"دادا جان آپ بتا کیوں نہیں دیتے وہ کون ہے۔ کس کیس میں انوولو ہوئے تھے آپ۔ آپ کی ادھوری باتیں مجھے پریشان کر رہی ہیں۔" وہ آج ایک بار پھر زوہیب صاحب سے سوال کر رہا تھا۔ کل رات وہ واپس آیا تھا اور اب وہ ایک بار پھر اس امید سے زوہیب صاحب کے سامنے کھڑا تھا کہ وہ شاید اب کچھ بتا دیں۔ مگر وہ جیسے فیصلہ کر چکے تھے کچھ نہ بولنے کا۔
"باباجان آپ کی دوا ختم ہو گئی ہے۔" اس کے سوالوں کو حمدان کی آمد کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا۔
"میں باہر جا رہا ہوں۔ لا دیتا ہوں تم بتا دو کون کون سی." کہہ کر وہ کمرے سے چلا گیا۔"کچھ بتایا دادا جان نے؟" وہ اپنے کمرے میں آیا تو ثنا نے پوچھا۔
"نہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ اب تو اس معاملے کو اتنے سال گزر کئے ہیں۔ اب کیوں ڈر رہے ہیں وہ۔" وجدان نے الجھے ہوئے انداز میں بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"ایک بات کہوں۔ آپ اس بارے میں روحان کو بتا دیں۔ وہ شاید آپ کی مدد کر سکے۔" اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"نہیں۔ روحان اور مدیحہ کو تو کسی صورت پتہ نہ چلے۔ وہ دونوں بہت جزباتی ہیں۔ اگر انہیں اس بارے میں پتہ چلا تو نکل پڑیں گے اسے ڈھونڈنے۔ اچھے سے جانتا ہوں میں دونوں کو۔ بجائے ایک دوسرے کو سمجھانے کے۔ وہ بڑھ چڑھ کر ساتھ دیں گے۔ اور جب دونوں کسی کام کو کرنے کی ٹھان لیں تو کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ ان دونوں کو بتانے کا مطلب ان دونوں کو خطرے میں ڈالنا ہوگا۔" اس نے اس کے خیال کی نفی کی تھی۔
"ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں آپ؟" ثنا اس کی بات پر الجھ گئی تھی۔
"تم نہیں جانتیں۔ چچی جان اکثر چچا جان کی باتیں بتاتی ہیں تو بتاتی ہیں کہ یہ دونوں بلکل ان پر گئے ہیں۔ کوئی فیصلہ کر لیں تو پھر انہیں کوئی پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔ ابھی ہماری شادی پر دیکھا تھا۔ ان کا نکاح تھا مگر مجال ہے کہ دونوں ٹک کر بیٹھے ہوں۔ وجہ صرف ان کی ضد تھی۔" وہ تفصیل سے بتا رہا تھا۔ ثنا نئی نئی تھی اس لئے یہاں سب کی عادتوں سے واقف نہیں تھی۔ مگر وجدان تو سب کو بہت اچھے سے جانتا تھا۔
-----------------------------------------
وہ تینوں یونیورسٹی میں اپنی پسندیدہ جگہ یعنی گراؤنڈ میں درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ کتابیں تینوں نے کھولی ہوئی تھیں مگر پڑھنے کا کسی کا ارادہ نہ تھا۔
"ویسے شعیب اب تمہیں بھی آمنہ سے بات کر لینی چاہئے۔" روحان نے شعیب سے کہا۔
"ہاں یار۔ جو اعتبار تم اس کی آنکھوں میں دیکھنا چاہتے ہو وہ کسی اجنبی کے لئے کبھی نہیں ہوگا۔ ہاں اگر کوئی رشتہ تم دونوں کے درمیان بن جائے تو اعتبار بھی پیدا ہو جائے گا۔" رضا نے بھی خلاف معمول سنجیدگی سے کہا۔
"میں اجنبی ہوں؟" اس نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے حیرت سے کہا۔
"یار دیکھو۔ وہ تم سے ملتی ہی کتنا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ دونوں ہمارے ساتھ ہوں۔ ورنہ وہ دونوں زیادہ تر الگ ہوتی ہیں۔ اور جب وہ دونوں ہمارے ساتھ بھی ہوتی ہیں۔ تو آمنہ کتنی بات کرتی ہے؟ وہ ہمیں صرف عریشہ کے بھائیوں کی طرح ہی ٹریٹ کرتی ہے۔ اب ایسے میں کیوں وہ تم پر اعتبار کرے۔ اگر تم اسے اپنا اعتبار دلانے کی کوشش کرو گے تو ہی وہ تم پر بھروسہ کرے گی نا؟" اب کے روحان نے اسے تفصیل سے سمجھایا۔ جب شعیب کی نظر اس پر پڑی جو الجھے ہوئے انداز میں گھڑی دیکھ رہی تھی۔ وہ اکیلی تھی۔ یقیناً عریشہ کا انتظار کر رہی تھی۔
"آئی تھنک یو آر رائیٹ۔ مجھے اس سے بات کرنی چاہئے۔" شعیب نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔
"اچھا لائبریری چلو۔ نوٹس ابھی تک کمپلیٹ نہیں کئے میں نے۔ جمعے کو پھر کراچی جانا ہے " رضا نے کہا تو روحان نے حیرت سے دیکھا۔
"کیااا۔ بھائی تو یونیورسٹی میں ٹھونسنے آتا ہے صرف؟ اتنے دنوں میں کام نہیں کمپلیٹ کر سکا۔" وہ حیرت سے اس پر چیخا۔
"اچھا تو اب میری مدد کرو۔ اٹھو فوراً." رضا نے آرام سے جواب دے کر اسے زبردستی کھڑا کیا۔
"یہ سہی ہے۔ میرا سبجیکٹ بھی نہیں ہے پھر بھی میں ہی اس کے کام کروں۔ نالائق آدمی۔" روحان چڑچڑے انداز میں بول رہا تھا مگر رضا اسے اگنور کرتا شعیب کی طرف آیا۔
"تم لوگ جاؤ میں آتا ہوں۔" شعیب نے کہا تو وہ دونوں سر ہلاتے چلے گئے۔ وہ ان دونوں کے جانے کے بعد آمنہ کے پاس گیا۔ ایک ہاتھ جیکٹ کی جیب میں ڈالے دوسرے سے بالوں کو پیچھے کرتا وہ بات شروع کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"یہاں اکیلی کیوں کھڑی ہو؟" اس کو اکیلا دیکھ کر پوچھا۔
"وہ عریشہ کو سر نے روک لیا تھا۔ اب اس کا ویٹ کر رہی ہوں۔" اس نے آہستہ سے جواب دیا۔
"آمنہ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔" بہت ہمت جمع کر کے وہ بات کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ آمنہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
"دیکھو۔ مجھے غلط مت سمجھنا۔ پچھلے چھ مہینے سے میں تمہیں جانتا ہوں۔ تم مجھے پہلی نظر میں ہی پسند آ گئی تھی۔ مگر میں نے اسے محض پسندیدگی سمجھ کر اگنور کیا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ تم جب کہو گی میں تمہارے گھر اپنے والد کو بھیج دوں گا۔ مگر پہلے تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو۔" اس نے بہت آرام سے بات کی۔ حالانکہ دل معمول سے کئی گنا تیز دھڑکنے لگا۔ آمنہ نے پہلے حیران ہو کر دیکھا۔ وہ شعیب کی نظریں خود پر اکثر محسوس کرتی تھی۔ اس کے بار بار مخاطب کرنے پر وہ چڑ جاتی تھی۔ مگر اسے شعیب سے ایسے اچانک اعتراف کی امید نہ تھی۔
"میں نہیں جانتی آپ کو میری کس بات سے غلط فہمی ہو گئی ہے۔ مگر میری زندگی میں ابھی ایسے کسی رشتے کی گنجائش نہیں ہے۔ اور جہاں تک بات ہے محبت کی۔ تو اس محبت نامی جزبہ پر مجھے یقین نہیں ہے۔ میرے خیال میں اس میں کوئی سچائی نہیں ہوتی۔" اس نے دل کی بات کی۔ آخر میں وہ ذرا تلخی سے بولی تھی۔
"میری محبت سچی ہے آمنہ۔ کیا ثبوت دوں اس بات کا۔" وہ احتجاجاً سوال کر رہا تھا۔
"محبت کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ صرف ایک دھوکہ ہوتا ہے۔ آپ کو بھی محبت نہیں ہے۔ یہ وقتی جزبہ ہوگا۔ کچھ وقت میں آپ کو یہ بات خود سمجھ آ جائے گی۔" وہ تلخ لہجے میں مگر اپنی نرم آواز کے ساتھ بولی تھی
"محبت حقیقت ہے۔ تمہیں محبت پر یقین نہیں ہے تو میرا تم سے وعدہ ہے محبت پر تم ایمان لاؤ گی۔ میں نہیں جانتا کس وجہ سے تم محبت سے بدظن ہو۔ مگر میری محبت سچی ہے اس بات کا اقرار تم خود کرو گی۔" وہ پر یقین لہجے میں بولا۔
"آپ مجھے غلط مت سمجھئے گا مگر آپ جس محبت پر اتنا پر اعتماد ہیں نا۔ یوں سمجھ لیں میں اس کے قابل نہیں ہوں۔ آپ اپنی محبت کسی اپنی جیسی کے لئے سنبھال کر رکھیں۔ مجھے محبت نہیں چاہئے۔" وہ تلخ ہوتی جا رہی تھی۔
"تم میری محبت کو قبول نہیں کرتی نہ کرو مگر میں اپنی محبت کی انسلٹ برداشت نہیں کروں گا۔ میری محبت بہت قیمتی ہے۔ اس کو میں سنبھال کر رکھوں گا۔ مگر ایک بات۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ مگر اب بات چونکہ میری محبت کی سچائی پر آ گئی ہے تو اب اس کو ثابت میری محبت خود کرے گی۔ وعدہ کرتا ہوں اب میں تم سے کچھ نہیں کہوں گا۔ آج اظہار کر دیا ہے اب میری طرف سے خاموشی ہوگی۔ اب جب بولو گی تم بولو گی۔" اب کے وہ ذرا سخت مگر اور بھی زیادہ یقین سے بولا۔
"آپ کچھ بھی کہہ لیں۔ سچ تو یہ ہے کہ محبت نامی کسی چیز پر میں یقین نہیں رکھتی۔ محبت کی حقیقت صرف پا لینے تک ہے۔ اس کے بعد سب آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے۔" وہ بھی اپنی بات پر قائم تھی۔
"اچھا ایک بات پوچھوں؟" اچانک شعیب نے لہجہ نارمل کیا۔
"جی پوچھئے۔" وہ بھی نارمل انداز میں بولی۔
"کیا تم کبھی شادی نہیں کرو گی؟" سوالیہ انداز تھا۔
"کروں گی۔ مگر اپنے پیرنٹس کی مرضی سے۔ جس سے وہ لوگ چاہیں گے اس سے۔ تاکہ ایسے ہی کم از کم ان لوگوں کو۔۔۔ " کہتے کہتے وہ خاموش ہو گئی۔ نا جانے کیا تھا اس کے لہجے میں۔ کوئی دکھ تھا شاید۔
"میں تمہارے پیرینٹس کو منا لوں گا۔" وہ خوش تھا۔ یہ معاملہ اتنا آسان ہوگا اس نے سوچا نہ تھا۔
"نہیں پلیز۔ آپ میرا نظریہ شاید کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے یہ بات یہیں ختم کریں۔" آمنہ نے حتمی لہجے میں کہا۔
"تو تم سمجھا دو کیا وجہ ہے تمہارے اس انکار کی۔" شعیب اب کہ چڑ گیا۔ عجیب بندی ہے۔ نہ خود راضی ہو رہی ہے نہ والدین سے بات کرنے دے رہی ہے۔ چاہتی کیا ہے۔
"دیکھیں مجھے اس بارے میں مزید بات نہیں کرنی۔ برائے مہربانی آپ اپنے قیمتی جزبات کو سنبھال کر رکھیں۔ کسی ایسے کے لئے جو ان پر یقین کرے۔" اس نے بات ختم کی اور آگے بڑھ گئی۔ وہ اس کی پشت دیکھتا رہا۔ جیکٹ کی جیب سے ہاتھ نکالا۔ ہاتھ میں وہ بریسلیٹ تھا جو اس نے آمنہ کی برتھڈے پر لیا تھا اس کے لئے۔ وہ اسے دیکھنے لگا۔
"تم میری محبت کو نہ مانو۔ میری محبت اپنا آپ منوا لے گی۔ اتنا تو مجھے یقین ہے۔" بریسلیٹ کو دیکھتے ہوئے وہ دل ہی دل میں آمنہ سے مخاطب تھا۔ پھر بریسلیٹ واپس جیب میں رکھ لیا۔ مگر تبھی کندھے پر پڑنے والے دو زوردار ہاتھ اس کا دل دہلا گئے۔
"دل جڑے بنا ہی ٹٹ گئے، ہتھ ملے بنا ہی چھٹ گئے ، کی لکھے نے لیکھ قسمت دےےےے۔" روحان بڑے مزے سے گا رہا تھا۔
"تم دونوں لائبریری نہیں گئے تھے؟" شعیب نے حیرت سے پوچھا۔
"نہیں۔" روحان نے بتیسی دکھائی۔
"دراصل ہم نے تیری نظریں کسی پر جمی ہوئی دیکھ لی تھیں۔ اور ہمیں یہ بھی پتہ تھا کہ تو ہمارے سامنے تو جائے گا نہیں بات کرنے۔ بس اسی لئے۔" رضا نے کہہ کر کندھے اچکا دئے۔
"کس قدر زلیل ہو تم دونوں۔" شعیب غصے سے گھورتے ہوئے بوکا۔
"بس کبھی غرور نہیں کیا۔" رضا نے داد وصول کرنے والے انداز میں کہا۔
"خیر میں کیا گا رہا تھا؟ ہاں۔ چھن سے جو ٹوٹے کوئی سپنا، جگ سونا سونا لاگے۔" روحان نے دوبارا گانا شروع کر دیا تھا۔ شعیب جانتا تھا اب جان نہیں چھٹنے والی۔
BINABASA MO ANG
دیوانگیٔ شوق (مکمل ناول)
General FictionDeewangi e shouq: دیوانگیٔ شوق: دوستی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مخلص دوست کسی سایہ دار درخت کی طرح ہوتے ہیں۔ لیکن بے غرض اور مخلص دوست بھی قسمت والوں کو ملتے ہیں۔ یہ کہانی ہے چند لاابالی سے دوستوں کی۔ جو یوں تو "سنجیدگی" لفظ سے ناآشنا ہیں لیکن حق کی...