"یار یہی گھر ہے ؟ " فری نے پیچھے مڑ کر عرشی سے پوچھا
"شاید"۔عرشی نے جواب دیتے ہوئے کندھے اچکا ئے۔
"بیل بجاوں؟" فری نے عرشی سے کہا
"ہاں" ۔عرشی نے کہا تو فری نے بیل پر انگلی رکھ دی۔
کچھ ہی دیر کے بعد دروازہ کھلا اور ایک لڑکا باہر آیا
"جی کون ؟ " اسنے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا
"ہم اقصی کی دوستیں ہیں۔" فری نے بتایا
وہ اندر جانے کے لئے مڑا اور پھر واپس دروازے سے باہر آیا
"آپ لوگوں کا نام ؟ "
"فریحہ اور عرشیہ "۔اس دفعہ عرشی نے جواب دیا تو وہ اندر چلا گیا۔۔
کچھ دیر کے بعد واپس آیا اور ان دونوں سے کہا
"آپ لوگ اندر آجائیں۔تو وہ دونوں جلدی سے گھر میں داخل ہوئیں اور اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگیں۔"
"امی یہ اقصی باجی کی دوستیں ہیں۔" جو لڑکا ان دونوں کو گھر کے اندر لیکر آیا تھا اسنے اپنی والدہ کو بتایا
"آو بیٹا !" انہوں نے ان دونوں کو کہا تو ان دونوں نے پہلے تو ان کو سلام کیا اور پھر شکریہ کہا۔
وہ انہیں ڈرائنگ روم میں لے گئیں۔
"بیٹھو۔"انہوں نے ان دونوں کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ لوگ بیٹھ گئیں۔
"اور سب ٹھیک ہے ؟" اقصی کی والدہ نے پوچھا
"جی آنٹی۔وہ ہم بس اقصی سے ملنے آئے تھے۔کافی دن سے کالج نہیں آئی ناں۔" عرشی نے جواب دیا
"اچھا اچھا میں اسے بلا کر لاتی ہوں" ۔وہ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"شکر ہے یار۔باہر دھوپ میں کھڑے ہو کہ اتنی گرمی لگ رہی تھی" ۔فری نے کہا
"ہاں" عرشی نے جواب دیا
"آگئیں تم دونوں" ۔اقصی کہتی ہوئی دروازے سے اندر داخل ہوئی تو وہ دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔گلے وغیرہ ملنے کے بعد اقصی نے کہا
"اوہو !آج تو عرشی صاحبہ بھی اپنے حجرے سے باہر نکلی ہیں۔"اقصی نے کہا
"تم نے بات ہی ایسی کی تھی کہ ہمیں آنا پڑا" ۔فری نے کہا تو اقصی نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے اسے چپ ہونے کا اشارہ کیا
"آو میں تم لوگوں کو اوپر اپنے کمرے میں لےکے جاتی ہوں۔"اقصی نے کہا تو وہ دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"ہاں اب بولو!انکل نے کالج جانے سے کیوں منع کیا ہے ؟ " فری نے کہا
"دھیما بولو لڑکی ۔مرواوگی"۔اقصی نے اسکے سر پر ہاتھ مارااور پھر اٹھ کر کمرے کا دروازہ بند کر کے واپس انکےپاس آبیٹھی۔
"امی ابو ناں کرنے گئے تھے اسکے گھر۔تو اسنے وہاں ابو سے بہت بد تمیزی کی" اور کہا وہ ایک لمحے کے لئے رکی تو ان دونوں نے اسکی طرف دیکھا
"اور کہا کہ اپنی بیٹی کو روکیں۔وہ پوری پوری رات مجھ سے باتیں کرتی ہے۔" اقصی نے بتایا
"وہ ہے ہی زلیل انسان" ۔عرشی نے کہا تو فری نے بھی سر ہلا یا۔
"پھر ابو نے گھر آکر بہت شور مچایا اور مجھے کالج جانے سے منع کر دیا۔" اقصی نے بات پوری کی۔
"لیکن یار یہی تین مہینے رہتے ہیں۔پھر سال پورا ہوجانا ہے" ۔فری نے کہا
"تم کسی بھی طرح تین ماہ کے لئے انکو منا نہیں سکتی ؟ " عرشی نے کہا
"نہیں یار" ۔اقصی نے بیزاریت سے کہا
"اگر ہم کالج پرنسپل کو اس بات کے لئے منا لیں کہ وہ ٹرمینل میں تمہیں بیٹھنے دیں۔تو پھر بھی کیا انکل تمہیں پیپرز نہیں دینے دیں گے ؟ " عرشی نے کہا
"پتہ نہیں" ۔اقصی نے کہا
"ہم پہلے پرنسپل سے بات کرتے ہیں۔اگر وہ مان گئیں تو پھر تمھارے ابو سے انکی ہی بات کرا دیں گے" ۔عرشی نے سوچتے ہوئے کہا
"چھوڑو یار۔۔میرا بھی اب دل نہیں کرتا" ۔اقصی نے کہا
"پاگل مت بنو۔تم اس بندے کی وجہ سے کیا اپنے دو سال کی محنت برباد کرو گی ؟" فری نے کہا
"اس بندے کی وجہ سے نہیں یار۔" اقصی نے کہا تو وہ دونوں حیرت زدہ ہوئیں۔
"پھر ؟" فری نے ہی پوچھا عرشی تو یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔
"مجھے غصہ امی ابو پر ہے ۔ان لوگوں نے پہلے انویسٹیگیشن ٹھیک کیوں نہیں کرائی ؟" اقصی نے کہا
"ہاں غلطی تو ہے ۔لیکن اب بھی تو دیر نہیں ہوئی"۔فری نے کہا جبکہ عرشی خاموش بیٹھی اقصی کو دیکھ رہی تھی۔
"تم اس سے اب بھی بات کرتی ہو ناں اقصی ؟ "عرشی نے پوچھا
تو وہ جواب دینے کے بجائے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
"میں کچھ پوچھ رہی ہو ؟ " عرشی نے کہا
"ہاں۔" اس دفعہ اسنے سر جھکائے جواب دیا
" ایک بندے نے تمھارے کردار کو داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے ۔اور تم اب بھی اس سے بات کرتی ہو۔" عرشی نے غصے سے کہا
"وہ خود میسج کرتا ہے" ۔اقصی نے دلیل دی
"تم اسکو چھوڑو اپنا بتاو کہ تم نے اسے بلاک کیوں نہیں کیا؟" عرشی نے کہا
"میرا دل نہیں مانتا۔" اقصی نے دھیمے لہجے میں کہا تو عرشی نے کہا
"مناو اپنے دل کو۔وہ بندہ تمھارے قابل نہیں ہے۔"
"ہاں یار !یہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔مٹی ڈالو اس پر" ۔فری نے کہا
"مو آن کرو۔جو تمھاری قسمت میں ہوگا وہ لازمی تمہیں ملے گا۔یوں چھپکے راتوں کو باتیں وغیرہ کرنے سے وہ تمھاری قسمت میں تو نہیں آئے گا لیکن ہاں تمہیں ضرور دنیا کے قدموں میں لابٹھائے گا۔" عرشی نے کہا
تو وہ خاموش بیٹھی آنسو بہاتی رہی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
رات فری کی کال آئی تو اسنے عرشی سے کہا
"یار تم نے اسے بہت سنا دی تھی۔"
"مجھے بہت غصہ آرہا تھا یار کہ وہ اتنی بیوقوف کیسے ہو سکتی ہے"۔عرشی نے جواب دیا
"بس پیار میں انسان پاگل ہو ہی جاتا ہے۔اب تم علی بھائی کو ہی دیکھ لو۔تمھارے پیار میں پاگل ہو کہ نکاح پڑھوادیا۔پتہ تو انہیں شادی کے بعد چلے گا کہ کس آفت سے شادی کی ہے" ۔فری نے کہا
تو وہ اسکی بات سن کر خاموش ہو گئی۔
اور دل میں کہا
"اونہہ پیار اور مجھ سے۔انکو اپنی اسرا سے فرصت ملے تو مجھ سے پیار کریں۔"
"ہیلو عرشی !" فری نے اسے آواز دی تو وہ خیالوں سے باہر آئی۔
"ہاں ہاں بولو" ۔اسنے کہا
"کدھر تھی ؟ میں سمجھی کال کٹ گئی۔" فری نے کہا
"یہی تھی۔مجھے کہا ں جانا ہے ؟ " عرشی نے کہا
"اچھا تو پھر کچھ سوچا ہے تم نے اقصی کےمسئلے کا ؟میں تو جب سے واپس آئی ہو ں یہی سوچ رہی ہوں لیکن کچھ آئیڈیا دماغ میں نہیں آرہا ۔"
"نہیں کچھ خاص نہیں یار۔بس یہ کہ کل پرنسپل سے جا کر بات کریں گے۔بلکہ اس سے پہلے مس نسرین سے بات کریں گے کہ وہ کیا ایڈوائز کرتی ہیں۔"عرشی نے کہا
"چل ٹھیک ہے پھر۔کالج میں ملتے ہیں" ۔فری نے کہا
"خداحافظ۔" عرشی نے کہا تو اسنے بھی خداحافظ کہہ کر کال بند کر دی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
مہمانوں کے جانے کے بعد وہ غصے سے انکے کمرے میں گئی۔
"بابا میں آجاو!" اسنے دروازہ ناک کر کے پوچھا
"ہاں اسرا آجاو۔" انہوں نے جواب دیا تو وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔
"انہوں نے اسے دیکھا تو کہا آو آو تمھارا ہی انتظار کر رہا تھا۔"
"بابا یہ کون لوگ تھے ؟ جنکے سامنے آپ نے مجھے بلایا تھا؟"
اسنے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
وہ دل میں دعائیں کر رہی تھی کہ جو شک اسے ہے وہ بات نہ ہو ۔
"تمہیں دیکھنے کے لئے آئے تھے"۔انہوں نے کہا تو وہ کچھ لمحوں کے لئے شاک ہوئی۔
"بابا آپ۔۔۔آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ" ۔اسنے کہا
"کیا کیا ہے میں نے ؟ ان لوگوں نے تمھارے رشتے کے لئے آنا چاہا تھا اور میں نے انہیں آنے کی اجازت دے دی۔"
انکی بات سن کر وہ نفی میں سر ہلاتی کھڑی ہوئی اور بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔
وہ کچھ دن تو سوچتی رہی کہ اگر انہوں نے دوبارہ رشتے کی بات کی تو میں کیا کرونگی۔
لیکن انہوں نے اس دن کے بعداس سلسلے میں اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔اوراس بات کو آج تقریبا سات دن ہو چکے تھے ۔اسلئے وہ مطمئن ہو گئی کہ اب کچھ نہیں ہوگا۔
لیکن اسکی امید پر پانی تب پھرا جب رات کے کھانے کے بعد انہوں نے فارحہ اور اسے بتایا کہ وہ ان لوگوں کو ہاں کر چکے ہیں۔اور پرسوں وہ لوگ رسم کے لئے آئیں گے۔
جسے سن کر وہ سن سی بیٹھی رہ گئی۔
انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
"فارحہ !دیکھو بابا کیا کہہ گئے ہیں"۔اسنے روتے ہوئے کہا اور ٹیبل پر پڑا گلاس اٹھا کر زمین پر دے مارا۔
جب غصہ پھر بھی ناں تھما تو اسنے پلیٹ اٹھا کر زمین پر ماری ۔انہوں نے اپنے کمرے کی طرف جاتے برتن ٹوٹنے کی آواز سنی تو واپس ڈائننگ ٹیبل کی طرف آئے تو دیکھا
زمین پر کانچ ہی کانچ بکھرے پڑے تھے۔اور وہ چئیر پر بیٹھی رہو رہی تھی۔
"کس نے کیا ہے یہ ؟" انہوں نے غصے سے پوچھا
"میں پوچھ رہا ہوں کس نے کیا ہے ؟ " انہوں نے پھر کہا تو اس نے سر اٹھا کر کہا
"میں نے کیا ہے۔" اسکی بات سن کر وہ کانچ پھلانگتے اسکے پاس گئے اور اسے زور سے تھپڑ مارا
"تھپڑ کھا کر وہ ٹیبل پر گری ۔انہوں نے اسے پکڑا اور پھر دوسرے گال پر تھپڑ مارا"
"بابا ۔فارحہ نے روتے ہوئے انہیں پکارا جبکہ وہ تھپڑ کھانے کے بعد اتنے شاک میں تھی کہ اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔
"اپنی حد میں رہا کرو۔۔انہوں نے اسے پھر تھپڑ مار کر کہا تو وہ گال پر ہاتھ رکھے انہیں دیکھے گئی۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ انہوں نے اسے مارا ہے۔"
"فارحہ اسے کہو کہ جو میں کہہ رہا ہو وہ کرتی جائے۔ورنہ میں اپنے ہاتھوں سے اسکا گلا گھونٹ دونگا" ۔وہ کہہ کر لمبے لمبے ڈھگ بھرتے وہاں سے چلے گئے۔
"اسرا ! " وہ اسکی طرف بڑھی۔
اسکی آواز پر اسنے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر ننگے قدموں بھاگتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
"بہت سے کانچ اسکے پاوں کو زخمی کر گئے تھے۔لیکن وہ سب چیزوں سے بے نیاز تھی۔اسے انہوں نے آج تک ڈانٹا بھی نہیں تھا اور آج تھپڑ مار دئیے تھے ۔اسے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ اسکے بابا جو اس پر جان دیتے تھے انہوان نے اسے مارا ہے۔
وہ جہاں جہاں سے گزری تھی وہاں وہاں خون کے نشانات تھے۔
فارحہ وہی بیٹھ کر رونے لگ گئی تھی۔"
"اسے اسرا کا دکھ رلا رہا تھا۔اسے علم تھا کہ وہ علی سے محبت نہیں کرتی تھی بلکہ اسے بس علی کو پانے کی ضد تھی۔"
اور جب اسکی ضد پوری ناں ہوئی تو وہ خود کو ازیت دینے لگی تھی۔اور بابا نے اسکا حل اسکی شادی سوچا تھا۔اسے اسرا پر ترس آرہا تھا۔"
"بچپن سے آج تک انہوں نے صرف اسے پیسہ دیا تھا۔آیاوں کے ہاتھ وہ بڑی ہوئی تھی۔جبکہ وہ خود جب پندرہ سال کی تھی تب اپنے باپ کے پاس آئی تھی ۔کیونکہ اسکی ماں دوسری شادی کر رہی تھی۔"
"جب وہ مما کے پاس تھی تو اسے لگتا تھا کہ اسرا خوش قسمت تھی جو بابا کے پاس پلی تھی ۔اور وہ بدقسمت تھی کہ وہ مما کے پاس تھی ۔کیونکہ اسکی ماں نے اسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔ہر وقت اسکے باپ کے طعنے دینا وغیرہ۔"
"لیکن یہاں آکر اسے علم ہوا تھا کہ وہ دونوں ہی بدقسمت تھیں۔فرق صرف اتنا تھا کہ اسرا نے بدقسمتی اپنے نصیب میں خود لکھی تھی جبکہ وہ پیدائشی بدقسمت تھی۔"
"اسے ناں ماں کی محبت ملی تھی اور ناں باپ کی۔جبکہ اسرا کو کم از کم باپ کی محبت تو ملی تھی۔"
"اگر اسرا چاہتی تو وہ بابا سے بہت کچھ سیکھ سکتی تھی لیکن اسنے سیکھنے کے بجائے ضد کو اپنا ہتھیار بنا لیا اور لوگوں پر حکمرانی کرنے لگی تھی۔اور آج اسی ضد اور غرور نے اسے مار ڈالا تھا۔
وہ کافی دیر وہاں بیٹھی اپنی اور اسرا کی بدقسمتی پر روتی رہی اور پھر اٹھ کھڑی ہوئ۔۔"
کچن میں سے جاکر میڈیکل باکس اٹھا یا اور اسکے کمرے کی طرف بڑھی۔اسے اسکے پاوں کی پٹی کرنی تھی ۔اور بابا کے دئیے زخم پر بھی تو مرہم رکھنا تھا۔
۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
اسنے جیسے ہی ناب گھمایا تو دروازہ کھلتا چلا گیا ۔وہ اندر گئی تو اسے کارپٹ پر اسرا بیٹھی نظر آئی۔
کھٹکے کی آاواز پر اسنے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر سر جھکا گئی تو وہ آہستہ آہستہ چلتی اسکے پاس آکر بیٹھ گئی۔
"اسرا!" اسنے اسکے گھٹنے پر ہاتھ رکھا تو وہ اسکی طرف دیکھنے لگی۔
"تمھارا پاوں زخمی ہے۔لاو زخم صاف کر دو" ۔فارحہ نےکیا تو اسنے خلاف معمول اپنا پاوں اسکے آگے کر دیا۔
زخم صاف کرکے پٹی کرنے کے بعد فارحہ نے اسے دیکھا اور کہا
"تم ٹھیک ہوں ناں ؟"
"ہاں میں بلکل ٹھیک ہوں۔" اس نے جواب دیا تو فارحہ نے ایک لمحہ کے لئے اسے دیکھا اور پھر کہا
"تم بابا کے ری ایکشن سے دل برداشتہ نہیں ہو وہ غصے میں تھے۔"اسنے کہا تو وہ اسکی بات پر اسے دیکھی گئی پھر کہنے لگی۔
"مجھے علم ہے بابا مجھے اب بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔" اسرا نے کہا
"ایسی بات نہیں ہے اسرا! " فارحہ نے کہا
"ایسی ہی بات ہے۔ورنہ بابا مجھ سے پوچھے بغیر رشتہ کیوں طے کرتے ؟ " اسرا نے کہا
"تم غلط سمجھ رہی ہو ۔بابا بس یہ چاہتے ہیں کہ تم نارمل لڑکیوں کی طرح اپنی زندگی جیو۔یوں علی کے پیچھے بھاگنا کوئی عقلمندی نہیں ہے اور اب جبکہ وہ شادی بھی کر چکا ہے۔
بابا نے یہ سب سوچ کر ہی تمھارا رشتہ طے کیا ہے۔تاکہ تم اس سب سے باہر نکلو۔نئی زندگی شروع کرو ۔خوش رہو" ۔فارحہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
"تم لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آتا کہ مجھے خوشی تب ہوگی جب وہ مجھ سے محبت کرے گا۔میری انا مجھے چین نہیں لینے دیتی فارحہ ۔" وہ یہ کہہ کراسکے ہاتھوں پر سر رکھ کر رونے لگی تو ساتھ میں وہ بھی رونے لگ گئی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
"یار اقصی کے بغیر مزہ نہیں آتا۔" فری نے کہا
"ہاں یار! " عرشی نے جواب دیا
"آج مس بھی نہیں آئیں۔ورنہ ان سے اقصی کا معاملہ ڈسکس کرتے ۔" فری نے بات برائے بات کی تو عرشی نے اسکی طرف دیکھااور کہا
"پھر اب کیا کریں ؟ پرنسپل سے بات کریں ؟ "
"ہاں ناں" ۔اسنے جواب دیا تو وہ دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
وہ دونوں اس وقت پرنسپل کے آفس سے تھوڑی دور کھڑی اپنا اعتماد بحال کر رہی تھیں۔
"یار بولیں گے کیا ؟" فری نے اسکا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا
"یہی کہ اقصی کا کچھ فیملی ایشو ہے ۔اسلئے وہ ریگولر کلاسز نہیں لے سکتی۔اسلئے اسے گھر بیٹھ کر پیپرز کی تیاری کرنے کی اجازت دی جائے اور ٹرمینل میں بیٹھنے دیا جائے" ۔عرشی نے کہا تو فری نے سر ہلایا
"پھنس تو نہیں جائیں گے ؟" فری نے گھبراتے ہوئے کہا
"نہیں یار"۔عرشی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے کہا
وہ اس وقت کالج راونڈ پر تھیں ان دونوں کو وہاں کھڑے باتیں کرتے دیکھا تو انکے پاس جاکر کہا
"آپ دونوں یہاں کیوں کھڑی ہیں؟" پرنسپل کی آواز پر ان دونوں نے چونک کر انہیں دیکھا
"میم وہ ہمیں آپ سے کچھ بات ڈسکس کرنی تھی۔" عرشی نے کہا
"اچھا آئیں آپ" ۔وہ کہتے ہوئے اپنے آفس کی طرف بڑھیں۔
چئیر پر بیٹھنے کے بعد انہوں نے ان دونوں کو اپنے سامنے رکھی چئیرز پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ لوگ خاموشی سے بیٹھ گئیں۔
"ہاں تو اب بولیں۔کیا بتانا تھا ؟ انہوں نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تو فری عرشی کو دیکھنے لگی"۔
"میم !وہ ہمیں آپ سے اقصی کے بارے میں بات کرنی تھی۔"عرشی نے کہا
"کیا بات کرنی ہے ؟" انہوں نے اسے تکتے ہوئے کہا
"وہ میم اقصی کا کچھ فیملی ایشو ہے تو اسلئے اب وہ ریگولر کلاسز نہیں لے سکتی۔اسکے بابا نے اسے کالج آنے سے بھی منع کر دیا ہے۔تو اگر آپ اجازت دے دیں تو وہ گھر بیٹھ کر ٹرمینل کی تیاری کر لے ؟" عرشی نے کہا
اسکی بات سن کر وہ ایک دم آگے ہو کے بیٹھیں تو فری نے عرشی کی طرف دیکھا اور پھر پرنسپل سے کہا
"میم !یہ اسکی دو سال کی محنت ہے۔اب صرف تین ماہ رہتے ہیں بلکہ دو ماہ۔"
"ہممم! ایسا ہے کہ آپ اسکو بولیں کہ ایک درخواست لکھ کر مجھے دے جس پر اسکی امی کا بھی سائن ہو تو میں اپروو کر دونگیں۔"انہوں نے سوچتے ہوئے کہا
"تھینک یو میم !" وہ دونوں خوش ہوتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"اور عرشیہ اس دفعہ بھی آپ نے ٹاپ کرنا ہے "۔انہوں نے مسکراتے ہوئے عرشی کو کہا تو وہ بھی مسکرا دی۔اور پھر وہ دونوں انکے آفس سے باہر نکل گئیں۔
۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"یاہو! شکر ہے اللہ کا۔یہ کام بھی نبٹ گیا۔" فری نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس سے کہا لیکن عرشی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو اسنے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا جو کچھ سوچتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔
"عرشی ؟ کن خیالوں میں گم ہو ؟ " فری نے کہا
"یار اسکی امی مانیں گیں ؟ اور پھر کیا وہ درخواست میں یہ لکھے گی کہ اسکے بابا نے کالج آنے سے منع کر دیا ہے ؟" عرشی نے کہا
"بات کرتے ہیں اس سے۔کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا "۔فری نے کہا تو وہ اسے دیکھے گئی۔
"آج پھر اسکے گھر چلیں ؟" فری نے کہا
"نہیں ! کال پر ہی بات کر لیتے ہیں"۔عرشی نے جواب دیا تب ہی مس شمیم نے ان دونوں کو اوپر آتے دیکھا تو کہا
"کدھر گھومتی پھر رہی ہو تم دونوں؟ "
مس وہ میم سے بات کر رہے تھے۔فری نے جواب دیا تو انہوں نے کہا
"جاو اندر ! سب پتہ ہے مجھے لڑکوں کو دیکھنے گراونڈ فلور پر جاتی ہو تم لوگ۔"
انکی بات سنکر وہ لوگ خاموشی سے آگے بڑھ گئیں۔
"توبہ ہے یار!کیا عورت ہے یہ۔" فری نے کہا
"یہ خود جیسی ہیں ویسا ہی سب کو سمجھتی ہیں" ۔۔عرشی نے کہا
"چھوڑو دفع کرو۔" فری نے کہا اور دونوں کلاس کی طرف بڑھ گئیں۔
وہ دونوں کلاس میں گئیں تو زکیہ نے ان دونوں کو دیکھتے ہی کہا
"شکر ہے تم لوگ آگئیں ؟"
"کیوں کیا ہوا ہے ؟ " فری نے پوچھا
"مس شازیہ نے ہماری کلاس کی سب لڑکیوں کو کلاس میں جمع ہونے کا کہا ہے۔" اسنے جواب دیا
"کیوں ؟" فری نے حیرانگی سے پوچھا تو اسنے کندھے اچکادئیے اور خود جاکر اپنے گروپ کے پاس بیٹھ گئی۔
اسی وقت مس انکی کلاس میں داخل ہوئیں۔ اور جاکر ڈائس کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔
ابتدائی باتیں کرنے کے بعد انہوں نے کہا
"آپ سب کو یہاں جمع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ سے لوگوں سے ایک بات کی تصدیق کی جائے۔"
انکی بات سن کر کلاس میں سر گوشیاں شروع ہو گئیں۔تو انہوں نے ہاتھ سے ڈائس کو بجایا تو کلاس میں خاموشی چھا گئی۔
"ثمن کو آپ لوگوں نے کسی لڑکے کے ساتھ بائیک پر جاتے دیکھا ہے کبھی ؟ " انہوں نے پوچھا
"نو مس! "ثنا نے کھڑے ہو کر کہا تو باقی سب نے بھی اسکی بات کی تصدیق کی۔
"آپ کی مس شمیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسے کسی لڑکے کے ساتھ جاتے دیکھا ہے" ۔انہوں نے بتایا
"مس انہوں نے کسی اور کو دیکھا ہوگا۔ثمن ایسی نہیں ہے۔" ابکی بارحمنہ نے بھی کہا
"آپ لوگ یہی بات انکے سامنے کہہ سکتی ہیں ؟ " انہوں نے پوچھا
"یس مس!کیونکہ مس شمیم کی ان باتوں کی وجہ سے ہماری کلاس کی لڑکیاں بدنام ہو رہی ہیں" ۔اب کی بار کومل نے کہا
"جائیے !ایمن آپ مس کو بلا کر لائیں۔"تو وہ انکو بلانے چلی گئی۔
کچھ دیر کے بعد وہ کلاس میں آئیں تو مس شازیہ نے کہا
"میں نے ان بچیوں سے ثمن کے بارے میں پوچھا ہے۔اور ان لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔"
"یہ سب ملی ہوئی ہیں۔" انہوں نے عرشی کو دیکھتے ہوئے کہا
"آپ یہ بات کیسے کہہ سکتی ہیں مس ؟ آپ کو علم ہے آپ ہمارے کرداروں کو داغ دار کر رہی ہیں " ۔کومل جو کہ شادی شدہ تھی اسنے مس شمیم کو کہا
"میں کیوں تم لوگوں کے کردار کو داغ دار کرونگیں ؟ میں نے جو کہا ہے سچ کہا ہے۔"
"یہ عرشی بیٹھی ہے۔پوچھو اس سے۔یہ اس دن کس لڑکے کے ساتھ اسکی گاڑی میں بیٹھی گھوم رہی تھی۔
اسکی ماں نے تواس دن بڑے یقین سے کہا تھا کہ ہمیں علم ہے کہ ہماری بچیاں کس سے بات کرتی ہیں۔"
انکی بات سن کر وہ کھڑی ہو گئی۔
"میم وہ میرے شوہر ہیں۔میرا انکے ساتھ نکاح ہوا ہے۔آپ میری نکاح کی پکز بھی دیکھ سکتی ہیں۔" اسنے کہا جسے سن کر مس شمیم کو سانپ سونگھ گیا۔اور وہ کلاس سے باہر نکل گئیں۔
انکے جاتے ہی مس شازیہ بھی چلی گئیں۔
"کتنی گندی سوچ ہے مس شمیم کی۔" حمنہ نے کہا
"ہم انکی کمپلین کرتے ہیں۔" ایمن نے کہا
"ہاں" ۔کومل نے کہا
سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے ۔جبکہ وہ سن ہوتے دماغ کے ساتھ بیٹھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"امی مان جائیں ناں۔" اقصی نے اپنی امی کے منت کرتے ہوئے کہا
"تم سمجھ کیوں نہیں رہی اقصی ۔تمھارے ابو بہت غصہ کریں گے۔" انہوں نے روٹی بناتے ہو ئے کہا
"میں کالج نہیں جاونگی۔بس گھر بیٹھ کہ تیاری کرونگی۔" اقصی نے ملتجی انداز میں کہا
"نہیں۔میں تمھارے ابو سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرونگیں" ۔انہوں نے صاف ناں کی۔
"کیا بات ہے ؟ " اسکے والد جو پانی لینے کچن میں آئے تھے انکی بات سن کر کہا
"یہ کہہ رہی ہے کہ اسے گھر بیٹھ کر پیپر ز کی تیاری کرنے کی اجازت دی جائے۔" اسکی والدہ نے بتایا
"ابو پلیز۔صرف تین ماہ کی بات ہے" ۔اس نے روہانسے انداز میں کہا
"ٹھیک ہے" ۔انہوں نے جواب دیا اور کہہ کر کچن سے باہر چلے گئے۔
وہ بھی خوشی خوشی یہ بات ان دونوں کو بتانے اپنے کمرے کی طرف بڑ ھ گئی۔
۔۔،۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
انکے گھر سے ابھی کچھ دیر پہلے وہ لوگ رسم کرکے گئے تھے ۔اور اب وہ دونوں کمرے میں بیٹھی تھیں۔اچانک اسرا نے فارحہ سے کہا
"میرا ایک کام کرو گی؟"
"ہاں بولو!" اسنے جواب دیا
"تم مجھے احمد کا نمبر لا دو" ۔اسنے کہا تو فارحہ اسے غور غور سے دیکھے لگی۔اسے لگا اسکا دماغ خراب ہو گیا ہے۔"
"تم کیا کرو گی نمبر ؟" اسنے پوچھا
"مجھے کام ہے۔"اسنے جواب دیا
"کیا کام ہے ؟ دیکھو اسرا تم اپنے لئے مزید مصیبت مت پیدا کرو"۔فارحہ نے کہا
"میں کچھ نہیں کر رہی ہو۔تم مجھے انکا نمبر لادو"۔اسنے کہا تو فارحہ نے اپنا موبائل اٹھا کر اسے دے دیا۔
اور وہ نمبر نوٹ کرنے لگی ۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"بھائئ اٹھیں ناں!کہی باہر چلتے ہیں"۔عرشی نے ضمیر کے برابر میں صوفے پر بیٹھتے ہوئےکہا
"کہاں جانا ہے "؟اسنے ریمورٹ سے چینل تبدیل کرتے ہوئے اسے دیکھا
"کہی بھی باہر۔پزا کھلا دیں۔" اسنے کہا
"اچھا آو"۔وہ کہتا اٹھا تو وہ بھی کھڑی ہو گئی۔
"امی ہم جا رہے ہیں۔"عرشی نے آواز دی اور دونوں لاونج سے نکل گئے۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"چلو آو باہر۔"ضمیر نے گاڑی پزا ہٹ کے آگے روکتے ہوئے کہا
تو وہ ہنستی ہوئی گاڑی سے باہر نکلی ۔
"تھینک یو بھائی"۔اسنے کہتے ہوئے جیسے ہی سامنے دیکھا تو اسے علی اسرا کے ساتھ پزا ہٹ سے باہرآتا دکھائی دیا۔
تب تک وہ بھی اسے دیکھ چکا تھا۔اسکے دیکھنے پر علی نے بے ساختہ اپنے ساتھ کھڑی اسرا کو دیکھا اور پھراپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے دل میں کہا
"گیا بیٹا تو تو۔" اور پھر انکی طرف بڑھا
"کیسے ہو ضمیر ؟" انکے پاس پہنچ کر اسنے سلام کیا
"میں ٹھیک ۔تم کیسے ہو ؟" ضمیر نے ہنستے ہوئے کہا
"میں بھی ٹھیک۔یہاں کیسے آنا ہوا ؟" اسنے کن اکھیوں سے عرشی کو دیکھتے ہوئے پوچھا
"بس ایسے ہی۔" اس نے باہر چلنے کا کہا تو میں یہاں لے آیا۔ضمیر نے خوش اخلاقی سے بتایا تو اسنے عرشی کی طر ف دیکھا
جو اسکے دیکھنے پر ادھر ادھر دیکھنے لگی تھی۔
تب ہی علی کے ساتھ کھڑی اسرا نے اس کو مخاطب کیا
"ہائے عرشی ۔اسکے کہنے پر عرشی نے اسکی طرف دیکھا اور پھر ہا ئے کہہ کر پھر سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔"
علی خاموش کھڑا اسکی آنکھوں میں آئی نمی کو دیکھ رہا تھا جسے وہ آنکھیں جھپک جھپک کر روک رہی تھی۔۔
جب اس سے اسکا رونا برداشت ناں ہوا تو اسنے ضمیر سے کہا
"یہ اسرا ہے۔میری فرینڈ۔اسے کچھ باتیں مجھ سے ڈسکس کرنی تھیں تو ہم یہاں آئے تھے۔"
"وہ بظاہر ضمیر کو بتا رہا تھا لیکن اسکے بتانے کا مقصد عرشی کی غلط فہمی کو دور کرنا تھا۔جو اب خاموشی سے اپنی سینڈل کو گھور رہی تھی۔"
"اچھا ۔چلو پھر ملتے ہیں۔ضمیر نے کہتے ہوئے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا جسے اسنے گرم جوشی سے تھام لیا۔"
وہ اس سے ہاتھ ملا کر اپنی بہن کو لیکر آگے بڑھ گیا ۔جبکہ وہ وہی کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
جبکہ ضمیر کے ساتھ چلتی عرشی بمشکل خود کو رونے سے روک رہی تھی۔
وہ یہاں آتے ہوئے جتنی خوش تھی اب اتنی ہی بیزار تھی۔
تب ہی اسنے گردن گھماکر پیچھے دیکھا تو اسے علی وہی کھڑا دکھائی دیا۔وہ بھی انکی طرف ہی دیکھ رہا تھا ۔
"مجھے لگتا تھا کہ صرف تم عرشی سے پیار کرتے ہو۔لیکن اب علم ہوا ہے کہ وہ بھی تم سے بے حد پیار کرتی ہے۔"اسرا کی بات پر اسنے چونکتے ہوئے اسے دیکھا اور ہنس دیا
"ہاں!" اسنے مسکراتے ہوئے کہا
"اور تم دیکھنا تم بھی احمد سے اتنا ہی پیار کرو گی جتنا یہ مجھ سے کرتی ہے"۔علی نے کہا تو وہ مسکرا دی۔
"چلو بائے میں چلتی ہوں"۔اسنے کہا تو وہ ہنس کراسے بائے کہتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
جبکہ وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑ ھ گئی۔
۔۔۔۔،*۔۔۔۔۔۔
دن پلک جھپکتے میں گزرتے چلے گئے تھے۔۔اور اب انکے ٹرمینل میں صرف پندرہ دن رہتے تھے۔
انکی کلاس کی سب ہی لڑکیاں زور و شور سے امتحانات کی تیاریوں میں مصروف ہو گئی تھیں اسلئے وہ تینوں بھی اب پڑھنے پر زیادہ توجہ دینے لگی تھیں۔اسلئے ہر دو دن بعد وہ دونوں شام میں اقصی کے گھر گروپ اسٹڈی کے لئے چلی جاتی تھیں۔
آج بھی وہ لوگ گروپ اسٹڈی کر رہی تھیں۔جب فری نے عرشی کے دھیان کو کہی اور دیکھا تو کہا
"کیا بات ہے عرشی ؟"
اسکی آواز پر وہ چونکی اور پھر مسکرائی
"کچھ نہیں "۔اسنے کہا
"دھیان کہا ہے تمھارا "؟ اسنےپھر کہا
"کہی نہیں "۔وہ مسکرائی
YOU ARE READING
یادگار لمحے (Completed)
Humorیہ کہانی ہے دوستوں کی ،یہ کہانی ہے محبت کی،یہ کہانی ہے احساس کے رشتے کی جو بغیر خون کے رشتے کہ ایک دوسرے سے محبت کی ڈور میں بندھے ہیں۔یہ کہانی ہے ان دوستوں کی جنھوں نے اچھے برے وقت میں ایک دوسرے کو تھامے رکھا۔