ساتویں قسط

649 52 21
                                    


رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا

وہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آ گئی
احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا

یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا

بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں
دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا

شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نہیں گیا

گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی
لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آ کر نہیں گیا

تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد
جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا

رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا

ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی
وہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیا

شہزادؔ یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے
جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا

(شہزاد احمد)
-

-----------------------------------------

وہ گھر پہنچی تب تک فوزیہ خود کو سنبھال چکی تھی۔ جانتی تھی اب حاجرہ کو انہیں ہی سنبھالنا ہے۔ امینہ بیگم اپنے کمرے میں جانماز بچھائے اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعائیں کر رہی تھیں۔ وجدان اور روحان بھی سو رہے تھے۔ جبکہ زوہیب صاحب خاموش بیٹھے تھے ان کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں مگر بلکل خاموش بیٹھے تھے۔
"کیا ہوا ہے بھابھی سب ٹھیک ہے نا؟ آپ رو کیوں رہی ہیں۔؟" حاجرہ گھر میں داخل ہوتے ہی فوزیہ سے پوچھتی ہے۔
"یہاں بیٹھو میرے پاس" فوزیہ اپنے آنسو خشک کرتی اسے اپنے پاس بٹھاتی ہیں۔ وہ ان کے برابر بیٹھ جاتی ہے۔
"بھابھی کیا ہوا ہے۔ مجھے کچھ بتائیں۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔ سہیل بھائی کہاں ہیں۔ روحان اور وجدان کہاں ہیں۔" اس نے پریشانی سے کہا۔
وہ ابھی کچھ کہتیں اس سے پہلے سہیل صاحب اندر آئے۔
"بھائی آپ ہی کچھ بتائیں۔ ہوا کیا ہے؟" حاجرہ نے ان سے پوچھا مگر وہ کوئی جواب نہ دے سکے۔ سب منتظر نگاہوں سے انہیں دیکھ رہے تھے کہ وہ کچھ بولیں۔ سہیل نے سلمان کی خود آلود گھڑی اور انگوٹھی حاجرہ کی سمت بڑھائی۔ جسے پہچان کر حاجرہ کا چہرہ سفید پڑ گیا۔
"یہ تو۔۔یہ تو سلمان کی ہیں۔ سلمان کہاں ہیں۔ بھائی سلمان کہاں ہیں؟" گھڑی دیکھ کر جو بات زہن میں آئی تھی وہ وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ سہیل کتنی ہی دیر اپنے اندر ہمت جمع کرتا رہا۔
"گھر لانے کی ہمت نہیں ہوئی مجھ میں۔ اگر کوئی آخری بار دیکھنا چاہتا ہے تو لے چلتا ہوں۔ مگر میرا مشورہ ہے نہ دیکھیں۔ آپ سے دیکھا نہیں جائے گا۔" بہت بھاری دل کے ساتھ یہ جملے ادا کئے تھے۔ وہ ضبط کے کس مرحلے میں تھا وہی جانتا تھا۔ اس کی تنبیہ کے باوجود وہ سب اس کے ساتھ مردہ خانہ گئے تھے۔ سلمان کو آخری بار دیکھنا آسان نہ تھا۔ ان میں سے کوئی بھی نظر بھر کے دیکھ نہ سکا۔ سب کچھ کیسے ہوا کب ہوا حاجرہ کو کچھ سمجھ نہ آئی۔ وہ خالی خالی نظروں سے سارا منظر دیکھتی رہی۔ سب نے چاہا کہ وہ روئے مگر وہ سکتہ میں تھی۔
تدفین کے بعد زوہیب صاحب نے سب کو واپس کینیڈا جانے کا حکم دیا۔ سہیل نے ان کو بہت سمجھایا بہت بحث کی مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ سلمان کی حالت ان کے فیصلے کو مزید پختہ کر گئی تھی۔ پھر بھی جب سہیل نے انکار کیا تو انہوں نے خودکشی کی دھمکی دی۔ کہ ایک بیٹا کھو چکا ہوں۔ دوسرا کھونے سے پہلے اپنی جان لے لوں گا۔ یہاں پر سہیل مجبور ہو گئے تھے۔ اسی شام کی ٹکٹس بک کروائی گئیں۔ سب اتنی جلدی میں ہوا کہ کسی کو خبر تک نہ کی جا سکی۔ سلمان کی بہن تک کو بھائی کی موت کی خبر نہ ہوئی۔ سارے خاندان کو بھی بعد میں خبر ہوئی۔ علاقے والوں کو بھی کچھ پتا نہ چلنے دیا۔ سہیل صاحب نے فلحال باپ کی ضد کے آگے گھٹنے ٹیک دئے مگر اس معاملے کو اپنے تئیں حل کرنے کا ارادہ کیا۔
حاجرہ کے تو گویا حواس ہی سلب ہو گئے۔ ہر احساس سے عاری چہرہ، بے تاثر انکھیں۔ جہاں بٹھایا بیٹھ گئی۔ جہاں کھڑا کیا کھڑی رہی۔ سب نے اس سے مدیحہ کے بارے میں پوچھا مگر اس کی چپ نہ ٹوٹی۔ کینیڈا جا کر بھی کئی دن بعد ہوش آیا جب روحان آ کر خود ہی ان کی گود میں بیٹھ گیا۔ وہ سلمان اور حاجرہ سے بہت مانوس تھا۔
حاجرہ کتنی ہی دیر اسے دیکھتی رہی۔ وہ سلمان سے مشابہہ تھا۔ اسے دیکھ کر انہیں سلمان یاد آیا۔ گھر میں ایک شور اٹھا۔ حاجرہ سلمان کا پوچھ رہی تھی۔ اسے اب بھی مدیحہ یاد نہیں تھی۔ وہ بار بار بے ہوش ہو جاتی۔ اٹھتی تو سلمان کا پوچھتی۔ پھر روتے روتے بے ہوش ہو جاتی۔ آہستہ آہستہ ان کے حال میں بہتری آئی۔ مدیحہ کی عدم موجودگی بھی انہیں اسی دوران محسوس ہوئی۔ کچھ مہینے ان کے گھر کا یہی حال رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ نارمل ہوتا رہا ۔ حاجرہ کو اس کے ماں باپ کے گھر نہیں بھیجا تھا کیونکہ اس کے ماں باپ پانچ سال پہلے انتقال پا گئے تھے۔ وہ ان کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ مگر سہیل اور زوہیب صاحب سے بات تقریباً چھوڑ ہی دی تھی۔ اب بھی وہ ان سے بات نہیں کرتی تھی۔
سہیل صاحب بہت عرصے تک باہر سے ہی مجرموں کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے رہے مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اس دوران امینہ بیگم بھی گزر گئیں۔ زوہیب صاحب بھی بستر سے لگ گئے۔ دس سال پہلے حاجرہ کے والدین کی موت پر وہ پاکستان آئے تھے۔ سہیل صاحب نے اسی دوران سارا بزنس واپس پاکستان شفٹ کر لیا۔ زوہیب صاحب نے بہت مخالفت کی پر اس بار انہوں نے کسی کی نہ سنی۔ پاکستان آنے کا اصل مقصد بھی سلمان کے قاتل کا پتہ لگانا تھا جو باہر رہ کر بہت کوشش کر کے بھی وہ نہ کر سکے۔
ان لوگوں کا اگر کسی کو پتہ ہے تو وہ زوہیب صاحب ہیں مگر انہوں نے اس معاملے میں اپنے لب سی لئے ہیں۔
""""""""""""""""""""""""
وہ بات ختم کر چکے تھے۔ دونوں طرف خاموشی تھی اب۔ دونوں خاموشی سے آنسو بہا رہے تھے۔
کتنے ہی لمحے یونہی خاموشی کی نظر ہوئے۔
"مدیحہ کہاں ہے۔" اس خاموشی کو سہیل صاحب کی آواز نے توڑا۔
"چلیں آپ کو ملواتا ہوں۔ پتہ ہے وہ بلکل حاجرہ بھابھی جیسی ہے۔ شکل بھی اور حرکتیں بھی۔ مگر آنکھیں اس کی بلکل سلمان جیسی ہیں۔ اور جزباتی بھی سلمان کی طرح بہت زیادہ ہے۔" آنسو صاف کرتے ہوئے مسکرا کر بتانے لگے۔
"اچھا چلو اب مجھے میرے سلمان کی بیٹی سے ملواؤ۔" کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو شہاب صاحب بھی کھڑے ہو گئے مگر یہ کیا۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتے چلے گئے۔
------------------------------------------------
وجدان گھر آیا تو سب لاونج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ روحان سب کو شام میں فوڈ سٹریٹ لے جانے پر تیار کر رہا تھا۔ وجدان کو آتے دیکھ اٹھ کھڑا ہوا۔
"ارے بھیا آپ اتنی جلدی آ گئے۔ مطلب ہم نے بلاوجہ شاہی قلعہ کا پلین کینسل کیا۔ اس ٹائم تو نکل ہی سکتے تھے۔" روحان بولتے بولتے چپ ہو گیا۔ وجدان کے چہرے پر کچھ زیادہ ہی سنجیدگی تھی۔
"بھیا از ایوری تھنگ اوکے؟ بابا جان کہاں ہیں؟" روحان نے اس کی سنجیدگی دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"تم سب اپنا سامان پیک کرو۔ تھوڑی دیر میں ہم نے ائیرپورٹ کے لئے نکلنا ہے۔ بابا جان نے کہا ہے سب بچے ابھی پہلی فلائیٹ سے اسلاماباد واپس جا رہے ہیں۔" اس نے سنجیدگی سے کہا تو سب نے ہی چونک کر دیکھا۔
"مگر۔۔" عریشہ نے کچھ کہنا چاہا۔ تو وجدان نے روک دیا۔
"میں نے کہا ہے سب کے سب فوراً کمروں میں جاؤ اور اپنا سامان پیک کرو۔ ایک بجے کی فلائیٹ ہے۔ اور سب مطلب سب۔ روحان، عریشہ، رضا، شعیب، حمدان۔ ناؤ ہری اپ۔" غصے کے انداز میں مگر آرام سے کہا تو سب چپ چاپ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس وقت وجدان سے کوئی بھی سوال کرنا فضول تھا۔ ان سب کے جانے کے بعد وجدان گھر کے بڑوں سے مخاطب ہوا۔ اسے سمجھ نہ آیا کیسے بات شروع کرے۔
"چچا جان کی بیٹی مل گئی ہے۔" اس نے گلا کھنکار کر بات شروع کی تو سب کو لگا جیسے سننے میں غلطی کی ہو۔
"کیا کہا؟" حاجرہ بیگم نے حیرت سے پوچھا
"میں نے کہا چچا جان کی بیٹی مل گئی ہے۔" اس نے اپنی بات دوہرائی تو سب نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
"کیا کہا پھر سے کہو۔" حاجرہ بیگم نے اسے پھر کہا تو وہ ان کی کیفیت سمجھ رہا تھا۔
"چچی جان آپ کی بیٹی مل گئی ہے۔" اس نے ان سے کہا تو وہ چند لمحے ساکت کھڑی رہیں۔ جیسے وجدان کے الفاظ کا یقین خود کو دلا رہی ہوں۔ پھر بے ساختہ باہر کی جانب بڑھنے لگی۔
"کہاں ہے وہ۔ ملواؤ مجھے ابھی اس سے۔ لے کر چلو جلدی۔" اس کو بازو سے پکڑ کر کھینچنے لگیں تو وجدان نے انہیں کندھوں سے تھام کر صوفے پر بٹھایا۔ خود ان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
"میری بات آرام سے سنیں۔ بابا جان کو آج چچا جان کے ایک دوست ملے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ آخری وقت میں چچا جان اپنی بیٹی ان کے حوالے کر کے گئے تھے۔ اب بابا جان نے کہا ہے کہ سب بچوں کو اسلام آباد لے جاؤں۔ آپ کی بیٹی کو وہ کچھ دیر تک آپ کے پاس لے آئیں گے۔" یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"امی جان آپ پلیز چچی جان کو سنبھالیں اور باباجان کچھ دیر میں آ جائیں گے۔ میں ان لوگوں کو لے کر اسلام آباد جا رہا ہوں بابا جان کے حکم پر۔" تھوڑی دیر میں وہ لوگ ائیرپورٹ کے لئے روانہ ہو گئے۔ وجدان کا چہرہ ابھی بھی سنجیدہ تھا۔ روحان نے پہلے تو سوچا کہ پوچھے پھر اس کے غصہ سے ڈر کر خاموش ہی رہا۔ وجدان کو غصہ بہت کم آتا تھا مگر جب آتا تھا تو نہایت خطرناک ہوتا تھا۔ روحان نے اپنا دھیان موبائل میں لگایا۔ واٹس ایپ کھول کے گروپ میں میسج کرنے لگا۔
"ہم اسلاماباد واپس جا رہے ہیں۔ 1 بجے کی فلائیٹ ہے۔"
"کیا"
"مگر کیوں؟"
"اچانک؟"
سب کے میسجز آنے لگے۔

دیوانگیٔ شوق (مکمل ناول)Where stories live. Discover now