وہاں سے آنے کے بعد وہ عجیب سی بیچینی کا شکار تھا ۔ نا بیٹھے چین آ رہا تھا نا لیٹے ۔ تنگ آ کر وہ اپنے کمرے کی وسیع بالکونی میں آ گیا تھا۔ ان کے پیار کرنے کا انداز اسے بہت دلفریب لگا تھا۔ آج تک کسی نے اس کو اس طرح اپنایت سے نہیں چوما تھا۔ وہ تو بس عنایہ کو وہاں ڈراپ کر کے واپس آ جانا چاہتا تھا۔ پر ایک عجیب سی کشش تھی جو اس کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی چلا گیا تھا۔ اور اندر جو ہوا وہ اس کی توقعات کے برعکس تھا۔ یہ لمس اس نے پہلے بھی زندگی میں کہیں محسوس ضرور کیا ہے۔ نجانے اسے ایسا احساس بار بار کیوں ہو رہا تھا۔ بار بار ایک ہی خیال آنے سے وہ کچھ الجھ سا گیا تھا۔ اور سر جھٹک کے اپنے لیے کافی بنانے کے ارادے سے نیچے کچن کی جانب چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہائے اللّه زرشی بڑا ڈر لگ رہا ہے مجھے۔ کیا کروں پورا دن پریزنٹیشن ریڈی کرنے کے لیے اس سڑیل کے ساتھ رہنا پڑیگا۔"
عنایہ کے چہرے پے نمودار ہونے والے ننھے ننھے پسینے ک قطرے اس کے دل کی پریشانی اور گھبراہٹ واضح کر رہے تھے۔
"اف لڑکی تم پریشن کیوں ہو رہی ہو۔ کچھ نہیں کہتا وہ تمھیں۔ "
"زرشالا نے ہلکے سے اس کے کندھے پر دباؤ ڈالا تھا۔
' یار سر کو ایک وہی ملا تھا جو مجھے اسسٹ کرے۔ اف کیا کروں۔"
وہ پریشانی سے بولی تھی۔
"تو تم کچھ ایسا کر دینا جس سے سر کبھی تم دونوں کو اکھٹے کوئی کام ہی نا دیں۔ "
زرشالا ہونٹوں پے شریر مسکراہٹ لیے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
"بدتمیز لڑکی۔ دوبارہ کام کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ کیونکہ سر مجھے ہمیشہ کے لیے جاب سے نکال دیں گیں۔۔ تم ایسے فضول مشورے اپنے پاس ہی رکھو۔ " یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھ گئی تھی جب کے پیچھے سے زرشالا کی آواز سنائی دی تھی۔
"تو نا مانگا کرو میرے مشورے۔ دیکھ لیتے ہیں تم دونوں Alien اب کونسا نیا کارنامہ انجام دیتے ہو۔ "
اس نے Alien پے زور دیتے ہوئے کہا تھا جسے سن کر عنایہ غصّے سے واپس مڑی تھی۔
"کیا کہا؟ اس کو بھلے ہی تم Alien کہو مجھے دل کی گہرائیوں سے قبول ہے پر خبردار مجھے اس کی کمیونٹی میں شامل کیا تو"
زرشالا کا اس کی بات سن کے ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا تھا اسی لمحے سفیان کی اینٹری ہوئی تھی۔
"ہیلو بیوٹیفل لیڈیز"
دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
"تم ہو گے انکل بڈھے کہیں کے۔ "
عنایہ نے ترخ کر جواب دیا تھا۔
"جی۔۔۔؟ پر میں نے آپ کو ایسا کیا کہہ دیا؟"
سفیان حیرت کا مجسمہ بنا کھڑا تھا۔
"تم نے ابھی تو کہا لیڈیز"
"تو آپ لیڈیز نہیں ہیں کیا؟ "
اس نے ایک ابرو اچکا کر پوچھا تھا۔
اس کی بات کا جواب زرشالا نے دیا تھا۔
"دیکھو لیڈیز عورتوں کو مخاطب کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اور ہم لیڈیز نہیں ہیں لڑکیاں ہیں معصوم سی۔"
وہ ابھی تک انکی لاجک سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جب عنایہ نے کہا تھا۔
"اوکے زرشی میں جا رہی ہوں پھر ملتے ہیں۔ "
یہ کہہ کر وہ چلی گئی تھی۔ جب کے سفیان نے زرشالا کو مخاطب کیا تھا۔
"کیا میں آپکا نام جان سکتا ہوں؟"
یہ کہتے ہوئے اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نے احاطہ کیا ہوا تھا۔ زرشالا نے پہلے ایک نگاہ اس کے وجود پر ڈالی تھی۔ 6 فٹ تک آتا لمبا قد چوڑا سینہ اور بالوں کا سٹائل ایسا کے دور تک لوگ اسے اپنی نظروں کے حصار میں رکھتے تھے۔
صاف رنگت اور زیان کی طرح اس نے بھی ہلکی سی داڑھی رکھی ہوئی تھی جو اس کو مزید پر کشش بناتی تھی۔ زیان کا دوست بھی اسی کی طرح حسن اور وجاہت کی دولت سے مالامال تھا۔
"کیا ہوا میڈم نام ہی پوچھا ہے۔؟ ایسے کیا غور سے دیکھ رہی ہیں؟"
اس نے زرشالا کے سامنے چٹکی بجائی تھی۔
"خوبصورت" وہ بے دھیانی کی کیفیت میں بول گئی تھی۔
"نائیس۔" وہ مسکرایا تھا۔
"جی؟ " وہ وآپس ہوش کی دنیا میں واپس آئی تھی۔
"میں نے کہا خوبصورت ہے آپکا نام آپ کی طرح۔ پر وہ آپ کی دوست آپ کو زرشی کیوں کہہ کے گئیں ہیں؟ "
"کیوں کے میرا نام زرشالا ہے بھئی۔۔"
"ابھی تو آپ نے کہا کے آپ کا نام خوبصورت ہے ؟" وہ الجھ کر بولا تھا۔
"ہاں وہ تو ایسے ہی۔ اچھا مجھے کچھ کام ہے پھر ملاقات ہوگی۔ "
زرشالا یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی اب وہ خود کو کوس رہی تھی کے اس شخص کو اتنے بھی غور سے دیکھنے کی کیا ضرورت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہے ؟ اتنی دفعہ کال کر چکی ہوں۔"
وہ اونچی آواز میں بڑبڑا رہی تھی۔ اس کا رخ اب زیان کے روم کی جانب تھا۔ اس نے اجازت لینے کی ضرورت نہیں سمجھی تھی اور روم میں داخل ہو گئی تھی۔ اندر پہلا قدم رکھتے ساتھ ہی اسے مسلسل فون کے بجنے کی آواز آ رہی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر زیان کا فون اٹھایا۔ فون کو دیکھتے ہی وہ غم سے نڈھال ہو گئی تھی۔ مجبوراً سہارے کے لیے کرسی کو تھامنا پڑا تھا۔ زیان نے اس کا نمبر "چڑیل" کے نام سے سیو کیا تھا۔ عنایہ کو اپنے لیے یہ نام بلکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔ اسی لمحے باتھروم کا دروازہ کھلا تھا اور زیان اندر داخل ہوا تھا۔ وہ اپنی آنے والی شامت سے بےخبر ہی تو تھا۔ عنایہ کے چہرے کی تاثرات دیکھ کر اس کے چہرے کا رنگ فق ہوا تھا۔
"کیا ہوا آپ کو؟ "
اس نے گھبراتے ہوئے پوچھا تھا اور ساتھ ہی عنایہ کے ہاتھ سے اپنا موبائل پکڑا تھا۔ اب فون کے بجنے کی آواز نا بند ہو گئی تھی۔اس نے فون کو ایک نظر دیکھا۔ مسڈ کالز چیک کر کے اب وہ کچھ کچھ سمجھ چکا تھا۔
"آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو ہاں؟ Alien کہیں کے۔ میرا نمبر چڑیل کے نام سے کس خوشی میں سیو کیا تھا؟ "
وہ اسے دیکھ کر ایک دم غصے میں آئی تھی۔
"میرا موبائل میری مرضی۔"
لبوں پے شریر مسکراہٹ سجاۓ چمکتی ہوئی گہری براؤن آنکھوں کے ساتھ وہ دو قدم آگے آیا تھا۔ عنایہ اس کی اس حرکت پر مزید خفا ہوئی تھی۔
"دور ہٹیں اور ابھی اس کو چینج کریں۔"
وہ کسی شہزادی کی سی آن بان سے حکم سنا رہی تھی۔
"ہاں جیسے تم نے کہہ دیا اور میں کر دوں گا۔ اوہ میڈم جا کر اپنا منہ دھو کر آئیں۔"
زیان نے اپنے خاص انداز میں کہا تھا۔
"آپ ایسے نہیں مانیں گیں رکیں ذرا۔ "
عنایہ نے یہ کہتے ساتھ زیان کی ٹیبل پر رکھا ہوا پانی سے بھرا ہوا جگ اٹھا کر اس کے منہ پے گرا دیا۔ اس کے ایسا کرنے سے زیان کے کپڑوں کے علاوہ جدید طرز کا بنا ہوا اس کا کمرہ بھی گیلا ہو گیا تھا۔ اپنے گھر کے کمرے کے علاوہ اس نے ہونے آفس کا کمرہ بھی جدید سہولتوں سے آراستہ کروایا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ میں موجود مہنگا ترین فون جسے خریدے ہوئے بمشکل کچھ ہی دن گزرے ہوں گے وہ بھی پانی کی وجہ سے گیلا ہو چکا تھا۔
"دھل گیا اب منہ؟ "
عنایہ نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔
"تمہیں تو میں۔۔۔"
اس کے باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے کیوں کے آفس کا چپڑاسی اندر آیا تھا۔
"سر۔ ۔۔؟"
وہ حیرت سے اپنے سر کو اور اس کی حالت کو تک رہا تھا۔ زیان کی آواز اسے ہوش میں لائی تھی۔
"ہاں بولو غلام محمّد؟"
"سر وہ آپ کو سر ریاض بلا رہے ہیں"
"اوکے تم چلو میں آتا ہوں۔"
"تمھیں تو میں آ کر بتاتا ہوں۔"
اسے دھمکی دیتا ہوا وہ ریاض صاحب کے کمرے کی جانب چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زیان یہ تم نے اپنی کیا حالت بنائی ہوئی ہے؟"
ریاض احمد نے جب اپنے ہر وقت تیار رہنے والے پوتے کو اس حال میں دیکھا تو انکا دماغ بھک سے اڑا تھا۔
"وہ کچھ نہیں دادا جان بس ایسے ہی آپ بتایں کیوں بلایا تھا؟ "
زیان نے بات کا رخ بدلہ تھا نہیں تو شامت عنایہ اور زیان دونوں کی آنی تھی اور وہ فلوقت ایسا نہیں چاہتا تھا۔
"ہاں وہ عثمان اینڈ کمپنیز کل ہی آ رہے ہیں اس لیے تم دونوں کو آج ہی سارا پروجیکٹ کمپلیٹ کرنا ہے۔ "
"اوکے ہم ابھی ہی کام شروع کرتے ہیں۔"
"گڈ۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیان اور عنایہ صبح سے لے کر رات کے 7 بجے تک مسلسل کام میں لگے رہے تھے۔ اب وہ فارغ ہوئے تھے۔ پریزنٹیشن کی ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ ان دونوں کو اب بھوک کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔
"کیا کھاؤ گی؟" زیان نے نارمل انداز میں پوچھا تھا۔
"نہیں تھنک یو مجھے گھر جانا ہے۔ نانو نے بنایا ہوگا کھانا۔ " وہ یہ کہتے ہوئے ساتھ ساتھ اپنا بیگ اور ضروری سامان اٹھا رہی تھی۔
"ہاں گڈ اآئیڈیا۔ وہیں سے کھا لیں گیں۔"
عنایہ نے اس کی بات کے آخری الفاظ سن کر جٹھکے سے سر اٹھایا۔
"کیا مطلب ہے آپ کا؟ "
وہ ایک ابرو اچکائے پوچھ رہی تھی۔
"ارے بھئی جلدی کرو کہیں کھانا ٹھنڈا نا ہو جائے۔ "
وہ جانتا تھا کے عنایہ کو زیان کو اپنے گھر لے کر جانا بلکل پسند نہیں تھااس لیے وہ جان کر اسے چڑا رہا تھا۔ پر آج لا شعوری طور پر اس کا اپنا دل بھی وہاں جانے کو کر رہا تھا۔ ایک عجیب سی کشش تھی وہاں جو اسے اپنی جانب کھینچتی تھی۔ رات کے کوئی 8 بجے وہ وہاں پہنچے تھے۔ ان کی امیدوں پے پورا اترتے ہوئے جمیلہ بیگم عنایہ کا انتظار کر رہیں تھیں۔
زیان کو بھی ساتھ آتے دیکھ کر انہیں خوشگوار حیرت اور مسرت ہوئی تھی۔ ان سب نے ایک ساتھ کھانا کھایا کھانے کے دوران ہلکی پھلکی گپ شاپ بھی ہوتی رہی۔
"نانی ماں کافی کی شدید طلب ہو رہی ہے مجھے۔ " زیان نے معصومیت کے تمام تر ریکارڈ توڑ دے تھے۔
"ارے بیٹا مجھے تو یہ کافی بلکل نہیں پسند اس لیے بنانی بھی نہیں آتی ہاں یہ عنایہ کو کہتی ہوں۔ "
اور ساتھ ہی انہوں نے کچن میں موجود عنایہ کو آواز دی۔
"جی نانو ؟"
"بیٹا زیان کو ایک کپ کافی تو بنا دو تم نے یقینی طور پر اپنے لیے بھی بنانی ہوگی اس کے لیے بھی بنا دینا۔"
انہیں تو بس وہ جی ہی کہہ سکی تھی جب کے زیان کو غصّے سے دیکھ کر واپس کچن چلی گئی تھی۔
"ایسے تو اس نے اپنے گھر جانا نہیں ابھی بتاتی ہوں۔ "
اس نے بڑبڑا کر کہتے ہوئے اس کی کافی میں چینی بہت زیادہ ڈال دی تھی۔
"اب آئے گا مزہ"
وہ ٹرے میں دو کپ کافی کے رکھ کر باہر لاؤنج میں آ گئی تھی۔
زیان کو پہلے ہی عنایہ سے کسی الٹی سیدھی حرکت کی توقع تھی اس لیے اس نے عنایہ کو ٹشو لانے کے لیے اندر بھیجا اور عنایہ کا کپ اپنی جانب جب کے اپنا والا عنایہ کے سیٹ کے آگے رکھ دیا تھا۔ عنایا کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کے اس کی شرارت اسی پر الٹی بھی پر سکتی ہے۔ جمیلہ بیگم اس دوران واش روم گئیں تھیں اس لیے زیان کی یہ حرکت دیکھ نا پائی تھیں۔ عنایہ نے آ کر اپنا کپ اٹھایا اور آنکھوں میں شرارت لیے زیان کو دیکھنے لگی۔
زیان بھی اطمینان سے اپنا کپ اٹھا کر کافی پینے لگا۔ عنایہ نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
"اس ڈھیٹ کو اثر کیوں نہیں ہوا۔"
یہ سوچتے ہوئے اس نے پہلا گھونٹ لیا ہی تھا کے اسے بری طرح اچھو لگ گیا تھا۔ وہ لگاتار کھانستی جا رہی تھی۔ اور اٹھ کر پانی پینے چلی گئی تھی۔ پیچھے سے جمیلہ بیگم حیرت سے اسے دیکھ رہیں تھیں۔ جب کے زیان نے اپنی مسکراہٹ کو ہونٹوں سے لگا کر روکی تھی۔
جب عنایہ وآپس آئی تو اس کی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں۔ اس نے ایک نا گوار نظر زیان پر ڈالی اور اپنا کپ اٹھا کر کچن کی جانب چل دی۔
"چھوڑوں گی نہیں تمہیں۔"
اس نے غصّے سے کچن کی کھڑکی سے مسکرا کر بات کرتے ہوئے زیان کی جانب غصیلی نگاہ ڈال کر کہا تھا۔
زیان کی وجہ سے اس کا سارا موڈ آف ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ŞİMDİ OKUDUĞUN
حالِ دل کہوں کیسے (COMPLETED)
Kısa Hikayeقدیم روایتوں کی وجہ سے خاندانوں کی بربادی کی ایک داستان... محبتوں کے امتحان کی داستان... زندگی کی مشکلات اور آزمائشون کی ایک کہانی.. پڑھیے اور اپنی رائے ضرور دیں.. Insta @zoha_asif_novels Fb @zohaasifnovels