Episode 18

243 26 38
                                    

علی نے گھر کے گیٹ کے سامنے گاڑی روکی اور اسے   اترنے کا کہا تو وہ خاموشی سے اتر گئی۔
"مجھے عمر کے گھر جانا ہے۔پاپا اندر ہونگے"۔۔کہتے ہوئے وہ گاڑی آگے بڑھا گیا۔
اسکے جانے  کے بعد اسنے گھنٹی بجائی  تو رحیم نے آکر دروازہ کھولا اسے دیکھا تو فورن کہا
"آئیں عرشی بی بی " تو وہ خاموشی سے  اسکے ساتھ اندر  کی طرف بڑھ گئی
جیسے ہی وہ گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو اسے انکل مالی کے پاس کھڑے پودوں کی کٹنگ کراتے دکھائی دئیے ۔وہ چلتی ہوئی انکے پاس گئی  اور کہا
"اسلام و علیکم "۔اسکے اچانک  کہنے پر انہوں نے پیچھے مڑ کےدیکھا اور پھر وعلیکم سلام کہتے ہوئے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"علی کہاں ہے ؟ وہ تمہیں لیکر نہیں آیا؟"
"وہ انکو عمر کے گھر جانا تھا"۔اسنے بتایا  تو انہوں نے سر ہلایا
"اچھا آو اندرچل کر بیٹھتے ہیں"۔۔وہ اسےاپنے  ساتھ لئے اندر کی طرف بڑھ گئے۔
"گھر میں سب ٹھیک ہیں ؟ " انہوں نے پوچھا
"جی" ۔اسنے جواب دیا تب ہی رحیم وہاں آیا
"عرشی بی بی آپ کیا پئیں گی؟" 
"چائے۔"اسنے کہا تو وہ  سر ہلا کر کچن کی طرف بڑھ گیا۔
"ہاں اب بولو!کیا بتانا تھا؟ "انہوں نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا
"پہلے آپ مجھے ایک بات بتائیں گے ؟ " اسنے کہا
"ہاں ؟ " انہوں نے حیرت سے اسے تکتے ہوئے کہا
"آپ  نے انکو مجھ سے نکاح کے لئے فورس کیا تھا ؟" اس نے پوچھا 
"عرشی بیٹے ؟"  انہوں نے حیرت سے اسکا نام لیا  
"پلیز بتائیں انکل!" اسنے کہا
"نہیں!بلکہ اسنے خود مجھے کہا تھا کہ میں تمھارا  ہاتھ مانگو۔"انہوں نے علی کا راز فاش کیا
"لیکن وہ مجھے پسند نہیں کرتے۔وہ اسرا سے محبت کرتے ہیں۔" اس نے کہا
"بیٹا تم غلط سمجھ رہی ہو۔وہ اسرا کو اگر پسند کرتا تو اسی سے شادی کرتا" ۔انہوں نے حیرت سے کہا
"انہوں نے آپکی خوشی کے لئے مجھ سے شادی کی ہے"  ۔اسنے کہا
"ایسی بات نہیں ہے۔وہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔" انہوں نے کہا
"آپ بھی انکی سائیڈ لے رہے ہیں" ۔وہ غصے سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
"عرشی میری بات سنو!" انہوں نے اسے پکارا لیکن  وہ بھاگتی ہوئی  گلاس ڈور کھول کر باہر نکل گئی۔
تب ہی  رحیم وہاں چائے لیکر  آیا۔اسے وہاں نہیں دیکھا تو کہا
"عرشی بی بی کدھر ہیں صاحب ! "
"باہر  گئی ہے۔جاو  تم دیکھو۔کہی گھر سے باہر ناں چلی جائے۔"انہوں نے  کہا تو وہ جی کہتا وہاں سے چلا گیا۔
جبکہ وہ انکے گھر سے نکل آئی تھی اور اب روتی ہوئی سڑک کنارے چلتی جا رہی تھی۔
رحیم نے لان میں ادھر ادھر دیکھا جب وہ اسے وہاں نا دکھائی دی تو اسنے  مالی بابا سے عرشی کا پوچھا
"ہاں وہ ابھی باہر گئی ہیں۔" انہوں نے بتایا تو وہ  اسکے پیچھے باہر نکل پڑا۔
کچھ ہی دیر میں اسے وہ سڑک کنارے جاتی دکھائی دی تو وہ بھاگتا  ہوا اسکے پاس گیا اور کہا
"گھر چلیں عرشی بی بی۔صاحب پریشان ہو رہے ہیں"۔
"مجھے نہیں جانا  ۔تم جاو گھر۔" اسنے کہا
"عرشی بی بی بات کو سمجھیں علی بھائی غصہ ہونگے۔" رحیم نے کہا
"تم جاو گھر۔" اسنے پھر اسے کہا 
"اچھا میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ آتا  ہو"۔اسنے سنسان سڑک کو دیکھتے ہوئے کہا 
"میں چلی جاونگی۔" اس نے کہا اور تب ہی ایک آٹو اسے آتا دکھائی دیا تو وہ اسے روک کر اندر بیٹھ گئی۔تو وہ گھر واپس چلا گیا۔
"ملی عرشی؟ "حسین صاحب جو اس وقت گیٹ کےپاس ہی ٹہل رہے تھے۔انہوں نے پوچھا 
"وہ گھر چلی گئی ہیں" ۔اسنے بتایا
"کیسے چلی گئی ؟ " انہوں نے پوچھا
"آٹو میں گئیں ہیں " ۔ اسنے بتایا 
"اچھا تم جاو کام کرو" ۔انہوں نے اس سے کہا اور  خود جاکر  خاموشی سے  لان چئیر پر بیٹھ گئے۔
انہیں  لگ رہا تھا کہ  عرشی بہت بڑی غلط  فہمی کاشکار ہو چکی ہے۔اور وہ اب علی سے اس سلسلے میں کھل  کر بات کرنے کا سوچ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"اوو تو محترم علی صاحب آج عرشی بھابھی کے ساتھ شاپنگ پر گئے تھے ۔" عمر نے کہا تو وہ ہنسا
"ہاں" ۔اسنےچمکتی آنکھوں سے  جواب دیا
"تم نے بتا دیا  عرشی   بھابھی کو اسرا کی شادی کا ؟"  عمر نے پوچھا
"نہیں ! میں اسے سرپرائز دینا چاہتا ہو۔اسرا کی شادی والے دن عرشی کو ساتھ لیکر جاونگا" ۔اسنے کہا
"اوئے ہوئے!" اسنے کہا
"ویسے یار ایک بات بتاو؟"  عمر نے  کہا
"ہاں ؟ تم کب سے اجازت لیکر باتیں بتا نے لگے ہو؟ ""اسنے کہا
"مجھے فارحہ پسند ہے۔"  عمر نے کہا
"ہیں ؟ اسرا کی بہن فارحہ؟"  اسنے پوچھا
"ہاں ؟ اس لڑکی کی مسکراہٹ بہت اداس ہوتی ہے۔"عمر نے سامنے دیوار کو دیکھتے ہوئے کہا
"اوئے ہوئے کیا بات ہے" علی نے اسے چھیڑا تو وہ  چھینپ گیا ۔
"فارحہ کو علم ہے ؟ " اسنے پوچھا
"نہیں۔اسے کچھ پتہ نہیں۔"عمر نے کہا
"مطلب یک طرفہ محبت ؟" علی نے کہا
"ہاں" ۔اسنے جواب دیا۔
"ایسا کر آنٹی کو اسکے گھر رشتے کے لئے بھیج دے"۔علی نے کہا
"لیکن میں اسکی رائے پہلے جاننا چاہتا ہو"۔عمر نے کہا
"وہ اسکے گھر والے جان لیں گے۔تمھارا کام ہے رشتہ بھیجنا۔" علی نے کہا
"اور اگر اسنے ناں کی تو ؟" عمر نے  خدشے کے تحت پوچھا
"وہ ہاں بھی کرسکتے ہیں۔اگر مگر میں ناں پڑو یار ۔بس خدا کا نام لیکر آنٹی کو اسکے گھر بھیجو"۔علی نے کہا
"چلو اسرا کی شادی کے بعد بھیجو ںگا۔"اسنے کہا تو  علی نے اسکے کندھے پر مکا مارا
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"اتنی جلدی آگئی تم ؟ "انہوں نے اسے صوفے پر بیٹھے دیکھا تو کہا
"جی !" اسنے جواب دیا
"بھائی صاحب ٹھیک ہیں ؟" انہوں نے پوچھا
"جی ! " اسنے کہا اور پھر اسکی نظر سامنے میز پر رکھے کارڈ پر پڑی تو اسنے کارڈ اٹھایا ۔
"یہ اقصی کی شادی کا کارڈ کون دیکر گیا  ہے ؟" اسنے پوچھا
"تمہارے آنے سے پہلے اقصی اپنی والدہ کے ساتھ آئی تھی۔"انہوں نے بتایا تو وہ  اچھا کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
"میں اپنے کمرے میں جارہی ہو امی۔"اسنے کہا تو انہوں نے کہا
"ہاں جاو بی بی! ایک وہی تمھاراحجرا ہے۔""انہوں نے کہا تو وہ جواب دینے  کے بجائے اندر کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
"تم لوگ  میری شادی میں آوگے ناں ؟ اسنے کانفرنس کال پر عرشی اور فری سے پوچھا"
"ہاں بھائی!کیوں نہیں آئیں گے ؟" فری نے کہا
"عرشی تم آو گی ناں ؟"  اسنے پھر دوبارہ عرشی سے پوچھا  
"کوشش کرونگی۔"عرشی نے جواب دیا
"کوشش نہیں کرنی تم نے آنا ہے" ۔اسنے کہا
"اچھا وہ بولتے ہوئے ہنسی۔"
"یار  عرشی پلیز آجانا۔کیا پتہ پھر کب ملنا ہو"۔ابکی بار فری نے کہا 
"کیا  بات ہے بھئی یہ ڈائیلاگ تو میرا تھا۔" اقصی نے  ہنستے ہوئے کہا
"میرے  بابا کی اسلام آباد پوسٹنگ ہو گئی ہے"۔فری نے بتایا
"ناں کرو یار" ۔عرشی نے بے ساختہ کہا
"سچی میں ۔اتنا برا لگ رہا ہے مجھے" ۔فری نے کہا
"مجھے لگ رہا تھا کہ عرشی نہیں آئے گی اور یہا ں فری صاحبہ  کا مسئلہ بن گیا ہے۔" اقصی نے منہ بسورتے ہوئے کہا
"تم بے فکر رہو۔۔۔تمھاری شادی کا کھانا کھائے بغیر تو میں مر بھی نہیں سکتی"۔۔فری نے کہا
"اچھا تو پھر تم لوگ کب شفٹ ہو گے ؟ "عرشی نے پوچھا
"بس یار اسکی شادی کے دو دن بعد ہی"۔فری نے جواب دیا
"میں اکیلی ہو جاونگی۔"عرشی نے کہا
"کیوں اکیلی کیوں ؟ علی بھائی ہیں ناں۔انکا دماغ کھانا"۔فری نے کہا
"وہ تو ہیں لیکن تم لوگوں کی بات الگ ہے"۔عرشی نے کہا
"ہم لوگ روز  ویڈیو کال کریں گے۔ہیں اقصی ؟" فری نے کہا
"ہاں ناں"۔اسنے جواب دیا
"لیکن اس میں وہ بات نہیں ہو گی   جو ساتھ  مل کر بیٹھنے میں ہوتی ہے۔"عرشی نے پھر افسردگی سے کہا
"یار میں خود تم دونوں کو مس کرنے والی ہو۔ہمارے کتنے پلانز تھے  کہ  ہم لوگ یونی میں بھی ایسی ہی مستیاں کریں گے جیسے  کالج میں کرتے تھے۔" فری نے  بھی آہ  بھرتے ہوئے کہا
"اگر میں پچھلے سالوں پر نظر دہراو ں تو  میں نے کبھی یہ سب خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔شاید اسے ہی زندگی کہتے ہیں۔"عرشی نے کہا
"یار  اب ایسی رلانے والی  باتیں ناں کرو تم لوگ۔"اقصی نے کہا
"جو گزر گیا ہے وہ وقت واپس نہیں آسکتا  ۔اور جو نصیب میں ہونا لکھا ہے۔اسے ہم   ہونے سے روک نہیں سکتے۔لیکن ہم  ان موجودہ لمحوں کو یادگار بنا سکتے ہیں۔اسلئے اب  مزید  یہ رونے والی باتیں نہ کی جائیں۔" فری نے کہا
"واہ اتنی اچھی بات  کی ہے تم نے فری۔۔ویسے اتنی اچھی بات تم نے سوچ کیسے لی۔" اقصی نے شرارت سے پوچھا
"میں بھی یہی سوچ رہی کہ میں نے اتنی اچھی بات سوچی کیسے۔"فری نے کہا تو وہ تینوں ہنسنے لگ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
وہ آکر ابھی اپنے بیڈ پر بیٹھا ہی تھا کہ رحیم  دروازہ ناک کر کے اسکے روم میں آیا اور کہا
"علی بھائی آپ کو صاحب نے اسٹڈی روم میں بلایا ہے۔"
"اچھا۔۔تم جاو آتا ہو۔" اسنے جواب دیا تووہ  چلا گیا۔
کچھ دیر وہ سستی سے بیٹھا رہا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔
"پاپا آپ نے بلایا تھا؟ " وہ آرام دہ کرسی پر بیٹھے کوئی کتاب  پڑھ رہے تھے جب اسنے انکو مخاطب کر کہ کہا
"ہاں تم سے کچھ  عرشی  کے بارے میں کچھ باتیں کرنی تھیں ۔" انہوں نے کہا اور اسے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ خاموشی سے بیٹھ گیا۔
"میں تم لوگوں کے معاملات میں نہیں بولنا چاہتا تھا۔لیکن عرشی کا رویہ دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ مجھے تم سے بات کرنی چاہیے۔" انہوں نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا  تو وہ تھوڑا پریشان ہوا
"پاپا کیا ہوا  ہے ؟ عرشی نے کچھ کہا ہے ؟ "اسنے پوچھا اس بات پر وہ ایک لمحے کے لئے سوچ میں پڑ گئے اور پھر اسے بتانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تو وہ ایک لمحے کے لئے دنگ رہ گیا
"وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ کیامیں نے تمہیں اس سے نکاح کے لئے فورس  کیا تھا؟" انہوں نے بتایا تو اسکا منہ حیرت سے کھلا
انہوں نے اسکی حیرت دیکھتے ہوئے مزید کہا
"اسکا یہ بھی کہنا تھا کہ تم اسرا سے محبت  کرتے ہو۔"انکی بات سن کر اسنے  کچھ  بولنا چاہا لیکن انہوں نے  ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا اور پھر  اپنی بات آگے بڑھائی
"اسکے دل میں بے حد بدگمانی ہے علی۔جب میں نے  اسکی غلط فہمی دور کرنی چاہی تو مجھ سے بھی ناراض ہو کر چلی گئی۔" انہوں نے بات ختم کر کے اسکی طرف دیکھا  جو سر جھکائے ہوئے تھا ۔ وہ اسکے چہرے  کو نہیں دیکھ پائے تھے ۔لیکن انہیں علم تھا کہ وہ غصے میں ہے۔اسلئے انہوں نے کہا
"وہ بچی ہے۔نادان ہے۔لیکن اس سب میں تمھاری بے حد غلطی ہے علی۔تم نے اسکے خدشات کبھی ختم نہیں کئے "۔انکی بات سن کر اسنے سر ٹھایا اور کہا
"میں مانتا ہوں کہ میری غلطی ہے کہ میں نے کبھی اسکے خدشات ختم نہیں کئے لیکن  پاپا اسے اتنا تو سمجھنا  چاہیے تھا نا کہ  میں نے اس سے  نکاح  اسلئے ہی کیا  تھا کیونکہ میرے دل میں اسکے لئے جزبات تھے"۔اسکی بات سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر کہا
"میں چاہتا ہونکہ تم اسکی بد گمانی دور کرو"۔انکی اس بات پر اسنے سر اٹھا کر انہیں دیکھا ضرور لیکن کہا کچھ نہیں۔
کچھ دیر دونوں میں خاموشی چھائی رہی  پھر انہوں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
"تم شوہر ہواسکے۔وہ اگر اسرا سے جیلس ہوتی ہے تو یہ اسکاحق ہے۔لیکن تم اسکی  بدگمانی کو اپنی نرمی سے مٹا سکتے ہو "۔۔وہ خاموشی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"پاپا میں جاو ؟" اسنے سنجیدگی سے پوچھا
"علی ! عورت مرد کی پسلی سے بنائی گئی ہے۔سختی کرو گے  تووہ  ٹوٹ تو جائے گی لیکن بات نہیں مانے گی۔اگر تم نے اس سے کوئی بھی بات منوانی ہے تو نرمی سے پیار سے بات کر و۔۔وہ مان جا ئے گی۔یہ عورت کی فطرت ہے۔کیونکہ اسکاخمیر ہی پیار سے اٹھا ہے۔
اور یہ بات یاد رکھنا نسلی عورت  کو کوئی مادی  غیر مادی چیز   زیر نہیں کر سکتی سوائے پیار کے۔عورت اگر دھوکہ بھی کھاتی ہے تو پیار کے نام پر کھاتی ہے ۔۔سمجھ رہے ہو ناں میری بات ۔۔"انہیں اسکی خاموشی سے خوف آرہا تھا  تب ہی اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا
"جی"۔۔اسنے جواب  دیا
"ٹھیک ہے پھر جاو تم "۔۔۔انہوں نے کہا تو وہ  وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"یہ پاپا سے یہ سب کیسے کہہ سکتی ہے"۔اسنے غصے سے ادھر ادھر ٹہلتے ہوئے سوچا اور  پھر پانی  کی بوتل اٹھا کر پانی پینے لگا۔۔
جب تھوڑا ریلیکس ہوا تو  اسنے خود سے کہا
"مجھے اس سے بات کرنی چاہیے "۔سوچتے ہوئے سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر  اسکا  نمبر ڈائل کرنے لگا۔۔
کچھ دیر کے بعدہی کال ریسیو کر لی گئی۔
"ہیلو!" اسنے کہا
"مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔اسلئے جب تک میری بات ختم  ناں ہوجائے کال بند مت کرنا"۔اسنے  غصے سے کہا
"میں آپکی نوکر نہیں ہو۔"عرشی نے کہا تو  اسکی بات سن کر اسکے  مزید آگ لگ گئی۔
"ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو۔تم  میری نوکر بننے کے بھی قابل نہیں تھی ۔میں نے تمہیں  بیوی بنا لیا"۔علی کی بات سن کر وہ   ایک لمحے کے لئے سانس لینا بھول گئی۔جو بھی تھا علی نے آج تک اسکی بے انتہا بد تمیزی پر بھی ایسا جواب نہیں دیا تھا۔
"علی"۔۔۔۔اسکے منہ سے سرسراتا ہوا اسکا نام نکلا
کوئی اور وقت ہوتا تو وہ خوشی سے جھوم اٹھتا لیکن اس وقت وہ انتہائی غصے میں تھا۔
"ہاں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔بلکہ تم ٹھیک کہتی ہو مجھے اسرا سے شادی کرنی چاہیے تھی لیکن  مجھے  پاگل کتے نے کاٹ لیا تھا کہ تم سے محبت کر بیٹھا  اور اس چکر میں نکاح بھی پڑھوالیا"۔۔اسنے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا 
دوسری طرف اسکی بات سن کر عرشی نے بے ساختہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔آنسو اسکے گالوں کو بھگو رہے تھے۔
"تمہیں پتہ ہے عرشی  پاپا مجھ سے زیادہ تم سے پیار کرتے ہیں۔لیکن تم نے آج انکے  پیار پر بھی انگلی اٹھا ئی ہے۔تم نے انکا دل دکھایا ہے اور اسکے لئے میں تمہیں معاف نہیں کرونگا۔" اسنے مزید کہا وہ  کچھ کہنے کے بجائے سسکتی رہی۔
"تم نے  کہا تھا کہ تمھارے ہاتھ میں ہوتا تو تم نکاح ناں کرتی تو آج میں تمہیں اس بات سے بھی آزاد کرتا ہو"۔۔اسکی بات سن کر اسنے ہاتھ منہ پر رکھ کر چیخ کو روکا
"میں تمہیں پسند نہیں ہو ناں مجھ سے نکاح کرنا تمہیں پسند نہیں تھا میرے گھر آنا تمہیں پسند نہیں آیا تھا تو عرشیہ جاوید صاحبہ آئندہ کے بعد آپ اس زحمت سے آزاد ہو جائیں گیں۔" اسنے کہا
"علی  میری بات سنیں۔"لیکن وہ سنی ان سنی کرتا کال بند کر گیا۔
جبکہ وہ روتی ہوئی وہی کارپٹ پر بیٹھ گئی۔
"مجھے ان سے بات کرنی چاہیے"۔۔اسنے سوچا اور کال ملانے لگی۔
دوسری طرف علی  نے اسکی  کال دیکھی اور پھر ریجیکٹ کر دی۔اسنے دوبارہ کال کی تو اس بار بھی اسنے کال کٹ کر دی۔
"یااللہ میں اب کیا کرو۔یہ تو ناراض ہو گئے ہیں"۔اسنے روتے ہوئے سوچا اور پھر اسے میسج لکھا
"مجھ سے بات کریں۔"  جیسے ہی علی نے اسکا میسج پڑھا  تو موبائل اٹھا کر دیوار پر دے مارا اور پھر سائیڈ ٹیبل سے سلیپنگ پلز نکال کر کھائیں اور سونے کے لئے لیٹ گیا ۔اس وقت وہ صرف سکون چاہ رہا تھا۔۔
اسے علم تھا آج رات بغیر گولیوں کے نیند نہیں آنی۔اسلئے اسنے  اپنے آپ کو پرسکون رکھنے کے لئے گولیوں کا سہارا لیا۔اور تھوڑی دیر میں وہ نیند میں کھو گیا۔
"دوسری طرف وہ پوری رات روتی رہی تھی۔اسے علی کے غصے سے ڈر لگ رہا تھا۔وہ اس سے کسی صورت دوری نہیں جانا چاہتی تھی۔وہ اسے سب بتانا چاہتی تھی۔اپنی جیلسی،اپنی محبت۔۔لیکن اب شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔"
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
اس بات کو آج تقریبا دو ہفتے ہو چکے تھے۔
"ان دو ہفتوں میں عرشی انکے گھر تین دفعہ آئی تھی۔اس نے انکل سے اپنے اس دن کے روئیے کی معافی بھی مانگ لی تھی۔۔جس پر انہوں نے کچھ کہنے کے بجائے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔وہ انہیں اپنی اولاد کی طرح پیاری تھی۔تو وہ اس سے ناراض کیوں ہوتے۔" 
"لیکن وہ جس سے ملنا چاہ رہی تھی وہ تو اسکو دیکھ کر ہی پردہ نشین ہوجاتا تھا۔اسے علم تھا کہ وہ جان بوجھ کر اس سے نہیں مل  رہا تھا ۔۔حتی کہ اسکی موجودگی میں کھانا کھانے کے لئے بھی ڈائننگ ٹیبل پر نہیں آتا تھا۔وہ اسکی حرکتوں   سے دل برداشتہ ضرور تھی لیکن اب کی بار اس نے اپنی لڑائی میں حسین انکل کو شامل نہیں کیا تھا۔"
اسے لگ رہا تھا کہ اسے وہ سب باتیں انکل سے نہیں کہنی چاہیے  تھیں۔لیکن اب  کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
وہ اب  کسی نہ کسی طرح اسے راضی کرنا چاہ رہی تھی لیکن وہ موقع ہی نہیں دے رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
یہ تقریبا دو مہینے بعد کی بات  تھی  کہ جب اسنے ڈنر کرتے ہوئے اپنے پاپا کو بتایا کہ  اسے  آفس والے دو سال کے لئے امریکہ بھیج رہے ہیں۔اسکی بات سن کر انہوں نے کہا
"خیریت ؟ "
تو انکی بات  سن کر اسنے نارمل لہجے میں کہا
"جی جی! آفر اچھی تھی تو میں نے ایکسیپٹ کر لی۔اچھا ہے تھوڑا ماحول چینج ہوگا" ۔اسنے خود کو کھانے میں مگن ظاہر کرتے ہوئے انکی بات کا جواب دیا۔
"ہممم۔۔۔ٹھیک کہتے ہو۔دو سالوں میں عرشی کی پڑھائی بھی پوری ہو جائے گی تو پھر واپس آکر تم لوگوں کی رخصتی کرادونگا۔"انہوں نے کہا ۔
اپنی شادی کی بات پر تبصرہ کرنے کے بجائے اسنے کہا
"اپنا پاسپورٹ دے دیجئے گا ۔" تو انہوں نے ہاں میں سر ہلایا تو وہ دوبارہ کھانا کھانے لگا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
عرشی کو انکے امریکہ جانے کی خبر حسین صاحب سے ملی تھی۔
وہ آج بھی انکے گھر آئی ہوئی تھی  جب انہوں نے اسکی  کسی بات  کے جواب میں اسےاپنا اور علی کا  کل  صبح کی فلائٹ سے  امریکہ جانے کا  بتایا تو وہ ایک لمحے کے لیئے سن ہوئی ۔مگر پھر  خود پر قابو پاکر انکی باتوں کو سننے لگی۔
"صاحب آپ کا فون  ہے"۔تب ہی رحیم نے آکر حسین صاحب سے کہا تو وہ اٹھ کر فون سننے چلے گئے۔
انکے جانے کے بعد وہ اٹھی اور  اٹھ کر کچن  کی طرف بڑھی۔
"رحیم!"کچن میں جاکر اسنے رحیم کو آواز دی  تو وہ چائے بناتا اسکی طرف مڑا 
"جی عرشی بی بی۔"
"وہ  تمہارے علی بھائی گھر پر ہیں ؟" اسنے جھجھکتے ہوئے پوچھا 
"جی جی۔اوپر اپنے کمرے میں ہیں"۔اسنے جواب دیا تو وہ شکریہ کہتی اسکے کمرے کی  طرف بڑھی۔
اسکے کمرے کے سامنے جاکر اسنے خود کو کمپوز کیا اور پھر دروازہ ناک کیا
کم ان کی آواز پر وہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئی۔
"تم؟" علی نے اسے دیکھا تو کہا
"میں وہ آپ سے بات کرنے آئی تھی۔"اسنے کہا
"لیکن مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی"۔کہتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر باہر نکالا اور کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔
"علی دروازہ کھولیں "۔اسنے  روتے ہوئے دروازہ بجایا  لیکن  اندر سے کوئی جواب موصول ناں ہوا 
تبھی رحیم چائے لیکر وہاں آیا۔
عرشی نے اسے دیکھا تو دروازے سے   پیچھے ہٹی ۔
"آپ ٹھیک ہیں عرشی بی بی۔اسنے اسکے پیلے پڑتے چہرے کو دیکھ کر کہا"
"ہا ں میں ٹھیک ہوں۔سنو میں گھر جا رہی ہو"۔وہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔ تو وہ حیران ہوتا ہوا  دروازے کی طرف بڑھا اور ناک کر کے کہا
"بھائی میں رحیم ہوں۔چائے لایا ہو"۔اسکی آواز سن کر اسنے اٹھ کر دروازہ کھولا تو رحیم نے چائے اسے دیتے ہوئے کہا
"عرشی بی بی کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔انکا چہرہ پیلا  ہو رہا تھا۔"اسکی بات سن کر اسنے رحیم کی طرف دیکھا 
"وہ یہاں آپ کے دروازے کے پاس کھڑی رو رہی تھیں۔اسنے مزید بتایا تو اسنے سختی سے ہونٹ بھینچ"ے۔اور پھر  کہا
"جاو !کچھ چاہیے ہوا تو تمہیں بتا دونگا"۔وہ سر ہلاتا مڑا تو علی نے اسے آواز دی
"رحیم!"
"جی ؟ ""وہ پیچھے مڑا
"پاپا کو عرشی کے رونے کا مت بتانا"۔تو وہ اسے حیرت سے دیکھتا سر ہلا گیا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
پورا راستہ اسکی آنکھوں کے سامنے علی کا اسے اپنے کمرے سے نکالے جانے کا منظر گھوم رہا تھا۔وہ جتنا سوچ رہی تھی اتنا ہی  اسے اپنا بی پی لو ہوتا محسوس ہو رہا تھا اور سر الگ چکرا رہا تھا۔ وہ جیسے تیسے کر کے گھر پہنچی ۔
اور لاونج میں کسی کے ناں ہونے پر دل ہی دل میں شکر  ادا کرتی  اپنے کمرے میں چلی گئی اور بیڈ پر بیٹھتے ہی ہوش وحواص سے بیگانہ ہو گئی۔
شاید اسکی برداشت کرنے کی ہمت دم توڑ چکی تھی۔
"عرشی آگئی ہے کیا؟" صفیہ بیگم نے اسکے کمرے کی لائٹ جلتی دیکھی تو   دل میں خود سے کہتی اسکے کمرے کی طرف بڑھیں۔
"لیکن اسے جب  بے ڈھنگے سے انداز میں بیڈ پر  بے ہوش پڑے دیکھا تو فورن ضمیر کے کمرے کی طرف  بھاگیں۔"
"عرشی کو کچھ ہو گیا  ہے۔" انکی بات سن کر وہ بھی ننگے پاوں بھاگتا اسکے کمرے میں آیا اور پھر کہا
"یہ بے ہوش ہے ۔امی میں گاڑی نکالتا ہو"۔وہ جلدی جلدی کہتا  دوبارہ اپنے کمرے کی طرف بھاگا اور چپل ،وسلٹ اور گاڑی کی چابیاں لیکر باہر نکلا اور پھر  گاڑی دروازے سے باہر نکال کر دوبارہ اندر آیا  اور اسے اٹھا کر  کہا
"امی آئیں"۔تو وہ اسکے پیچھے بھاگیں۔
"وہ اسے لیکر ہسپتال پہنچے۔ "تو ڈاکٹر  نے  اسے سرسری ساچیک کرنے کے بعد ایمرجنسی وارڈ میں ٹرانسفر کیا اور کہا
"انہیں نروس بریک ڈاون ہوا ہے۔آپ دعا کریں۔"
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔
اسنےاپنا ٹریولنگ بیگ گاڑی کی ڈگی میں رکھا   اور پیچھے مڑا تو اسے رحیم روتا نظر آیا تو وہ اسکے پاس جا کر کھڑا ہو گیا
"اپنا اور گھر کاخیال رکھنا۔" علی نے کہا تو اسنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا  
"جی۔"
"اور میں جب واپس آو تو  اپنے بدزائقہ کھانے کھلانا" ۔اسکی بات سن کر وہ  نم آنکھوں سے مسکرایا  تو  علی نے بے ساختہ اسے گلے لگایا۔
"علی بھائی جلدی آئیے گا۔تو وہ سر ہلا گیا۔"
"چلو میں چلتا ہوں ۔خداحافظ کہتا وہ گاڑی میں بیٹھ گیا"۔اور گاڑی ائیر پورٹ کی طرف رواں دواں ہو گئی۔
جب تک گاڑی اسکی  نظروں سے اوجھل نہ ہوئی تب تک رحیم وہی کھڑا  گاڑی کو دیکھتا رہا۔
انہوں نے  کوئی پانچویں دفعہ جاوید صاحب کو  کال کی تھی لیکن 
 کسی نے کال نہیں اٹھائی تھی۔پھر انہوں نے عرشی کا نمبر ملایا  تو وہ بھی بند تھا ۔ انہوں نےپریشان ہو کر  اس سے کہا
"میں جاوید اور عرشی سے بات کرنا چاہتا ہوں لیکن   کال نہیں لگ رہی۔"
"سگنل پرابلم ہوگا۔وہی چل کر بات کیجیئے گا۔تو وہ خاموش ہو گئے"
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔   
"دیکھا عرشی نہیں آئی۔"دلہن  بنی اقصی نے فری سے کہا ۔وہ اس وقت  برائیڈل روم میں تھیں۔
"یار میں نے اسے بہت کالیں کی تھیں۔لیکن اسکا نمبر بند تھا۔"فری نے بتایا
"ہم اسے بلا ناں پائیں تب ہی اسنے نمبر بند کیا ہوگا۔ور نہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا"۔اقصی نے کہا
"یار کہیں کچھ مسئلہ ناں ہو۔ورنہ عرشی  ایسے کبھی نہیں کرتی۔اگر اسنے نہیں آنا ہوتا تو  وہ منہ پر بول دیتی"۔اسنے کہا
"بول تو تم ٹھیک رہی ہو"۔اقصی نے کہا
"میرے پاس اسکی امی کا نمبر ہے۔ان سے کال کر کے پوچھو  کہ عرشی کیوں نہیں آئی ؟ "فری نے کہا
"ہاں پوچھو"۔اسنے جواب دیاتو وہ کال ملانے لگی۔
"اسلام و علیکم"۔۔کچھ دیر کے بعد عرشی کی والدہ  امی کی  آواز سنائی دی۔
"وعلیکم سلام"۔فری نے جواب دیا
"جی کون ؟" انہوں نے پوچھا
"آنٹی میں فریحہ ہو۔عرشی کی فرینڈ۔وہ اسے آج اقصی کی شادی میں آنا تھا تو وہ کب تک آئے گی ؟" اسنے ایک ہی سانس میں پوری بات کہی
"بیٹا وہ تو ہاسپٹل میں ہے"۔انہوں نے کہا
"کیا ہوا ہےاسے  ؟" فری نے  حیرت زدہ ہوتے ہوئے  کہا
"نروس بریک ڈاون ہوا ہے۔"انہوں نے بتایا
"اب کیسی طبیعت ہے اسکی ؟" اسنے پوچھا
"ہوش میں نہیں آئی۔اچھا بیٹا میں فون رکھتی ہو۔ڈاکٹر آرہے ہیں۔مجھے ان سے بات کرنی ہیں۔" انہوں نے جلدی جلدی کہہ کر کال بند کر دی۔
"کیا ہوا ؟" اقصی نے پوچھا
"یار وہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہے"۔فری نے بتایا  پھر اسکا پریشان چہرہ دیکھا تو بات سنبھالتے ہوئے کہا
"لیکن اب پہلے سے بہتر ہے"۔تو اقصی نے کہا
"اس لڑکی کو بھی میری شادی کے ٹائم ہی بیمار ہونا تھا اسکی بات سن کر فری خاموش رہی۔"
"وہ اسے کیسے بتاتی کہ وہ صرف بیمار نہیں تھی بلکہ اپنی  جان سے جا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔  

یادگار لمحے (Completed)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora