پندرہویں قسط

800 46 6
                                    

بس ایک دشت کمایا اور ابتدا کی ہے
اسی سے خاک اُٹھائی اور آئینہ کی ہے

تمام سامنے رکھے ہیں اور یاد نہیں
نجانے کون سے پتھر سے التجا کی ہے

ابھی سے کون کھرچنے لگا کلیجے کو
ابھی تو سینے سے اک آرزو رہا کی ہے

بدن پہ ٹہری خزاں کو جواب کیا دیتے
کہ ہم نے عمر کی پہلی بہار کیا کی ہے

اُسی کے آگے کسی کا چراغ جلتا نہیں
جو حکمرانی یہاں چارسو ہوا کی ہے

ہمیشہ ترکِ تعلق کو ٹالنے والے
کہ تُو نے اب کے تو عجلت کی انتہا کی ہے
(واجد امیر)

------------------------------------

وہ خود کو نامانوس جگہ پر کھڑا دیکھ رہا تھا۔ دھند چیزوں پر تھی یا آنکھوں میں، اندازہ لگانا مشکل تھا۔ مگر دھند تھی اور بہت تیز تھی۔ وہ اندازہ نہیں کر پا رہا تھا کہ وہ کیسی جگہ پر کھڑا ہے۔ جو سخت بھی ہے اور نرم بھی۔ خشک بھی اور نم بھی۔ یکایک اسے احساس ہوا وہ چل رہا ہے۔ کسی کے ساتھ۔ کسی کے پیچھے۔ اس نے دیکھنا چاہا وہ کس کے ساتھ چل رہا ہے؟ یہ وہی تھی جس کے ساتھ وہ ہمیشہ چلنا چاہتا تھا۔ اب کے اس نے سامنے دیکھا۔ وہ کس کے پیچھے چل رہا تھا؟ وہ جو بھی تھے اس کی جانب پشت کئے تھے۔ وہ ان کے پیچھے کیوں چل رہا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔ مگر وہ ان کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا۔ چلتے چلتے ایک مقام پر آ کر وہ رکے۔ اور اس کی جانب مڑے۔ اس نے دیکھا۔ وہ سلمان حیدر شاہ تھے۔ زخمی حالت میں۔ ان کے کپڑے خون آلود تھے۔ چہرہ زخمی تھا مگر مطمئن۔ جیسے کوئی بوجھ دل سے اترا ہو۔ وہ آگے بڑھے اور اس کے قریب آئے۔ اس نے بھی بڑھنا چاہا مگر قدم گویا جم گئے تھے۔ اس نے پکارنا چاہا۔ پوچھنا چاہا آپ کی یہ حالت کیسے۔ مگر لب ساکت تھے۔ وہ اس کے قریب آئے اور ان دونوں کو سینے سے لگا لیا۔ ان کے گلے لگ کر اس نے پیچھے دیکھا۔ جہاں کوئی قبر تھی۔ اس ایک قبر پر ایک نہیں دو نہیں کئی نام لکھے تھے۔ مگر وہ ایک بھی نام نہ پڑھ سکا۔ ان سب ناموں کے نیچے ایک لفظ لکھا تھا۔ جس پر اس کی نظریں جم گئیں۔
"انتقام"
وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ پھولا ہوا سانس۔ بے ترتیب دھڑکنیں۔ منتشر حواس۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ کہاں ہے۔ ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ کوئی اس کے قریب لیٹا تھا۔ وہ پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ ازان کی آواز ہی اسے ہوش میں لائی۔ اس نے دیکھا اس کے ساتھ لیٹا وہ شعیب تھا۔ اس نے اب کے دوبارہ ارد گرد نظر دوڑائی۔ اسے آہستہ آہستہ یاد آنے لگا۔ وہ کراچی میں شاہزین کی شادی کے لئے آیا ہوا ہے۔ جو کچھ دیر پہلے دیکھا وہ خواب تھا۔ وہی خواب جو پہلے بھی تین بار دیکھ چکا تھا۔ ہر بار پہلے سے کچھ مختلف۔ مگر اس بار۔ اس بار یہ خواب اسے بری طرح ڈرا گیا تھا۔ اس کے زہن میں وہ لفظ گردش کر رہا تھا۔ "انتقام" "انتقام"
اچانک اسے یاد آیا یہ خواب وہ اکیلے نہیں دیکھا کرتا۔ ہمیشہ یہ خواب مدیحہ نے بھی دیکھا ہوتا ہے۔ تو اس بار بھی دیکھا ہو گا۔ اگر یہ ڈر گیا تھا تو یقیناً وہ بھی ڈر گئی ہو گی۔ اس نے اپنا فون اٹھا کر جلدی سے مدیحہ کا نمبر ملایا۔ بیل ہونے لگی۔ مگر وہ کال نہیں اٹھا رہی تھی۔ روحان نے دوبارہ نمبر ملایا۔ اب کے تین چار بیلز کے بعد کال اٹھا لی گئی۔
"ہیلو۔" نیند میں ڈوبی آواز میں وہ بولی۔
"تم سو رہی تھی؟" روحان نے حیرت سے پوچھا۔
"روحان؟" مدیحہ نے اس کی آواز پہچان کر حیرت سے کہا۔ اچانک نیند اڑ گئی وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی۔ "سب ٹھیک تو ہے۔ اس ٹائم۔" مدیحہ نے وقت دیکھا۔
"مطلب تم نے خواب نہیں دیکھا؟" روحان ہلکی آواز میں گویا خود سے بولا۔
"کونسا خواب؟" مدیحہ نے تعجب سے پوچھا۔
"کوئی نہیں۔ بس فجر کا ٹائم ہو گیا ہے۔ سوچا تمہیں اٹھا دوں۔" اس نے بات بدل دی۔
"لیکن۔۔۔۔" وہ کہنا چاہتی تھی مگر روحان نے کہنے ہی نہ دیا۔
"نماز پڑھ لو۔ میں بھی پڑھ لوں۔" وہ جلدی سے بولا۔ کال بند کرنے کے بعد اس نے شعیب کو اٹھانے کا ارادہ کیا۔
-----------------------------------------

دیوانگیٔ شوق (مکمل ناول)Where stories live. Discover now