اسے واپس گھر آتے آتے شام ہو گئی۔ اب اس کی آنکھیں بند ہونے کو تھیں مگر چچی جان کے بلانے پر بمشکل خود کو ان کے کمرے تک لے گیا۔ مدیحہ بھی وہیں تھی۔
"چچی جان۔ آپ نے بلایا۔" اس نے ان کے سامنے صوفے پر مدیحہ کے برابر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"مجھے تم دونوں سے ضروری بات کرنی ہے۔" انہوں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ وہ دونوں بغور انہیں دیکھنے لگے۔ کچھ گڑبڑ ہے اس کا احساس ان کے چہرے سے ہو رہا تھا۔
"دوپہر میں میں نے تم دونوں سے پوچھا تھا کہ کیا بات ہے۔ کوئی پریشانی ہے؟ میں دوبارہ پوچھتی ہوں۔ کوئی بات ہے جو دونوں چھپا رہے ہو؟" انہوں نے دونوں کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
"نہیں امی جان۔ کوئی خاص بات نہیں۔ آپ بلا وجہ پریشان ہو رہی ہیں۔" مدیحہ نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے کہا۔
"تم دونوں کب سے جھوٹ بولنے لگے۔ وہ بھی مجھ سے۔ سچ سچ بتاؤ کس چکر میں پڑے ہو۔ بابا جان سے کیا معلوم کرنا ہے۔ مجھے میرے خدشات اب درست ہوتے نظر آ رہے ہیں۔" انہوں نے ان دونوں کے بار بار جھوٹ بولنے پر ذرا غصے سے کہا۔ تو دونوں نے حیرت سے انہیں دیکھا۔
"میں نے تم دونوں کی باتیں سن لی تھیں۔ اب شرافت سے بتاؤ کیا چل رہا ہے۔ اپنے دادا جان کی جاسوسی بلا وجہ تو نہیں کر رہے ہوگے تم لوگ۔" انہوں نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا۔
"چچی جان وہ بس یونہی ہم نے سوچا۔" روحان نے بہانہ گھڑنا چاہا مگر کچھ سمجھ نہ آیا۔ پہلے ہی نیند سے برا حال تھا۔ اب تو دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
"روحان مجھے یقین نہیں آ رہا تم مجھ سے جھوٹ بولنے لگے ہو۔ میرا سب سے پیارا اور سب سے قریب بچہ مجھ سے جھوٹ بول رہا ہے۔ اور مدیحہ شاید تم نے تو مجھے ابھی تک ماں تسلیم نہیں کیا۔ روحان تم بھی مجھ سے دور ہونے لگے ہو۔" انہوں نے گہرے دکھ سے کہا۔ حقیقتاً دونوں کو ایموشنل بلیک میل کیا۔ اور کامیاب رہیں۔ مدیحہ اور روحان دونوں تڑپ کر اٹھے اور ان کے قدموں کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔
"کیسی باتیں کر رہی ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہم بس آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔" روحان نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"پھر بتاؤ مجھے کیا بات ہے۔ کہیں جو میں سوچ رہی ہوں وہی تو نہیں؟" ان کو ہتھیار ڈالتا دیکھ فوراً دریافت کیا تو دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ بھی ساتھ ہی کھڑی ہو گئیں۔ اور سوالیہ نظروں سے روحان کو دیکھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"کیسے؟" حاجرہ نے حیرت سے پوچھا تو روحان نے اس دن کا واقعہ بتایا۔
"اور کسی نے دھیان ہی نہ دیا کہ تم لوگ جلدی گھر آ چکے تھے۔"
"شاید سب ہی شاک میں تھے۔ "
"اور تم دونوں اب اس سب کے بارے میں جاننا چاہتے ہو۔" انہوں نے پوچھا تو ان دونوں نے اثبات میں سر ہلایا
"اور پھر؟" انہوں نے ان کے ارادے جاننا چاہے۔
"پھر کیا۔ کیس کریں گے۔ سب ثبوت اکٹھا کر کے۔" مدیحہ نے جواب دیا تھا۔
"انیس سال پہلے ہونے والے قتل کے ثبوت کہاں سے لاؤ گے؟" انہوں نے حیرت سے پوچھا۔
"امی جان ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔ یہ تو پھر ثبوت ہیں۔ اور ویسے بھی مجرم اپنے جرم کا ثبوت چھوڑ ہی جاتا ہے۔ کوئی نہ کوئی سراغ ہمیں ملنے کی دیر ہے۔ بس۔" اس کے لہجے میں عزم تھا۔ مگر حاجرہ کو یہ محض بچپنا لگا۔
"بیٹا کیوں آگ میں کود رہے ہو۔ بابا جان کی باتوں سے ایک بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ لوگ بہت خطرناک ہیں۔ میں نے سلمان کو کھویا ہے اب تم لوگوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی۔" وہ ان کے ارادوں سے خوفزدہ ہوئی تھیں۔
"چچی جان۔ یہی آپ لوگوں کی سوچ غلط ہے۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر دادا جان بائیس سال پہلے چچا جان کی موت کے ڈر سے کسی کے بیٹے کو انصاف دلانے سے پیچھے نہ ہٹے ہوتے تو چچا جان آج ہمارے ساتھ ہوتے نہ ہوتے مگر شاید ان کو وہ تکلیف دہ موت نہ ملتی۔ ان کا اتنی بے دردی سے قتل کرنے والا شخص۔ اس نے نجانے کتنے ہی اور گھر اجاڑے ہوں گے۔ اگر دادا جان بائیس سال پہلے ہی انصاف کے لئے کھڑے ہوتے تو وہ شخص شاید اپنے انجام کو پہنچ چکا ہوتا۔ انہوں نے تو جس بھی وجہ سے کم ہمتی دکھائی ہو آپ نے تو ہمیشہ مجھے حق کے لئے کھڑے ہونا سکھایا ہے۔ انصاف کے لئے لڑنا سکھایا ہے۔ اب آپ بھی چاہتی ہیں میں پیچھے ہٹ جاوں۔" روحان نے کچھ غصے اور حیرت سے کہا تھا۔ وہ سب سے یہ امید رکھتا تھا کہ اسے روکیں گے مگر حاجرہ سے نہیں۔
"امی جان اس شخص نے صرف بابا جان کو ہی نہیں قتل کیا۔ جانے کتنے اور معصوموں کی جان لی ہے۔ کتنے اور گھر اجاڑے ہیں۔ اگر ہم آج اسے نہ روکیں تو کیا پتا اور بھی کتنی جانیں وہ لے۔ اور ویسے بھی ڈر کر بیٹھنے سے بہتر ہے کچھ کر جائیں۔" مدیحہ نے بھی سمجھانا چاہا۔ وہ ان کی بات پر خاموش ہو گئیں۔ ان کی انکھوں میں نمی اترنے لگی۔
"وعدہ کریں چچی جان آپ کسی کو کچھ نہیں بتائیں گیں۔ سب نے خود تو ہتھیار ڈال دئے ہیں ہمیں بھی روک دیں گے۔ اور تب ہم کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔ پلیز ہمارا ساتھ دیں۔ پلیییز." روحان نے التجا کی تھی۔ آخر میں اپنی بات پر زور دیا۔ تو انہوں نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا۔
"امی جان آپ ناراض ہو گئی ہیں؟" مدیحہ نے ان کی خاموشی پر پوچھا۔ تو انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔
"نہیں میری جان۔ میں تم لوگوں سے ناراض ہو سکتی ہوں کیا؟ بس ایک وعدہ کرو۔ جو بھی کر رہے ہو مجھے بتا کر کرو۔ اتنی تو مان سکتے ہو نا میری تم لوگ۔" انہوں نے پیار سے کہا تو دونوں نے ان کے کندھوں پر سر ٹکا دیا۔ انہوں نے پیار سے دونوں کا سر باری باری چوما۔
"پھر آپ ہماری مدد کریں گیں نا؟" مدیحہ نے لاڈ سے کہا تو وہ ہنس دیں۔
"باز نہ آنا تم۔"
"ڈیڈی نے بتایا تھا کہ بابا جان اور آپ بھی ایسے ہی تھے۔ ہے نا روحان؟" کہتے ہوئے اس نے روحان سے بھی تائید چاہی۔
"ہاں نا۔ بتایا تھا ڈیڈی نے جب آپ اور چچا جان اپنے ولیمے پر سائیکل پر گئے تھے۔" روحان نے یاد کرتے بتایا۔ تو وہ تینوں ہی ہنس پڑے۔
-------------------------------------------
YOU ARE READING
دیوانگیٔ شوق (مکمل ناول)
General FictionDeewangi e shouq: دیوانگیٔ شوق: دوستی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مخلص دوست کسی سایہ دار درخت کی طرح ہوتے ہیں۔ لیکن بے غرض اور مخلص دوست بھی قسمت والوں کو ملتے ہیں۔ یہ کہانی ہے چند لاابالی سے دوستوں کی۔ جو یوں تو "سنجیدگی" لفظ سے ناآشنا ہیں لیکن حق کی...