"پیپرز کے بعد میری منگنی ہے"۔۔اقصی نے بتایا
"مبارک ہو۔" ان دونوں نے اسے کہا
"خیر مبارک !" اقصی نے جواب دیا
"یار بس اب سیریس ہونا ہے اور پیپرز کی تیاری کرنی ہے" ۔فری نے کہا
"مجھے یار ایسسمنٹ کے پیپر کی ٹینشن ہے۔ایک تو مس شمیم سمجھا ٹھیک نہیں پاتیں اور پھر مجھ سے تو خیر انکو ہے ہی بیر۔" عرشی نے کہا
"ہاں یار !پتہ نہیں کیوں اس بیچاری کے پیچھے وہ لگی رہتی ہیں۔" اقصی نے فری سے کہا
"اگر وہ یہی سب کرتی رہیں تو میں نیکسٹ سیمسٹر میں ایڈمیشن نہیں لونگی۔" عرشی نے کہاتو فری جو کب سے عرشی کو دیکھ رہی تھی اسنے کہا
"میں بتا رہی ہوں کالج مت چھوڑنا " ۔تو عرشی نے آنکھوں میں آئے آنسو وں کو بڑی مشکل سے پیچھے دھکیلا
اتنے میں انکی کلاس میں مس نسرین داخل ہوئیں۔کلاس میں غیر معمولی خاموشی دیکھ کر انہوں نے کہا
"کیا بات ہے ؟ آج سب بہت خاموش ہیں "۔تو فری نے ان سے کہا
"مس آپ سے ایک بات کرنی تھی۔"
"کیا بات ؟" انہوں نے چشمے کے پیچھے سے انہیں دیکھا
"وہ مس میم شمیم کا رویہ عرشی کے ساتھ اچھا نہیں ہے۔وہ بلا وجہ اس پر طنز کرتی رہتی ہیں" ۔فری نے بتایا
"اصل میں بیٹا یہ انکی عادت ہے ۔انکو اچھا لگتا ہے کہ بچے انکے آگے پیچھے گھومیں۔انکی تعریف کریں۔اور جوبچیاں نہیں کرتیں پھر وہ انہیں زہنی ٹینشن دیتی ہیں۔لاسٹ ائیر بھی کچھ بچیوں کو ان سے یہ شکایت ہوئی تھی " ۔انہوں نے بتایا اور پھر کہا
"عرشی بیٹا ! آپ تھوڑا مس کے آگے پیچھے ہواکرو۔جب وہ کلاس میں داخل ہو تو کہہ دیا کرو کہ مس آپ پر تو یہ اسکارف آج بہت اچھا لگ رہا ہے۔اس طرح تم اسکے طنز سے بھی بچو گی" ۔۔انہوں نےسمجھایا اور پھر ان سے پوچھا
"اور کوئی مسئلہ ؟"
"نو مس ! " ان لوگوں نے کہا تو انہوں نےآج کا لیکچر دینا شروع کر دیا ۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
وہ کالج سے تھکی ہاری گھر گئی اور بغیر کھانا کھائے سو گئی۔
کل رات وہ تین بجے تک اسائمنٹ بناتی رہی تھی اسلئے اب وہ نیند سے پاگل ہو رہی تھی۔
مغرب کی آذانیں ہو رہی تھیں جب اسکی آنکھ کھلی۔ تو اسنے پہلے تو جاکر منہ دھویا اور پھر کمرے سے باہرآئی تو اسے لاونج میں ضمیر بیٹھا نظر آیا جو آج خلاف معمول گھر پر تھا ۔
ضمیر نے اسے دیکھا تو کہا
"اوہو !لوگ سو کر اٹھ گئے تو وہ ہنستی ہوئی اسکے پاس بیٹھ گئی۔"
"ہاں لوگ اٹھ گئے ہیں۔ویسے آپ بتائیں آپ آج کیسے اتنی جلدی گھر آگئے ؟ " عرشی نے کہا
"ہمارے اور تمھارے والد محترم کاحکم تھا بہنا !" اسنے ٹی وی کی آواز ریموٹ سے بند کرتے ہوئے کہا
"مطلب ؟ " عرشی نے پوچھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا
جاوید صاحب بھی لاونج میں آگئے ۔
"بابا بھی گھر پر ہیں ؟" اسنے آہستہ سے ضمیر سے پوچھا
"ہاں ! " اسنے جواب دیا
"کیوں سب گھر پر جمع ہیں ؟" عرشی نے پوچھا
"کیونکہ دعوت میں جانا ہے " ۔ضمیر نے کہا
"کونسی دعوت ؟ کہاں کی دعوت ؟" اسنے پوچھا
"یار حسین انکل کے گھر دعوت ہے۔علی کی صحتیابی کی خوشی میں انہوں نے دعوت رکھی ہے" ۔ضمیر نے ملازمہ کی لائی ہوئی ٹرے سے اپنا چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا
"جبکہ وہ انکے گھر جانے کا سن کر ہی پریشان ہو گئی" ۔اور دل ہی دل میں کوئی بہانہ سوچنے لگی۔
وہ کسی بھی صورت علی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔جبکہ دوسری طرف علی بے تابی سے اسکے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"چلو عرشی تیار ہو جاو" ۔انہوں نے اسے کہا
"امی آپ لوگ جائیں ۔مجھے کچھ ضروری نوٹس تیار کرنے ہیں۔" عرشی نے انہیں جواب دیا
"بیٹا واپس آکر بنا لینا۔" جاوید صاحب نے اسکی بات سن کر اسے کہا
"بابا پیپرز قریب ہیں۔میں اب لاپرواہی نہیں کر سکتی" ۔عرشی پریشانی سے بولی
"لیکن حسین بھائی نے اس دن ہسپتال میں بھی تمہیں لانے کا کہا تھا اورآج بھی وہ بار بار تمہیں لانے کا بول رہے تھے۔ان کو برا لگے گااگر تم نہیں جاوگی"۔اسکی والدہ نے کہا
"امی پلیز ! مجھے بہت کام کرنا ہے۔"اسنے مزید عاجزی سے کہا تو جاوید صاحب نے اسکی والدہ کو اشارے سے مزید کچھ کہنے سے منع کردیا تو وہ خاموش ہو گئیں۔
تقریبا ایک گھنٹے کے بعد وہ لوگ اسے گھر پر چھوڑ کر خود دعوت میں چلے گئےتھے ۔
وہ انکے جانے کے بعد کچھ دیر تک غائب دماغی کے عالم میں صوفے پر بیٹھی رہی ۔پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
نوٹس بنانے کا اسکاکوئی دل نہیں کر رہا تھا اسلئے وہ خاموشی سے لیٹ گئی۔
"اسکا مطلب ہے ابھی علی نے کسی کو کچھ نہیں بتایا ۔ورنہ حسین انکل بابا کو بتادیتے
لیکن اسنے کیوں نہیں بتایا ؟" اسنے سوچا
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
دعوت کا انتظام انہوں نے اپنے گھر کے لان میں ہی کیا تھا۔کچھ قریبی رشتے دار اور کچھ قریبی دوست احباب کو ہی مدعو کیاگیا تھا ۔لیکن پھر بھی اچھے خاصے لوگ جمع ہو گئے تھے۔
حسین صاحب نے جیسے ہی جاوید صاحب اور انکی فیملی کو آتے دیکھا تو فورن انکی طرف بڑھے ۔انکے ساتھ ہی انکے پاس کھڑا علی بھی انکے پیچھے چل پڑا
ان سے سلام دعا کرنے کے بعد انہوں نے عرشی کے بارے میں پوچھا
"عرشی نہیں آئی ؟ "
"وہ اسکے پیپرز ہونے والے ہیں تو وہ انکی تیاری کر رہی تھی اسلئے وہ نہیں آئی۔ " عرشی کی والدہ نے بتایا توحسین صاحب نے مسکرا کر سر ہلایا اور پھر علی کو دیکھا
جس کے چہرے پر چھائی چمک عرشی کے نا ں آنے کا سن کر ماند پڑ گئی تھی۔
جب سے انہوں نے اسکی گاڑی میں سے بریسلیٹ اٹھایا تھا تب سے انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ان سے جھینپنے لگا ہے۔۔
وہ اسے وقت دے رہے تھے کہ وہ خود ان سے دوبارہ رشتہ مانگنے کا بولے۔
لیکن وہ تو چپ کا روزہ رکھ کر بیٹھ گیا تھا۔
ا نہوں نے اسے دیکھتے ہوئے دل میں سوچا اور پھر سامنےسے آتے اپنے ایک دوست کی طرف بڑھ گئے۔
YOU ARE READING
یادگار لمحے (Completed)
Humorیہ کہانی ہے دوستوں کی ،یہ کہانی ہے محبت کی،یہ کہانی ہے احساس کے رشتے کی جو بغیر خون کے رشتے کہ ایک دوسرے سے محبت کی ڈور میں بندھے ہیں۔یہ کہانی ہے ان دوستوں کی جنھوں نے اچھے برے وقت میں ایک دوسرے کو تھامے رکھا۔