بیسویں قسط

956 42 12
                                    


فجر کے بعد خضر عنایا اور عائشہ کو ہاسپٹل لے کر گیا تھا۔ جہاں روحان اور شعیب سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھے تھے۔ انہیں یوں بیٹھا دیکھ وہ تینوں بھاگتے ہوئے ان تک پہنچے تھے۔
"کیا ہوا ہے؟" خضر نے فوراً پوچھا۔ روحان کھڑا ہوا اور اس کے گلے لگ گیا۔
"کیا ہوا ہے شعیب تم بتاؤ۔" روحان اس کے گلے لگا تھا۔ خضر نے پریشانی سے پوچھا۔
"ڈاکٹر کوئی اچھی خبر نہیں دے رہے۔ ان کے سر کی چوٹ حد سے زیادہ خطرناک ہے وہ۔۔۔" شعیب اس کے آگے کچھ کہہ نہ سکا۔ عنایا نے عائشہ کا سہارا لیا تھا۔ عائشہ نے اسے بٹھایا اور بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر پانی پلایا۔
"مجھے انہیں دیکھنا ہے۔" کس دل کے ساتھ وہ کہہ رہی تھی وہی جانتی تھی۔
"اندر جانے کی اجازت نہیں باہر سے دیکھ سکتی ہو۔" شعیب نے ہی کہا۔ روحان کو تو چپ لگ چکی تھی۔ دروازے کے شیشے سے اس نے اندر دیکھا تھا۔ اور وہ نظر بھر کر دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکی تھی۔ اتنی ساری نالیاں دیکھ کر ہی اس نے نظر پھیر لی تھیں۔
"روحان یار تم تو حوصلہ کرو۔" خضر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
"اگر انہیں کچھ ہو گیا تو میں مدیحہ کو کیا جواب دوں گا۔ اس سے وعدہ کر کے آیا ہوں کہ حاشر بھائی کو کچھ نہیں ہوگا۔ مگر ان کی حالت دیکھ کر مجھے اب کچھ سمجھ نہیں آرہا۔" وہ کرب سے بولا۔
"مایوسی کفر ہے۔ اور تم نا امید کیسے ہو سکتے ہو؟ یاد ہے جب میں نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔ تم نے کہا تھا کہ میں نے اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر گناہ کیا ہے۔ اس کے آگے سجدہ ریز ہو کر اس سے معافی مانگوں۔ وہ بہت رحمان ہے۔ تم نے مجھے کہا تھا کہ ڈیڈ سے ضد لگانے کی بجائے اپنے رب سے مانگتا۔ مجھے جائے نماز کا راستہ دکھانے والے تم ہو روحان کیا بھول گئے؟" اس کی بات پر روحان نے نظر اٹھا کر دیکھا۔
"آج تم مایوس ہو رہے ہو؟ گناہ کر رہے ہو۔ روحان تم خود امید چھوڑ دو گے تو مدیحہ کا کیا ہوگا؟ تم اچھے سے جانتے ہو ابھی اسے تم سے بہتر کوئی نہیں سنبھال سکتا۔ اسے ابھی جس حوصلے کی ضرورت ہے وہ صرف تم دے سکتے ہو اور تم خود حوصلہ ہار رہے ہو۔" خضر نے سنجیدگی سے کہا۔
"تمہاری ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے؟" روحان نے صرف اتنا کہا۔
"نہیں۔ ابھی تک نہیں ہوئی۔ مگر وہ جو بھی کہہ لیں ہمیں مایوس نہیں ہونا۔" خضر نے گویا یاد دہانی کروائی۔ روحان بس سر ہی ہلا سکا تھا۔
"تم گھر چلے جاؤ۔ یہاں میں رک جاتا ہوں اب۔" خضر نے کہا تو روحان نے فوراً انکار کیا۔
"میں گھر نہیں جاؤں گا۔"
"کیوں؟"
"مدیحہ مجھ سے حاشر بھائی کے بارے میں پوچھے گی۔ میں اس سے جھوٹ نہیں بول سکتا، نہ سچ بتانے کی ہمت رکھتا ہوں۔" وہ بےبسی سے بولا۔
"شعیب۔ عائشہ اور عنایا کو تم لے جاؤ۔ میں روحان کے ساتھ ہاسپٹل میں رکوں گا۔" خضر کچھ سوچ کر شعیب سے بولا۔
"مگر۔۔" اس نے کچھ کہنا چاہا جب خضر نے آنکھ سے اشارہ کیا۔
"ٹھیک ہے۔" شعیب تھوڑی دیر میں ان دونوں کو لے بھی گیا تھا۔
ان کے جانے کے بعد خضر ڈاکٹر سے بات کرنے گیا تھا۔ کافی دیر وہ ڈاکٹر سے بات کرتا رہا۔ وہ لوگ کسی نتیجے پر پہنچے تھے۔ روحان ہاسپٹل کی مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا تھا۔
---------------------------------
مدیحہ کی آنکھ کھلی تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ وہ فوراً اٹھ بیٹھی۔ اس نے دیکھا کہ نمرہ اس کے برابر میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی سو رہی تھی۔ اسے یوں دیکھ کر مدیحہ کو شرمندگی ہوئی۔
"نمرہ۔" اس نے اس کا کندھا ہلایا تو وہ ہڑبڑا گئی۔
"سب ٹھیک ہے ناں؟"
"سب ٹھیک ہے۔ تم ٹھیک سے لیٹ جاؤ۔" مدیحہ اس کی اتنی فکر پر مسکرائی تھی۔
"نہیں میں اٹھ گئی ہوں بس۔ تم ریسٹ کرو۔" نمرہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
"نمرہ میں ٹھیک ہوں۔ مگر ایسے ہی چلتا رہا تو تم بیمار پڑ جاؤ گی۔" مدیحہ سمجھانے کے انداز میں بولی۔
"نہیں ہوتا مجھے کچھ۔ میں شاہزین کو بھی دیکھ لوں۔ رات میں اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔" وہ پریشانی سے جانے لگی مگر مدیحہ نے اسے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا۔
"میں انہیں روم میں بھیج دیتی ہوں۔ تم آرام کرو۔"
"مگر۔۔" نمرہ جانے پر بضد تھی مگر مدیحہ کی ضد پر ہار ماننا پڑی۔
مدیحہ کمرے سے نکل کر پہلے سعد کے کمرے کی طرف گئی۔ دروازہ ہلکا سا کھول کر دیکھا تو سعد اور رضا سو رہے تھے۔ وہ دروازہ بند کر کے سیڑھیاں اتر آئی۔
ایک نظر لاونج پر ڈالی جہاں ایک صوفے پر شاہزین اور دوسرے پر وجدان سو رہے تھے۔ وہ روحان کو ڈھونڈ رہی تھی مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا تھا۔ وہ کچن میں چلی آئی جہاں شاہدہ بیگم موجود تھیں۔
"امی۔ آپ یہاں کیا کر رہی ہیں۔" وہ فوراً ان کے پاس آئی اور ان کے ہاتھ سے بیلن لیا۔
"وہ بچے کل سے خوار ہو رہے ہیں۔ پتا نہیں رات کو کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں۔ سوچا ان کا ناشتہ بنا دوں۔"
"ناشتہ میں بنا دوں گی۔ آپ کمرے میں جائیں۔" وہ انہیں حکم سناتی ہوئی بولی۔
"اچھا۔" انہوں نے خفگی سے کہا۔
"آپ روم میں جائیں۔ میں آپ کے اور ڈیڈی کے لئے ناشتہ لاتی ہوں۔" وہ انہیں بھیجنے کی خاطر بولی۔
"تمہاری ہاسپٹل میں بات ہوئی ہے؟ وہاں کون ہے؟" انہوں نے وہ سوال پوچھا جس سے وہ بچنا چاہ رہی تھی۔
"بھیا اور شاہزین بھائی گھر آگئے ہیں تو روحان اور شعیب ہوں گے ہاسپٹل میں۔ میں کال کر کے پوچھتی ہوں ان سے۔" اس نے انہیں کچن سے بھیج کر روحان کے نمبر پر کال کی تھی۔ جو چند بیل ہونے کے بعد اٹھا لی گئی تھی۔
"ہیلو روحان۔"
"میں خضر بات کر رہا ہوں۔" خضر نے کہا۔
"خضر بھائی آپ۔ روحان کدھر ہے۔"
"وہ سو رہا ہے۔ ابھی آنکھ لگی ہے تو اٹھانا مناسب نہیں لگا تبھی میں نے اس کے فون سے کال اٹینڈ کر لی۔" خضر نے روحان کو دیکھا جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی بیٹھا بیٹھا سویا تھا۔
"بھائی کیسے ہیں؟" مدیحہ کے پوچھنے پر خضر چند لمحے خاموش رہا۔
"امید ہے آج رات تک اس کی حالت میں بہتری آئے گی۔" وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔ فون رکھ کر مدیحہ نے شہاب صاحب اور شاہدہ بیگم کے لئے ناشتہ بنایا۔ انہیں ناشتہ دے کر یہ بھی بتا دیا کہ حاشر کی طبیعت اب پہلے سے بہتر ہو رہی ہے تو وہ دونوں کچھ مطمئن ہوئے۔ انہیں ناشتہ دے کر وہ کچن میں آگئی، ارادہ باقی سب کے لئے ناشتہ بنانے کا تھا۔ گھر کی بیل بجی تو وہ دروازہ کھولنے گئی مگر بیل کی آواز پر شاہزین اور وجدان اٹھ گئے تھے۔ شاہزین خود ہی دروازہ کھولنے گیا۔
"اسلام علیکم۔" سامنے موجود آدمی حاشر کا دوست ایس پی حسان تھا۔
"و علیکم السلام۔ آؤ اندر۔" شاہزین نے اسے اندر آنے کا رستہ دیا تو اس نے اندر قدم رکھے۔
"اسلام علیکم حسان بھائی۔" مدیحہ اسے دیکھ کر بولی۔
"و علیکم السلام۔ کیسی ہو؟"
"اللہ کا شکر آپ سنائیں۔"
"میں بلکل فٹ۔ انکل آنٹی کیسے ہیں؟"
"وہ کمرے میں ہیں میں بلا کر لاتی ہوں۔" مدیحہ انہیں بلانے چلی گئی تو شاہزین اسے لے کر لاونج میں آگیا۔ وجدان شاید فریش ہونے جا چکا تھا۔
"ہاسپٹل سے آرہا ہوں۔ حاشر بالکل کوئی پروگریس نہیں دکھا رہا۔" اس نے بات کا آغاز کیا۔
"جانتا ہوں۔" شاہزین صرف اتنا کہہ سکا تھا۔
"ریڈ کا کیا کرنا ہے؟" حسان نے خیال آنے پر پوچھا۔
"جب تک حاشر ٹھیک نہیں ہو جاتا ہم کچھ بھی نہیں کریں گے۔ جو ابھی جیسا چل رہا ہے بس ویسے چلنے دو سارا پلین نئے سرے سے بنائیں گے۔" شاہزین نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ وہ دونوں بہت ہلکی آواز میں بات کر رہے تھے۔
-------------------------------------

دیوانگیٔ شوق (مکمل ناول)Where stories live. Discover now