آخری قسط (3)

825 48 33
                                    

"کیا ہوا ریحان۔ طبیعت تو ٹھیک ہے؟" شہباز بڑے خوشگوار موڈ میں تھا۔
"سر یہ سب کیسے؟ آئی مین ان کا ایک بھی قتل ثابت نہیں ہو سکا۔" ریحان نے اپنی الجھن اس کے سامنے رکھی۔
"بھئی اب اتنے سالوں کا اثر و رسوخ ہے۔ سمجھا کرو۔" وہ ہنس کر بولا۔
"کافی بدنامی ہو گئی ہے۔ اب آپ جیل جائیں گے۔" ریحان نے جیسے یاد دلایا کہ وہ بالکل باعزت بری نہیں ہوا۔
"ظاہر ہے میڈیا کا منہ بند کروانے جانا پڑے گا۔ اور بدنامی کا کیا ہے، کچھ دن میں سب بھول بھال جائیں گے۔" شہباز نے سکون سے کہا۔
"مگر آپ نے سمگلنگ کیس کیوں ثابت ہونے دیا۔" ریحان کو سب سے زیادہ یہی بات حیران کر رہی تھی۔
"اس پر تو ان کی تعریف بنتی ہے۔ ثبوت پکے تھے ان کے پاس۔ باقی بھی بیچاروں کے ساتھ حادثہ ہو گیا کہ ثبوت میرے ہاتھ لگ گئے۔ شاہزین کا بھید جلد کھل گیا اور جو کچھ آخر وقت میں تمہارے ذریعے ان کے ہاتھ لگا وہ جعلی تھا۔ سو سیڈ ناں؟" اس نے مصنوعی تاسف کا اظہار کیا تو ریحان نے بےیقینی سے دیکھا۔
"کیا ہوا۔ چہرہ تو سفید پڑتا معلوم ہو رہا ہے۔ پانی دوں؟" شہباز نے اس کا مزاق اڑایا تھا۔ وہ خاموش رہا۔
"چلو اب ایک کام کرو کال کرو اپنے شاز سر کو اور کہو کہ اس کے چاچو نے ڈھیر سارا پیار دیا ہے۔" وہ مزید بولا۔ ریحان کو حیرت سے ذیادہ دکھ تھا کہ وہ کب سے اس کے ہاتھوں بےوقوف بن رہا تھا۔ مگر یہ سوچنے کا بھی ابھی فائیدہ نہیں تھا۔ اس نے اعتماد سے سر اٹھا لیا۔
"مگر سارے ثبوت تو تمہیں ملے ہی نہیں۔ پھر جو اصلی ثبوت ہیں وہ کیوں ریجیکٹ ہو گئے؟" اب کے اس نے بھی نڈر ہونے کا اظہار کیا۔
"کہا تو ہے یار۔ اثر و رسوخ بھی کسی شے کا نام ہے۔" شہباز نے بتایا۔
"خوب۔ پھر اب کیا چاہتے ہو مجھ سے؟" ریحان نے صوفے سے ٹیک لگا کر ٹانگ پر ٹانگ رکھ لی تھی۔ گویا وہ آگے کی کارروائی کے لئے تیار ہے۔ شہباز نے اس کے سوال پر سر ہلایا۔
"ہممم۔ اچھا سوال ہے۔ یوں تو تمہاری غداری پر سزا بنتی تھی مگر شاہزین کے جانے کے بعد انجانے میں جتنی مدد تم نے میری کی ہے ناں۔ اسے اس کا انعام سمجھ لو۔ تم جا سکتے ہو بس آئیندہ نظر نہ آنا مجھے۔ جاؤ اور اپنی شادی کی تاریخ رکھو زندگی میں آگے بڑھو۔ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ اب جاؤ۔ مجھے اپنی سو کالڈ سزا بھگتنے جیل جانے کی تیاری کرنی ہے۔" وہ بڑے شاہانہ انداز میں بولا۔
"تم مجھے جانے دے رہے ہو۔" ریحان نے جیسے یاد دلایا وہ اپنے دشمن کو جانے دے رہا ہے۔
"یار یقین نہیں ہے تمہیں۔ اچھا آدمی ہوں یار میں۔ بس جب تک میرے راستے میں کوئی نہ آئے۔" شہباز کہہ کر اٹھ کر چلا گیا۔ جیسے مزید بات کرنا نہ چاہتا ہو۔ ریحان چند لمحے اس کے رویے پر حیرت کرتا رہا پھر اٹھ کر چلا گیا۔ سارے راستے اسے یقین سا تھا کہ کہیں یا تو اس پر فائرنگ ہو گی یا ایکسیڈنٹ۔ کچھ بھی ہو مگر شہباز اسے یوں جانے نہیں دے سکتا تھا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وہ صحیح سلامت فلیٹ پر پہنچا جہاں سب واپسی کی تیاری میں تھے۔
"ریحان۔" حاشر نے اسے دیکھا۔
"آئی ایم سوری سر۔ آئی ایم ریئلی ویری سوری۔ میری وجہ سے آپ لوگ کیس ہارے ہیں۔" ریحان نے شرمندگی سے سر جھکایا ہوا تھا۔
"کیا مطلب؟" حاشر نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"میں نہیں جانتا کب سے، مگر شہباز میرے بارے میں سب جانتا تھا، اس نے میرے ذریعے آپ لوگوں کو ٹریپ کیا۔ اور میں اس کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا۔" وہ لب کاٹتے ہوئے بول رہا تھا۔
"اب اس سب کا کوئی فائیدہ نہیں۔ شاید ہماری قسمت میں ہار لکھی تھی۔" کتنی ہی دیر بعد فروا نے کہا۔ وجدان نے نفی میں سر ہلایا۔
"نہیں۔ ہار تو نہیں۔ میں پھر سے کیس کروں گا۔ اب کی بار ہونے والی غلطیوں سے صرف آئیندہ کے لئے سیکھ ملی ہے۔ جب تک انصاف نہیں ملتا میں ہار نہیں مانوں گا۔ اگلی بار اور زیادہ ٹھوس ثبوت جمع کر کے کیس کروں گا۔" وہ پر عزم لہجے میں بولا۔
"اس کی نوبت نہیں آئے گی۔" حاشر نے کہا۔ وجدان نے ناسمجھی سے دیکھا۔
"وہ ٹھیک کہتا تھا۔ شہباز کا انجام شاید کسی اور طرح لکھا تھا۔" ریحان نے بھی کہا۔
"میں بھی جانا چاہتی ہوں۔" فروا بولی۔
"ان لوگوں کو آنے دو۔" حاشر نے کہا تو وہ سر ہلا گئی مگر وجدان نے کچھ ناسمجھی سے اسے دیکھا تو حاشر نے صبر کرنے کا اشارہ کیا۔

دیوانگیٔ شوق (مکمل ناول)Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang