ہم کو کس کے غم نے مارا، یہ کہانی پھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا، یہ کہانی پھر سہیدل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے!
نام آئے گا تمہارا، یہ کہانی پھر سہینفرتوں کے تیر کھا کر دوستوں کے شہر میں
ہم نے کس کس کو پکارا، یہ کہانی پھر سہیکیا بتائیں پیار کی بازی وفا کی راہ میں
کون جیتا کون ہارا یہ کہانی پھر سہی
(مسرور انور)-------------------------------------------
وہ فجر پڑھ کر جانماز پر ہی بیٹھی رہی۔ دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔ بے چینی تھی کہ ختم ہونے کو نہیں آ رہی تھی۔ ہمیشہ یہ خواب اسی وقت دیکھا تھا۔ ہمیشہ اس خواب نے دل کو بے چین کیا تھا۔ مگر پھر بھی ہمیشہ یہ خواب دیکھنے کے بعد فجر پڑھ کر وہ سو جاتی تھی مگر آج تو آنکھوں سے نیند اڑ گئی تھی۔ وہ تو اس خواب کو بھول چکی تھی۔ مگر آج وہ خواب دیکھ کر وہ اسے رونا آ رہا تھا۔ وہ شخص اس کا باپ تھا۔ اس کے ساتھ روحان کھڑا تھا۔ مگر اس کی آنکھوں کے آگے بار بار سلمان آ رہے تھے۔ ان کی زخمی حالت اس کا دل دہلا رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ دل پھٹ جائے گا۔ اپنے اندر کی بے چینی سے گھبرا کر اس نے اپنا فون اٹھایا۔
دوسری طرف وہ بھی فجر پڑھ کر لیٹا تھا۔ اسی خواب کو سوچ رہا تھا۔ سلمان کے کپڑوں پر لگا خون اسے پریشان کر رہا تھا۔ وہ زخمی تھے۔ ان کے ساتھ مدیحہ بھی تھی۔ مگر اس کا سارا دھیان اس خون پر تھا۔ وہ اس خواب کا مطلب سمجھنے سے قاصر تھا۔ جتنا بھی زہن پر زور ڈال لے، کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ تبھی اس کا فون بجا۔ مدیحہ کی کال دیکھ کر وہ پریشانی سے اٹھ بیٹھا۔
"خیریت؟" روحان نے فکرمندی سے پوچھا۔
"روحان جاگ رہے ہو؟" اس کی آواز کچھ بھرائی ہوئی تھی۔
"ہاں بولو کیا ہوا؟" روحان نے فوراً پوچھا۔
"اوپر والے کچن میں آجاؤ۔" کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔ روحان بھی اٹھ کر کچن میں چلا گیا۔ وہ کچن میں پہنچا تو مدیحہ نے اس کو کافی کا کپ پکڑایا اور خود اپنی چائے نکالی۔ پھر وہ دونوں لان میں واک کرنے آگئے۔ وہاں آ کر روحان نے بات شروع کی۔
"اب بتاؤ مجھے۔ کیا ہوا ہے۔ کیوں پریشان ہو؟"
"روحان میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ میں نے پہلے بھی یہ خواب دیکھا تھا۔ مجھے اچھے سے یاد ہے۔ اسی وقت میں نے پہلے بھی یہی خواب دیکھا تھا۔ میں نے خواب میں بابا جان کو دیکھا۔ تم بھی تھے۔" مدیحہ نے پریشانی سے کہنا شروع کیا ہی تھا کہ روحان بول پڑا۔
"وہ زخمی تھے۔" روحان نے کہا تو وہ بھی آگے بولی۔
"میں نے پہلے بھی یہ خواب دیکھا تھا مگر بابا جان کو نہیں پہچانتی تھی۔ پھر۔ بعد میں بھول بھی گئی۔۔۔ مگر تمہیں کیسے پتہ؟" کہتے کہتے وہ اسے احساس ہوا تھا کہ روحان کو اس کے خواب کا کیسے پتہ۔
"میں نے بھی آج تیسری دفعہ یہ خواب دیکھا ہے۔" اس نے آہستہ سے کہا۔ شاید وہ بھی پریشان ہو گیا تھا۔
"روحان۔ باباجان کی ڈیتھ کیسے ہوئی تھی۔" مدیحہ نے کچھ دیر خاموشی کے بعد اچانک پوچھا۔
"ایکسیڈینٹ ہوا تھا شاید۔" روحان نے یاد کرتے ہوئے بتایا۔
"تم نے دیکھا تھا وہ کیسے تھے۔ آئی مین ان کے ایکسیڈینٹ کے بعد ان کی کیا کنڈیشن تھی۔" نجانے کیا سوچ رہی تھی وہ۔
"میں اس وقت ڈھائی تین سال کا تھا۔ میں نے تو چچا جان کو بھی تصویروں میں ہی دیکھا ہے۔" اس نے بتایا۔
"مجھے ان کے ایکسیڈینٹ کے بارے میں جاننا ہے۔" اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"ہمیں کچھ خاص نہیں پتہ جب بھی میں یا وجی بھیا اس بارے میں پوچھتے تو کبھی زیادہ بات نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے مجھے کچھ نہیں پتہ۔ صرف یہ کہ ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔" اس نے اپنی یادداشت پر زور ڈالا۔ سچ میں کبھی گھر میں سلمان کی موت کا زکر نہیں ہوتا تھا۔
"میں ڈیڈی کے پاس کیوں تھی؟ میرا مطلب بابا جان کی ڈیتھ کے بعد تو مجھے تم لوگوں کے پاس ہونا چاہئے تھا نا۔ میں ڈیڈی کے پاس کیوں تھی؟" وہ متجسس ہو رہی تھی۔
"اس بارے میں بھی میں نے پوچھنا چاہا تھا جب تم ملی تھیں۔ مگر کوئی اس بارے میں بات ہی نہیں کرتا۔ نہ کرنے دیتا ہے۔ میں نے بھی دوبارا پوچھا نہیں۔" روحان کہہ تو آرام سے رہا تھا مگر اس کا زہن بہت الجھ گیا تھا۔
"مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ کہیں کچھ غلط ہے۔ کوئی بات ہے جو ہمیں نہیں پتہ۔ کیا بڑے باباجان اور دادا جان نے مجھے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی ہوگی۔ ان لوگوں کے لئے مجھے ڈھونڈنا مشکل تو نہیں ہوگا۔" ان کی گفتگو کہاں سے کہاں جا رہی تھی۔
"میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔ بابا جان تو چچا جان سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کی بیٹی کو کیسے نہ ڈھونڈا ہوگا۔ تمہیں یاد ہے چچی جان نے بتایا تھا کہ کیسے بابا جان نے چچا جان کے کہنے پر ایک دن کے اندر ان کے پورے خاندان کا پتہ لگا لیا تھا۔" وہ دونوں الجھتے جا رہے تھے۔
"روحان ہمیں جاننا چاہئیے۔ کیا ہوا تھا انیس سال پہلے۔ بابا جان کا ایکسیڈینٹ کیسے ہوا۔ میں کیسے ڈیڈی کہ پاس پہنچی۔ آج یونی سے واپسی پر ڈیڈی سے پوچھیں گے۔ وہ جانتے ہونگے۔ انیس سال پہلے جو ہوا تھا۔" مدیحہ نے الجھن کا حل پیش کیا تو وہ کچھ مطمئن ہوئے۔
"سہی۔" روحان نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔ شہاب صاحب یقیناً سب جانتے بھی ہوں گے اور ان کے تمام سوالوں کے جواب ان سے مل جائیں گے۔ تھوڑی دیر ہلکی پھلکی باتوں کے ساتھ چہل قدمی کرنے کے بعد وہ لوگ تیار ہونے چلے گئے۔ آج ایک ہفتے بعد یونیورسٹی جانا تھا۔
وہ لوگ ناشتے کی میز پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے جب حمدان بھی ان کے سامنے بیٹھا۔ روحان اور مدیحہ نے ایک دوسرے کو دیکھا اور شرارتی مسکراہٹ چہروں پر کھلی۔ پھر فوراً سنجیدہ ہوئے۔
"دانی نور سے کیا بات ہوئی تھی تمہاری؟" اچانک مدیحہ نے حمدان کو مخاطب کیا۔ حمدان نے تعجب سے دیکھا۔
"کون نور؟"
"نور قمر کی بات کر رہی ہوں۔" اس نے مسکراتے ہوئے پورا نام لیا جبکہ حمدان منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ سب ان کی جانب متوجہ ہوئے۔ حمدان نے خوفزدہ ہو کر اسے مدد طلب نظروں سے دیکھا۔
"ارے میری دوست نور قمر۔ تمہیں میں نے کہا تھا اس سے پوچھ کر بتاؤ۔۔۔۔" اس نے بروقت بات سنبھالی۔ سب کو لگا کہ وہ مدیحہ کی کسی دوست کا زکر کر رہے ہیں۔
وہ ناشتہ کر کے مدیحہ کے کمرے میں پہنچا جہاں روحان اور مدیحہ اس کا انتظار کر رہے تھے۔ دونوں نے اس کو بلایا تھا اس بارے میں بات کرنے کے لئے۔ اس وقت وہ ان کے سامنے مجرموں کی طرح کھڑا تھا۔
"اب خود بولو گے کہ ہم بولیں۔" روحان نے بڑا بھائی ہوتے ہوئے ذرا سنجیدگی سے پوچھا۔
"میں اسے 4 کلاس سے جانتا ہوں۔ پاکستان آکر میرا ایڈمیشن جس سکول میں ہوا تھا ہم کلاس فیلوز تھے۔" اس کے کہنے پر مدیحہ اور روحان نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا۔ اتنی چھوٹی عمر میں۔ انہیں حیرت ہوئی جبکہ وہ کہہ رہا تھا۔
"مجھے وہ اچھی لگنے لگی۔ ہماری بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ جب ہمارا فیئرویل تھا۔ سکول میں۔ 10 کلاس میں۔ تب میں نے اسے بتایا۔ کہ میں اسے پسند کرتا ہوں۔ مگر اس نے کہا وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے اور کسی ڈاکٹر سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس کی خواہش پر میں نے میڈیکل کی فیلڈ چوز کی۔ ایک ہی کالج سے پری میڈیکل کیا۔ ابھی بھی وہ میرے ہی کالج میں پڑھتی ہے۔ میں نے اس سے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لینے کے بعد دوبارا اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تو اس نے کہا کہ جب تک ہم دونوں اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو جاتے ایسا سوچوں بھی نہ۔ اس لئے میں نے کسی کو کچھ بتایا نہیں۔" حمدان نے سر جھکائے اٹک اٹک کر ان سب سوالوں کے جواب دے دئے جو وہ پوچھنے والے تھے۔
"تم دونوں سیریس ہو نا؟" مدیحہ نے بھی سنجیدگی سے پوچھا۔
"میں اسے بچپن سے پسند کرتا ہوں۔ وہ میری پہلی اور آخری محبت ہے۔ جہاں تک بات ہے سیریس ہونے کی تو وہ صرف مجھ سے بات کرتی ہے۔ میری ہر بات سنتی ہے۔ مگر میں نے دوبارا اس سے یہ بات نہیں کی۔ وجہ یہ ہے کہ میں جانتا ہوں وہ ابھی صرف سٹڈیز پر فوکس چاہتی ہے۔ مگر ہم نے ایک کالج میں ایڈمیشن میری ضد پر لیا تھا۔ کالج میں ہم نے کسی اور سے دوستی نہیں کی۔ پوری کلاس میں ہم دونوں ایک دوسرے سے ہی بات کرتے ہیں۔ مجھے نہیں پتا کیوں پر نہ میں خود اس کے علاؤہ کسی اور کو سوچ سکتا ہوں نہ اسے اپنے علاؤہ کسی اور کے بارے میں سوچنے دے سکتا ہوں۔" حمدان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا الفاظ کہاں سے لائے اپنے جزبات انہیں سمجھانے کے لئے۔ وہ بے ربط انداز میں بول رہا تھا۔ نور کو وہ ہر بات کہہ چکا تھا۔ مگر اپنے بہن بھائی کو کن الفاظ میں یہ سب بتائے اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ روحان کو احساس ہوا کہ حمدان اپنے بہن بھائیوں سے کتنا دور ہے۔ کہ ان سے کھل کر دل کی بات نہیں کر پا رہا۔
"دانی ریلیکس۔ ہم تو صرف یہ جاننا چاہتے تھے تم کہیں کسی کے ساتھ ٹائم پاس تو نہیں کر رہے۔" روحان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ذرا نرمی سے سمجھایا۔ جبکہ حمدان نے جھٹکے سے خود کو اس سے دور کیا۔ اور آنکھوں میں غصہ اور بے یقینی لئے انہیں دیکھنے لگا۔
"میں اس کے ساتھ ٹائم پاس کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ زندگی ہے وہ میری۔ آپ ایسا کیسے سوچ سکتے ہیں بھیا۔" وہ غصے سے ذرا اونچا بولا تھا۔ کمرے کا دروازہ بند نہ ہوتا تو ممکن تھا آواز نیچے چلی جاتی۔ وہ حد سے زیادہ جزباتی ہو رہا تھا۔ شاید نور کے بارے میں وہ ایسا ہی تھا۔
"دانی ہم ایسا کچھ اب نہیں سوچ رہے۔ تم ریلیکس کرو۔ ہمیں تمہارا یقین ہے۔ ہمیں یقین ہے تم نور سے سچی محبت کرتے ہو۔" مدیحہ نے بڑھ کر اسے ٹھنڈا کرنا چاہا۔ پانی کا گلاس اسے تھماتے ہوئے کہا۔ وہ سمجھ گئی تھی حمدان کی حالت۔ وہ نور کے بارے میں حد سے زیادہ حساس ہے۔ اس کے بارے میں کچھ بھی برداشت نہیں کرے گا۔ روحان کو اس کا انداز ڈرا گیا تھا۔ اسے اپنا آپ کسی مجرم سا لگا۔
-----------------------------------------------
وہ لوگ اس وقت فارغ تھے لہذا کینٹین آ گئے تھے۔ رضا شعیب اور روحان لنچ آرڈر کرنے کا سوچ رہے تھے جب مدیحہ بھی وہیں آگئی۔ "کیا ہوا منہ کیوں لٹکایا ہوا ہے؟" روحان نے اس کی بیزار سی شکل دیکھ کر کہا۔
"یار عجیب لڑکیاں ہیں یہاں کی۔ نمونی، ممی ڈیڈی قسم کی۔ مجھے اپنا گروپ شدید یاد آرہا ہے۔" مدیحہ بیگ میز پر پٹک کر بولی۔
"مدیحہ ہر ایک دن چھوڑ کر ایک دن تم مجھے یہی بات سناتی ہو۔ کچھ نیا سوچ لو یار۔" روحان نے چڑایا۔
"کیا نیا سوچوں۔ اس قدر بور ہوتی ہوں اس یونیورسٹی میں مَیں کہ بتا نہیں سکتی۔" مدیحہ تو پورا لڑنے کے موڈ میں تھی۔
"حد ہو گئی یعنی ہمارے ہوتے ہوئے تم بور ہوتی ہو۔" رضا کو مدیحہ کا جملا اپنی اپنی توہین لگا۔
"تم تینوں میرے سینیئرز ہو۔ کلاس فیلوز نہیں۔" مدیحہ نے منہ بنا کر کہا۔
"اچھا بہن بلکہ بھابھی۔" رضا نے جواباً چھیڑنا چاہا مگر مدیحہ نے پہلے ہی ٹوک دیا۔
"یار پلیز اب تم لوگ بھی شروع نہ ہو جانا۔ آگے ہی حمدان اور عریشہ مجھے بھابھی بلانے لگ گئے ہیں۔" مدیحہ نے التجائیہ انداز میں کہا۔
"عریشہ سے یاد آیا مدیحہ تمہارا کیا خیال ہے دانیال کے بارے میں؟" روحان نے مدیحہ سے کہا۔ صبح ہی فوزیہ نے انہیں بتایا تھا کہ پھپھو نے عریشہ کا ہاتھ دانیال کے لئے مانگا ہے۔
"خیال کیا ہونا ہے۔ اچھا لڑکا ہے۔ اب تم لوگوں جتنا تو نہیں جانتی مَیں مگر اچھا ہے۔ آئی مین عریشہ کے ساتھ بھی اچھا لگے گا۔" مدیحہ نے تبصرہ کیا تو پانی پیتے ہوئے رضا کو کھانسی لگ گئی۔
"کیا ہو گیا۔" روحان نے فکرمندی سے پوچھا۔
"کچھ نہیں۔" رضا نے خود کو سنبھالتے ہوئے جواب دیا۔
"میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ مگر یہ عریشہ کے لحاظ سے تھوڑا عجیب نہیں ہے۔ آئی مین تھوڑا وجی بھیا ٹائپ نیچر کا ہے۔ اور عریشہ تو عریشہ یے۔" وہ اب اپنا اظہار خیال کر رہا تھا۔
"میں کچھ بولوں؟" شعیب نے رضا کے چہرے پر سنجیدگی پھیلتے دیکھ کہا۔ تو روحان نے سوالیہ ابرو اچکایا۔
"عریشہ کافی چھوٹی نہیں ہے؟ مطلب ابھی اس کا یونی میں پہلا سال ہے۔" شعیب نے رائے دی۔
"ہاں لیکن اگر منگنی ہو بھی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔" مدیحہ نے اپنا نظریہ بتایا۔
"مگر وہ تو ابھی کافی چھوٹی ہے۔ اتنی جلدی کیا ہے تم لوگوں کو؟" رضا اچانک بول پڑا تو مدیحہ اور روحان نے حیرت سے دیکھا۔ جبکہ شعیب نے آنکھیں دکھائیں۔ رضا کو اپنی بے وقوفی کا احساس ہوا۔
"ہمارا مطلب تھا ابھی پہلا سال ہے یونی میں۔ ابھی اسے پڑھائی پر فوکس کی ضرورت ہے۔" شعیب نے فوراً بات کو کور کیا۔
"میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ بٹ دانیال کافی سمجھدار ہے۔ وہ خود بھی اس بات کا خیال رکھے گا۔ اور شادی تو ویسے بھی عریشہ کی سٹڈیز کمپلیٹ ہونے کے بعد ہی کریں گے۔ مگر پھپھو چاہتی ہیں کہ عریشہ کو دانیال سے منسوب کر دیں۔" روحان کے کہتے کہتے رضا کا ضبط جواب دے گیا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور تیزی سے وہاں سے نکلتا گیا۔ روحان اور مدیحہ نے ناسمجھی سے اسے جاتا دیکھا۔ پھر یکایک ایک ہی بات دونوں کے زہن میں آئی تو چونک کر ایک دوسرے کو پھر شعیب کو دیکھا جو دل ہی دل میں رضا کو کوس رہا تھا۔
"اسے کیا ہوا ہے؟" روحان نے شعیب سے سوال کیا۔
"مم۔مجھے کیا پتا۔" شعیب نے تھوک نگلا۔
"شعیب۔ ادھر میری آنکھوں میں دیکھ۔ اور بتا کیا بات ہے۔" روحان کا چہرہ سنجیدہ تھا۔ رضا کی بیوقوفی کے بعد اب شعیب کے پاس بتا دینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
-------------------------------------------
ان کی باتوں سے اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ جب لگا دل بند ہو جائے گا وہ جھٹکے سے وہاں سے اٹھ آیا۔ وہ یونیورسٹی میں ہی اس طرف آگیا جہاں کوئی بھی نہیں ہوتا تھا اور اب گراؤنڈ میں درخت کے نیچے بیٹھا وہ اپنے اندر کی گھٹن کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ سچ تھا کہ اس نے عریشہ کو چاہا ضرور تھا، مگر مانگا کبھی نہیں تھا۔ جس کی ایک وجہ تھی۔ ان کے سٹیٹس میں بہت فرق تھا۔ رضا ایک مڈل کلاس فیملی کا لڑکا تھا۔ اس کے والد جاب کرتے تھے۔ ابھی ان کا گزارا اسی پر تھا۔ عریشہ کا اس کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں بنتا تھا۔ مگر دل کب کسی کو کچھ سوچنے کی مہلت دیتا ہے۔ اسے بھی نہ دی۔ لڑکپن کی پہلی منزل میں ہی جو چہرہ اس کے دل میں سما گیا سو سما گیا۔ مگر وہ یہ بات کبھی کہہ نہیں سکا تھا۔ کسی دوسرے کو چھوڑ خود سے بھی اس نے کبھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا تھا۔ یہ تو جذبہ تب منہ زور ہوا جب عریشہ اسکی یونیورسٹی میں آگئی۔ پہلے کبھی کبھار جو چہرہ نظر آ جاتا تھا اب روز دکھتا تھا۔ جتنا بھی رضا اپنے جزبات سے دور بھاگتا اتنی ہی قوت سے وہ اس پر ڈیرہ جمائے ہوئے تھے۔ عریشہ کو دیکھتے ہی رضا اس جگہ سے بھاگنے کی کوشش میں ہوتا تھا۔ شاید یہ اپنے جزبات سے بھاگنے کی ہی ایک کوشش تھی۔ مگر ایک دن شعیب نے اسے تھمنے کا مشورہ دیا تھا۔ حقیقت کے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔ اسی دن اس نے خود سے اعتراف کر لیا تھا۔
"ایسا کچھ نہیں ہے۔" رضا نے شعیب کے خیال کی نفی کی تھی۔ کیونکہ یہی نفی وہ خود سے بھی کرتا آرہا تھا۔
"رضا۔ بھاگنا کسی مسںٔلے کا حل نہیں۔ ڈٹ کر کھڑا ہو اور فیس کر۔ محبت کرنا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔" شعیب نے سمجھایا۔
"شعیب وہ روحان کی بہن ہے۔" رضا نے اپنے الفاظ پر زور دے کر کہا۔
"میری بات سن۔ محبت کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ روحان کی بہن کوئی شجرِ ممنوعہ نہیں ہے۔ نہ روحان کوئی تنگ نظر انسان ہے۔" شعیب نے اس کی سوچ پڑھتے ہوئے کہا تھا۔
"تم نہیں سمجھ سکتے میری سیچویشن۔ ہمارے درمیان زمین اور آسمان کا فرق ہے۔" رضا کی بات صد فیصد درست تھی اور شعیب بھی جانتا تھا۔ مگر اسے اپنے دوست کی خوشی زیادہ عزیز تھی۔
"یہ فرق تب نظر نہیں آیا تھا جب محبت کی تھی۔" وہ تھوڑا غصے میں بولا۔ شاید اسے احساس دلانے کے لئے۔ جواباً رضا تلخی سے مسکرایا تھا۔
"سچ میں۔ کاش یہ فرق تب سمجھ آیا ہوتا۔ مگر تب بھی فرق کیا پڑتا۔ دل نے اب نہیں سنی تو تب تو بچہ تھا میں۔"
"میں روحان سے بات کروں؟" شعیب نے پوچھا مگر اس نے فوراً ٹوک دیا تھا۔
"خبردار شعیب۔ روحان کو اس بارے میں کبھی کچھ پتا نہیں چلنا چاہئے۔ تجھے قسم ہے میری۔" وہ کسی صورت اپنے جزبات کو اپنی دوستی پر فوقیت نہیں دینا چاہتا تھا۔ جو بھی تھا۔ روحان اس کا دوست تھا اور عریشہ اس کے دوست کی بہن۔ وہ کوئی ایسی بات نہیں کر سکتا تھا جو ان کی دوستی پر اثر کرے۔
روحان کو غصے سے اپنی طرف آتا دیکھ رضا کھڑا ہو گیا۔ شعیب اور مدیحہ اس کے پیچھے ہی تھے۔ روحان کا چہرہ اور آنکھیں حد درجہ سرخ تھے۔ رضا کو سمجھنے میں لمحہ لگا تھا کہ شعیب نے اسے سب بتا دیا ہے۔ وہ خود کو ہر طرح رد عمل کے لئے تیار کر چکا تھا۔ مگر روحان نے جو کیا وہ اس نے کبھی سوچا نہ تھا۔ روحان نے بڑھ کر ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر مارا تھا۔ مدیحہ اور شعیب بھی جانتے تھے کہ وہ کوئی سخت ردعمل دے گا مگر اس کی توقع کسی کو نہ تھی۔ رضا چہرے پر ہاتھ رکھے بے یقینی سے روحان کو دیکھ رہا تھا۔
"دوست کہتا تھا میں تجھے۔ دوست کا مطلب بھی پتا ہے؟ اپنا دوست مانتا تھا میں اور تو نے الٹا میری ہی بہن۔۔۔ میرے ساتھ رہتے ہوئے مجھے اتنا بڑا دھوکا دیتے ہوئے تجھے ذرا شرم نہیں آئی؟" روحان کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔ اس کے الفاظ نے رضا کو تکلیف پہنچائی تھی۔ اسی ڈر سے وہ روحان کو کچھ نہیں بتا سکا تھا۔
"روحان پلیز ایک بار میری بات۔۔" رضا کی بات منہ میں ہی تھی جب روحان کا دوسرا تھپڑ اس کے چہرے پر آیا۔
"کسی ایسے ہی ری ایکشن کی توقع کی تھی نا۔ جواب دے۔ یہی سوچا تھا نا تو نے۔ کہ تو مجھے بتائے گا تو میں تجھے بد نظر سمجھوں گا۔ یہی خیال تھا نا تیرا میرے بارے میں۔ کہ میں تجھے سمجھنے کی بجائے تجھے چھوڑ دوں گا۔ صرف اس بات پر کہ تو میری بہن کے بارے میں کیا جزبات رکھتا ہے۔ ایسا ہی ہے نا؟" روحان غصے اور دکھ سے بولا۔ رضا کا سر جھک گیا۔ اسے سچ میں یہی ڈر تھا۔ کہ روحان اسے غلط سمجھے گا۔ مگر افسوس کہ وہی روحان کو سمجھ نہ سکا۔
"اتنے سالوں کی دوستی میں بس اتنا ہی جان سکے ہو نا تم لوگ مجھے۔" وہ رضا اور شعیب دونوں کو دیکھتے ہوئے بولا۔
"روحان۔۔۔" رضا نے کہنا چاہا جب روحان نے بات کاٹی۔
"دوست تھا میں تیرا؟" سوال کچھ عجیب تھا۔
"بتا۔ دوست تھا بھی میں یا کبھی نہیں تھا؟" روحان اس کے سامنے کھڑا پوچھ رہا تھا اور رضا کو لگا وہ کبھی سر اٹھا نہ سکے گا۔
"کیا یہی اوقات تھی میری دوستی کی کہ میرا دوست یہ سوچ رکھتا ہے میرے بارے میں۔ لیکن ایک سیکنڈ۔ دوست میں ہوں بھی کہ نہیں؟" رضا اور شعیب دونوں پر گھڑوں پانی پڑا تھا۔ مدیحہ نے پہلی بار روحان کو اتنا جزباتی دیکھا تھا۔ مگر رشتوں کے معاملے میں وہ ایسا ہی تھا۔
"روحان ایک بار۔۔" شعیب نے کہنا چاہا مگر روحان انہیں سن کب رہا تھا۔
"نہیں یار۔ میں کہاں بچپن کا دوست۔ دوست تو تم دونوں تھے۔ بچپن سے۔ میں تو بہت بعد میں آیا تھا۔ 7 کلاس میں نا۔ وہ بھی شاید ضرورت نہیں تھی میری۔" روحان جیسے تجزیہ کر رہا تھا۔
"یار تو سن تو۔۔" رضا اس کی جانب بڑھا مگر روحان نے ہاتھ اٹھا کر روکا اور خود چند قدم پیچھے ہوا۔
"تب ضرورت نہیں تھی۔ ضرورت تو اب بھی نہیں ہے۔ ایک دوسرے کے لئے تم دونوں بہت ہو۔ میں تو ایکسٹرا ہوں۔ آئی گیس مجھے ہونا ہی نہیں چاہئے۔" کہہ کر وہ پلٹ گیا۔
"یار ایک منٹ سن لے۔" رضا تو اپنی جگہ شرمندگی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔ شعیب نے روحان کو روکنا چاہا۔
"چلو مدیحہ۔ کلاس ہے تمہاری۔" روحان نے رک مدیحہ سے کہا۔
"روحان ایک بار ان کی بات۔۔" مدیحہ نے بھی کہاں چاہا مگر وہ ابھی کچھ سننا نہیں چاہتا تھا۔
"تم چل رہی ہو تو ٹھیک ورنہ ان کے ساتھ کھڑی میرے بارے میں مزید اندازے لگاتی رہو۔ میں مائنڈ نہیں کروں گا۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ مدیحہ کچھ متذبذب سی ہوئی۔ مگر روحان سے ساتھ چل پڑی۔ مدیحہ کا ہاتھ پکڑ کر روحان تیزی سے وہاں سے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلا گیا۔ مدیحہ کو تو کچھ سمجھ ہی نہ آئی۔ اتنی سی دیر میں اتنا کچھ ہو گیا۔
"سوری رضا مگر۔۔" ان کے جانے کے بعد شعیب رضا سے بولا۔ تب رضا نے سر اٹھایا تھا۔
"غلطی میری ہے۔ مجھے ہی سدھارنا پڑے گی۔" وہ پرسوچ نظروں سے سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"مگر ناراض تو وہ ہم دونوں سے ہے۔" شعیب نے پریشانی سے کہا۔
--------------------------------------------
"یار میری بات سمجھو تو سہی۔" وہ التجا کر رہا تھا
"میری جگہ خود کو سمجھائیں۔" وہ اسے حقیقت دکھانا چاہ رہی تھی۔
"مجھے تھوڑا ٹائم دو۔ میں منا لوں گا انہیں۔" وہ بےبسی کی انتہا پر تھا۔
"دیکھیں خضر۔ میں نے آپ کو چانس دیا۔ میں اپنے پیرینٹس کو کس بیس پر انکار کروں۔ جب کہ یہ فیلنگز بھی سراسر آپ کی طرف سے ہیں۔ میں نے صرف یہ رضامندی دی تھی کہ اگر آپ کے پیرینٹس میرے گھر میرا رشتہ مانگنے آئے تو ہماری طرف سے ہاں ہو گی۔ مگر آپ اپنے والد کو اب تک نہیں منا پائے۔ میرے اگر اپنے گھر انکار کروں بھی تو میرے پاس کوئی ویلڈ ریزن نہیں ہے۔ " اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
عائشہ بہت سے رشتوں کو انکار کر چکی تھی پر اب اس کی خالہ نے رشتہ مانگا تھا۔ اور اس کی ماں اسے فورس کر رہی تھیں۔ اس نے آر یا پار کا فیصلہ کرنے کی ٹھانی۔
"میں کوشش کر رہا ہوں نا۔" وہ بےبسی سے بولا۔
"آپ کیسی کوشش کرتے ہیں میں نہیں جانتی۔ دو مہینے ہونے کو ہیں۔ میں مزید اپنے گھر والوں کو نہیں روک سکتی۔" وہ سنجیدگی سے بولی۔
"عائشہ میں محبت کرتا ہوں تم سے۔" اس نے احساس دلانا چاہا۔
"زیادہ عالیان بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ محبت کرتے ہیں تو مجھے نہیں اپنے پیرینٹس کو بتائیں۔" عادت کے مطابق وہ اپنے ہی انداز میں بولی جبکہ کسی اور مرد کا نام عائشہ کے منہ سے سن کر خضر کا دماغ گھوم گیا۔
"تم صرف میری ہو تو اگر کسی اور کے نام کی انگوٹھی تم نے پہنی تو نتائج کی زمیدار تم خود ہوگی۔" وہ اس پر دھاڑا تھا۔
"اچھا کیا کرو گے تم؟" اس کو بھی غصہ آگیا تھا اب۔
"تمہیں کل تک پتہ چل جائے گا۔" سنجیدہ سے لہجے میں کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔ وہ حیرت سے اپنے فون کو دیکھنے لگی۔ "کیا کریں گے یہ۔ شاید اب اپنے باپ کو منا لیں سہی سے۔"
----------------------------------------------
وہ یوں تو لیکچر سن رہا تھا۔ پوری توجہ سر کی جانب تھی۔ مگر پھر بھی وہ کیا سمجھا رہے تھے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اس کے زہن میں صرف شعیب اور رضا چل رہے تھے۔ ان کی سالوں پرانی دوستی۔ وہ سارا وقت جو وہ تینوں ساتھ گزارتے تھے۔ سارے منظر ایک کے بعد ایک اس کی آنکھوں کے آگے آرہے تھے۔ اور اپنا تھپڑ بھی۔ جو بھی تھا۔ روحان کو اتنا شدید ردعمل نہیں دکھانا چاہئے تھا۔ سر نے اس کی کتاب پر دستک دی تو وہ چونک گیا۔
"روحان۔ کہاں گم ہو؟"
"سر۔ وہ کہیں نہیں۔" روحان نے سر جھٹک کر کہا۔ تبھی کلاس روم کا دروازا نوک ہوا۔ اور رضا اور شعیب نے اجازت طلب کی۔
"جی کہیں۔" سر ان کی جانب متوجہ ہوئے۔
"سر روحان کو بھیج دیں۔" شعیب نے کہا تو سر سمیت پوری کلاس ہی چونک گئی۔ وہ 'روحان' کو 'لیکچر' سے لینے آئے تھے۔
"کیوں۔" سر نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"سر اس کا پرسو نکاح ہوا ہے۔ اب اس کی بیوی اس سے ناراض ہو گئی ہے۔ اس لئے بہت پریشان ہے۔ ہم بڑی مشکل سے اس کی بیوی کو منا کر لائے ہیں۔ اب ان کی صلح ہونے دیں۔ ثواب ملے گا آپ کو۔" رضا نے وجہ بتائی تو پیچھے کھڑی مدیحہ اچھل پڑی۔
"کیا بکواس ہے رضا۔" وہ دانت پیس کر بولی۔
"سر ایسا کچھ نہیں ہے۔" روحان کلاس میں الگ شرمندہ ہو رہا تھا۔ وہ سر سے بولا تو رضا اندر ہی آگیا۔
"روحان ہم بڑی مشکل سے اسے منا کر لائے ہیں۔ پورا لیکچر ضائع ہوا ہے ہمارا۔ اور اب ہماری اتنی محنت پر پانی نہ پھیر۔ چل آ جا مدیحہ بھی باہر ہی کھڑی ہے۔" آہ۔ کس قدر اعتماد سے وہ پوری کلاس کے سامنے جھوٹ بول رہا تھا۔ روحان کو اس پر تاؤ بہت آیا۔ اس نے سر کو دیکھا۔ تمام ٹیچرز کی نظر میں اس کی اتنی اچھی ریپوٹیشن تھی۔ سر اسے دیکھ کر ہنسی چھپا رہے تھے۔
"جائیں۔" سر سے اجازت ملنے پر روحان نے اپنا بیگ اور کتابیں اٹھائیں اور خاموشی سے کلاس سے نکل گیا۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو۔" باہر ہی مدیحہ کو کھڑا دیکھ روحان نے پوچھا۔
"یہ دونوں مجھے بھی ایسے ہی کلاس میں شرمندہ کروا کر لائے ہیں۔" مدیحہ رضا اور شعیب کو گھورتے ہوئے بولی۔ روحان چپ چاپ آگے بڑھ گیا۔ مدیحہ اس کے ساتھ چلنے لگی اور رضا اور شعیب پہلے تو روحان کو پکارا مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ دونوں کچھ فاصلے سے ان کے پیچھے چلنے لگے۔
"روحان ایک بات کہوں؟" مدیحہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
"اگر ان دونوں کی کوئی بات کرنی ہے تو مجھے نہیں سننی۔ اور کچھ کہنا ہے تو کہو۔" روحان جانتا تھا رضا اور شعیب مدیحہ کو سفارش کے لئے لائے ہیں۔
"کہاں جا رہے ہیں ہم۔" مدیحہ چپ چاپ اس کے ساتھ چل رہی تھی۔ وہ لوگ پارکنگ میں پہنچے تو پوچھ لیا۔
"پتہ نہیں۔" روحان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
مدیحہ نے رضا اور شعیب کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا تو دونوں کے چہروں پر یکدم مایوسی چھائی۔
"روحان ایک منٹ۔ میری بک کلاس میں رہ گئی۔ میں لے کر آتی ہوں۔" مدیحہ نے کہا تو روحان نے سر ہلا دیا۔ وہ گاڑی کے دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا اپنی فون گیلری دیکھنے لگا۔ اس کے موبائل میں ان تینوں کی تصویریں بھری پڑی تھیں۔ وہ غصے سے ایک تصویر ڈیلیٹ کرنے لگا مگر ہاتھوں نے ساتھ ہی نہ دیا۔ وہ یونہی تصویریں دیکھنے لگا جب کہیں گانے کی آواز آئی۔
KAMU SEDANG MEMBACA
دیوانگیٔ شوق (مکمل ناول)
Fiksi UmumDeewangi e shouq: دیوانگیٔ شوق: دوستی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مخلص دوست کسی سایہ دار درخت کی طرح ہوتے ہیں۔ لیکن بے غرض اور مخلص دوست بھی قسمت والوں کو ملتے ہیں۔ یہ کہانی ہے چند لاابالی سے دوستوں کی۔ جو یوں تو "سنجیدگی" لفظ سے ناآشنا ہیں لیکن حق کی...