں چل رہا تھا کے جس نے اس کی دوست کو اذیت میں مبتلا کیا تھا اسے اتنی اذیت دے کے وہ یاد رکھے۔ پر اذیت دینے والا بھی وہ تھا جس سے اس کی دوست نادانی میں محبت کر بیٹھی تھی۔
"اس لیے نہیں بتایا تھا خیر چھوڑو جس سے جتنی زیادہ اونچی توقعات رکھیں نا وہ اتنی ہی زور سے آپ کو زمین پر پھینکتا ہے۔۔"
"کیوں چھوڑ دوں اتنی آسانی سے ہاں اس نے تمہاری نیت تمہارے خلوص پر شک کیسے کر لیا ہاں سمجھتا کیا ہے وہ خود کو کے بس وہ ٹھیک ہے باقی سب غلط"
زرشالا غصے سے بولی تھی۔۔
"زرشی اسے لگتا ہے کے میں نے اب تک جو آفس کے لیے اتنی لگن اور محنت سے کام کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کے میں اسکی دولت ہتھیانا چاہتی ہوں پر تم تو مجھے جانتی ہو نا میرے لیے پیسہ یا دولت کبھی اہم نہیں رہی میرے لیے تو میرے اپنے میرے رشتے سب سے زیادہ ضروری رہے ہیں وہ بھی تو یہ بات جانتا ہے پھر بھی اس نے میری نیت پر شک کیوں کیا زرشی"
وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بولی تھی۔
"عنایہ پلیز یوں مت رو اپنے آنسو ان کے لیے نہیں بہاتے جو ان کی قدر نہیں کرتے"
زرشالا نے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا۔ کچھ دیر بعد عنایہ کچھ حد تک سمبھل گئی تھی۔
"گھر چلو نانی مان پریشان ہو رہی ہوں گیں"
وہ اپنا ناک ٹشو سے رگڑتے ہوئے بولی تھی۔
"چلو لیکن اب تمہیں اس کے لیے نہیں رونا بلکہ سوچنا ہی نہیں ہے اس کے بارے میں ٹھیک ہے نا؟"
زرشالا نے پیار سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"اوکے"
عنایہ نے بھی ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر لیے کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عنایہ سے اس قدر بدتمیزی کرنے کی وجہ جان سکتا ہوں میں؟"
ریاض غصے سے گویا ہوئے۔
"دادا پلیز آپ تو یوں مت کہیں میں مجبور تھا"
وہ ان سے بھی نظریں ملا نہیں پا رہا تھا۔
"دیکھو بیٹا مجبوری کتنی ہی بڑی کیوں نا ہو کسی کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیے"
وہ تھوڑا نرم پڑے۔۔ اس کے جذبات ان سے مخفی نا تھے۔ وہ ہمیشہ سے کو ایجوکیشن میں پڑھا تھا پر کبھی انہوں نے کسی بھی لڑکی یہاں تک کے سیمل کے لیے بھی  اسے کسی کا اتنا خیال رکھتے ہوئے نا دیکھا تھا۔
"دادا میں کیا کروں میں بہت بےبس ہوں"
وہ بےبسی سے انہیں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"زیان عنایہ کیا چلی گئی؟"
سفیان دھڑلے سے دروازہ کھول کر اندر آیا تھا۔
زیان نے سر جھکا لیا تھا۔
"کہیں تم نے تو اسے کچھ الٹا سیدھا نہیں کہہ دیا؟"
سفیان کو لگا تھا جیسے کچھ غلط ہوا ہے۔
"ہاں میں نے کہا ہے۔۔ بہت کچھ کہا ہے۔۔ بہت غلط باتیں کہی ہیں۔۔ پر میں کیا کرتا میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ "
وہ ان دونوں کی طرف کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا تھا۔
"زیان تم جانتے ہو نا وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتی اور نا ہی وہ ایسی لڑکی ہے جسے سازشیں کرنا اچھا لگتا ہو"
ریاض نے کہا تھا۔
"زیان میں نے آج تک اپنی زندگی میں اس سے زیادہ مخلص انسان نہیں دیکھا۔ اور تم نے اسی کو غلط بنا کر اس کا دل توڑ دیا"
سفیان نے تاسف سے اسے دیکھا تھا۔
"میں مجبور ہوں"
وہ شرمندہ شرمندہ سا کہہ رہا تھا۔ جس پر ریاض اور سفیان ایک ساتھ بولے تھے۔
"کون سی ایسی مجبوری ہے تمہاری ہاں جو تم نے جس نیک سیرت لڑکی کا دل توڑ دیا۔"
"کیوں کہ میں۔۔۔۔ اس سے۔۔۔ محبت کرتا ہوں۔۔۔ دادا سچی محبت۔۔ اور بہت زیادہ اتنی کے اس کے لیے اپنی جان تک دے سکتا ہوں پر آج تک اس بات کا اعتراف کبھی خود سے بھی نہیں کیا تھا۔ آج آپ کے سامنے حالِ دل کہہ بیٹھا ہوں پر یقین مانیں اسی کے لیے کیا ہے میں نے سب تا کے اسے تکلیف نا ہو"
وہ سرخ آنکھیں لیے انہیں دیکھتا ہوا بولا تھا۔
سفیان کے چہرے پر یہ بات سن کر مسکراہٹ پھیلی تھی جس پر اس نے جلد ہی قابو پا لیا تھا یہی تو تھا جو وہ کب سے اس کے منہ سے سننا چاہتا تھا آج وہ بھی ہو گیا تھا۔ ریاض کے ذہن میں ماضی کی ایک یاد ابھری تھی۔ انہوں نے سرد آہ بڑھ کے اپنے خبرو پوتے کو دیکھا تھا۔ کاش ہم وقت پیچھے کر کے اپنی غلطیاں سدھار سکتے۔۔
"زیان یہ بات تھی تو تم نے سیمل کو صاف صاف انکار کیوں نہیں کیا؟؟"
ریاض اسے پریشانی سے دیکھتے ہوئے بولے تھے۔
"کیوں کے آنٹی کی محبت کا حق ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے دادا مجھے کرنی ہی ہو گی سیمل سے شادی۔۔"
وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔
"زیان تمہیں واقعی لگتا ہے کے آنٹی مریم نے تمہاری تربیت اس لیے کی کے جوان ہو کر ان کی بیٹی سے نکاح کر کے تم ان کی محبت کا حق ادا کر سکو؟؟"
سفیان نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"نہیں میں نے ایسا ہر گز نہیں کہا"
زیان جلدی سے بولا تھا۔
"اور کیا تم یہ بات فراموش کر چکے ہو کے سیمل کی منگنی ہو چکی ہے اور وہ صائم سے محبت بھی کرتی ہے پھر اسے تم سے شادی کرنے کا خیال کیسے آیا؟؟"
ریاض نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
"کیا مطلب؟"
وہ الجھن سے بولا تھا۔
"مطلب یہ میرے یار کے سیمل نے تم سے جھوٹ کہا ہے اور اس کے پیچھے وجہ تو تمہیں سمجھ آ جانی چاہیے"
سفیان نے کہا تھا۔
"مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا آپ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔"
وہ الجھی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
"بیٹا تم نے جو دولت والی باتیں عنایہ کو کہی ہیں نا یہ دراصل باتیں تو ٹھیک تھیں مگر تمہیں عنایہ کو نہیں بلکہ سیمل کو کہنا چاہیے تھا۔ کیوں کے اپنے منگیتر کے کہنے پر ہی اس نے اتنا بڑا پلان کیا تھا۔"
ریاض صاحب اسے سمجھاتے ہوئے بولے تھے۔
"اور اس کا پلان یہی تھا کے تم سے شادی کر کے تم سے پراپرٹی اپنے نام کرا کر صائم سے شادی کر لینا۔۔ اس بیوقوف کو بھی احساس ہی نہیں ہوا کے صائم اس کی محبت نہیں بلکہ دولت چاہتا ہے۔۔ اور تم بھی اس کی باتوں میں آ گئے۔۔ ذرا سوچو جو لڑکی کچھ دن پہلے تک خوشی سے اپنے منگیتر کی تصویریں دکھاتی نہیں تھکتی تھی اچانک اسے تم سے محبت کا بھوت کیسے سوار ہو گیا۔۔"
سفیان نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے سمجھایا تھا۔
"مطلب۔۔۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا"
وہ بے یقین سا بیٹھا ان کے چہرے تک رہا تھا۔
"مجھے بھی نہیں آیا تھا جب عنایہ نے مجھے اور زرشالا کو ساری بات بتائی تھی تم جانتے ہو اسے بڑا مان تھا کے تم اس کی بات پر یقین کرو گے پر تم نے اس کا دل اس کا مان اس کا یقین سب کچھ توڑ دیا"
سفیان نے افسوس سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
زیان کو سب سن کر بہت تکلیف ہوئی تھی۔ اس نے عنایہ کو کس قدر اذیت میں مبتلا کیا تھا یہ سوچ سوچ کر وہ شرم سے پانی پانی ہوتا جا رہا تھا۔
"اب میں کیا کروں دادا"
وہ پریشانی سے بولا تھا۔
"بھئی اب ساری غلطی تمہاری ہے تمہیں خود ہی اس کو سدھارنا ہے"
ریاض صاحب یہ کہہ کر اٹھ کر چلے گئے تھے وہ جس مقصد سے آئے تھے وہ پورا ہو چکا تھا وہ اور سفیان مل کر زیان کو اس کی غلطی کا احساس دلا چکے تھے۔ ریاض صاحب کے جانے کے بعد سفیان بھی جانے لگا تھا۔ جب زیان نے اسے روکا تھا۔
"اوئے تو کہاں جا رہا ہے۔۔ دیکھ میں نے تیرے معاملے میں کتنی مدد کی تھی اب تو ایسے وقت میں میرا ساتھ چھوڑ رہا ہے"
زیان نے اسے جذباتی کرنے کی پوری کوشش کی تھی مگر وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا۔
"بیٹا جس طرح تونے میری مدد کی تھی ٹھیک اسی طرح کروں گا"
سفیان اسے چڑاتا ہوا کہہ کر بھگا تھا زیان نے بھی اس کے پیچھے دوڑ لگا دی تھی۔۔۔

حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora