تیری خوشیوں کا سبب یار کوئی اور ہے نا
دوستی مجھ سے اور پیار کوئی اور ہے ناجو تیرے حسن پہ مرتے ہیں بہت سے ہوں گے
پر تیرے دل کا طلبگار کوئی اور ہے ناتو میرے اشک نہ دیکھ اور فقط اتنا بتا
میں نہیں ہوں تیرا دلدار کوئی اور ہے نااس لئے بھی تجھے دنیا سے الگ چاہتا ہوں
تو کوئی اور ہے سنسار کوئی اور ہے نا
(علی زریون)-----------------------------------
ابھی وہ فارغ تھا۔ رضا نے اسے فنکشن کے گروپ ہیڈ کے آفس کے باہر لا کھڑا کیا۔ وہ اسے بتا نہیں سکا کہ اب وہ کوئی کمپلینٹ نہیں کرنا چاہتا۔ کیوں؟ وہ یہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ شاید اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔
"یار ابھی جلدی نہیں ہو جائے گا۔ میں بعد میں آ جاتا۔" اس نے رضا سے کہا۔
"بھائی وہ ابھی فری ہے اس لئے ابھی بلایا ہے کہ جو بات ہے کر لیں ورنہ بعد میں وہ بزی ہو جائے گی۔" رضا نے بتایا۔ اس نے یہ ساری انفورمیشن مینیجمینٹ کے لڑکے سے لی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے اس نے اتفاقاً ایک لڑکے سے پوچھا تھا جو کہ سعد تھا۔ تو اس نے مدیحہ کو کال کر کے بات کی تو اس نے فوراً آنے کا کہا کیونکہ اس کے بعد اس نے دوستوں کے ساتھ لنچ کرنا تھا۔
"اب جا میرا میچ شروع ہونے لگا ہے تو میں چلا۔" یہ کہہ کر وہ اسے متذبذب چھوڑ کر چلا گیا۔
روحان کچھ دیر وہیں کھڑا سوچتا رہا۔
"جاؤں یا نہیں۔ ایک کام کرتا ہوں جا کر کمپیٹیشن کے بارے میں دو تین اوٹ پٹانگ سوال کر لوں گا۔ ہاں یہ سہی ہے۔" فیصلہ کر کے وہ اندر چلا گیا۔
اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر سامنے بیٹھی مدیحہ پر پڑی۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"ارے آپ آئیے بیٹھیے۔ کہیں کیا خدمت کر سکتی ہوں میں آپ کی۔" مدیحہ نے اسے دروازے پر کھڑا دیکھ کر کہا۔
"مجھے اس فنکشن کے کسی ہیڈ سے ملنا ہے۔" اسے سمجھ نہ آیا کیا کہے۔
"جی تو میں سامنے ہی ہوں۔" مدیحہ نے مزے سے کہا اور روحان کو حیران ہوتا دیکھنے لگی۔
"آپ۔ سیرئیسلی؟" اس نے حیرت سے کہا تھا۔
"یس۔ اینی ڈاوٹ؟ آئیں بیٹھیں۔" مدیحہ نے کہتے ہوئے سامنے موجود موجود کرسی کی جانب اشارہ کیا۔
"آئی کانٹ بیلیو۔ آپ تو چھوٹی سی ہیں۔ " وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
"چھوٹی کس کو کہا مسٹر۔ میں سافٹویئر انجینئرنگ سیکینڈ ائیر کی سٹوڈنٹ ہوں۔" اس نے آگاہ کیا تو وہ مزید حیران ہوا۔
"رئیلی؟ میں تو آپ کو کوئی انٹرمیڈیٹ کی سٹوڈنٹ سمجھا تھا۔" روحان نے اظہار خیال کیا۔
"یہ تعریف تھی یا طعنہ؟" مدیحہ نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
"دونوں ہی نہیں۔ میں نے تو صرف سچ کہا ہے۔ حقیقتاً آپ مجھے کوئی گیارہویں کلاس کی سٹوڈنٹ لگیں۔ شاید صبح والی بچگانہ حرکت کی وجہ سے۔" اس نے صاف گوئی سے کہا۔
"اچھا۔ ویسے آئی ایم سوری۔ دراصل میں جب تک دن میں کسی ایک آدھ بندے کو تنگ نہ کر لوں میں مطمئن نہیں ہوتی۔ اب آج وہ آپ تھے۔ مثلاً ابھی آپ اس کالج کی لڑکیوں سے پوچھیں تو شاید ہی کوئی ہو جو مجھ سے بچی رہ گئی ہو۔" اس نے ایکسکیوز کر کے اسے اپنی حرکتوں سے آگاہ بھی کیا۔ تو وہ ہنس دیا۔
"نو۔ اٹس اوکے۔ یہ اتنی کوئی بڑی بات نہیں۔ بلکہ میں خود بھی اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر ایسی حرکتیں کرتا رہتا ہوں۔ آج میں کچھ پریشان تھا شاید اسی لئے اوور ری ایکٹ کر گیا۔" اس نے بھی اس کے انداز میں بات ختم کی۔
"تو اب سارا حساب کلئیر." مدیحہ نے کہہ کر ہاتھ جھاڑے۔
"ویسے اب اگر سب حساب کلئیر تو فرینڈز؟" کیسے اس کے منہ سے یہ بات نکلی اسے خود سمجھ نہ آیا۔ مگر اب کہہ دیا تو کیا کر سکتے ہیں۔
"فرینڈز۔" مدیحہ نے بھی مسکرا کر سر ہلا دیا۔
"ویسے اب اگر دوستی کر لی ہے تو ہم یہ آپ جناب والی فارمیلیٹی چھوڑ کر تم پہ شفٹ کر سکتے ہیں؟ مجھ سے یہ آپ آپ کر کے بات نہیں کی جاتی" مدیحہ نے دوستانہ انداز میں پوچھا۔
"شیور۔" روحان نے بھی خوش دلی سے حامی بھر لی۔
"ہم دونوں کی عقل کو سلام۔ دوستی کر لی اور نام پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔ کمال ہے۔" مدیحہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
"ارے ہاں۔ میرا نام روحان ہے۔"
"میں مدیحہ۔ اچھا اب چلو میں تمہیں اپنے گروپ سے ملواتی ہوں۔ سب میرا کینٹین میں انتظار کر رہی ہیں۔" کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"مگر آپ۔ آئی مین تمہیں تو کام نہیں تھا؟" روحان نے یاد کرتے ہوئے کہا۔ رضا نے تو کہا تھا اسے کام ہیں۔
"کھانے سے ضروری بھی کوئی کام ہوتا ہے؟" مدیحہ نے عقل کی بات کی۔ اور آگے کو چل پڑی۔
"بلکل نہیں۔" وہ بھی سر ہلاتا پیچھے چل پڑا۔
--------------------------------------------------
"کہاں رہ گئی تھی یار کب سے ویٹ کر رہے ہیں۔ بھوک سے جان جا رہی ہے۔" جیسے ہی وہ کینٹین آئی جویریہ اس پر چڑھ دوڑی۔ روحان کال اٹینڈ کرنے تھوڑا پیچے رک گیا تھا۔ وہاں پر نمرہ، جویریہ، عائشہ، عنایا، حاشر اور سعد سب موجود تھے اور اس کا انتظار کر رہے تھے۔
"تسلی رکھو۔ آ تو گئی ہوں۔" اس نے کہا۔ ابھی اور کوئی بات ہوتی اس سے پہلے روحان آ گیا۔
"اسلام علیکم۔" اس نے سلام کیا تو نمرہ نے حیرت سے دیکھا۔ باقی سب کو صبح والی بات اس نے ہی بتائی تھی۔
"ارے آپ تو وہ ہیں نا جس کو مدیحہ نے غلط راستہ بتایا تھا۔ آپ دونوں کی بحث بھی ہوئی تھی تھوڑی سی۔" نمرہ نے تصدیق کرنا چاہی۔
"جی۔ میں وہی ہوں۔" اس نے ہنستے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
"یار کیا پرانی باتیں لے کر بیٹھ گئے ہو۔ اب ہماری دوستی ہو گئی ہے۔" مدیحہ اب اس واقعہ سے شرمندہ ہونے لگی تھی اس لئے بات ختم کرنا چاہی۔
"مگر۔۔" جویریہ نے کچھ کہنا چاہا تو روحان بول پڑا۔
"بھئی اب پرانی باتیں بھول کر نئی دوستی نہیں کر سکتے کیا؟ ویسے بھی یہ میں نے سن رکھا تھا کہ لاہور میں غلط راستہ بتانے کا رواج ہے۔" وہ اس کی شرمندگی سمجھ گیا تھا۔ خود بھی شرمندہ ہو رہا تھا اس لئے بات کو ختم کیا۔
"اوکے۔ اب مدیحہ میڈم ہمارا انٹروڈکشن کیا ہم خود کروائیں؟" عنایا نے سمجھتے ہوئے بات بدل دی۔ تو مدیحہ نے سب کا تعارف کروایا۔
"روحان تم اپنے بارے میں بتاؤ۔" حاشر نے کہا۔
"میں اسلام آباد سے آیا ہوں۔ سافٹویئر انجینئرنگ میں لاسٹ ائیر ہے۔ یہاں سنگنگ کے لئے آیا ہوں۔ انفیکٹ مدیحہ اور میں ایک ہی مقابلے میں ہیں۔" اس نے اپنے بارے میں بتایا۔
"آپ کی ایج کیا ہے؟" سوال جویریہ کی طرف سے آیا تھا۔
"اکیس سال۔" اس نے ناسمجھی سے جواب دیا۔
"آپ تو حاشر بھائی جتنے لگتے ہیں۔ جبکہ حاشر بھائی اپنی ایج سے چھوٹے لگتے ہیں۔" اس نے حیرت کا اظہار کیا۔
"یہ تو ہم تینوں بھائیوں کا مسںٔلہ ہے۔ ہم ایج میں بڑے لگتے ہیں۔ ان فیکٹ اب تو میں اپنا آئی ڈی کارڈ تھما دیتا ہوں لوگوں کو۔" روحان نے ہنستے ہوئے بتایا۔
"ویسے آپ کو دیکھ کر سعدی یوسف یاد آ رہا ہے۔ حالانکہ آپ کے بال اس جیسے نہیں ہیں اور آپ گورے بھی بہت زیادہ ہیں۔ مگر پھر بھی آپ سعدی یوسف لگ رہے ہیں۔" ناولز کی دیوانی عائشہ کا تبصرہ سن کر روحان نے تعجب سے دیکھا۔
"وہ کون ہے؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"اس کا بھائی۔" مدیحہ نے ہنسی چھپا کر کہا۔
"اوہ اچھا اچھا۔" روحان سمجھا شاید سچ میں عائشہ کا بھائی ہے۔ جبکہ عائشہ نے بے ساختہ " استغفرُللہ" کہا تھا۔
"اکیلے آئے ہیں؟" جویریہ اپنی زبان زیادہ دیر تک بند رکھ نہیں سکتی تھی۔ روحان کا دل کیا کہے "نہیں پورا اسلامآباد ساتھ لایا ہوں۔" مگر وہ ابھی اپنی زبان کے جوہر دکھانے سے گریز کر رہا تھا۔
"نہیں۔ میری یونی سے ہم چھ سٹوڈنٹس آئے ہیں۔ جن میں ایک میرا دوست ہے رضا جو ابھی ٹینس کا میچ کھیل رہا ہے۔ اور میری بہن ہے عریشہ وہ بھی یہیں آ رہی ہے۔" اس نے تفصیل سے بتایا۔
"اچھا آپ اپنے فرینڈز کے بارے میں بتائیں۔ " یہ پوچھنے والی بھی جویریہ تھی جسے باتیں کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ روحان کو ان کے تجسس پر ہنسی آرہی تھی۔ مگر وہ ضبط کر رہا تھا۔
"ہممم۔ تو میرے دو دوست ہیں رضا اور شعیب۔ رضا سے ابھی آپ تھوڑی دیر میں مل لیں گے۔ شعیب ہمارے ساتھ نہیں آیا۔" اس نے مزید تفصیلات دیں۔ رضا اور شعیب اسے اتنی تمیز سے کھڑا دیکھ شاید پہچاننے سے انکار کر دیتے۔ وہ تو تھوڑی دیر بھی اتنا سنجیدہ نہیں رہ سکتا۔ ابھی وہ لوگ بات ہی کر رہے تھے کہ عریشہ آ گئی۔
"بھیا آپ تو لاہور آ کر مجھے بھول ہی گئے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ صبح سے مجھے ان بورنگ سی ٹیچر کے پاس بٹھایا ہوا ہے۔ اف اتنا بور ہوئی ہوں۔ اب جا کر جان چھوڑی ہے انہوں نے میری۔" وہ آتے ہی نون سٹوپ شروع ہو گئی۔
"ارے ارے گڑیا ریلیکس۔ سانس تو لو۔" روحان نے اسے پر سکون کرنا چاہا۔
"بھیا کیا بتاؤں اتنی ٹینشن ہو رہی ہے نا کہ بس۔ اپنے سکول کالج میں تو فرفر تقریریں کرتی تھی۔ کسی دوسری جگہ آ کر تو سارا کونفیڈنس جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ہے۔ ایک کام کریں۔ ایک بار مجھ سے سن لیں ذرا۔" اس نے پریشانی سے کہا۔
"بیٹا جی آپ نے کل پہلے گھر میں، پھر بس میں، اور پھر صبح آتے ہوئے بھی سنائی تھی مجھے۔ اب تو یاد بھی ہو گئی ہے۔" روحان نے یاد کروایا۔
"بھیاااااا۔ اب آپ ایسے کریں گے۔ آپ دوسرے شہر آ کر بدل گئے ہیں۔" اس نے روٹھتے ہوئے کہا تو روحان نے ہتھیار ڈال دئے۔
"اچھا ناراض نہ ہو۔ چلو سناؤ ذرا۔ کیا تیاری ہے۔" روحان نے اس کا دل رکھنے کو کہا اور اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ یہ اس کا منانے کا انداز تھا۔ اور وہ مان بھی گئی۔
"سچ۔ اچھا پھر سنیں۔" اس سے پہلے کے وہ شروع ہوتی مدیحہ کو روحان پر ترس آ گیا تو اس نے انہیں متوجہ کیا جو ان سب کی موجودگی شاید بھول چکے تھے۔
"ہم بھی ہیں یہاں پر۔" اس کے کہنے کی دیر تھی۔ روحان نے موقع غنیمت پا کر سب کا تعارف کروانا شروع کیا۔ پھر وہ سب لنچ کرنے لگے۔ رضا کی کال آئی تو اسے بھی وہیں بلا لیا۔
------------------------------------
وہ دونوں کینٹین میں بیٹھے تھے جب اس نے اسے دیکھا جو دوستوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی۔ خضر اور شاہزین۔ دونوں ایک ہی سمت دیکھ رہے تھے۔ چونکے تب جب وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ شاہزین نے ٹائم دیکھا اور خود بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
"تم کچھ کھا لو میں جا رہا ہوں ٹائم ہو گیا ہے ڈبیٹ کا۔" کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔ خضر چپ چاپ بیٹھا رہا۔ وہ اپنی کیفیت سوچ رہا تھا۔
"کیا سچ میں مجھے پیار ہو گیا ہے؟ یا بلا وجہ میں زیادہ سوچ رہا ہوں۔ چلو ابھی ایک ہفتہ ہے۔ کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ ہی جاؤں گا۔" وہ اپنی سوچوں میں خود سے مخاطب تھا۔
-------------------------------------------------
وہ اور خضر اس کے ہی ایک اپارٹمنٹ میں رکے تھے۔ رات کو لاہور کی سڑکوں پر گاڑی دوڑانے کے بعد تھک کر دونوں گھر آ گئے۔ نیند اس کی آنکھوں سے آج بھی دور تھی مگر آج وہ کسی غصہ یا فرسٹریشن نہیں بلکہ ایک خوشگوار خیال کی وجہ سے تھی۔ بیڈ پر لیٹتے ہی وہ معصوم سا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آیا اور ساری رات وہ اسے ہی سوچتا رہا۔ پورا دن اسے ہی تو دیکھتا رہا تھا۔ کبھی وہ کسی کو کچھ سمجھا رہی تھی تو کبھی دوستوں کے ساتھ ہنس رہی تھی۔ کبھی غصے میں کسی کو گھورتی۔ وہ بہت خوبصورت تو نہیں تھی پر اسے لگی تھی۔ غزال آنکھیں شعروں میں پڑھیں تھیں مگر اس کو دیکھ کر ان شعروں کی تشریح مل گئی تھی۔ اس کی ہنسی بےحد پیاری لگی اسے۔ اس کے ماتھے پر غصے میں آنے والے بل اس کو بار بار مسکرانے پر مجبور کر رہے تھے۔ شاید غصے کی تھوڑی تیز تھی۔ جو بھی تھی۔ تھوڑی سانولی سی مگر پھر بھی بہت پیاری۔
دوسری طرف خضر بھی کسی کے خیالوں میں کھویا تھا۔ سنجیدہ چہرہ لئے بڑی بڑی آنکھوں میں سے چھلکتی شرارت۔ اس کی باتیں اس کے کانوں میں پڑی تھیں۔ وہ سنجیدگی سے ہی ہر بات کر رہی تھی۔ خواہ وہ مزاق ہو طنز ہو یا کوئی سنجیدہ بات۔ اس کی بات کا اصل مفہوم اس کی آنکھوں سے پتا چلتا تھا۔ اس سے بات کرنے والا اس کی سنجیدہ بات کے پیچھے چھپی شرارت اس کی آنکھوں کا مفہوم سے سمجھتا تھا۔ مگر شرارت کے دوران اس کے گالوں پر پڑنے والے ڈمپل بہت حسین تھے۔ مسکراہٹ اس کے لبوں پہ پھیلی تھی اسے سوچتے ہوئے۔
--------------------------------------------------
ان کی اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ مدیحہ وغیرہ کو بہت خوشی ہوئی جب انہیں اندازہ ہوا کہ روحان رضا اور عریشہ بھی ان کی طرح ہی ہیں۔ یعنی ان کے کرائم پارٹنرز میں اضافہ ہو گیا تھا۔ چھ دن تو گزر گئے۔ آج اتوار تھا۔ فنکشن کا ساتواں اور آخری دن بھی۔ وہ لوگ ابھی مدیحہ کے آفس میں بیٹھے تھے۔
"یار آپ لوگ آج چلے جائیں گے؟" سعد نے ان تینوں سے پوچھا۔ ان کے ساتھ سعد کی اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی۔ اب آج سب نے واپس چلے جانا تھا یہ سوچ کر وہ اداس ہو رہا تھا۔
"نہیں بھئی ہم تینوں تو ابھی مزید ایک ہفتہ یہیں ہیں۔" رضا نے جواب دیا تو روحان نے تعجب سے اسے دیکھا۔
"ہم دونوں تو ٹھیک ہے۔ تیرا پروگرام کب بنا۔"
"میرا اکیلے کا نہیں شعیب بھی آ رہا ہے۔" رضا نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
"مگر یہ سب ہوا کب؟" اس نے پوچھا تو رضا نے کندھے اچکا دئے۔ روحان نے ٹیبل سے فائل اٹھا کر اس کے کندھے پر ماری۔
"ارے یہ سب کیسے؟" سعد نے ان کا لڑنا اگنور کر کے اپنا سوال کیا۔
"آج یونی کے باقی سٹوڈنٹس جا رہے ہیں مگر ہم یہیں ہیں کیونکہ کل میری فیملی آ رہی ہے۔ ہمارا پلین لاہور گھومنے کا ہے۔" روحان نے جواب دیا۔
"ارے یہ تو اچھا ہو گیا۔ پھر تم لوگ ہماری طرف اپنی فیملی کے ساتھ آنا۔" حاشر نے خوشدلی سے کہا۔
"یار ایسا کوئی سین نہیں۔ ہم نے لاہور گھومنا ہے اور آپ لوگ ہمیں لاہور گھمائیں گے۔ اوکے؟ ویسے بھی یہ گھر آنا جانا پھر کبھی کے لئے رکھتے ہیں۔ فلحال ہمارا ارادہ گھومنے پھرنے کا ہے۔ تم سب بھی ساتھ ہو گے تو مزہ آئے گا۔ ہے نا؟" روحان نے انہیں بھی اپنے ساتھ شامل کرنا چاہا۔ ان سب نے بھی ہامی بھر لی۔ اب وہ سب سنگنگ کمپیٹیشن کے لئے جا رہے تھے جہاں چار فائینلسٹس میں مدیحہ اور روحان بھی تھے۔
ایک لڑکی کے بعد روحان نے گانا تھا۔ وہ سٹیج پر گیا تو سب نے بیسٹ آف لک وش کیا تھا۔ روحان نے گانا شروع کیا۔
CITEȘTI
دیوانگیٔ شوق (مکمل ناول)
Ficțiune generalăDeewangi e shouq: دیوانگیٔ شوق: دوستی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مخلص دوست کسی سایہ دار درخت کی طرح ہوتے ہیں۔ لیکن بے غرض اور مخلص دوست بھی قسمت والوں کو ملتے ہیں۔ یہ کہانی ہے چند لاابالی سے دوستوں کی۔ جو یوں تو "سنجیدگی" لفظ سے ناآشنا ہیں لیکن حق کی...