من محرم سیاّں قسط نمبر 1.

735 21 13
                                    

#don_not_copy_paste _without _my permission

آج اس کی یونیورسٹی کا پہلا دن تھا۔اندر داخل ہوئی اندر داخل ہوتے ہی ایسا لگا رنگ و بو کا سیلاب امڈ آیا ہو... اس کے دل میں عجیب احساسات پیدا ہورہے تھے گھبراہٹ اور شاید نئے لوگوں کا سامنا کرنے کا سوچ کے ہچکچاہٹ بھی ہورہی تھی. ایسا نہیں تھا کہ وہ کوئی ڈرپوک قسم کی لڑکی تھی پر شاید اتنے بڑے شہر کئ اتنی بڑی یونیورسٹی اور بالکل ہی الگ ماحول .اور شاید ایسا اس لیے تھا کہ وہ کبھی مخلوط ادارے میں نہیں پڑھنے کے لیے گئی لیکن ان سارے احساسات کے باوجود وہ خود کو کمزور ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ ایک پراعتماد لڑکی تھی...

****************
فون کی گھنٹی مسلسل شور مچا رہی تھی مگر اس کی صدا کوئی سننے کو تیار نا تھا. ایسا لگ تھا جیسے فون کرنے والے اور اٹھانے والے دونوں نے قسم اٹھا رکھی تھی . ایک نے فون کرتے رہنے کی اور دوسری طرف نہ اٹھانے کی.

ارے یار کیا مصیبت ہے یہ فون کیوں نہیں اٹھا رہا کب سے کر رہا ہوں.

پڑآ سو رہا ہوگا کہیں تم کیوں اپنا دماغ خراب کر رہے ہو جب اسے ہی فرق نہیں پڑتا تو.سعد نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا -

Ooo please shut your mouth.

بلال نے

غصے سے گھورا. اوکے اوکے اب نہیں بولوں گا سعد نے سیز فائر کرتے ہوئے ک

کہا-لیکن پتا بھی تو چلے کہ اب کی بار جناب نے ایسا کیا کر دیا جو تم بن آب مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہو -بلال نے ایک لمبی سانس اندر کی طرف کھینچی جیسے خود کو ریلیکس کرنے کی کوشش کر رہا ہو.اب منہ سے بول بھی چکو...وہی کیاجو ہمیشہ کرتا ہے آج پھر کسی کی دھلائی کر کے آیا ہے اور اب نہ فون اٹھا رہا ہے نہ ہی میسجزکا ریپلائی کر رہا ہے - تو . اب کیا کرو گے ؟سعد نے کچھ سوچتے ہوئے پو چھا! کچھ تو کرنا پڑے گا نہیں تو بہت بری طرح جھاڑ پلائیں گے دا جی اسے..... کچھ ایساسوچنا ہوگا جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے -

اور یہ بھی ٹھیک کریں ( بلال تمہیں نہیں لگتا تم اسے کچھ زیادہ ہی فیور دیتے ہو اوہ آئی مین یہ اس کےلیے ٹھیک نہیں ہے اگر ایسا ہی رہا تو کہیں وہ یہ سب الٹ نہ کر دے. آئی مین ,اس طرح اگر اس کی ہر بات مانیں گے تو ضدی نہ ہو جائے -سعد نے پر سوچ انداز میں کہا - نہیں سعد تم اسے جانتے ہی کتنا ہو وہ بیشک نان سیریس ایٹیٹیوڈ شو کرواتا ہے اسے ہر چیز اور ہر رشتے کا احساس ہے....خیر جانے دو اس بحث کو تم یہ سب نہیں سمجھ سکتے اور گاڑی کی چابی اور والٹ اٹھاتا باہر نکل گیا -اور سعد بھی کندھے اچکا کے روم میں چلا گیا.

**************************

آج اس کی یونیورسٹی کا پہلا دن تھا اور وہ داخل ہوئی یونیورسٹی میں ایسے لگ رہا تھا جیسے رنگ و بو کا سیلاب امڈ آیا.. اپنے ڈپارٹمنٹ میں آکر کلاس روم کی طرف بڑھی اسے لگ رہا تھا جیسے سب اپنے اپنے کام چَھوڑ کے اسے ہی دیکھ رہے ہوں پھر بھی وہ خود کو کمپوز کرتی تیسری قطار میں ایک چیئر پر بیٹھ گئی...پھر لیکچر لینے کے بعد پارکنگ کی طرف جاتے اس کی نظر گراؤنڈ میں پڑی جہاں کوئی لڑکا دوسرے لڑکے کو بری طرح پیٹ رہا تھاتھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک دم سے شور ہونے لگا -شاید کوئی پروفیسر لڑائی کا سن کے وہاں آ گئے تھے پر اس سے زیادہ اس میں دیکھنے کی ہمت نہیں تھی اور وہ پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ گئی اور اب گاڑی میں بیٹھی وہ اس لڑکے کے بارے میں سوچ رہی جو اس بیچارے لڑکے کو بری طرح پیٹ رہا تھا کیاواقعی ایسے لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور ان کی تعلیم انہیں یہی سکھاتی ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے نہیں یہ پڑھے لکھے نہیں بلکہ پڑھے لکھے جاہل تھے جو اپنی دولت کے زعم میں باقی لوگوں کو کوئی اور ہی مخلوق سمجھتے ہیں اور خود کو خدا سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ یہ بھول جاتے ہیں وہ خدا جو یکتا ہے وہ سب دیکھ رہا ہے اور ایک نہ ایک دن اس سب کا حساب ضرور لے گا-وہ یہ سب صرف سوچ سکی تھی --

من محرم سیاں Where stories live. Discover now