سولہویں قسط

793 47 12
                                    

نگاہ آرزو آموز کا چرچا نہ ہو جائے
شرارت سادگی ہی میں کہیں رسوا نہ ہو جائے

انہیں احساس تمکیں ہو کہیں ایسا نہ ہو جائے
جو ہونا ہو ابھی اے جرات رندانہ ہو جائے

بظاہر سادگی سے مسکرا کر دیکھنے والو
کوئی کم بخت ناواقف اگر دیوانہ ہو جائے

بہت ہی خوب شے ہے اختیاری شان خودداری
اگر معشوق بھی کچھ اور بے پروا نہ ہو جائے

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے

الہیٰ دل نوازی پھر کریں وہ مے فروش آنکھیں
الہیٰ اتحاد شیشہ و پیمانہ ہو جائے

میری الفت تعجب ہو گئی توبہ معاذاللہ
کہ منہ سے بھی نہ نکلے بات اور افسانہ ہو جائے

یہ تنہائی کا عالم چاند تاروں کی یہ خاموشی
حفیظ اب لطف ہے اک نعرۂ مستانہ ہو جائے

حفیظ جالندھری

-----------------------------------

اظہر صاحب کے بیٹے کا ولیمہ تھا۔ جی ہاں۔ یہ ولیمہ خضر اور عائشہ کا نہیں اظہر صاحب کے بیٹے کا تھا۔ اس بات کا احساس ان سب کو شدت سے ہوا تھا۔ جنہیں اپنے مزاج کے شدید مخالف اس قدر تمیز سے اٹینڈ کرنا پڑ رہا تھا کہ وہ لوگ بس انتظار کر رہے تھے کب یہ فنکشن ختم ہو۔
خضر نے بلیک ڈنر سوٹ پہنا تھا جبکہ عائشہ نے پیچ کلر کی میکسی۔ باقی سب لڑکوں نے جینز ٹی شرٹ پر بلیک کوٹ پہنے تھے اور لڑکیوں نے پنک کلر چنا تھا۔ ان کا تھیم اس بار سب کی نظر میں آیا تھا۔ کیونکہ خضر اور عائشہ کی اینٹری اظہر صاحب نے بلکل وقت پر کروا دی تھی اور یہ سب ہمیشہ کی طرح لیٹ تھے۔ اور جب یہ سب اکٹھے ہال پہنچے تو ان کی ہدایات کے مطابق لائٹس آف کر کے سپاٹ لائٹس میں ان کا چنا ہوا گانا لگوا کر اینٹری ہوئی تھی۔ خود کو کوئی سلیبرٹی سمجھتے ہوئے وہ لوگ بڑی شان سے ہال میں داخل ہوئے اور سپاٹ لائٹس کی روشنی میں سٹیج تک پہنچے۔
"کوئی شرم ہے ویسے۔ ہمیں اینٹری پر ایک ہلکا سا ڈانس تک نہیں کرنے دیا اور خود ایسے آئے ہو جیسے تم لوگوں کی شادی ہو۔" خضر بھنا کر بولا۔ کتنی خواہش تھی اس کی ایسے ہی سپاٹ لائٹس کی روشنی میں عائشہ کے ساتھ ہلکا ہلکا ڈانس کرتے ہوئے آنے کی۔ جسے اظہر صاحب کے رعب نے پورا نہ ہونے دیا۔
"تو ہم نے کہا تو تھا تھوڑا سا انتظار کر لے۔ ہم کروا دیں گے تیرا شوق پورا۔ تجھے پتہ نہیں کون سی جلدی تھی۔" رضا نے غصے سے جواب دیا۔ اب وہ کیا بتاتا کہ اسے جلدی نہیں تھی۔ مگر وہ جانتا تھا اس کے باپ نے اس کے دولہا ہونے کا بھی لحاظ نہیں کرنا تھا۔
"چھوڑو دفع کراؤ۔ کچھ کھا پی لیں۔ پھر اچھا سا فوٹو سیشن بھی تو ہونا ہے۔ ہمارا۔" شاہزین کے آخری لفظ پر خضر مزید تپ گیا۔
"سالوں تم لوگ مجھے سٹیج سے اتار دو۔ اپنا فنکشن رکھ لو۔ ڈانس تمہارا۔ اینٹری تمہاری۔ فوٹو سیشن تمہارا۔ میں جا کر مہمانوں میں بوتلیں سرو کر دیتا ہوں۔" وہ جل بھن کر بولا۔
"دیکھ لے۔ مرضی ہے تیری۔" روحان نے کندھے اچکائے۔ جب حاشر ان تک آیا۔
"تم لوگوں نے آج بھی باز نہیں آنا؟" انہیں سٹیج پر لڑتا دیکھ وہ تاسف سے بولا۔
"بھائی یہ دولہا شادی کے بعد نفسیاتی ہو گیا ہے۔ خود ہی لڑے جا رہا ہے۔" روحان نے وضاحت کی۔
"حاشر میں بتاتا ہوں۔ یہ لوگ۔۔۔" وہ گویا حاشر کو ان کی شکایت لگانے لگا جب سب محض کندھا تھپک کر سٹیج سے اتر گئے۔ عائشہ چاہ کر بھی اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکی۔ جبکہ حاشر نے ہنسی چھپانے کو رخ موڑ لیا۔ وہ صدمے سے انہیں دیکھ کر رہ گیا۔
ایک ٹیبل پر کھانا لگا کر وہ لوگ سٹیج پر گئے اور دولہا دلہن کو ساتھ لے آئے۔ اب وہ سب ساتھ بیٹھے پر سکون انداز میں کھانا کھا رہے تھے۔ ساتھ ہی باتوں میں مشغول تھے جب۔۔۔۔
''خضر!" چہکتی ہوئی نسوانی آواز۔ خضر نے دیکھا تو اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔ مگر وہ رسماً کھڑا ہو گیا۔ باقی سب بھی کھڑے ہوئے۔
"افشین۔" شاہزین نے حیرت سے اس کا نام لیا۔
"ہیلو گائیز۔ کیسے ہو تم لوگ۔ کتنی بری بات ہے خضر۔ اپنی شادی میں مجھے بلایا تک نہیں۔" وہ کافی بے تکلف ہو کر بات کر رہی تھی۔ عائشہ نے غور سے دیکھا۔ وہ بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی۔ اور بہت سٹائلش بھی۔ بلیک ڈریس۔ گولڈن بال کھلے چھوڑ رکھے تھے۔ ریڈ لپسٹک۔ اونچی ہیل۔ وہ تو اسے دیکھ کر رہ گئی۔
"میں نے کسی غیر ضروری اور غیر متعلقہ شخص کو اپنی شادی میں نہیں بلایا۔" خضر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ باقی سب نے تعجب سے دیکھا کہ ابھی تو یہ سب سے ہنسی مزاق کر رہا تھا۔ اچانک کیا ہوا۔
"کیا ہو گیا ہے یار۔ ہم دوست نہ سہی۔ کلاس فیلوز تو ہیں نا۔"
"بدقسمتی سے۔" وہ منہ میں بڑبڑایا۔
"اینڈ آئی ایم ناٹ یور یار۔" اس نے سنجیدگی سے کہا۔
"ارے شاہزین۔ تم نے بھی شادی کر لی نا۔ تمہاری بیوی کون ہے؟" اب وہ شاہزین سے بولی۔ شاہزین نے نمرہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"اسلام علیکم۔" نمرہ فوراً خوش اخلاقی سے بولی۔
"ویسے ایک بات کہوں۔ مائینڈ مت کرنا۔ لیکن ان سے زیادہ خوبصورت لڑکیاں کراچی میں موجود ہیں۔ تم لوگ بلا وجہ لاہور پہنچ گئے۔" وہ مسکراتے ہوئے ہی بولی مگر عائشہ اور نمرہ کا دل دکھا گئی۔
"جن کی آپ بات کر رہی ہیں وہ ان سے زیادہ خوبصورت شاید ہوں مگر ان سے زیادہ خوب سیرت اور با وقار نہیں ہیں۔" شاہزین سے برداشت نہ ہوا اس لئے فوراً حساب برابر کیا۔
"واٹ ایور۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی تم لوگوں کو مل سکتی تھی۔" وہ کندھے اچکا کر بولی۔
"ان ایک سے بڑھ کر ایک لڑکیوں میں ایک بھی میری عائشہ جیسی نہیں ہو سکتی تھی۔" خضر نے عائشہ کے گرد بازو پھیلا کر اب اسی کے انداز میں جواب دیا۔ وہ اس کی بات کا مفہوم سمجھ رہا تھا۔ عائشہ دھیما سا مسکرائی۔
"انہیں تو عائشہ چاہئے تھی مل گئی۔ مگر شاہزین تمہارے لئے تو پوری یونیورسٹی کی لڑکیاں لائن میں کھڑی تھیں۔ بلکہ اب بھی کھڑی ہیں۔ پھر بھی تمہیں یہ لاہوری پینڈو ہی پسند آئی۔" وہ مزاحیہ انداز میں بولی۔ کتنی ڈھیٹ تھی وہ۔ اور بدتمیز بھی۔ نمرہ دیکھ کر رہ گئی۔ وہ شاید اسے سر پر ڈوپٹہ لینے کی وجہ سے پینڈو کہہ رہی تھی۔ نمرہ سے مزید برداشت نہ ہوا۔ وہ کچھ کہنے ہی لگی جب شاہزین بولا۔
"مائینڈ یور لینگویج۔ تمہیں نہ میں نے بلایا ہے نہ خضر نے۔ پھر بھی آ گئی ہو تو ہم لحاظ کر رہے ہیں۔ لیکن اگر تم نے اب ایک اور لفظ میری بیوی کے بارے میں منہ سے نکالا تو میں سارا لحاظ وحاظ بھول جاؤں گا۔" شاہزین تیز لہجے میں بولا تو اس نے آنکھیں گھمائیں۔
"یہ دونوں تو پکے زن مرید ہیں بھئی۔" وہ بڑبڑائی۔
"ارے افشین بیٹا آپ کب آئیں۔" اظہر صاحب افشین کو دیکھ کر ان تک آئے۔
"انکل بس ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی ہے۔" اس نے سعادتمندی سے جواب دیا۔
"اچھا چلو اپنی آنٹی سے بھی مل لو۔" وہ جانتے تھے خضر اسے زیادہ دیر برداشت نہیں کرے گا اس لئے اسے وہاں سے ہٹانا چاہا۔ وہ بھی ان کے ساتھ چل دی۔
"یہ کون تھی۔" اس کے جاتے ہی عائشہ نے غصے سے خضر سے پوچھا۔
"یہ وہی محترمہ تھیں جن کی وجہ سے آپ کا شوہر ہسپتال کی سیر کر کے آیا ہے۔" شاہزین کے تعارف پر اس نے ناسمجھی سے دیکھا۔
"یہی ہے جس سے اظہر انکل اس کا رشتہ کرنا چاہتے تھے۔ اور اس نے اس بات پر ان کے آفس کی بلڈنگ سے چھلانگ مار دی تھی۔" اب کے اس نے ذرا تفصیل بتائی۔ خضر کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔
"ویسے ہے تو بہت پیاری۔" جویریہ نے دل سے تعریف کی۔ نمرہ اور عائشہ نے گھورا تو وہ گڑبڑا گئی۔
"میں نے ایسے ہی۔۔۔۔" وہ جلدی سے بولی۔ مگر اس کی بات منہ کی رہ گئی جب مدیحہ چیخی۔
"واااٹ۔" سب چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
"واٹ؟" وہ سب ساتھ بولے۔
"ہم سب کل لاہور جا رہے ہیں۔" مدیحہ نے اطلاع دی۔ سب نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"عنایا کی منگنی کی ڈیٹ فکس ہو گئی ہے۔ اس کا ابھی میسج آیا ہے۔ کل اس کی منگنی ہے۔" اس نے ان سب کے سر پر بم پھوڑا۔
"وااااٹ؟" وہ سب ہم آواز ہو کر تقریباً چیخے۔
"اس کے رشتے کی بات چل رہی تھی نا۔ تو اس کا رشتہ پکا ہو گیا ہے۔ کل منگنی ہے اس کی۔" اس نے مزید اطلاع دی۔ حاشر نے روحان کو حیرت سے دیکھا۔ وہ نظریں چرا گیا۔ اس کا نظریں چرانا اسے بہت کچھ سمجھا گیا۔
"مگر ایسا کیسے ممکن ہے۔ عنایا تو۔۔" نمرہ کو بات ہضم نہ ہوئی۔
"اس کے پیرینٹس کو یہ رشتہ پسند تھا۔ وہ بھی مان گئی۔" مدیحہ نے افسردہ سے لہجے میں کہا۔
"ویسے لڑکا کون ہے۔ نام وغیرہ کچھ بتایا اس نے۔" عائشہ نے بھی پوچھا۔ مدیحہ نے کندھے اچکا دئے۔
"کہہ رہی ہے جو قسمت میں ہوگا مل جائے گا۔" وہ اپنی دوست کی تکلیف محسوس کر سکتی تھیں۔ حاشر نے لمبا سانس کھینچا۔ اور خاموشی سے وہاں سے ہٹ گیا۔ روحان اور مدیحہ نے افسوس سے اسے جاتے دیکھا۔ روحان حاشر کے پیچھے گیا۔
--------------------------------------------
وہ سڑک پر پیدل چلنے لگا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے وہ آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا۔ آسمان جو کہ بلکل تاریک تھا۔ چاند کے ہونے سے کتنی رونق تھی۔ آج نہ چاند تھا نہ رونق۔ چاند کے نہ ہونے پر ستارے بھی نالاں تھے۔ وہ بھی خود کو چھپا چکے تھے۔ آسمان سیاہ تھا۔ بلکل سیاہ۔ اسے لگ رہا تھا کوئی یہ سیاہی اس پر انڈیل رہا ہو۔ اور وہ چاہ کر بھی اپنا دفاع نہ کر پا رہا ہو۔ اس نے آنکھیں بند کیں۔ وہاں سیاہی پر روشنی چمکی۔ روشنی۔ نہیں روشنی نہیں تھی۔ یہ تو وہ چودھویں کے چاند سا روشن چہرہ تھا۔ جس نے اس کے زہن پر سے سیاہی کو مٹا دیا تھا۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں۔ اس چہرے پر اس کا کوئی حق نہیں تھا۔ وہ شاہزین اور خضر کی طرح اپنی چاہت کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ یہ اس کی فطرت میں ہی نہیں تھا۔ وہ اپنی خوشی سب میں بانٹ سکتا تھا مگر اپنا دکھ وہ کسی کو نہیں دکھاتا تھا۔ ابھی بھی اس کا دل چاہ رہا تھا اس سنسان سڑک پر دھاڑیں مار مار کر روئے۔ مگر وہ یہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ خاموشی سے جانے کہاں چلتا جا رہا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ اسے اپنی محبت ملے نہ ملے وہ اپنی محبت کو اس کی محبت ضرور دلائے گا۔ مگر نہ وہ اپنے لئے کچھ کر سکا نہ اس کے لئے۔ وہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر اس کا ضبط جواب دے رہا تھا۔ ایک آنسو اس کے گال پر بہا۔ اس نے فوراً صاف کیا۔ جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا ہو گیا۔ وجہ تو اسے خود بھی سمجھ نہ آئی۔ بس قدم اٹھانے کی ہمت جیسے ختم ہو گئی تھی۔ کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کر کے اس نے چہرہ موڑ کر دیکھا۔ روحان پانی کی بوتل کا ڈھکن اتار کر اس کی جانب بڑھا رہا تھا۔ اس نے تھام لی۔ ایک گھونٹ پی کر چھوڑ دی۔ پھر بےبسی سے روحان کو دیکھا۔ روحان نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ حاشر نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ کچھ نہیں کہا۔ بس اس کے گلے لگ گیا۔ کچھ دیر یونہی کھڑا رہا پھر اس سے الگ ہو کر اس کا کندھا تھپتھپا دیا اور خاموشی سے واپسی کی جانب قدم بڑھا دئے۔
--------------------------------------------
آج ان سب نے اپنے اپنے گھر جانا تھا۔ مگر عنایا کی منگنی کے لئے وہ سب لاہور جا رہے تھے۔ 3 بجے کی فلائٹ تھی اور ابھی سب الگ الگ نکلے ہوئے تھے۔ روحان اور مدیحہ شاپنگ پر آئے تھے۔ وہ لوگ فارغ ہو چکے تھے جب گاڑی میں بیٹھتے ہوئے مدیحہ نے پوچھا۔
"تمہاری دوبارہ بات ہوئی؟"
"ہاں۔ آگے سے اچھی خاصی ڈانٹ پڑ گئی۔ بابا جان کہہ رہے تھے کہ شادی اٹینڈ کرنے گئے ہو وہ کرو دوسرے معاملات میں نہ گھسو۔" روحان نے مایوسی سے بتایا۔
"زیادہ ڈانٹ دیا؟" مدیحہ کو ترس آیا تھا۔ وہ اس کی وجہ سے کتنا کچھ کر رہا تھا۔ روحان نے گہرا سانس کھینچا۔
"میری سمجھ سے باہر ہے اتنا بھی کیا ڈر۔ جب ہم اتنے سالوں سے پاکستان میں ہیں اور ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہوا۔ تو چچا جان کی قبر پر جانے سے کونسی قیامت آ جائے گی۔" وہ الجھے ہوئے انداز میں بولا۔ اس نے محض یہ پوچھا تھا کہ چچا جان کی قبر کہاں ہے۔ وہ ایک بار جانا چاہتے ہیں۔ جس پر سہیل نے بری طرح جھڑک دیا تھا۔
"اچھا چھوڑو۔ پھر کبھی آ جائیں گے۔" مدیحہ نے بات ختم کرنا چاہی۔ روحان نے بھی سر ہلا دیا۔ جب اس کا فون بجا۔ میسج دیکھ کر اس نے بے اختیار ماتھے پر ہاتھ مارا۔
"عریشہ کا گفٹ۔"
"تمہیں پہلے نہیں یاد تھا۔" مدیحہ نے ماتھے پر بل لاتے ہوئے کہا۔
"بھول گیا تھا نا۔ تم بیٹھو۔ میں 10 منٹ میں آتا ہوں۔" عجلت میں اسے گاڑی میں بیٹھے رہنے کا کہہ کر وہ واپس چلا گیا۔ اور مدیحہ انتظار کرنے لگی۔ کافی دیر گزرنے کے بعد اس نے بیزاری سے ٹائم دیکھا۔
"10 کے 20 منٹ ہو گئے۔ یہ ابھی تک نہیں آیا۔" وہ تھکے ہوئے انداز میں اس کا نمبر ملانے لگی۔ کسی نے اس کی سائیڈ کا شیشہ نوک کیا۔ اس نے چونک کر دیکھا۔ کوئی خوش شکل سا لڑکا تھا۔ مدیحہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے شیشہ گرا دیا۔ دوسری طرف روحان کال اٹھا چکا تھا۔
"جی کہیں؟" مدیحہ نے پہچاننے کی کوشش کی تھی مگر اسے پہچان نہ سکی۔
"مس مدیحہ حسین۔" وہ لڑکا شاید اسے جانتا تھا۔
"جی؟"
"ہم پلیز دو منٹ بات کر سکتے ہیں۔"
"مگر آپ ہیں کون؟"
"مائی سیلف ڈاکٹر سفیان ہمدانی۔ شہاب انکل کے فرینڈ کا بیٹا ہوں۔" اس نے تعارف کروایا تو مدیحہ متذبذب سی گاڑی سے باہر نکلی۔
"مس مدیحہ۔ میری آپ سے ایک فنکشن میں ملاقات ہوئی تھی۔ آپ کو شاید یاد نہیں۔" سفیان نے یاد دلانا چاہا تھا۔
"جی مجھے یاد نہیں۔ آپ آگے کہیں۔" مدیحہ نے صاف گوئی سے کہا۔ وہ کوفت ذدہ معلوم ہو رہی تھی۔
"میں نے اپنے فادر سے کہہ کر آپ کے لئے پرپوزل بھجوایا تھا۔ مگر مجھے انکار سننا پڑا۔ اس کے بعد میں کراچی آ گیا تھا۔ مجھے اس بارے میں دوبارہ بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔ مگر میں آپ سے کہنا چاہتا تھا کہ میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔ آپ پلیز میرے پروپوزل پر نظر ثانی کریں۔" اس نے بھی اس کی بیزاری دیکھ کر ذرا جلدی بات کی۔
"مجھے کسی پروپوزل کا نہیں پتا۔ نہ ہی میں کوئی نظر ثانی کرنا چاہتی ہوں۔" وہ بیزاری سے بولی۔
"دیکھیں میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔ آپ وہ پہلی لڑکی ہیں جن کے بارے میں میں نے ایسا سوچا ہے۔" وہ اپنی بات پر زور دے رہا تھا۔
"تو اب کسی اور کے بارے میں سوچ لیں۔" مدیحہ کو شدید غصہ آیا مگر وہ کوئی تماشہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لئے ضبط کر کے بولی۔
"مس مدیحہ حسین۔ پچھلے پانچ چھ مہینوں سے میں نے صرف آپ کو سوچا ہے۔ اب کیسے کسی اور کو سوچ سکتا ہوں۔ پچھلے کچھ ماہ سے میں بہت بزی تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ لاہور جا کر ایک بار خود آپ سے اور شہاب انکل سے اس بارے میں بات کروں گا۔"
"لسن مسٹر۔ لگتا ہے آپ کو سمجھ نہیں آئی۔ میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔" اب کے وہ ذرا سختی سے بولی۔
"مگر میں کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کس بیس پر مجھے انکار کر رہی ہیں۔" سفیان نے احتجاج کیا۔ تبھی روحان کی آواز مدیحہ کی سماعت سے ٹکرائی۔
"گاڑی میں بیٹھو مدیحہ۔" وہ سرد اور سنجیدہ انداز میں بولتے ہوئے مدیحہ کے آگے سفیان کے مقابل کھڑا ہو گیا۔
"روحان۔۔۔" اس نے کچھ کہنا چاہا جب روحان اس کی جانب مڑا۔
"میں نے کہا کہ گاڑی میں بیٹھو۔" روحان کے چہرے کی سختی دیکھ کر مدیحہ چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ وہ واپس سفیان کی جانب مڑا۔
"آپ کون؟" سفیان نے تعارف چاہا۔
"کیا کہہ رہے تھے تم اس سے۔" روحان نے سرد انداز میں کہا۔
"بٹ ہو آر یو۔" وہ اس کے انداز پر تعجب سے بولا۔
"جس سے پسندیدگی کا اظہار اور پرپوزل کی بات کر رہے تھے نا تم۔ آئی ایم ہر ہزبینڈ۔" روحان تحمل سے مگر چبا چبا کر بولا۔ وہ اس کے آپ کے جواب میں تم کہہ رہا تھا۔ یہ اس کی نا پسندیدگی کا واضح اظہار تھا۔ اور سفیان کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔
"آپ کی شادی ہو چکی ہے؟" وہ گاڑی میں بیٹھی مدیحہ سے بولا۔
"اس کا شوہر تمہارے سامنے کھڑا ہے۔ اس سے بات کرو۔" روحان نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔ آنکھیں سرخ انگارہ ہو گئی تھیں۔
"بٹ مس مدیحہ آپ تو پڑھ رہی تھیں۔ آپ کی شادی کیسے ہو سکتی ہے۔" وہ بے یقینی کی کیفیت میں مدیحہ سے بولا۔
"مسز مدیحہ روحان حیدر شاہ۔ ایک مہینہ ہو چکا ہے انہیں مس سے مسز ہوئے۔" جواب پھر روحان نے دیا۔ آخر مدیحہ گاڑی سے اتر آئی۔
"دیکھیں مسٹر واٹ ایور۔ ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ خدا حافظ۔ چلو روحان۔" مدیحہ نے بات ختم کر کے روحان کا بازو کھینچا۔ تو وہ ایک سخت نظر سفیان پر ڈال کر مدیحہ کے بیٹھنے کے بعد اس کی سائیڈ کا دروازہ بند کر کے ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ پھر کار سٹارٹ کی۔ سفیان وہیں کھڑا ان کی گاڑی کو جاتا دیکھتا رہا۔
------------------------------------------
شاہزین اور خضر نمرہ اور عائشہ کو بستی لے کر گئے تھے۔ وہاں شاہزین اور خضر کی دلہنیں دیکھنے سب اکھٹے ہو گئے تھے۔
"ہائے کتنی سوہنی جوڑی لگ رہی ہے۔ کسے دی نظر نہ لگ جائے۔" اماں جی نے شاہ اور نمرہ کی نظر اتارتے ہوئے کہا۔
"اماں ہماری جوڑی سوہنی نہیں ہے؟" خضر نے منہ بنا کر پوچھا۔
"یہ تو وہ کڑی ہی نہیں ہے جس کی تصویر تم مجھے دکھاتے تھے۔" اماں جی کے کہنے پر عائشہ نے حیرت سے دیکھا۔
"کیا مطلب؟"
"تجھے نہیں پتا۔ خضر بیٹے کے موبائل میں جو لڑکی کی تصویر ہے۔ جس سے اس نے شادی کرنی تھی۔" اماں جی نے بھی حیرت سے کہا۔ نمرہ اور عائشہ نے بے یقینی سے خضر کو دیکھا جبکہ خضر اور شاہزین ہنس پڑے۔ پھر خضر نے عائشہ کے موبائل پر گوگل سے عائشہ عمر کی تصویر نکالی۔ اور عائشہ اور اماں جی کو دکھائی۔
"یہی لڑکی تھی اماں جی؟" عائشہ نے تصدیق چاہی۔ تو اماں جی نے اثبات میں سر ہلایا۔
"ہاں یہی تو تھی۔" ان کی تصدیق پر عائشہ نے شکر کا سانس لیا۔
"اچھا اماں۔ دیکھ لیں۔ ہم نے اپنا وعدہ نبھایا۔ سب سے پہلی دعوت آپ لوگوں سے کھائی ہے۔" شاہزین کے کہنے پر انہوں نے اس کے سر پر پیار دیا۔
"تو تو ہے ہی میرا شہزادہ بیٹا۔"
"اور میں؟" خضر فوراً بیچ میں کودا۔
"ہاں تو بھی ہے۔" انہوں نے اس کے سر پر بھی پیار دیا۔
"اماں جی اب اجازت چاہئے۔ ہمیں اور بھی کہیں جانا ہے۔" اس کی بات پر وہ اداس ہوئیں۔
"اس بار پھر شطرنج نہیں کھیلی۔" ایک بچا اداسی سے بولا۔
"اگلی بار پکا۔ ابھی میرا جانا ضروری ہے۔" اس نے بچے کے گال پر پیار کرتے ہوئے کہا۔ سب سے مل کر وہ لوگ گھر کو روانہ ہوئے۔ جہاں سے انہوں نے ایئرپورٹ کے لئے نکلنا تھا۔
------------------------------------------
گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔ نہ روحان نے کچھ کہا تھا نہ مدیحہ نے۔ وہ بار بار کچھ کہنا چاہتی تھی مگر روحان کے چہرے کے سخت اور سنجیدہ تاثرات، سٹیئرنگ ویل پر اس کے ہاتھوں کی سخت گرفت اسے روک رہی تھی۔
"روحان۔" اس نے پکارا تو روحان نے چہرہ موڑ کر غصے سے دیکھا پھر نظریں سڑک پر جما دیں۔
"میں نے کیا کیا ہے۔ مجھ پر کیوں غصہ ہو۔" وہ معصوم سی شکل بنا کر بولی۔ تو روحان نے گہرا سانس کھینچ کر خود کو پر سکون کیا۔
"ایک بات بتاؤ۔ کوئی بھی انجان آدمی آکر تم سے بات کرنے لگے اور تم کرنے دو گی۔" وہ اپنا غصہ قابو کر کے ذرا نرمی سے بولا۔
"وہ ڈیڈی کے دوست کا بیٹا تھا۔ تو۔۔"
"تو بھی تم اسے جانتی تو نہیں تھی نا۔ جو نکل کر اس کی بات سننے کھڑی ہو گئی۔" وہ ابھی بھی آرام سے کہہ رہا تھا۔ ورنہ غصہ تو ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔
"اچھا اب بس بھی کر دو۔" مدیحہ نے منہ بنا کر کہا۔
"کر دیا بس۔ آئیندہ یوں سڑک پر کسی کی بات سننے کھڑی نہ ہو جانا۔" اس نے مسکرا کر کہا تو مدیحہ شرمندہ سی ہنس دی۔
"ویسے ایک بات بتاؤ۔ تمہیں غصہ کس بات پر آیا تھا۔" وہ متجسس ہو کر پوچھ رہی تھی۔ روحان کو ایک بار پھر غصہ آیا۔
"ایک بندہ میری بیوی کو پرپوز کر رہا ہے۔ اور مجھے غصہ نہ آئے۔ کمال ہے۔" وہ طنزیہ انداز میں غصے سے بولا تو مدیحہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ وہ ہنسی تو ہنستی چلی گئی۔
"تم ہنس کیوں رہی ہو۔" روحان اس کے مسلسل ہنسنے پر چڑ کر بولا۔
"روحان تمہارا چہرہ کیسے لال ہو رہا ہے۔ فنی لگ رہے ہو۔" مدیحہ نے اپنے فون کا فرنٹ کیمرہ کھول کر روحان کو دکھایا۔ روحان نے گاڑی روک دی۔
"گاڑی کیوں روکی ہے؟" مدیحہ نے حیرت سے پوچھا۔
روحان نے ڈیش بورڈ سے پانی کی بوتل اٹھا کر پانی پیا۔ پھر گاڑی سے اتر گیا۔ مدیحہ کی سائیڈ کا دروازہ کھولا اور اترنے کا اشارہ کیا۔ مدیحہ ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے اتری۔
"میڈم مانا کہ بہت ہینڈسم شوہر ملا ہے۔ مگر اسے دیکھنے کی بجائے اِدھر اُدھر بھی دیکھ لیا کریں تو پتا چلے کہ ہم پہنچ چکے ہیں۔" اس کے کہنے پر مدیحہ نے گھورا۔ تبھی رضا اور شعیب وہاں آ گئے۔
"رونی تو کسی سے لڑ کے آ رہا ہے کیا؟" شعیب کے پوچھنے پر اس نے نا سمجھی سے دیکھا۔
"تیرے چہرے پر یہ لالی شرم سے تو آنے سے رہی۔" رضا نے مسکرا کر کہا تو مدیحہ پھر ہنس پڑی۔
"اسے کیا ہوا۔" دونوں نے تعجب سے دیکھا تو وہ مزید ہنسنے لگی۔
"پاگل ہو گئی ہے۔" روحان نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
------------------------------------------

دیوانگیٔ شوق (مکمل ناول)Where stories live. Discover now